بعض بڑے بڑے دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ نہ خود کو برباد کرنے والے گناہ کو سمجھتے ہیں اور نہ اس کے یقینی تنائج کو جانتے ہیں۔ ان کی عادات بڑی دیر سے پختہ ہو چکی ہیں اور انہوں نے ان کی عقل پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وہ اپنے بدن کو کمزور کرنے والے اور دماغی قوأ کو تباہ و برباد کرنے والے ذلیل گناہ کا احساس نہیں کرتے۔ پختہ عادات کے مقابلہ میں اخلاقی اصول بہت کمزور ہوتا ہے۔ وہ دل جو تباہ کن گناہ کے خلاف صف آراء نہیں وہ خد اکے سنجیدہ پیغامات سے متاثر نہیں ہو سکتا۔ دماغی اعصاب شہوت پرستی کی تسکین کے لیے غیر طلبی خواہش کو بھڑکانے کے سبب سے کمزور ہو چکے ہوتے ہیں۔ CChU 154.2
نسلِ انسانی کو کسی اور بدی کی بہ نسبت اخلاقی آلودگی نے زیادہ ذلیل و خوار کیا ہے۔ یہ ہیجان خیز زیادتی سے بروئے کا رلائی جاتی ہے اور قریباً ہر قسم کی بیماری کا سبب ہوتی ہے۔ CChU 154.3
والدین کو عموماً اس بات کا گمان نہیں ہوتا ک ان کے بچّے اس بدی کی بابت جانتے ہیں۔ اکثر حالات میں والدین ہی دراصل قصور وار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی حاکمیت کے حقوق کو پامال کیا ہے اور زیادہ شہوت پرستی سے اپنی قوتِ حیوانی کو بڑھایا ہے۔ جب شہوت پرستی کے قوأ طاقتور ہو گئے تو قدرتا اخلاقی اور عقلی قوأ کمزور ہو جاتے ہیں۔ روحانی قوأ پر حیوانی و شہوانی قوأ غالبؔ آ جاتے ہیں۔ بچّے اسی افزوں حیوانی شہوت اور لہو و لعب کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور وہ اپنے والدین کا کردار ورثہ میں لیتے ہیں۔ ایسے والدین کے ہاں بچّے بھی پوشیدہ بدی کی بُری عادات کےساتھ پیدا ہوتے ہیں۔ والدین کے اِس گناہ کا بدلہ والدین سے لیا جائے گا کیونکہ والدین نے ہی ان کو اپنی حیوانی شہوت کی مہر عطا کی ہے۔ CChU 155.1
جو اشخاص اس رُوح اور بدن کو تباہ کن بدی میں پختہ ہو گئے ہیں۔ وہ جب تک اپنی پوشیدہ بدی کا بوجھ اپنے ساتھیوں کو منتقل نہیں کر دیتے آرام سے نہیں بیٹھتے۔ جوش و اشتیاق افزوں ہوتا جاتا ہے اور بدی کا علم نوجوان سے نوجوان تک اور بچّے سے بچّے تک پہنچایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس ذلیل و خوار سے شاذ و نادر ہی کوئی ناواقف رہ جاتا ہے (۲ ٹی ۳۹۱، ۳۹۲) CChU 155.2
پوشیدہ عادات کو عملی جامہ پہنانے سے یقیناً بدن کے اہم قوأ تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور تمام غیر ضروری اہم عمل اسی ذلت کی نسبت سے وقوع میں آٗیں گے۔ نوجوان کا اہم سرمایہ یعنی دل و دماغ اوائل عمری سے ہی اتنی شدت سے متاثر ہو جاتا ہے کہ اس میں خسارہ ، کمی اور ہیجان و کھچاؤ ہوتا ہے جس سے بند ہر طرح کی بیماری کے لیے دفاع کے بغیر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ CChU 155.3
اگر یہ عمل پندرہ برس سے اوپر کی عمر میں جاری رہے تو فطرت اپنے نقصان کے خلاف جو اسے مسلسل ہو رہا ہوتا ہے، احتجاج کرتی ہے اور ان کو قوانین کی خلاف ورزی کا خمیازہ اٹھانے پر مجبور کر دے گی۔ خصوصاً تیس برس سے پینتالیس برس کی عمر میں بدن میں مختلف درد اور متعدد امراض کی صورت میں بدلہ لے گی۔ مثلاً جگر، پھیپھڑوں کے امراض، اعصاب ، درد گھٹیا، ریح بیمار گردے اور سرطانی مزاج پن وغیرہ۔ فطرت کی بعض مشینری گھِس جاتی ہے اور باقی ماندہ اعضا کے لیے کام زیادہ بھاری ہو جاتا ہے اور اس سے فطرت کا عظیم نظام بگڑ جاتا ہے۔ اور بدن یکا یک کمزور ہو کر شکستہ ہو جاتا ہے اور موت یقینی ہو جاتی ہے۔ CChU 155.4
خدا کی نظر میں کسی جان کو فوراً نکال دینا اس گناہ سے جس میں جان آہستہ آہستہ مگر یقیناً لے لی جاتی ہے بڑا گناہ نہیں ہے۔ جو لوگ غلط کام کر کے اپنے اوپر کمزوری اور پس ماندگی لاتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں اس کی سزا پائیں گے۔ اور پوری توجہ کے بغیر اس کے بعد آسمان میں اس شخص سے جو کسی کی جان فوراً لے لیتا ہے، جلدی داخل نہ ہوں گے۔ خدا کی مرضی کا تعلق علت و معلول سے قائم ہے۔ ہم سب کمزور نوجوانوں کو غلط عادات کے مُجرم نہیں ٹھہرتے کچھ پاک ذہن کے مالک بھی ہیں اور محتاط ہیں وہ مختلف وجوہات سے تکلیف اٹھا رہے ہیں جن پر ان کو کوئی اختیار نہیں۔ CChU 156.1
پوشیدہ گناہ ایک اعلیٰ عزم، سرگرم مساعی اور دینی نیک و مضبوط سیرت کے لیے کامل مرضی کی راہ میں تباہ کن ہے جو یہ جانتے ہیں کہ مسیحی ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ خدوند مسیح کے پیروکار اس پر پابندی کے ماتحت ہیں کہ خداوند کے شاگرد ہونے کے سبب سے اپنے تمام جوش و خروش ، جذبات حیوانی، جسمانی قوأ اور دماغی قدروں کو خداوند کی کامل مرضی کے ماتحت لے آئیں۔ جو افراد جسمانی نیت کے ماتحت ہیں وہ خداوند مسیح کے پیروکار نہیں ہو سکتے۔ وہ اپنے مالک یعنی ناہنجار اور بدی کے بانی (شیطان) کی خدمت کے لیے زیادہ وقف ہیں اور بُری عادات کو چھوڑ کر خداوند کی خدمت کرنے کا انتخاب ان کے لیے ناممکن ہے۔ (سی جی ۴۴۴۔۴۴۶) CChU 156.2
جو مسیحی نوجوان بچپن میں ہی بُرے کاموں میں لگ جاتے ہیں، ان کو جسمانی دماغی اور اخلاقی قدروں کی پوری پوری نشوونما کے لیے کبھی بھی طاقت حاصل نہ ہو گی۔ (۲ ٹی ۳۵۱) CChU 156.3
جو لوگ عادات بد میں مبتلا ہوں ان کے لیے واحد امید یہی ہے کہ اگر وہ اس دنیا میں صحت کی اور آئندہ دنیا میں نجات کی کچھ قدر کرتے ہیں تو ان کو اس عادتِ بد کو فوراً چھوڑ دینا چاہیے۔ عرصہ تک عادات میں مصروف رہنے کے بعد عادات پختہ ہو جاتی ہیں اور آزمائش کا مقابلہ کرنے اور ان عادات پر غلبہ پانے کے لیے مصمم ارادہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ (سی جی ۴۶۴)۔ CChU 156.4
ہمارے بچّوں کے لیے سلامتی کی راہ یہی ہے کہ وہ خداوند مسیح کے گلہ میں شامل ہوں اور اس وفادار اور سچے چوپان کی حفاظت میں آنے کی مساعی کریں تا کہ وہ ہر بُری عادت سے چھوٹ جائیں۔ خداوند اُن کو ہر بُری عادت سے بچا کر تمام خطرات سے محفوظ رکھے گا بشرطیکہ وہ اس کی آواز کے شنوا ہوں۔ وہ فرماتا ہے ”میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔“ اُن کو خداوند مسیح یسوعؔ میں سبز چراگاہ ملے گی۔ طاقت اور اُمید حاصل ہو گی۔ ان کو خداوند سے اطمینان حاصل ہو گا کہ وہ اپنے دماغ کِسی اور طرف نہ لگائیں۔ اور دل آسودگی پائیں گے تا کہ وہ کسی اور چیز کے لیے پریشان نہ ہوں ان کو خوشی پاک اطمینان اور سر بلند آسمانی سیرت کے سبب کسی دکھ درد اور افسوس کی یاد نہ رہے گی۔ ایسی خوشیوں سے نہ صحت خراب ہوتی ہے اور نہ دماغ تاریک ہوتا ہے۔ بلکہ یہ صحت بخش ہوتی ہیں۔ (سی جی ۴۶۷) CChU 156.5