نوجوان شخص کو ایسی ساتھی کی تلاش کرنا چاہیے جو اس کے ساتھ رہے اور اس کی زندگی کا بوجھ اٹھانے میں شامل ہو اور جس کا اثر اسے خلیق اور شریف بنائے اور جو اپنی محبّت سے اُسے خوش رکھے۔ CChU 159.4
” دانشمند بیوی خداوند سے ملتی ہے ..... اس کے شوہر کے دل کو اس پر اعتماد ہے۔ وہ اپنی عمر کے ایّام میں اس سے نیکی ہی کرے گی۔ بدی نہ کرے گی۔“ اس کے منہ سے حکمت کی باتیں نکلتی ہیں۔ اس ک زبان پر شفقت کی تعلیم ہے۔ وہ اپنے گھرانے پر بخوبی نگاہ رکھتی ہے اور کاہلی کی روٹی نہیں کھاتی۔ اس کے بیٹے اٹھتے ہیں اور اُسے مبارک کہتے ہیں۔ اس کا شوہر بھی اس کی تعریف کرتا ہے کہ بہتری بیٹیوں نے فضیلت دکھائی لیکن تو سب سے سبقت لے گئی ہے۔ ”ایسی بیوی پانے والے شخص نے تحفہ پایا اور اس پر خداوند کا فضل ہوا۔“ ان باتوں پر غور کرنا چاہیے۔ کیا وہ شخص جس سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں میرے گھر میں خوشی کا سبب ہو گا؟ کیا وہ (خاتون) کفایت شعار ہو گی یا شادی کے بعد وہ نہ صرف اپنی آمدنی بلکہ میری آمدنی کو بھی اپنے بطلان اور فضول ظاہر داری پر خرچ کرے گی؟ کیا اس جانب اس کے اصول درست ہیں؟ کیا اِس وقت اس کے پاس کوئی چیز ہے جس پر وہ انحصار رکھ سکتی ہے؟ میں جانتی ہوں کہ جو دماغ عشق اور مجازی پیار سے اور شادی کے خیال سے مجروح ہو چکا ہے، اس کے لیے ایسے سوالات بے معنی معلوم ہوتے ہیں۔ لیکن یہ باتیں اس کے مستقبل سے متعلق ہیں اور ان پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ CChU 159.5
بیوی کے انتخاب میں اس کے چال چلن کا مطالعہ کریں کیا وہ صابر اور محنت پسند ہو گی؟ کیا جب آپ کے والدین کو اپنے مضبوط بیٹے کی ضرورت ہو گی، وہ اس وقت ان کی پرواہ نہ کر کے ان سے علیحدہ ہو جائے گی؟ کیا وہ اپنے خاوند کو معاشرہ کے سامنے گرا دے گی؟ تا کہ وہ اس کی تابعداری کرے اور وہ خود اپنی من مانی کرے اور والدین سے دشمنی کر کے ان کو چھوڑ دے گی یعنی کیا وہ ایک پُر محبّت بیٹی پانے کی بجائے اپنے بیٹے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے؟ CChU 160.1