Go to full page →

بیالیسواں باب - تعلیم میں جھوٹ اور سچ کی آمیزش SKC 317

شروع سے ہی بدی کی سازش میں ایک عالی دماغ (ابلیس) کارفرما ہے جو خُدا کے کلام کو اوجھل کر کے انسانی نظریے اور آراء کو مروج کرنے میں مصروف ہے۔ وہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کہ ہم خُدا وند کی اُس آوان کے شنواہوں جو یہ فرماتی ہے “ راہ یہی ہے اس پر جل”یسعیاہ21:30۔ SKC 317.1

برگشتہ تعلیم کے ذریعے وہ اپنی انتھک کوشش میں ہے کہ آسمانی روشنی کی راہ میں رکاوٹ ڈالے۔ فلسفیانہ قیاس آرائیاں اور سائنس کی تحقیقات و تفتیش جس میں خُداوند تعالےٰ کو خارج کر دیا جاتا ہے ہزاروں لوگوں کو بے دین بنا رہے ہیں۔ اسکولوں میں آج کل پڑھا لکھا طبقہ اپنی سائنسی تحقیقات کی روشنی میں اس نتیجہ پر پہنچا اور اس بات پر زور دے کر کہتا ہے کہ اگر یہ عالم فاضل درست کہتے ہیں تو پھر بائبل کا کوئی مقام نہیں۔ بے دینی تو انسانی دماغ کو موہ لیتی ہے۔ اس میں نوجوان دیکھتے ہیں کہ ہم خود مختار ہیں اور ہماری سوچ سمجھ ہر طرح سے آزاد ہو گئی ہے۔ یوں وہ دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں اور ابلیس فاتح۔ وہ شک کے ہر اُس بیج کی اچھی طرح پرورش کرتا ہے جو نوجوانوں کے دل میں بویا جاتا ہے۔ وہ اس کی نشوونما کرتا اور پھل کے لانے میں مدد دیتا ہے۔ بعدازاں بے دینی کی بہت سی فصل کاٹتا ہے۔ SKC 317.2

یہ اس لیے کہ انسانی دل کو بدی بڑی مرغوب ہے اسی لیے بدی کے بیج نوجوانوں کے ذہن میں ہونا نہایت ہی خطرناک ہے۔ SKC 317.3

کوئی چیز بھی جو خُدا میں ایمان کو کمزور کرتی ہے وہ روح کو اُس طاقت سے محروم کردیتی ہے جو آزمائش کی مزاحمت کرتی ہے۔ یقینا یہ گناہ کے خلاف ایمان کی واحد باڑ کو دور کر دیتی ہے۔ ہمیں ایسے اسکولوں کی ضرورت ہے جہاں نوجوانوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ خُدا کی عزت و تکریم میں ہی بڑائی ہے۔ اور یہ بڑائی خُدا کی سیرت کو ہر روز اپنی زندگی میں ظاہر کرنے سے نصیب ہو سکتی ہے۔ خُدا کے کام اور کلام دونوں کے ذریعے ہمیں خُدا کے بارے سیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری زندگیوں میں اُس کا مقصد پورا ہو گا۔ SKC 317.4