Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵
    تقدیس

    خُداوند کا وعدا یہ ہے۔ کہ تُم مجُھے ڈھونڈوگے اور پاؤگے۔ جب اپنے پُورے دل سے میرے طالب ہوگے۔ یرمیاد ۲۹ : ۱۳۔TK 50.1

    پُورا دل خُدا کو سونپ دینا چاہیئے۔ ورنہ وہ تبدیلی ہم میں ہرگز یہ ہوگی۔ جِس سے ہم خُدا کی مشابہت میں بحا کئے جاتے ہیں۔ فطرتی طَور پر ہم خُدا سے برگشتہ ہوچُکے ہیں۔ اِسلئے رُوح اُلقدُس ہمارے اِطوار اور ہماری حالت کا ذیل کے اِلفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ہم اپنے قصُوروں اور گُناہوں کے سبب سے مردُہ تھے۔ تمام سربیمار ہے۔ اور دِل بلکل سُست ہے۔ ۔ ۔ اُس میں کہیں صحت نہیں۔ ہم شیَطان کے جال میں بُری طرح اسِیر ہیں۔ اُس نے اپنی مرضی کے بموجب ہم کو قید کرلیا ہے۔ ۱ فسیوں ۲ : ۱ یسعیاہ ۱۰ : ۶،۵ ، ۲ تمیتھیس ۲ : ۲۶۔ خُدا یہ چاہتا ہے۔ کہ ہمیں اُس دام سے آزاد کرکے صحت عطا فرمائے۔ لیکن اُس کے لئِے اس بات کی ضُرورت ہے۔ کہ ہم میں پوری پُوری تبدیلی ہوجائے۔ اور ہماری پوری فطرت بلکل تبدیل ہوجائے اور ہم اپنے تئیں بلکل خُدا کو سونپ دیں۔TK 50.2

    دُنیا میں آج تک جتنی لڑائیاں ہُوئی ہیں۔ اُن سب میں سے اہم جنگ یہ ہے۔ کہ ہم اپنے نفس سے جنگ کریں۔ اپنے تئیں خُدا کے سپُرد کرنا۔ اور اپنے تمام خواہشات کو خُدا کی مرضی کے مطابق کردینا واقعی ایک بڑی جنگ ہے۔ پاکیزگی حاصل کرنے سے قبل رُوح کو اَیسا کرنا ضُرور ہے۔ TK 51.1

    خُدا کی حکوُمت اَیسی اندھی تقلید اور نامعقول باتوں پر مبنی نہیں۔ جَیسی کہ شیطان لوگوں پر ظاہر کرتا ہے۔ بلکہ یہ ضمیر اور عقل سے مُلتمس ہے۔ یہ خالق کی آواز ہے۔ جو مخلُوق کو بُلاتی ہے۔ کہ آؤ ہم باہم محبّت کریں۔ یسعیاہ ۱ : ا۸۔ خُدا اپنے مخلوقات کی مرضی پر دباؤ نہیں ڈالتا۔ بلکہ وہ اَیسی عبادت کو بھی قبول نہیں کرتا۔ جو بے رضا و رغبت کی جاتی ہے۔ کیونکہ اَیسی عبادت محض جبریہ عبادت ہے۔ اور جبریہ عبادت سے اِنسانی چال چلن اور دِل ہرگز سُدھر نہیں سکتا ہے۔ بلکہ اِنسان اَیسی بندگی سے محض ایک کل کے پُرزے کی بانِند مشغول اور مُتحّرک رہتا ہے۔ اور خالق کا منشا ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ چاہتا ہے۔ کہ اِنسان جو اِشرف المخلوقات ہے۔ حتی الاِمکان اعلیٰ ترقی حاصل کرے۔ وہ ہمارے سامنے برکات کے مدراج رکھتا ہے۔ وہ اپنے فضل سے ہمیں لے جانا چاہتا ہے اور ہمیں دَعوت دیتا ہے۔ کہ ہم اپنے تئیں اُسے سونپ دیں۔ تاکہ وہ اپنے مرضی ہم میں پوری کرے۔ اب اِس سب کا اِنحصار ہم پر ہے۔ چاہے ہم گُناہ کی قیَد سے آزاد ہو کر خُدا کے فرزند بنیں۔ اور جلالی حاصل کریں۔ اور چاہے یہ کریں۔TK 51.2

    اپنے آپ کو خُدا کے حوالے کردینے سے ہمیں اُس سب کو ترک کردینا چاہیئے جو ہمیں خُدا سے جُدا کردیتا ہے۔ اور اِسی لئے ہمارے شفیع نے ہمیں ہدایت کی ہے۔ تُم میں سے جو کوئی اپنا سب کچُھ ترک یہ کرے۔ وہ میرا شاگِد نہیں ہو سکتا۔ لوقا ۱۴ : ۳۳۔ کو چیزیں ہمارے دِلوں کو خُدا سے الگ کرتی ہیں۔ لازم ہے کہ ہم اُن کو ترک کردیں۔ دولت ایک اَیسا بُت ہے۔ جِس کے پرستار دُنیا میں بکثرت نظر آتے ہیں۔ دولت کی اُلفت اور مال و جائداد کی تمنّا ایک اَیسی زرین زنجیر ہے۔ جِس سے لوگ شیَطان سے بندھ جاتے ہیں۔ بعض لوگ شہرُت، عِزّت اور دنیوی مراتب کے جی و جان سے پرستار نظر آتے ہیں۔ بعض حضرات کا بُت اپنی ذمہ داری سے جی چُرانا اور عَیش و نشاط میں رنگ رلیاں منانا ہے۔ یہ تمام دامِ غُلامی قطع کرنا ضروری اور لازمی ہیں۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے۔ کہ ہم خپدا اور دُنیا دونوں کی ایک ساتھ بندگی کرسکیں۔ آدھا دل خُدا کو دینا۔ اور آدھا دنیا میں لگائے رہنا محالات میں سے ہے۔ تاوقتیکہ ہم اُن تمام مکروہات سے قطع نظر یہ کریں ہم خُدا کے فرزند نہیں بن سکتے ہیں دُنیا میں کچُھ لوگ اَیسے بھی ہیں جو خُدا کی خِدمت کا اِقرار کرتے ہیں۔ اور اُسی وقت اپنی کوشش سے خُدا کے احکام مان کر نیک سیرت حاصل کرکے نجات پانا چاہتے ہیں۔ اُن کے دِل مسِیحؔ کی ناممکن البیان محبت سے بےبہرہ ہیں اور اسکی محبت کی تحریک اُن کے دِلوں میں پیدا نہیں ہُوئی۔ لیکن وہ مسیحی زندگی کے لئے اپنے ذاتی کوشش سے خُدا کے مطالب پُورا کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ وہ بہشت میں داخل کوسکیں۔ اَیسا مزہب حقیقت میں کچُھ بھی نہیں۔ جب خُداوند مسِیح اِنسان کے دِل میں سکونت کرتا ہے۔ تو رُوح اُس محبت سے معمُور اور اپس کی یگانگت کی خُوشی سے اَیسی محکوم ہوجاتی ہے۔ کہ وہ اُس کے قدموں سے جُدا ہونا گوارا نہیں کرتی۔ اور اُس کے تصوّر میں اپنی مرضی اور اِرادہ فراموش کردیتی ہے۔ اِس عمل کا منبع اور سرچشمہ مسِیحؔ کی محبت ہوگی۔ جو لوگ مسِیحؔ کی مجبُور کرنے والی محبت کا اندازہ کرتے ہیں۔ وہ کبھی اِس کی جستجو نہیں کرتے۔ کہ خُدا کے مطالبات پُورا کرنے کے لئے کتنا کم کیا جابا چاہیئے۔ اور وہ کم معیار کے لئے نہیں کہتے۔ بلکہ اُن کی دِلی تمنا اور ساری آرزو یہ ہوتی ہے۔ کہ جِس طرح سے ہوسکے۔ اپنے شفیع کی مرضی پوری کریں۔ وہ سچّے دِل سے سب کچُھ خُدا کے سپُرد کردیتے ہیں۔ اور جِس شے کے وہ دل و جان سے خوہش مند ہیں۔ اُس کے حاصل کرنے کے لئے اُسی چیز کی نسبت سے دلچسپی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ اس گہری محبت کے سِوا مسِیحؔ کا اِقرار زبانی جمع خرچ اور محض بناوٹ اور بارِگراں ہے۔TK 52.1

    کیا آپ محسُوس کرتے ہیں۔ کہ سب کچُھ مسِیحؔ خُداوند کو دے دینا ایک بڑی قُربانی ہے؟ اپنے دِل سے سوال کریں۔ مسِیحؔ نے میرے لئِے کیا کیا دے دیا ہے؟ ابنِ خُدا نے آپ کی نجات کے لئے اپنی جان اور اُس کے ساتھ سب کچُھ دیدیا۔ کیا ہماری یہی شایانِ شان ہے۔ کہ ہم اَیسے مسِیحؔ کو جِس نے ہم جَیسے نِکموّں کو اِس قدر پیار کیا ہے۔ اپنے دِل نذر کرنے سے دریغ کریں؟ ہم اپنی حیات کے ہر لمحہ میں اُس کے فضل کی بدولت اُس کی برکتوں سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ اسی لئے ہمیں اُن مصائب اور تکالیف کا کماحُقہ اندازہ نہیں ہوتا ہے۔ جن سے ہم نے خلاصی پائی ہے۔ اُس کو دیکھیں۔ جس کو ہماری خطاکاریوں نے چھید ڈالا۔ اور پھر اُس کی تمام مُحبّت اور قربانی کی حقارت کریں! اُس جلالی خُداوند کی بیحد خاکساری کو مدّنظر رکھ کر بُڑبڑائیں۔ کہ ہم اِس زندگی میں مصائب، ذلّت اور رسوائی کے ذریعہ داخل ہوتے ہیں! بیت سے مغروُر حضرات کا یہ کہنا ہے۔ کہ تاوقتیکہ ہمیں اِس امر کا یقین اور اعتماد یہ ہوجائے۔ کہ مقبولیت بارگاہِ الہیٰ حاصل ہوجائے گی۔ ہمیں حلم، فروتنی اور اِستغفار کی کیا ضروُرت ہے؟ مَیں آپ کے سامنے مسِیحؔ کو پیش کرتی ہوں۔ وہ گُناہ سے پاک تھا۔ اور صِرف اِتنا ہی نہیں۔ بلکہ وہ آسمان کا شہزادہ بھی تھا۔ مگر صرف بنی آدم کی نجات کے لئے وہ نسلِ انسانی کی خاطر گُناہ بنا۔ وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا۔ تَو بھی اُس نے بہتوں کے گُناہ اُٹھالِئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔ یسعیاہ ۵۳ : ۱۱۔TK 53.1

    سوال یہ ہے۔ کہ جب ہم سب کچُھ دے ڈالتے ہیں۔ تو ہم کیا دیتے ہیں؟ یعنی ہم ایک گُناہ آلُودہ مسِیحؔ کے حوالے کرتے ہیں۔ تاکہ وہ اِسے خُون سے دھوکر پاک و صاف کرے۔ اور اپنی لاثانی محبّت سے ہمیں بچالے۔ تو بھی اِنسان ہر ایک شے سے دست بردار ہونا بہت ہی مُشکل کام سمجھتا ہے۔ یہ سُن کت مُجھے شرم آتی ہے۔ اور اس کے لکھتے ہُوئے بھی مُجھے شرم آتی ہے۔ TK 54.1

    خُدا یہ نہیں چاہتا۔ کہ ہم اَیسی چیزوں سے دست بردار ہوجائیں۔ جو ہمارے لئے مفید ہیں۔ کو کچُھ خُدا کرتا ہے۔ سب میں اُس کو اپنے بچوں کی بہتری اور بھلائی مدنظر رہتی ہے۔ کاشکہ وہ لوگ جنہوں نے اب تک مسِیحؔ خُداوند کو قبول نہیں کیا ہے جانیں کہ مسِیحؔ اُنہیں بمقابلہ اُن چیزوں کے جن کی کستکو وہ خوس اپنے لئے کررہے ہیں۔ بدرجہا بہتر چیزیں دینا چاہتا ہے۔ جب اِنسان خُدا کی مرضی کے خلاف تولاً فعلاً یا خیالاً کوئی امر کرتا ہے۔ تو وہ اپنی رُوح کو بیحد نقصان اور تکلِیف پہنچاتا ہے۔TK 55.1

    اس لئے جن راہوں کو خُدا نے جو سب کچُھ جانتا ہے۔ اور اپنی مخلوق کے لئے بہتر تجاویز کرتا ہے۔ منع کیا ہے۔ اُن پر چلنے سے اِنسان کو کبھی حقیقی شادمانی اور سچّی خُوشی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔ بلکہ نافرمانی کی راہیں آفت اور مصیبت سے پٹی پڑیں ہیں۔TK 55.2

    اِس خیال کو اپنے دِل میں جگہ دینا کی خپدا اپنے بچوں کو مصائب اور رنج و محن میں مُبتلا پاکر شاداں و فرحان ہوتا ہے۔ بڑی بھاری غلطی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے۔ کہ صرف ذاتِ باری ہی نہیں۔ بلکہ آسمان اور وہاں کی تمام خلقت اِنسان کی شادمانی میں دلچسپی لیتی ہے۔ ہمارے آسمانی باپ نے اپنی کِسی مخلوق کے لئے شادمانی کی راہیں مسدوُد نہیں کی ہیں۔ احکامِ الہیٰ ہمیں محض اُن چیزوں سے نفرت کرنے ترغیب دیتے ہیں۔ جن کے ارتکاب سے انجام کار رنج و مُحّن خرابی اور نااُمیدی پَیدا ہوتی ہے۔ اور جو اپنے مرتکب کے لئے بابِ شادمانی مقفل اور آسمان کے دروازے بند کردیتی ہیں۔ شفیِع عالم اِنسان کو ہر وقت خواہ وہ کَیسی ہی حالتِ زار میں کیوں نہ ہو قبول کرنے کے لئے آمادہ و تیّار ہے۔ وہ اِنسان کو اُس کی ناکامیوں، حاجتوں اور کمزوریوں میں بھی قبول کرنیکے لئِے تیار ہے۔ وہ اِنسان کو اُس کے گُناہ سے پاک و صاف کرکے مخلصی ہی نہیں دیتا۔ بلکہ وہ اُن لوگوں کی دِلی تمناؤں کو بھی پُورا کردیگا۔ جو اُس کا جوا اپنے اُوپر اُٹھاتے ہیں۔ اور اُس کا باربرداشت کرتے ہیں۔ اُن لوگوں کو جو اُس کے پاس زندگی کی روٹی کے لئے آتے ہیں۔ اِطمینان اور صُلح مرحمت فرمانا اُسی کا کام ہے۔ اُس کا ارادہ ہے کہ ہم صرف اُنہی فرائض کو پُورا کریں۔ جن سے ہم خُوشی کی بلندیوں کت رسائی حاصل کرسکیں۔ جن جو نافرمان حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔ رُوح کی حقیقی خُوشی و خُرمی کی زندگی یہ ہے۔ کہ مسِیحؔ جو جلال کی اُمید ہے۔ ہمارے باطن میں قرار پائے۔TK 55.3

    بہت سے لوگ یہ دریافت کرتے ہیں۔ کہ بھال ہم اپنے تئیں کِس طرح خُدا کے حوالے کردیں؟ آپ اپنے تئیں خُدا کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ مگر قوتِ اِخلاقی میں کمزور اور شکوُک کے دام میں اسیر اور گُناہ آمیز زندگی کے بس میں ہیں۔ آپ کے وعدے اور ارادے کچّے دھاگے کی مانند اور نقشِ آب ہیں۔ آپ اپنے اِرادے، خیالات اور جزبات پر قابض نہیں ہوسکتے۔ آپ کی وعدا خلافی اور عہد شکنی نے آپ کا اپنے اُوپر ایمان ضعیف کردیا ہے۔ اور اسی لئے آپ محسوس کرتے ہیں۔ کہ خُدا کی نظر میں مقبُول نہیں ہوسکتے ہیں۔ لیکن آپ کو بیدل نہیں ہونا چاہیئے۔ بلکہ آپ کو مرضی کی قُوّت کو جاننے کی ضرورت ہے۔ انسان میں صرف قُوّتِ فیصلہ یا قُوّت امتیازی، یا قُوّتِ انتخابی ایک حکمران طاقت ہے۔ اِس مرضی کے واجبی اِستعمال پر ہر ایک امر کا دارومدار ہے۔ خُدا نے اِنسان کو تشخیص کی قُوّت تو مرحمت فرمادی ہے۔ لیکن اُس کا کام میں لان یا نہ لانا یہ اِنسان کا اپنا کام ہے آپ نہ اپنے دِل کو بدل سکتے ہیں۔ اور نہ اُس میں خُدا کی محبت کو پیدا کرسکتے ہیں۔ یہ آپ کے دستِ قدرت سے باہر ہے۔ لیکن خُدا کی اِطاعت اور فرمانبرداری کرنا آپ کے بس میں ہے۔ آپ اپنے مرضی خُدا کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔ پھر وہ اپنے پاک مرضی کے مُطابق اُس کو مُبّدل کردیگا۔ اور آپ کو راہِ راست پر چلنے کی توفیق محمت فرمائیگا۔ اور یوں آُپ کی تمام سیرت مسِیحؔ کی رُوح کے تحت ہوگی۔ اور آپ کی محبت کا مرکز خُداوند ہوگا۔ اور آپ کے خیالات اُس سے متفق ہونگے۔TK 56.1

    نیکی اور پاکیزگی کی خواہشات تو واقعی اچھّی ہیں۔ لیکن اگر آپ اس سے آگے نہ بڑھیں۔ اور عمل نہ کریں۔ تو وہ لاحاصل اور بے سُود ہیں۔ بہتیرے آدمی حقیقی مسیحی بننے کی آرزو رکھتے ہُوئے نجات سے محروم رہیں گے۔ کیونکہ اُنہوں نے آرزو ہی آرزو کی اور عمل نہ کیا۔ مگر وہ اپنے آپ کو خُدا کی مرضی کے تابع کرنے کے نکتہ لو نہیں پہنچتے۔ اب وہ مسیحی بننا اِختیار نہیں کرتے۔TK 57.1

    مرضی کے جائز اِستعمال سے زندگی میں کامِل تبدیلی ہوجاتی ہے۔ اور اپنے عزم کو مسِیح کے قبضۂ قدرت میں حوالے کردینے سے آپ ایک اَیسی قُوّت سے اِتحاد پیدا کرینگے۔ جو ما قُوّتوّں سے بُزرگ اور اعلےٰ ہے۔ آپ کو ثابت قدم رہنے کے لئے عالمِ بالا سے قُوّت اور توانائی عطا کی جائیگی۔ یوں اپنے آپ کو خُدا کے حوالے کردینے سے آپ میں ایک نئی زندگی بسر کرنے کی قابلیت پیدا ہوجائیگی یعنی اِیماندارانہ زندگی۔ TK 58.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents