Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ۸ باب
    خدا وند ِ مسيحؔ میں بڑھنا

    دل کی تبدیلی جِس سے ہم خدا کے فرزند بن جاتے ہیںَ۔ اُُسکو بائبل مُقدس میں نئی پیدائش کہا گیا ہےَ۔ پھر اسی بات کی مقرر تشریح ایک اچھے بیج سے ہے جِسے کسی کاشتکا ر نے اپنے کھیت میں بویا اور وہ جم گیا دی گئی ہے۔ اِسی طرح جو لوگ نئے نئے مسیحی ہوتے ہیںَ وہ نوزاد کہلاتے ہیں۔ اَور اُنہیں مسیحَت میں روز افزوں بڑھ کر مسِیح کے کامل قدوقامت کو حاصل کرنا پڑتا ہے﴿پطرس ۲:۲﴾یا اچھے بیج کی مانند بڑھنا ہَے۔ جو کھیت میں بویا جاتا ہَے۔ اَور روزافزوں ترقی کر کے لہلہاتا اَور کثرت سے پھولتا پھلتا ہَے۔ یسعیاہ نبی کہتا ہَے کہ وہ صداقت کے درخت اَور خُدا کے لگائے ہُوئے پَودے کہلائیں گے۔ کہ اُس کا جلال ظاہر ہو۔ یسیعاہ١١:۳۔ قُدرتی زندگی کی تشبیہ دے کر ہمیں اِس لئے سمجھایا گیاہَے۔ تا کہ ہم اُن روحانی معاملات کی سربستہ صداقت اَور حقیقت کو بخوبی سمجھ سکیں۔ TK 83.1

    قدرت کی ایک ادنٰے شَےمیں بھی تمام دنیا کی دانش عقل اور حکمت مِل کر حیات پَیدا نہیں کر سکتی ہے۔ یہ حیات صِرف اِسی منبِع حیات یعنی خدا سے صادر ہوتی ہَے اَور اِسی کی بدولت یہ تمام نباتات اَور حَیوانات قائم رہتے ہَیں۔ پس خُدا ہی اِنسان کے قلوب کو رُوحانی اَور نُورانی حیات سے منور کرتا ہَے۔ تاقتیکہ آدمی اِنسان کے قلوب کو رُوحانی اَور نُورانی حیات سے منور کرتا ہَے۔ تاوقتیکہ آدمی کی پَیدائش نئے سرے سے نہ ہو۔ یوحنا ۳:۳ تو انسان اِس حیات کو ہرگز حاصل نہیں کر سکتا۔ جو مِسیح یُسوح نے دُنیا میں آکر عطا فرمائی تھی۰TK 83.2

    حیات اَور نشوونما دونوں کی کیفیت ایک ہی ہَے۔ اَور دونو ں کا تعلق ایک ہی شَے سے ہَے۔ یہ خُدا ہی ہَے۔ جِس کی وجہ سے پہلے پتّی پھر بالیں پھر بالوں میں تیار دانے ہوتے ہیں۔ مرقس۴:۲۸۔ ہو سیع نبی اسرائیل سے مخاطب ہو کر کہتا ہَے۔ وہ سوسن کی طرح پھُولے گا۔۔۔۔۔۔ وہ گیہوں کی طرح تروتازہ اَور تاک کی مانند شگُفتہ ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔ہوسیع ۴ا:۵،۷۔ اَور مسِیح نے خُود ارشاد فرمایا ہَے۔ کہ سوسن کے درختوں پر غور کرو۔ کہ کِس طرح بڑھتے ہَیں۔ لوقا ١۲:۲۷ اُس بات کو یادرکھنا چاہیے کہ پُھول اَور درخت اپنی ذاتی قوت یا سعی سے نشوونما نہیں پاتے بلکہ اُن کے پُھولنے پھلنے اَور پنپنے کی قوّت یعنی اُسی منبٕع حیات کی طرف سے عطا ہوتی ہے۔ اِس بات کو آپ یُوں بخوبی سمجھ سکتے ہَیں۔ کہ ایک بّچہ اپنی قوّت اور کوشش سے اپنے تیُں قدوقامت میں بڑھنا نہیں سکتا۔ لیکن وہ بڑھتا ہَے اَور اُس کا یہ بڑھنا محض خدا کی قُدرت سے ہی عمل میں آتا ہے ۔ اِسی طرح آپ بھی اپنی روحانی قوّت کو اپنی سعی اَور کوشش یا فکرمندی سے نہِیں بڑھا سکتے۔ نباتات اَور بّچےاپنے آس پاس کی اشیاء یعنی ہوا، حرارت اَور غذا سے مسفید ہو کر ترقی و توانائی اَور حیات حاصل کرتے رہتے ہَیں۔ اَور قُدرت کی پَیدا کردہ چیزیں جِس طرح اُن پر اثر کرتی ہَیں۔ بالکُل یہی کیفیت مسِیح کی اُن لوگوں کے ساتھ ہے۔ جو اُس پر بھروسہ اَور ایمان رکھتے ہیں۔ خُداوند اُن کاابدی نُور اَور آفتاب اَور سپر ہَے۔ یُسعیاہ ٦۰:١۹وزبور ۸۴:١١۔بنی اسرائیل کے لئے اوس کی مانند ہوگا۔ وہ اِس بارش کی مانند ہوگا جو کٹی ہُوئی گھاس پر پڑے۔ زبور۲۷:٦۔وہ آبِ حیات ہَے۔ خُدا کی وہ روٹی ہے جو آسمان سے اُتر کر دُنیا کو زندگی بخشتی ہے۔ یوحنّا ٦:۰۳۳TK 84.1

    جیسےکُرہ ارض اپنے اردگرد ہوا سے گھِرا ہُوا ہَے۔ اُسی طرح خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کے ذریعہ تمام عالم کو اپنے فضل کی فضاء میں محصُور کر لِیا ہے پس جو لوگ اِس رُوح افزاء اَور زندگی بخش فضاء میں خُوشی سے داخل ہوں گے وُہ زندہ رہینگے۔ اَور مسِیح کی تقلید میں روز بروز ترقّی کر ک پُورے قدوقامت تک پہنچ جائیں گے۔ TK 85.1

    جَیسے پُھول آفتاب کی طرف اپنا رُخ کر کے اُس کی شعاع کے توسل سے اپنا حُسنِ دلفریب تکمیل کو پہنچاتا ہَے۔ اِسی طرح ہمیں بھی لازم ہے کہ ہم اُس آفتابِ صداقت کی جانب رجوع کریں۔ تا کہ آسمانی نُور ہم پر پڑے اَور ہمارا چال چلن مسِیح کی مانند بن جائے۰TK 85.2

    مسِیح نے خود بھی یہی ارشاد فرمایا ہے کہ تم مُجھ میں قائم رہو اَور مَیں تم میں جس طرح ڈالی اگر انگور کے درخت میں قائم نہ رہے۔ تو اپنے آپ سے پَھل نہیں لا سکتی اُسی طرح تُم بھی اگر مُجھ میں قائم نہ رہو۔ تو پھل نہیں لا سکتے۔ مُجھ سے جُدا ہو کر تم کچھ نہیں کر سکتے۔ یُوحنّا١۵:۵،۴۔ پاک زندگی گذارنا۔ اُسی طرح مسِیح کے توسل پر منحصر ہے۔ مسَیح سے الگ ہو کر نہ تو آپ میں حیات باقی رہے گی۔ نہ مصائب کا مقابلہ کر سکیں گے۔ اَور نہ آپ فضل اَور پاکیزگی میں ترقی کر سکیں گے۔ اُ س میں رہ کر آپ سر سبزوشاداب ہوں گے۔ اُس سے حیات حاصل کرتے ہوئے کبھی نہ مُرجھائیں گے۔ بلکہ اَیسے درخت کی طرح پُھولیں پھلیں گے۔ جو لبِ دریا لگا ہو۰TK 86.1

    بعض آدمیوں کا خیال ہے کہ کام کا کُچھ حصّہ اُن کو اپنی قوتِ بازو سے بھی کرنا چاہیے۔ اُنہوں نے اپنے گُناہوں سے معافی حاصل کرنے کے لئے تو مسِیح پر بھروسہ کِیا، لِیکن وہ اب اپنی قوّت ہی سے نیک زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہَیں مگر اس قِسم کی ہر کوشش ضُرور ناکام ہوگی۔ کیونکہ مِسیح نے فرمایا ہَے کہ میرے بغیر تم کُچھ نہیں کر سکتے۔ اَور یہ بالکُل سچ ہَے۔ کیونکہ ہمارا فضل میں بڑھنا اَور ہماری شادمانی سب مسِیح سے میل رکھنے پر منحصر ہَے۔ روزانہ اَور ہر لمحہ اُس سے کلام کرنے اور اُس میں قائم رہنے سے ہمیں فضل میں بڑھنا ہَے۔ وہ ہمارے ایمان کا فقط بانی ہی نہیں۔ بلکہ اختتام کو پہنچانے والا بھی ہے اَور ہے اَور ہمیشہ رہے گا۔ وہ صِرف ہمارے دَور حیات کے اّول وآخر ہی میں ہمارا نگران نہیں رہتا بلکہ ہر لحظہ اَور ہر آن وہ ہمارا نگران اَور خبر گیر رہتا ہے۔ حضرت داوٴد کہتا ہے۔ کہ مَیں نے خُدا وند کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھّا ہے۔ چونکہ وہ میرے دہنے ہاتھ ہے۔ اِس لئے مُجھے جُنبش نہ ہوگی۔ زبور ٦ا:۸TK 86.2

    اب آپ کے دل میں یہ سوال پَیدا ہوگا کہ میں کِس طرح مسِیح میں پیوستہ ہو کر رہ سکتا ہوں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جَیسے آپ نے اُس کو شروع میں پایا تھا اُسی طرح اب بھی اُس میں قائم رہیں ۔ جِس طرح تم نے مسِیح یُسوع خداوند کو قبُول کِیا۔ اُسی طرح اُس میں قائم رہیں۔ جِس طرح تم نے مسِیح یسُوع خداوند کو قبُول کِیا۔ اُسی طرح اُس میں چَلتے رہو۔ کلّیسوں۲:٦میرا راستباز بندہ ایمان سے جیتا رہے گا۔ عبرانیوں ١۰:۳۸۔ آپ نے اپنے تئیں خُدا کو سونپ دِیا ہَے۔ تاکہ اُس کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے رہیں۔ اَور آپ نے مسِیح کو اپنا پیشوا اَور نجات دہندہ تسلیم کِیا ہَے۔ آپ خود نہ تو اپنے گُناہوں کا کفارہ دے سکتے ہَیں۔ نہ اپنے قلب کی اصلاح کی قابلیّت رکھتے ہیں۔ لیکن اپنے تئیں خُدا کے سُپرد کردینے سے آپ نے یقین کر لیا ہَے۔ کہ خُدا نے مسِیح کی خاطر سے خود آپ کے لئے یہ سب انتظام کر دیا ہَے۔ ایمان کی بدولت آپ مسِیح کے ہو گئے ہَیں۔ اَور ایمان ہی بدولت آپ کو اِس میں روز افزوں ترقی بھی کرنا ہے۔ آپ کو کچھ تو دینا ہوگا اَور کُچھ لینا ہوگا۔ دینے کے لئے تو آپ کو اپنا دِل ۔آرزو۔تمنّا۔عبادت خدمت حتّیٰ کہ اپنا سب کچھ اُس کی خدمت میں پیش کرنا ہوگا۔ تاکہ اُس کے تمام مطالبات پُورے ہو جائیں۔ اَور لینے کے لئے آپ سب کُچھ لیں۔ یعنی مسِیح خداوند جو تمام برکات کا سر چشمہ اَور منبع ہَے۔ تاکہ وہ آپ کے خانہٴ دِل میں رہے۔ وہ آپ کی قوت و توانائی ہو۔ آپ کی راستبازی آپ کی سدا مددگار ہو اور آپکو فرمانبرداری کی طاقت عطا کرنے کا ذریعہ ہو۔ TK 87.1

    سب کاموں سے مقدّم کام یہ کریں۔ کہ ہر صُبح اُٹھ کر اپنے تئیں خُدا وند کے حضُور پیش کردِیا کریں۔ خُدا سے مُناجات کِیا کریں۔ کہ اے خُدا مَیں اپنے تئیں سر تاپا تیرے حضُور پیش کرتا ہُوں۔ تو مُجھے قبُول فرمائیں تیرے قدموں پر فِدا ہونے آیا ہُوں۔ مُجھے منظُور کر مَیں اپنی تدابیر تیرے پا وٴں پر ڈالتا ہوں۔ آج مُجھ سے اپنی خدمت لے۔ اَے خداوند مُجھ میں قائم رہ۔ اَور میرے سارے کام اپنی مرضی کے مطابق ہونے دے۔ یہ روزمرّہ عرض کِیا کریں۔ ہر صُبح اُس دِن کے لئے اپنے تئیں خُدا کے تدر کِیا کریں۔ اَور اپنے تمام کام اُس کی مرضی کے مُوجب ہونے دیا کریں۔ اپنی مرضی کے مطابق خواہ وہ پورے کرے یا نہ کرے۔ ایسا کرنے سے آپ اپنی زندگی کے ایاّم خُدا کے ہاتھ میں سونپتے جائیں گے۔ اَور آپ کی رفتار گُفتار اَور زندگی مسیح کی زندگی کی مشابہت اختیار کرتی جائے گی۔ TK 88.1

    مسِیح خداوند میں زندگی پُر اطمینان اَور پُر سکون ہوتی ہے اَور ایسا ہی پُر سکُون اَور پُر اطمینان بھروسہ بھی ہونا چاہیے۔ ایسی زندگی میں کِسی قسم کی افسردگی اَور غیر مطمئن حالت پیدا نہیں ہوتی۔ آپ کی نا توانائی اُس کی توانائی سے آپ کی نادانی اُس کی دانش سے اَور آپ کی بے صبری اُس کے صبر سے وابستہ ہَے۔ اِس لئے۔ آپ کو اپنی عقل پر نازاں ہو کر خُود داری اَور خود بینی نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ مسِیح پر نگاہ جمائے رہنا چاہیے۔ آپ کو لازم ہَے کہ مسِیح کی مُحبت حُسن اَور کاملیّت پَر نظر رکھیّں۔ رُوح کی غور و فکر کے مظامین یہ ہَیں خداوند مسیح اپنی خود انکاری میں مسِیح خداوند اآپیٴ فروتنی میں اَور مسیح خداوند اپنی پاکیزگی میںؔ مسیح خداوند آپنی بے مثال محبت میں اگر مسیح سے الفت رکھ کر اس کے قدم بَقدم چلیں اور اپنا دارومدار اسی کو سمجھیں تو ضرور آپ اُسی کے مشابہ بنتے جائیں گے۰TK 89.1

    مسِیح نے فرمایا ہے ۔ کہ مُجھ میں قائم رہو۔ اِن الفاظ میں آرام، استقلال اَور اطمینان پایا جاتا ہَے۔ پھر وہ فرماتا ہَے۔ میرے پاس آوٴ مَیں تمہیں آرام دوں گا۔ متی١١:۲۹،۲۸ زبور نویس بھی اِسی خیال کو اپنے لفظوں میں یُوں ظاہر کرتا ہَےخُدا وند میں مطمئن رہ اَور صبر سے اُسکی آس رکھ باور۷/۳۸ یسیعاہ نبی یوں یقین دلاتے ہیں۔ وہ خاموشی اور توکل میں تمہاری قوّت ہے۔یسیعاہ١۵/۳۰۔ یہ اطمینان ہمیں حاصل ہو سکتا ہَے کیونکہ مسِیح نے جو راحت اَور آرام عطا فرمانے کا وعدہ کِیا ہَے اُس میں محنت کی بلاہٹ بھی شامِل ہَے۔ میرا جوٴا اپنے اُوپر اُٹھا لو۔۔۔۔۔ تو تُمہاری جانیں آرام پائیں گی;۔ متّی ١١:۲۹۔ جو دل مسیح سے تعلق رکھ کر بہت ہی مطمئن ہوتا ہَے۔ وہی دل مسیح کی خاطر بیحد کوشاں مشغول اور مصرُوف پایا جاتا ہَے۔ TK 89.2

    جب انسان خُود داری اَور نفس پروری کا شکار ہوجاتا ہَے۔ تو وہ مسِیح سے جو قوّت اَور زندگی کا سر چشمہ ہے منحرف ہو جاتا ہَے۔ اِس لئےکہ وہ نجات دہندہ سے توجہ ہٹا کر اپنی رُوح کا خُداوند مسِیح سے اتحاد اَور تعلق منقطع کر لیتا ہَے۔ شِیطان دینوی راحت، عِشرت، فکریں۔ اُلجھنیں، مُصیبتیں۔ غم و الم دُوسروں کی برائیاں آپ کی اپنی خطائیں و ناقابلیّت وغیرہ کے نظِارے پیش کر کے آپ کے دل کو پھیردینے کی کوشش کریگا۔ آپ اِس سے دھوکہ نہ کھائیں۔ اَور اُس کے دامِ فریب میں نہ آئیں۔ بہترے جو محتاب ہَیں اَور خدا کے لِئے زندگی بسر کرنا چَاہتے ہَیں۔ وہ اُن کو اکثر اپنی ہی غلطیوں پر غورو خوض کر نے کی طرف مائل کر کے اُنہیں مسِیح سے دُور کر کے فتح پانے کی اُمید رکھتا ہَے۔ ہمیں اپنے آپ کو ہی مرکز نہیں بنانا چاہئیے۔ اَور اپنی نجات کی با بت خوفزدہ مُتفکر ترساں ولرزاں نہ ہونا چاہئیے۔ کیونکہ یہی تمام باتیں رُوح کو اُس منبع حیات اَور اُس پر پُورا پُورا تکیہ اَور کاِمل توکّل رکھّیں۔ ہمیشہ مسِیح کو قول، فعل اَور خیال سے یا د کرتے رہیں۔ ہماری خودی اُس میں فنا ہو جائے، شکوک اپنے پاس سے دُور ہوجائیں۔ اَور خوف سے الگ رہیں۔ اور پولوؔس رسول کے ساتھ مِل کر یوں کہیں۔ اب میں زندہ نہ رہا۔ بلکہ مسِیح مُجھ میں زندہ ہَے۔ اَور مَیں جواب جِسم میں زندگی گذارتا ہُوں۔ تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گذارتا ہُوں۔ جِس نے مُجھ سے محبت رکّھی۔ اَور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کر دیا۔ گلتیوں۲:۲۰۔ خدا میں آرام کریں۔ کیونکہ وہی قادر مُطلق آپ کی اُس شے کی حفاظت کرے گا جو آپ نے اُس کو سنپ دی ہَے۔ اگر آپ اپنے تئیں اُس کو سونپ دیں۔ تو وہ آپ کو مسِیح کے توسّل سے جِس نے آپ سے مُحبّت کی ہے۔ زیادہ فتح مندی اَور کامیابی عطا فرمائے گا۰TK 90.1

    جب مسیح نے انسانی جامہ پہنا تو اُس نے ایک ایسی محبت سے اِنسانیت کے تعلّق کو اپنے سے پیوستہ کِیا جو انسان کی اپنی قوّت ِ انتخاب کے سوا کِسی اَور وجہ سے نہیں ٹوٹ سکتا۔ شیطان شب و روز انسان کو یہی ترغیب دے کر سبز باغ دکھاتا رہتا ہے کہ وہ اپنا تعلق مسِیح سے علٰیحدہ کر دے۔ یہی وہ امر ہے جِس کے لئے ہمیں نہایت ہوشیاری و دانش مندی کی ضرورت ہَے۔ اَور دُعا و عبادت کی ضرورت ہے۔ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم شیطان کے مغالطہ میں آکر مسیح سے قطع تعلق کر کے کوئی دُوسرا مالک و آقا بنا بیٹھیں۔ کیونکہ ہم کہ یہ حق پُورا پُورا حاصل ہے کہ جو راہ ہم چاہیں اختیار کر لیں۔ اِس لئے ہمارے واسطے مناسب یہی ہے کہ ہم مسِیح کو پیش نظر رکھّیں۔ تاکہ ہم محفوظ رہَیں۔ کوئی ہستی ہمیں اُس کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتی۔ اگرہمارا دھیان مسِیح کی جانب مسلسل رہے تو ہم اُس خُدا کے وسیلہ سے جو رُوح ہے اُسِی جلالی صُورت میں درجہ بد رجہ بدلتے جاتے ہَیں ۔ ۲.کرنتھیوں ۳:١۸ مسیح کے ابتدائی شاگردوں نے مسِیح کا کلام سُنا تو اُنہوں نے اپنی ضرورت کو محسوس کِیا۔ اُنہوں نے مسِیح کی جستجو کی تو پایا۔ اَور جب پایا تو اُس کی پیروی کی۔ وہ لوگ اُس کے ساتھ گھرمیں۔ دعوت میں اَور کھیتوں میں رہا کرتے تھے۔ وہ اس طرح اُس کے ساتھ رہتے تھے جَیسے طُلبا اپنے معلمّ کے ساتھ ہوتے ہَیں۔ جو اُس کی زبان سے روزانہ پاک اَور صادق کلام کے اسباق سیکھتے رہتے تھے۔ جَیسے نوکر اپنے مالک کو دیکھتے ہَیں۔ اُسی طرح اُس کے شاگرد بھی اپنے فرائض منصبی کے ادا کرنے کے لئے اُس کی طرف متمنی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔ اُس کے شاگرد بالکُل ہمارےہم طبیعّت انسان تھے۔ یعقوب۵:١۷. اَور گناہ کے ساتھ اُن کو وَیسی ہی جدوجہّد کرنی پڑتی تھی جَیسی ہمیں کرنا پڑتی ہَے۔ پاک و صاف زندگی بسر کرنے کے لئے۔ اُنہیں بھی ہماری مثل اُسی فضل کی احتیاج و ضرورت درپیش رہتی تھی۔ TK 91.1

    یوحنّا بھی جو مِسیح کا بہت پیارا شاگرد تھا۔ اَور جِس نے مسِیح کی شباہت پُورے پُورے طَور سے ظاہر کی ہَے۔ اِن فطرتی اور جبّلی خوبیوں سے عاری اور محروم تھا۔ وہ خود رائے اَور بلند مرتبہ کو پسند کرنے والا ہی نہ تھا۔ بلکہ جب اُسے کُچھ تکلیف پہنچتی تھی تو وہ زودرنج، غصہ ور اَور تند مزاج بھی ثابت ہوتا تھا۔ مگر جب پیارے خُدا وندِ یُسوع مسِیحؔ کی پاک سیِرت یوحناّ پر ظاہر ہُوئی تو اُس کو اپنی خرابی اَور غلطیاں نظر آگئیں اَور اِس علم سے وہ حلِیم اَور فروتن بن گیا۔ یوحنّا نے ابن خُدا میں متواتر قُدرت، صبر، حِلم نرمی جلال اَور انکسار کے خصائِص اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ تو ا ِس کے دِل میں مسِیح کی عظمت اَور مُحبّت گھر کر گئی۔ دِن بدن اُس کا دل مسِیح کی طرف رجُوع کرتا گیا۔ ٕحتّیٰ کے وہ اپنے آقا کے لئے خود فراموش ہو گیا۔ اُس کی خُود پسندی اَور تنک مزاجی مسِیح کی قُدرت کاملہ نے سلب کر لی۔ اَور اُن خصائل بد کی بجائے اُس میں خصائص حمیدہ پیدا ہو گئے۔ روح القدس کی ازسر نو پیدا کرنے والی قدرت نے اُس کے دل کو بالکل ہی بدل دیا۔ اَور یہی ایک یقینی ثبُوت مسِیح کے ساتھ تعلق و یگانگت کا ہے۔ جب مسِیح کِسی کے خانہٴ دل میں متمکن ہوتا ہَے تو اُس کی تمام خصائل اور عادات بدل جاتی ہَیں۔ مسِیح کی رُوح اَور محبّت لوگوں کے دلوں کو نرم کر کے اُن کی ارواح کو مطیع کر لیتی ہَے۔ اَور خُدا اَور آسمان کی طرف اُ ن کے خیال و توجہ کو مبذول کر دیتی ہے۔ TK 93.1

    مسیح کے صعود آسمانی کے بعد بھی اُس کے شاگر دوں کے دِلوں میں اُس کی موجودگی کا خیال قائم رہا۔ اَور یہ موجودگی مُحبّت اَور نُور سے معمُور تھی۔ گو کہ اُن کا نجات دہندہ جو اُن کے ہمراہ چلتا پھرتا بولتا چالتا اَور دُعا کرتا اَور تسلّی آمیز باتوں سے اُن کے دِلوں کو مطمئن کرتا تھا۔ اُن کے دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر اُٹھا لِیا گیا۔ مگر اُس کا تسلّی بخش کلام اُن لوگوں کے پاس موجود تھا۔ جس وقت فرشتوں کے بادلوںنے اُس کو اُٹھا لِیا اور اُن کو یہ پیغام مِلا تھا۔ دیکھو مَیں دنیا کے آخر تک تُمہارے ساتھ ہُوں۔ متی۲۸:۲۰، وہ انسانی صُورت ہی میں آسمان پر چڑھا۔ شاگرد جانتے تھے۔ کہ اُن کا ہمدرد اَور شفیق خُدا کے تخت کے سامنے مَوجُود ہے۔ اَور اُس کی ہمدردی اٹل اَور لا تبدیل ہے۔ اَور وہ ہنوز نسلِ اِنسانی سے تعلق رکھتا ہَے۔ وہ خُدا کے جلیل دربار میں اپنے مجرُوح ہاتھ، زخمی پہلو اَور گھائل پاوٴں کو خطا کار انسان کی شفاعت کے لئے بطور قیمت کے پیش کرتا ہَے۔ شاگردوں کو اِس کا بھی کامِل یقین تھا کہ وہ آسمان پر جو گیا ہے تو اُن کے لئے مکان تجویز کر کے پھر واپس آئے گا۔ اَور اُنہیں اپنے ہمرال لے جائے گا۔ TK 94.1

    مسیِح کےصعود آسمانی کے بعد جب شاگر آپس میں جمع ہوتے تھے تووہ بڑے شَو ق سے مسیِح کا واسطہ دے کر خُدا سے دُعائیں مانگا کرتے تھے۔ وہ اپنی مناجات دُعا اور عبادت میں سر جُھکا کر بڑے خلُوص کے ساتھ اِن الفاط کا یقین کئے ہُوئے مِنّت کِیا کرتے تھے۔ کہ اگر باپ سے کُچھ مانگو گے تو وہ میرے نام سے تم کو دیگا۔ اب تک تُم نے میرے نام سے کُچھ نہیں مانگا۔ مانگو تو پاوٴ گے۔ تا کہ تُمہاری خُوشی پُوری ہو جَائے۔ یُوحنّا ١٦:۲۴،۲۳TK 94.2

    اُن کا ایمان روز بروز مضبُوط مُستحکم اَور قوّی ہوتا گیا۔ کہ یسُوع مسِیح وہ ہے جو مرگیا۔ بلکہ مُردوں میں سے جی بھی اُٹھا اَور خدا کی دہنی طرف ہے۔ اَور شفاعت بھی کرتا ہَے۔ رومیوں ۸:۳۴۔ مسِیح نے جِس تسلّی دینے والے کی بابت کہا تھا کہ وہ آکر تُم میں بسے گا۔ وُہ بھی عیدِ پنتیکوست کو آمَوجُود ہُوا۔ اُس کے عِلاوہ مسِیح نے یہ بھی کہا تھا کہ میرا جانا تمہارے لِئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ اگر مَیں نہ جاوٴں تو وہ مددگار تُمہارے پاس نہ آئے گا۔ لیکن اگر جاوٴں گا تو اُسے تُمہارے پاس بھیج دُوں گا یوحنّا ١٦:۷۔ اِس کے بعد مسِیح کو رُوح القُدسّ کے ذریعہ اپنے لوگوں کے دلوں میں رہنا تھا۔ اَور یُوں اُن کا تعلق مسِیح کے ساتھ پہلے کی نِسبت جب وہ اُن کے ساتھ شخصی طور سے تھا۔ زیادہ ہوگیا۔ چونکہ مسِیح اُن کے مکانِ دل میں رہتا تھا۔ اِس لئے مُحبّت نور اَور قُدرت اُن لوگوں کے ذریعہ ظہُور پذیر ہوتی تھی۔ اَور لوگ دیکھتے ہی کہہ دیتے تھےکہ یہ یسُوع کے ساتھ رہے ہیں۔ اعمال۴:١۳TK 95.1

    مسِیح جو کچھ اپنے پہلے شاگردوں کے ساتھ تھا وہی کُچھ وہ آج بھی اپنے لوگوں کے ساتھ ہے۔ کیونکہ جب مسِیح نے خُدا سے یہ عرض کی تھی کہ مَیں صرف اِن ہی کے لئے درخواست نہیں کرتا۔ بلکہ اُن کے لئے بھی جو اِنکے کلام کے وسیلہ سے مُجھ پر ایمان لائیں گے یوحنّا١۷:۲۰۔ مسِیح نے ہمارے لئے دُعا مانگی اَور اُس نے یہ چاہا کہ ہم اُس کے ساتھ اُسی طرح ایک ہوں جَیسے کہ وہ خُدا کے ساتھ ایک تھا۔ یہ کیسا نادر اتحاد اَور کَیسی عجیب قربت ہے! مسیِح نے خود فرمایا ہے کہبیٹا آپ سے کُچھ نہِیں کر سکتا۔ سِوا اُس کے جو باپ کو کرتے دیکھتا ہَے۔ لیکن باپ مُجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہَے یَوحنّا۵:١۹، یوحنّا١۴:١۰۔ پس اِسی طرح اگر مسِیح ہمارے دِلوں میں متمکن ہو تو وہ ہم سے اپنی مرضی کے موافِق کام کرائے گا۔ کیونکہ ۔۔۔۔ وہنیّت اَور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادے کو انجام دینے کے لِئے پَیدا کرتا ہَے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلپیّوں ۲:١۳۔ جَیسے عمل اُسنے کئے تھے ویسے ہی ہم بھی کریں گے۔ اَور ہم میں وہی نمایاں ہوگی۔ پس یوں اُس سے اتحاد، تعلق، اُلفت اَور محبّت رکھتے ہُوئے۔ ہم اُس کے ساتھ جو سر ہے یعنی مسیح کے ساتھ پیوستہ ہو کر ہر طرح بڑھتے جائیں افِیسوں۴: ۱۵۔TK 96.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents