Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ۱۱ باب
    دُعا کرنے کا حق

    خُدااپنی قدرت کاملہ اَور مکاشفہ ، پروردگار ی اَور اپنے رُوح کی تاثیر سے انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن صِرف اتنا ہی کافی نہیں ہے۔ اِس کے ماسوا ہمیں لازم ہے۔ کہ ہم اپنے دِلوں کو خُدا کے روبروپیش کریں۔ رُوحانی زندگی اَور تقویت حاصل کرنے کے لئے۔ ہمیں آسمانی باپ کے ساتھ حقیقی رشتہ و تعلق پَیدا کرنا لازمی و ضررُوری ہے یہ تو مُمکن ہے۔ کہ ہمارے دلوں کا دھیان خُدا کی جانب ہو اَور ہم نے اُس کی عنایات اَور برکات پر غوروفکر بھی کِیا ہو۔ لیکن فی الحقیقت تقربِ آلہیٰ اَور نزدیکی پروردگار کے اصلی معنی یہ نہیں۔ خُدا سے یگانگت حاصل کر نے کے لئے اور اپنی زندگی کے متعلق اُس سے کہنے کے لئے ضرور کُچھ نہ کُچھ ہونا چاہیے۔ TK 118.1

    اپنے دِل کو خُدا کے روبرو اِس طرح کھول دینا ہے جَیسے کہ اپنے حقیقی دوست سے جِی کھول کر گُفتگو کی جاتی ہے۔ دُعاکا یہ منشاء نہیں ہے۔ کہ ہم خُدا سے اپنی حالت کا اظہار کرنے بیٹھیں کہ ہم کیا کُچھ ہَیں۔ بلکہ یہ کہ اُس سے برکت حاصل کر نے کے لئے تیار ہوتا ہے۔ دُعا خُدا کو ہمارے پاس نِیچے نہیں لاتی۔ بلکہ ہمیں خُدا تک اُوپر پہنچاتی ہے۔ TK 118.2

    جب مسِیح اِس دنیا میں تھا۔ تو اُس نے اپنے شاگردوں کو دُعا مانگنا سِکھایا تھا۔ اُس نے اُنہیں بتایا۔ کہ اپنی روزِمرّہ کی حاجتوں کو خُدا کے روبرُو پیش کِیا کریں اَور اپپنی تمام فکریں اَور نگرانی خدا کے ہاتھ میں سونپ دیں۔ اَور اُس نے اُن کو اُس کا پُورا پُورا اِطمینان کرادیا تھا۔ کہ تمہاری درخواستیں پُوری کی جائیں گی۔ اَور یہی اطمینان آج ہمارے لئے بھی ہَے۔ TK 119.1

    جب مسِیح آدمیوں کے درمیان رہتا تھا۔ تو وہ بسا اوقات دُعا میں مشغول رہا کرتا تھا۔ ہمارے شفیع نے اپنے کو ہماری احتیاج اَورکمزوریوں میں شامل کر لِیا اَور دُعا و التجا میں مصرُوف ہو کر اپنے باپ یعنی خُدا سے تازہ قوّت کی توفیق طلب کی۔ تا کہ فرائض کی بجا آوری میں آزمائش کے لئے مضبُوط و طاقت ور ہو۔ وہ سب باتوں میں ہمارا نمونہ ہے۔ اَور وہ ہماری کمزوریوں میں ہمارا بھائی ہے۔ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا۔ لیکن اُس بے گناہ کی ذات پاک گُناہ سے مبّرا رہی۔ اِس کی انسانیت نے دُعا کو لازمی اور ضرُوری ثابت کر دیا ہے۔ اُس کو اپنے باپ سے میل ملاپ اَور یگانگت میں لُطف اَور شادمانی حاصل ہوتی تھی۔ اَور اگر نجات دہندہ یعنی ابن خُدا کو دُعا کی اَحتیاج ہوئی۔ تو بھلانا تو ان گنہگار اَور خطا کار فانی انسان کو متواتر سرگرمی سے کیوں نہ دُعا کی حاجت ہوگی! TK 119.2

    ہمارا آسمانی باپ اپنی عنایات اَور برکات بکثرت ہم پر نازل کرنے کو تیاّر ہے۔ اب یہ ہمارا حق ہے۔ کہ ہم اُس لامحدود مُحبّت کے چشمہ سے بخُوبی پئیں اَور سیر ہوں۔ کیا یہ تعجب انگیز بات نہیں ہے۔ کہ ہم دُعا میں اتنی کوتاہی کرتے ہَیں! خُدا اپنے ناچیز سے ناچیز بچےّ کی عاجزانہ دُعا سُننے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ لیکن ہم اپنی احتیاج کے اظہار میں بہت ہی ٹال مٹول اَورسُستی کرتے ہَیں۔ آسمانی فرشتِے اِس لاچار اَور بے بس نوع انسان کی بابت جو مصیبتوں اَور خطروں کا شِکار ہے۔ کیا سوچتے ہوں گے۔ جب کہ خُدا کا دِل اپنی لا محدُود اُلفت و مُحبت کے ساتھ اُن لوگوں کے لئے تڑپتا ہے۔ اَور اُن کو اُن کے مانگنے اَور سوچنے سے زیادہ دینے کے لئے تیاّر ہے! مگر اِس پر بھی لوگ بالکُل ضعیف ا الایمان اَور نہایت ہی کم دُعا مانگنے والے ہَیں۔ فرشتے خدا کے سامنے سر بسجُود ہونا پسند کرتے ہَیں۔ اَور اُس کے نزدیک رہنے سے خوش ہَیں۔ اُن کے نزدیک سب سے بڑی مُسّرت اَور خُوشی کا باعث خُدا کے ساتھ رہنا ہے۔ لیکن انسان جنہیں اُس مدد کی جو صِرف خُدا ہی دے سکتا ہے۔ بے انتہاضرُورت ہے مگر معلُوم ہوتا ہے۔ کہ وہ خُدا کے رُوح کی تجّلی ۔ اَور نُور اَور اُس کی رفاقت کے بغیرچلنے پر رضامند ہیں۰TK 119.3

    جو لوگ دُعا سے غفلت کرتے ہَیں۔ اُن پر شیطان کی طرف سے تاریکی چھا جاتی ہے۔ اَور شیطان کی موہ لینے والی آزمائشیں انسان کو گناہ کے جال میں جکڑ لیتی ہَیں۔اَور یہ سب محض اِس لئے وقوع میں آتا ہے۔ کہ لوگ اُن حقُوق کو جو خُدا نے اُنہیں دُعا کی الہٰی بخشش میں عطا کئے ہَیں عمل میں نہیں لاتے ہَیں کیوں خُدا کے بچےّ اَور بچیاّں دُعا سے اتنا احتراز کرتے ہَیں۔ حالانکہ دعا ایمان کے ہاتھ میں بطور ایک اَیسی کُنجی ہے۔ جو آسمانی خزانوں کے قُفلوں کو جن میں خُدائے قادرِمُطلِق کی بے شمار برکتیں بھری پڑی ہَیں کھول دیتی ہے! تاوقتیکہ ہم لگاتار دُعا کی کوشش اَور نگرانی نہ کریں۔ یہ بہت ہی ممکن ہے۔ کہ ہم بے خبری کی دَل دَل میں دھنس جائیں۔ اَور سیدھے راستے سے بھٹک جائیں ہمارا دشمن ہر وقت یہ کوشش کرتا ہے۔ کہ ہماری رسائی خُدا تک نہ ہو۔ کہ کہیں اَیسا نہ ہو کہ ہم بڑی سرگرمی سے دُعا میں مشغُول ہوکر ایمان کے وسیلہ سے فضل اَور قوّت حاصل کر کے آزمائشوں کا مقابلہ کرنے لگیں۔ TK 120.1

    چند شرطیں اَیسی ہَیں کہ اگر ہم اِن کا لحاط رکھّیں۔ تو خُدا ہماری دُعاوٴں کو سُن کر جواب دے گا۔ ان میں سے اوّل یہ ہے۔ کہ ہم اپنے خُدا کی مدد کا محتاج جانیں۔ کیونکہ اُس نے وعدہ کِیا ہے۔ کہ میں پیاسی زمِین پر پانی اُنڈیلُوں گا۔ اَور خُشک زمین میں نَدیاں جاری کروں گا۔ یُسعیاہ۴۴:۳۔ جو لوگ راستبازی کے بُھوکے اَور پیاسے ہَیں۔ اَور جو خُدا کے طالب ہَیں اُن کو یقین رکھنا چاہیے۔ کہ وہ اچھّی طرح سے آسودہ کئے جائیں گے۔ اُنہیں رُوح سے معمُور ہونے کے لئے اپنے دِل کے دروازوں کو کھولنا چاہیے۔ ورنہ خُدا کی برکتوں سے محرُوم رہیں گے۰TK 121.1

    ہماری ضرورت خُود ہی ایک اعلیٰ دلیل ہے جو ہمارے حق میں بڑی صفائی کے ساتھ التجاء کرتی ہے۔ لیکن پھر بھی اِن سب باتوں کے لئے خدا کی طرف رجُوع کرنا بہت ضروری ہے۔ تا کہ وہ ہماری ضرورت پُوری کے۔ مانگو تو تُم کو دیا جائے گا۔ متی۷:۷ اَور جِس نے اپنے بیٹے ہی کو دریغ نہ کِیا۔ بلکہ ہم سب کی خاطر اُسے حوالہ کردیا۔ وہ اُس کے ساتھ اَور سب چیزیں بھی ہمیں کِسی طرح نہ بخشے گا۔ رومیوں۸۔۳۲TK 122.1

    اگر ہم اپنے دلوں میں گُناہ کو جگہ دیں۔ اَور عمدًا گُناہ سے لپٹے رَہیں۔ تو خُدا کبھی ہماری نہ سُنے گا۔ مگر شکستہ اَور تائب دل کی دُعا ہمیشہ مقبُول ہوتی ہے۔ جب تمام دانستہ بُرائیوں کی اصلاح کی جائے تو یقین کرنا چاہئے۔ کہ خُدا ہماری دُعاوٴں کا جواب دے گا۔ ہماری ذاتی قابلیّت ہمیں کبھی خُدا کی عنایتوںتک نہیں پہنچا سکتی۔ ہاں صرف مسِیح کی قابلیت ہی ہے جو ہمیں بچائے گی۔ اَور اُس کا خُون ہمیں تمام خرابیوں سے پاک و صاف کر ے گا۔ تاہم مقّبولیت حاصِل کرنے کے لئے۔ ہمیں ان شرائط کو پورا کرنا ہے۔ TK 122.2

    غالب آنے والی دُعا کا دُوسرا عنصر ایمان ہے۔ اِس لئے خُدا کے پاس آنے والے کو ایمان لانا چاہئے۔ کہ وہ موجُود ہَے۔ اَور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے۔ عبرانیوں١١:٦۔ مسِیح نے اپنے شاگردوں سے کہا۔مَیں تُم سے کہتا ہُوں۔ کہ جو کُچھ تم دُعا میں مانگتے ہو یقین کر و کہ تُم کو مِل گیا۔ اَور تمہارے لئے ہو جائے ۔ مرقس١١:۲۴۔ کیا ہم کو اُس کے کلام کا یقین ہَے؟ یہ یقین وسیع اَور بے سد ہے۔ کیونکہ جِس نے وعدہ کِیا ہے وہ بڑا صادق القول اور وفادار ہے۔ جو دُعا میں مانگتے ہَیں۔ وہ اُس وقت مقبُول نہ ہو۔ اَور ہم کو نہ مِلے تو بھی ہمیں یقین کرنا لازمی ہے کہ خُدا سُنتا ہے۔ اَور وہ ہماری دُعاوٴں کا جواب ضُرور دیتا ہَے۔ واقعی ہم اَیسے نافہم اَور کوتاہ اندیش ہَیں کہ بعض اوقات ہم ایسی ایسی چیزیں خدا سے مانگتے ہَیں۔ جو ہمارے لئے مفید اور برکت بخش نہیں ہوتی ہیں مگر خُدا وند ایسی چیزیں عطا فرماتا ہَے جو ہمارے لئے مفید ہوتی ہَیں۔ اگر ہماری کوتاہ نظری دُور ہو جاتی اَور ہماری آنکھیں ہر بات کی حقیقت اِسی طرح دیکھ سکتیں جَیسی کہ وہ اصل میں ہَے۔ تو ہم بھی ان ہی چیزوں کو مانگتے۔ اگر ہماری دُعاوٴں کے سُنے جانے میں دیر ہو تو ہمیں اُس وعدہ سے لپٹے رہنا چاہئے۔ کیونکہ ایک نہ ایک دن مقبُولیت کا وقت آہی جائے گا۔ اور جس برکت کی ہمیں بے حد ضرُورت ہے۔ وہ ضرُور ہم کو مِلے گی۔ لِیکن اِس امر کا دعویٰ کرنا کہ ہماری دُعا ہر ایک بات میں ہماری حسبِ منشاء اُسی وقت پُوری ہوجائے۔ نہایت گُستاخی ہے۔ خُدا عقل و دانش کا بڑامنبع ہے اِس لئے کہ اِس سے گُناہ اَور خطا کا امکان نا ممکن ہے۔ وہ ایسا نیک ہے۔ کہ وہ اُن لوگوں کو جو راہ راست پر چلتے ہَیں۔ بھلی چیزیں دینے میں ہرگر قاتل نہیں کرتا۔ اِس لئے اُس پر بھروسہ رکھنے میں خوفزدہ نہ ہونا چاہئے۔ خواہ آپ کی دُعا کا جواب فوراً مِلے یا نہ۔ آپ اُس کے وعدے پر پورا ایمان رکھیں۔ مانگو تو تمہیں دِیا جائے گا۔ متی۷:۷TK 122.3

    قبل اِس کے کہ ہم میں کامل طور پر ایمان پایا جائے۔ اگر ہم شکوک اَور خوف کا لحاظ کریں۔ اَور ہر ایک اَیسی بات کو جس کو روز روشن کی طرح بخوبی سمجھ نہ سکیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ تو ہمارا شک اَور بھی زیادہ بڑھتا جائے گا۔ لیکن اگر ہم یہ سمجھیں کہ ہم نہایت ہی ناتواں ہَیں۔ خُدا کے پاس امداد کے لئے آئیں۔ خاکساری میں کامِل ایمان اور اعتقاد سے اپنے اغراض اُس مالک کے رو برو پیش کریں۔ جو حاضر و ناظر اَور اپنی تمام خلقت کے احوال سے پوُرے طور سے واقف ہَے۔ اَور جِس کا علم لامحدود ہے اَور جو اپنے کلام سے سب پر حکُومت کرتا ہے۔ وہی اِس پر قادر ہے۔کہ ہماری دُعاوٴں کو بزرگی کا مرتبہ بخشے۔ اَور ہمارے قلوؔب کو منّور کرے۔ سچےّ دِل سے دُعا اَور مُناجات کے ذریعہ سے ہمارا اُس لامحدُود خدا وند سے تعلق پَیدا ہو جاتا ہَے۔ ممکن ہے کہ اُس وقت ہمارے پاس کوئی ثبوُت اِس امر کا نہو کہ ہمارا مُنجی ہم پر مہربانی کی نگاہوں اَور مُحّبت بھری نظروں سے جُھکا ہُوا ہَے۔ لیکن فی الحقیقت اَیسا ہی ہے۔ چاہے ہم اُس کی حرکات کو ظاہرہ طور پر دیکھ سکیں یا نہ دیکھ سکیں۔ مگر اُس کا دستِ شفقت ہم پر ہے۔ اَور اُس کی مُحبّت و مہربانی ہمارے شاملِ حال ہے۔ TK 124.1

    جب ہم خُدا سے رحم اَور برکات کے لئے مُلتجی ہوتے ہیں۔ تو ہمارے دِل میں مُحبّت اَور معافی کی رُوح ہونی چاہئے۔ ورنہ یہ دُعا ہم کِس مُنہ سے مانگ سکتے ہَیںTK 124.2

    جس طرح کہ ہم اپنے قرضداروں کو مُعاف کیا ہے۔ تُو بھی ہمارے قرض ہمیں معاف کرمتی٦:١۲۔ اگر ہم یہ چاہتے ہَیں کہ ہماری دُعائیں سُنی جائیں۔ تو ہمیں لازم ہے کہ ہم بھی دُوسروں کی خطائیں اِسی طریقے اَور کثرت سے معاف کریں۔ جَیسے کہ ہم اپنے گناہوں کی مُعافی کے خواہاں ہَیں۔ دُعاوٴں میں استقلال اَور ثابت قدمی مقبُولیّت کی شرط ٹھرائی گئی ہے۔ اگر ہم ایمان اَور تجربہ میں ترقّی کرنا چاہتے ہیں تو چاہئے کہ ہم دُعا مانگنے میں مشغُول رہیں﴿رُومیوں١۲:١۲﴾ دُعا کرنے میں مشغُول اَور شُکر گذاری کے ساتھ اُس میں بیدار رہیں کُلسّیوں۴:۳۔ پطرس نے ایمانداروںکو یُوں ہدایت کی ہَے کہ پس ہوشیار رہو اَور دُعا مانگنے میں تیار۔ پطرس۳:۷ پولُوس رسُول کہتا ہَے۔ کہ ہر ایک بات میں تُمہاری درخواستیں دُعا اَور مِنّت کے وسِیلے سے شکر گذاری کے ساتھ پیش کی جائیں۔ فلپیوّں ٦:۴۔ یہوداہ کے خط میں آیا ہَےرُوح القدّس میں دُعا کر کے . . . . . . . .خُدا کی محبّت میں قائم رہو۔ یہوداہ۲۰:۲١۔ بلا ناغہ خُٕدا اَور رُوح کے درمیان ایک نہ ٹوٹنے والا سِلسِلہ ہَے۔ اَور اسِی تعلق سے حیات کا چشمہ خُدا سے ہماری زندگیوں میں آتا ہے اَور ہماری زندگیوں سے پاکیزگی اَور نیکی صادر ہو کر خُدا کی طرف رجُوٕ کرتی ہَے۔ دُعا میں ہوشیاری اَور بیداری کی ضُرورت ہے۔ کوئی چیز آپکو اِس سے نہ روکے۔ ہر ممکن طریقہ کو کام میں لا کر اپنی روح اَور مسِیح کے درمیان تعلّق اَور رِشتہ کو قائم رکھّیں۔ جہاں کہیں دُعا اَور مُناجات کی جارہی ہو وہاں ضُرور شامل ہوں۔ جو لوگ فی الحقِیقت تقربِ آلہیٰ کے جویاں ہَیں وہ ضرُور دُعا اور مُناجات میں ثابت ہوں گے۔ اَور سرگرمی و مستعدی سے ہر ایک جائز اور ممکن فائدے کو حاصل کریں گے۔ وہ ہر ایک اَیسے موقع کو جس سے آسمانی روشنی اُن کے دلوں میں چمکنے کا موقع ہو۔ ہاتھ سے نہ جانے دیں گے۔ TK 125.1

    ہمیں اپنے گھرانے میں دُعا ومناجات جاری رکھنا چاہئے۔ اُس کے علاوہ علیحدگی میں جا کر دُعا مانگنا ترک نہ کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہی رُوح کی جان ہے۔ اگر دُعا سے غفلت کی جائے۔ تو رُوح خُوش حال نہیں ہو سکتی ہَے۔ جماعتی یا خاندانی دُعا ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ تنہائی میں اپنی رُوح خداوند کے رُوبرو پیش کر کے دعا مانگیں۔ پوشیدہ دُعا صرف دُعا سُننے والا خدا ہی سُنتا ہے۔ اُس کے سِوا اَور کِسی معمولی انسان کے کان میں اَیسی دُعائیں نہ پہنچائی جائیں۔ پوشیدہ دُعائیں آس پاس کے اثرات اَور فضولیات سے آزاد ہوتی ہیں۔ اِس طرح رُوح سنجیدگی اَور سرگرمی سے خُدا تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ وہ خُدا جو پوشِیدگی میں دیکھتا ہَے۔ اَور جِس کے کان اُس دُعا پر لگے رہتے ہَیں جو سچےّ دل سے کی جاتی ہے۔ اُس کی ذات پاک سے تسلیّ اَور اطمینان دُعا کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے۔ صِرف سادہ ایمان اَور تسکین کی بدولت رُوح کو خُدا سے تعلق حاصل ہوتا ہے۔ اَور خُدا کے نُور کی کرنیں مجتمع ہو کر رُوح کو اَیسی قوّت بخشتی ہیں کہ وہ ابلیس سے مقابلہ کرنے کی طاقت اَور مدد حاصِل کر لیتی ہے۔ خُدا ہماری قوّت و توانانی کا حصار ہے۔ TK 126.1

    اپنی خلوت گاہ میں دُعا کِیا کریں۔ اَور جب اپنے روزمرّہ کے کام کاج میں مصُروف و مشغُول ہوں۔ تو اُس وقت بھی آپ کے لئے باعث سلامتی ہَے کہ آپکے دل کی لَو خدا سے لگی رہا کرے۔ اسی طرح حسنُوک خُدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ دل ہی دل میں جو ُعا مانگی جاتی ہے۔ وہی خُدا کے تخت کے سامنے بیش قیمت بخُور کی طرح مہکتی ہے۔ جو دل اس طرح خُدا سے لگا ہو اُس پر شیطان غلبہ نہیں پا سکتا۔ TK 127.1

    کوئی وقت اَور مقام ایسا نہیں ہے۔ جہاں سے اِنسان دُعا نہ کر سکے۔ دُنیا میں کوئی شے اَیسی نہیں ہے۔ جو ہمارے دِلوں کو سرگرم رُوحانی دُعا کی طرف مائل ہونے سے روک سکے۔ جس حال کہ ہم اپنے کاروبارمیں مشغُول ہوں۔ یا بازار میں لوگوں کے مجمع میں گِھرے ہوں اُس وقت بھی ہم خُدا سے مُناجات کر کے الہیٰ رہبری کے لئےمِنّت کر سکتے ہَیں۔ اَورنحمیاہ نبی کی طرح جیسے اُنہوں نے ارتخششستاہ بادشاہ سے عرج کرتے وقت خُدا سے مناجات کی تھی۔ ہم بھی خُدا کے فضل کے لئے عرض کر سکتے ہَیں۔ ہم جہاں بھی ہوں خُدا سے دُعا کرنے کے لئے تنہائی کا موقع نِکال سکتے ہَیں۔ ہمیں اپنے دل کے دروازہ کو برابر کُھلا رکھنا چاہئے۔ اَور عالم بالائی کی طرف استدعا کرتے رہنا چاہئے۔ تاکہ آسمانی مہمان کی طرح مسِیح ہماری رُوح میں بسیرا کرے۔ TK 127.2

    گو ہمارے اِردگِرد بُری اَور ناقص ہوا تمام اطراف میں بھری ہو۔ تو بھی ہمیں اُس میں سانس لینے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ آسمانی صاف و شفاف ہواپر اپنے زندگی گُذاریں۔ سچّی دُعا میں اپنے دِلکر اپنے خُدا کی طرف بُلندکر کے ہم ہر ناقص تصّور اَور گندہ خیال کو روکنے کے لئے۔ ہر مُمکن طور سے دل کے بند دروازہ کو بندکر سکتے ہَیں۔ جن لوگوں کے دل خُدا وند کی برکات اَور امداد کے لئے کُھلے ہیں۔ وہ بُری کی بجائے مقدّس ہوا میں چلیں گے۔ اَور ہمیشہ خُدا کی یگانگت میں رہیں گے۔TK 127.3

    ہمیں مسِیح کی خُوبیوں کو زیادہ صفائی سے دیکھنا چاہیے۔ اَور ابدی چیزوں کی قدروقیمت زیادہ سمجھنے کی ضرُورت ہے۔ خدا پاکیزگی کی خُوبصورتی سے اپنے فرزندوں کے دلوں کو بھرتا ہے۔ اَور اِس کی تکمیل کے لئے ہمیں خُدا سے جو آسمانی چیزوں کا ظاہر کرنے والا ہَے۔ مُلتجی ہونا چاہئے۔ TK 128.1

    رُوح کو عالم بالا کی طرف رجُوع ہونے دیں۔ تاکہ خُدا آسمانی فضا میں سے سانس عطا کرے۔ ہم کو خُدا سے اَیسی قُربت حاصل کرنا چاہئے۔ کہ ہر غیر مترقبہ حادثہ کے موقع پر ہمارے خیالات فطرتاً اُسکی طرف اَیسے رجُوع ہُوا کریں جَیسے کہ پھُول قدرتی طور پر سوُرج کی طرف رجوُع کرتا ہَے۔ TK 128.2

    اپنی حاجتیں۔ ضرورتیں۔ رنج۔ فکریں۔اَور خوف و خطر خُد ا کے سامنے پیش کریں۔ کیونکہ اس طرح آپ نہ خُدا پر بوجھ ڈال سکتے ہَیں۔ اَور نہ اُس کو پریشان کر سکتے ہَیں۔ جِس نے آپ کے سر کے بالوں کو بھی گِن لِیا ہے۔ وُہ اپنے بچّوں کی ضرورت سے غافل نہ ہوگا۔ خدا وند کا بہت ترس اَور رحم ظاہر ہوتا ہے۔ یعقُوب۵:١١۔ ہمارے غموں سے بلکہ اُن کے ذکر سے بھی خُدا کے پُر مُحبّت دل پر اثر ہوتاہے۔ جو چیز آپ کے دل کو پریشان کئے ہُوئے ہے اُسے اُس کے پاس لے جائیں۔ اُس کے لئے کوئی چیز گراں بھاری نہیں وہ تمام عالموں کو برقرار رکھتا ہے۔ اَور اُن کا انتظام قائم کرتا ہے۔ جو چیز ہماری صُلح و سلامتی کے مُتعلّق ہو۔ وہ اُس کی نگاہ میں ادنی ٰ اَور ناچیز نہیں ٹھہرتی ہے۔ ہماری عملی زندگی کا کوئی باب بھی ایسا نہیں ہے۔ جس کو وہ نہ پڑھ سکے۔ کوئی مصیبت اَیسی نہیں جِسے وہ سُلجھا نہ سکے۔ اُس کے ادنی ٰ سے ادنی ٰ فرزند پر کوئی آفت، کوئی پریشانی اُس کی رُوح کو اذیت پہنچائے۔ کوئی سچّی دُعا اُسکے لبوں سے نکلے۔ کوئی اَیسی چیز جِس سے ہمارا آسمانی باپ واقف نہ ہو۔ اَور اس کا فوراً تدارک نہ کرے۔ وہ شکستہ دلوں کو شفا دیتا ہے۔ اَور اُن کے زخم باندھتا ہَے۔ زبور١۴۷:۳۔ خُدا کو ہر ایک بشر کی رُوح سے جُدا جُدا ایسا دِلی تعلق ہَے۔ کہ گویا کوئی اَور رُوح نہ تھی۔ جِس کے لئے اُس نے اپنے عزیز ترین بیٹے کو مرحمت فرمایا۔ TK 128.3

    مسِیح نے فرمایا ہے۔ کہ تُم میرے نام سے مانگو گے اَور مَیں تم سے یہ نہیں کہتا کہ باپ سے تُمہارے لئے درخواست کرُوں گا۔ اِس لئے کہ باپ آپ ہی تم کو عزیز رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اگر باپ سے کُچھ مانگو گے تو وہ میرے نام سے تُم کو دیگا۔ مَیں نے تمہیں چُن لِیا۔۔۔۔۔۔۔ تا کہ میرے نام سے جو کُچھ باپ سے مانگو وہ تُم کو دے۔ یُوحنّا١٦:۲٦،۲۷۔ باب ١۵:١٦۔ لیکن مسِیح کے نام سے مانگنے کے معنی اِس سے اپنی دُعاوٴں کے اوّل اور آخر میں اُس کا نام لے لِیا۔ کہِیں زیادہ ہیں لیکن یاد رہے کہ اِس منشاء یہ ہے۔ کہ مسِیح کے مزاج اَور رُوح میں دُعا کرنا ہے۔ اور جب کہ ہم اُس کے وعدوں کا یقین کرتے ہَیں۔ تو اُس کے فضل پر بھروسہ رکھ کر اُس کی خدمت میں مشغُول بھی رہنا ہے۔ TK 129.1

    خُدا یہ نہیں چاہتا کہ ہم میں سے کوئی فقیر یا تارک دُنیا ہو کر گوشہ نشین ہو جائے اور خانقاہوں میں راہب یا زاہد بن کر بیٹھے تا کہ دنیوٰی امور سے مُنہ موڑ کر محض عبادت میں مشغُول رہے۔ بلکہ مسِیح خُداوند کی مانند زنگی ہونی چاہئے۔ یعنی تنہائی اَور مجمع دونو ں میں بسر کریں۔ جَسے وہ کبھی تو پہاڑوں میں تنہائی کی غرض سے چلا جاتا تھا۔ اَور کبھی لوگوں کے بڑے بڑے مجمع میں موجوُد ہوتا تھا۔ جو شخص شب و روز دُعا کے سوا اَور کُچھ بھی نہیں کرتا ہے۔ وہ یقیناً تھوڑے دِنوں میں دُعا کرنا چھوڑ دے گا۔ یا اُس کی دُعائیں محض ایک رسمی طریقہ بن کر رہ جائیں گی ۔ جب انسان ملنساری اَور سماجی زندگی سے علیحدٰہ ہو جاتے ہَیں۔ اَور مسِیحی فرض ا َور صلِیب اُٹھانے سے کنارہ کش ہو جاتے ہَیں۔ جب وہ لوگ اپنے اُس آقا کے لئے دلچسپی اَور سرگرمی سے خدمت کرنا چھوڑ دیتے ہَیں۔ جس نے خود اُن کے لئے دلچسپی اَور سرگرمی سے خدمت کیہے۔ تو وہ دُعا کا اصلی مفہوم بُھو جا تے ہَیں۔ اَور اُن کے دل سے دُعا کی خواہش اَور رغبت جاتی رہتی ہَے۔ اُن کی دُعاوٴں میں خود غرضی اَور خود پسندی بھری ہوتی ہے۔ اَیسے لوگ نسل اِنسانی کی بھلائی اَور بہتری کے لئے کبھی دُعا نہیں مانگتے۔ اور نہ وہ مسِیح کی بادشاہت کی ترقی اَور اُس کے قیام کے لئے دُعا کرتے ہیں۔ تا کہ وہ طاقت پا کر خُوب کام کاج کر سکیں۔ TK 130.1

    جب ہم خُدا کی خدمت میں باہم مِل کر ایک دُوسرے کی ہمّت افزائی اَور حَوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ تو بڑا نقصان اُٹھاتے ہَیں۔ خُدا کے کلام کے حقائق اَور خُوبیاں ہمارے دلوں سے جاتی رہتی ہیں۔ پاک کرنے ولے اثر سے ہمارے دلوں کو تحریک اَور سرگرمیں حاصل نہیں ہوتی ہَے۔ اَور ہماری روحانیّت کمزور ہو جاتی ہے۔ ہم بحیثیت مسِیحی ایک دُوسرے سے ہمدردی اَور دل سوزی نہ کر کے بہت نُقصان اُٹھاتے ہَیں۔ جو شخص کِسی سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ وہ خُدا کےاُس ارادے کو جِس کے لئے اُس شخص کو خلق کیا ہَے۔ سلب کرتا ہَے۔ ہم میں سماجی و مِلنسار عناصر کی باقاعدہ بالیدگی اور نشوونما ہو تو ہم میں دوسروں کے لئے مُحبّت و ہمدردی پَیدا ہوتی ہے۔ اَور خُدا کی خدمت میں ہماری ترقی اَور قوّت کا مُوجب ہوتی ہے۔ TK 131.1

    اگر مسِیحی آپس میں برادرانہ اتحاد قائم رکھ کر خُدا کی مُحبّت کا تذکرہ اَور نجات کی بیش بہا صداقت کی بابت گفتگو کِیا کریں۔ تو خود اُن کے دِل تازہ ہوں گے اور وہ دُوسروں کو بھی تازگ بخشیں گے۔ ہم روز بروز اپنے آسمانی باپ کی بابت واقفیّت حاصل کرتے جائیں گے۔ اَور اُس کے فضل و جلال کا نیا نیا تجربہ ہمیں ہو جائے گا۔ تب ہم اُس کی مُحبّت کا ذِکر کرنے کی خواہش کریں گے۔ جب ہم اَیسا کریں گے تو ہمارا اپنا دل سرگرم اَور با ہمّت ہوگا۔ اگر ہم مسِیح کی با بت زیادہ خیال اَور زیادہ بات چیت کریں گے۔ ا َور اپنے مُتعلق کم خیال کریں گے۔ تو ہمیں اُس کی حضوُری بہت زیادہ حاصل ہوگی۔ TK 131.2

    اگر ہم خُداوند کا اُتنا ہی خیال کریں۔ جِتنا کہ وہ ہمارا خیال رکھتا ہَے۔ تو ہم اُسے ہر وقت اپنے دلوں میں رکھیں گے۔ اَور ہمیں اُس کی بابت بات چیت کرنے اَور اُس کی حمد و تعریف سے خُوشی و شادمانی ہوگی۔ حقیقی سرُور حاصل ہوگا۔ ہم کو دنیوی چیزوں سے محبّت اور دلچسپی ہوتیی ہے۔ اِس لئے ہم اُن کے مُتعلق گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ دوستوں کی بابت اِس لئےبات چیت کرتے ہَیں کہ اُن سے مُحبّت رکھتے ہَیں۔ ہمارے رنج وراحت کا تعلق اُن ہی سے ہے۔ لیکن اِن فانی دوستوں کی نسبت خُدا سے مُحبّت و پیار کرنے کے لئے ہمارے پاس ایک بہت ہی بڑا و عجیب سبب ہے۔ دُنیا میں رہ کر ہماری طبیعت کے لئے یہ ایک لازمی امر ہونا چاہئے۔ کہ ہم خُدا کے تصّور میں سب سے مقدم ٹھہرا کر اُس کی قُدرت قوّت ا َور خُوبیوں کا چرچا کریں۔ وہ نادر تعمتیں جو خُدا نے عطا کی ہیں۔ وہ اِس لئے نہیں ہَیں کہ ہم اُنہیں کے تخیلاّت میں اِس قدر مشغول رہیں۔ اَور یادِ خُدا سے غافِل ہو جائیں۔ اَور اُن ہی سے مُحبّت کرنے لگیں۔ بلکہ اِن چیزوں کے عطا فرمانے سے خُدا کا مقصد یہ ہے۔ کہ لوگ اپنے آسمانی باپ کے مشکور ہوں اُس سے تعلق پیدا کریں۔ اَور اُس کی مُحبّت کے رشتہ میں مُنسلک ہوں۔ ہم دُنیا کی چیزوں میں بے حد مشغول ہو گئے ہَیں۔ ہمیں لازم ہے۔ کہ اب ہم اپنی نظریں آسمانی ہیکل کے کُھلے ہُوئے دروازوں کی طرف بُلند کریں۔ جہاں کہ خُداوندتعالیٰ کا جلال مسِیح کے نُورانی چہرے سے مُنوّر ہے۔ اَور جو لوگ اُس کے وسلیے سے خُدا کے پاس آتے ہیں۔ وہ اُنہیں پُوری پُوری نجاب دے سکتا ہے۔ عبرانیوں۷:۲۵۔TK 132.1

    پس یہ ضروری ہے کہ ہم خُدا وند کی حمدوثناء زیادہ سے زیادہ کِیا کریں۔ خُدا وند کی شفقت کی خاطر۔ اَور بنی آدم کے لئے اُس کے عجائب کی خاطر اُسکی سِتائش کریں۔ زبور١۰۷:۸۔ سچّی اَور حقیقی عِبادت کے صرف یہ معنی نہیں ہَیں کہ ہم خُداوند سے ہمیشہ کُچھ مانگتے اَور پاتے ہی رَہیں۔ ہمیں اپنی طبیّعت اَیسی نہ بنانا چاہئے۔ کہ ہم ہمیشہ اپنی خواہشوں کے پُورا کرنے کی فِکر میں لگے رہیں۔ اَور کبھی اُن بخششوں کا خیال بھی نہ کریں۔ جو خُدا سے باافراط ملتی رہتی ہَیں۔ دُعا مانگنے میں زیادہ وقت صِرف اپنی حا جتوں کو خُدا کے روبرُو پیش کرنے میں صرف نہ کرنا چاہئے۔ بلکہ اُس کی بخششوں کے لئے مشکُور رہتے ہیں۔ تاہم ہم اُس کی عبادت سے احتراز اَور حمد و ثناء میں کوتاہی ہی کرتے ہَیں۔ پچھلے زمانہ مین جب بنی اسرائیل خُدا کی عِبادت کرنے کے لئے اکِٹھے ہوئے۔ تو خُدا نے فرمایا کہ تم خُداوند اپنے خُدا کے حضُور کھانا۔ اَور اپنے گھرانوں سمیت اپنے ہاتھوں کی کمائی کی خوشی بھی کرنا جِس میں خُدا نے تُجھ کو برکت بخشی ہو۔ اسِتثنا١۲:۷ پس جو کُچھ خُداوند کے اظہار اور جلال کے لئے کِیا جائے۔ وہ بصد خوشی و شُکرگزاری اَور حمدو ثناء کے گیت گا کر کِیا جائے نہ کہ رنج و ملال کے ساتھ بادِل نخواستہ۔ TK 133.1

    ہمارا خُدا ایک نہایت مہربان اَور رحیم باب ہے۔ اُس کی خدمت کو بوجھل اَور مشکل تصّور نہ کیا جائے۔ بلکہ اُس کے احکام کی بجاآوری اَور اُس کی فرمانبرداری کو باعثِ مُسّرت تصّور کرنا چاہئے۔ وہ خُدا جس نے اپنے فرزندوں کے لئے اتنی بڑی نجات مہیّا کر دی ہے۔ یہ نہیں چاہتا ہے ۔ کہ لوگ اُسے ظالم بادشا ہ اَور سخت گیر حاکم تصّور کریں۔ وہ تو لوگوں کا سب سے عزیز دوست ہے اَور جب لوگ اُس کی عبادت کرتے ہَیں۔ تو وہ اُ ن کے شامل حال ہو کر اُنکو تسلّی و تشفی ، برکت اَور اطمینان عطا فرماتا ہے۔ اَور اُن کے دِلوں کو مُحبّت اَور شادمانی سے معمُور کر دیتا ہے۔ خُدا چاہتا ہے کہ لوگ اُس کی عبادت سے دل لگا کر مسرُور ہوں اَور اُس کے احکام کی بجا آوری کو مُشکل نہ سمجھیں بلکہ اُس سے مِلے رہیں۔ وہ ی چاہتا ہَے کہ جو لوگ اُس کی عبادت میں شرکت کریں۔ وہ اپنے ساتھ اُس کی حفاظت اَور محبت کے بیش بہا خیالات رکھّیں۔ تا کہ وہ اپنی زندگی اَور روزمّرہ کے کاموں میں خُوش ہوں اَور اُن کر خُدا کا فضل نازل ہو اَور وہ ہر ایک کام میں وفادار اَور دیانت دار ثابت ہوں۔ TK 134.1

    ہمیں صلِیب کے چوگرد مجتمع ہونا چاہئے اَور یہ الابدی امر ہے کہ ہم قولاً فعلاً اَور ارادتاً مسِیح مصلُوب کو یاد کرتے رہیں۔ اپنے دِلوں کو اُس کی یاد سے مسرُور کِیا کریں۔ ہر ایک نعمت جو خدا کی طرف سے نازل ہوتی ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے۔ کہ ہم اُس کا خیال رکھیں۔ اَور جب اُس کی کامل مُحبت کا احساس ہو تو اپنے تمام امور کو اُن ہاتھوں میں سونپ دینا چاہیے۔ جو ہمار ے لئے صلِیب پر کِیلیں ٹھونک کر زخمی کئے گئے تھے۔ TK 135.1

    حمدوثناء کے پر لگا کر رُوح بہشت بریں کے نزدیک پہنچ سکتی ہے۔ خُداوند دوعالم کی تعریف آسمان پر گیتوں میں گائی جاتی ہے۔ اگر ہم بھی اسی طرح ُس کا شکریہ ادا کرتے ہَیں۔ تو گویا آسمانی جماعت کی عبادت میں شرکت کرتے ہیں۔ جو شکر گزاری کی قُربانی گُذارنتا ہے۔ وہ میری تمجید کرتا ہَے۔ زبور۵۰:۲۳۔ لہذا ہمارے لئے مناسب یہ کہ ہم سچیّ اَور پاک خوشی سے اپنے خالق کے حضور شُکر گزاری اور گانے کی آواز کے ساتھ﴿لسبعیا۵١۰:۳﴾ حاضر ہوں۔TK 135.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents