Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ۱۲ باب
    شک کا علاج

    اکثر مسیحی خصوصاً اَیسے شخص جنہیں مسیحی زندگی میں تھوڑا تجربہ ہوتا ہَے۔ بسا اوقات شک و شُبہ کا شکار ہو کر دور بہک جاتے ہیں۔ کتاب مقدّس میں بہت سی باتیں اَیسی ہیں جنہیں وہ نہ توہ سمجھتے ہَیں۔ اور نہ اُن کی تشریح کر سکتے ہیں۔ اَور اُنہی باتوں کو شیطان پیش کر کے کلامِ خُدا پر سے اُن کے ایمان کو ہلا دینے کی کوشش کرتا ہے۔ تا کہ وہ اُس کو غیر الہامی سمجھ کر اِنسان کے لئے خُد ا کامکاشفہ نہ سمجھیں۔ وہ اَیسے سوال کرتے ہیں کہ بھلا ہم کَیسے راہ حقّ پائیں؟ اگر کتابِ مقدّس فی الحقیقت کلامِ خدُا ہے۔ تو ہماری یہ پریشانی اَور شکوک کَیسے رفع ہوں؟TK 136.1

    خُدا ہمیں اُسوقت ایمان لانے کے لئے نہِیں کہتا جب تک کہ کافی اَور ٹھوس ثبوت نہیں دیتا۔ جِن پر ہم اپنے ایمان کی بُنیاد رکھّ سکیں۔ خُدا کی ہستی اَور اُ س کے خصائص و اطوار اَور اُس کے کلام پاک کی سچائی کے اثبات اَیسی گواہی پر منحصر ہَیں جو قوّت امتیاز میں بالکُل معقول ہے۔ اَور یہ شہادتیں بکثرت موجُو د ہَیں۔ تاہم خُدا وند عالم نے شکوک کا امکان بالکُل نہیں ہٹایا ہے۔ ہمارے ایمان کو دلیل اَور ثبوت پر نہیں بلکہ شہادت پر قائم ہونا چاہئے۔ جو شک کی تلاش کریں گے۔ اُن کو اَیسے موقع مِل جائیں گے۔ جہاں وہ شک کر سکیں۔ لیکن جو لوگ فی الحقیقت سچائی ا َور حقیقت کے خواہاں اَور جویاں ہیں اُنہیں سینکڑوں شہادتیں و گواہیاں ملیں گی۔ جب پر اُن کے ایمان کی مضبوط و مستحکم بنیاد رکھیّ جا ئے گی۔ TK 136.2

    محدود دماغوں سے یہ اسرار بالکُل نا ممکن ہے۔ کہ ہستی غیر محدود﴿یعنی خُدا﴾ کے اطوار و افعال کو پُوری پُوری طرح سمجھ سکیں۔ عقلمند سے عقلمند اَور عالم سے عالم شخص کی عقل کے سامنے بھی خُدا کی پاک ذات پردہ میں پوشیدہ رہتی ہے۔ کیا تُو تلاش سے خُدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادر مطلق کا بھید کمال کے ساتھ پا سکتا ہے؟ وہ تو آسمان کی طرح اُونچا ہَے۔ تو کیا کر سکتاہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تو کیا جان سکتا ہے؟ ایوب١١:۸،۷TK 137.1

    پولوس رسُول فرماتے ہیں کہ واہ!خُدا کی دولت اَور حکمت اَور عِلم کیا ہی عمیق ہَے!اُس کے فَیصلے کِس قدر ادراک سے پرے اَور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہَیں! رومیوں١١۔۳۳۔ اَور صداقت اَور عدالت اُس کے تخت کی بنیاد ہیں زبور۹۷:۲TK 137.2

    ہم یہاں تک اُس کے تعلقات کو جو وہ ہم سے رکھتا ہَے۔ سمجھ سکتے ہَیں اَور اُن مقاصد کو جو اُسے متحرک کرتے ہیں۔ پہچان سکتے ہَیں۔ جن کے ذریعہ سے وہ ہمارے ساتھ سلُوک کرتا ہَے۔ تا کہ ہم اُس کی لا محدود اَور بے انتہا محبّت اور رحم کو جو اُس کی قُدرت سے وابستَہ ہَیں دیکھ سکیں۔ ہم خُدا کے اِرادوں میں سے جِتنا ہماری بہتری و بہبُودی کے لئے ہے بخوبی سمجھ سکتے ہَیں۔ اَور اُس کے آگے جاننے کے لئے ہمیں اُس قادرِ مُطلق کے دستِ قُدرت اَور اُس کے محبّت بھر دل پر توکل رکھنا چاہئے۔ TK 137.3

    جَیسے محدودالعقل اِنسان خُدا کے بھیدوں سے پُورے طَور پر واقف نہیں ہو سکتا ہے۔ اُسی طرح اُس کا پاک کلام بھی پُر معنٰی ہے۔ جس کو محدود اِنسان سمجھ نہیں سکتا ہے۔ گُناہ کا اِس دُنیا میں داخل ہونا۔ مسیح کا مجسّم ہونا۔ نئی پیدائش۔ قیامت اَور اِن کے علاوہ اَور بہت سے مضامین بائبل مُقدّس میں ایسے ہَیں۔ جو انسانی عقل و فہم سے باہر ہَیں۔ اِس لئے اِنسان نہ تو اُن کی تشریح کر سکتا ہے۔ اَور نہ اُن کو پُورے طَور سے سمجھ سکتا ہے۔ چونکہ ہم خُدا کے پاک کلام کے بھیدوں کو نہیں سمجھ سکتے ہَیں۔ اِس لئے یہ کوئی سبب نہیں کہ ہم خُدا کے کلام پر شک کریں۔ مادی دُنیا جِس میں ہم بستے ہیں۔ اِس میں ہمارے چاروں طرف سینکڑوں باتیں ایسی ہَیں جن کو ہم مُطلق نہیں سمجھ سکیتے۔ زندگی کی سب سے چھوٹی چھوٹی مخلوقات اَیسی ہیں۔ کہ دانا و عالم اَور قابل فلسفہ دان اُن کو نہیں سمجھ سکتے۔ چاروں طرف ایسی باتیں ہَیں ۔ جو ہماری عقل و سمجھ سے باہر ہیں۔ پس جب ہماری دُنیا میں یہ حال ہے ۔ تو کیا تعجب ہے کہ روحانی عالم میں بہت سی بھید کی باتیں ہوں جو ہماری سمجھ سے باہر ہوں؟ فی الحقیقت بات یہ ہے کہ انسان کی دماغی کمزوری اور تنگ نظری ہی اِس مُشکل کی وجہ ہَے۔ خُدا نے اپنے کلام میں بے شمار شہادتیں پیش کی ہَیں۔ جن سے ہم معلوُم کر سکتے ہَیں کہ وہ الہامی ہَیں۔ اَور چونکہ ہم اِس کے ساردے بھید نہیں سمجھ سکتے۔ اِس لئے چاہئے کہ ہم اپنے دِل میں پاک کلام کے متعلق شک و شبہ نہ رکھّیں۔ TK 138.1

    پطرس رسوُل فرماتے ہیں۔ کہ کلام ربّانی میںبعض باتیں اَیسی ہَیں ، جن کا سمجھنا مشکل ہَے۔ اَور جاہل اَور بے قیام لوگ اُن کے معنوں کو بھی۔۔۔۔کھینچ تان کر اپنے لئے ہلاکت پیدا کرتے ہیں۔ ﴿۲پطرس۳:١٦﴾ چونکہ کتاب مقدّس میں اَیسے مقامات ہَیں۔ جب کا سمجھنا مُشکل ہے ۔ اس لئے منکر لوگوں کا یہ دعویٰ ہے۔ کہ نوشتوں کے جھُوٹے ہونے کے ثبوت ہیں۔ مگر بر عکس اِن کے یہ مُشکل مقامات ہی بائبل کے الہامی ہونے کے اثبات ہَیں۔ اگر اُس میں الہیٰ امور صرف اَس قدر مذکور ہوں جتنے کہ ہم آسانی سے سمجھ سَکتے ہَے۔ اور اگر خُدا کی عظمت اَور بزرگی کا اُتنا ہی تذکرہ ہو جِتنا کہ محدود عقل بخوبی جان سکتی ہے۔ تو پھر کتاب مقدّس میں آلہٰی اختیار کے اثبات ہرگز نہ ہوں گے۔ بلکہ بات یہ ہے کہ کِتاب مُقدّس کے مظامیں کی عظمت اَور بَھید ہی ہَیں کہ جو انسان میں ایمان پیدا کرتے ہَیں۔ کہ یہ خُدا کا کلام ہے۔ TK 139.1

    کتاب مقدّس تمام صداقتوں کو ایسی سادگی مُنکشف کرتی ہے اَور انسان کی دلی خواہشات کو اَیسی تکمیل کے ساتھ پُورا کرتی ہے۔ کہ بڑے تعلیمیافتہ اَور فاضل حیران ہو جاتے ہَیں۔ اَور اِن کی حیرانی کا باعث ہوتا ہے کہ کِس طرح یہ غریب اور معمولی تعلِیم یافتہ انسان کو مدد دیتی ہے۔ کہ وہ راہِ نجات سے باخبر ہو جائے۔ تو بھی اِن سادگی آمیز بیانوں میں صِداقت اعلیٰ ترین اَور اِنسان کے فہم اور ادراک اور سمجھ سے اِس قدر بالا ترین مضامیں پائے جاتے ہَیں۔ کہ ہم اُن کو صرف اِس لیے قبول کرتے ہَیں۔ کہ خُدا ہی نے اُنہیں فرمایا ہَے۔ یُوں تدبیر تجات یعنی مسیح کے کفّارہ سے نجات کی تجویز ہمارے سامنے کُھل جاتی ہے۔ تا کہ ہر ایک انسان کو وہ اقدام معلوم ہو جائیں۔ جو اُسے تو بہ میں خُدا کی طرف اَور ایمان میں مسیح کی طرف اُٹھانے ہیں۔ تا کہ وہ خُدا کے مقرّرہ انتظام کے مطابق نجات حاصل کر لے۔ تاہم اِن صداقتوں میں جو باآسانی سمجھ میں آسکتی ہَیں اَیسے بھید چُھپے ہوئے ہیں۔ جو اُس کے جلال میں وابستہ ہَیں۔ یہ ایسے بھید ہَیں جو کھوج و تلاش سے دماغ سے بعید ہوتے ہَیں۔ لیکن سچّے کھوجنے والے کے دل میں خَوف تعظیم اَور ایمان پَید ا کر دیتے ہیں۔ اَور جِس قدر وہ کلامِ پاک کی جُستجو میں عر ق ریزی کرتا ہے۔ اَسی قدر اُس کا دِل اس بات کا قائل ہو جاتا ہے کہ یہ زندہ خُدا کا کلام ہے۔ اَور اِس آلہیٰ مُکاشفہ کے سامنے اُسے اِنسانی عِلم و دانش اَور دلیل و حجّت ہیچ و ناچیز نظر آتے ہیں۔ TK 139.2

    اس بات کا اقرار کرنا۔ کہ کلامِ پاک کی اعلیٰ صداقتیں ہماری سمجھ میں پوُرے طور سے نہیں آسکتیں ہَیں۔ اِس امر کے مترادت ہے کہ محدود دماغ غیر محدود وجوُد کو پُور ے طور سے سمجھنےسے قاصر ہَے اَور محدود العقل اِانسان اس عالم الغیب کے مقاصد مو سمجھنے سے قاصر ہَے۔ TK 140.1

    چو نکہ مُنکر اَور شکیّ خُدا کے کلام کی تہ تک نہیں پہنچ سکتے ہَیں۔ اس لئے وہ خُدا کے کلام سے مُنحرف ہو جاتے ہَیں۔ اَور جِتنے لوگ کتاب مقدّس کے ماننے کا دعویٰ کرتے ہَیں۔ وہ سب کے سب اُس خطرے سے محفوظ نہیں ہیں۔ رسُو ل مرماتا ہے کہ اے بھائیو!تُم میں سے کِسی کا اَیسا بُرا اَور بے ایمان دِل نہ ہو جو زندہ خُدا سے پِھر جائے۔ عبرانیوں۳:١۲ کلامِ خُدا کو نہایت گہری نظر سے دیکھنا اَور اُس کی تعلیم پر غور کرنا نہایٹ ضُروری ہے۔ بلکہ خُدا کی تہ کی باتوں پر بھی جہاں تک کہ وہ مُنکشف کی گئی ہَیں۔ نظر غور رہنا چاہئے۔ جبکہ غیب کا مالک تو خُدا ہی ہے پر غیب کی باتیں جو ظاہر کی گئیں ہیں۔ وہ ہمارے لئے ہیں۔ استثنا۲۹:۲۹۔ لیکن شیطان کا کام دماغ کی محقق قوّتوں کو اُلٹا کرنا ہَے۔ اَور بعض احباب کے دل میںTK 141.1

    کِتاب مُقدّس کی سچائی کی تحقیقات کرنے میں کُچھ نہ کُچھ فخرِوابستہ ہوتا ہے جب اِنسان کتاب مُقدّس کے ہر حِصّہ کو اپنی تسلیّ سے سمجھ نہیں سکتا تو بے صبر اَور مایوس ہو جاتا ہَے اَور اُسکو یہ کہتے شرم آتی ہَے۔ کہ یہ کلام الہامی میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اَور وہ اُس وقت تک صبر اَور تحمل کے ساتھ مُنتظر رہنا گوارا نہیں کرتا۔ جس وقت کہ خُداوند اپنی صداقت اَور سچائی کو اُس پر ظاہر کرنا مناسب نہ سمجھے وہ سوچتا ہے کہ اُس کی عقل ہر صُورت سے اِس قابل ہے کہ وہ کتاب الہامی کو بخوبی سمجھ سکے۔ اَور اِس میں ناکام ہر کر وہ اُس کے الہامی ہونے سے قطعی منحرف ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ آج کل ہماری دُنیا میں بہت سے اَیسے قیاس اَور مقبُول مفرُوضہ تعلییمات مذہبی ہیں۔ جو مانی جاتی ہَیں کہ یہ بائبل سے اخذ ہیں۔ حالانکہ بائبل سے اُن کو انس بھی نہیں۔ بلکہ وہ اُس کے بالکُل خلاف ہَیں۔ یہی تعلیمات بہت سے لوگوں کے دلِوں میں قِسم قِسم کے شکُوک پَیدا ہونے کی وجوہات ہَیں۔ لِیکن اِن شکوک کا الزام کلام پاک پر کِسی طرح عائد نہیں ہو سکتا ہے۔ بلکہ اِنسان ہی کی اُلٹی تعلِیم پر اس کا دارومدار ہے۔ اگر یہ خُدا کی مخلُوق کے قبضہ قُدرت میں ہوتا کہ خُدا کی ذات پاک اَور اُس کی قُدرت کی پُوری پُوری شناخت حاصل کر سکے تو کیا ہوتا۔ اُس کے بعد کیا نتیجہ نِکلتا سِوائے اس کے کہ اُس کو حق کی تلاش کا آئندہ موقع نہ ملتا اَور نہ وہ اپنی واقفیت وعلم میں کُچھ اَور ترقی کر سکتا اَور نہ اُس کے دل و دماغ کو ترقیّ نصیب ہوتی۔ خُداکی ہستی ایک اعلیٰ وجُود و متصوّر نہ ہوتی اَور اِنسان عِلم و اقفیّت کی حد تک پہنچ کر ترقیّ کرنا چھوڑ دیتا۔ پس آئیے خُدا کا شکر ادا کریں۔ کہ ایسا نہیں ہَے۔ TK 141.2

    خُدا لا محدود ہے۔جس میں حکمت اَور معرفت کے سب خزانے پوشِیدہ ہَیں۔ کُلسیوں۲:۳ انسان ہمیشہ تک اُس کا جویاں اَور طالب رہے تو بھی اُس کی حکمت اَور نیکی اَور قدرت کے خزانے ہرگز خالی نہ ہوں۔ خُدا چاہتا ہے کہ اُس کے کلامِ پاک کی صداقت اُس کے بندوں پر اِس زندگی میں بھی مُنکشف ہوتی جائے۔ اَور اُس اِنکشاف کا صِرف ایک ہی ذریعہ ہَے کہ ہم خُدا کے کلام کو اُسی پاک رُوح سے جس سے یہ کلام عطا ہوُا ہَے۔ سمجھنے کی سعی کریں۔ کیونکہخُدا کے رُوح کے سوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا ہے۔ کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خُدا کی تہ کی باتوں کو بھی دریافت کر لیتا ہے۔١۔کرنتھیوں۲:١۰،١١۔ اَور نجات دہندہ نے اپنے لوگوں سے یہ دعدہ کیا تھا ۔ کہ جب وہ یعنی رُوح حق آئے گا۔ توتُم تمام سچائی کی راہ دِکھائے گا۔ اِس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کُچھ سُنے گا وہی کہے گا۔۔۔۔۔۔ اِس لئے کہ مجھ ہی سے حاصلکر کے تمہیں خبر دیگا۔ یوُحنّا١٦:١۳،١۴۔TK 142.1

    خُدا یہ چاہتا ہے کہ انسان اپنی عقل اَور تحقیقات کی قوّت کو کام میں لائے کِتاب مقدّس کی تلاوت اَور اس پر غور و خوض کرنا دُنیا بھر کی دُوسروی کتابوں کے پڑھنے سے زیادہ دماغ کو مضبوط اَور منّور کرے گا۔ لیکن ہمیں اپنی دماغی قوّت کو ایک خُدا نہیں بنانا چاہئے۔ کیونکہ وہ انسان کی کمزور اَور ناتوانی کے ماتحت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پاک کلام کے سمجھنے میں ہماری سمجھ پر اندھیرا چھا جائے۔ اَور پھیر چھوٹی سے چھوٹی صداقت بھی ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ اِ س لئے ہمیں بچّوں کی طرح سادگی۔اَور ایمان چاہئے اَور ہر وقت سیکھنے میں مُستعد و آمادہ رہنا اور ہر آن مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔ خُدا کی حِکمت و قُدرت کا احساس اَور اُس کی عظمت کی پُوری واقفیت کے سمجھنے میں اپنی نا اہلی کا احساس ہمیں حلیمی و فروتنی پر آمادہ کرے کہ ہم اُس کی حضُوری میں ظاہر ہوتے وقت اُس کے کلام کو تعظیم وہ عِزّت سے کھولیں۔ جب کتابِ مُقدّس زیر نظر ہو تو چاہئے۔ کہ ہماری سمجھنے کی قوّت اُس کے اعلیٰ اختیار کے ماتحت رہے۔ اَور دِل و عقل دونوں اُس وجُود کے رو برُو سر جُھکاتے رہَیں۔ جِس نے فرمایا کہ میں جو ہوں سو میں ہوں۰TK 143.1

    بہت سی باتیں کِتاب مقدّس میں اِیسی ہِیں۔ جو بظاہر دشوار اَور دھندلی نظر آتی ہَیں۔ لِیکن خُدااُن باتوں کو لوگوں پر مُنکشف کر دیتا ہے۔ جو اُ س سے سمجھنے کے خواستگار ہو تے ہَیں۔ لیکن رُوح القُدس کی تائید اَور ہدایت کے بغیر ہم بائبل کے صفحوں کی اُلٹ پلٹ تشریح کر لیں گے۔ بسا اوقات بائبل کی بکثرت تلاوت بجائے فائدہ کے نُقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ جب خُدا کا کلام تعظیم و دُعا کے بعد کھولا جاتا ہے۔ یا پڑھنے والے کا شوق اَور خیال خُدا کی طرف مائل نہیں ہوتا یاخُدا کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا تو انسان کا ذہن کُند ہو جاتا ہے۔ اور بائبل مقدّس کی ہر تلاوت سے دہریت اَور شک بڑھتا ہے۔ دشمن یعنی شیطان انسان کے خیالا ت کو قابو میں کر کے پاک کلام کی تشریح و تعبیر میں غلط اَور اُلٹ پلٹ مشورہ دیتا ہے۔ جب کبھی قول و فعل سے انسان خُدا کی مطابقت کی تلاش نہیں کرتا۔ تو چاہے کیسا ہی عالم و فاضل کیوں نہ ہو۔ وہ ضرور کلام پاک کے سمجھنے میں غلطی کرے گا۔ اَور اُس کی تشریحات پر بھروسہ کرنا محفُوظ نہیں۔ جو لوگ کتابِ مُقدّس کو صِرف اِس غرض سے پڑھتے ہَیں۔ کہ اختلافات اَور اعتراضات تلاش کریں۔ اُن میں رُوحانی دانش اوربینائی مُطلق نہِیں۔ غلط خیال کے سبب سے ایسے لوگ نہایت سیدھی سادھی اَور صاف عبارت میں شکوک کی باتیں پائیں گے۔ TK 144.1

    یہ لوگ خواہ کَیسی ہی بناوٹ کریں۔ اَور واقعات کو کَیسا ہی چُھپائیں۔ مگر اکثر شک اَور شبہ کی عموماً خاص وجہ گُناہ کی مُحبّت ہُوا کرتی ہے۔ پاک کلام کی تعلیم اَور بندشیں غُرور اَور گُناہ کو پسند کرنے والے قُلوب کو ہرگز پسند نہیں آتی ہَیں۔ اَور جو خُدا کے کلام پر عمل کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ ضُرور خُدا کے کلام کی صداقت پر شک کرنے لگتے ہیں۔ سچائی کو سمجھنے کے لئے ہمارے دِل میں سچیّ خواہش ہونی چاہئے اَور اُس پر عمل کرنے کے لئے دل سے رضامندی ہونی چاہئے۔ پس جو کوئی اَس طبیعت اَور اِس طور پر کتابِ مُقدّس کی تلاوت کرے گا۔ وہ ضُرور بہت سے ثبوُت اَیسے پائے گا۔ کہ یہ کتاب مُقدّس خُدا کا کلام ہے اور اُسکو صداقت کی اَیسی سمجھ عطا ہوگی۔ جو اُسے نجات کے لئے عقلمند بنائے گی۔ TK 145.1

    مسیح کا قَول ہَے۔ کہ اگر کوئی اُسکی مرضی پر چلنا چاہے۔ تو وہ اِس تعلیم کی بابت جان جائے گا۔ یُوحنّا۷:١۷۔ جو باتیں آپ کے قیاس و فہم سے دُور ہَیں۔ اُن کے لئے نکُتہ چِینی اَور حُجت کرنے سے بہتر یہ ہَے۔ کہ اُس نور کی طرف متوّجہ ہوں جو آپ پر چمکتا ہے۔ اَیسا کرنے سے آپ بکثرت نُور اَور روشنی حاصل کریں گے۔ ہر ایک فرض منصبی کو جو آپ پر ظاہر ہو چُکا ہَے۔ مسیح کے فضل کی بدولت بجا لائیں اگر آپ اَیسا کریں گے۔ تو جِن باتوں کی بابت اب آپ کو شک ہِے۔ اُن کو سمجھنے اَور اُن پر عمل کرنے میں آپ کو مدد ملے گی۔TK 145.2

    اَیسی شہادت یعنی تجربہ کی شہادت سے ہر شخص خواہ عالم ہو یا جاہل واقف ہَےخُدا ہمیں اِس لئے بلاتا ہے کہ اپنے کلام کی حقیقت اور اپنے وعدوں کی صداقت کو ہمارے مفید مطلب ثابت کردے۔ وہ کہتا ہے کہآزما کر دیکھو کہ خُدا کیسا مہربان ہے۔ زبور۳۴:۸۔ بجائے اِس کے کہ اوروں کی باتوں پر اعتبار کیا جائے چاہئے کہ ہم خود اِس کے مزے سے واقف ہوں۔ اَور بموجِب اس نیک قاعدے کے کہ مانگو تو پاوٴ گےیُوحنّا١٦:۲۴۔ اُس کے قول و قرار ضرور پورے ہوں گے اُن کے پوُرے ہونے میں نہ کبھی غلطی ہوئی ہے ۔ نہ ہو سکے گی۔ جتنی زیادہ مسیح کی قُربت اَور اُسکی مُحبّت کی پُوری شادمانی نصیب ہوگی۔ اُتنی ہی عظمت اور تاریکی مسیح کے نُور سے رفع ہوگی۔ TK 146.1

    پولوس رسُول فرماتے ہیں۔ کہ خُدا نے ہم کو تاریکی کے قبضے سے چھڑا کر اپنے عزیز بیٹے کی بادشاہی میں داخل کِیاکُلسیوں١:١۳۔ اَور ایک شخص جو موت سے گُذر کر زندگی میں داخل ہُوا ہے۔ اس نےاِس بات پر مہر کی ہے کہ خُدا سچاّ ہے یُوحنّا۳:۳۳۔اَور وہ اس کی تصدیق کرتا ہے کہ مُجھے جس امداد کی ضرورت تھی وہ مسیح یسُوع میں حاصل ہو گئی ۔ ہر ایک احتیاج پُوری اَور رُوح کی بھُوک رفع ہُوئی۔ اور کِتاب مقدّس اب میرے لئے خُداوند مسیح کا مکاشفہ ہے۔ کیا آپ مُجھ سے یہ پُوچھتے ہَیں۔ کہ کیوں میں یسُوع مسِیح پر ایمان رکھتا ہُوں؟ اِس کا جواب یہ ہے۔ کہ وہ میرے لئے الہیٰ منجیّ ہے۔ میں کتاب مقدّس کو کیوں مانتا ہوں۔ اِس لئے کہ اِس مٰن میرے لئے خُداوند کی آواز پائی جاتی ہِے۔ ہمارا حق یہ ہے کہ کتابِ مقدّس کے سچےّ ہونے کی گواہی ہماری زندگی سے ظاہر ہو۔ کہ یسُوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے۔TK 146.2

    پطرس بھائیوں کو نصیحت کرتا ہے کہ بلکہ ہمارے خُدا اَور مَنجی یُسوع مسیح کے فضل اَور پہچان میں بڑھتے جاوٴ۔۲پطرس۳:١۸ ۔ جب خُداکے بندے فضل میں ترقیّ کرتے جاتے ہَیں۔ تو وہ متواتر کلام ربانیّ کے سمجھنے کی توفیق حاصل کرتے رہیں گے۔ اَور وہ اُس کی صداقتوں سے نئی روشنی اَور خوبصورتی پاتے رہیں گے۔ تواریخ کُلیسیا سے عیاّں ہے ۔ کہ تمام زمانے میں یہ با ت سچ رہی ہے۔ اَور اِسی طرح دُنیا کے آخر تک ہوتا رہے گالیکن صادقوں کی راہ نورِ سحر کی مانند ہے۔ جِس کی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔ امثال۴:١۸۔ TK 147.1

    ایمان کی آنکھوں سے ہم عاقبت کو دیکھیں اَور عقل و ذہن کی ترقیّ کے لٕئے خُدا کے وعدہ پر بھروسہ رکھّیں۔ انسانی قابلیت الہٰی قابلیت سے ملتی رہے اَور رُوح کی تمام قوتیں نور کے چشمے سے مُتعلق کی جائیں۔ ہمیں اِس لئے شادماں و خوش ہونا چاہئے۔ کہ خُدا کے انتظام میں جن باتوں کا سمجھنا ہمارے لئے مُشکل معلُوم ہوتا تھا۔ اورپریشان کُن تھا۔ وہ سب کی سب ہم پر صفائی سے ظاہر کرد ی جائیں گی۔ جو باتیں اب سمجھ میں نہیں آتی ہیں۔ وہ اس وقت صریح و صاف ہو جائینگی۔ اورجہاں ہمارے دماغ حیران ہو کر کُچھ ٹوٹے پُھوٹے اِرادے اور مقاصد کے علاوہ کُچھ نہیں دیکھتے تھے۔ وہاں ہمیں پوری عظمت اور کامِل یگانگت نظر آئے گی۔اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دکھائی دیتا ہے۔ مگر اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے۔ اِس وقت میرا عِلم ناقص ہے۔ مگر اُس وقت اَیسے پُورے طَور سے پہچانوں گا۔ جَیسے مَیں پہچانا گیاہوں۔ اکرنتھیوں١۳:١۲۔TK 147.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents