Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

چرچ کے لئے مشورے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    مسیح خداوند اور شیطان کے درمیان ایک عظیم جنگ کی رویا

    مارچ ۱۸۵۸ ء کے وسط میں امریکہ کے مشرقی حصہ میں ایک اتوار کی شام کو ایک دیہاتی اسکول عبادت کرنیوالے مردوں اور عورتوں سے بھرا ہوا تھا ۔ ایلڈر جیمز ہوائٹ ایک نوجوان کی رسم ِجنازہ ادا کرتے ہوئے درس دے رہے تھے ۔ جب وہ درس دے چکے تو مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے متوفی کے پس ماندگان کو تسلی بخش الفاظ کہنے کی ضرورت محسوس کی ۔ اور کھڑے ہو کر ایک دو منٹ تک کلام کرنے کے بعد دفعتاً رک گئیں ۔ لوگ مزید الفاظ سننے کیلئے ان کو بغور تکنے لگے ۔ وہ یہ الفاظ سن کر حیران رہ گئے”جلال“ ”جلال“ یہی لفظ تین مرتبہ دہرایا گیااور ہر مرتبہ زیادہ زور سے کہا گیا، مسز ہوائٹؔ صاحبہ رویا میں تھیں ۔ CChU 5.1

    ایلڈر ہوائٹ نے لوگوں کو ان رویاؤں کے متعلق بتایا جو مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو دکھائی گئی تھیں اور بیان کیا کہ مسز ہوائٹؔ صاحبہ پر سترہ برس کی عمر سے رویائیں نازل ہو رہی ہیں ۔ اور مزید فرمایا کہ اگرچہ ان کی آنکھیں کھلی تھیں اور بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ دور خلا میں کسی چیز کو غور سے دکھ رہی ہیں ، تاہم وہ اپنے ماحول سے بالکل بے خبر تھیں اور نہ جانتی تھیں کہ ان کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ انھوں نے گنتی ۴:۲۴ اور ۱۶ کا حوالہ پیش کیا جہاں ہم ایک شخص کے متعلق پڑھتے ہیں جو”خدا کی باتیں سنتا ہے اور سجدہ میں پڑا ہوا کھلی آنکھوں سے قادرِمطلق کی رویا دیکھتا ہے“۔ CChU 5.2

    انھوں نے کہا کہ وہ رویا کی حالت میں سانس نہیں لیتیں اور پھر دانی ایلؔ ۷:۱۰ کا حوالہ پیش کرتے ہوئے دوران رویا دانی ایلؔ نبی کے تجربہ کے بارے میں پڑھا جس میں وہ بیان کرتا ہے ”میں بالکل بتیاب اور بے دم ہو گیا“ اور پھر ایلڈر ہوائٹ نے لوگوں کو دعوت دی کہ جو کوئی خواہش مند ہو آگے آکر مسز ہوائٹؔ صاحبہ کا معائنہ کر سکتا ہے جبکہ وہ رویا کی حالت میں ہوں۔ وہ اس قسم کے معائنہ کی ہمیشہ اجازت دے دیتے تھے۔ اور اگر رویا کے دوران معائنہ کیلئے کوئی ڈاکٹر مل جاتا تو وہ اور بھی بہت خوش ہوتے۔ جب لوگ نزدیک آگئے تو انھوں نے دیکھا کہ مسز ہوائٹؔ صاحبہ سانس نہیں لیتیں لیکن ان کے دل کی حرکت بدستور جاری ہے اور ان کے چہرے کی رنگت میں بھی کوئی فرق نہیں آیا ۔ ایک آئینہ لا کر ان کے منہ کے سامنے رکھا گیا لیکن اس پر نمی کے آثار نظر نہ آئے ۔ پھر موم بتی جلا کر ان کے نتھنوں اور منہ کے قریب رکھی گئی لیکن وہ بغیر ٹمٹمائے برابر جلتی رہی ۔ انھیں یقین ہو گیا کہ وہ رویا میں سانس نہیں لیتیں ۔ وہ کمرے میں آزادی سے چلتی پھرتی تھیں ۔ اور جو کچھ انھیں رویا میں دکھایا جاتا اسے چھوٹےچھوٹے جملوں میں ادا کرتے ہوئے اپنے ہاتھو ں کو نہایت خوش اسلوبی سے حرکت دیتی تھیں ۔ دانی ایؔل نبی کی طرح شروع شروع میں ان کی طاقت جاتی رہی ۔ لیکن بعد میں خدا نے انھیں مافوق الفطرت تقویت بخشی ۔ دانی ایؔل ۷:۱۰ ، ۸ ، ۱۸ ، ۱۹ CChU 5.3

    مسز ہوائٹؔ صاحبہ بدستور دو گھنٹہ تک رویا کی حالت میں رہیں اور دو گھنٹے میں ایک دفعہ بھی سانس نہ لیا۔ رویا ختم ہونے کے بعد انھوں نے لمبی سانس لی ، اور ایک لمحہ کیلئے رک کر پھر گہری سانس لی اور بہت جلد حسب معمول سانس لینے لگیں اور اپنے ماحول سے باخبر ہو کر ارد گرد کے واقعات سے روشناس ہو گئیں ۔ مسز مارتھا ایما ڈان ؔ، جس نے مسز ہوائٹؔ صاحبہ کو اکثر رویا کی حالت میں دیکھا یہ بیان کرتی ہے: CChU 5.1

    ”رویا میں ان کی آنکھیں کھلی تھیں ۔ وہ سانس نہیں لیتی تھیں ، لیکن کاندھوں ، بازوؤں اور ہاتھوں کی خوش انداز حرکات و سکنات سے ان باتوں کا اظہار کرتی تھیں جو ان کے سامنے رویا میں پیش کی جاتی تھیں ۔ کسی دوسرے شخص یلئے ان کے ہاتھوں اور بازوؤ ں کو ھرکت دینا نا ممکن تھا ۔ اکثر وہ ایک آدھ لفظ کہتیں اور گاہے بگاہے ایسے جملے بو لتیں جن سے حاضرین کو اس منظر کی نوعیت کا علم ہو جاتا وہ جو آسمان یا زمیں کے متعلق دیکھا کرتی تھیں“۔CChU 5.2

    ”رویا نازل ہوتے ہی ان کی زبان سے یہ لفظ نکلا کرتا تھا “جلال” جو نزدیک سنائی دیتا اور پھر آہستہ آہستہ فضا میں دور سنائی دیتے دیتے گم ہو جاتا۔ بعض دفعہ یہی لفظ دہرایا جاتا ...“ CChU 5.3

    ”رویا کے دوران حاضرین پر نہ کسی قسم کی گھبرا ہٹ اور نہ خوف طاری ہوتا ، یہ نظارہ سنجیدہ اور پرسکون ہوتا تھا“۔ CChU 5.4

    ”رویا کے اختتام پر جب آسمانی جلال ان کی نظروں سے اوجھل ہو جاتا اور گویا وہ زمیں میں واپس لوٹنے پر سرد آہ بھر کر گہری سانس لیتیں اور کہتیں “تاریک” اور بعد ازآں پژمردہ اور بے جان ہو جاتی تھیں“۔CChU 5.5

    لیکن ہمیں اپنے بیا ن کی طرف رجوع کرنا چاہیئے جو اسکول کے کمرے میں دو گھنٹہ کی رویا سے متعلق ہے۔ اس رویا کے متعلق مسزہوائٹ صاحبہ نے بعد از آں یوں ذکر کیا کہ جو باتیں میں نے دس برس پہلے یسوؔع مسیح اور شیطان کے درمیان زمانوں کی جنگِ عظیم کے متعلق دیکھی تھیں ان میں سے بیشتر واقعات میرے سامنے دہرائے گئے اور مجھے ان کے قلم بند کرنے کا حکم دیا گیا۔CChU 6.1

    رویا میں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان تمام مناظر اور واقعات کے وقوع میں آتے وقت موجود تھیں اور انھیں اپنے آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں ۔ پہلے انھیں معلوم ہوا کہ وہ آسمان میں ہیں اور وہ لوسیفر ؔ کے گناہ کرنے اور آسمان سے گرائے جانے کو دیکھ رہی ہیں۔ پھر انہوں نے دنیا کی تخلیق کو دیکھا اور ہمارے پہلے والدین کو باغِ عدن میں دیکھا۔ پھر اُن کو شیطان کی آزمائش میں گرتے اور باغ میں سے نکلتے دیکھا۔ یکے بعد دیگرے بائبل مقدّس کی تواریخ کے واقعات ان کی نظروں کے سامنے بڑی تیزی سے گزر گئے ۔ انھوں نے اسرائیل کے بزرگوں اور انبیاء کو دیکھا ۔ پھر انھوں نے ہمارے نجات دہندہ یسوؔع مسیح کی زندگی اور موت اور آسمان پر اٹھائے جانے کے نظارے دیکھے ، جہاں وہ اس وقت سے اب تک ہمارا سردار کاہن بن کر خدمت کر رہا ہے۔ اس کے بعد انھوں نے شاگردوں کو دنیا کی انتہا تک منادی کرتے دیکھا۔ پھر جلد ہی برگشتگی واقعہ ہوئی اور تاریک زمانہ شروع ہو گیا۔ پھر انھوں نے رویا میں مذہبی اصلاح کا زمانہ دیکھا اور خدا پرست مردوں اور عورتوں کو سچائی کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے دیکھا ۔ پھر وہ عدالت کے منظر تک پہنچیں جو سن ۱۸۴۴ء میں شروع ہوا۔ علاوہ از ایں ہمارے زمانہ کے واقعات دیکھے پھر مستقبل اور یسوؔع مسیح کو بادلوں پر آتے دیکھا ۔ نیز ہزار سالہ زمانے اور نئی زمین کے منظر اپنی آنکھو ں سے دیکھےCChU 6.2

    یہ صاف اور صریح مناظر دیکھنے کے بعد مسز ہوائٹؔ صاحبہ اپنے گھر پہنچیں اور ان تمام باتوں کو لکھنا شروع کیاجو انھوں نے رویا میں دیکھی اور سنی تھیں ۔ کوئی چھ ماہ بعد چھاپہ خانہ سے ۲۱۹ صفحات پر مشتمل کتاب شائع ہوئی جس کا عنوان ”دی گریٹ کنٹروورسی بیٹوین کرائسٹ اینڈ ہز اینجلز اینڈ سیٹن اینڈ ہز اینجلز“ تھا۔ CChU 6.3

    یہ چھوٹی کتاب بڑے اشتیاق سے قبول کی گئی کیونکہ اس میں کلیسیاء کے مستقبل کے تجربات کا صریح طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ اور شیطان کے منصوبہ جات کو بے نقاب کیا گیا تھا جن کے زریعے وہ کلیسیاء اور دنیا کے لوگوں کو آخری زبر دست کشمکش کیلئے تیار کرنے والا ہے۔ ایڈونٹسٹ ایماندار بے حد شکر گزار تھے کہ خدا ان آخری ایام میں اپنے وعدہ کے مطابق ان سے نبوت کی روح کے زریعے کلام کر رہا ہے۔ CChU 6.4

    اس زبردست کشمکش کا بیان جو ”سپرچوئل گفٹس “ کی چھوٹی کتاب میں مختصر طور پر کیا گیا تھا ۔ ”ارلی رائٹنگز “ کے آخری حصے میں آج بھی اسی طرح موجود ہے۔ CChU 7.1

    جوں جوں کلیسیاء ترقی کرتی گئی اور وقت گزرتا گیا خدا نے بعد کی رویاؤں میں اس جنگ عظیم کے واقعات کو زیادہ تفصیل کے ساتھ ظاہر کیا۔ اور مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے اسے سن ۱۸۷۰ء اور سن ۱۸۸۴ء کے درمیان ”سپرٹ آف پرافیسی “ کی چار جلدوں میں مرقوم کیا ۔ کتاب بنام ” سٹوری آف ریڈ یمشن“ میں اس جنگ عظیم کے ضروری حصوں کا بیان انھی کتب سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب بہت سی زبانوں میں شائع ہوئی ہےتاکہ مختلف ممالک کے لو گ معلوم کرسکیں کہ جنگ عظیم کی رویاؤں میں کن کن واقعات کو دیکھا گیا تھا۔ علاوہ ازایں مسز ہوائٹؔ صاحبہ نے بعد میں ”کانفلکٹ آف دی ایجز سیریز“ کی پانچ جلدوں یعنی ”پیٹری آرکس اینڈ پرافٹس “ ;” پرافٹس اینڈ کنگز” ’دی ڈیزائر آف ایجز” ”ایکٹس آف دی اپاسٹلز“ اور ”دی گریٹ کنٹروورسی“ میں اس جنگ عظیم کا نہایت تفصیل کے ساتھ بیا ن کیا گیا ہے۔ CChU 7.2

    یہ کتابیں جن میں دنیا کی تخلیق سے لے کر مسیحی زمانہ تک اور پھر دنیا کے آخر تک کے واقعات کو بائبل مقدّس کے بیانات کے ساتھ ساتھ پیش کیا گیا ہے، زبردست روشنی اور ہمت بخشتی ہیں ۔ یہ کتابیں سیونتھ ڈے ایڈونٹسٹ لوگوں کو ”نور کے فرزند“ اور ;”دن کے فرزند“ بننے میں مدد دیتی ہیں ۔ اس طرح ہم اس وعدہ کی تکمیل پاتے ہیں کہ CChU 7.3

    ”یقیناً خداوند خدا کچھ نہیں کرتا جاب تک کے اپنا بھید اپنے خدمت گزار نبیوں پر پہلے آشکار نہ کرے “ عاموس ۳:۷ CChU 7.4

    مسز ہوائٹؔ صاحبہ اس روشنی کے حصول کے متعلق جسے انھوں نے ان کتابوں میں درج کیا ہے، جو اس ”جنگ عظیم“ سے متعلق ہے ، یوں لکھتی ہیں :CChU 7.5

    ”ان صفحات کی مصنفہ پر روح القدس کی روشنی میں وہ تمام نظارے آشکار کئے گئے ہیں جو اس طویل جنگ عظیم سے متعلق ہیں جو نیکی اور بدی کے مابین جاری ہے ۔ وقتاً فوقتاً مجھے مختلف زمانوں میں اس جنگ عظیم کے عمل کو جو خدا وند یسوؔع مسیح یعنی زندگی کے شہزادے ، ہماری نجات کے بانی اور شیطان ، بدی کے شہزادے گناہ کے بانی ، خدا کی مقدّس شریعت کے سب سے پہلے باغی کے درمیان جاری ہے“ دیکھنے کا موقع بخشا گیا۔ CChU 7.6

    ”جس طرح خدا کے روح نے کلام ِ مقدّس کی بے بیا ن سچائیوں اور ماضی اور مستقبل کے واقعات کو میرے سامنے صفائی سے آشکارا کیا ہے، مجھے حکم ملا ہے کہ میں اُسی طرح دوسروں کے سامنے ان مکاشفات کو ظاہر کروں۔ یعنی زمانہ ماضی کی اس جنگِ عظیم کی تواریخ اور خصوصاً مستقبل میں جلد واقع ہونے والے حادثات کی وضاحت کروں تا کہ ان پر مزید روشنی پڑ سکے“۔ CChU 8.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents