Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

چرچ کے لئے مشورے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    تنبیہ کو کیسے قبول کریں

    خدا کا رُوح جس کو تنبیہ کرتا ہے اُسے چاہیے کہ وہ اس فروتن اثر کے خلاف صف آراء نہ ہو خاکی انسان نے نہیں بلکہ خدا نے انسان کو بچانے کے لیے کلام کیا ہے۔ انسانی فطرت خوشی سے تنبیہ کو قبول نہیں کرتی اور نہ وہ انسانی دل جو خدا کے نُور سے منوّر نہ ہو۔ یہ ممکن ہے کہ وہ تنبیہ کی ضرورت کا یا اس برکت کا جو اس تنبیہ کا مقصد ہے۔ احساس نہ کر لے جیسے آدمی آزمائش میں گر کر گناہ میں پڑ جاتا ہے۔ اس کا ذہن و دماغ تاریک ہو جاتا ہے۔ اخلاقی حِس بگڑ جاتی ہے۔ ضمیر کی آگاہی سے انحراف کیا جاتا ہے اور اس کی آواز دھیمی سنائی دیتی ہے۔۔ اور وہ رفتہ رفتہ نیکی اور بدی کے درمیان تفاوت کی قوّت سے محروم ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ اُسے خدا کے سامنے اپنی حالت کا کوئی احساس نہیں رہتا بے شک وہ مذہبی رسومات پر عمل کرتا رہے اور بڑی سرگرمی سے اس کی تعلیم کی حفاظت کرے۔ لیکن اس کی روح سے بالکل عاری ہو تو ایسے شخص کی حالت سچے گواہ (یسوعؔ مسیح) نے یہ بتائی ہے ”تُو کہتا ہے کہ مَیں دولت مند ہوں اور مالدار بن گیا ہوں۔ اور کِسی چیز کا محتاج نہیں اور یہ نہیں جانتا کہ تو کم بخت اور خوار اور غریب اور اندھا اور ننگا ہے۔“ جب خدا کا روح ملامت کے پیغام کے ذریعہ بیان کرتا ہے کہ یہ حالت ہے تو وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ یہ پیغام سچا ہے کیا اس لیے اسے اس آگاہی کو مسترد کر دینا چاہیے؟ ہرگز نہیں۔CChU 133.2

    خدا نے کافی ثبوت مہیا کر دیا ہے تا کہ جو ایسا کرنے کے متمنی ہوں ”شہادت“ کی نوعیت کے متعلق اپنا اطمینان کریں اور یہ پہچاننے کے بعد کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔ یہ ان کا فرض ہے کہ تنبیہ کو قبول کر لیں خواہ وہ اپنے غلط رویہ کا احساس بھی نہ کرتے ۔ اگر وہ اپنی حالت کا بخوبی احساس کر لین تو پھر تنبیہ کی کیا ضرورت ہو گی؟ چونکہ وہ اسے نہیں جانتے اس لیے خدا اپنے رحم و کرم میں اُس کو اُن کے سامنے پیش کرتا ہے تا کہ وہ تاخیر ہونے سے پہلے توبہ کر کے اصلاح کر لیں۔ آگاہی اور تنبیہ کو حقیر جاننے والے خود فریبی میں مبتلا ہونے کے لیے تاریکی میں چھوڑ دیئے جائیں گے۔ لیکن جو اُس پر عمل کرتے ہیں اور بڑی سرگرمی سے اپنے آپ سے گناہ کو دور کر تے ہیں تا کہ انہیں ضروری فضل حاصل ہو وہ اپنے دلوں کو کھولتے ہیں تا کہ پیارا نجات دہندہ اندر آ کر ان کے ساتھ سکونت کرے صرف وہی لوگ خد اسے بہت قریب ہیں جو اس کی آواز کو جب وہ ان سے کلام کرتا ہے جانتے ہیں رُوحانی آدمی روحانی باتوں کو پہچانتے ہیں وہ ایسے شکر گزار ہوں گے کہ خدا نے ان پر ان کے قصور ظاہر کیے ہیں۔CChU 134.1

    حضرت داؤد اپنے ساتھ سلوک کرنے میں خدا کی حکمت کر پہچان کو حق تعالیٰ کی تنبیہ کے سامنے سرنگوں ہو گیا۔ ناتنؔ نبی نے اس کی اصلی حالت کو وفاداری سے تصویر پیش کی۔ اِس سے حضرت داؤد کو اپنے گناہون سے واقفیت کرائی اور اس کی مدد کی کہ وہ اُن کو ترک کر دے اس نے خاکساری سے مشورت کو قبول کیا۔ اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے فروتن بنا دیا۔ وہ بیان کرتا ہے ”خداوند کی شریعت کامل ہے وہ جان کو بحال کرتی ہے۔“ (زبپور ۷:۱۹)CChU 134.2

    ”اگر تمہیں وہ تنبیہ نہ کی گئی جس میں سب شریک ہیں تو تم حرامزادے ٹھہرے نہ کہ بیٹے۔ (عبرانیوں ۸:۱۲) ہمارے خداوند نے فرمایا ہے۔ ”میں جن جن کو عزیز رکھتا ہوں اُن سب کو ملامت اور تنبیہ کرتا ہوں۔“ ”اور بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث ہوتی ہے مگر جو اس کو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ان کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشی ہے۔“ (مکاشفہ ۱۹:۳؛ عبرانیوں ۱۱:۱۲) گو تنبیہ تلخ ہوتی ہے ۔ لیکن یہ ہمارے مہربان آسمانی باپ کے مقررہ کردہ ہے تا کہ ہم اس کی پاکیزگی میں شامل ہو جائیں۔“ (۵ ٹی ۶۸۲، ۶۸۳)CChU 135.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents