Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

زمانوں کی اُمنگ

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب نمبر 19 - یعقوب کے کنویں پر

    گلیل کو جاتے ہوئے یسوع سامر یہ سے ہو کر گذرا۔ یہ دوپہر کا وقت تھا جب وہ سکم کی خوبصورت وادی میں پہنچا۔ وادی کے شروع میں ہی یعقوب کا کنواں تھا۔ سفر سے ماندہ یسوع ذرا سستانے کے لئے اس کنویں پر بیٹھ گیا جبکہ اُس کے شاگرد کھانا خریدنے چلے گئے۔ یہودی اور سامری ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ۔ بلکہ کوشش کرتے تھے کہ ایک دوسرے سے لین دین تک نہ رکھیں لیکن اگر کوئی نہائت ضروری خریدو فروخت یا کاروبار کئے بغیر جان نہ چھوٹتی تو اس کی شرع کے معلموں نے اجازت دے رکھی تھی۔ اُن کے آپس میں سماجی روابط نہ ہونے کے برابر تھے۔ کیوں کہ وہ ایک دوسرے کی صحبت کو نا پسند کرتے تھے۔ یہودی سامریوں سے کبھی کوئی چیز اُدھار بھی نہ لیتے تھے۔ بلکہ اُن کی کسی مہربانی کو بھی قبول نہ کرتے تھے۔ یہودی بھوک سے مر جاتے مگر روٹی کا ٹکڑا اور نہ ہی پانی کا گلاس سامریوں کے ہاتھ سے قبول کرتے۔ ہاں اگر بھوکے ہوتے تو پیسے دیکر سامریوں سے کھانا خرید لیتے جیسے شاگرد شہر میں کھانا خریدنے گئے۔ سامریوں کا اس سے زیادہ احسان لینے کے بارے یہودی سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ ZU 212.1

    یسوع جب اُس کنویں پر بیٹھا تھا تو یقیناً وہ بھوکا اور پیاسا تھا ۔ صبح سے اب تک اُنہوں نے کافی سفر کیا تھا۔ دوپہر ہو چکی تھی اور سورج اپنی پوری آب و تاب سے دہک رہا تھا۔ تازہ اور ٹھنڈے پانی کو دیکھ کر یسوع کی پیاس مزید بھڑک اٹھی ۔ مگر اُس کے پاس کنوں سے پانی نکالنے کے لئے رسی تھی نہ ڈول اور کنواں جس میں سے پانی نکالنا تھا بہت گہرا تھا۔ پس وہ کسی کا انتظار کرنے لگا تاکہ کوئی آئے ، پانی نکالے اور اُسے پلائے۔ZU 212.2

    ایک سامری عورت وہاں آئی ۔ اُس نے پانی کا گھڑا بھرا اور جانے لگی۔ غالباً اُس نے مسیح کی حضوری کو محسوس نہ کیا۔ جب وہ جانے لگی تو یسوع نے اُسے کہا کہ مجھے پانی پلا۔ اس قسم کی درخواست مشرق میں رد نہیں کی جاتی۔ بلکہ سمجھا جاتا ہے کہ پیاسے کو پانی پلانا باعثِ ثواب ہے ۔ عرب کے لہگ خواہ اُنہیں کتنی ہی تکلیف اُٹھا کر پیاسے کو پانی پلانے جانا پڑے وہ جاتے ہیں۔ مگر یہان سامریوں اور یہودیوں کی آپس کی دشمنی راہ میں رکاوٹ بنی۔ یہ عورت یسوع پر کیونکر مہربانی کرتی اور اُسے پانی پلاتی۔ مگر مسیح تو اس موقع میں تھا کہ گفتگو کے ذریعے اس سامری عورت کو خدا کے قدموں میں لائے۔ ورنہ جس نے سمندروں کو پیدا کیا، جس نے زمین سے چشمے اور ندیاں جاری کی ہیں وہ کسی کے ہاتھ سے پانی کی بخشش کا محتاج نہ تھا۔ ZU 213.1

    اُس خاتون نے دیکھا کہ یسوع یہودی ہے۔ اس حیرانگی میں اُسے نے مسیح کی درخواست پوری نہ کی مگر یہ جاننے کی تجسس ضرور اُس کے دل میں پیدا ہوئی کہ تو یہودی ہو کر مجھ سامری عورت سے کیوں پانی مانگتا ہے؟ کیوں کہ یہودی سامریوں سے کسی طرح کا برتاؤ نہیں رکھتے تھے۔ یوحنا 9:4 یسوع نئ جواب میں اُس سے کہا “اگر تو خدا کی بخشش کو جانتی اور ہی بھی جانتی کہ وہ کون ہے جو تجھ سے کہتا ہے مجھے پانی پلا تو تُو اُس سے مانگتی وہ تجھے زندگی کا پانی دیتا۔ ZU 213.2

    گو سامری عورت مسیح کی بات کو نہ سمجھ پائی تاہم اُس کے کلام کی سنجیدہ گہرائی اُس نے ضرور محسوس کی۔ اُس کے رویے میں تبدیلے واقع ہو گئی۔ پھر اُس عورت نے بڑی سنجیدگی سے سوال کیا اے خداوند ! تیرے پاس پانی بھرنے کو تو کچھ ہے نہیں اور کنواں گہرا ہے۔ پھر وہ زندگی کا پانی تیرے پاس کہاں سے آیا؟ کیا تو ہمارے باپ یعقوب سے بڑا ہے جس نے ہم کو یہ کنواں دیا اور خود اُس نی اُس میں سے پیا؟ وہ خاتون سوچتی تھی کہ اُس کے سامنے ایک عام پیاسا مسافر ہے۔ وہ اۃس کا مقابلہ بزرگ یعقوب سے کر رہی تھی۔ اُس نے یہ بات کہنے میں فخر مخسوس کیا کہ جو کنواں ہمارے آبائی بزرگوں نے ہمیں دیا ہے اسکا کوئی مقابلہ نہیں۔ وہ اپنے آبائی بزرگ سے لیکر مسیح کی آمد تک سوچ رہے تھی۔ مگر نہ جانتی تھی کہ مسیح تو اُس کے پاس ہی کھڑا ہے۔ آج بھی کتنی پیاسی روحیں زندگی کے چشمے کے پاس کھڑی ہیں ۔ پھر بھی اُنہیں زندگی کا چشمہ بہر دور نظر آ رہا ہے۔ “مگر جو راستبازی ایمان سے ہے وہ یوں کہتی ہے کہ تو اپنے دل میں یہ نہ کہہ کہ آسمان پر کون چڑھے گا؟ یعنی مسیح کئ اُتارنے کو یا گہراؤ میں کون اترے گا؟ (یعنی مسیح کو مردوں میں جلا کر اُوپر لانے کو) بلکہ کیا کہتی ہے؟ یہ کہ کلام تیرے نزدیک ہے بلکہ تیرے منہ اعر تیرے دل میں ہے۔ یہ وہی ایمانکا کلام ہے جس کی ہم منادی کرتے ہیں۔ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خداوند نے اُسے مردوں میں سے جلایا تو نجات پائے گا ” رومیوں 6:10 -9 ZU 214.1

    مسیح یسوع نے سامری عورت کے سوال کا جواب بیشک فوراً نہ دیا مگر بڑے خلوص سے فرمایا “مگر جو کوئی اُس پانی میں سے پئیگا جو میں اُسے دوں گا وہ ابد تک پیاسا نہ ہو گا بلکہ جو پانی میں اُسے دوں گا وہ اُس میں ایک چشمہ بن جائے گا جو ہمیشہ کی زندگی کے لئے جاری رہے گا” یوحنا 14:4 ZU 214.2

    جو کوئی دنیوی چشمے سے پانی پیتا ہے وہ اسلئے پیتا ہے تاکہ دوبارہ پیاسا ہو۔ مرد و زن دونوں جگہ غیر تسلّی پزیر ہیں۔ اُن کی مسلسل تمنا ہے کہ کوئی شے اُن کی روح کو تسلّی پزیر کرے۔ صرف ایک ہے جو اُن کی اس تمنا کو پورا کر سکتا ہے۔ اور وہ یسوع مسیح ہے جو تمام قوموں کی اُمنگ ہے۔ اُسی کا واحد فضل ہے جو روح کو تازگی اور پاکیزگی بخش سکتا ہے۔ZU 215.1

    مسیح کا ہر گز یہ مطلب نہ تھا کہ جو اُس پانی سے پئے گا اُسے دوبارہ ضرورت محسوس نہ ہو گی۔ بلکہ جو اُس کی محبت کا مزہ چکھ لیتا ہے ۔ وہ مسلسل اُسکی محبت کی تمنا کرتا ہے۔ بس بات اتنی ہے کہ اُسے خدا کی اُسے خدا کی محبت کے علاوہ کسی اور شے کی حاجت نہیں رہتی۔ نیز دُنیاوی چاہ و حشمت ، ثروت و تونگری بھی اُسے خدا کی محبت سے جُدا نہیں کر سکتیں۔ جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ہماری روح کی تشفی کے لئے کیا ضروری ہے۔ وہ انتظار میں ہے کہ ہم اُس سے مانگیں کیونکہ تمام دُنیاوی وسائل روح کو تشفی نہیں دے سکتے ۔ روح کی پیاس بجھانے کو گھڑے خالی اور تالاب خشک ہو جائیں گے۔ مگر ہمارا خداوند ہو مبارک چشمہ ہے جو تا ابد جاری و ساری رہتا ہے۔ وہی ابدی زندگی کا چشمہ ہے، جس سے ہر کوئی فضل ، حکمت اور قوت پا سکتا ہے تاکہ اسکی تمام ضروریات زندگی پوری ہو سکیں۔ZU 215.2

    جب خداوند مسیح نے زندگی کے پانی کے بارے کہا تو اُس خاتون نے بڑی حیرانی سے اُس کی طرف دیکھا۔ وہ چاہتی تھی کہ اُس بخشش کو حاصل کرے جس کا ذکر یسوع نے ابھی ابھی کیا تھا۔ اُسے گمان ہو چکا تھا کہ جس پانی کی یہ بات کرتا ہے وہ یعقوب کے کنویں جیسا پانی نہیں۔ اس لئے عرض کیا۔ “اے خداوند وہ پانی مجھ کو دے تاکہ میں نہ پیاسی ہوں نہ پانی بھرنے کو یہاں تک آؤں ” اب یسوع نے موضوع بدل دیا اور چاہا کہ اس سے پہلے کہ یہ عورت خدا کی بخشش کو حاصل کرے اس کی توجہ اس کے گناہوں کی طرف مبذول کی جائے۔ چنانچہ یسوع نے اس خاتون سے فرمایا “جا اپنے شوہر کو یہاں بلا لا۔ مگر اُس خاتون نے کہا میں بے شوہر ہوں۔ مگر یسوع نے بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا تو نے خوب کہا کہ میں بے شوہر ہوں۔ کیونکہ تُو پانچ شوہر کر چکی ہے اور جس کے پاس تُو اب ہے وہ تیرا شوہر نہیں۔ اس لحاظ سے اے عورت تو نے سچ کہا ہے۔ اس پر وہ عورت ڈر گئی ۔ ایک پُر اسرار ہاتھ نے اس کی زندگی کی تاریخ کے ورق کو الٹا دیا تھا۔ اور اُن باتوں کا انکشاف کر دیا جن کے بارے وہ سوچتی تھی کہ تاحیات کسی کو پتا نہ چلے گا۔ اُس نے اپنے دل میں خوب غور کیا کہ یہ کون ہو سکتا ہے جس نے اُس کی زندگی کے بھیدوں پر سے پردہ ہٹا دیا ہے؟ وہ تہ سمجھتی تھی کہ صرف روزِ عدالت میں ہی اُس کے گناہ آشکار ہو سکیں کے۔ZU 215.3

    یسوع نے جو کچھ کیا ان باتوں میں سے کسی ایک بات کا بھی وہ عورت انکار نہ کر سکی تاہم اُن تمام باتوں سے بچنے کی لیے اُس نے کہا “اے خداوند مجھے ہوتا ہے کہ تو نبی ہے” ہوحنا 19:4 --- قائل ہونے کے باوجود پھر یسوع سے پوچھا کہ اس کے کیا معنی ہیں “ہمارے باپ دادا نے اس پہاڑ پر پرستش کی اور تم کہتے ہو کہ وہ جگہ جہاں پر ستش کرنا چاہئیے یروشلم میں ہے۔ وہاں سے گرزیم کا پہاڑ صاف نظر آ رہا تھا۔ اُس پر جو ہیکل تھی۔ اُسے گرا دیا گیا تھا صرف مذبحہ باقی تھا۔ کہاں عبادت کرنا تھی اور کہاں عبادت نہ کرنا چاہئے یہودیوں اور سامریوں کے درمیان وجہ نزاع بن چکا تھا۔ سامریوں کے آباؤ اجداد ایک وقت بنی اسرائیلوں کے افراد تھے مگر اُن کے گناہوں کے سبب خدا نے اُن کو بت پرستوں کے غلام بنا دیا۔ کئی پشتوں تک بت پرستوں کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے اُن کا اپنا مذہب غلط ملط ہو گیا ۔ بیشک اُن کے بت اُنہیں حقیقی خدا کی یاد دلاتے تھے مگر افسوس کہ وہ ہاتھ کی بنائی ہوئی مورتوں اور صورتوں کی پرستش کرتے رہے۔ZU 216.1

    جب عزرا کے زمانہ میں یروشلم کی ہیکل دوبارہ تعمیر ہوئی تو سامریوں نے چاہا کہ ہیکل کی تعمیر میں یہودیوں کا ہاتھ بٹائیں۔ مگر یہودیوں نے اجازت نہ دی ۔ یوں یہودیوں اور سامریوں میں دشمنی کی خلیج مزید گہری ہو گئی۔ یروشلم کی ہیکل کے مقابلے میں سامریوں نے کوہ گرازیم پر ہیکل تعمیر کی جہاں وہ موسٰی کی رسوم کے مطابق عبادت کرتے تھے۔ پھر بھی اُنہوں نے مکمل طور پر بت پرستی سے کنارہ کشی نہ کی۔ بدیں وجہ اُن پر ہر سخت مصیبت آئی۔ دُشمن نے اُن کی ہیکل کو تباہ کر دیا۔ ایسے معلوم دیتا تھا جیسے وہ بڑی لعنت کے تحت ہوں۔ اس کے باوجود وہ اپنی روایات اور رسم و رواج اور طریقہ عبادت سے دست کش نہ ہوئے۔ اُنہوں نے کبھی بھی یروشلم کی ہیکل کو خدا کا گھر تسلیم نہ کیا اور نہ ہی یہ مانا کہ یہودیوں کا مذہب اُن کے اپنے مذہب سے بر تر ہے----ZU 217.1

    سامری عورت کے سوال کے جواب میں یسوع نے فرمایا “اے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلم میں ۔ تم جسے نہیں جانتے اُس کی پرستش کرتے ہو۔ ہم جسے جانتے ہیں اس کی عبادت کرتے ہیں کیوں کہ نجات یہودیں میں سے ہے۔ مسیح نے ظاہر کیا کہ اُس کے دل میں سامریوں کے خلاف یہودیوں جیسا تعصب نہیں ہے۔ بیشک اُس نے واضح کیا کہ سامریوں کا چال چلن بتوں کی عبادت کی وجہ سے خراب ہوا تھاا ور یہ بھی بتایا کہ نجات کی بڑی سچائی یہودیوں پر ظاہر کی گئی کیوں کہ اُن میں سے مسیح آنے کو تھا۔ اُن کے پاس پاک نسخہ جات تھے جن سے خدا کی سعرت اور اُس کی حکومت کے اصول اور ضابطے واضح ہوتے تھے۔ یسوع نے اُسے خود بتایا کہ میں یہودیوں میں سے ہوں جنہیں خدا نے اپنے بارے پورا پورا علم دے رکھا ہے۔ZU 217.2

    مسیح چاہتا تھا کہ خاتون عبادت کے طریقہ اور مذہبی رسوم سے بالاتر ہو کر سوچے اور یہودیوں اور سامریوں کی عبادت میں پائے جانے والے تضاد کو بھول جائے چنانچہ اُس نے فرمایا “مگر وہ وقت آتا ہے اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے۔ کیوں کہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے۔ خدا روح ہے اور ضرور ہے کہ اُس کے پرستار روح اور سچائی سے اُس کی عبادت کریں۔” یوحنا 23:4 -24 --- یہاں خدا نے وہی اصول واضح کیا جو اُس نے نیکدُیمس پر واضح کیا تھا۔ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ وہ خدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔ یوحنا 3:3 کیونکہ خدا کی بادشاہت میں پاک پہاڑ یا مقدس ہیکل کی وجہ سے کوئی داخل نہیں ہوتا۔ مذہب کی بنیاد ظاہری اور بیرونی رسومات پر مبنی نہیں۔ بلکہ وہ مذہب جو خدا سے صادر ہوتا ہے خدا تک پہنچاتا ہے۔ اگر ہم راستی سے خدا کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں الہی روح سے پیدا ہونا ضرور ہے۔ خدا کی روح دل میں پاکیزگی لائے گی ذہن کو ازسر نو تازہ کرے گی اور خدا کی محبت کی وسعت کو سمجھنے میں علم بخشے گی۔ نیز ہمیں اُس کے تمام احکامات کی اطاعت کرنے میں مدد ملے گی۔ یہی حقیقی عبادت ہے۔ اور یہی روح القدس کی خدمت کا پھل ہے۔ خداوند ایسی ہی عبادت چاہتا ہے اور ایسوں ہی کی انتظار کرتا ہے تاکہ اُنہیں اپنے بیٹے اور بیٹیاں بنائے۔ مسیح کی گفتگو سے وہ خاتون نہائت متاثر ہوئی ۔ ایسی شائستہ گفتگو اُس نے کاہنوں کے منہ سے سنی تھی نہ یہودیوں کے۔ سامری عورت کا ماضی اُس کے سامنے کھلا تھا ۔ اُس نے ضرورت محسوس کی کہ اُسکی ماضی کی خطاؤں کا ازالہ ہونا چاہئے۔ اُسے اپنی روح کی پیاس بجھانے کو پانی چاہئے تھا۔ کیونکہ سوخار کا کنواں اُس کی پیاس بجھانے کے لئے ناکافی تھا۔ اب تک جس جس سے اس کا آمنا سامنا ہوا اُس نے اس کے ایمان کو کمزور کر دیا تھا۔ مگر مسیح نے اسے قائل کر لیا تھا کہ میں نے تیرے دل خیالات اور اعمال کو بھی پڑھ لیا ہے۔ اس کے باوجود اس پر اعتماد رکھتی تھی۔ اسے اپنا غمگسار اور مربی مانتی تھی۔ مسیح کی پاکیزہ حضوری نے جہاں اس کے گناہوں پر لعنت کی وہاں اس کے دل میں اپنے فضل کی بھی اُمید اُجاگر کی۔ سامری عورت کو مسیح کی سعرت میں یقین آگیا۔ اور وہ سوچنے لگی کیا یہ ممکن نہیں کہ یہی آنے والا مسیح ہے جس کی ہم بڑی دیر سے انتظار کر رہے تھے۔ عورت نے اُس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا وہ ہمیں سب باتیں بتا دے گا۔ یسوع نے اُس سے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہو گا”ZU 218.1

    جونہی اُس عورت نے یہ الفاظ سنے اُس کے دل میں ایمان پیدار ہو گیا۔ اُس نے الٰہی معلم کی بات کا ییقین کر لیا۔ یہ عورت اس مکاشفہ کو ماننے کے لئے تیار ہو گئی کیونکہ وہ الہامی نسخوں میں دلچسپی رکھتی تھی۔ روح اُس کو تیار کر رہا تھا تاکہ اُس کا ذہن مزید روشنی قبول کر سکے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے پرانے عہد نامہ کا کافی مطالعہ کر رکھا تھا۔ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اُس کی سننا” استثنا 15:18 --- وہ چاہتی تھی کہ اس پیشنگوئی کی تفسیر سمجھے۔ نور پہلے ہی اُس کے ذہن میں چمک رہا تھا، زندگی کا پانی ، یعنی روحانی زندگی جو یسوع مسیح پر پیاسی روح کو دیتا ہے اُس کے دل میں آنے لگی۔ کیوں کہ خداوند کی روح اُس کے ساتھ کام کر رہی تھی۔ ZU 219.1

    جو سادہ سا اقتباس مسیح یسوع نے اس عورت کے سامنے پیش کیا وہ یہودیوں کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا تھا جو بذاتِ خود راستباز بنے بیٹھے تھے۔ جب مسیح اُس سے کلام کرتا تو اس طرح کھل کر اُن سے بیان نہ کرتا۔ لیکن جو کچھ مسیح نے یہودیوں کو نہ بتایا وہ اپنے شاگردوں اور اس سامری عورت پر عیاں کیا۔ اس لئے کہ مسیح جانتا تھا کہ بلآخر یہ عورت دوسروں کو میرے قدموں میں لے آئے گی تاکہ وہ بھی خدا کا فضل حاصل کریں۔ ZU 220.1

    جب شاگرد واپس لوٹے تو مسیح کو ایک عورت کے ساتھ باتیں کرتے دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اور وہ اس بات پر بھی حیران ہوئے جب مسیح نے نہ تو پانی پیا اور نہ ہی کھانا کھایا جو وہ شہر سے خرید کر لائے تھے۔ اور جب ہو عورت چلی گئی ۔ تو شاگرد اس سے درخواست کرنے لگے کہ اے ربّی ! کچھ تو کھا لے۔ مگر اس نے نہ کھایا۔ اور دیکھا کہ اُس کے چہرے پر جلال چمک رہا ہے۔ پھر اُنہیں جرات نہ ہوئی کہ اُس رابطہ سے مخل ہوں جو وہ اپنے باپ سے رکھے ہوئے ہے۔ ZU 220.2

    تاہم وہ جانتے تھے کہ یسوع تھکا ماندہ اور بھوکا پیاسا ہے۔ اس لئے اُس سے بضد ہوئے کہ کچھ کھا لے۔ مگر اُس نے اُنہیں فرمایا کہ “میرے پاس کھانے کے لئے ایسا کھانا ہے جسے تم نہیں جانتے” یوحنا 32:4 ZU 220.3

    شاگرد حیران تھے کہ کون اُس کے لئے کھانا لایا ہوگا؟ مگر مسیح نے کہا کہ “میرا کھانایہ ہے کہ بھیجنے والے کی مرضی کے موافق عمل کروں۔ ” یوحنا 34:4 جب اس خاتون کا ضمیر جاگ اُٹھا تو مسیح کو بے حد خوشی ہوئی۔ اُس نے دیکھا کہ وہ زندگی کا پانی پی رہی ہے اوراس کی بھوک پیاس مٹ رہی ہے۔ اُس نے دیکھا کہ جس کام کے لئے وہ آیا تھا اس میں اُسے کامیابی حاصل ہو رہی ہے۔ وہ روح جو روحانی غذا سے سیر ہو جاتی ہے وہ جسمانی غذا کی فکر نہیں کرتی۔ یہ دیکھ کر مسیح کو بڑا چین آ گیا اور اُسے تازگی حاصل ہوئی۔ ZU 220.4

    ہمارے نجات دہندہ کو اُن سب کے ساتھ پوری پوری ہمدردی ہے جن کو اُس نے اپنے خون سے خرید رکھا ہے۔ اُس کی دلی خواہش ہے کہ وہ اس کے پاس آئیں اور ابدی زندگی پائیں۔ جس طرح مان اپنے بچوں کی خوشیوں سے باغ باغ ہو جاتی ہے اسی طرح ہمارا نجات دہندہ ہماری خوشیوں کا خواہاں جب ہمارے دلوں سے اس کی شکر گذاری نمودار ہوتی ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ہمارے اندر روحانی زندگی شروع ہو چکی ہے۔ ZU 221.1

    جب سامری عورت نے خداوند یسوع کا کلام سُنا تو اُس کا دل خوشی سے معمور ہو گیا۔ حیرت انگیز مکاشفہ نے اُسے بھرپور کر دیا تھا ۔ اس لئے وہ اپنا گھڑا وہیں چھوڑ کر شہر کو چلی گئی باکہ دوسروں کو بھی وہ خوشخبری پہنچا دے جو اسے پہنچتی تھی۔ یسوع کو بھی معلوم تھا کو یہ کیوں چلی گئی ہے؟ سامری عورت کو یہ بھی بھول کیا کہ یسوع پیاسا ہے اور مجھے اسے پانی پلانا ہے۔ خوشی سے معمور وہ خوشخبری سنانے بھاگ گئی جو اُسے ملی تھی۔ اور اُس شہر میں جا کر کہنے لگی “آؤ ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دیئے ۔ کیا ممکن ہے کہ مسیح یہی ہے اُس کی باتوں کا اُن کے دلوں پر گہرا اثر ہوا۔ اُس کے چہرے پر عجیب تاثر تھا ۔ اُنہوں نے اُس میں خاص تبدیلی دیکھی اور اُس کی باتوں کا یقین کر کے یسوع کو دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کیا۔ لہذاٰ وہ شہر سے باہر نکل کر اُس کے پاس آنے لگے۔ZU 221.2

    یسوع مسیح ابھی تک اُس کنویں پر بیٹھا تھا اور اُس کی نگاہ کھیتوں میں پکی ہوئی فصل پر پڑی جو دور دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ یسوع نے اُس کی طرف اشارہ کر کے اپنے شاگردوں سے کہا (یہ اُس نے علامت کے طورپر کہا) “فصل پک گئی ہے” اور کاٹنے والا مزدوری پاتا ہے۔ اور ہمیشہ کی زندگی کے لئے پھل جمع کرتا ہے۔ ابھی فصل کے کاتنے میں چار ماہ باقی تھے۔ مگر وہاں فصل تیار تھی تاکہ کاٹی جائے۔ کاٹنے والا مزدوری پاتا ہے اور ہمیشہ کی زندگی کے لئے پھل جمع کرتا ہے تاکہ بونے والا اور کاٹنے والا دونوں مل کر خوشی کریں۔ یہاں مسیح اُس مقدس خدمت کا ذکر کرتا ہے جو خدا کے لئے کی جاتی ہے۔ اور یہ خدمت وہ کرتے ہیں جو خود خوشخبری کو قبول کرتے ہیں وہی تو اُس کے کارندے ہیں۔ وہ اُن میں سے ہر ایک سے توقع کرتا ہے کہ اُس کی خدمت کریں۔ خواہ ہم بوئیں یا کاٹیں ہم اس کی خدمت میں ہیں۔ ایک بیج بوتا ہے دوسرا فصل کاٹتا ہے ۔ دونوں مزدوری پانے ہیں۔ اور دونوں اپنی محنت کا اجر پا کر خوش بھی ہوتے ہیں۔ZU 222.1

    یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا “میں نے تمہیں وہ کھیت کاٹنے کے لئے بھیجا جس پر تم نے محنت نہیں کی اوروں نے محنت کی اور تم اُن کی محنت کے پھل میں شریک ہوئے“یوحنا 38:4 --- مسیح یسوع پینتکست کے دن کی طرف دیکھ رہا تھا جب بہت سی فصل جمع ہونے کو تھی اور شاگردوں کو یاد رکھنا تھا کہ یہ اُن کی محنت کا صلہ نہیں ۔ بلکہ وہ اُس کھیت میں داخل ہو رہے تھے جس میں کسی دوسرے نے خدمت کی تی۔ مسیح یسوع انسانوں کی دلوں میں ابدی زندگی کا بیج بوتا ہے۔ اور فصل کی نشوونما کے لئے خدا کے ساتھ فطرت مل کر کام کرتی ہے۔ ایسا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ خدا کی فضل کی بارش ، اوس اور دھوپ اُسے دی جاتی ہے تاکہ سچائی کا بیج تازگی اور قوت پائے۔ بلکہ مسیح یسوع خود اپنے خون سے سچائی کے پودوں کو سینچنے والا ہے۔ اُس کے شاگردوں کو یہ استحقاق حاصل ہوا کہ خدا کے ساتھ مل کر کام کریں ۔ ہو مسیح اور قدیم انبیاء کے ساتھ میل کر کام کرنے والے ہوئے۔ روح القدس کی بارش سے پینتکست کے دن ہزاروں ایمان لائے۔ مسیح نے جو بیج بونے کا کام کیا تھا اُس کام کے نتیجہ میں یہ فصل حاصل ہوئی۔ ZU 222.2

    جو کام مسیح یسوع نے سامری عورت سے کیا اچھا بیج ثابت ہوا اور بہت جلد پھل لایا۔ لوگ آئے اور اُنہوں نے مسیح کی منادی سنی اور یسعر پر ایمان لائے۔ مسیح سے اُنہوں نے کئی سوالات جو اُن کی سمجھ سے باہر تھے پوچھے اور جب مسیح یسوع نے اُن کی سوالات کے جوابات دیئے تو وہ اس کی وضاحت سے پوری برح مطمئن ہو گئے۔ وہ گہیا اندھیرے میں سے نکل کر نور میں آگئے۔ وہ مزید اُس کے کام سے مستفید ہونا چاہتے تھے بلکہ وہ چاہتے تھے کہ جو زندگی بخشش باتیں اُنہوں نے اس عظیم اُستاد سے سنی ہیں۔ اُن کو اُن کے دوست احباب بھی سنیں۔ اس لئے اُنہوں اسے دعوت دی کہ اُن کے شہر کو چلے اور اُن کے ساتھ رہے۔ اُن کی درخواست قبول کرتے ہوئے یسوع یسوع اُن کے ساتھ شہر کو گیا اور دو دن تک اُن کے ساتھ رہا ۔ بدیں وجہ اور بھی بہت سے لہگ مسیح پر ایمان لے آئے۔ ZU 223.1

    یہودی مسیح کی سادگی کو حقارت کی نظن سے دیکھتے تھے ۔اُنہوں نے اس کے خیالات کو نظر انداز کر کے اُس سے کہا کہ کوئی نشان دے جس سے ہم جانیں کہ تو خدا کا بیٹا ہے۔ مگر سامریوں نے کوئی نشان طلب نہ کیا اور نہ ہی اُن کے درمیان مسیح نے کوئی معجزہ دکھایا ۔ صرف یعقوب کے کنویں پر سامری عورت کی زندگی اُس پر آشکار کی ۔ پھر بھی بہتیروں نے اُسے قبول کیا ۔ اور سامری عورت کو کہا کہ “اب ہم تیرے کہنے ہی سے ایمان نہیں لاتے کیونکہ ہم نے خوس سن لیا اور جانتے ہیں کہ یہ فی الحقیقت دُنیا کا منجی ہے۔ یوحنا 42:4 ZU 223.2

    سامری جانتے تھے کہ مسیح آنے والا ہے جو نہ صرف یہودی قوم کو نجات دے گا بلکہ پوری دُنیا کو۔ روح القدس نے موسٰی کی وساطت سے بتا رکھا تھا کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجا ہوا نبی ہو گا۔ اور یعقوب کے ذریعے بتایا گیا تھا کہ لوگ جوق در جوق اُس کے گرد جمع ہوں گے۔ اور ابرہام کے ذریعہ یہ بتایا گیا تھا کہ اُس کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی۔ کلام کی ان پیشنگوئیوں کے مطابق سامری لوگ المسیح میں ایمان رکھتے تھے۔ یہودی مسیح کی پہلی آمد کی تفسیر غلط کرتے تھے۔ مسیح کی پہلی آمد کے بارے میں جو کچھ وہ بتاتے تھے اصل میں اُس کا اطلاق پہلی آمد پر نہیں بلکہ دوسری آمد پر ہوتا تھا۔ یعنی یہودیوں کا خیال تھا کہ مسیح جب آئے گ تو اپنے پورے جلال کے ساتھ مطلق العنان حکمران کی حثیت سے آئے گا۔ اُس کے ساتھ اُس کے پاک فرشتے ہوں گے۔ اور آتے ہی وہ اپنی بادشاہی قائم کر دے گا۔ یوں یہودی خود کو تسلی دیتے اور اُس کی آمد پر اُس کے ستھ اس دُنیا پر حکومت کرنے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ZU 224.1

    وہ دیوار جو یہودیوں اور سامریوں کے درمیان حائل تھی۔ مسیح نے اُسے دور کرنا شروع کر دیا اور بلا امتیاز تمام دُنیا کو نجات کا پیغام دیا۔ گو وہ یہودی تھا پھر بھی اُس نے فریسیوں کے رسم و رواج کو بالائے طاق رکھ کر سامریوں کے ساتھ میل جول رکھا۔ یہودیوں کے تعصب کے باوجود جو وہ سامریوں سے رکھتے تھے مسیح نے سامریوں کی دعوت کو قبول کیا۔ یہودی تو اُنہیں رد کر چکے تھے۔ مگر مسیح یسوع نے اُن کے ساتھ کھایا پیا۔ اُنہیں تعلیم دی اور اُن کے ساتھ شائستہ سلوک روا رکھا۔ZU 224.2

    ہیکل میں ایک چھوٹی دیوار رکھی گئی تھی جو ہیکل کے مقدس حصے کو ہیکل سے جدا کرتی تھی۔ اُس دیوار کے اُوپر کئی زبانوں میں درج تھا کہ یہودی کے علاوا کوئی اس دیوار کو عبور کر کے ہیکل کے پاک حصہ میں داخل نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی غیر یہودی اس دیوار کو پار کرتا تو یہودی خیال کرتے کہ اس نے ہیکل کی بے حرمتی کی ہے۔ اس گناہ کی پاداش میں ایسے شخص کو جان سے ہاتھ دھوناے پڑتے ۔ مگر مسیح جس نے ہیکل کی بنیاد رکھی اور جس کی طرف تمام قربانیاں اشارہ کرتی تھیں ، اُس نے غیر اقوام کو اپنے پاس کھینچ لیا اُس نے اُنہیں ہمداردی دکھائی ۔ اور جنہیں یہودی رد کر چکے تھے اُس کے فضل نے اُنہیں نجات بخشی۔ سامریہ میں مسیح کے قیام نے شاگردوں کو بھی برکت بخشی کیونکہ وہ بھی ابھی تک یہودیوں کے زیرِ اثر تھے۔ یہودیوں کی طرح ابھی تک اُن کا بھی یہی خیال تھا کہ سامریوں سے دُشمنی رکھنا ہی اپنی قوم سے وفا ہے۔ مگر وہ مسیح یسوع کے حُسنِ سلوک سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔ اب وہ کیوں کر مسیح کے نمونہ کی پیروی کرنے سے انکار کر سکتے تھے۔ مگر دل میں ابھی اُنہوں نے سامریوں کو نہ بخشا۔ ابھی تک اُن کے دل میں سامریوں کے لئے نفرت تھی۔ بیشک وہ سست اعتقاد تھے۔ اور جو تعلیم مسیح اُن کو دینا چاہتا اُسے جلد نہ سیکھ پاتے۔ مگر بعد میں جب روح القدس اُن پر نازل ہوا تب سمجھے۔ پر اُنہیں جنات دہندہ کا کلام اور وہ مہربانی اور محبت یاد آئی جو اُس نے غیر اقوام سے کی۔ZU 225.1

    اب پطرس سامریہ میں منادی کرنے گیا تہ اُس نے بھی سامریوں کو وہی روح دکھائی جو مسیح نے دکھائی تھی۔ اُسے عظیم معلم کا تجربہ یاد آیا۔ اور اُس کا جی شکر گذاری سے بھر گیا۔ZU 225.2

    وہ خدمت جو مسیح نے سامری عورت کے لئے پیش کی وہی خدمت وہ آج بھی پیش کر رہا ہے۔ جو اُس کے پیروکار کہلاتے ہیں ۔ یاد رکھیں کہ خواہ کوئی کسی بھی نسل اور ملت سے تعلق کیوں نہ رکھتا ہو یا کوئی کتنا ہی رد کیا ہوا کیوں نہ ہواُس کے حالات اور اُس کی زندگی خواہ کیسی ہی کیوں نہ ہو ہم اُسے مسیح کی محبت سے خارج نہیں کر سکتے۔ مسیح یسوع ہر روح سے کہہ رہا ہے کہ اگر تو مجھ سے مانگتی یا مانگتا تو میں تجھے زندگی کا پانی دیتا۔ZU 226.1

    خوشخبری کا کلام محض اُن محدود چند لوگوں کے لےٓئے ہی نہیں جن کے بارے ہم خیال کرتے ہیں کہ اگر وہ مسیح کو قبول کر لیں گے تو اس سے ہماری قدر و منزلت میں اضافہ ہو گا۔ نجات کا پیغام سب تک پہنچنا ضروری ہے۔ جہاں کہیں بھی نجات کو قبول کرنے کے لئے دل تیار ہوں مسیح وہاں اپنی ہدایات دینے کو تیار ہے۔ وہ اُن پر باپ کو ظاہر کرتا ہے اور اُنہیں اُس حقیقی عبادے کے بارے معلومات فراہم کرتا ہے جو اُسے منظور ہے۔ وہ ہمارے دلوں کو پڑھ لیتا ہے۔ ایسوں کے لئے وہ کوئی تمثیل پیش نہیں کرتا ۔ بلکہ اُن کو وہ براہِ راست کہہ دیتا ہے کہ میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں “بالکل اُسی طرح جس طرح اُس نے سامری عورت سے کیا تھا۔ ZU 226.2

    یسوع یہودیہ سے آ کر یعقوب کے کنویں پر سستانے کے لئے بیٹھا ۔ یہودیہ میں اُس کی خدمت بہت ہی کم پھل لائی۔ ربیوں اور کاہنوں نے اُسے رد کر دیاتھا۔ حتٰی کہ اُ س کے اپنے شاگرد بھی اُسے الٰہی ذات سمجھنے سے قاصر رہے۔ اس جگہ وہ تھکا ماندہ اور پریشان بیٹھا تھا ۔ اس سب کے باوجود اُس نے سامری عورت کو پیغام سنانے کے موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ وہ اجنبی عورت تھی جسے بنی اسرا ئیل نے رد کر رکھا تھا۔ نیز وہ اعلانیہ گناہ کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ ZU 226.3

    مسیح نے بالکل انتظار نہ کیا کہ جب پوری جماعت آئے گی پھر وعظ کروں گا ۔ اکثر مسیح نے چھوٹی چھوٹی سی ٹولیوں کو پیغام دینا شروع کیا مگر آہستہ آہستہ لوگ آتے گئے اور اُس کے گرد بڑا مجمع لگ گیا۔ اسی طرح خدا کے خادموں کو بھی یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ وہ تھوڑے سے لوگوں سے اُس طرح کلام نہیں کر سکتے جیسے بڑے بڑے اجتماعات میں۔ شائد آپ کے پاس ایک ہی آدمی ہے جو خدا کے بارے سننا چاہتا ہے ۔ کون جانتا ہے کہ منادی کا اس پر اثر کتنا گہرا ہو گا۔ شاگردوں کو بھی یہ عجیب لگا ہو گا کہ مسیح نے صرف ایک عورت کو اتنا وقت دیا۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ یہ صرف وقت کا زیاں ہے۔ اگر مسیح کسی بڑے مجمع میں کلام کرتا تو یقیناً ایسا پھل نہ ملتا۔ZU 227.1

    مگر جس خلوص ، محبت اور وضاحت سے مسیح نے سامری عورت سے کلام کیا وہ اعلٰے مرتبہ کے مشیروں ، کاہنوں اور بادشاہوں کے ساتھ نہ کر سکتا تھا۔ وہ اسباق جو اُس نے سامری عورت کو سکھائے ان کی بازگشت دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گئی۔ZU 227.2

    سامری عورت نے جتنی جلدی نجات دہندہ کو پایا اتنی جلدی وہ لوگوں کو مسیح کے قدموں میں لے آئی۔ وہ تو مسیح کے شاگردوں سے بھی کہیں زیادہ موثّر ثابت ہوئی۔ شاگردوں نے تو سامریہ میں کوئی ایسی چیز نہ دیکھی جس سے اُن کی حوصلہ افزائی ہوتی۔ اُن کے خیال اُس عظیم کام پر جمے ہوئے تھے جو مستقبل میں متوقع تھا انہوں نے اپنے ارد گرد تیار فصل کو نہ دیکھا جسے جمع کرنا تھا۔ مگر اُس عورت کے ذریعے جسے حقیر خیال کیا جاتا تھا سامریہ کا سارا شہر یسوع کے قدموں میں آ گیا۔ وہ نور جو اُس تک پہنچا اُس نے اپنے باشندوں تک فوراً پہنچا دیا۔ZU 227.3

    یہ عورت عملی ایمان کی زندہ مثال ہے۔ خدا کی بادشاہی میں ہر سچا شاگرد ایک مشنرے ہے۔ وہ جو زندگی کا پانی پیتا ہے ۔ خود زندگی کا چشمہ بن جاتا ہے۔ یعنی لینے والا دینے والا بن جاتا ہے مسیح خداوند کا فضل روح میں ایسا ہے جیسے صحرا میں پانی کا چشمہ جو ہر ایک کو تازگی بخشتا اور جو تباہ ہونے کو ہیں انہیں زندگی کا پانی عطا کرتا ہے۔ZU 228.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents