Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

شفا کے چشمے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    پانچواں باب - رُوح کی شفا

    اُن میں بہت سے جوخُداوند یسوع مسیح کے پاس مدد کے لیے آئے وہ اپنے ساتھ بیماریاں بھی لائے۔ پھر بھی اُس نے اُنہیں شفا بخشنے سے انکار نہ کیا۔ جب اُس کی حسن سیرت اور بھلائی اُن کی روحوں میں داخل ہوئی تو اُنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کیا اور ان میں سے ذیادہ تر نے جسمانی بیماری کے ساتھ روحانی بیماری سے بھی شفا پائی۔ ایسے بیماروں میں ایک کفر نحوم کا مفلوج تھا۔ کوڑھی شخص کی طرح اس مفلوج کے لیے بھی شفا پانے کی تمام اُمیدیں جاتی رہی تھیں۔ اس کی بیماری گناہ کے نتیجہ میں اُس پر آئی تھی۔ اور اس پچھتاوے کے سبب اس کے دکھ اسے ہر وقت کانٹوں پر گھسیٹتے رہتے تھے۔ بے فائدہ اس نے طبیبوں اور ڈاکٹروں سے بیماری خلاضی پانے کی منتیں کی تھیں۔ اُنہوں نے نہ صرف اس کی بیماری کو لاعلاج قرار دیا تھا بلکہ یہاں تک کہہ دیا تھا کہ چونکہ تو گنہگار ہے لہٰزا خُدا کا غضب تجھ پر آیا ہے۔ تو یقیناً مر جائے گا۔SKC 41.1

    مفلوج شخص مایوسی، پریشانی اور پچھتاوے کے سمندر میں غرق ہو چکا تھا۔ پھر اُس نے مسیح کے کاموں کے بارے میں سنا۔ جس نے اسی طرح کے کئی گنہگاروں کو شفا بخشی تھی۔ اس بات سے اُس کو بھی حوصلہ ہوا کہ وہ بھی شفا پا سکتا ہے بشرطیکہ اسے یسوع کے قدموں میں پہنچا دیا جائے۔ لیکن وہ ایک دفعہ پھر اپنی بیماری کی وجہ یاد کرکے مایوس ہو گیا۔ مگر پھر بھی اس نے شفا پانے کے امکان کو رد نہ کیا۔ اصل میں اس کی بڑی خواہش گناہ سے رہائی پانے کے بارے میں تھی وہ صورت خُداوند مسیح کو دیکھنا چاہتا تھا کہ اسے یقینی طور پر معافی ہو جائے۔ ازاں بعد خواہ مرے یا جئے۔ لہٰزا اس معاملہ کو اُس نے خُداکی مرضی پر چھوڑدیا۔ اب وہ مزید وقت ضائع نہ کر سکتا تھا۔ کیونکہ پہلے ہی اُس کے خستہ بدن میں موت کے آثار نمایاں ہو چکے تھے۔ اس نے اپنے دوستوں سے درخواست کی کہ مجھے چارپائی پر ہی مسیح کے قدموں میں پہنچا دو۔ دوستوں نے اس کی دوخواست کو بخوشی قبول کر لیا۔ مگر جس گھر میں خُداوندیسوع مسیح تھا وہاں بھیڑ اتنی ذیادہ تھی کہ بھیڑ میں سے گزرنا ناممکن ہو گیا۔ بلکہ بھیڑ کے سبب وہ یسوح مسیح کی آواز بھی نہ سن سکتے تھے۔ مریض اور اُس کے دوستوں کا مسیح تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔ مسیح خُدا وند پطرس کے گھر میں تعلیم دے رہا تھا۔ حسب دستور اس کے شاگرد اس کے قدموں میں بیٹھ کر کلام سن رہے تھے۔ اور ان کے ساتھ فرسی اور شرع کے معلم بیٹھے تھے- معلم جو یروشلیم ، یہود یہ اور گلیل کے گر دونواح سے آئے تھے۔ لوقا18:6۔ ان میں سے زیادہ تر ایسے لوگ موجود تھے جو جاسوسی کرکے یسوع مسیح پر کسی طرح کا الزام دھرنا چاہتے تھے۔ شروع کے ان معلموں کے پیچھے بے تحاشہ بھیڑ تھی جن میں حق کا کلام سننے والے، تماش بین متقی اور بے ایمان لوگ شامل تھے۔ یہ ملی جلی بھیڑ تھی۔ یہ مختلف شہریت رکھتے تھے۔ یعنی ہر چھوٹے بڑے طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ مسیح کے اس اجتماع میں شامل تھے۔ اور خُداوند کی قدرت شفا بخشنے کو اُس کے ساتھ تھی۔ خُدا وند کی قدرت نے اس اجتماع پر سایہ کر رکھا تھا مگر فریسیوں اور شرع کے عالموں کو اس کی حضوری کا علم نہ تھا۔ چونکہ انہوں نے ضرورت ہی محسوس نہ کی اس لیے شفا ان کے لیے نہ تھی۔ “اس نے بھوکوں کو اچھی چیزوں سے سیر کر دیا اوردولت مندوں کو خالی ہاتھ لوٹا دیا” لوقا 53:1۔SKC 41.2

    ہر چند مفلوج کو لانے والوں نے کوشش کی مسیح تک رسائی کریں مگر بھیڑ کے سبب وہ ہر بار نا کام رہے۔ مفلوج کی حالت بڑی پریشان کن تھی۔ وہ گویا تذبُذب میں گھیر گیا۔ وہ سوچتا تھا کہ وہ اُمید کو کیوں کر آسانی سے جانے دے جس کے لیے اس نے بڑی دیر سے خواہش کر رکھی تھی۔ نیزاب تو وہ مدد بہت ہی قریب ہے۔ اس کے کہنے پر اس کے دوست اسے گھر کی چھت پر لے گئے اور چھت کھول کر اسے یسوع کے قدموں میں ڈال دیا۔ SKC 42.1

    بے شک یہ بہت بڑی مداخلت تھی۔ نجات دہندہ نے نوحہ کناں چہرے پر اور پھر اس کی التجا بھری نگاہوں کی طرف دیکھا جو یسوع پر لگی ہوئی تھیں۔ خُداوند یسوع مسیح بخوبی جایتا تھا کہ مفلوج کا مدعا کیا ہے۔ گناہ کا اقرار مفلوج کے دل میں خُداوند مسیح ہی لایا تھا جب وہ ابھی اپنے گھر میں ہی تھا۔ جب اس نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کر لی۔ اور خُداوند مسیح کی قدرت پر ایمان لے آیا کہ وہ اسے شفا بخش سکتا ہے تو خُداوند یسوع مسیح نے بھی اپنی رحمت کر کے اسے برکت دی۔ خُداوندیسوع مسیح نے ایمان کی اس پہلی کرن کو دیکھ لیا تھا جس نے اس گنہگار کو قائل کیا۔ اور یہی گنہگار کی بڑی اُمید ہے۔ اور پھر اس کرن کو مزید بڑھتے دیکھا جو وہ کوشش کرکے مسیح کی حضوری میں آیا۔ یہ یسوع مسیح ہی تھا جو اس دکھی شخص کو اپنے پاس کھینچ لایا۔ اور اسے کہا “بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے” متی 2:9۔ گناہوں کا بوجھ اس بیمار شخص کی روح پر سے جاتا رہا۔ اُسے کوئی شک نہ تھا۔ اُس پر ظاہر ہو گیا کہ مسیح خُداوند میں میرے دل کی باتیں پڑھنے کی قدرت ہے۔ اُس کی وہ قدرت جس سے وہ گناہ معاف کرتا ہے کون انکار کر سکتا؟ مایوسی کی جگہ اُمید آ گئی اور غموں کی جگہ خوشی۔ اس شخص کے جسم سے درد کافور ہوگیا بلکہ اس کا سارا بدن یکسربدل گیا۔ اس نے مزید کوئی درخواست نہ گزاری۔ اب وہ بڑا مطمئن تھا۔ اس کی خوشی بیان سے باہر تھی۔ جو کچھ ہوا تھا اسے بھیڑ بڑی دلچسپی سے دم سادھے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ بعض نے محسوس کیا کہ یسوع کی دعوت تو اُن کے لیے بھی ہے۔ کیا ان کی روحیں بھی گناہ کی وجہ سے بیمار نہیں؟ کیا ان کی بھی یہ تمنا نہیں کہ وہ گناہ کے بوجھ سے آزاد ہوں؟ مگر فریسیوں نے اس خوف سے کہ مبادہ وہ بھیڑ کی نظر میں بے قدر ہو جائیں اپنے دلوں میں کہنے لگے “یہ کفر بکتا ہے خُدا کے سوا گناہ کون معاف کر سکتا ہے” مرقس 7:2SKC 42.2

    خُداوند یسوع مسیح نے ان پر نگاہ کر کے کہا “تم کیوں اپنے دلوں میں برے خیال لاتے ہو؟ آسان کیا ہے یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اُٹھ اور چل پھر؟ لیکن اس لیے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔ (اُس نے مفلوج سے کہا) اُٹھ اپنی چارپائی اُٹھا اور اپنے گھر چلا جا” متی 4:9-6۔ پھر وہ جسے کھٹولے میں ڈال کر یسوع کے پاس لائے تھے فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ بجلی کی طرح جوانی کی قوت اس میں واپس آ گئی۔ اور وہ اُٹھا اور فی الفور چارپائی اٹھا کر ان سب کے سامنے باہر چلا گیا۔ چنانچہ وہ سب حیران ہو گئے اور خُدا کی تمجید کر کے کہنے لگے ہم نے کبھی ایسا نہ دیکھا تھا۔SKC 43.1

    اُس خستہ خراب بدن میں مکمل صحت بحال کرنا تخلیقی قوت ہی کا کام ہے۔ اس سے کم کوئی قوت یہ کارنامہ انجام نہیں دے سکتی۔ وہی آواز جس نے آدم کو مٹی سے بنا کر زندگی کی نوید سنائی تھی مفلوج کے خستہ بدن میں بھی اسی نے زندگی رواں دواں کی۔ اور اسی قدرت نے جس نے بدن کو شفا بخشی اسی قدرت نے دل کو بھی ازسرنو زندگی بخشی۔ “وہ جس نے تخلیق کے وقت فرمایا اور ہو گیا اس نے حکم دیا اور واقع ہوا” زبور 9:33۔ اسی نے گناہ سے مردہ دل و جان کو زندگی بخش دی۔ بدنی شفا اس قوت کی شاہد تھی جس نے دل ازسرنو زندگی عطا کی تھی۔ خُداوند یسوع مسیح نے مفلوج کو حکم دیا کہ اُٹھ اور چل پھر تاکہ تم جانو کہ ابن آدم کو زمین پر بھی گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے۔SKC 43.2

    مفلوج شخص نے مسیح خُداوند میں بدن اور روح دونوں کی شفا پائی۔ اسے روح کی شفا کی اشد ضرورت تھی اس سے پہلے کہ وہ بدن کی شفا کے لیے خُدا کا شکر گزار ہوتا۔ اس سے پہلے کہ جسمانی شفا نصیب ہو خُداوند مسیح کے لیے لازم ہے کہ ذہنی سکون دے اور روح کو گناہ سے پاک کرے۔ اس بات کو کبھی بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ آج اس دنیا میں ہزاروں لوگ مفلوج شخص کی طرح جسمانی بیماروں سے دکھ پا رہے ہیں ۔ اُنہیں اس پیغام کی اشد ضرورت ہے۔ “یعنی تیرے گناہ معاف ہوئے”۔ روح کو گناہ کے بوجھ سے آذاد کیا جائے اس سے پہلے کہ جسمانی شفا ملے۔ گناہ کا بوجھ جو بےاطمینانی کا باعث ہوتا ہے یہی بیماریوں کی جڑ ہے۔ انسان اس وقت تک جسمانی شفا نہیں پا سکتا جب تک وہ اس عظیم طبیب کو پاس نہ آئے جو ہماری روح کو شفا بخشنے پر قادر ہے۔ وہ اطمینان جو صرف وہی دے سکتا ہے ذہن کو تازگی اور بدن کو شفا کے لیے کافی اور شافی ہے۔ مفلوج شخص کی شفا نے جو اثرات ہجوم پر مرتب کئے وہ نہایت ہی خوش آئند تھے۔ انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے آسمان کھل گیا ہو۔ اور اس نے آنے والے بے گناہ جہاں کے جلال کوظاہر کیا ہو۔ وہ شخص جس کو شفا مل چکی تھی جونہی بھیڑ میں سے گزرا ہر قدم پر خُداوند کو مبارک کہتا جا رہا تھا۔ اور اپنے بستر کو ایسے اُٹھا کر چل رہا تھا جیسے کسی چڑیا کے پر کو۔ اسے اپنے بستر کا کوئی بوجھ محسوس نہ ہو رہا تھا۔ اس معجزے سے حیران ہو کر لوگ اسے راستہ دیتے گئے۔ سب کے سب حیرانگی سے اس کے چہرے کو دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور آپس میں دھیمی دھیمی آواز میں کانا پھوسی کر کے کہنے لگے “آج ہم نے عجیب باتیں دیکھیں” لوقا 26:5۔SKC 43.3

    مفلوج جب اپنے گھر لوٹا تو وہ خوشیوں سے بھر گیا۔ جب اُنہوں نے اسے تندرست سلامت دیکھا تو خوشی کے آنسو بہاتے ہو ئے اس کے گرد جمع ہو گئے۔ انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے اسے کھٹولے پر ڈال کر لے جایا گیا تھا۔ اب ایک تندرست توانا شخص ان کے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے جو بازو کمزور اور نا کارہ ہو چکے تھے اب سخت سے سخت کام کرنے کے لئے تیار تھے، اس کی جلد جو سکڑ چکی تھی اب صحت مند ہونے کے علاوہ خوش نما تھی جس میں صحت بخش خون دیکھا جا سکتا تھا۔ اس کی چال سے مستقل مزاجی اور اعتماد ٹپکتا تھا۔ اس کے اَنگ اَنگ سے خوشی ٹپکتی تھی۔ گناہ اور دکھ کی جگہ اسے پاکیزگی اور اطمینان حاصل ہو گیا تھا۔ اس کی گھر سے شکرگزاری کے نعرے بلند ہو رہے تھے اور آسمان کے خُدا کے بیٹے کی وجہ سے حمد و تعریف ہو رہی تھی جس نے دکھی انسان کو اطمینان اور بیماروں کو شفا دی تھی۔ جس نے نااُمیدوں کو اُمید اور کمزوروں اور ناداروں کو اپنی قوت عطا کر دی تھی۔ یہ مفلوج شخص اور اس کے گھر کا ایک ایک فرد مسیح یسوع کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دینے کے لیے تیار تھا۔ کیونکہ وہ ان کے ظلمت کدہ میں ضیا لایا تھا۔ وہ اس کی تعرف کئے بغیر کیوں کر رہ سکتے تھے۔SKC 44.1

    “اے میری جان خُداوند کو مبارک کہہ اور جو کچھ مجھ میں ہے اس کے قدوس نام کو مبارک کہے۔ اے میری جان خُداوند کو مبارک کہہ اور اس کی کسی نعمت کو فراموش نہ کر۔ وہ تیری ساری بدکاری کو بحشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔ وہ تیری جان ہلاکت سے بچاتا ہے۔ تو عقاب کی مانند ازسرنوجوان ہوتا ہے۔ خُداوند سب مظلوموں کے لیے صداقت اور عدل کے کام کرتا ہے اس نے ہمارے گناہوں کے موافق ہم سے سلوک نہیں کیا۔ اور ہماری بدکاریوں کے مطابق ہم کو بدلہ نہیں دیا۔ جیسے باپ اپنے بیٹوں پر ترس کھاتا ہے ویسے ہی خُداوند ان پر جو اس سے ڈرتے ہیں ۔ ترس کھاتا ہے ۔ کیونکہ وہ ہماری سرشت سے واقف ہے اسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں” زبور 1:103-14۔SKC 45.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents