Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

شفا کے چشمے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    موسیٰ کی زندگی سے سبق سیکھنا

    موسیٰ کے تجربہ کا جائزہ لیں۔ اس نے بادشاہ کے دوہتے اور تخت کے وارث ہونے کی حیثیت سے مصر میں جو تعلیم حاصل کی وہ ہر لحاظ سے کامل تھی۔ جتنی حکمت اور علوم سے مصری واقف تھے موسیٰ نے حاصل کئے۔ اُس نے شہری اور ملٹری دونوں اعلیٰ تربیتیں حاصل کیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ اب وہ بنی اسرائیل کو غلامی سے چھڑانے کے لئے مکمل طور پر تیار ہوچکا ہے۔ مگر خداوند اور طرح سوچتا تھا۔ اس نے اسے چالیس سال تک بیابان میں بھیڑوں کی دیکھ بھال پر معمور کر دیا۔ وہ تعلیم جو موسیٰ نے مصر میں حاصل کی تھی کئی لحاظ سے ممد ثابت ہوئی مگر جوزیادہ مفید تیاری اس کے اپنے کام کے لئے ثابت ہوئی وہ چوپان کی تعلیم تھی جو اس نے بیابان میں پائی۔ موسیٰ فطری طور پر تیز میزاج واقع ہوا تھا۔ مصری میں کامیاب ملٹری لیڈر اور بادشاہ سلامت اور قوم کے چہیتے کے طور پر وہ خوشامد اور تعریف کروانے کا عادی ہو چکا تھا۔ اس نے لوگوں کواپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا۔ اسے پوری پوری امید تھی کہ وہ بنی اسرائیل کی رہائی کا بندوبست خود کرسکتا ہے۔ مگر خدا کے نمائندہ کی حیثیت سے اسے بہت فرق قسم کا سبق سیکھنا تھا۔ جونہی وہ پہاڑوں اور ہری ہری چراگاہوں اور وادیوں میں سے ریوڑ لیکر گزرتا وہ ایمان، حلم، صبر، فروتنی اور خود انکاری کے بارے سیکھتا۔ اس نے کمزور کی نگرانی، بیمار کی تیمارداری، برگشہ کو ڈھونڈنے، گردن کشوں کی برداشت، بروں کیساتھ شفتت اور بزرگوں اور کمزوروں کی پرورش کا سبق سیکھا۔SKC 348.5

    اس کام کی بدولت موسیٰ عظیم چرواہے(یسوع مسیح) کے نزدیک تر ہو گیا۔ اس خدمت کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے قدوس کے ساتھ متحد ہو گیا۔ بہت جلد اپس نے عظیم کام کا منصوبہ بنایا۔ جو کام اسے دیا گیا اس نے ایمانداری سے اسے انجام دینے کی پوری پوری کوشش کی۔ اس نے اپنے گردو پیش میں خداوند کی حضوری اور معموری کو پایا۔ تمام کائنات اس سے ان دیکھے خدا کے بارے کلام کرتی تھی ۔ وہ خدا کو شخصی طور پر جانتا تھا اور اس کی سیرت پر غور وخوض کرنے کے سبب اس کی حضوری کو مزید بہتر طریقے سے سمجھنے لگا۔ اس نے خدا کے ابدی بازؤں میں پناہ پائی۔SKC 349.1

    اس تجربہ کے بعد موسیٰ کو آسمان سے بلاہٹ آئی کہ چرواہے کے عصا کو چھوڑ کر عصائے اختیار کو سنبھال یعنی بھیڑوں کو چھوڑا واور بنی اسرائیل کی قیادت سنبھال۔ خُداوند نے اسے ایسا شخص پایا جو خود سر اور پر اعتماد نہ ہو جو فصیح نہ ہونے کے ساتھ ساتھ شرمیلا اور ڈرپوک بھی تھا۔ اسے اپنی نا اہلی کا پورا احساس تھا اور جب اسے معلوم ہو ا کہ اسے خدا کو منہ بن کر خدمت کرنا ہے تو وہ بی دل ہو گیا۔ تاہم اس نے خدا میں توکل رکھ کر خدمت قبول کر لی۔ اس کی عظیم خدمت کے پیش نظر اس کو بہترین دماغی قوا عطا کی گئیں۔ رب کریم نے اس کی برجُستہ تابعداری پر اسے برکت بخشی۔ وہ فصیح، پُر اُمید پُر اعتماد اورخداوند کی خدمت انجام دینے کے لائق ہو گیا۔ اسی لیے اس کے بارے لکھا گیا ہے۔۔۔۔۔۔SKC 349.2

    “اور اس وقت سے اب تک بنی اسرائیل میں کوئی نبی موسیٰ کی مانند جس سے خداوند نے روبرو باتیں کیں نہیں اُٹھا ” استشناہ10:34۔SKC 349.3

    “کیونکہ سرفرازی نہ تو مشرق سے نہ مغرب سے اور نہ جنوب سے آتی ہے بلکہ خدا ہی عدالت کرنے والا ہے۔ وہ کسی کو پست کرتا ہے اور کسی کو سرفرازی بخشتا ہے”زبور7-6:75۔SKC 349.4

    وہ تمام لوگ جو یہ سوچتے ہیں کہ ان کے کام کی قدر نہیں کی جاتی، وہ تمام لوگ جو اعلےٰ مراتب کی چاہت کرتے ہیں انہیں یہ ایک بات ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے کہ رتبہ نہ تو مشرق سے آتا ہے نہ مغرب سے اور نہ ہی جنوب سے بلکہ خدا ہی عدالت کرنے والا ہے۔ وہ کسی کو پست کرتا ہے اور کسی کو سرفرازی بخشاتا ہے۔ خداوند کی ابدی تجویز میں ہر ایک کا کوئی نہ کوئی مقام ہے۔ اس آسامی کو پر کرنا ہماری تابعداری پر ہی منحصر ہے۔SKC 350.1

    آپ ہمیشہ اس بُڑبڑانے سے گریز کریں کہ جتنی آپ کی آؤ بھگت ہونی چاہیے تھی نہیں ہوئی۔ یا یہ کہ آپ کے کام کی کسی نے کوئی قدر نہیں کی۔ یا یہ کہ تمہارا کام بہت ہی مشکل ہے۔ برعکس اس کے جو کچھ مسیح یسوع نے برداشت کیا اُسے یاد کریں تاکہ بُربڑانے کا خیال جاتا رہے کیونکہ ہمارے آقا کی نسبت ہم سے تو دُنیا نے بہتر ہی سلوک کیا ہے۔SKC 350.2

    “کیا تُو اپنے لئے اُمورِ عظیم کی تلاش میں ہے؟ اُن کی تلاش چھوڑ دے” یرمیاہ5:45۔SKC 350.3

    خُداوند کی خدمت میں اُن کے لئے ہرگز کوئی جگہ نہیں جو صلیب کو برداشت کرنے کی بجائے تاج حاصل کرنے کی آرزو میں رہتے ہیں ۔ خداوند خدا کو ایسے مردوزن کی ضرورت ہے جو اجر کی پروہ کئے بغیر کام میں زیادہ دل لگائیں۔ جو اعلےٰ مراتب پانے کی بجائے اصولوں کی پاسداری کریں۔SKC 350.4

    وہ جو حلیم اور فروتن ہیں اور جو خُدا کی کدمت سمجھ کر کام کرتے ہیں وہ ان لوگوں کی طرح اپنے کام کی نمائش نہیںکرتے جو اپنی اور اپنے کام کی اہمیت کو دوسروں پر ظاہر اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ظاہری تمائش کا سہارا لیتے ہیں وہ خُدا او اُس کے لوگوں کے درمیان ٹھوکر کا باعث بنتے ہیں۔ کیونکہ ان کی حکمت بتادیتی ہے کہ وہ نا کام لوگ ہیں۔SKC 350.5

    “حکمت افضل اصل ہے۔ پس حکمت حاصل کر بلکہ اپنے تمام حاصلات سے فہم حاصل کر۔ اپس کی- تعظیم کر۔ وہ تجھے سرفراز کریت گی۔ جب تُو اُسے گلے لگائے گا وہ تجھے عزت بخشے عزت بخشے گی” امثال8-7:4 ۔SKC 350.6

    ایسے لوگ جو اپنے اند ر تبدیلی اور اصلاح لانے کا ارادہ نہیں رکھتے وہ ہمیشہ غلط راہ پر گامزن رہتے ہیں۔ مگر ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ وہ اپنی قوا کی نشوونما کر کے بہترین خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ یوں اُن کی ہمیشہ مانگ رہے گی۔ اور اُن کی ویسی ہی قدر ومنزلت ہوگی جس کے وہ مستح ہیں۔ اگر کسی میں اعلےٰ عہدے کی صلاحیت موجود ہے تو پھر خُدا وند صرف اُس عہدے کو نبھانے کی ذمہ داری اپس پر ہی لادے گا۔ بلکہ ان سب پر بھی جنہوں نے اسے پرکھا ہے۔ جو اس کی صلاحیتوں سے وقت ہیں۔ جو اس کی قدر منزلت کو جانتے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جوروز مرہ اپنی خدمت کو وفا داری سے نبھاتے ہیں۔ اور جو وقت مقررہ پر خُدا وند خُدا کی یہ آواز سنیں گے۔”ااور آؤ;“ ا جب بیت لحم کی بہاڑیوں پر چرواہے اپنی بھیڑوں کی رکھوالی کر رہے تھے آسمان سے فرشتے اُن کے پاس آئے۔ اُسی طرح آج بھی خداوند کے حلیم اور فروتن بچے خدا کی خدمت کرتے ہیں تو خدا کے فرشتے ان کے پہلو میں آکھڑے ہوتے ہیں ان کی باتوں کو سنتے ہیں اور جس طریقہ سے اس کا (خداکا) کام کیا جارہا ہے اس پر غور وخوض کر کے فیصلہ کرتے ہیں کہا یا سیے لوگوں کے ہاتھ میں اس سے بڑی ذمہ داریاں سونپی جا سکتی ہیں کہ نہیں؟SKC 350.7

    خدا کسی کو امارت، تعلیم اور مرتبہ لحاظ سے نہیں پرکھتا بلکہ ارادوں کی پاکیزگی اور نیک سیرت ہی اُن کی جانچ ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ان میں اس کی (خدا کی) کتنی روح کام کرتی ہے۔ اور ان کی زندگی سے خدا کی کتنی مشابہت آشکارہ ہوتی ہے؟کیونکہ خدا کی بادشاہی میں عظیم بننے کے لئے بچے کا سا حلم، ایمان کی سادگی اور محبت کی پا کیزگی درکار ہے۔” مگر یسوع نے اُنہیں پاس بُلا کر کہا تم جانتے ہو کہ غیر قوموں کے سردار اُن پر حکم چلاتے اور امیر ان پر اختیار جتاتے ہیں۔ تم میں ایس انہ ہوگا بلکہ جو تم میں بڑا ہونا چاہیے وہ تمہارا خادم ہے” متی26-25:20SKC 351.1

    تمام نعمتوں سے بڑی نعمت جو آسمان آل آدم پر نچھاور کر سکتا ہے اور جس کی خدا کی نظر میں سب سے زیادہ قدر ومنزلت ہے، وہ مسیح یسوع کے دکھوں میں شمولیت کی نعمت ہے۔ حنوک جسے زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا، یا ایلیا ہ جسے خداوند نے آگ کے رتھ میں زندہ اُوپر اٹھا لیا یہ دونوں نہ یوحنا سے عظیم تھے اور نہ خدا کے نزیک یوحنا بپتسمہ دینے والے سے زیادہ باعزت جس کوقید خانہ میں ہی شہید کر دیا گیا۔SKC 351.2

    “کیونکہ مسیح کی خاطر تم پر ی فضل ہوا کہ نہ فقط اُس پر یمان لاؤ بلکہ اس کی خاطر دکھ بھی سہو”فلپیوں-29:1SKC 351.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents