Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

شفا کے چشمے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بائیسواں باب - فطرت کی صحبت

    خالق خداوند نے ہمارے پہلے والدین کے لیے ایسے ماحول کا انتخاب کیا تھا جو ان کی خوشی و مسرت اور صحت تندرستی کے لیے بہترین تھا۔ اس نے ان کو کسی محل میں نہ رکھا اور نہ ہی ان کو مصنوعی آرائش و زیبائش اور عیش پسندی کے مقام پر رکھا ہے جسے آج حاصل کرنے کے لیے کئی جدوجہد کر رہے ہیں -اس نے ان کو فطرت اور آسمانی مقدسین کی قربت میں رکھا —SKC 180.1

    باغ میں خُداوند نے اپنے بچوں کے لیے گھر بنایا۔ اس میں خوش نما، دلکش جھاڑیاں اور نرم و نازک پھول رکھے جو ہر طرف سے آنکھوں کو سلام عرض کرتے۔ اُس میں ہر طرح کا درخت تھا۔ بعض ان میں خوشبودار اور خوش ذائقہ پھلوں سے لدھے ہوئے تھے۔ ان کی شاخوں پر پرندے خُداوند کی حمد و ثنا کے گیت گاتے تھے۔ ان درختوں کے سایہ تلے زمین کے جاندار بے خوف و خطر اکٹھے اُچھلتے، کودتے اور کھیلتے پھرتے تھے۔ SKC 180.2

    آدم اور حوا اپنی بے داغ پاکیزگی میں باغ عدن کے نطاروں اور پیدا ہونے والی سریلی آوازوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ خُدا نے باغ میں ان کے سپرد ایک کام کیا “کہ باغ کی باغبانی اور نگہبانی کریں” پیدائش 15:2۔۔۔۔ ہر روز کی محنت ان کے لیے صحت اور خوشی لاتی تھی۔ اور جب ٹھنڈے وقت ان کا خالق ملاقات کو آتا ان کے ساتھ چلتا پھرتا اور گفتگو کرتا تو یہ خوش باش جوڑا اُسے خوشی سے ملتا۔ خُداوند روزانہ ان کو درس دیتا۔ SKC 180.3

    زندگی کی وہ تجویز جو خُداوند تعالیٰ نے ہمارے پہلے والدین کے لئے بنائی تھی اس میں ہمارے لئے سبق تھا۔ بے شک گناہ نے زمین پر اپنا سایہ ڈال رکھا ہے، پھر بھی خُداوند چاہتا ہے کہ اس کے بچے اس کے ہاتھ کی صنعت میں خوشی و خرمی تلاش کریں۔ زنگی کی تجویز جو خالق خُداوند نے پیش کی جس قدر ہم اس کی پیروی کریں گے اسی قدر انسانی دکھوں کا ازالہ ہو گا۔ بیماروں کی فطرت کے بہت سے قریب لانے کی ضرورت ہے۔ گھروں سے باہر فطرت میں گھری ہوئی زندگی بہت بے بس لوگوں کے لئے حیرت انگیز کام کر سکتی ہے اور خاص کر ان کے لئے جو معذور اور نا امید ہو چکے ہیں۔ SKC 180.4

    شہروں کا شور شرابا، افراتفری، ہیجان، مصنوعی زندگی، دباؤ یہ سب کچھ بیمار کے لئے خستہ حالی، تکلیف دہ اور ضعف کا باعث ہے۔ ہوا جو دھوئیں اور گرد سے اٹی پڑی ہے۔ جس میں زہریلی گیسیں اور بیماری کے جراثیم ملے ہوئے ہیں زندگی کے لئے خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ بیمار زیادہ تر چار دیواری کے اندر پڑا رہتا ہے جو جیل سے کم نہیں۔ وہ نیلے آسمان اور سورج، گھاس، پھول اور درختوں وغیرہ کو کبھی بھی نہیں دیکھتا۔ اس طرح کمرے میں بند وہ اپنے دکھوں پر ہی سوچتا اور اداس رہتا ہے۔SKC 181.1

    جو اخلاقی قوت میں کمزور ہیں ان کے لیے شہر بہت بڑا خطرہ ہے۔ ایسے مریض جن کو ضرورت ہے کہ غیر فطری غذاؤں پر قابو پائیں ان کے سامنے ہر وقت بے پردہ آزمائش ہوتی ہے۔ انہیں ایسی جگہ رکھنے کی ضرورت ہے جہاں ان کے خیالات کی رو تبدیل ہو۔ انہیں ایسے ماحول اور لوگوں کے اثر سے بالکل دور رکھنا چاہیے جنہوں نے ان کی زندگی تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ایسے اثر سے انہیں کچھ عرصہ کے لئے دور رکھیں جو انہیں خُدا سے دور لے جاتا ہے اور انہیں ایسی جگہ رکھیں جہاں کا ماحول پاکیزہ ہو۔ SKC 181.2

    بیماروں کی دیکھ بھال کے لئے شہر سے باہر ہسپتال بہت ہی بہتر ثابت ہوں گے۔ اور اگر ممکن ہو سکے تو وہ سب لوگ جو صحت کی بحالی کے متمنی ہیں دیہاتی زندگی کے ارد گرد بسیرہ کریں تا کہ ان کی زندگی کو کھلی فضاؤں کا فائدہ پہنچے۔ فطرت خدا کا ڈاکٹر ہے۔ تازہ ہوا، خوش و خرم دھوپ، پھول اور درخت، باغات اور تاکستان، فطرت کے ماحول میں ورزش یہ سب کچھ صحت بخش اور زندگی بخش ہیں۔ SKC 181.3

    ڈاکٹرز اور نرسز کو چاہیے کہ اپنے مریضوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ جتنی زیادہ دیر وہ کھلی فضا میں رہ سکتے ہوں ضرور رہیں۔ معذور لوگوں کے لئے کھلی فضا میں زنگی گزارنا ہی ان کا واحد علاج ہے۔ جو بیماریاں بدن، ذہن اور روح کو تباہ کر دیتی ہیں ان سے شفا بخشنے کے لئے فطرت میں حیرت انگیز قدرت پائی جاتی ہے۔ SKC 181.4

    شہر کی زندگی کے جھمیلوں سے عاجز آئے ہوئے معذور حضرات کتنے شکر گزار ہوں گے جب وہ آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنیوں کے شہر کو گلیوں کے ہنگاموں کو چھوڑ کر پر سکون آزاد فضا میں سانس لیں گے۔ وہ کتنی لگن اور اشتیاق سے فطرت کے نطاروں کو لوٹیں گے، کھلی فضا میں بیٹھ کر وہ کس قدر خوش ہوں گے جب وہ درختوں اور پھولوں کی معطر خوشبو میں لمبے لمبے، گہرے گہرے سانس لیں گے۔ (یاد رہے کہ درختوں اور پودوں میں زندگی بخش اور صحت بخش خصوصیات پائی جاتی ہیں)۔ SKC 181.5

    پرانے معذور لوگوں کی صحت کو بحال کرنے کے لیے دیہاتی موحول سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں بشرطیکہ وہ حسین اور دلکش نظاروں سے آراستہ ہو۔ جو زیادہ ہی بے بس ہیں وہ دھوپ میں یا درختوں کے نیچے بیٹھ کر لیٹ سکتے ہیں۔ وہاں وہ اپنی آنکھیں اٹھا کر پتوں اور پیڑوں کو دیکھ سکتے ہیں ۔ انہیں وہاں سکوں اور تازگی کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ تازہ ہوا کے جھونکوں سے لطف اندور ہوتے ہیں۔SKC 182.1

    ان کی پژ مردہ روح میں تازگی آ جاتی ہے۔ ماندہ طاقت بحال ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ غیر شعوری طور پر دماغ پر سکوں اور بخار زدہ نسیں باقاعدگی سے معمول کے مطابق اپنا کام کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ جب بیمار کچھ مضبوط ہوجاتا ہے تو پھر وہ چند قدم چل کر پیارے پیارے پھول چن سکتا ہے۔ SKC 182.2

    اس طرح کی تجویز بنائی جائے کہ مریض گھروں سے باہر رکھے جا سکیں، وہ جو کام کر سکتے ہیں ان کے لیے آسان مگر خوشگوار کام کا انتظام کیا جائے۔ ان کو دکھائیں اور سکھائیں کہ گھر سے باہر کام کتنا ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ تازہ ہوا میں سانس لینے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو تعلیم دیں کہ گہرے گہرے سانس لیں اور یہ کہ سانس لیتے اور بولتے ہوئے پیٹ کے پٹھوں کو استعمال میں لائیں۔ یہ تعلیم ان کے لیے نہایت ہی انمول ہو گی۔ SKC 182.3

    کھلی ہوا میں ورزش کرنے کے بارے میں وضاحت سے بتایا جائے کہ یہ زندگی کی ضرورت ہے اور ایسی ورزشوں کیلئے کھیتی باڑی سے بڑھ کر اور کوئی ورزش نہیں۔ اس لئے مریضوں کو چاہیے کہ پھولوں کی کیاریوں یا سبزی کے باغیچے میں کام کریں۔ جب بیماروں کو ان کے کمرے چھوڑنے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور کھلی فضا میں وقت گزارنے کے لئے کہا جائے گا۔ تو ان کی توجہ اپنے آپ سے اور اپنی مصیبت سے ہٹ کر پھولوں اور دوسرے ہلے پھلکے دل پسند کام کی طرف لگ جائے گی۔ SKC 182.4

    جتنی زیادہ دیر بیمار کو کھلی فضا میں مصروف رکھا جائے گا اسے اتنی ہی کم توجہ درکار ہو گی۔ اور جتنا زیادہ اور دلکش موحول اسے نصیب ہو گا اتنا ہی وہ پر امید ہو گا۔ اگر اسے کمرے میں بند رکھیں گے خواہ وہ کتنا ہی آراستہ پیراستہ ہو وہاں وہ مایوس اور اداس ہی رہے گا۔ برعکس اس کے اگر مریض کو فطرت کی خوبصورت چیزوں کی صحبت دی جائے اور اس کو ایسی جگہ رکھا جائے جہاں وہ خوبصورت پھولوں کو نشوونما پاتا ہوا دیکھ سکے۔ جہاں پرندوں کی چہکار سن سکے اور جہاں اس کا دل پرندوں کیساتھ ملکر گا سکے تو اس کا بدن اور دماغ دونوں چین پائیں گے۔ جب اس کا شعور بیدار ہو گا۔ خیالات میں جلا آئے گی تو پھیر یقیناً بیمار خُداوند کے کلام کی خوبصورتی کی قدر کرے گا۔ SKC 182.5

    فطرت میں کچھ نہ کچھ ایسا مل جاتا ہے جس کی وجہ سے بیمار اپنی طرف سے توجہ ہٹا کر خُدا کے بارے سوچنے لگتا ہے۔ جب وہ خُدا کی کاریگری میں چاروں طرف سے گھرے ہوئے ہیں تو ان کی نظریں دیدنی اشیاء سے ہٹ کر غیر دیدنی اشیاء کی طرف مبذول ہوجاتی ہیں۔ فطرت کی خوبصورتی انہیں آسانی گھر کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہی جہاں خوبصورت اور دلکش چیزوں کو بدصورت نہ کیا جائے گا۔ جہاں کچھ بھی خستہ و برباد نہ ہوگا جہاں نہ کوئی چیز بیماری کا موجب ہو گی نہ موت کی۔ SKC 183.1

    ڈاکٹرز اور نرسز کو چاہیے کہ فطرت کی چیزوں کی مدد سے مریضوں کو خُدا کی تعلیم کے اسباق اخذ کرائیں۔ مریضوں کی توجہ اس خُداوند کی طرف مبذول کرائیں جس نے اس قدر قدآور درختوں کو پیدا کیا۔ جس نے گھاس، پھول اگائے۔ ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ہر پھول اور کلی میں خُداوند کی اس محبت کو جو اسے اپنے بچوں سے ہے تلاش کریں۔ انہیں یقین دلائیں کہ وہ جو پھولوں اور پرندوں کی فکر کرتا ہے وہ انسان کی بھی فکر کرے گا جسے اس نے اپنی شبیہ پر بنایا ہے۔ SKC 183.2

    کھلی فضا میں گھر سے باہر، خُدا کی فطرت کے درمیاں جہاں مریض تازہ اور صحت بخش ہوا میں سانس لیتا ہے اسے اس نئی زندگی کے بارے بتایا جا سکتا ہے جو مسیح یسوع میں پائی جاتی ہے۔ یہاں ان کے ساتھ خُدا کے کلام کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ اسی جگہ یسوع مسیح کی راستبازی گناہ کے تاریک شدہ دلوں میں روشنی چمکا سکتی ہے۔ SKC 183.3

    وہ تمام مردوخواتین جنہیں روحانی اور جسمانی شفا کی ضرورت ہے انہیں ایسے لوگوں کی قربت میں لایا جائے جن کے کلام اور عمل دونوں کی وجہ سے وہ یسوع مسیح کے قریب ہو جائیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں عظیم طبی مشنری کے پاس لایا جائے جو بدن اور روح دوںوں کو شفا دے سکتا ہے۔ انہیں یسوع کی محبت کی کہانی سنانے کی ضرورت ہے۔ اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ جو اس کے پاس اپنے گناہوں کا اقرار کر کے آتے ہیں وہ ان کو ان کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔SKC 183.4

    بہتیرے دُکھی یسوع کے سایہ تلے زندگی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ خُداوند کا فرشتہ انسانوں کو اپنا آلہ کار بناتے ہوئے دکھیوں کے دلوں میں امید، خوشی اور اطمینان کا دیا جلا سکتے ہیں۔ ایسی کیفیت اور ماحول میں بیمار دہری برکت پاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تندرست ہو جاتے ہیں۔ کمزور قدموں میں لچک اور آنکھوں میں چمک آجاتی ہے۔ ناامیدی کی جگہ امید لے لیتی ہے اور مرجھائے ہوئے اداس چہروں پر شادمانی کھیلنے لگتی ہے۔ بڑبڑانے کی جگہ مریض قناعت پسند ہوجاتا ہے۔SKC 183.5

    جب جسمانی صحت بحال ہو جاتی ہے تو انسان مسیح میں اس ایمان کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہو جاتا ہے جس کی بدولت اسے روح کی شفا عطا ہوئی تھی۔ گناہ سے معافی کی وجہ سے انسان کے ضمیر میں اطمینان، خوشی اور آرام آ جاتا ہے جو بیان سے باہر ہے۔ ناامید مسیحی کی امید روشن ہو جاتی ہے۔ اور وہ یوں گویا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔SKC 184.1

    “خُدا ہماری پناہ اور قوت ہے۔ مصیبت میں مستعد مددگار” 1:46۔SKC 184.2

    “بلکہ خواہ موت کے سایہ کی وادی میں سے میرا گزر ہو۔ میں کسی بلا سے نہ ڈروں گا۔ کیونکہ تو میرے ساتھ ہے۔ تیرے عصا اور تیری لاٹھی سے مجھے تسلی ہے” زبور 4:23۔SKC 184.3

    “وہ تھکے ہوئے کو زور بخشتا ہے اور ناتوان کی توانائی کو زیادہ کرتا ہے” یسعیاہ 29:40۔SKC 184.4

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents