Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    پندرہواں باب - بائبل مقدسی اور فرانسسی انقلاب

    سولہویں صدی میں ریفریمیشن نے بائبل مقدس کو عوام تک پہنچانے کی پیشکش کی- اور اسکے لئے تمام یورپین ممالک سے اجازت چاہی- کچھ ممالک نے اسے آسمانی پیامبر جان کر بڑی خوشی سے خیر مقدم کیا- جبکہ دوسرے ممالک میں اس کے داخلے کو روکنے میں پوپ کے حامی بڑی حد تک کامیاب ہو گئے اور بائبل کی روشنی کا علم جو ابدی تاثیر رکھتا ہے اسے تقریبا معدوم کر دیا- ایک ملک جس میں گو روشنی داخل تو ہو گئی مگر تاریکی نے اسے قبول نہ کیا- صدیوں تک سچائی اور جھوٹ میں برتری حاصل کرنے کیلئے جدوجہد جاری رہی- آخر کار بدی نے غلبہ پا لیا اور آسمانی صداقت کو پسپا کر دیا گیا- “اور سزا کے حکم کا سبب یہ ہے کہ نور دنیا میں آیا اور آدمیوں نے تاریکی کو نور سے زیادہ پسند کیا” یوحنا 19:3 قوم نے جو راہ اختیار کی تھی اور جو بویا تھا اسے وہی کاٹنا پڑا- جن لوگوں نے خدا کے فضل کی نعمت کو حقیر جانا ان پر سے خدا کی کی ترغیب دینے والی روح جدا ہو گئی- بدی کو پوری طرح پروان چڑھنے دیا گیا اور ساری دنیا نے نور کو بہ رضا ورغبت ترک کرنے کے ثمرات دیکھ لئے-AK 259.1

    فرانس میں بائبل کے خلاف جنگ صدیوں تک جاری رہی- جس نے فرانس کو انقلاب کی معراج تک پہنچا دیا- یہ ہولناک غدر، روم کا الہامی نوشتوں کو جبرا دبانے کے نتیجہ میں پیش آیا- پوپ کی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں دنیا نے دل دہلا دینے والے مناظر دیکھے جو پہلے کبھی دیکھنے کو نہ ملے تھے- یہ سب کچھ روم کی اس تعلیم کے نتیجہ میں برپا ہوا تھا جسکی وہ ہزاروں سال سے سرپرستی کر رہا تھا-AK 259.2

    پوپ کی حکومت کے اختیار اعلی کے دوران کلام مقدس کی منسوخی کے باعث جو کچھ پیش آنے کو تھا نبی نے اسکی پیشینگوئی کر دی تھی- اور یوحنا عارف نے ان ہولناک نتائج کا ذکر بھی کر دیا تھا جو “گناہ کا شخص” کی فرمانروائی کے سبب فرانس نے بھگتے تھے- خداوند کے فرشتہ نے کہا “وہ مقدس شہر کو چالیس مہینے تک پامال کریں گی- اور میں اپنے دو گواہوں کو اختیار دوں گا اور وہ ٹاٹ اوڑھے ہوۓ ایک ہزار دو سو ساٹھ دن نبوت کریں گے جب وہ اپنی گواہی دے چکیں گے تو وہ حیوان جو اتھاہ گڑھے سے نکلے گا ان سے لڑ کر ان پر غالب آئے گا اور انکو مار ڈالے گا- اور انکی لاشیں اس بڑے شہر کے بازار میں پڑی رہیں گی جو روحانی اعتبار سے سدوم اور مصر کہلاتا ہے- جہاں انکا خداوند بھی مصلوب ہوا تھا اور زمین کے رہنے والے انکے مرنے سے خوشی منائیں گے اور شادیانے بجائیں گے اور آپس میں تحفے بھیجیں گے- کیونکہ ان دونوں نبیوں نے زمین کے رہنے والوں کو ستایا تھا- اور ساڑھے تین دن کے بعد خدا کی طرف سے ان میں زندگی کی روح داخل ہوئی اور وہ اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہو گئے اور انکے دیکھنے والوں پر بڑا خوف چھا گیا” مکاشفہ -11-2:21AK 259.3

    ”بیالیس ماہ“ اور ایک ہزار دو سو ساٹھ دن دونوں میں ایک ہی دورانیہ کا ذکر کیا گیا ہے- یعنی وہ دورانیہ جس میں کلیسیا رومی ظلم وتشدد کا شکار ہونے کو تھی- پوپ کے اختیار اعلی کا 1260 سالوں کا زمانہ 538 عیسوی میں شروع ہوا اور 1798 میں اختتام پذیر ہوا- اس وقت فرانس کی فوج روم میں داخل ہوئی اور پوپ کو پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جہاں وہ جلا وطنی میں ہی دم توڑ گیا- گو اسکے فورا بعد نئے پوپ کا انتخاب کر لیا گیا- مگر پوپ کی فرمانروائی کو وہ اختیار حاصل نہ ہو سکا جو اسکو پہلے حاصل تھا-AK 260.1

    1260 برس تک کلیسیا مسلسل ایذا رسانی کا شکار نہ رہی- خداوند نے اپنے رحم میں اپنے لوگوں کی آزمائش کے وقت کو کم کر دیا- اس ہولناک مصیبت کے بارے پہلے سے بتایا گیا جو کلیسیا پر آنے کو تھی- مسیح یسوع نے کہا “اور اگر وہ دن گھٹائے نہ جاتے تو کوئی بشر نہ بچتا- مگر برگزیدوں کی خاطر وہ دن گھٹائے گئے” متی -22:24 ریفریمیشن کے حسن سلوک کی بدولت ایذا رسانی 1798 سے پیشتر ہی موقوف ہو گئی-AK 260.2

    ان دو گواہوں کے بارے ہبی نے مزید فرمایا ”یہ وہی زیتون کے دو درخت اور دو چراغدان ہیں جو زمین کے خداوند کے سامنے کھڑے ہیں“ مکاشفہ 4:11 زبور نویس فرماتا ہے ”تیرا کلام تیرے قدموں کیلئے چراغ اور میری راہ کیلئے روشنی ہے“ زبور -105:119 یہ دو گواہ عہد عتیق اور عہد جدید کی نمائندگی کرتے ہیں یہ دونوں ہی خدا کی دائمی شریعت کے اہم گواہ ہیں- دونوں ہی نجات کی تجویز کے شاہد ہیں- قربانیوں کا انتظام اور عہد عتیق کی پیشینگوئیاں نجات دہندہ کے آنے کی طرف اشارہ کرتی ہیں- انجیل اور نئے عہد نامے کے خطوط نجات دہندہ کے بارے بیان کرتے ہیں جو پیشینگوئیوں کے مطابق آ چکا ہے- ”وہ ٹاٹ اوڑھے ہوۓ ایک ہزار دو سو ساٹھ دن نبوت کریں گے“ اس دورانیہ کے بڑے حصے میں خدا کے گواہ گمنامی کی حالت میں رہے- پوپ کے حامیوں نے سچائی کے کلام کو لوگوں سے چھپائے رکھنے کے جتن کئے اور انکے سامنے جھوٹے گواہ کھڑے کئے تاکہ انکی گواہی کی مخالفت کریں- بائبل کو مذہبی اور سیکولر ارباب اختیار نے ممنوع قرار دے دیا- اور اسکی گواہی کے بارے لوگوں کو گمراہ کیا گیا اور ہر ممکن کوشش کی گئی کہ انسان اور شیطان دونوں ملکر لوگوں کو اس سے منحرف کرائیں- جب خدا کے لوگوں کا شکار کیا گیا، ان سے غداری کر کے ایذائیں پہنچائی گئیں، وہ زندہ دفن کر دیا گیا اور انکے ایمان کی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا جو اسکی مقدس سچائیاں بیان کرنے کی جسارت کرتے تھے- یا انہیں پہاڑوں کی طرف بھاگ جانے پر مجبور کر دیا جاتا تھا یا انہیں درندوں کے کچھاروں یا غاروں میں چھپنے پر مجبور کر دیا گیا- ایسے میں یہ وفادار گواہ ٹاٹ اوڑھے نبوت کرتے تھے- ان دشواریوں اور بد سلوکیوں کے باوجود وہ 1260سالوں کے دورانیہ میں مسلسل گواہی دیتے رہے- تاریک ترین زمانہ میں بھی وفادار لوگ موجود تھے جو خدا کے کلام کو پیار کرتے تھے اور انہیں خدا کے نام کی غیرت تھی- ان وفادار خدام کو حکمت، دانش، قوت وقدرت اور اختیار دیا گیا کہ وہ اس سارے دور میں اسکی صداقتوں کا پرچار کریں-AK 260.3

    “اور اگر کوئی انہیں ضرر پہنچانا چاہتا ہے تو انکے منہ سے آگ نکل کر انکے دشمنوں کو کھا جاتی ہے اور اگر کوئی انہیں ضرر پہنچانا چاہے گا تو وہ ضرور اسی طرح مارا جائے” مکاشفہ -5:11کوئی بھی انسان جو خدا کے کلام کو پائمال کرے گا وہ سزا پائے بغیر نہ رہ سکے گا- اس ہولناک ملامت اور دھمکی کے معنی مکاشفہ کے اختتامیہ باب میں مرقوم ہیں- “میں ہر ایک آدمی کے آگے جو اس کتاب کی نبوت کی باتیں سنتا ہے گواہی دیتا ہوں کہ اگر کوئی ان میں کچھ بڑھائے تو خدا اس کتاب میں لکھی ہوئی آفتیں اس پر نازل کرے گا- اور اگر کوئی اس نبوت کی کتاب کی باتوں میں سے کچھ نکال ڈالے تو خدا اس زندگی کے درخت اور مقدس شہر میں سے جنکا اس کتاب میں ذکر ہے اسکا حصہ نکال ڈالے گا” مکاشفہ -19-18:22 خدا کے کسی طریقے یا حکم کو جو اس نے اپنے پاک کلام میں ارشاد فرمایا ہے اسے اگر کوئی شخص تبدیل کرے تو اس کیلئے یہ سخت خطرے کی علامت ہے- یہ تنبیہہ ان سب پر لاگو ہوتی ہے جو اپنے اثرورسوخ سے انسانوں کو خدا کی شریعت کو ناچیز جاننے کی ترغیب دیتے ہیں- یہ ان سب کے لئے باعث خوف ہے جو دوسروں کو بڑی گستاخی سے کہتے ہیں کہ خواہ وہ خدا کی شریعت کی مانیں یا نہ مانیں کچھ فرق نہیں پڑتا- وہ تمام لوگ جو اپنی رائے کو خدا کے مکاشفہ پر ترجیح دیتے ہیں اور جو اپنی سہولت کیلئے الہامی ہوشتوں کے معنی تبدیل کرتے ہیں، یا دنیا کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کیلئے ایسا کرتے ہیں- وہ اپنے اوپر نہایت ہی ہولناک ذمہ داری لیتے ہیں- یہ لکھا ہوا کلام، خدا کی شریعت ہر آدمی کے رویے کو پرکھے اور ملعون تھرائے گا جو اس لاخطاء پیمانے کے مطابق کم پائے جائیں گے-AK 261.1

    ”جب وہ گواہی دے چکیں گے“ (مکاشفہ 7:11) یعنی وہ دور جس میں ان گواہوں نے ٹاٹ اوڑھے گواہی دینی تھی یعنی جب 1798میں اختتام پذیر ہو گیا- اور جب وہ اپنی گمنامی کے خاتمہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو انکے خلاف اس قوت کی طرف سے جنگ شروع ہونی تھی جسکی وہ نمائندگی کرتی ہے- ”وہ حیوان جو اتھاہ گڑھے سے نکلے گا“ مکشفہ 7:11یورپ کی بہت سی قوموں میں وہ قوت جس نے صدیوں تک کلیسیا اور ملک دونوں میں حکمرانی کی اسے ابلیس نے پاپائی نظام کے ذریعہ کنٹرول کیا- مگر یہاں شیطانی قوت کا ایک اور ظہور سامنے آتا ہے- AK 262.1

    بائبل کی عزت وتکریم میں اسے لوگوں کو چھپائے اور کسی اجنبی زبان میں سر بمہر رکھنا روم کی پالیسی رہی ہے- اسکے قانون کے مطابق گواہوں نے “ٹاٹ اوڑھے ہوۓ” پیشینگوئی کی مگر ایک اور قوت یعنی حیوان جو گڑھے سے نکلا اس نے اعلانیہ خدا کے کلام کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا-AK 262.2

    ”بڑا شہر“ جس کے بازاروں میں انکو مار ڈالا گیا اور جس کے بازاروں میں انکی لاشیں پڑی رہیں- ”روحانی“ لحاظ سے وہ مصر ہے-بائبل کی تاریخ میں جن قوموں کا ذکر آیا ہے صرف مصر ہی بڑی بیباکی سے خدا کی موجودگی کا انکار کرتا رہا ہے- اور اسی نے اسکی شریعت کی ممانعت کی- مصر کے بادشاہ کے علاوہ کوئی اور حکمران ایسا نہ ہوا جس نے آسمان کے خدا کے اختیار کے خلاف ببانگ دبل مخالفت کی ہو- جب خدا کے نام سے موسی فرعون کیلئے پیغام لایا تو فرعون نے بڑی حقارت سے کہا “خداوند کون ہے کہ میں اسکی بات مان کر بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا اور میں بنی اسرائیل کو جانے بھی نہیں دوں گا” خروج -2:5 یہ دہریت ہے اور وہ قوم جو مصر کی نمائندگی کرتی ہے وہ بھی خدا کے دعوؤں کی تردید کرتی ہے اس نے بھی اسی روح کا مظاہرہ کیا جس روح کا فرعون نے مظاہرہ کیا تھا- ”بڑا شہر“ روحانی طور پر ”سدوم“ بھی ہے- خدا کی شریعت توڑنے کے ضمن میں سدوم کی کرپشن خصوصا اخلاقی آوارگی اور بدکاری این ظاہر ہوئی- اور یہ گناہ قوم کی زندگی میں بہت ہی نمایاں تھے جو اس کلام کی امتیازی صفت کی تکمیل ہے-AK 262.3

    نبی کے کلام کے مطابق پھر 1798 سے کچھ دیر پہلے شیطان کی کچھ قوتیں بائبل کے اوپر حملہ آور ہوں گی- اور اس ملک میں جہاں خدا کے دو گواہوں نے گواہی دی تھی انکی گواہی کو خاموش کر دیا جائیگا- وہاں فرعون کی دہریت اور سدوم کی شہوت پرستی نمودار ہو گی اور یہ پیشینگوئی فرانس کی تاریخ میں 1793 کے انقلاب کے دوران حرف بہ حرف پوری ہوئی- “دنیا نے پہلی بار اسمبلی کے ان مردوں کے منہ سے جنہوں نے شائستگی اور تہذیب وتمدن کی فضا میں تعلیم وتربیت پائی اور جو یورپین قوموں پر حکمرانی کرنے کے قابل سمجھے جاتے تھے انہوں نے متفقہ طور پر نہایت ہی سنجیدہ سچائی کا انکار کرنے پر آواز اٹھائی- اور خدا کی پرستش اور اس پر ایمان نہ رکھنے کا اعلان کیا”- Sir walten seat, life of NepoleanAK 263.1

    فرانس وہ واحد قوم ہے جس کے پاس یہ مصدقہ ریکارڈ موجود ہے- جو یہ ظاہر کرتا ہے فرانس نے ایک قوم کے طور پر کائنات کے خالق ومالک کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تھا- انگلینڈ، جرمنی، سپین اور دنیا کے کی دوسرے حصوں میں بہت سے کافر، بہت سے ملحد تحت اور ابھی بھی ہیں- مگر فرانس دنیا کی تاریخ میں سب سے انوکھا نکلا یہ واحد ملک تھا جسکی قانون ساز اسمبلی نے اعلان کیا کہ کوئی خدا نہیں ہے جس می دارالحکومتکی ساری آبادی اور دوسری جگہوں سے بھی تمام مردوزن نے نہ صرف اس اعلان پر ڈانس کیا بلکہ اس اعلان کو قبول کرنے پر خوشی کے گیت گائے- Black wood’s magazine, November, 1870.AK 263.2

    فرانس نے وہ بھی طور طریقے اپنائے جو سدوم کا طرح امتیاز تھا- انقلابکے دوران اخلاقی رسوائی اور جنسی بے راہروی کے وہ مظاہرہ ہوا جو سدوم کی بربادی کا باعث بنا تھا- اور جیسا کہ پیشینگوئی ہوئی تھی تاریخ دان اسکے مطابق فرانس کی دہریت اور عیاشی اور زناکاری کا بیان کرتے ہیں- “حرام کاری کو ان قوانین کے ساتھ منسلک کرنے سے مسیحی مذھب بڑی طرح متاثر ہوا- کیونکہ اس سے شادی کے اتحاد کی بےقدری ہوئی- شادی تو بنی نوع انسان کے درمیان نہایت ہی مقدس اور باہمی ناطہ تھا- اور جس سے سوسائٹی کو متحد رہنے میں بڑی تقویت حاصل ہوتی تھی- مگر آبسے ایک عام سا سول معاہدہ بنا کر رکھ دیا گیا- جس کے ذریعہ کوئی سے دو شخص اکٹھے ہو کر جنسی لذت اٹھا سکتے تھے- اگر یہ پرلے درجے کے بد معاش خاندانی زندگی کو جو پاک اور مقدس اور اعلی اقدار کی حامل ہے اسے برباد کرنے کیلئے اور شادی کے نظام کو برباد کرنے کیلئے کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیتے جو نسل در نسل جاری رہتا تو پھر وہ کوئی اور موثر طریقہ کی تلاش نہ کرتے- Sophie Arnoutt جو لطیفے اور مزاحیہ فقرے کسنے میں مشہور سمجھی جاتی تھی اس نے اس جمہوریت پسند شادی کو حرامکاری کی مقدس رسم کا نام دیا- یعنی- “The Secrament of adultery”AK 263.3

    ”جہاں ہمارا خداوند بھی مصلوب ہوا تھا“ اس پیشینگوئی کی تکمیل بھی فرانس میں ہوئی کسی اور ملک میں مسیح یسوع کے خلاف دشمنی کی روح نہیں پائی گئی- سچائی کو اس ملک سے زیادہ کسی اور جگہ مزاحمت کا سامنا کرنا نہیں پڑا- انجیل کے ماننے والوں پر جو فرانس نے ظلم ڈھائے اور یوں اسکے شاگردوں کو مصلوب کرنے کے ذریعہ در حقیقت مسیح یسوع کو ہی مصلوب کیا گیا- ہر صدی میں یہاں مقدسین کا خون بہایا گیا- والڈن سس نے اپنی زندگیاں “خدا کے کلام اور مسیح کی گواہی” کیلئے پیڈ ماؤنٹ (Piedmont) کے پہاڑوں پر قربان کیں- اسی سچائی کی خاطر انکے بھائیوں، فرانس کے البی جنسس (ALBIGENSES) نے اپنی جانیں نچھاور کیں- ریفریمیشن کے زمانہ میں اس کے شاگردوں کو ہولناک اذیتیں دے کر مارا گیا- شہنشاہ، نوبلز، اعلی مراتب خواتین اور الہڑ لڑکیاں مسیح یسوع کے شہیدوں کے کارعظماور انکی ہولناک موت کی یادگاری مناتی ہے- بہادر ہگونوٹس (Huguenotes)ان حقوق کے لئے لڑتے رہے جنکو اسنانی دل بہت مقدس سمجھتا ہے- انہوں نے کئی سخت جنگوں میں اپنا خون بہایا- پروٹسٹنٹس کو باغی قرار دے دیا گیا- ان کے سروں کی قیمت مقرر کی گئی اور انکا ایسے شکار کیا گیا جیسے جنگلی درندوں کا کیا جاتا ہے-AK 264.1

    “بیابان میں کلیسیا” قدیم مسیحیوں کی تھوڑی سی نسل جو اٹھارویں صدی میں فرانس میں تھی- ساؤتھ کے پہاڑوں میں چھپتی پھرتی تھی اور اپنے آباؤ اجداد کے ایمان کو سنبھالا دیئے ہوۓ تھی- جب وہ رات کے وقت پہاڑ کے پہلو میں یا ک سی ویران اڈے پر جمع ہونا چاہتے تو سپاہی انکا پیچھا کرتے اور انہیں گھسیٹ کر غلاموں کو لے جانے والے جہاز پر عمر بھر غلام رکھنے کیلئے لے جاتے- نہایت ہی متقی، نفیس اور فرانس کے ذہین لوگوں کو سخت اذیت دینے کے لئے دوسرے ڈاکوؤں اور مکار قاتلوں کے ساتھ بیڑیوں میں جکڑا جاتا- See wylie.b.22.ch.6AK 264.2

    بہتوں کو جب وہ دعا میں سربسجود ہوتے، انکے پاس کوئی ہتھیار بھی نہ ہوتا پھر بھی انھیں ہلاک کر دیا جاتا- بےکس خواتین اور معصوم بچوں کو اجتماع کی جگہ پر ہی مار دیا جاتا- پہاڑوں یا جنگلوں کی طرف جاتے ہوۓ جو عموما انکے جمع ہونے کی جگہ ہوتی تھی، ہر چار قدم پر کئی لاشیں پڑی ہوئی یا درختوں سے لٹکی ہوئی مل جاتیں تو یہ معمول کی بات ہی تھی- انکا ملک تلوار سے ی اجلا کر برباد کر دیا گیا- یہ ظلم وتشددکسی تاریک زمانہ میں نہ ہوا، بلکہ لوئیس IIX کے مہذب زمانے میں ہوا جب سائنس ترقی کر چکی تھی پڑھائی لکھائی عام تھی- دربار میں عالم فاضل لوگ تھے- دار السلطنت میں ذہین وفطین لوگ موجود تھے- Ibid,B.22.ch.7AK 264.3

    جرم کی کتابوں میں سیاہ سے سیاہ ترین اور ہولناک ترین بدمعاشی کا ایک کام جو تمام صدیوں میں کیا گیا وہ سینٹ برتھال میو (Bartholomew) کا قتل عام تھا- دنیا آج تک اس دل دہلا دینے والے وحشت ناک منظر کو یاد کرتی ہے جو بہت ہی بزدلانہ اور ظالمانہ تھا- فرانس کے بادشاہ سے رومی پریسٹس اور کلیسیا کے اعلی عہدہ داران نے اس ہولناک سانحہ کی اجازت لے لی کہ اس رات ماتمی گھنٹہ اس بات کا اشارہ ہو گا کہ قتل عام شروع کر دیا جائے-ہزاروں پروٹسٹنس، اپنے اپنے گھروں میں سو رہے تھے جنھیں اپنے معزز بادشاہ کے عہد وپیمان پر مکمل بھروسہ تھا- مگر انہیں بغیر خبر کئے ہی انکے گھروں سے باہر کھینچ لیا گیا اور انکے مزاحمت نہ کرنے پر بھی انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا-AK 265.1

    جیسے مصر کی غلامی سے رہائی کے وقت مسیح یسوع ہی اپنے لوگوں کا غیبی لیڈر تھا، اسی طرح شیطان اپنی رعایا کیلئے بیشمار شہیدوں کے قتل کے ہولناک کام کا غیبی لیڈر بن گیا- پیرس میں سات دن تک مسلسل قتل عام جاری رہا- پہلے تین دن تو اس قدر شدت سے قتل عام کیا گیا جو سمجھ سے باہر ہے- اور یہ صرف شہروں تک ہی محدود نہ رہا بلکہ بادشاہ کے ایک خاص حکم کے تحت ان تمام قصبوں اور صوبوں میں بھی قتل عام کی اجازت دے دی گئی جہاں جہاں پروٹسٹنٹس موجود تھے- عمر اور جنس کا بھی کوئی لحاظ نہ رکھا گیا- نہ تو معصوم شیر خوار بچوں کو اور نہ ہی سفید بالوں والوں کو چھوڑا گیا- سبکو اکٹھا قتل کر دیا گیا- نوبل اور کسان، بوڑھے اور جوان، ماں اور بچوں کو اکٹھا موت کے گھاٹ اتار دیا گیا- سارے فرانس میں 2 ماہ تک قتل عام جاری رہا- قوم کے 70ہزار ہونہار لقمہ اجل بنا دیئے گئے-AK 265.2

    “جب اس قتل عام کی خبر روم پہنچی تو پادریوں کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا- لورین (Lorraine) کے کارڈینل نے خبر لانے والے کو ہزاروں کراؤنز دیئے (ایک انگریزی سکہ)- سینٹ انجلو (Angelo) کے کینن (Cannon) نے خوشی سے سلام پیش کیا- اور ہر سٹیپل (Steeple) سے گھنٹیاں بجانے کیلئے کہا گیا- خوشی کے الاؤ (بھانبڑ) جلائے گئے- جنکی روشنیوں میں رات، دن میں بدل گئی اور گریگری IIXکے پاس کارڈینلز، کلیسیا کے دوسرے اعلی عہدہ داران پہنچ گئے اور وہ بڑے جلوس کی صورت میں سینٹ لوئیس کے گھر گئے، جہاں کارڈینل آف لورین خوشی سے نغمہ سرا تھا-اس غارت گری کی یاد میں تختی آویزاں کی گئی- جسے ویٹی کن میں ابھی بھی دیکھا جا سکتا ہے- جو دیوار کی استر کاری پر ہے اور اس حملے کو بیان کرتی ہے کہ اس ساری سازش کا منصوبہ بادشاہ نے بنایا- گریگری نے چارلس کو سونے کے پھول بھیجے اور اس قتل عام کے 4 ماہ بعد اس نے ایک فرنچ پریسٹ کے وعظ کو بڑی خوش خلقی اور اطمنان کے ساتھ سنا جس نے اس دن کو بڑی خوشی کا دن قرار دیا- اور جب پاکترین فادر نے یہ خبر سنی تو وہ بڑی سنجیدگی سے خدا کا شکر ادا کرنے کیلئے سینٹ لوئیس پہنچا- Henry white, the massagere of st. Barthalmew, ch, 1 .par.34AK 265.3

    وہی عامل روح جس نے برتھالمیوکی غارت گری کیلئے اکسایا تھا، اسی روح نے انہیں انقلاب کے مناظر کی طرف راغب کیا- مسیح یسوع کو دغا باز اور مکار قرار دے دیا گیا اور وہ ملحد فرانسیسی چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ اسے ختم کر دو- اس قدر کفر اور نفرت انگیز بدکاری ساتھ ساتھ جا رہی تھیں- اور بہت ہی ذلیل بدکار اور ظالم انسانوں کو سرفراز کیا جا رہا تھا- اس سارے امور کے ذریعہ ابلیس کی اطاعت اور عزت افزائی ہو رہی تھی- جبکہ مسیح یسوع جس میں سچائی، پاکیزگی اور بےلوث محبت پائی جاتی ہے اسے مصلوب کیا جا رہا تھا-AK 266.1

    “وہ حیوان جو اتھاہ گڑھے سے نکلے گا ان سے لڑ کر ان پر غالب آئے گا اور انکو مار ڈالے گا” دہریت کی فرانس پر حکمرانی جو انقلاب کے دوران تھی وہ دہشت گردی اور جبروتشدد کی حکمرانی تھی اسی نے خدا اور اسکے کلام کے خلاف ایسی جنگ کی جو دنیا نے اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی- نیشنل اسمبلی نے قانون پاس کر دیا کہ آسمان کے خدا کی عبادت ممنوع ہے- کتاب مقدس کی کاپیوں کو جمع کر کے عوام کی آنکھوں کے سامنے بڑی حقارت کے ساتھ نظر آتش کر دیا گیا- بائبل کے قواعد وضوابط کو منسوخ کر دیا گیا- ہفتہ وار آرام کے دن کو ترک کر دیا گیا- اور اسکے عوض ہر دسواں دن کفر بکنے اور عیش وعشرت کیلئے مخصوص کر لیا گیا- بپتسمہ اور عشائے ربانی کی ممانعت کر دی گئی- اور ان اعلانات کو نمایاں طور پر قبرستان میں چپکا دیا گیا- اور ان پر لکھا گیا کہ “موت ابدی نیند ہے”-AK 266.2

    خدا کے خوف کے بارے کہا گیا کہ یہ حکمت کے شروعات سے کہیں دور ہے، بلکہ حماقت کی شروعات ہے- ملک اور آزادی کی پرستش کے علاوہ ہر طرح کی مذہبی عبادات کو ممنوع قرار دے دیا گیا- اور پھر پیرس کے کانسٹیٹیوشنل بشپ کو آگے لایا گیا تاکہ وہ اس گستاخ اور بدنام زمانہ قانون کا اعلان کرنے میں اہم رول ادا کرے- اور اسے مزید چٹ پٹا بنائے- قوم کے سامنے پہلے کبھی ایسا رسوائے زمانہ قانون پیش نہیں کیا گیا تھا-AK 267.1

    اسے جلوس کی صورت میں لایا گیا تاکہ وہ اس مجمع کو بتائے کہ جس مذھب کی وہ سالوں سے تعلیم دیتا آیا ہے وہ ہر لحاظ سے پادریوں کی مکاری ہے- اسکی بنیاد نہ تو تاریخ میں ہے اور نہ ہی مقدس سچائی میں- اس نے بڑا سنجیدہ اور حتمی بیان دیا کہ جس خدا کی وہ عبادت وپرستش کر رہا ہے اسکا کوئی وجود ہی نہیں ہے- میں اسکی اطاعت سے روگردانی کرتا ہوں- اور مستقبل کیلئے میں خود کو لبرٹی، مساوات، نیکی وبھلائی اور اخلاقی طورواطوار کیلئے مخصوص کرتا ہوں- اسکے بعد اس نے اپنے ہاتھ اسقف کی میز پر رکھے- اور کنونشن کے صدر نے اسے گلے لگایا اور بہت سے مرتد پریسٹس نے اس مرتد اسقف کے نمونہ کی پیروی کی-Scott, vol, 1.ch.17AK 267.2

    “اور زمین کے سب رہنے والے ان کے مرنے سے خوشی منائیں گے اور شادیانے بجائیں گے اور آپس میں تحفے بھیجیں گے کیونکہ ان دونوں نبیوں نے زمین کے رہنے والوں کو ستایا تھا” فرانس نے ان دو گواہوں کی سرزنش کرنے والی آواز کو خاموش کر دیا- سچائی کا کلام انکے بازاروں میں مردہ پڑا رہا- اور وہ سب لوگ جو خدا کی پابندیوں اور مطالبات سے نفرت کرتے تھے شادمان ہوۓ- لوگوں نے آسمان کے شہنشاہ کی کھلے عام تحقیر کی- قدیم زمانہ کے گنہگاروں کی طرح انہوں نے ہنگامہ مچایا کہ “خدا کو کیسے معلوم ہے؟ کیا حق تعالیٰکو کچھ علم ہے؟” زبور 11:173AK 267.3

    کافرانہ دلیری کے ساتھ جو ناقابل یقین ہے ایک پادری نے کہا “خداوند اگر تیرا کوئی وجود ہے تو اپنے مجروح نام کا بدلہ لے” میں تجھے چیلنج کرتا ہوں! تو خاموش ہے؟ کیونکہ تو اپنے غیض وغضب کو برسانے کی جرات نہیں کر سکتا- اسکے بعد کون تیرے وجود کو تسلیم کرے گا؟AK 267.4

    Lacretelle, history ,vol, 11.p.309; in sir archiabld Allison, history of Europe, vol,1,ch.10AK 267.5

    یہی بآتیں فرعون کے مطالبہ کی بعض گشت تھیں- “خداوند کون ہے! کہ میں اسکی بات ماں کر بنی اسرائیل کو جانے دوں؟ میں خداوند کو نہیں جانتا”-AK 267.6

    “احمق نے اپنے دل سے کہا کہ کوئی خدا نہیں“زبور 1:14اور خداوند نے انکے بارے یوں فرمایا جو صداقت کو رد کرتے ہیں” انکی نادانی سب آدمیوں پر ظاہر ہو جائے گی” 2 تیمتھیس -9:3جب فرانس نے اس زندہ خدا کی عبادت کو ترک کر دیا “جو عالی بلند ہے اور ابد آباد تک قائم ہے” یسعیاہ -15:57اسکے تھوڑے ہی دیر بعد یہ بت پرستی میں دھنس گیا- اور وہ عقل کی دیوی (Goddes of reason) کو شہوت پرست عورت کے روپ میں لے آئے- اور یہ سب کچھ نمائندگان کی نشنل اسمبلی میں پاس ہوا، جہاں سول اور قانون ساز اسمبلی کے اعلی ارباب اختیارات موجود تھے- مورخ کا کہنا ہے کہ اس سودائی زمانہ کی احمقانہ رسم جس میں فسق وفجور بھی شامل ہو اسکی کوئی مثال نہیں ملتی- کنونشن کے دروازے موسیقاروں کے لئے کھول دیئے گئے- اور انکے آگے آگے میونسپل باڈی ایک پروقار جلوس کی صورت میں لبرٹی کے حق میں گیت گاتے ہوۓ داخل ہوئی- اور نقاب پوش خاتون کا محافظ دستہ جسکی مستقبل میں وہ پرستش کرنے کو تھے- اور جسے وہ “عقل کل” کی دیوی مانتے تھے- جماعت میں لانے کے بعد بڑے احترام کیساتھ اسکے منہ سے پردہ ہٹایا گیا اور اسے پریذیڈنٹ کی دائیں جانب رکھ دیا گیا- اور اسکی شناخت اوپیرا (Opera) کی ڈانستگگرل کے طور پر ہوئی- یہ سچ مچ “عقل کل” کی نمائندگی کرتی تھی جسکو انہوں نے ماننا تھا اور فرانس کی نیشنل کونسل نے اسکی پبلک سے تعظیم کروائی- “اس فسق وفجور اور مضحکہ خیز رسم کے کئی خاص مقاصد تھے- ایک تو یہ کہ اس “عقل کل” کی دیوی کی مسند نشینی سے بت پرستی کی تجدید- دیگر جو کچھ قوم کے رہنماؤں نے یہاں کیا ہے لوگ بھی ہو بہو وہی کریں- اور ایسی جگہ پر اسے نسب کریں جہاں سارے باشندے اسے بڑا انقلاب سمجھیں” Scott.vol.1.ch.17 خوش بیاں مقرر، جس نے اس “عقل کل” کی دیوی کیلئے راہ تیار کی ہے اسکی دھندلی آنکھیں، نور کی چمک دمک گوارہ نہ کر سکی”- آج کے دن گوتھک گنبد کے نیچے بہت بڑا ہجوم جمع ہوا ہے جو آج پہلی بار سچائی کی بعض گشت کیلئے آواز بلند کرے گا- یہاں فرانسیسیوں نے واحد حقیقی پرستش کا جشن منایا ہے- جشن لبرٹی اور “عقل کل” کی دیوی کے لئے تھا- ہم نے ری پبلک کے فروغ کیلئے راہ تیار کی ہے- ہم نے اس غیر ذی روح دیوی کیلئے خرافاتی (لاپرواہ) بت بنایا ہے- جو فطرت کا ایک شہکار ہے-AK 268.1

    M.A theirs history of the French revolutions. Vol,2.pp.370,371AK 268.2

    جب دیوی کو کنونشن میں لایا گیا تو خوش بیان مقرر نے اسے ہاتھ سے پکڑا اور اسمبلی کی طرف مڑ کر یوں گویا ہوا- “فانی انسانو! بےبس خدا کے غیض وغضب کی گرج سے خوف کھانا بند کر دو، جسے محض تمھارے خوف نے ہی تخلیق کیا ہے- آج سے “عقل کل” کی دیوی کے سوا کسی اور کو خدا تسلیم نہ کرنا- میں اس دیوی کا نہایت ہی پاکیزہ اور عالی ظرف بت پیش کرتا ہوں- اگر آپکو بت درکار ہوں تو صرف اس طرح کے بت کے سامنے قربانیاں گزرانے” دیوی کے نقاب آگسٹ سینیٹ آف فریڈم کے سامنے اتر جا-AK 269.1

    دیوی، پریذیڈنٹ کے ہاتھوں میں جانے کے بعد ایک خوبصورت عالی شان کار میں سوار کر دی گئی- اور بہت بڑی ہجوم کے ساتھ اسے کیتھڈرل آف نوٹرے ڈیم پہنچایا گیا تاکہ اسے خدا کا مقام حاصل ہو- وہاں اسے بہت بڑے مذبحہ پر براجمان کیا گیا اور جتنے وہاں حاضر تھے انہوں نے اس کی پرستش کی-AK 269.2

    Alison, vol, 1,ch.10.AK 269.3

    اسکے تھوڑی دیر بعد عوام کی آنکھوں کے سامنے بائبل کو جلایا گیا- ایک موقع پر “دی پاپولر سوسائٹی آف دی میوزیم” مونسپیلٹی کے ہال میں داخل ہوئی اور بڑے دکھ کا اظہار کیا- وہ ایک پول کے ٹاپ پر کچھ دعاؤں، گیتوں اور دوسرے مذہبی رسالوں، پادریوں کی نماز کے درمیان ادھ جلے عہد عتیق اور عہد جدید باہر لائے جو بہت بڑی آگ میں کفارہ کیلئے جھونکی گئیں- یہ ساری احمقانہ حرکات انسانوں نے کیں-AK 269.4

    Journal of paris, 1793. No 318.AK 269.5

    Quoted in buchez-roux,collection of parlimantery history,vol,30. Pp.200,201.AK 269.6

    یہ وہ کام تھا جو پوپ پرستی نے شروع کیا- اور دہریت نے اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا- روم کی پالیسی نے ایسی سوشل، پولیٹیکل اور مذہبی کیفیت پیدا کر دی جو فرانس کو بڑی تیزی کیساتھ تباہی کی طرف لے گئی- مصنفین انقلاب کی ہولناکی کے بارے حوالہ دیتے ہوۓ کہتے ہیں کہ ان تمام بے اعتدالیوں کی ذمہ داری کلیسیا اور تخت پر عائد کرنی چاہیے- کلیسیا کو انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہیے- پوپ پرستی نے ریفریمیشن کے خلاف بادشاہ کے ذہن میں یہ کہہ کر زہر بھر دیا کہ یہ تاج کے دشمن ہیں- یہ وہ ناموزوں انصر ہے جو قوم اور امن وامان کیلئے بہت ہی مہلک ہے- روم کے اسی وصف نے اتنے بڑے ظلم کو ہوا دی جو بادشاہ کے تخت سے صادر ہوا-AK 269.7

    لبرٹی کی روح بائبل کے ساتھ چلی گئی- جہاں کہیں بھی انجیل کو قبول کیا گیا- وہاں لوگوں کے اذہان روشن ہو گئے- وہ ان زنجیروں کو توڑنے لگے جنہوں نے انہیں روایات، جہالت اور بدکاری میں جکڑ رکھا تھا- وہ انسانوں کی طرح سوچنے اور عمل کرنے لگے- فرمانرواؤں نے اسے دیکھا اور وہ اپنی مطلق العنانی کو ختم ہوتا دیکھ کر تھرتھرا اٹھے-AK 269.8

    روم اپنے بلا وجہ خوف کے تعصب کو بڑھانے کیلئے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھا نہیں ہوا تھا-1525میں پوپ نے فرانس کے ریجنٹ سے کہا (نائب ریاست) “کہ یہ پروٹسٹنٹ ازم نہ صرف مذہب کو غارت کرے گا بلکہ تمام اختیار والوں، شرفا، قانون اور اعلی طبقوں کو بھی لے بیٹھے گا”-AK 270.1

    S,xie, felice history of the protestants of france. B.1 ,ch 2. Par,8.AK 270.2

    اسکے چند سال بعد پوپ پرست پیغام رساں نے بادشاہ کو خبردار کیا “دھوکہ نہ کھایئے” پروٹسٹنٹ تمام سول اور مذہبی نظام کو درہم برہم کر دے گا تخت کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے جتنا مذبحہ کو نیا مذھب نئی حکومت کا مطالبہ کرے گا-AK 270.3

    D’ aubigne history of the reformation in Europe in the time of calvin,b.2,ch.36.AK 270.4

    ایک تھیالوجین نے یہ کہہ کر لوگوں کی مصیبت کو ہوا دی کہ پروٹسٹنٹ (Doctrine) کی تعلیم، ایک انوکھی شے اور نادانی کی طرف لے جا رہی ہے اور یہ بادشاہ کی اس ہمدردی اور رحم سے دور لے جا رہی ہے جو اسے اپنی رعایا کے ساتھ ہے- اور ریاست اور کلیسیا دونوں کو تباہ کر رہی ہے- یوں روم، فرانس کو پروٹسٹنٹ کے مقابل لے آیا- “تخت وتاج کی برتری، شرفا کی حفاظت، لا اور آرڈر کو قائم رکھنے کیلئے، ایذا رسانی کی تلوار سب سے پہلے فرانس میں میان سے باہر آئی”- Wylie, b, 13,ch.4.AK 270.5

    اس منحوس پالیسی کے کیا نتائج برآمد ہوں گے اس کے بارے ملک کے حاکموں نے بہت ہی کم غوروخوض کیا تھا- بائبل کی تعلیم ہی لوگوں کے دل ودماغ میں انصاف، پرہیزگاری، صداقت، مساوات اور نیکی وبھلائی کے اصولات قائم کر سکتی تھی جو ملک کی برومندی کا باعث ہو سکتے تھے- “صداقت قوم کو سرفرازی بخشتی ہے” امثال 34:14“کیونکہ تخت کی پائیداری صداقت سے ہے”- امثال 12:16“صداقت کا انجام صلح ہو گا اور صداقت کا پھل ابدی آرام و اطمینان ہو گا”- یسعیاہ 17:32وہ جو الہی قوانین کی پیروی کرتا ہے وہ ملکی قوانین کو عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھے گا- وہ جو خداوند سے ڈرتا ہے وہ اس کے ہر جائز اور انصاف پر مبنی اختیار کا احترام کرے گا- مگر بدقسمت فرانس نے بائبل کی ممانعت کر دی اور اس کے شاگردوں کو ملعون قرار دے دیا-AK 270.6

    صدیوں تک ایماندار اور اصول پرست، ذہین وفطیناور اخلاقی جرات رکھنے والوں کو جو اپنے ایمان کے مطابق صداقت کیلئے دکھ اٹھاتے رہے ان مردوں کو غلامی کی زندگی گزارنے، جلا کر مارنے یا جیلوں میں گلنے سڑنے دیا گیا- ہزاروں ہزار نے فرار ہو کر جانیں بچائیں- اور یہ سلسلہ ریفریمیشن شروع ہونے کے 250برس بعد تک جاری رہا-“بمشکل ہی کوئی فرانسیسی نسل ایسی ہو گی جس نے اس لمبے عرصے کے دوران انجیل کے گواہوں کو ان کم عقل ظالموں کے ہاتھوں بھاگے ہوۓ نہ دیکھا ہو اور وہ اپنے ساتھ علم، آگاہی، صنعتوحرفت، دستکاری (مشقت) اور امن وامان لے گئے- اگر یہ اپنے ملک میں رہتے تو ملک امتیازی سبقت حاصل کرتا لیکن اب جس ملک میں انہوں نے پناہ لی اسے فروغ دیا- اور جس تناسب سے انہوں نے دوسرے ملکوں کو اپنے اچھے ہنروفن سے لبریز کر دیا- اسی نسبت سے انکا اپنا ملک علم وہنر اور دیگر فنون سے خالی ہو گیا- ان تین سو سالوں کے دوران اگر وہ تمام کے تمام لوگ جن کو جلا وطن کر دیا گیا وہ اپنے وطن میں ہوتے تو جلا وطنوں کے صنعت وحرفت کی بدولت فرانس کی اپنی دھرتی پھلدار ثابت ہوتی- ان تین سو سالوں کے دوران انکے فنون کی بدولت دستکاری ترقی کرتی- ان تین سو سالوں کے دوران انکی تخلیقی علم سے لٹریچر اور سائنس میں ترقی ہوتی- اگر ایسی قوانین وضع کئے جاتے جن سے کسی کی حق تلفی نہ ہوتی اور بائبل کے مذھب کو تقویت پہنچائی جاتی تو آج فرانس کس قدر جلالی ہوتا اور کس قدر سرسبز وشاداب اور کامران ہوتا- اور یہ خوشحال اور خوش وخرم ملک دوسری قوموں کیلئے مثال ہوتا-AK 271.1

    مگر اسکی سنگدلی اور ہٹدھرمی نے اپنی سر زمین سے ہر اچھی خوبی کے استاد، ضابطہ کے ہر چیمپئن اور تخت وتاج کے ہر ایماندار محافظ کو جلا وطن کر دیا- ان مرودں کے بارے کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس دنیا میں اپنے ملک کا نام روشن کر سکتے تھے- مگر فرانس نے انکے سامنے سولی یا جلا وطنی رکھی- اور انہیں ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا- آخر کار ملک کی تباہی کا سلسلہ مکمل ہو گیا- اور کوئی پیچھے نہ رہا جو ہب الوطن ہوا اور اسے واجب القتل قرار دیا جاتا- کوئی اور مذہب نہ رہا جسے سولی چڑھایا جاتا- کوئی آزادی وطن کا حامی نہ رہا جسے ملک بدر کیا جائے- Wylie,b.13,ch.20.AK 271.2

    اور انقلاب مہیب اور بھیانک نتائج کے ساتھ ناگزیر ہو گیا-AK 271.3

    ہگونٹس کے فرار کے ساتھ ہی فرانس پر تنزلی چھا گئی- شہر برباد ہو گئے- زرخیز اضلاع بنجر ہو گئے- فطری صلاحیتیں ماند پڑ گئیں-اس دوران بڑی تیزی سے تنزلی ہوئی- اور پیرس ایک (خیراتی گھر بن کر رہ گیا) اور ایک اندازے کے مطابق انقلاب کے شروع ہوتے ہی 20,000سے بھی زیادہ قانونی نادار بادشاہ کے حضور گزارہ الاؤنس کیلئے حاضر ہوۓ- اس تنزل پذیر قوم میں صرف جیسوٹس (jesuits) ہی برومند اور صاحب ثروت تھے جو سکولوں، چرچوں، جیلوں اور غلاموں کے جہازوں پر ظلم وستم ڈھاتے تھے-AK 272.1

    انجیل، فرانس کیلئے سیاسی، سماجی مسائل کا حل پیش کر سکتی تھی- جسکی عدم موجودگی میں اس کے پریسٹ، بادشاہ، قانون دانمات کھا گئے- اور خانہ جنگی نے قوم کو پستیوں میں اتار دیا روم کے زیر تسلط لوگوں نے نجات دہندہ کے ایثار وقربانی اور بےلوث محبت کے سبق کو بھولا دیا تھا- دوسروں کی بھلائی کیلئے خود انکاری کے عمل کو ترک کر دیا تھا- غریب غربا کو دبانے پر سرمایہ کاروں کو کوئی سرزنش کرنے والا نہ تھا اور نہ ہی غربا کی اہانت اور عسرت پر کوئی داد رسی کرنے والا نہ تھا- امرا اور اختیار والوں کی ظالمانہ زیادتیاں بڑھتی گئیں- نوابوں کی صدیوں کی حرص اور عیاشی کے نتیجہ میں ملک برباد ہو گیا- امرا نے غربا کے ساتھ نینصفی کی، غربا امرا کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگے-AK 272.2

    بہت سے صوبوں میں زمینوں کے مالک نوبل (Nobles) تھے اور ان پر کام کرنیوالے محض پٹے دار انہیں مجبورا انکا مہنگے سے مہنگا مطالبہ ماننا پڑتا تھا- چرچ اور ریاست کی مدد کا سارا بوجھ اوسط اور غریب طبقہ پر پڑ گیا- جن پر پیشتر ہی پادریوں اور سول اتھارٹی نے بھاری ٹیکس عائد کر رکھے تھے-AK 272.3

    نوابوں کو عیش وطرب فراہم کرنا اعلی ترین قانون تھا- خواہ کسان فاقے کاٹیں- مگر انکے مالکوں کی ضروریات میں کمی نہیں آنی چاہیے- لوگوں کو زمین کے مالکان کی دلچسپی ہر صورت ملحوظ خاطر رکھنے کیلئے مجبور کیا جاتا- زمینوں پر کام کرنے والوں کی زندگیاں پیہم ذلت وخواری کی زندگیاں تھیں- اگر وہ شکایت کرنے کی جرات کرتے تو اسے توہین اور گستاخی سے تعبیر کیا جاتا- اور انہیں اسکی سزا بھگتنا پڑتی- عدالتیں کسانوں کے مقابلہ میں ہمیشہ نوابوں کے حق میں فیصلہ دیتیں- ججز، بدمعاشوں کی طرح رشوت لیتے اور لا کی پوری قوت حکومت کے امرا کے ہاتھ میں تھی- اس نظام کے تحت کرپشن کا بول بالا تھا- ایک طرف تو سیکولر صاحب ثروت اور دوسری طرح پادری صاحبان، عوام الناس سے جو ٹیکس جبرا وصول کرتے اس میں سے بمشکل ہی آدھا پوپ کی حکومت کے خزانہ میں جاتا- باقی شہوت پرستی، نفس پروری اور فضول خرچیوں کی نظر ہو جاتا-AK 272.4

    یہ لوگ جو اپنی رعایا کو یوں کنگال کرتے تھے خود ٹیکس سے مستثنیٰ تھے- قانون یا دستر کے لحاظ سے تمام تقرریاں بھی یہی کرتے تھے- مراعات یافتہ کلاسز ڈیڑھ دو لاکھ کے قریب تھیں- مگر انکی نفس پروری کی وجہ سے کروڑہا لوگ عسرت اور ذلت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے-AK 272.5

    عدالت نے عیاشی اور عشرت ونشاط کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے- لوگوں اور حاکمین کے درمیان بہت ہی کم اعتماد رہ گیا تھا- گورنمنٹ کے تمام اقدامات کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ ان میں خود غرضی پائی جاتی تھی- انقلاب شروع ہونے سے نصف صدی پیشتر لوئیس XVتخت نشیں تھا- وہ بھی اس بدی کے دور میں آرام طلب، غیر سنجیدہ، اور شہوت پرست تھا- بد چلن اور ظالم حکومتی امرا اور مفلس اور جاہل ادنی طبقہ کے ساتھ ریاست مصیبت میں پھنس گئی اور لوگ آگ بگولہ ہو گئے- اس لئے جو اس پر تباہی آنے والی تھی اسکے لئے کسی نبی کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ اس تباہی کے بارے پیشینگوئی کرتا- مشیروں کی وارننگ دینے پر بادشاہ ہمیشہ یہ جواب دینے کا عادی ہو گیا- “جیسے بھی ہو جب تک میں جیتا ہوں معاملات کو چلنے دو- اور میرے مرنے کے بعد جو ہو سو ہو” اصلاح کی ضرورت کیلئے تقاضا کرنا فضول تھا- اس نے نقصان پہنچانے والے بدکاروں کو دیکھا- مگر انکا مقابلہ کرنے کیلئے جرات نہ تھی نہ طاقت فرانس کی تباہی کی تصویر اس کے اس خود غرض اور کاہل جواب میں دیکھی جا سکتی تھی- “میرے بعد، طوفان نوح”-AK 273.1

    بادشاہ اور حکومتی امرا کے تعصب کو ہوا دینے سے روم نے ان پر ایسا تاثر چھوڑا کہ وہ رعایا کو غلامی میں رکھیں- روم اچھی طرح جانتا تھا کہ اس طرح ریاست کمزور ہو گی اور یوں وہ رعایا اور بادشاہ دونوں کو اپنا حلقہ بگوش کر لے گا- دور اندیش پالیسی کے ذریعہ اس نے گمان کیا کہ آدمیوں کو موثر طریقہ سے غلام بنانے سے انکی روحوں کو بھی قبضہ میں کیا جا سکتا ہے- یوں وہ غلامی کے جوۓ تلے رہیں گے اور جبھی بھی آزادی کے خواہاں نہ ہوں گے- اسکی اس پالیسی کی وجہ سے جسمانی اذیتوں سے ہزاروں درجہ زیادہ اخلاقی انحطاط کی بدیوں نے جنم لیا- بائبل سے محرومی، ہٹ دھرمی کی تعلیم اور خود غرضی کی وجہ سے لوگ جہالت، توہم پرستی اور بدکاری میں دھنس گئے اور وہ اپنی خود مختار حکومت بنانے کے بالکل نااہل ہو گئے-AK 273.2

    روم نے جو کچھ تجویز کیا تھا- نتیجہ اس کے برعکس برآمد ہوا- بجائے اس کے کہ وہ اپنے عقیدے اور تعلیم سے عوام الناس کو اندھیرے میں رکھتے اسکا نتیجہ انقلاب اور انکی تعلیم کو رد کرنے کی صورت میں نکلا- انہوں نے پادریوں کو یوں لیا جیسے وہ ان پر ظلم کرنے والوں کے ساتھی ہیں- جس دیوتا کو وہ جانتے تھے وہ رومی دیوتا تھا- اسکے علاوہ وہ کسی کو نہیں جانتے تھے- اسکی تعلیم ہی انکا مذہب تھا-AK 273.3

    روم نے خدا کی سیرت کی غلط نمائندگی کی اور اسکے مطالبات کو درہم برہم کر دیا- اور اب لوگوں نے بائبل اور اسکے مصنف دونوں کو رد کر دیا- روم نے اپنی تعلیم اور عقیدے میں اندھے ایمان کا مطالبہ کیا تھا- اور بڑی مکاری سے کہہ دیا کہ اسکی اجازت پاک نوشتوں سے حاصل کی گئی ہے- اس کے ردعمل میں، والٹیر اور اسکے ساتھیوں نے خدا کے کلام کو نکال پھینکا اور ہر جگہ بے اعتقادی کا زہر پھیلایا- روم نے لوگوں کو پاؤں تلے روندھ ڈالا تھا- اور اب عوام الناس نے انہیں رسوا کیا اور ان پر ظلم ڈھایا- انکے ظلم کو پسپا کیا اور انکی تمام پابندیوں کو توڑ ڈالا- بھڑکیلی جعلسازی پر جسے وہ عزت واحترام دیتے رہے تھے اس پر انکا غیض وغضب بھڑکا انہوں نے صداقت اور ناراستی دونوں کو رد کر دیا- اور لبرٹی کے لائسنس کا غلط استعمال کیا- بدکاری کے غلام اپنی آزادی کے تصور میں شادیانے بجانے لگے-AK 274.1

    انقلاب کے شروع میں بادشاہ نے لوگوں کو یہ رعایت دی کہ عوام کی نمائندگی پادریوں اور نوابوں سے زیادہ ہو گی- یوں طاقت کا پلڑا انکے ہاتھ میں ہو گا- مگر وہ اسے حکمت اور اعتدال کے ساتھ استعمال کرنے کے لئے تیار نہ تھے- انکے ساتھ جو زیادتی اور بدسلوکی ہوئی تھی وہ انکا بدلہ چکانا چاہتے تھے- یوں انہوں نے سوسائٹی کو نئی بنیادوں پر استوار کرنے کا تہیہ کر لیا- غیض وغضب سے بھڑکتی ہوئی عوام جنکے ذہن عرصۂ سے بے انصافیوں سے بھرپور تھے زہر اگل رہے تھے- انہوں نے بدبخت ریاست میں انقلاب لانے کا فیصلہ کر لیا جسے اب برداشت کرنا ناممکن ہو گیا- نیز ان سببھوں سے بدلہ لینے کا تہیہ کر لیا جو ان سب بدبختیوں اور عذاب کا باعث بنے تھے- کچلے ہوۓ عوام نے ظالموں کے ظلم سے سبق سیکھا اور انکو کچلنے والے بن گئے جنہوں نے انکا ستیاناس کیا تھا-AK 274.2

    بدبخت فرانس جس نے خون خرابے کی فصل پوئی تھی وہی اسے کاٹنا پڑی- خود کو روم کے تابع کرنے سے فرانس کو نہایت ہی وحشت ناک نتائج بھگتنے پڑے- جہاں فرانس نے رومن ازم کے زیر اثر ریفریمیشن کے شروع میں سولی کھڑی کی تھی اسی جگہ انقلاب نے آدمیوں کے سر قلم کرنے والی مشن کھڑی کی- جہاں سولھویں صدی میں پروٹسٹنٹ ایمان رکھنے والے پہلے شہید کو جلایا گیا اسی جگہ اٹھارویں صدی میں مجرموںکے سر قلم کئے گئے- انجیل جو فرانس کیلئے باعث شفا ہو سکتی تھی اسے باہر پھینک کر فرانس نے بےایمانی اور تباہی کیلئے دروازے کھول دیئے- جب خدا کی شریعت کو جو غلط کاریوں پر قدغن لگاتی ہے ترک کر دیا جاتا ہے تو دیکھنے میں آیا ہے کہ پھر عوام کے جذبات کی بہا لے جانے والی لہر کو کوئی روک نہیں سکتا- اور قوم خانہ جنگی اور بغاوت کی رو میں بہہ جاتی ہے- بائبل کے خلاف جنگ کے زمانہ کو تاریخ میں دہشت کا راج کہا جاتا ہے- خوشی ومسرت اور امن وسلامتی لوگوں کے گھروں اور دلوں سے موقوف ہو گئی- کوئی بھی محفوظ نہ رہا- جو آج فاتح تھا، کل وہ مشکوک قرار دے کر ملعون ٹھہرایا گیا- ہوس اور تشدد پر کوئی آواز اٹھانے والا نہ تھا-AK 274.3

    بادشاہ، پریسٹ اور نواب، بدحواس ہجوم کے حوالہ کر دیا گیا جو انتہائی حماقت پر اتری ہوئی تھی- بدلہ لینے کی پیاس نے انہیں بادشاہ کو پھانسی چڑھانے کیلئے مشتعل کر دیا- اور جنہوں نے اسکی پھانسی کا حکم صادر کیا، انکو بھی جلد سولی کے تختہ پر لٹکایا گیا- ان سبھوں کو بھی قتل کرنے کا ارادہ کر لیا گیا جو انقلاب کی راہ روکنے کے مشکوک پائے گئے- جیلیں بھر دی گئیں- ایک وقت میں دو لاکھ سے بھی زائد کو غلام بنا لیا گیا- حکومتی شہروں میں خوف وہراس چھا گیا- انقلابیوں کی ایک پارٹی، دوسری پارٹی کے خلاف ہو گئی- پیرس بہت بڑا میدان جنگ بن گیا- “پیرس میں ایک فساد کے بعد دوسرا فساد شروع ہو گیا- اور شہری مختلف سیاسی گروہوں میں بٹ گئے- ایسے معلوم ہوتا تھا کہ ہر ایک دوسرے کو تباہ کئے بغیر تسلی پذیر نہیں ہو سکتا “علاوہ ازیں قوم یورپ کی طاقتور حکومتوں کے ساتھ لمبی اور تباہ کن جنگ میں کود پڑی”- ملک تقریبا دیوالیہ ہو چکا تھا، آرمی تنخواہوں کے لئے فریاد کر رہی تھی- قزاقوں، ڈاکوؤں نے صوبوں کو تباہ کر دیا تھا اور خانہ جنگی اور شہوت پرستی کے باعث تہذیب وتمدن تقریبا ختم ہو چکا تھا-AK 275.1

    اچھی بات تو یہ ہے کہ لوگوں نے اس ظلم وبربریت اور جبر وتشدد کی تعلیم سے سبق حاصل کر لیا جو روم نے بدل وجان سکھائی تھی- بالاخر بدلہ چکانے کا دن آ گیا- اب یہ مسیح یسوع کے شاگرد نہیں تھے جنھیں جیلوں میں ٹھونسا گیا یا سولی چڑھایا گیا-عرصۂ ہوا وہ مارے گئے یا جلا وطن کر دیئے گئے- ظالم روم نے اب انکی مہلک قوت کو محسوس کیا جنھیں اس نے خون بہانے کیلئے تربیت دی تھی- “ایذا رسانی کے نمونے کا مظاہرہ جو فرانس کے پریسٹس نے کئی زمانوں سے جاری رکھا ہوا تھا وہ بڑی شدت کیساتھ ان ہی پر نازل ہوا- پادریوں کے خون سے ہتھکڑیاں لہولہان ہو گئیں- وہ جیلیں، اور غلاموں کو لے جانے والے جہاز جن میں ہگونٹس بھرے جاتے تھے اب ان میں جفا شعاروں کو ٹھونسا گیا- بیڑیوں میں جکڑے ہوۓ اور چپو چلاتے ہوۓ رومن کیتھولک پادریوں کو ان تمام رنج والم کا تجربہ ہوا جو کلیسیا ان شریف ؤںجیف اور فروتن انسانوں پر رو رکھتا تھا جو انکے عقیدے سے اختلاف کرتے تھے-AK 275.2

    “پھر وہ دن بھی آئے جب بہت ہی وحشیانہ قواعد وقوانین کا مجموعہ کام میں لایا گیا اور سب سے سخت گیر عدالت مقرر کی گئی- جب کوئی بھی شخص اپنے پڑوسی سے سلیم دعا یا اپنی عبادت وریاضت کو جرم کے خوف کے بغیر نہیں کر سکتا تھا- جب جاسوس ہر کونے پر دبکے ہوتے تھے- جب ہر صبح آدمیوں کے سر قلم کرنے والی مشن چلو رہتی تھی- جب جیلیں اس طرح بھری جاتی تھیں جس طرح غلاموں کو لے جانے والے جہازوں کا مال خانہ بھرا جاتا- جب گندے نالوں میں خون کے جھاگ بہتے نظر آئے- جب روزانہ مجرموں سے بھری گاڑیاں اپنے مقتل گاہ کی طرف پیرس کی گلیوں بازاروں سے گزرتی تھیں- رومی مچسٹریٹس جنکو بااختیار کمیٹی نے ان کے علاقے میں بھیجا انہوں نے خوب رنگ رلیاں منائیں اور ظلم وستم کی انتہا کر دی- جو صدر مقام میں بھی نہ دیکھی گئی- سر قلم کرنے والی مشن کا چاقو دھیرے دھیرے چلتا-لمبی لمبی قطاروں میں سر قلم کرنے کے لئے اسیر لائے جاتے- کشتیوں کے پیندوں میں سوراخ کر دیئے جاتے تاکہ اسیر نیچے گر کر دریاؤں میں ڈوب مریں- فرانس صحرا بن گیا- قیدیوں کو تیزی سے موت دینا منع کیا گیا تھا- گاری جس میں مردہ لاشیں بھری جاتیں وہاں سے لیکر سمندر تک جہاں لاشیں پانی میں بہائی جاتیں، وہاں چیلوں اور کوؤں کا جمگھٹا لگا رہتا، جو برہنہ لاشوں کی ضیافت اڑاتے اور بعض دو انسانوں کو ایک رسی سے یوں نفرت انگیز انداز سے باندھ دیا جاتا جیسے وہ ہم آغوش ہوں- جنس یا عمر پر رحم نہ کھایا گیا- نوجوان سترہ سالہ لڑکے، لڑکیاں نفرت انگیز حکومت نے مروائے- اور ہزاروں بچوں کو ماؤں کی گود سے چھین کر ایک نیزے سے دوسرے نیزے پر اچھال کر ہلاک کیا گیا-AK 276.1

    یہی سب کچھ ابلیس چاہتا تھا، یہی حاصل کرنے کیلئے وہ کئی زمانوں سے کام کر رہا تھا- دھوکے کی پالیسی اسکی پہلی اور آخری پالیسی ہے- اور اسکا دائمی مقصد صرف یہ ہے کہ بنی نوع انسان پر آہ ونالہ، افلاس اور خباثت لائے- اسکا یہی مقصد ہے کہ وہ خدا کے کلم کو بد وضع کرے اور خدا کے فیض رسا کاموں اور اسکی محبت کو ضرر پہنچائے اور یوں آسمان کو سوگ میں مبتلا کرے- پھر وہ اپنے فریب کے فن سے لوگوں کے فن سے اذہان کو اندھا کر دیتا ہے- اور انہیں ترغیب دیتا ہے کہ یہ سارا کام جو اس نے خود کیا ہے اسکی تہمت خدا پر لگائیں جیسے کہ تمام رنج والم کا سبب خالق کی پلان کے سبب ہے- جس طریقہ سے جب وہ ذلیل ہوۓ تھے اور جسطرح ان کیساتھ حیوانوں کا سا سلوک اسکی قوت کے ذریعہ ہوا تھا، جب انہوں نے آزادی حاصل کر لی تو اس نے انکو ترغیب دی کہ وہ انتہائی حماقت اور خباثت کا مظاہرہ کریں- اور پھر جو بے لگام ہجوم کے ظلم کی تصویر سامنے آئی وہ آزادی کا نتیجہ تھا-AK 276.2

    جب غلط تعلیم کے ایک بھیس کو پہچان لیا گیا تو شیطان نے اسے دوسرا نقاب پہنا کر دوسرے بھیس میں پیش کر دیا اور بھیڑ نے اسے اسی طرح شوق سے قبول کر لیا جیسے پہلے کو کیا تھا- جب لوگوں نے دیکھ لیا کہ رومن ازم فریب کے سوا کچھ بھی نہیں اور وہ اس ایجنسی کے ذریعہ لوگوں کو خدا کی شریعت پامال نہیں کروا سکتا تو اس نے انہیں اس بات پر مائل کر لیا کہ تمام مذاہب مکر وفریب کے سوا کچھ بھی نہیں- اور بائبل فرضی قصہ ہے اور اسکے الہی قوانین کو ترک کرنے پر انہیں بے لگام بدکاری کرنے دی-AK 277.1

    وہ مہلک خطاء جس کے سبب سے فرانس کے باشندوں پر بڑا عذاب نازل ہوا وہ اس ایک عظیم سچائی کو نظر انداز کرنا تھا، کہ حقیقی آزادی خدا کی شریعت کو ترک کرنے سے نہیں آتی- “کاش کہ تو میرے احکام کا شنوا ہوتا اور تیری سلامتی نہر کی مانند اور تیری صداقت سمندر کی موجوں کی مانند ہوتی”- “خداوند فرماتا ہے کہ شریروں کے لئے سلامتی نہیں” یسعیاہ 22:48;18:48 “لیکن جو میری سنتا ہے وہ محفوظ ہو گا اور آفت سے نڈر ہو کر اطمینان سے رہے گا” امثال -33:1AK 277.2

    ملحد، دہریئے اور کافروں نے خدا کی شریعت کی بےحرمتی کی مگر انکے اثرورسوخ نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان کی فلاح وبہبود کا انحصار خدا کے احکام کی بجا آوری میں ہے- وہ تمام لوگ جو خدا کی کتاب میں سے سبق نہیں پڑھیں گے انہیں یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ قوموں کی تاریخ میں اسے پڑھ لیں-AK 277.3

    جب ابلیس نے رومن ازم کے ذریعہ لوگوں کو نافرمانی کی ترغیب دی تو اسکی ایجنسی مخفی تھی، اور اسکا کام اس قدر فرق روپ میں تھا کہ تمام ذلت وخواری اور بربادی جو معرض وجود میں آئی وہ حکم عدولی کا پھل دکھائی نہ دیتی تھی- مگر اسکی قوت کے اثر کے کم کرنے کیلئے خدا کے روح نے مزاحمت کی اور وہ اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا- لوگ اسکی وجہ اور اپنی بربادی کی وجوہات کا پتہ نہ چلا سکے- مگر انقلاب میں نیشنل کونسل نے خدا کی شریعت کو خارج کر دیا- اور ظلم وتشدد کے راج میں جو اس کے بعد شروع ہو گیا، تو سب علت ومعلول کو دیکھ سکتے تھے-AK 277.4

    جب فرانس نے ببانگ دھل خدا کو ترک کر دیا اور بائبل سے انکاری ہو گیا- تو برے انسان اور تاریکی کی روحیں اس مقدس کو جسے وہ بڑی مدت سے حاصل کرنے کی خواہشمند تھیں، اسے پا کر پھولی نہ سمائیں- بادشاہت خدا کی شریعت سے بالکل آزاد ہ و گئی- کیونکہ برے کاموں پر سزا کے عمل میں سست روی آ گئی اس لئے نبی آدم کے دل “ان میں بدی پر بہ شدت مائل ہو گیا” واعظ -11:8مگر صادق اور راست شریعت کی عدولی کا نتیجہ تباہی وبربادی اور عسرت وننگ پر ہونا ناگزیر تھا- گو انکی عدالت یکدم نہ کی گئی تاہم لوگوں کے کام یقینی طور پر اپنی ہلاکت کا باعث بنے- خداوند سے برگشتگی اور جرائم بدلہ کے دن کیلئے غضب کے پیمانے لبریز کرتے رہے- اور جب بدکاری مکمل ہو گئی تو بہت دیر بعد خدا کو رد کرنے والوں نے یہ سیکھا کہ خدا کے صبر کی تحقیر کرنا کس قدر ہولناک ہے-AK 278.1

    خداوند کی مزاحمت کار روح جو شیطان کی ظالم قوت کا سدباب کرتی ہے جب اسے بڑے پیمانے پر رد کیا گیا اور اسے جس کا منشا یہی ہے کہ انسان پر بدبختی لائے اسے اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی- اور جنہوں نے اسکی باغی خدمت کا انتخاب کیا انہیں اسکا پھل کاٹنے کے اس وقت تک چھوڑ دیا گیا جب تک کہ ملک اتنے بڑے بدکاری اور جرائم اور دہشت گردی سے معمور ہو گیا جسے ورطہ تحریر میں لانا محال ہے- ویران، صوبوں اور تباہ شدہ شہروں سے انتہائی روحانی، ذہنی اور جسمانی اذیت کی چیخ وپکار سنائی دینے لگی- فرانس تھرتھرا اٹھا جیسے کسی بھونچال کی شدید لپیٹ میں ہو- مذھب، لا (Law) سوشل امن وامان، خاندان، ریاست اور کلیسیا، سبھوں کا اس فاسق وفاجر ہاتھ نے قلع قمع کر دیا جو خدا کی شریعت کے خلاف اٹھا تھا- دانش مند شخص کا صحیح فرمانا ہے “شریر اپنی ہی شرارت سے گر پڑے گا” “اگرچہ گنہگار سو بار برائی کرے اور اسکی عمر دراز ہو تو بھی میں یقینا جانتا ہوں کہ انکا ہی بھلا ہو گا جو خدا ترس ہیں اور اسکے حضور کانپتے ہیں- لیکن گنہگار کا بھلا کبھی نہ ہو گا اور نہ ہی اپنے دنوں کو سایہ کی مانند بڑھائے گا” امثال ;5:11 واعظ 13-12:8“اس لئے کہ انہوں نے علم سے عداوت رکھی اور خداوند کے خوف کو اختیار نہ کیا” “پس وہ اپنی ہی روش کا پھل کھائیں گے اور اپنے ہی منصوبوں سے پیٹ بھریں گے” امثال -31:1;29:1AK 278.2

    خدا کے وفادار گواہوں کو کفر بکنے والی قوت نے ہلاک کر دیا- جو “اتھاہ گڑھے سے نکلی” مگر ان گواہوں نے زیادہ دیر خاموشی اختیار نہیں کرنا تھی- “اور ساڑھے تین دن کے بعد خدا کی طرف سے ان میں زندگی کی روح داخل ہوئی اور وہ اپنے پاؤں کے بل کھڑے ہو گئے- اور ان کے دیکھنے والوں پر بڑا خوف چھا گیا” مکاشفہ -11:111793 میں فرنچ اسمبلی نے قانون پاس کر کے مسیحی مذھب کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور بائبل پر پابندی عائد کر دی تھی- ساڑھے تین سال بعد ایک دوسرے قرارداد کے ذریعہ پہلے قانون کو منسوخ کر دیا گیا اور اسی اسمبلی نے الہامی نوشتوں پر سے پابندی اٹھا لی گئی- پاک صحائف کو ترک کرنے سے جو گناہ کبیرہ سرزد ہوا اس پر دنیا ہکا بکا رہ گئی اور لوگوں نے خدا اور اسکے کلام میں ایمان رکھنے کی ضرورت کو تسلیم کیا اور جانا کہ یہ اخلاق اور نیکی وبھلائی کی بنیاد ہے- خداوند نے فرمایا “تو نے کس کی توہین وتکفیر کی تو نے کس کے خلاف اپنی آواز بلند کی اورر اپنی آنکھیں اوپر اٹھائیں؟ اسرائیل کے قدوس کے خلاف؟ یسعیاہ 23:37 “اس لئے دیکھ میں اس مرتبہ انکو آگاہ کر دوں گا اور وہ جانیں گے کہ میرا نام یہواہ ہے” یرمیاہ -21:16AK 278.3

    دو گواہوں کے متعلق نبی نے فرمایا “اور انہیں آسمان پر سے ایک بلند آواز سنائی دی کہ یہاں اوپر آ جاؤ- پس وہ بادل پر سوار ہو کر آسمان پر چڑھ گئے اور انکے دشمن انہیں دیکھ رہے تھے” مکاشفہ -12:11جب سے فرانس نے خدا کے ان دو گواہوں کے خلاف جنگ شروع کی ہے، اسی وقت سے انکی جس طرح کی پذیرائی ہوئی ہے پہلے کبھی نہ ہوئی تھی- 1804 میں لبرٹس اور فارن (Foreign) بیبلے سوسائٹی منظم ہوئی- اسی کے بعد اسی طرح کی تنظیمیں جنکی بہت سی برانچیں تھیں براعظم یورپ میں قائم ہو گئیں- 1816 میں امریکن بائبل سوسائٹی معرض وجود میں آئی- جب برٹش سوسائٹی قائم ہوئی تو 50 زبانوں میں بائبل کی اشاعت ہوئی اور مشتہر کی گئی- اس وقت سے یہ کئی سو زبانوں اور مخصوص علاقوں کی بولی میں ترجمہ ہو چکی ہے-AK 279.1

    1792 سے 50 سال پیشتر، فارن مشن پر بہت ہی کم توجہ دی گئی- کوئی نئی سوسائٹیز معرض وجود میں نہ آئیں- اور بہت ہی کم کلیسیا تھیں جنہوں نے بت پرست ممالک میں مسیحیت کو پھیلانے کی کوششیں کیں- مگر اٹھارویں صدی کے آواخر میں بہت بڑی تبدیلی واقع ہوئی- لوگ انسانی طور طریقوں کے نتائج سے غیر تسلی پذیر دکھائی دیتے اور الہی مکاشفہ اور آزمودہ مذہب کی ضرورت کو محسوس کیا- اس وقت سے فارن مشن کے کام نے بے مثال ترقی کی-AK 279.2

    پرنٹنگ میں ترقی اور بہتری آنے کے باعث بائبل کی سرکولیشن میں تیزی آئی ہے- مختلف ممالک کے درمیان رابطہ کی بڑھتی ہوئی سہولتوں، قدیم تعصب اور ہٹ دھرمی کے نزول اور قومی برتری کے غرور، اور روم کی سیکولر پاور کا خاتمہ ان سبھوں نے ملکر خدا کے کلام کی راہ کھول دی- کچھ سالوں تک روم کی گلی بازاروں میں بائبل بغیر کسی رکاوٹ کے بیچی جانے لگی- اور اب تو جہاں جہاں دنیا آباد ہے بائبل پہنچائی جا رہی ہے-AK 279.3

    ایک دفعہ ایک کافر الٹئیر (Voltaire) نے ڈھینگ ماری کہ “میں لوگوں سے یہ بار بار سن کر تنگ پر گیا ہوں کہ بارہ لوگوں نے مسیحی مذھب قائم کر دیا- مگر میں یہ ثابت کر دوں گا کہ مسیحیت کو ختم کرنے کیلئے صرف ایک ہی آدمی کافی ہے- مگر اسے مرے ہوۓ اب کئی پشتیں گزر چکی ہیں بائبل کے خلاف جنگ میں کروڑ ہا کروڑ لوگوں نے حصہ لیا ہے- یہ تو برباد نہیں ہوئی- والٹیر کے زمانہ میں تو صرف سینکڑوں کی تعداد میں بائبل کی کاپیاں تھیں- مگر اب خدا کے کلام کی ہزاروں ہزار کاپیاں ہیں- ابتدائی ریفارمر نے مسیحی کلیسیا کے بارے یوں فرمایا “بائبل وہ اہرن (Anvil) ہے جس نے کئی ہتھوڑوں کو پاش پاش کر دیا ہے”- خداوند خدا فرماتا ہے “کوئی ہتھیار جو تیرے خلاف بنایا جائے کام نہ آئے گا اور جو زبان عدالت میں تجھ پر چلے گی تو اسے مجرم ٹھہرائے گی” یسعیاہ 18:54AK 280.1

    “خدا کا کلام ابد تک قائم ہے“یسعیاہ8:40AK 280.2

    “اسکے تمام قوانین راست ہیں- وہ ابد تک قائم رہیں گے” زبور 8-7:111AK 280.3

    جو کچھ بھی بنی نوع انسان کے اختیار پر استوار ہو گا وہ برباد ہو جائے گا- مگر جو خدا کے دائمی کلام پر استوار ہو گا وہ تاابد قائم رہے گا-AK 280.4

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents