Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    سترہواں باب - نوید صبح

    یہ نہایت ہی اہم اور سنجیدہ مگر جلالی سچائیوں میں سے ایک سچائی ہے جو مسیح کی آمد ثانی کے بارے بائبل نے منکشف کی ہے تاکہ وہ نجات کے عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ خدا کے مسافر(pilgrim) ”موت کے سایہ کی وادی“ میں عرصی ہوا جابسےہیں۔ بیش قیمت ، خوشی و مسرت کو تحریک دینے والی مبارک امید اس کے ظاہر ہونے کے واعدے میں پائی جاتی ہے“جو قیامت اور زندگی ہے”وہ قیدیوں کو واپس گھر لائے گا“۔ کلام مقدس میں آمد ثانی کی تعلیم کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دن سے جب پہلے جوڑے نے عدن کے باہر دکھی دل کے ساتھ قدم رکھا اسی دن سے ایماندار بچوں نے اس نجات دہندہ کا انتظار شروع کردیا جو تباہ کرنے والے کی قوت کو توڑ دے گا اور کھوئے ہوؤں کو واپس عدن میں لائے گا۔ زمانہ قدیم کے مقدس لوگ مسیحا کی جلالی آمد کی تکمیل میں اس کے منتظر ہے۔ صرف حنوک جو آدم سے ساتویں پشت میں تھا عدن میں رہا۔ وہ تین سوسال تک زمین پر خدا کے ساتھ چلتا رہا۔اور اسے دور سے ہی مسیحا کو آتے ہوئے دیکھنے کی اجازت ملی۔ AK 291.1

    اسی لئے لکھا ہے ”ان کے بارے میں حنوک نے بھی آدم سے ساتویں پشت میں تھا یہ پیشنگوئی کی تھی کہ دیکھوخداوند اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آیا۔ تاکہ سب آسمیوں کا انصاف کرے اور سب دینوں کو ان کی بیدینی کے کاموں کے سببسے جو انہوں نے بے دینی سے کئے ہیں اور ان سب سخت باتوں کے سبب سے جو بے دین گنہگاروں نے اس کی مخالفت میں کہی ہیں قصورورا ٹھرائے“ یہوداہ آیات۔15:14۔AK 291.2

    آبائی بزرگ ایوب اپنی اذیت ناک را تمیں یو گویاہوا۔”لیکن میں جانتا ہو کہ میرا مخلصی دینے والا زندہ ہے ۔اور آخر کار وہ زمین پر کھڑاہوگا۔ میں اپنے جسم میں خدا کو دیکھوں گا۔ جسے میں خود دیکھوں گااور میری ہی آنکھیں دیکھیں گینہ کہ بیگانہ کی“ ایوب19: 25۔27AK 291.3

    مقدس مصنفین نے جیسے فرمایا ہے کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی راست بازی کی بادشاہت قائم کرے گی یہ ارفع واعلےٰخیال جذبات کو گرماتا ہے۔ بائبل کے شعرااور انبیاء اس چمکتے دمکتے کلام کا مسلسل اظہار خیال کرتے آئے ہیں۔زبور نویس اسرائیل کے بادشاہ کے جاہ و جلال کے بارے میں یوں نغمہ سرا ہے۔AK 292.1

    ”صیون سے جو حسن کا کمال ہےخدا جلوہ گر ہوا ہے۔ہمارا خدا آئے گا اور خاموش نہیں رہے گا- آگ اس کے آگے آگے بھسم کرتی جائے گی۔اور اس کے چاروں طرف آندھی چلے گی۔ اپنی امت کی عدالت کرنے کے لئے وہ آسمان و زمین کو طلب کرے گا “۔زبور 2:50-4”آسمان خوشی منائے اور زمین شادمان ہو۔ سمندر اور اس کی معموری شور مچائیں۔ میدان اور جو کچھ اس میں ہے باغ باغ ہوں۔ تب جنگل کے سب درخت خوشی سے گانے لگیں گے۔ خداوند کے حضور ۔ کیوںکہ وہ آرہا ہے ۔وہ زمین کی عدالت کرنے کو آرہا ہے ۔ وہ صداقت سے جہان کی اور اپنی سچائی سے قوموں کی عدالت کرے گا “13:96۔11AK 292.2

    یسعیاہ نبی نے فرمایا “تم جو خاک میں جابسے ہوجاگو اور گاؤکیونکہ تیری اوس اس اوس کی مانند ہےجو نباتات پر پڑتی ہےاور زمین مردوں کو اگل دے گی“۔”وہ موت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا اور خداوندخدا سب کے چہروں سے آنسوں پونچھ ڈالے گا اور اپنے لوگوں کیم رسوائی تمام سر زمین پر سے مٹا دے گاکیونکہ خداوند نے یہ فرمایا ہے۔ اس وقت یوں کہا جائے گا لو یہ ہمارا خدا ہےہم اس کی راہ تکتے تھے اور وہی ہم کو بچائے گا۔ یہ خداوند ہے ۔ہم اس کے انتظار میں تھے ۔ ہم اس کی نجات سے خوش و خرم ہونگے“۔یسعیاہ 19۔26AK 292.3

    اور حبقوق اس کی آمد کو مقدس رویا میں دیکھتا ہے۔ ” خدا تیمان سے آیا اور قدوس کوہ فاران سے سلاہ اس کا جلال آسمان پر چھاگیا ۔ اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوگئی ۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی اور اس کے ہاتھ سے کرنیں نکلتی تھیں اور اس مین اس کی قدرت نہاں تھی۔ وہ کھڑا ہوا اور زمین تھراگئی۔اس نے نگاہ کی اور قومیں پرگندہ ہو گئی۔ ازلی پہاڑ پارہ پارہ ہوگئے۔قدیم ٹیلے جھک گئے۔اس کی راہیں ازلی ہیں۔ اے خدا وند! کیا تو ندیوں سے بیزار تھا؟ کیا تیرا قہر دریاؤں پر تھا کہ تو اپنے گھوڑوں اور فتح یاب رتھوں پر سوار ہواَ؟ پہاڑتجھے دیکھ کر کانپ گئے۔ سیلاب گزر گئے سمندر سے شور اٹھااور موجیں بلند ہوئیں۔ تیرے اڑنے والے تیروں کی روشنی سے تیرے چمکتے بھالے کی جھلک سے ـ آفتاب و مہتاب اپنے برجوں میں ٹھر گئے تو اپنے لوگوں کی نجات کی خاطر نکلا۔ ہاں اپنے ممسوخ کی نجات کی خاطر نکلا۔ تونے شریر کے گھر کی چھت گرادی اور اس کی بنیاد بالکل کھود ڈالی۔ سلاہ حبقوق 13.11.10:3AK 292.4

    جب مسیح یسوع اپنے شاگردوں سے جدا ہونے کو تھااس نے ان کی افسردگی کو دور کرنے کے لئے یہ پر امید دلاسا دیا۔ ” تمہارا دل گھبرائے ۔ تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھوں ۔ میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں۔ اگر نہ ہوتے تو میں تم سے کہ دیتا کیونکہ میں جانتاہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیا رکروں اور اگر میں جاکر تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا تاکہ جہاں میں ہوں تم بھی ہو۔اور جہاں میں جاتا ہوں تم وہاں کی راہ جانتے ہوں“ ۔یوحنا4.1:14AK 293.1

    ” جب آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے ا س کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائے گی “ متی 32.31:25 وہ فرشتے جو مسیح یسوع کے آسمان پر صعود فرمانے کے بعد کوہ زیتون پر ٹھرے ہوئے تھے انہوں نے شاگردوں کو کہا ” اے گلیلی مردو! تم کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اٹھایا گیا ہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے آسمان پر جاتے دیکھا ہے“ اعمال 11:1AK 293.2

    اور پولس رسول نبوت کی روح سے کلام کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ”کیونکہ خدا وند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اتر آئے گا اور پہلے تو وہ مسیح میں موئے جی اٹھیں گے ۔ پھر ہم جو زندہ ہوں گے ان کے ساتھ بادلوں پر اٹھائے جائیں گے تاکہ ہوا میں خدا وند کا استقبال کریں اور اس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے“ 1 تھسلنیکیوں 17.16:4AK 293.3

    یوحنا عارف جو پتمس کے جزیرے پرتھااس نے فرمایا” دیکھوں وہ بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اسے دیکھے گی “ مکاشفہ 7:1۔AK 293.4

    اس کی آمد پر بہت کچھ جلال پائے گا ۔لکھا ہے ” ضرور ہے کہ وہ آسمان میں اس وقت تک رہے جب تک کہ وہ سب چیزیں بحال نہ کی جائیں جن کا زکر خدا نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا ہے جو دنیاکے شروع سے ہوتے آئے ہیں “اعمال 21:3 تب بدی کا طویل دور ختم کیا جائے گا ۔ اور ”اس دنیاکی بادشاہی “ ہمارے خداوند اور اس کے مسیح کی ہوگی۔ اور وہ ابدالآباد بادشاہی کرے گا ” مکاشفہ 15:11 خداوند کا جلال آشکارا ہوگا اور تمام بشر اس کو دیکھے گا کیونکہ خدا وند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے “ ” خدا وند خدا صداقت اور ستائیش کو تمام قوموں کے سامنے طہور میں لائے گا “ ۔” اس قوت رب الافواج اپنے لوگوں کے بقیہ کے لئے شوکت کا افسر اور حسن کا تاج ہوگا “ یسعیاہ 5:28،11:61،5:40AK 293.5

    یہ اس وقت معرض وجود میں آئے گا جب مسیح یسوع کی پر امن بادشاہت جس کی عرصہ سے تمنا کی جارہی ہے سارے آسمان تلے قائم ہوجائے گی۔ “یقینا خدا وند صیون کو تسلی دے گا ۔ وہ اس کے تمام ویرانوں کی دلداری کرے گا۔وہ اس کابیابان عدن کی مانند اور اس کا صحرا خدا وند کے باغ کی ماندد بنائے گا ۔ خوشی اور شادمانی اس میں پائی جائے گی۔ شکر گزاری اور گانے کی آواز اس میں ہوگی” “لبنان کی شوکت اور کرمل اور شارون کی زینت اسے دی جائے گی “۔ ” تو آگے کو متروکہ نہ کہلائے گی اور تیرے ملک کا نام پھر کبھی خرابہ نہ ہوگا ۔ کیونکہ خداوند تجھ سے خوش ہے اور تیری زمین خاوند والی ہوگی“۔“جس طرح دلہا دلہن میں راحت پاتا ہے اسی طرح تیرا خدا تجھ میں مسرور ہوگا“۔ یسعیاہ 5.4:62،2:35،3:51AK 294.1

    سچے پرستاروں کو ہر زمنے میں خدا وند کی آمد کی امید رہی ہے۔خداوند کا کوہ زیتون پر شاگردوں سے جدا ہونے کے وقت دوبارہ آنے کے واعدے نے شاگردوں کے مستقبل کو روشن کردیا ۔ ان کے دل خوشی اور امید سے ایسے معمور ہوگئے کہ اداسی اور آزمائش اسے مدھم نہ کرسکیں۔ مصائب اور ایذا رسانی کے دوران ہمارے خداوند کا آشکار ہونا ہی ” مبارک امید “ تھی ۔ جب تھسلنیکیوں کے مسیحیوں نے افسردہ دل کے ساتھ اپنے عزیزوں کو دفن کیا جنہیں مسیح یسوع کی آمد ثانی کی گواہی دینے کی امید تھی ، تو پولس رسول نے جو ان کا استاد بھی تھا ان کی توجہ قیامت کی طرف دلائی ۔ جو مسیح یسوع کی آمد کے وقت ہوگی ۔ پہلے تو وہ جو مسیح یسوع میں موئے جی اٹھیں گے۔ پھر ہم جو زندہ باقی ہونگے ان کے ساتھ بادلوں پر اٹھائے جائیں گے تاکہ ہواؤں میں خداوند کا استقبال کریں۔“ اور اس نے مزید کہا ”اور اس طرح ہمیشہ خداوند کے ساتھ رہیں گے۔ پس تم ان باتوں سے ایک دوسرے کو تسلی دیا کرو“ 1 تھسلنیکیوں 18.16:4AK 294.2

    پتمس کی چٹانی جزیرے پر پیارے شاگرد نے مسیح کے واعدے کو سنایا ” میں جلد آرہا ہوں“ اور اس کلیسیا نے جو ہر زمانہ حالت سفر میں رہی ہے اپنی دعاؤں کہ ذریعہ جواب میں کہا”اے یسوع جلد آ“ مکاشفہ 20:22AK 294.3

    کال کوٹری سے موت کے پھندے اور ہتھکڑیوں کے درمیان جہاں مقدس شہیدوں نے صداقت کی گواہی دی ان کے ایمان کی امید تھی وہ صدیوں سے گونج رہی ہے۔اس کے مردوں میں سے جی اٹھنے کا کامل وثوق اور اس کے آنے پر ان کا خود مردوں میں جی اٹھنے کے ایمان پر ان میں سے ایک مسیحی نے کہا”انہوں نے موت کو حقارت جانا۔ وہ موت کے خوف سے بالا تر ہے”۔AK 294.4

    Daniel. T.Tylor. the reign of Christ earth: or the voice of the church all ages, page 33AK 295.1

    ”وہ قبر میں اتر نا چاہتے تھے تاکہ پھر وہ بالکل آذاد مردوں میں سے زندہ ہوں“ Ibid,page 54AK 295.2

    وہ یسوع مسیح کو بادلوں پر اپنے باپ کے جلال میں آتا ہوادیکھنا چاہتے تھےوالڈ سس کا بھی یہی ایمان تھا۔Ibid.page129-132AK 295.3

    ”وکلف نجات دہندہ کے آنے کو کلیسیا کی امید کے ساتھ منسلک کرتا اور اس کے آنے کا منتظر تھا“۔Ibid,132.134AK 295.4

    لوتھر نے اعلانیہ کہا کہ میں بڑی مستعدی سے آگے بڑھتا جارہا ہوں۔ اور اس کی عدالت کا دن تین سو سال سے پہلے وقوع میں آئے گا ۔ اور خدا وند اس بد کار دنیا کو مزید برداشت نہیں کرے گا ۔”وہ روز عظیم آرہا ہے جس میں مکروہ حکومت گرائی جائے گی“۔Ibid, pages 158-134AK 295.5

    میلانچ تھان نے کہا”یہ عمر رسیدہ زمین خاتمہ سے زیادہ دور نہیں ہے “ کیلون مسیحیوں کو ہدایت کرتا ہے “مت ہچکچائیں بلکہ پورے زوق اور شوق اور سرگرمی سے مسیح یسوع کی آمد ثانی کے دن اور مبارک ساعت کی امید رکھیں۔”اس نے اعلانیہ کہا کہ ” ایمانداروں کا پورا کنبہ اس دن کی طرف نظریں جمائے رکھے گا “اس نے کہا کہ جب تک اس روز عظیم کی پو نہیں پھوٹتی ، ہمارا خدا وند اپنی بادشاہت کے جلال کو کلی طور پر آشکار انہیں کرتا، ہمیں مسیح کی بھوک اور تڑپ رہنی چاہئے اور اس پر ہمیشہ غور و خوض کرتے رہنا چاہئے۔ٰ158۔134Ibid, pagesAK 295.6

    “کیا ہمارا آقا مسیح یسوع ہمارے بدن میں اوپر نہ اٹھایا گیا ” سکاٹ ریفارمر ، ناکس(Knox) نے کہا ۔ اور کیا وہ واپس نہیں آئے گا ؟ ہم تو جانتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور بڑی سرعت کے ساتھ واپس آئے گا ۔ ریڈلے اور لیٹی مار(Ridley and Latimer) جنہوں نے سچائی کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں اور مسیح یسوع کی آمد کی طرف تکتے رہے ۔ ریڈلے نے لکھا “دنیا کو اس پر شک ہوسکتا ہے مگر میرا مسیح یسوع کی آمد ثانی پر کامل ایمان ہے۔ ا س لئے کہتا ہوں کہ خاتمہ ہوچکا۔ آئیے ہم سب اپنے دلوںمیں یوحنا عارف کے ساتھ ملکر مسیح یسوع جو ہمارے نجات دہندہ ہے اسے کہیں “اے خدا وند یسوع آ” Ibid, pages151.145 بیکسٹر(Baxter) نے کہا کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی کے خیالات ” نہایت ہی شیریں اور خوشیوں بھرے ہیں ”AK 295.7

    Richard Baxter, works, vol 17 P.555AK 296.1

    یہ خداوند کے مقدسین کا طرز عمل اور ایمان ہے جو اس کی آمد کی مبارک امید کی طرف بڑی محبت سے دیکھ رہے ہیں ” اگر روز قیامت موت آخری دشمن ہو جسے برباد ہونا ہے تو پھر کتنی چاہت سے ایمانداروں کو اس کی آمد ثانی کی طرف غور و حوض اور تکتے رہنا چاہئے۔ جب یہ بھرپور اور آخری فتح ہوگی۔Ibid, vol . 17.P.500AK 296.2

    یہ وہ دن ہے جس کی سب ایمانداروں کو خواہش اور امید کرنی ، اور اس کے منتظر رہنا چاہیے۔ اور اسے ایسے لینا چاہیے جیسے ان کی نجات کے تمام کام ، خواہشات اور ان کی روحوں کی کوشش کی تکمیل ہے۔ “اے خدا وند اس مبارک دن کو جلد وقوع میں لا“Ibid,vol,17.pp,182-183AK 296.3

    یہی امید رسولی کلیسیا اور بیان کی کلیسیا کی تھی اور یہی امید مصلح مزہب کی تھی۔AK 296.4

    پیشنگوئی میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی کس طرز کی ہوگی اور اس کے لیا اغراض و مقاصد ہونگے بلکہ اس کے بارے ان نشانات اوبر علامات کے بارے میں بھی بتایا گیا ہے تاکہ بنی نوع انسان جان لیں کہ اس کی آمد کب نذدیک ہوگی۔ مسیح یسوع نے کہا “سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہونگے“لاقا25:21 “مگر ان دنوں میں مصیبت کے بعد سورج تاریک ہوجائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور آسمان سے ستارے گرنے لگیں گے۔ اور جو قوتیں آسمان میں ہیں وہ ہلائی جائیں گی ۔ اور اس وقت لوگ ابن آدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ بادلوں میں آتے دیکھیں گے ” مرقس 26.24:13AK 296.5

    آمد ثانی سے پہلے جو علامات ظاہر ہوں گی ان کے بارے میں یوحنا عارف یوں گویا ہے۔AK 296.6

    ”بڑا بھونچال آیا، سورج کمبل کی مانند کالا،اور سارا چان خون سا بن گیا “کاشفہ12:6۔AK 296.7

    یہ نشانات انیسویں صدی شروع ہونے سے پہلے دیکھے جاسکتے ہیں اس پیشنگوئی کی تکمیل 1755 میں یو ہوگی جب ایک نہایت ہی ہولناک بھونچال آیا۔ ایسا بھونچال پہلے کبھی نہ آیاتھا۔ گو اسے عام طور پر لزبن کا بھونچال کہا جاتا ہے مگر یہ تو یورپ اور امریکہ اور افریقہ کے بیشتر حصوں تک پھیل گیا۔ اس کے جھٹکے گرین لینڈ ، ویسٹ انڈیز ۔ میڈری کے جزائر ، ناروے اور سویڈن ۔ گریٹ بریٹن ، اور آئر لینڈ میں بھی محسوس کیے گئے۔ اس بھونچال نے کم و بیش 4 ملین مربع میل کو متاثر کیا ، افریقہ میں اس کے جھٹکے ایسے ہی محسوس کئے گئے جیسے یورپ میں الجیریا کا زیادہ تر حصہ تباہ ہوگیا ۔ اور مراکو سے تھوڑی ہی دور ایک گاؤں جس کی آبادی 8سے 10 ہزار تھی زمین میں دھنس گیا۔ بہت بڑی لہر سپین اور افریقہ کے ساحلوں سے ٹکرائی جس نے بہت سے شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور بڑی تباہی مچائی۔AK 296.8

    سپین اور پرتگال میں انتہائی خطرناک اور شدید جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ کہا جاتا ہے کہ کیڑزگزرتی لہر 60فٹ بلند تھی ۔ پرتگال کے بعض بڑے بڑے پہاڑ بڑی سرعت سے تھر تھرا رہے تھے ۔ ایسے لگتا تھا جیسے ان کی بنیادیں ہل گئی ہوں ۔ اور بعض کی چوٹیوں میں شگاف پڑ گئے اور ٹوٹ پھوٹ کر قریب کی وادیوں میں جاگرے۔اور ان پہاڑوں سے شعلے بھڑکتے دکھائی دینے لگے ۔Sir Charles lyell, Principles of seology, page 495AK 297.1

    لزبن میں زیر زمین ایک بہت ہی زبردست زور دار گرج سنائی دی ۔ اور اس کے فورا بعد ایک شدید جھٹکے سے زیادہ تر حصہ زمین بوس ہو گیا ۔ اور تقریبا 6 منٹ کے اندر اندر 60 ہزار لوگ لقمہ اجل بن گئے ۔ سمندر پہلے ساکن ہوگیا اور ساحل سمندر کی ریت خشک ہوگئی اور پھر ایک لہر آئی جو 50 فٹ یا اس سے زیادہ اونچی تھی ۔ اور یہ معمول سے کہیں زیادہ اونچی تھی ۔ لزبن میں جہاں اس عظیم تباہی کے دوران غیر معمولی واقعات پیش آئے وہاں اس نئے ماربل کے بنے ہوئے گھاٹ کی تباہی کا واقعہ پیش آیا۔ (گھاٹ یا پشتہ وہ جگہ جہاں بحری جہازوں سے سامان اتارا چڑھایا جاتا) جسے بڑی لاگت سے تعمیر کیا گیا تھا۔ بے شمار لوگ اپنی حفاظت کے لئے وہا ں آ جمع ہوئے۔ وہ ایسی جگہ تھی جہاں ان کے اوپر کوئی برباد کرنے والی چیز نہ گر سکتی تھی اور نہ ہی وہاں تک پہنچ سکتی تھی۔مگر یہ پستہ اچانک تمام لوگوں کے ساتھ نیچے دہنس گیا اور ان میں سے کسی کی بھی لاش پانی کی سطح پر نہ ابھری ۔ Ibid .page 495AK 297.2

    بھونچال کے شاک کے فورا بعد ہر ایک چرچ ، کانونٹ ، تقریبا تمام بڑی پبلک بلڈنگز اور ایک چوتھائی سے زائد گھر گرگئے۔ شاک کے تقریبا دوگھنٹے بعد مختلف کواٹرز میں آگ بھڑک اٹھی جو تقریبا تین دن تک بجھائی نہ جاسکی ۔ شہر مکمل غرق ہو گیا ۔ بھونچال چھٹی کے روز آیا تھا جو چرچز اور کارنونٹس لوگوں سے بھرے پڑے تھے۔ ان میں سے بہت کم لوگ بچ سکے۔Encyclopedia Americana, art, lisbor dote (ed, 1831)AK 297.3

    لوگوں پر جو دہشت طاری تھی وہ بیان سے باہر ہے ۔ کوئی بھی نہیں رویا!یہ رونے دھونے کے بس کا روگ نہ تھا۔وہ تو صرف ادھر ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے۔ڈر اور خوف سے بد حواس ہوکر اپنی چھاتیاں پیٹ رہے تھے۔ اور چلا چلا کر کہہ رہے تھے کہ دنیاپر قیامت ٹوٹ پڑی۔ مائیں اپنے بچوں کو بھول گئں ۔ اور بتوں کو جن پر صلیبں بنی تھی اٹھا کر بھاگیں، بدقسمتی سے بہتیروں نے پناہ حاصل کرنے کے لئے چرچز کا رخ کیا۔ مگر سکرامنٹ کا کچھ فائدہ نہ ہوا۔ فضول ان بیچاروں نے الٹرز (Altars)بتوں اور پریسٹس کو پکڑا۔ سبھی اکھٹے دب کر مر گئے ۔ ایک اندادے کے مطابق اس مصیبت کے روز تقریبا 90ہزار لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔AK 298.1

    اس کے 25 برس بعد اگلا نشان ” سورج اور چاند کا تاریک ہونا” ظاہر ہوا جس کی پیشنگوئی میں ذکر آیاہے۔اس نشان کی تعجب خیز بات یہ ہے کہ اس کی تکمیل کے مقررہ وقت کی طرف اشارہ کردیا گیا تھا۔ کوہ زیتون پر مسیح یسوع کی اپنے شاگردوں کے ساتھ گفتگو میں کلیسیا کی لمبے عرصے تک آزمائش بیان کرنے کے بعد ۔ پوپ کی حکومت کی ایذارسانی کے 1260 سال جس کے بارے میں مسیح یسوع نے واعدہ کیا تھا ک مصائب کے یہ دن کم کئے جائیں گے ۔ اسی طرح اس نے اپنی آپد سے پہلے کے واقعات کے بارے میں ذکر کیا تھا اور وقت بتایا تھا جب یہ پیش آنے کو تھے ۔ ” مگر ان دنوں میں اس مصیبت کے بعد سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا ” مرقس 24:13 AK 298.2

    1260 دن یا سال 1798 میں اختتام پذیر ہوئے ۔ چوتھائی کواٹر صدی پیشتر ایزارسانی تقریبا ختم ہو چکی تھی ایذارسانی کے بعد مسیح یسوع کے کلام کے مطابق ، سورج کو تاریک ہونا تھا۔ 19 مئی 1780 کا تاریک دن سمجھا جاتا ہے جس میں سارے آسمان اور انگلینڈ کی ساری فضا نے تاریک کمبل اوڑھ لیا۔R.M. Devens, our first century , page 89AK 298.3

    میسا چوسٹس کے چشم دید گواہ اس واقع کو یو بیان کرتے ہیں۔ ” صبح سویرے مطلع بالکل صاف تھا۔ مگر جلد ہی ابر آلود ہوگیا ۔ بادل دھرتی کی طرف اترنے لگے ۔ان میں سیاہ ترین پرچھائیاں نمودار ہوگئیں۔ رعد کڑکنے چمکنے لگی ۔ ازاں بعد تھوڑی بارش ہوئی ۔ 9 بجے صبح کے قریب بادل گہرے ہونے شروع ہوگئےاور تانبے کی صورت اختیار کرلی ۔ زمین ، چٹانیں ، درخت ، عمارات ، پانی اور لوگ عجیب سی غیر زمینی روشنی میں تبدیل ہوگئے۔ چند منٹوں کی تاخیر کے بعد ایک بھاری سیاہ بادل نے سارے آسمان کو ڈھانک لیا۔ افق کی ہلکی سی لکیر کے علاوہ ہر جا گھٹا ٹوپ انھیرا تھا ۔ اور ایسا اندھیرا عموما گرمیوں کے 9 بجے رات کو ہوتا ہے AK 298.4

    ڈر ، خوف ، پریشانی ، اضطراب ، دہشت لوگوں کے اذہان پر چھاگئے ۔ خواتین اپنے گھر کے دروازے پر کھڑی تاریک مناظر دیکھ رہی تھیں۔ مرد کھیتوں سے کام چھوڑ کر واپس آگئے ۔ بڑھئی نے اپنے اوزار رکھ دئے ۔ لوہا ر نے اپنے کارخانے کو بند کردیا ۔ تاجر نے اپنے سیف کو تالا لگا دیا سکول بند کردئے گئے ۔ اور بچے لڑکھڑاتے ہوئے گھروں کو لوٹے۔مسافروں نے کسی نزدیک ترین جگہ پر پناہ لے لی۔کیا ہونے والا ہے ؟ہر ایک کے دل اور زبان پر یہی سوال تھا ایسے معلوم ہوتا تھا کہ پل بھر میں طوفان بادوباراں زمین سے ٹکرائے گا یا پھر یہ دن ہر ایک چیز کو تباہ و برباد کرکے رکھ دے گا۔موم بتیان جلائی گئی اور آتشدانوں کی آگ ایسے دکھائی دے رہی تھی جیسے موسم خزاں کی شام جو چاند سے محروم ہو۔ الو اپنے اڈوں پر جا کر سوگئے۔ سب مویشی چراگاہوں میں جمع ہوکر ڈکرانے اور مینڈک ٹرٹرانے لگے ، پرندوں نے اپنی شام کی راگنی الاپنی شروع کردی، چمگادرڑیں ادھر ادھر اڑنے لگیں ۔ صرف بنی نوع انسان ہی جانتے تھےکہ ابھی رات نہیں ہوئی AK 299.1

    ڈاکٹر نتھائی ایل وائٹ ٹیکر ، پاسٹر آف دی ٹپبرنیکل چرچ سالم(Salem) میٹنگ ہاؤس میں ر یلیحبس سروس لے رہے تھے۔ اس نے وعظ کیا جس میں اس نے ثابت کیا کہ یہ تاریکی فوق الفطرت تاریکی تھی۔ یہاں مختلف جگہوں کی کانگری گیشن جمع ہوئی تھی جو حوالاجات اس نے واعظ کے لئے چنے وہ بر محل اور برجستہ تھے اور بتایا کہ یہ تاریکی پیشینگوئی کے مطابق ہے .11 بجے کے بعد تاریکی انتہائی گہری ہوگئی ۔ The essex antiquarian, april 1899, vol.3, no 4,pp.53.45AK 299.2

    ملک کے بیشتر حصوں میں یہ اندھیرا دن کے وقت اس قدر گہرا تھا کہ لوگ گھڑی سے وقت نہیں دیکھ سکتے تھے۔ نہ کھانا کھا سکتے تھے نہ ہی کوئی گھریلوکام موم بتی جلائے بغیر انجام دے سکتے تھے۔اس تاریکی کا پھیلاؤبھی فوق الفطرت تھا۔ مشرق کی جانب سے فال موؤتھ (Falmouth)تک دیکھا گیا۔ مغرب کی جانب اسے البنی(Albany) اور کونکٹی(conneticut) تک دیکھا گیا۔جنوب کی جانب ساحل سمندر تک اور شمال کی جانب یہ امریکن سٹیبلش منٹ تک جا پہنچا۔William sordon, history of rise , progress and establishment of the independence of u.s vol.3.page.AK 299.3

    گھٹا ٹوپ اندھیرا شام ہونے سے ایک یا دو گھنٹے پیشتر چھا گیا ۔ گو آسمان بادلوں سے پوری طرح نہیں مگر کچھ صاف تھا اور سورج نکلا مگر وہ ابھی تک دھندلا تھا ۔ سورج غروب ہونے کے بعد بادل پھر چھاگئے اور بہت جلد یہ سیاہ ہوگئے۔ رات کی تاریکی بھی اتنی ڈراؤنی نہیں ہوتی جتنی اس دن کی تاریکی ہیبت ناک تھی۔حالانکہ اس رات پورا چاند تھا۔ اس کے باوجود مصنوعی بتیاں جلائے بغیر گزارہ نہ تھا۔ جب پڑوسیوں کے گھروں یا تھوڑی دور سے دیکھیں تو ایسا لگتا جیسے یہ مصر کا اندھیرا ہو (دس آفات میں سے ایک آفت)جس میں سے روشنی کی کوئی کرن گزر نہ سکتی ہو۔Isaiah Thomas , Massachusetts spy, or amrican oracle of liberty, vol, 10, no 472(May 25,1780)AK 300.1

    اس منظر کو دیکنے والے عینی شاہد نے کہاکہ “میں یہ گمان کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہر ایک تاناں شے جو کل کائنات میں پائی جاتی ہے اے ایسے پردے میں چھپادیا جائے جس میں سے کسی چیزکا گزر نہ ہو۔ یا ان روشن و تاباں چیزوں کا باہر پھینک دیا جائے پھر بھی ایسی تاریکی دیکھنے کا نہ مل سکتی “۔Latter by Dr. Samuel jemmey, of Exeter , new Hampshire Deccember, 1785(inmassachusetts historical society collections.1792,series,vol,1,p.97AK 300.2

    گو اس رات 9 بجے چاند پورے جوبن پر طلوع ہوا ۔ مگر تاریکی کے سایوں کو جو مانند موت تھے اس کا ان پر ذرا بھر اثر نہ ہوا۔ اور چاند جب اس پر پہلی نظر پڑی تو خون سا دکھائی ریتاتھا۔AK 300.3

    19 مئی 1790تاریخ میں “سیاہ دن” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ موسیٰ کے زمانے کے علاوہ کوئی بھی تاریکی کا دور ، اس گھٹا ٹوپ تاریکی ، اندھیرے کی وسعت اور اس کے دورانیہ کا کوئی اور دور مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ جیسے کہ اس واقعہ کے عینی شاہد وں کے بیانات دئے گئے ہیں۔ یہ تو خدا کے کلام کی باز گشت ہے یو ایل نبی کی معرفت خداوند نے 2 ہزار 500 سوسال پہلے فرمایا یہ اس کی تکمیل ہے ۔ “اس سے بیشتر کہ خداوند کا خوفناک روز عظیم آئے آفتاب تاریک اور مہتاب خون ہوجائے گا” یو ایل 31:2AK 300.4

    خدا وند یسوع مسیح نے اپنے لوگوں کو کہا کہ اس کے آنے کے نشانات دیکھتے رہو اور خوش ہوں جب شہنشاہ کے آنے کے نشانات دیکھو” اور جب یہ باتیں ہونے لگیں تو سیدھے ہو کر سر اوپر اٹھانا اس لئے کہ تمہاری مخلصی نذدیک ہوگی” لوق 28:21 اس نے اپنے شاگردوں کی توجہ درختوں کی کونپلوں کی طرف مبذل کرائی “جو نہی ان میں کونپلیں نکلتی ہیں تم دیکھ کر آپ ہی جان لیتے ہو کہ اب گرمی نذدیک ہے اسی طرح جب تم ان باتوں کوہوتے دیکھو تو جان لو کہ خدا کی بادشاہی نذدیک ہے“لوقا 31-30-21AK 300.5

    مگر جیسے کہ چرچ نے فروتنی اور دیانت داری کی جگہ خودبیبی ، رسموں اور ظاہرداری کو دے دی، تومسیح یسوع کے لئے محبت اور اس کی آمد ثانی کے بارے ایمان ٹھنڈا پڑگیا۔دنیا داری میں پھنس کر اور عیش و عشرت کی تلاش میں خدا پر اعتقاد رکھنے والے مسیح یسورع کی ہدایات جو اس کی آمد کی نشانیوں کے بارے میں تھیں بصیرت ہوگئے ۔ آمد ثانی کی تعلیم نظر انداز کردی گئی ۔ آمد ثانی کے بارے میں جو پاک نوشتے میں لکھا تھااس کی غلط تفسیر کی گئی اور وہ ” غیر واضح ہوگئی۔انہیں نظر انداز کرکے بھلادیا گیا ۔ خصوصا یہ امریکہ کے چرچز میں ہوا۔آذادی اور آرام طلبی کا ہر فرقہ کے لوگوں نے حظ اٹھایا۔ لوگوں کی تمناروپیہ پیسہ جمع کرنا اور عیش و مطرب کی زندگی بسر کرنا ہر کسی کا مطمع نظر بن گیا۔عبادت و ریاضت کی جگہ دولت حاصل کرنا، دنیاوی اختیار حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ میں ہر کوئی شامل ہوگیا۔اور بنی نوع آدم کی امید اور دلچسپی کا مرکز موجودہ زندگی کی مادی چیزیں بن گئیں اور مستقبل کے اس دن کو زندگی سے نکال دیا گیا جس دن اس موجودہ زمانے کی چیزیں جاتی رہیں گی۔AK 301.1

    جب خداوند یسوؑع نے اپنے شاگردوں کو اپنی آمد کی نشانیاں بتائیں ، تو اس نے انہیں اس برگشتگی کے بارے میں بھے آگاہ کردیا جو اس کی آمد سے پہلے ہوگی۔مسیح یسوع نے کہا کہ جیسے پہلے نوح کے زمانے میں دینا کے سارے کاروبار چل رہے تھے ۔لوگ عیش و نشاط کی تلاش میں ادھر ادھر بھاگتے پھرتے تھے خرید و فروخت کرتے تھے درخت لگاتے اور گھر بناتے تھے ۔کھاتے پیتے تھے ان میں بیاہ شادیاں ہوتی تھی مگر وہ خدا اور مستقبل کو بھول چکے تھےچنانچہ اس وقت لوگوں کو یسوع مسیح نے نصیحت کرتے ہوئے کہا “پس خبردار رہو۔ ایسا نہ ہوکہ تمہارے دل خمار اور نشہ بازی اور زندگی کی فکروں سے مست ہوجائیں اور وہ دن تم پر پھندے کی طرح ناگہاں آپڑے ۔پس ہروقت جاگتے اور دعا کرتے رہو تاکہ تم کو ان سب ہونے والی باتوں سے بچنے اور آدم کے حضور کھڑے ہونے کا مقدور ہو“لوقا 36.34:21AK 301.2

    اس وقت کے کلیسیا کی کیفیت مسیح یسوع کے الفاظ میں یوحنا عارف میں یوں بیان کی ہے۔AK 301.3

    “وہ زندہ کہلاتا ہے اور ہے مردہ “مکاشفہ1:3 اور ان کی جو اپنی غفلت سے بیدار ہونا نہیں چاہتے ان کو بڑی سنجیدہ وارننگ دی گئی ہے۔“اگر توجاگتا نہ رہےگا تو میں چور کی طرح آجاؤں گااور تجھے ہر گز معلوم نہ ہوگاکہ کس وقت تجھ پر آپڑوں گا” مکاشفہ 3:3AK 301.4

    ضرورت اس بات کی تھی کہ لوگوں کو خطرے کے بارے میں آگاہ کیا جائے تاکہ وہ جاگ اٹھیں اور اس وقت کے لئے تیار ہوجائیں جو ختم ہونے کو ہے ۔خدا کے نبی نے یو ں فرمایا “کیونکہ خداوند کا روز عظیم نہایت خوفناک ہے ۔ کون اس کی برداشت کرسکتا ہے ؟“یو یل11:2 تو جب وہ ظاہر ہوگا تو کون اس کے سامنے ٹھہر سکےگا۔کیونکہ اس کی آنکھیں “ایسی پاک ہیں کہ وہ بدی کو دیکھ نہیں سکتااور کجروی پر نگاہ نہیں کر سکتا“حبقوق 13:11۔ اور ان کو جو یہ کہتے ہیں “اے ہمارے خدا ہم بنی اسرائیل تجھے پہچانتے ہیں “۔AK 302.1

    “مگر اس کے عہد سے تجاوز کیا اور اس کی شرعیت کے خلاف چلے “ہوسیع1:8،2:8 غیر معبودوں کے پیچھے دوڑے اپنے دلوں میں بدی کو چھپایا۔ اور ناراستی کی راہوں کو پسن کیا۔ ایسوں کے لئے خداوند کا دن سخت ظلمت کا ہوگا۔اور نور مطلق نہ ہوگا۔” زبور 4:16 عاموس 20:5 خداوند فرماتے ہیں کہ اس وقت یوں ہوگا“میں چراغ لیکر یروشلیم میں تلاش کروں گااور جتنے اپنی تلچھٹ پر جم گئے ہیں اور دل میں کہتے ہیں کہ خداوند سزاو جزانہ دے گا ان کو سزا دونگا” صفنیاہ12:1AK 302.2

    “اور میں جہان کو اس کی برائی کے سبب سے شریروں کو ان کی بدکرداری کی سزادونگا اور میں مغروروں کا غرور نیست اور ہیبتناک لوگوں کا گھمنڈ پست کروں گا” یسعیاہ 11:13AK 302.3

    “ان کاسونا چاندی ان کو بچانہ سکے گا۔ ان کا مال لٹ جائے گا۔ اور ان کے گھر اجڑ جائیں گے” صفنیاہ 13:1 ، 18:1AK 302.4

    یرمیاہ نبی نے اس ہولناک دن کی طرف دیکھا اور کہا“میرادل بیتاب ہے میں چپ نہیں رہ سکتا کیونکہ اے میری جان تونے نرسنگے کی آواز اور لڑائی کی للکار سن لی ہے ۔ شکست پر شکست کی خبر آتی ہے ” یرمیاہ 20-19:4AK 302.5

    “وہ دن قہر کا دن ہے ۔دکھ اور رنج کادن ۔ ویرانی اور خرابی کادن ۔ تاریکی اور اداسی کا دن۔۔۔۔۔۔۔اور تیرگی کا دن ۔ حصین شہروں اور اونچے برجوں کے خلاف نرسنگے اور جنگی للکاروکا دن ” صفنیاہ16.15:4AK 302.6

    “دیکھوخدا وند کا دن آتا ہےتاکہ ملک کو ویران کرے ۔ اور گنہگاروں کو اس پر سے نیست و نابود کردے” یسعیاہ“9:13۔AK 302.7

    اس دن کو مدنظر رکھتے ہوئے خدا کا کلام بڑی سنجیدہ اور موثر زبان میں اپنے لوگوں کو روحانی نید سے بیدار ہونے کے لئے بلاہٹ دیتا ہے ۔ تاکہ انہیں توبہ اور فروتنی کے زریعہ اس کے حضور کھڑا ہونے کا مقدور حاصل ہو۔ ” صیون میں نرسنگا پھونکو۔ میرے مقدس پر سانس باندھ کر زورسے پھونکو۔ملک کے تمام باشندے تھرتھرائیں کیونکہ خداوند کا دور چلاآتا ہے ۔ بلکہ آپہنچاہے” اسرائیل 1:2۔AK 302.8

    روزہ کے لئے ایک دن مقدس کرو۔مقدس محفل فراہم کرو۔ دلہا اپنی کوٹھڑی سے اور دلہن اپنی خلوت سے نکل آئے ۔ خداوند کے خادم ۔ڈیوڑھی اور قربان گاہ کے درمیان گریہ وزاری کریں” یو ایل 17.15:2AK 303.1

    “پورے دل سے اور روزہ رکھ کر اور گریہ وزاری و ماتم کرتے ہوئے میری طرف رجوع کرواور اپنے کپڑوں کو نہیں اپنے دلوں کو چاک کرکے خداوند اپنے خدا کی طرف متوجہ ہو، کیونکہ وہ رحیم و مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی ہے” یو ایل 13.12:2۔AK 303.2

    خدا کے لوگوں کو تیار کرنے کے لئے وہ خدا کےدن ا س کے حضور کھڑے ہوں اصلاح کے عظیم کام کو قائم کرنا از حد ضروری تھا۔ خداوند خدا نے دیکھا کہ اس کے بہت سے لوگ جو اس کا اقرار کرتے ہیں وہ ہدایت کے لئے تعمیر نہیں کررہے اور اس نے اپنے رحم و کرم میں انہیں بے حسی اور بے ہوشی سے پرہیز کرنے کے لئے آگاہی کے پیغامات بھیجے اور انہیں اس کی آمد کی تیاری کے لئے ترغیب دی۔AK 303.3

    اس وارننگ کا منظر مکاشفہ میں پیش کیاگیا ہے۔یہاں تہرہ پیغام پایاجاتاہے۔ اسے آسمانی حقوق کا اعلان کہا جاتا۔جس کے فورابعد ابن آدم “اس دنیا کی فصل “کاٹنے کو آئے گاان واننگز میں پہلی وارننگ عدالت کے آنے کی ہے۔ نبی نے فرشتہ کو “آسمان کے دیمیان اڑتے ہوئے دیکھا۔جس کے پاس زمین کے ہر قوم اور قبیلہ اور اہل زبان اور امت کو سنانے کے لئے ابدی خوشخبری تھی اور اس نے بلند آواز سے کہا کہ خدا سے ڈرواور اس کی تمجید کرو کیونکہ اس کی عدالت کا وقت آن پہنچا ہےاور اسی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیداکئے“مکاشفہ 7.6:14AK 303.4

    اس پیغام کا اعلان ابدی انجیل کے حصے کے طور پر کیا گیا۔ انجیل کی منادی کاکام فرشتوں کو نہیں دیاگیا بلکہ اس کی ذمہ داری ہم انسانوں کو ودیعت کی گئی ہے۔مقدس فرشتے اس لئے تعینات کئے گئے تاکہ اس کام کی ہدایت دیں۔ وہ انسان کی نجات کی عظیم تحریک کے زمہ دارہیں۔ مگر انجیل کی منادی کی زمہ داری اس دھر تی پر مسیح کے خدام کی ہے۔AK 303.5

    وفادار لوگ جو روح القدس اور خدا وند خدا کے پاک کلام کی تعلیم کا جواب دینے کے لئےرضا مند تھے انہیں اس آگاہی کی منادی دینا کے سامنے کرنا تھی ۔ ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے نبوت کے کلام کو معتبر مان لیا تھا۔۔”ہمارے پاس نبیوں کے وہ کلام ہے جو زیادہ معتبر ٹھرا۔اور تم اچھا کرتے ہو جویہ سمجھ کر اس پر غور کرتے ہوکہ وہ ایک چراغ ہے جو اندھیری جگہ پر روشنی بخشتا ہے ۔ جب تک پو نہ پھٹے اور صبح کا ستارہتمہارے دلوں میں نہ چمکے“ 2 پطرس 19:1AK 304.1

    وہ خداوند کی معرفت کی تلاش چھپےہوئے خزانوں سے بڑھ کر کررہے تھے ۔کیونکہ اس کا حصول چاندی کے حصول سے اور اس کا نفع کندن سے بہتر ہے ” امثال14:3۔ اور خداوند خدانے ان پر بادشاہت کی عظیم چیزیں آشکار کیں۔۔ “خداوند کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اس سے ڈرتے ہیں اور وہ اپناعہد ان کو بتائے گا۔ زبور 14:25AK 304.2

    یہ کوئی پڑھے لکھے تھیالوجین نہیں تھے ، جو صداقت سے آشنا ہوئے اور منادی کہ کام کی طرف مائل ہوگئے۔کاش یہ لوگ وفادار نگہبان ہوتے اور دعا اور دلجمی سے کلام مقدس میں تلاش کرتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہ رات کا کونسا پہر ہے ؟اور پیشنگوئیاں ان پر عیاں ہوجاتیں اور انہیں معلوم ہوتا کہ واقعات کب رونما ہونگے۔ مگر یہ ان عالموں ، فاضلوں نے اس کام کی ذمہداری نہ نبھائی اس لئے منادی کے اس کام کو حلیم ، مسکین مردوں کے سپرد کیا گیا۔ سیح یسوع نے فرمایا۔“جب تک نور تمھارے ساتھ ہے چلتے چلو” یوحنا35:12 جنہوں نے نور سے منہ موڑ لیا جو خداوند خدا نے انیں عطا یا تھا ۔ یا جب یہ ان کی رسائی میں تھا انہوں نے اس کی تلاش کرنے میں کوتاہی کی یا اسے بالکل نظر انداز کردیا۔ یہ سب اندھیرے میں چھوڑدیئے گئے۔ مگر مسیح اعلانیہ کہتا ہے “جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا، بلکہ زندگی کا تور پائے گا ” یوضنا 12:8 جو پورے دل سے خداوند کی مر ضی کا متلاشی ہوتا ہے اور اس روشنی میں چلتا ہے جو اسے بیشر حاصل ہوئ یے اسے اس سے بڑی روشنی دی جائے گی — ایسی روح آسمانی مخلوق ساری سچای پانے کے لئے رہنمائی کرے گی ۔AK 304.3

    یسوع مسیح کی پہلی آمد کے وقت مقدس شہر کے فریسی جنہیں خداوند کے پاک صحائف دیئےگئے تھے انہیں ان نشانات کے وقت پتہ ہونا چاہئے تھا اور مسیح موعود کے آنے کی منادی کرنی چاہئے تھی۔ میکاہ نبی کی پیشنگوئی اس کی جائے پیدائش کی نشاندہی کرتی تھی۔جب کہ دانی ایل کی پیشنگوئی اس کے آنے کے خاص وقت سے آگاہ کرتی تھی میکاہ 2:5 دانی ایل 25:9۔ خداوند خدا نے یہ پیشنگوئیاں یہودی لیڈران کے حوالے کی تھیں۔ اگر انہوں نے مسہح یسوع کی امد کے بارے میں لوگوں کو نہ بتایا یا وہ اس سے بے خبر تھے۔تو اپنی اس غفلت کا ان کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔ ان کی یہ لاعلمی ان کی مجر مانہ غفلت تھی۔ یہودی خدا کے شہید نبیوں کی یاد گار کھڑی کر رہے تھے ۔ ، جب کہ وہ دنیا کہ ممتاز لوگوں کی تعظیم کرنے سے شیطان کے چیلوں کو عزت بخش رہے تھے ۔ وہ دنیا کے اعلٰے اختیارات او عہدوں کے لئے جانفشانی کررہے تھے ۔ اور اس الٰہی عزت و تکریم کو نظر انداز کررہے تھے جس کی انہیں آسمانی شہنشاہ نے پیشکش کی تھی۔AK 304.4

    بڑے اشتیاق سے بنی اسرائیل کے لیڈر کو مسیح موعود کی جائے پیدائش اور وقت کے بارے مطالعہ کرنا چاہئے تھا۔اور دنیا کی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ جو رونما ہونے والا تھا اور خدا کے بیٹے کی آمد کی حقیقت حال سے بخوبی واقف ہونا چاہئے تھاجو انسان کی مخلصی کے لئے آرہا تھا۔سب لوگوں کو جاگتے اور اس کے انتظار کرتے ے رہنا چاہئے تھااور انہیں ان پہلے لوگوں میں شامل ہوناچاہیےتھا جو دنیاکے نجات دہندہ کا خیر مقدم کرتے مگر دیکھئے جو مسافر ناصرت کی پہاڑیوں کا سفر کرتے تھکے ماندے بہت دور الحم کے قصبہ میں رات کے قیام کے لئے جگہ ڈھونڈرہے تھے انہیں قبول کرنے کے لئے کوئی دروازہ نہ کھلا۔ ایک گندہ سا سائبان جو مویشیوں کے لئے تیار کیا گیا تھا وہیں ٹھر گئےوہیں دنیا کے نجات دہندہ نے جنم لیا ۔ AK 305.1

    آسمانی فرشتوں نے خدا کے بیٹے کے اس جلال کو دیکھا تھا جو اس نے دنیا کے وجود میں آنے سے پہلے خدا کے ساتھ رکھا تھا ۔اور اب اس واقعہ کو بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے جو اس دنیا پر عیاں ہو۔ اور جو دنیا کے تمام کے لئے باعث مسرت تھا ۔ فرشتوں کو یہ خوشخبری ان لوگوں تک پہنچانے کے لئے زمہ داری کے طور پر دی گئی جو اسے قبول کرنے کے لئے تیار تھےاور بخوشی دنیا کے باشندوں تک یہ خوشخبری پہنچانے کے لئے رضا مند تھے ۔ مسیح یسوع نے خود کو اس قدر پست کیا کہ اس کی انسانی ساخت اختیار کی ۔ اور اسے آلام (مصائب ) کا بہت بڑا بوجھ براشت کرنا تھا جب اسے گناہ کے عوض اپنی جان کفارہ کے طور پر گذرننی تھی۔ اس نداری کے باوجود فرشتگان کی خواہش تھی کہ ابن خدا انسانوں کے سامنے ایسے جلال اور احترام کے ساتھ ظاہر ہو جو اس کی سیرت کے شایان شان ہو۔ کیا اس دھر تی کے عظیم لوگ اس کی آمد پر خوش آمدید کہنے کے لئے اسرائیل کے صدر مقام پر جمع ہوئے ؟ کیا فرشتوں کے گروہ نے اسے منتظر کمپنی کے سامنے پیش کیا؟AK 305.2

    ایک فرشتہ زمین پر یہ دیکھنے کے لئے اترتا ہے کہ کو ن یسوع مسیح کو خیر مقدم کرنے کو تیار ہیں۔ مگر اسے کسی کے مشتاق ہونے کی علامت نظر نہ آتی ۔ اس نے حمد و ثناء اور فتح کی کوئی آواز نہ سنی کہ مسیحا کی آمد ہونے کو ہے ۔ فرشتہ کچھ دیر تک چنیدہ شہر اور ہیکل کے اوپر چکر کاٹتا رہا جہاں زمانوں سے خدا کی حضوری ظاہر ہوتی رہی تھی ۔ مگر یہاں کا بھی وہی حال تھا جو دوسری دنیا کا تھا ۔ کاہن بڑی آن بان اور دھوم دھام سے ہیکل میں نجس قربانیاں گذران رہے تھے ۔ فریسی اونچی اونچی آوازوں میں لوگوں سے خطاب کررہے تھے ۔یا بازاروں کے کونوں میں کھڑے ہوکر لمبی لمبی دعائیں مانگ رہے تھے۔بادشاہوں کے محلوں میں فلاسفروں نے مجمع میں ، ربیوں کے سکولوں میں سبھی اس شاندار منظر سے بے خبر تھے ، جس کے باعث آشمان حمد و ستائش اور خوشی و مسرت سے معمور ہوگیا تھا اور یہ صدائیں سنی جارہی تھیں کہ آل آدم کا نجات دہندہ دھرتی پر اتر نے والا ہے۔AK 306.1

    ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ کوئی مسیح یسوع کی توقع کررہا ہو۔ زندگی کے شہنشاہ کے لئے کوئی تیاری نظر نہیں آتی تھی۔بڑے تعجب کے ساتھ آسمانی ایلچی شر مسار خبر لیکر آسمان کی طرف لوٹنے کو ہی تھا جب اس نے چرواہوں کے ایک گروپ کو دیکھا جو رات کو بھیروں کی رکھورالی کررہے تھے انہوں نے جونہی ستاروں بھرے آسمان کو غور سے دیکھا تو مسیح مدعوں کی دھرتی پر آنت والی پیشنگوئی پر غور و خوض کیا اور دنیا کے نجات دندہ کی آمد کی تمنا کی ۔ یہی وہ کمپنی تھی جو آسمانی پیغام کو لینے کے لئے تیار تھی۔ ان پر خدا وند کا فرشتہ اچانک نمودار ہوتا ہے اور انہیں اس بڑی خوشی کی خبر دی جاتی ہے ۔ آسمانی جلال سے وہ میدان بقعہ نور بن گیا اور فرشتوں کی بہت بڑی ٹولی آپہنچی ، جیسے کہ ایک فرشتہ کی خوشی اس قدر بڑی تھی کہ آسمان سے بہت سے فرشتے اتر آئے ۔اور سب نے ملکر وہ گیت گایاجو ایک دن قوم کے تمام نجات یافتگان اکھٹے ملکر گائیں گے۔ ” عالم بالا پر خدا کی تحمید ہو اور زمین پر ان آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صالح ” لوقا 14:2AK 306.2

    بیت الحم کی اس کہانی میں کتنا اعلٰے میغام موجود ہے ۔ یہ ہماری کم اعتقادیوں پر کتنی بڑی سرزنش ہے ۔ ہماری کود پسندی اور بے نیازی پر بہت بڑی ضرب ہے۔ یہ ہمیں خبردار رہنے کے لئے کیسی تنبیہ ہے ۔ ایسا نہ ہو کہ ہم اپنے مجرمانہ تضاد کی وجہ سے زمانوں کے نشانات کی پہچان ہی نہ کر بائیں اور وہ دن ہم پر نا گہاں آپڑے۔ AK 306.3

    یہودیہ کے پہاڑیوں پر یہ حلیم اور مسکین چرواہے ہی ہیں بس وہ لوگ نہ تھے جن کو فرشتہ نے اپنی بھیڑوں کی رکھوالی کرتے ہوئے مسیح یسوع کی آمد پر خوض کرتے ہوئے پایا ۔ بلکہ بت پرستوں کی زمین میں بھی کئی مسیحا کے منتظر تھے یعنی وہ مجوسی حکمت سے معمور مشرق کے امیر اور فلاسفر تھے ۔ وہ فطرت (Nature)کے طآلب تھے ۔ مجوسیوں نے خدا کو اس کی دست کاری میں دیکھا تھا۔ عبرانی نوشتوں میں انہوں نے ستاروں کے بارے سیکھا رکھا تھا۔ کہ وہ یعقوب سے نکلے گا اور بڑے ذوق و شوق سے اس کی آمد کے منتظر تھے۔ جو نہ صرف ” اسرائیل کی تسلی ” کا سبب ہوگا بلکہ غیر قوموں کو روشنی دینے والا نور ہوگا بلکہ زمین کی انتہا تک نجات کا باعث لاقا32:25:2 اعمال 47:13AK 307.1

    وہ نور کے متلاشی تھے اور خداوند کے تخت سے روشنی صادر ہوئی جس نے ان کے قدموں کی راہوں کو منور کردیا۔ جبکہ یروشلیم کے کاہن اور ربی جو مقرر کردہ سرپرست اور سچائی کے مفسر ( تشریح کرنے والا) تھے تاریکی میں گھرے رہے اور آسمان کے ان غیر قوم والےاجنبیون کے لئے نوزائیدہ بادشاہ کی بجائے پیدایش تک ہونے کے لئے آسمان سے ستارہ بھبجاگیا تاکہ ان کی رہنمائی کرے۔AK 307.2

    یہ سب کچھ ان کے لئے ہوتا ہے جو اس کے طرف تکتے ہیں مسیح یسوع دوسری بار “بغیر گناہ کے نجات کے لئے ان کو دکھائی دے گا جو اس کی راہ دیکھتے ہیں ” عبرانیوں 28:9AK 307.3

    نجات دہند کی پیدائش کی خوش خبری کی طرح آمد ثانی کا پیغام بھی لوگوں کے مزہبی رہنماؤں کو نہ سونپا گیا وہ تو اپنا ناطہ خدا کے ساتھ قائم رکھنے میں ناکام ہوگئے اور آسمانی نور کا انکار کردیا اس لئے ان کا شمار ان میں نہیں ہوتا جس کا زکر پولس رسول نے کیا تھا۔“لیکن تم اے بھائیو تاریکی میں نہیں ہو کہ وہ دن چور کی طرح تم پر آپڑے ۔ کیونکہ تم سب نور کے فرزند ہو۔ اور وہ دن کے فرزند ہو۔ ہم رات کے ہیں نہ تاریکی کے۔1 تھسلنیکیوں ۔5.4:5AK 307.4

    صیون کی دیوراروں کے نگہبان وہ پہلے اشخاص ہونے چاہئے تھے جو نجات دہندہ کی پہلی آمد کی خوشخبری حاصل کرتے ۔ انہیں اس کے جلد آنے کی خبر کی منادی کرنی چاہئے تھی ۔ وہی پہلے اشخاص ہونے چاہئے تھے جو لوگوں کو اس کی تیاری کی آگاہی دیتے ۔مگر وہ تو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ تو سلامتی اور امن کے خواب دیکھ رہے تھے جب کہ دوسرے لوگ اپنے گناہوں میں سورہے ھے ۔ مسیح یسوع نے اپنی کلیسیا کو بے پھل انجیر کے درخت کی مانند پایا جو مکاری کے پتوں سے بھرا تھا۔ مگر بیش قیمت پھل ک تہی دست تھا۔ مزہب کی ظاہری صورت لاف زنی کرنے والے کی مانندتھی ، اور حقیقی فروتنی کی روح، صبر اور ایمان جو تنہا ایسی خدمت پیش کرسکتے ہیں۔جو خدا کے نذدیک قابل قبول ہو۔ اس کی خدمت میں کمی تھی روح کی نعمتیں ہونے کی بجائے وہاں خود بینی، دستور، رسم و رواج ، خود غرضی ۔ لاف زنی اور جورو جفا کی نمائش تھی۔ برگشتہ کلیسیانے وقت کے نشانات کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں ۔ خداوند نے انہیں ترک نہ کیا اور نہ ہی اس کی وفاداری ناکام ہوئی ۔ مگر انہوں نے خود کو اس کی محبت سے الگ کرلیا۔جب انہوں نے اس کی شرائط پوری نہ کیں تو وہ وعدے جو اس نے ان کے ساتھ کئے تھے پورے نہ ہوئے۔AK 307.5

    خداوند نے جو روشنی اور استحقاق بخشاہے اسے نہ سراہنا یا اسے ترقی نہ دینے سے یقینی طور پر ایسے ہی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ جو کچھ خداوند نے مہیا کر رکھا ہے جب تک کلیسیا اس کی پیروی نہیں کرتی،روشنی کی ہر کرن قبول نہیں ہوتی اور اس فرض کو ادا نہیں جو اس پر عیاں ہوچکا ہے تو مزہب رسومات اور دستوروں کو ماننے سے مزید پستی میں گر جائے گا اور اس میں سے خدا ترسی کی روح جاتی رہے گی۔کلیسیا کی تاریخ میں اس مثال کو بار بار دہرایا گیا ہے ۔ خدا وند خدا اپنے لوگوں سے وفاداری اور ایمانداری کے کاموں کا مطالبہ کرتا ہے جن کے مطابقت ان برکات اور استحکام کے ساتھ ہو جو خداوند نے انہیں دے رکھے ہیں ۔ تابعداری قربانی مانگتی ہے اور اس میں صلیب شامل ہے ۔ اسی لئے بہت سے خدا کے نام کا اقرا کرنے والے آسمانی نور کو حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں ، مگر قدیم زمانہ کے یہودیوں کی طرح جن کو اس وقت کا اندازہ ہی نہ تھا جو ان پر آپڑا لوقا 44:19۔ ان کی خود بینی اور بے ایمانی کی وجہ سے خدا نے ان کو چھوڑ کر اپنی صداقت بیت الحم کے چرواہوں اور مجوسیوں پر عیاں کی کیونکہ جتنی روشنی ان کو ملی تھی انہوں نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔AK 308.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents