Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    انیسواں باب - تاریکی میں سے نور

    عظیم ریفریمشن ہو یا کوئی مذہبی تحریک ہر زمانے میں خدا کا کام اس دھرتی پر ایک سی مشابہت رکھتا ہے۔ بنی نوع انسان کے ساتھ عہدہ برآ ہونے کے اصولات بھی ایک سے ہی ہیں- موجودہ تحریکیں بھی ماضی کی تحریکوں کے مشابہ ہیں- قدیم زمانہ کی کلیسیا کا تجربہ بھی ہمارے زمانے کے لئے بہت ہی قدرومنزلت کا حامل ہے- کوئی بھی صداقت جو بائبل مقدس میں پائی جاتی ہے اسے خدا کے روح القدس سے زیادہ کسی اور ذرائع نے اس صفائی سے پیش نہیں کیا- بڑی بڑی تحریکوں کے لئے روح القدس نے خدا کے بندوں کی اس دھرتی پر رہنمائی کی تاکہ نجات کے کام کو آگے بڑھا سکیں- انسان تو خداوند کے ہاتھ میں بطور آلہ کے ہیں- خداوند انھیں تعینات کرتا ہے تاکہ وہ اس کے فضل اور رحم کو قائم کریں- ہر ایک کے کرنے کے لئے کام ہے- ہر ایک کو ایک خاص حد تک روشنی دی گئی ہے- اور وہ اس قدر کافی روشنی ہے کہ وہ خدمت جو خدا نے اس کے سپرد کی ہے اسے بخوبی انجام دے سکے- تاہم کسی بھی شخص کو جسے خداوند نے بلاہٹ دی ہے اسے عظیم نجات کی تجویز کی مکمل سوجھ بوجھ عطا نہیں کی گئی تھی- اور نہ ہی اسے اس کے اپنے زمانہ میں اتنی صلاحیت دی تھی کہ وہ الہی کام کے مقاصد کی کامل عزت افزائی کر سکے-AK 334.1

    انسان پوری طرح یہ بھی نہیں سمجھتے کہ خداوند اس کام سے کیا حاصل کرے گا جو اس نے انھیں کرنے کو دیا ہے- وہ ان پیغامات کا بھی فہم وادراک بھی نہیں رکھتے تھے جن کی انہوں نے اس کے نام پر منادی کی-AK 334.2

    ”کیا تو تلاش سے خدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تو قادر مطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے“؟ ایوب -7:11AK 334.3

    ”میرے خیال تمہارے خیال نہیں اور نہ تمہاری راہیں میری راہیں ہیں کیونکہ جس قدر آسمان زمین سے بلند ہے اسی قدر میری راہیں تمہاری راہوں سے اور میرے خیال تمہارے خیالوں سے بلند ہیں“- یسعیاہ -9-8:55AK 334.4

    ”میں خدا ہوں اور کوئی دوسرا نہیں- جو ابتدا سے ہی انجام کی خبر دیتا ہوں- اور ایام قدیم سے وہ باتیں جو اب تک وقوع میں نہیں آئیں بتاتا ہوں“ یسعیاہ-10-9:46AK 334.5

    یہاں تک کہ انبیآ جنھیں خاص روح کی تجلی حاصل تھی وہ بھی اس مکاشفہ کی اہمیت کو پوری طرح نہ سمجھتے تھے جو انہیں دیا گیا- ان کے معنی ومطلب زمانہ بہ زمانہ آشکارا کئے گئے- اور ان میں پائے جانے والے معنی اس وقت بتائے گئے جب خداوند کے لوگوں کو ان کو سمجھنے اور ہدایت حاصل کرنے کی بھی ضرورت تھی-AK 335.1

    پطرس رسول نجات کے بارے میں لکھتے ہوۓ اس پر یوں روشنی ڈالتا ہے جو اسے انجیل سے حاصل ہوئی- ”اسی نجات کی بابت ان نبیوں نے بڑی تلاش اور تحقق کی جنہوں نے اس فضل کے بارے میں جو تم پر ہونے کو تھا نبوت کی- انہوں نے اس بات کی تحقق کی کہ مسیح کا روح جو ان میں تھا اور پیشتر سے مسیح کے دکھوں اور ان کے بعد کے جلال کی گواہی دیتا تھا وہ کون سے اور کیسے وقت کی طرف اشارہ کرتا تھا- ان پر یہ ظاہر کیا گیا کہ وہ نہ اپنی بلکہ تمہاری خدمت کے لئے یہ باتیں کہا کرتے تھے جن کی خبر اب تم کو ان کی معرفت ملی“ 1 پطرس -12-10:1AK 335.2

    گو جو کچھ نبیوں پر آشکارا کیا گیا اس کی پوری پوری سمجھ تو انہیں نہیں تھی مگر انہوں نے انتہائی خلوص نیتی سے اس روشنی کو حاصل کرنے کی تمنا کی جو خداوند خدا ان پر ظاہر کرنے پر راضی تھا- انہوں نے “بڑی دلجمعی سے ان کی تلاش اور تحقیق کی” کیا تحقیق کی کہ مسیح کی روح نے جو ان میں تھی کیسے وقت کی طرف اشارہ کیا کرتی تھی- مسیحی زمانہ میں خدا کے لوگوں کے لئے یہ کس قدر اعلی سبق ہے- جن کے فائدہ کے لے یہ پیشینگوئیاں اس کے بندوں کو دی گئیں-AK 335.3

    ”جن پر یہ آشکارا کیا گیا، وہ ان کے لئے نہ تھا بلکہ ہمارے لئے جن کے لئے انہوں نے خدمت کی “خدا کے ان مقدس لوگوں نے گواہی دی جب وہ اس مکاشفہ کی اس نسل کے لئے بڑی جانفشانی سے تلاش اور تحقیق کر رہے تھے جو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئی تھی- ان کا پاک جوش وخروش ان لاپرواہ لوگوں کے جذبہ سے کس قدر برعکس ہے جنہیں خدا نے اس آسمان نعمت سے نوازہ ہے- ان کاہل، نفس پرست، دنیا کو پسند کرنے والوں کے لئے یہ کس قدر سرزنش ہے جو اس بات پر قانع ہو گئے ہیں اور اعلانیہ کہہ رہے کہ ان پیشینگوئیوں کو سمجھا نہیں جا سکتا- AK 335.4

    گو انسانی محدود فہم وادراک، لامحدود خدا کی تجاویز میں دخل دینے کے لئے ناکافی ہے- اور اس کے مقاصد کو پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کس طرح انہیں بروئے کار لاتا ہے- کہ یا یہ انسانوں کی طرف سے ہے، یا تو ان سے کچھ خطا ہوئی ہے، غفلت برتتے ہیں یا پھر واقعی آسمانی پیغامات کو واضح طور سے نہیں سمجھتے ہیں- اکثر اوقات انسانوں کے اذہان، حتی کہ خدا کے خادموں کے بھی انسانوں کے صلاح مشورے، روایات اور انسانوں کی جھوٹی تعلیم سے اس قدر بے بصیرت ہو جاتے ہیں کہ وہ ان اعلی چیزوں کو جزوی طور سے ہی تھام پاتے ہیں جو خدا کے کلام سے آشکارا کی جاتی ہیں- جب نجات دہندہ بذات خود شاگردوں کے ساتھ تھا، یہی کچھ اس کے شاگردوں کے ساتھ ہوا- ان کے ذہن اس عوامی قیاس سے کند ذہن ہو گئے تھے کہ مسیح یسوع، ایک عارضی بادشاہت کا شہنشاہ ہے- جو اسرائیل کو عالمگیر سلطنت پر براجمان کرے گا اور کلام کو نہ سمجھ پائے جو اس نے اپنے دکھوں اور موت کے بارے کیا تھا-AK 336.1

    مسیح یسوع نے انہیں خود اس پیغام کے ساتھ روانہ کیا تھا- ”اور کہا کہ وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے- توبہ کرو اور خوشخبری پر ایمان لاؤ- “مرقس15:11AK 336.2

    اس پیغام کی بنیاد دانی ایل کے نویں باب کی پیشینگوئی پر ہے-69 ہفتے کا اعلان فرشتے نے کیا جو ”ممسوح فرمانروا“ تک جاتے ہیں- اور شاگرد بڑی امید اور خوشی سے منتظر تھے جب مسیح کی حکومت یروشلیم میں ساری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے قائم ہو گی-AK 336.3

    وہ اس پیغام کی منادی کرتے تھے جو مسیح یسوع نے انہیں دیا تھا، گو وہ خود اس کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تھے- ان کی منادی کی بنیاد دانی ایل 25:9 تھی- مگر اسی باب کی اگلی آیت نہیں دیکھ رہے تھے جہاں یہ لکھا ہے کہ ”ممسوح قتل کیا جائے گا“ شروع سے ہی ان کے دل اس دنیا کی حکومت پر لگے ہوۓ تھے- اس لئے وہ پیشینگوئی کے اہم نقاط اور مسیح یسوع کا کلام سمجھنے سے قاصر رہے-AK 336.4

    وہ یہودی قوم کو رحم کی دعوت کی پیشکش کر کے اپنا فرض نبھا رہے تھے- اور اسی وقت جب وہ توقع کر رہے تھے کہ انکا آقا داؤد کے تخت پر مسند نشین ہو گا، تو انہوں نے دیکھا کہ اسے مجرم کے طور پر گرفتار کر لیا گیا اور اسکا تمسخر اڑایا گیا- اسے ملعون قرار دیا گیا اور بالاخر کلوری کی صلیب پر لٹکا دیا گیا- ان دنوں شاگردوں کے دل کس قدر رنجیدہ، ملول اور افسردہ ہونگے جب انکا آقا قبر میں سو رہا تھا-AK 336.5

    مسیح یسوع اسی طریقہ سے اور مقررہ وقت پر آیا جیسے پیشینگوئی کی گئی تھی اور اسکی خدمت میں پیشینگوئی کی تکمیل ہوبہو ویسے ہی ہوئی جیسی تفصیل دی گئی تھی- اس نے نجات کے پیغام کی منادی کی “اور اختیار کے ساتھ کلام کیا” اور اس کے سامعین نے مانا کہ یہ آسمانی کلام ہے- کلام اور خدا کی روح نے اپنے بیٹے کے الہی اختیار کی تصدیق کی-AK 336.6

    شاگرد ابھی تک اپنے عزیز آقا کی نہ ختم ہونے والی محبت میں گرفتار تھے- مگر اسکے باوجود ان کے اذہان غیر یقینی اور شک وشبہات سے بھرے ہوۓ تھے- رنج والم کی زیادتی کی وجہ سے انہیں مسیح یسوع کا وہ کلام یاد نہیں آ رہا تھا جو اس نے اپنے دکھوں اور موت کے بارے کیا تھا- اگر یسوع ناصری حقیقی مسیحا ہوتا، تو کیا پھر بھی وہ اس قدر مایوسی کا شکار ہوتے؟ یہ وہ سوال تھا جو انکی روحوں کو زخمی کر رہا تھا- جبکہ مسیح یسوع سبت کی ان مایوس گھڑیوں میں اپنی قبر میں پڑا ہوا تھا- اور مایوسی کی یہ گھڑیاں مسیح یسوع کی موت اور مردوں میں سے جی اٹھنے کے درمیان مخل تھیں-AK 337.1

    بیشک مسیح یسوع کے پیروکاروں کے گرد غموں کی رات تاریک تر ہو گئی- مگر خداوند نے انہیں ترک نہیں کیا تھا- نبی فرماتا ہے- ”جب اندھیرے میں بیٹھوں گا تو خداوند میرا نور ہو گا- وہ مجھے روشنی میں لائے گا اور میں اسکی صداقت کو دیکھوں گا“میکاہ 8:7-9-AK 337.2

    ”اندھیرا بھی تجھ سے چھپا نہیں سکتا- بلکہ رات بھی دن کی مانند روشن ہے“ زبور -12:139AK 337.3

    ”راستبازوں کے لئے تاریکی میں نور چمکتا ہے“ زبور -4:112AK 337.4

    ”اور اندھوں کو اس راہ سے جسے وہ نہیں جانتے لے جاؤں گا- اور میں ان کو ان راستوں پر جن سے وہ آگاہ نہیں لے چلوں گا- میں ان کے آگے تاریکی کو روشنی اور اونچی نیچی جگہوں کو ہموار کروں گا“ یعسیاہ -16:42AK 337.5

    خداوند رب جلیل کے نام سے جو شاگردوں نے منادی کی تھی وہ ہر لحاظ سے درست تھی- اور جن نشانات کی طرف انہوں نے اشارہ کیا تھا وہ تقریبا اس وقت نمودار ہو رہے تھے-AK 337.6

    ”وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“ یہی ان کا پیغام تھا- دانی ایل 9 باب‘ 69 ہفتوں کو ممسوح تک پہنچتا تھا-مسیح یسوع نے یردن میں یوحنا سے بپتسمہ لیکر روح القدس کا مسح حاصل کر لیا تھا- اور ”خدا کی بادشاہت“ جس کے بارے میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ نزدیک ہے وہ مسیح یسوع کی موت کے باعث قائم ہو گئی- یہ بادشاہت جیسے انھیں سکھایا گیا اور ان کا ایمان تھا، دنیا کی بادشاہت نہیں تھی اور نہ ہی یہ وہ مستقبل کی غیر قانونی بادشاہت تھی جو سارے آسمان تلے قائم ہونے کو ہے اور جو حق تعالیٰ اپنے مقدسین کو دے گا- وہ ابدی حکومت ”جو تمام آسمان کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حق تعالیٰ کے مقدس لوگوں لوگوں کو بخشی جائے گی“ دانی ایل -27:7 جیسے کہ بائبل مقدس میں ”خدا کی بادشاہی“ محاورہ کے طور پر آئی ہے یہ جلال اور فضل کی حکومت کے معنوں میں ہے- فضل کی بادشاہت کا نظریہ پولس رسول کے خط عبرانیوں میں آیا ہے- مسیح یسوع کی جانب اشارہ کرتے ہوۓ جو ہمارا مہربان شفاعت کرنے والا ہے ہماری کمزوریوں سے متاثر ہوتا ہے- رسول یوں کہتا ہے- ”کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بےگناہ رہا- پس آؤ ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تاکہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے“ عبرانیوں 16-15:4 AK 337.7

    فضل کا تخت، فضل کی بادشاہت کی نمائندگی کرتا ہے- کیونکہ تخت کی موجودگی بادشاہت کی موجودگی ظاہر کرتا ہے- ”مسیح یسوع نے“ اپنی بہت سی تمثیلوں میں آسمان کی بادشاہی کو اسلوب بیان بنایا- اور یہ الہی فضل کا کام ہے جو انسانوں کے دلوں پر کیا جاتا ہے-AK 338.1

    پس جلال کا تخت، جلال کی بادشاہت کی نمائندگی کرتا ہے اور اس بات کا حوالہ خود نجات دہندہ نے یوں دیا ”جب ابن آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا- اور سب قومیں اس کے سامنے جمع کی جائیں گی“ متی -32-31:25مگر یہ بادشاہت مستقبل میں آنے والی ہے- اور یہ آمد ثانی سے پہلے قائم نہیں ہو گی-AK 338.2

    فضل کی بادشاہت انسان کے گناہ میں گرنے کے فورا بعد قائم ہو گئی- جب گنہگار نسل انسانی کے لئے نجات کی تجویز بنائی گئی اور یہ خدا کے وعدہ کے ساتھ معرض وجود میں آ گئی- لہٰذا ایمان کے وسیلہ سے انسان اس کے تابع ہو گئے-تاہم حقیقت میں یہ مسیح یسوع کی موت سے پہلے قائم نہ ہوئی- حتی کہ زمینی مشن میں داخل ہونے کے بعد، نجات دہندہ انسانوں کی ناشکر گزاری اور ہٹ دھرمی کے باعث فکرمند تھا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ کلوری کی قربانی کے بعد بھی پیچھے ہٹ جائیں، گتسمنی میں جانکنی کا پیالہ اس کے ہاتھ میں ڈگمگا رہا تھا- وہ اس وقت اپنی پیشانی سے خون کے پسینے کی بوندیں پونچھ کر اس بدکار نسل کو ان کے گناہوں میں چھوڑ کر چلا جاتا- اگر وہ ایسا کرتا تو گنہگار نسل انسانی کے لئے کہیں مخلصی نہ ہوتی- لیکن جب نجات دہندہ نے اپنی جان دے دی اور جب آخری سانس دم توڑ رہی تھیں اس نے فرمایا “پورا ہوا” تب نجات کی تجویز کی تکمیل یقینی ہو گئی- باغ عدن کے گنہگار جوڑے کے لئے جو نجات کا وعدہ کیا گیا تھا اس کی توثیق کر دی گئی- فضل کی بادشاہت جو پہلے بھی خدا کے وعدہ کے ساتھ معرض وجود میں آ چکی تھی، وہ قائم ہو گئی-AK 338.3

    مسیح یسوع کی موت کے جس واقعہ کو شاگرد اپنی امید کی قطعی بربادی سمجھ رہے تھے اس نے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یقینی بنا دیا- بیشک اس کی وجہ سے انہیں شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، مگر یہی نبوت کی معراج تھی کہ ان کے اعتقاد کی درستی کر دی گئی ہے- وہ واقعہ جس نے انہیں مایوسی سے دبا لیا، اسی نے ہی آل آدم کے ہر بچے کے لئے امید کے دروازے کھول دیئے، جس میں مستقبل کے ہر زمانہ کے ایماندار ابدی خوشی میں داخل ہوتے ہیں- شاگردوں کی مایوسی کے درمیان بھی ابدی وازلی رحیم کے مقاصد اپنی تکمیل کو پہنچ رہے تھے، جب ان کے دل الہی فضل اور اس کی تعلیم کی قوت سے جیتے گئے جس کی طرح “کسی انسان نے کبھی ایسا کلام نہ کیا” اس کے باوجود انکی کھوٹی محبت جس کی بنیاد دنیوی تکبر اور خود غرضانہ خواہشات پر تھی، وہ مسیح یسوع کی خالص سونے کی سی محبت کے ساتھ پیوست تھی- حتی کہ فسح کی بالائی منزل میں، ان سنجیدہ گھڑیوں میں جب ان کا آقا پیشتر ہی گتسمنی کے سایوں میں داخل ہو رہا تھا- ان میں یہ تکرار ہو رہی تھی کہ “ہم میں سے کون بڑا سمجھا جاتا ہے” لوقا 24:22 ان کے وژن تخت وتاج اور اعلی مراتب سے بھرے ہوۓ تھے- جبکہ ان کے سامنے گتسمنی کی جانکنی، کمرہ عدالت اور کلوری کی صلیب تھی- یہ تو ان کے دل کا گھمنڈ تھا، دنیاوی جاہ وجلال کی بھوک پیاس جس کی وجہ سے وہ اپنے زمانے کی غلط تعلیم اتنی مضبوطی سے پکڑے ہوۓ تھے، اور مسیح یسوع کی حقیقی بادشاہت کے بارے اس کے کلام پر غوروخوض نہ کیا- اور انہوں نے اس کے اس کلام پر بھی غوروخوض کرنے کی زحمت گوارہ نہ کی جو اس نے اپنے دکھوں اور اپنی موت کے بارے میں ان سے کیا تھا- ان کی ان خطاؤں کے سبب انھیں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا- گو یہ ضروری تھیں اور انہیں راہ راست پر لانے کے لئے خداوند خدا نے ان پر آنے دیں- گو شاگرد اپنے پیغام کے معنی نہ سمجھ پائے، اور اپنی توقعات کو بھی سمجھنے سے قاصر رہے، اس کے باوجود خداوند خدا کی طرف سے جو آگاہی انہیں دی گئی تھی اس کی انہوں نے منادی کی- خداوند انھیں اس ایمان اور وفاداری کا اجر دے گا- خداوند خدا نے ساری قوموں کو مسیح کے مردوں میں سے جی اٹھنے کی خوشخبری کا کام ان کے سپرد کیا تھا- یہ انہیں اس کام کے لئے تیار کرنا تھا جو انہیں بہت ہی تلخ تجربہ دکھائی دیتا تھا-AK 339.1

    مردوں میں سے جی اٹھنے کے بعد مسیح یسوع اپنے شاگردوں پر اماؤس کی راہ پر ظاہر ہوا- ”اور موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اس کے حق میں لکھی ہوئی تھیں وہ ان کو سمجھا دیں“ لوقا -27:24 شاگردوں کے دل جوش سے بھر گئے- ایمان جگمگا اٹھا- ”انہیں پھر زندہ امید حاصل ہو گئی“ بیشک مسیح یسوع نے خود کو ان پر ابھی ظاہر نہیں کیا تھا- اس کا یہی مقصد تھا کہ ان کی سوجھ بوجھ کو روشن کرے اور ان کے ایمان کو ”نبوت کے معتبر کلام میں مستحکم کرے“- اس کی تمنا تھی کہ صداقت ان کے ذہنوں میں گھر کر لے- محض مسیح یسوع کی ذاتی گواہی کے باعث نہیں بلکہ ایسے ثبوت جن پر سوال نہ اٹھ سکیں اور یہ انہیں شریعت کے پرتو اور علامات سے حاصل ہوۓ ہوں- نیز ان کے ثبوت عہد عتیق کی پیشینگوئیوں سے مطابقت رکھتے ہوں- مسیح یسوع کے شاگردوں کے لئے لازم تھا کہ ان کا اعلان ذی شعور ہو-صرف اپنے ہی لئے نہیں بلکہ دنیا کے لئے بھی جن کے پاس انہوں نے مسیح یسوع کو لے کر جانا تھا اور اس علم کا پہلا قدم پہنچانے کے لئے مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو ”موسیٰ اور تمام نبییوں ک حوالہ دیا“- ایسے شہادت دیگر زندہ ہونے والے مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو عہد عتیق کی اہمیت اور قدرومنزلت سے آگاہ کیا-AK 339.2

    اپنے پیارے آقا کا ایک بار پھر چہرہ دیکھ کر شاگردوں کے دل میں کیسی تبدیلی واقع ہوئی لوقا -32:24 جس کامل طریقہ سے اب شاگردوں نے اسے موسیٰ اور دوسرے نبیوں کی تصانیف میں دیکھا پہلے کبھی نہ دیکھا تھا- غیر یقینی، ذہنی اذیت اور مایوسی کی جگہ کامل ایمان اور یقین نے لے لیا- اس کے آسمان پر چڑھنے کے بعد یہ کتنی شاندار بات تھی کہ وہ ”سب ہیکل میں جمع ہو کر مسلسل خدا کی تعریف اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول رہے“ لوگ تو صرف نجات دہندہ کی شرمناک موت سے ہی واقف تھے- وہ شاگردوں کے چہروں پر افسردگی اور ناکامی کے آثار دیکھنے کی توقع کرتے تھے، مگر اس کے برعکس انہوں نے اس کے چہروں پر خوشی وانبساط اور فتح کے آثار پائے- جو کام ان کے سامنے تھا اس کے لئے شاگردوں نے کیسی حیران کن تیاری حاصل کر لی- وہ بہت ہی گھمبیر آزمائش مئی سے گزرے تھے، اور یہ تجربہ کرنا ان کے لئے ممکن ہوا اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ کس طرح جب انسانی نقطہ نظر سے سب کچھ کھو چکا تھا، خدا کا کلام بڑی فتح مندی سے قائم ہوا- اس کے بعد کیا کوئی ان کے ایمان کو پست اور ان کی محبت کی سرگرمی کو ٹھنڈا کر سکتا تھا؟ شدید افسردگی کے دوران “انھیں قوی تشفی” جو معتبر اور استوار تھی نصیب ہوئی- ”وہ ہماری جان کا ایسا لنگر ہے جو ثابت اور قائم رہتا ہے“ عبرانیوں -19:6AK 340.1

    وہ خداوند کی حکمت اور اسکی قوت وقدرت کے گواہ تھے- ”کیونکہ انہیں خدا کی محبت سے جو انہیں مسیح یسوع میں تھی اس سے انہیں نہ موت جدہ کر سکتی تھی اور نہ زندگی- نہ فرشتے نہ حکومتیں، نہ حال کی نہ مستقبل کی چیزیں- نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اور مخلوق- سب حالتوں میں اس کے وسیلہ سے جس نے ان سے محبت رکھی انہیں فتح سے بھی بڑھ کر حاصل ہوا“ رومیوں -37:8,39-38:8AK 340.2

    ”خداوند کا کلام عبد تک قائم رہے گا“ 1 پطرس -25:1AK 341.1

    ”کون ہے جو مجرم ٹھہرائے گا؟ مسیح یسوع وہ ہے جو مر گیا بلکہ مردوں میں سے جی اٹھا اور خدا کی دہنی طرف ہے اور ہماری شفاعت بھی کرتا ہے“ رومیوں -34:8AK 341.2

    خداوند خدا فرماتا ہے ”میرے لوگ ہرگز شرمندہ نہ ہوں گے“ یو ایل -26:2AK 341.3

    ”رات کو شاید رونا پڑے- پر صبح کو خوشی کی نوبت آتی ہے“ زبور -5:30AK 341.4

    مردوں میں سے زندہ ہو کر جب مسیح یسوع اپنے شاگردوں سے ملا، اور جب انہوں نے اسکی باتیں سنیں تو ان کے دل جوش وخروش سے بھر گئے- جب انہوں نے اس کے سر اور ہاتھ اور پاؤں دیکھے جو ان کے لئے زخمی ہوۓ تھے- اور جب آسمان پر صعود فرمانے سے پہلے وہ ان کے ساتھ بیت عنیاہ تک گیا اور انہیں برکت دینے کے لئے اپنے ہاتھ اٹھائے اور انہیں حکم دیا-AK 341.5

    ”اس نے ان سے کہا تم تمام دنیا میں جا کر ساری خلق کے سامنے انجیل کی منادی کرو“ مرقس -15:16AK 341.6

    اس نے مزید کہا ”اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمھارے ساتھ ہوں“ متی -20:28 جب عائنیکست کے دن موعودہ مددگار نازل ہوا اور آسمانی طاقت میسر ہوئی تو ایمانداروں کی روحیں صعود فرمانے والے آقا کی موجودگی سے جوش وخروش سے معمور ہو گئیں- پھر بیشک اپنے آقا کی طرح ان کی راہ میں بھی قربانیاں اور شہادتیں (Martyrdom) تھیں کیا انجیل کی منادی کے ذریعہ انہیں اس کا فضل اور راستبازی کا تاج اسکی آمد پر دنیاوی تخت کے عوض انہیں نصیب ہو گا- جو ان کی ابتدائی امید تھی؟AK 341.7

    ”اور وہ ہماری درخواست اور خیال سے بہت زیادہ کام کر سکتا ہے“ اس نے انہیں اپنے دکھوں کی شراکت اور اپنی خوشی کی ایسی رفاقت بخشی جو بیان سے باہر ہے- اور پولس رسول اس کے بارے یوں بیان کرتا ہے- ”ہماری دم بھر کی ہلکی سی مصیبت ہمارے لئے ازحد بھاری اور ابدی جلال پیدا کرتی جاتی ہے“ 1 کرنتھیوں -17:4AK 341.8

    مسیح کی پہلی آمد کے وقت شاگردوں کا تجربہ جنہوں نے ”بادشاہت کی خوشخبری کی منادی کی“ اسکا جواب ان کے تجربہ میں پایا جاتا ہے جنہوں نے اسکی آمد ثانی کے پیغام کی منادی کی-AK 342.1

    جیسے ک یہ شاگرد یہ منادی کرنے نکلے کہ ”وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہت نزدیک ہے“ اس طرح ملر اور اسکے ساتھیوں نے منادی کی کہ وہ نبوتی طویل ترین اور آخری دورانیہ اختتام پذیر ہونے کو ہے، عدالت نزدیک ہے اور ابدی بادشاہت قائم ہونے کو ہے- شاگردوں نے جو وقت کے بارے منادی کی اس کی بنیاد دانی ایل نویں باب کے ستر (70) ہفتوں پر تھی- ملر اور اس کے ساتھیوں نے 2300 دنوں کے اختتام پذیر ہونے کی منادی کی وہ دانی ایل -14:8 میں پائے جاتے ہیں- جو 70 ہفتوں کا حصہ ہیں- دونوں کی منادی کی بنیاد اسی ایک بڑے نبوتی دورانیہ پر ہے-AK 342.2

    پہلے شاگردوں کی طرح، ولیم ملر اور اس کے شرکا خود پوری طرح سے اس پیغام کو نہیں سمجھتے تھے جو ان کے ذمے تھا- اغلاط جو عرصۂ سے کلیسیا میں آ چکی تھیں وہ پیشینگوئی کے اہم حصوں کی درست تفسیر کرنے میں ان کی راہ میں حائل ہوئیں- اس لئے گو انہوں نے اس پیغام کی منادی کی جو خدا نے، انہیں دنیا کو دینے کے لئے ان کے سپرد کیا تھا، اور اس کے معنی نہ سمجھتے ہوۓ انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا-AK 342.3

    ”دانی ایل 14:8 کی وضاحت کرتے ہوۓ “دو ہزار تین سو صبح وشام تک اس کے بعد مقدس پاک کیا جائے گا“- جیسے کہ کہا گیا ہے، ملر نے بھی عام نظریہ کی پیروی کی اور ساری زمین کو ہیکل ہی سمجھ لیا- اس کا ایمان تھا کہ زمین ہیکل کی نمائندگی کرتی ہے اور اس دھرتی کو مسیح یسوع کی آمد پر آگ سے پاک کیا جائے گا- اس لئے اسے گمان ہوا کہ 2300 دن جس کا پیشتر ذکر آیا ہے یقینا خاتمہ کا وقت ہے- اور اسی سے اس نے مسیح یسوع کے آمد کے وقت کا تعین کیا- اسے غلطی کا احتمال عوامی نظریے کو قبول کرنے سے ہوا- اور اسے یہ معلوم نہ ہوا کہ یہاں ہیکل کا اطلاق آسمانی ہیکل ہے، یا یہ دھرتی؟-AK 342.4

    قربانیوں کی رسم کا وہ نظام جو آنے والی قربانی اور مسیح یسوع کی کہانت کا پرتو (عکس) تھا- جو سردار کاہن سالانہ انجام دیا کرتا تھا اور یہ کہ آخری سروس کے بعد ہیکل صاف کی جاتی تھی- یہ کفارہ کے خاتمہ کا کام ہوا کرتا تھا- یعنی اسرائیل میں سے گناہ کو دور کرنے کا کام کیا جاتا تھا- یہ آسمان میں ہمارے سردار کاہن کی خدمت کا پرتو تھا جو وہ اپنے لوگوں کے گناہ مٹائے گا، جن کا اندراج آسمانی کتابوں میں ہو چکا ہے- اس خدمت میں تفتیش اور عدالت کا کام شامل ہے- اس کے فورا بعد مسیح یسوع کی باتوں اور جلال اور قدرت کیساتھ آمد ہو گی- کیونکہ جب اس کی آمد ہو گی تو پہلے ہر ایک امر طے ہو چکا ہو گا- مسیح یسوع نے فرمایا “ہر ایک کے کام کے موافق دینے کے لئے اجر میرے پاس ہے” مکاشفہ -12:22 یہی عدالت کا کام ہے- اسکے فورا بعد مسیح یسوع کی آمد ہو گی- اور یہ پہلے فرشتے کے پیغام میں اعلان کیا گیا ہے-AK 342.5

    ”خدا سے ڈرو اور اسکی تمجید کرو- کیونکہ اسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے“ مکاشفہ -7:14AK 343.1

    جنہوں نے اس آگاہی کے پیغام کی منادی کی انہوں نے درست پیغام بالکل صحیح وقت پر دیا مگر جیسے کہ ابتدائی شاگردوں نے اعلان کیا تھا ”وقت پورا ہو گیا ہے اور خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے“ جس کی بنیاد دانی ایل نویں باب پر تھی- مگر وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ مسیح یسوع کی موت اس سے پیشتر اسی نوشتے میں بیان کی گئی ہے- چنانچہ ملر اور اس کے شرکا نے اس پیغام کی تشہیر کی جی سکی بنیاد دانی ایل 14:8 اور مکاشفہ 7:14 پر ہے- مگر یہ جاننے میں ناکام ہوۓ کہ مکاشفہ چودہویں باب کی تناظر میں ایک اور پیغام ابھی باقی ہے جسے مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پہلے دیا جانا ضروری ہے- جیسے کہ شاگردوں سے خطا ہوئی کہ 70 ہفتوں کے اختتام پر بادشاہت قائم ہو گی- اسی طرح ایڈوینٹسٹس سے غلطی ہوئی کہ 2300 دنوں کے اختتام پر آمد ثانی ہو گی- ان دونوں معاملات میں ہردلعزیز نظریے کے زیر اثر ان کے اذہان صداقت کو سمجھنے سے قاصر رہے- دونوں فریقوں نے اس پیغام کو پہنچانے میں خدا کی مرضی کو پورا کیا جو وہ چاہتا تھا کہ دیا جائے- مگر دونوں نے اپنی ہی غلط فہمی کی وجہ سے پیغام کو نہ سمجھا اور انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا-AK 343.2

    تاہم خداوند خدا نے اپنے کرم فرما مقاصد کو عدالت کی آگاہی دے کر پورا کر لیا- روز عظیم نزدیک ہے اور لوگ اس وقت کے لئے آزمائے گئے- اور ان پر آشکارا کر دیا گیا کہ ان کے دلوں میں کیا ہے- یہ پیغام کلیسیا کی نظہیر اور جانچ کے لئے تجویز کیا گیا- انکی رہنمائی کی گئی کہ وہ دیکھ پائیں کہ آیا ان کی محبت دنیا کے لئے ہے یا مسیح یسوع آسمان کے لئے- وہ مسیح یسوع کی محبت کا اقرار کرتے تھے، اب ان کے پاس اس کا ثبوت مہیا کرنے کا وقت تھا- کیا وہ دنیاوی امیدوں اور خواہشوں سے دستبردار ہونے اور دلی مسرت سے مسیح کی آمد ثانی کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار تھے؟ پیغام اس لئے مرتب کیا گیا تھا تاکہ وہ روحانی حالت کو جان سکیں- یہ پیغام خداوند خدا نے اپنے رحم میں بھیجا تاکہ وہ توبہ اور فروتنی کے ذریعہ خداوند اپنے خدا کی تلاش کریں-AK 343.3

    گو وہ پیغام جو انہوں نے دیا اس کی مایوسی ان کی اپنی غلط فہمی کا نتیجہ تھا مگر اس خطا میں سے بھی خداوند نے بھلائی پیدا کر دی جنہوں نے یہ آگاہی کا پیغام قبول کیا ان کے دل کی جانچ ہو گئی- یا اپنی مایوسی کے سامنے انہوں نے جلد بازی میں آ کر خدا کے کلام پر بداعتمادی کا اظہار کر دیا؟ یا وہ دعا اور فروتنی سے پیشینگوئی کو سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ کہاں ناکام ہوۓ؟ کتنے خوف یا جذبات سے متاثر ہوۓ؟ کتنے نیم دلے اور خدا سے منکر ہوۓ؟ بھیڑ تو مسیح یسوع کے ظہور کو دیکھنے کی خواہشمند تھی- لیکن جب انہیں بلاہٹ ملی کہ وہ دنیا کے ٹھٹھوں اور سرزنش کو برداشت کرے، اور تاخیر کا امتحان اور مایوسی، تو کیا وہ ایمان سے منحرف ہو جائے گی؟ کیونکہ وہ فورا خدا کے برتاؤ کو نہ سمجھ پائے تو کیا وہ ان سچائیوں کو ترک کر دیں گے جو خداوند کے پاک کلام کی واضح گواہی ہیں؟AK 344.1

    اس امتحان نے انکی قوت کے بارے بتایا جو حقیقی ایمان کے ساتھ اس تعلیم کو مانتے ہیں جس کے بارے ان کا ایمان ہے کہ یہ خدا کی روح سے اس کے کلام میں دی گئی ہے یہ انہیں سکھائے گا کہ ایسے تجربات اس وقت سامنے آتے ہیں جب بائبل جو خود اپنی تفسیر ہے اس کی بجائے انسانوں کے خطرناک نظریات اور تفسیریں مان لی جاتی ہیں- ایماندار بچوں کو جب اپنی غلطی سے دکھ اور پریشانی اٹھانا پڑتی ہے تو وہ اسکی ضروری درستگی کے لئے کام کرتے ہیں- انہیں نبوتی کلام کے پوشیدہ مطالعہ کی طرف مائل کیا جاتا ہے- انہیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنے ایمان کی اساس کی مزید احتیاط کے ساتھ جانچ پڑتال کریں- اور ہر اس تعلیم کو رد کریں جو عموما مسیحی دنیا مانتی ہے جس کی بنیاد کلام مقدس کی صداقت پر نہیں ہے-AK 344.2

    ان ایمانداروں کے ساتھ جیسے کہ پہلے شاگردوں کے ساتھ ہواکہ وہ چیزیں جو انہیں آزمائش کے وقت غیر واضح دکھائی دیتی تھیں وہ بعدازاں ان کے لئے بڑی سادہ اور صاف ہو گئیں- اور جب انہوں نے ”خداوند کے مقصد کو دیکھا“ تو انہیں پتہ چل گیا کہ گو یہ آزمائش ان کی اپنی غلطی سے ان پر آئی مگر اسکی محبت مسلسل ثابت قدمی سے ان کی مدد گار رہی- انہوں نے مبارک تجربہ سے سیکھا کہ انکا آقا کس قدر رحیم اور ترس کھانے والا ہے“ یعقوب -11:5 ”جو خداوند کے عہد اور اس کی شہادتوں کو مانتے ہیں- ان کے لئے اس کی سب راہیں شفقت اور سچائی کی ہیں“ زبور -10:25AK 344.3

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents