Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بیسواں باب - غیر معمولی دینی بیداری

    غیر معمولی بیداری کی پیشینگوئی کا مکاشفہ چودہ باب کے پہلے فرشتے کے پیغام میں پہلے سے بتا دی گئی تھی جب اس نے مسیح یسوع کے جلد آنے کا اعلان کیا تھا-AK 345.1

    “پھر میں نے ایک اور فرشتہ کو آسمان کے بیچ میں اڑتے ہوۓ دیکھا جس کے پاس زمین کے رہنے والوں کی ہر قوم اور قبلہ اور اہل زبان اور امت کے سنانے کے لئے ابدی خوشخبری تھی- اور اس نے بڑی آواز سے کہا کہ خدا سے ڈرو اور اسکی تمجید کرو کیونکہ اسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے اور اسکی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیدا کئے” مکاشفہ -7-6:14AK 345.2

    حقیقت تو یہ ہے کہ اس فرشتہ کی وارننگ کی پکار ایک خاص اہمیت کی حامل ہے- آسمانی پیامبر کی پاکیزگی، جلال اور قوت سے الہی حکمت اس بڑے کام کی نمائندگی کرنے پر خوش تھی جس اعلی کام کو انجام دینے کیلئے اس میں یہ پیغام، قدرت اور جلال شرکت کرنے کو تھے- “آسمان کے بیچ میں” بڑی آواز کے ساتھ یہ آگاہی دی گئی اور اسکا واسطہ “زمین کے رہنے والوں” کے ساتھ ہے “ہر قوم اور قبلہ اور اہل زبان اور امت” یہ بہت جلد وقوع میں آنے کا ثبوت ہے اور جو ایک عالمگیر تحریک ہے-AK 345.3

    یہ پیغام خود اسوقت پر روشنی ڈالتا ہے جب یہ تحریک معرض وجود میں آنے کو تھی- اعلان کیا گیا ہے کہ یہ ابدی خوشخبری کا حصہ ہے اور یہ عدالت کے شروع ہونے کے وقت کے بارے منادی کرتا ہے- نجات کے پیغام کی ہر زمانہ میں منادی ہوتی رہی ہے- مگر یہ پیغام انجیل کا وہ حصہ ہے جس کی منادی صرف آخری زمانہ میں کی جائے گی- تب ہو یہ سچ ثابت ہو گا کہ اسکی عدالت کا وقت آ پہنچا- پیشینگوئی کے تمام واقعات بتدریج عدالت کے شروع ہونے کی طرف لاتے ہیں- اور یہ خاص طور پر دانی ایل کی کتاب پر صادق آتا ہے- مگر اس کی پیشینگوئی کا کچھ حصہ جسکا تعلق آخری دنوں کے ساتھ ہے- دانی ایل کو کہا گیا “ان باتوں کو بند رکھ اور کتاب پر آخری زمانہ تک مہر لگا دے” اور جب یہ ساری پیشینگوئیاں پوری جائینگی تن عدالت کے پیغام کی تشہیر ہو گی- مگر نبی نے کہا کہ آخری زمانہ میں “بہتیرے اس کی تفتیش وتحقیق کریں گے” دانی ایل -4:12AK 345.4

    پولس رسول نے کلیسیا کو آگاہ کیا کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی کی توقع اس زمانہ میں نہ کریں- “کسی طرح سے کسی کے فریب میں نہ آنا- کیونکہ وہ دن نہیں آئیگا جب تک کہ پہلے برگشتگی نہ ہو اور وہ گناہ کا شخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہو” 2 تھسلنیکیوں -3:2AK 346.1

    لیکن اس وقت تک وقوع میں نہیں آئے گا جب تک بڑی برگشتگی اور :گناہ کا شخص” کی لمبے عرصے تک حکومت پوری نہ ہو جائے- ہم مسیح کی آمد ثانی کی توقع نہیں کر سکتے “گناہ کا شخص” کو” بےدینی کا بھید” 2 تھسلنیکیوں -7:2AK 346.2

    اور “وہ شریر” اور “ہلاکت کا فرزند” یوحنا -12:17 بھی کہا گیا ہے- یہ حوالہ جات پاپائی نظام کی نمائندگی کرتے ہیں- جنکا ذکر پیشینگوئی میں آ چکا ہے- یہ 1260AK 346.3

    سال تک اپنے اختیار اعلی کو برقرار رکھے گا- یہ وہ دورانیہ ہے جو 1798 میں اختتام پذیر ہو گیا- اس وقت سے پہلے مسیح یسوع کی آمد ثانی نہیں ہو سکتی تھی- پولس رسول تمام مسیحیوں کو 1798 تک خبردار کرتا ہے- اس زمانہ سے اس طرف مسیح یسوع کی آمد ثانی کی تشہیر کی جائے گی-AK 346.4

    گزرے زمانوں میں اس طرح کا کوئی پیغام نہ دیا گیا تھا- جیسے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ پولس رسول نے اس طرح کی کوئی منادی نہیں کی تھی- اس نے مستقبل میں مسیح یسوع کی آمد ثانی کی طرف بھائیوں کی توجہ مبذول کرائی- اصلاح مذہب کے بانیوں نے اسکی منادی نہیں- مارٹن لوتھر نے اپنے زمانے سے 300 سال بعد مسیح کی عدالت کے بارے بیان دیا- مگر 1798 سے دانی ایل کی کتاب کی مہر کھول دی گئی اور پیشینگوئیوں کی دانش افزوں ہوئی ہے اور بہتیروں نے عدالت کے نزدیک وقوع میں آنے کی منادی کی ہے- AK 346.5

    سولہویں صدی کی بڑی ریفریمیشن کی طرح، دی ایڈونٹ موومنٹ بیک وقت کئی مسیحی حکومتوں میں شروع ہو گئی- امریکہ اور یورپ میں دعا گو ایماندار مرد پیشینگوئیوں کا مطالعہ کرنے کی طرف مائل ہو گئے اور الہامی ریکارڈ کا کھوج لگانے لگے- اور انہیں ایسے ثبوت مل گئے جنکی روشنی میں وہ قائل ہوۓ کہ ہر ایک چیز کا خاتمہ قریب ہے- مختلف ممالک میں ایسے الگ تھلگ مسیحی پائے گئے جنہوں نے خود کو کلی طور پر پاک نوشتوں کے مطالعے کیلئے وقف کر دیا- اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی قریب آ گئی ہے-AK 346.6

    1821 میں تین سال کے بعد جب ملر عدالت کے وقت کی تشریح پیشینگوئیوں کے تناظر میں پیش کرنے کو تھا تو ڈاکٹر جوزف ولف “The missionary to the world” مسیح یسوع کی جلد آمد ثانی کی منادی کرنے لگا-ولف جرمنی میں پیدا ہوا- جس کے والدین عبرابی نژاد تھے- اس کا باپ یہودی ربی تھا- جب وہ ابھی چھوٹا تھا تو وہ مسیحی مذہب کی صداقت کا قائل ہو گیا-AK 347.1

    سرگرم اور پر تجسس ذہن ودماغ رکھنے کی بنا پر وہ اس گفتگو کو بڑی دلچسپی سے سنتا جو اسکے باپ کے گھر میں جانثار عبرانی ہونے کے ناطے روزانہ اسکے گھر میں جمع ہوتے- اور وہ سب ملکر اپنے لوگوں کی امیدوں کو شمار کرتے اور انکی پیش بینی کرتے- آنے والے مسیحا کی جاہ وحشمت اور اسرائیل کی بحالی پر غوروخوض کرتے- ایک دن اس نے یسوع ناصری کے بارے سنا اور پوچھا کہ وہ کون تھا- اور اسے جواب ملا کہ وہ “ایک یہودی تھا جو بڑی خصوصیات کا مالک تھا”- لیکن جونہی اس نے خود کو مسیحا کے طور پر پیش کیا تو “یہودی ٹربیونل نے اسے موت کی سزا کا حکم سنایا” کیوں؟ انکے جواب پر اس نے سوال کیا- اور کیا یروشلیم برباد ہو گیا ہے اور ہم کیوں غلامی میں ہیں؟ “افسوس، افسوس! اسکے باپ نے جواب دیا- کیونکہ “یہودیوں نے نبیوں کو قتل کیا”- اس پر بچے کو یکدم یہ خیال آیا “شاید مسیح یسوع بھی نبی تھا اور یہودیوں نے اس بے گناہ کو قتل کر دیا”-AK 347.2

    Travels and adventures of the Rev, joseph Wolff,Vol.1 p.6AK 347.3

    اسکی محسوسات اس قدر قوی تھیں کہ باوجودیکہ اسے مسیحی چرچ میں جانا منع تھا وہ اکثر چرچ کے باہر کادی دیر تک کھڑا ہو کر منادی سنتا-AK 347.4

    جب وہ صرف سات برس کا تھا تو وہ ایک بڑی عمر کے مسیحی کے ساتھ تکرار کر رہا تھا اور اسے بتا رہا تھا کہ مسیح کے آنے پر بنی اسرائیل فتحمند ہوں گے- مگر اس بزرگ نے بڑی محبت سے اسے کہا “پیارے بیٹے میں آپکو بتاتا ہوں کہ کون حقیقی مسیحا تھا؟ وہ یسوع ناصری تھا- جسکو آپ کے آباؤ اجداد نے سولی چڑھا دیا، جیسے انہوں نے قدیم زمانہ کے نبیوں کو بھی قتل کیا تھا- آپ گھر جا کر یسعیاہ نبی کے صحیفے میں ترپن (53)باب پڑھئے گا- اور آپ بھی قائل ہو جائیں گے کہ مسیح یسوع خدا کا بیٹا ہے”- AK 347.5

    Ibid vol.p.7AK 347.6

    وہ تو یکدم قائل ہو گیا وہ گھر گیا صحیفے کا مطالعہ کیا اور یہ دیکھکر اسکی حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ کس طرح----یسوع ناصری پر اسکا اطلاق ہوتا ہے- کیا مسیح کی باتیں درست تھیں؟ اس پیشینگوئی کی وضاحت کیلئے لڑکے نے اپنے باپ سے پوچھا- مگر اسے خاموشی کے سوا کچھ جواب نہ ملا- اور خاموشی اسقدر سخت تھی کہ لڑکے نے اس مضمون پر بات کرنے کی کبھی جرات نہ کی- اس سے صرف یہ ہوا کہ اس میں مسیحی مذہب کے بارے جاننے کی مزید خواہش بڑھ گئی-AK 347.7

    جو علم وہ حاصل کرنے کا خواہشمند تھا، یہودی گھر میں وہ اس سے دور رکھا گیا- لیکن جب وہ صرف گیارہ برس کا تھا اس نے اپنے باپ کے گھر کو خیر باد کہا اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے دنیا میں نکل آیا، تاکہ اپنے مذہب اور مستقبل کے پیشے کا چناؤ کر سکے- اس نے کچھ وقت اپنے رشتے داروں کے ہاں گزارہ مگر انہوں نے اسے برگشتہ کہہ کر جلد گھر سے نکال دیا- اب اسے تنہا بے یارومددگار، خالی جیب اجنبیوں کے درمیان رہنا پڑا- وہ جگہ بہ جگہ گیا- بڑی دلجمعی سے مطالعہ کیا اور عبرانی زبان سکھا کر اپنی روزی کا بندوبست کیا- کیتھولک انسٹرکٹر کے زیر اثر اس نے رومی عقیدہ قبول کر لیا اور اسے اپنے لوگوں میں بطور مشنری بھیج دیا گیا- اس مقصد کے تحت وہ چلا گیا اور اسکے چند سال بعد روم میں مزید مطالعہ کے لئے کالج آف پراپیگنڈا (Propaganda) میں داخل ہو گیا- یہاں آزاد خیال اور اعلی تقریر کی وجہ سے اس پر مذہبی عقائد کے خلاف کفر بکنے کی تہمت لگی- اس نے کھلم کھلا کلیسیا کی بری ریت ورسم پر حملہ کیا اور اصلاح کی ضرورت پر زور دیا- گو ابتدا میں پوپ کی اعلی قیادت کی طرف سے خاص ہمدردی دکھائی گئی، مگر کچھ دیر کے بعد اسے روم سے کسی دوسری جگہ بھیج دیا گیا اور کلیسیا کی کڑی نگرانی میں جگہ بہ جگہ گیا- جبتک کہ رومن کلیسیا پر یہ واضح نہ ہو گیا کہ وہ کبھی بھی رومن ازم کی غلامی میں نہیں رہے گا- اور یہ کہہ کر یہ اصلاح پذیر نہیں ہے اسے جہاں وہ جانا چاہتا تھا جانے دیا گیا- اب اس نے انگلینڈ کی راہ لی- اور پروٹسٹنٹ عقیدے کو اپنا لیا، اور انگلش کلیسیا کے ساتھ الحاق کر لیا- دو سال کے مطالعے کے بعد 1821 میں وہ اپنے مشن پر نکل پڑا-AK 348.1

    جب ولف نے مسیح یسوع کی پہلی آمد “مرد غمناک اور رنج کے آشنا” کے طور قبول کر لی، تو اس نے یہ بھی دیکھا کہ پیشینگوئیاں اسکی دوسری آمد کیلئے جب وہ بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آئے گا اتنی ہی صاف اور واضح ہیں- اور جب وہ موعودہ مسیح یسوع ناصری کے بارے لوگوں کو سکھاتا کہ وہ پہلی بار بنی آدم کے گناہوں کی قربانی بن کر آیا، تو وہ اسکی دوسری آمد کے بارے بھی لوگوں کو سکھاتا جب وہ شہنشاہ اور مخلصی دینے والے کے طور پر آئے گا-AK 348.2

    اس نے کہا “یسوع ناصری، حقیقی مسیحا” جس کے ہاتھ اور پاؤں چھیدے گئے- جسے برہ کی طرح ذبح کرنے کو لے گئے- جو مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا وہ جس سے یہوداہ کی حکومت کا عصا موقوف ہو گیا- جس کے قدموں سے واضح قانون کی قوت جاتی رہی- جب وہ پہلی بار آیا- اب وہ دوسری بار آسمان کے بادلوں پر اور مقرب فرشتہ کے نرسنگے کی آواز کے ساتھ آئے گا-AK 348.3

    (Joseph wolff, researches and missioanary labors,page 62)AK 348.4

    “وہ کوہ زیتون پر کھڑا ہو گا- اور وہ حکومت جو تخلیق کے وقت آدم کو دی گئی اور پھر اس سے چھین لی گئی (پیدائش 17:3,26:1) وہ مسیح یسوع کو دی جائیگی- اور وہ تمام کائنات پر حکمرانی کرے گا، ساری مخلوقات کا کراہنا اور نوحہ کرنا بند ہو جائے گا- (رومیوں 22:8) اور حمدوثنا اور شکر گزاری کے گیت سنے جائیں گے- جب مسیح یسوع اپنے باپ کے جلال اور مقدس فرشتوں کے ساتھ آئے گا تو ایماندار مردے پہلے جی اٹھینگے 1 تھسلنیکیوں ,16:4 کرنتھیوں -23:15 ہم مسیحی اسے پہلی قیامت کہتے ہیں پھر حیوانی بادشاہت کی فطرت تبدیل ہو جائے گی (یرمیاہ 9-6:11)- وہ یسوع کے تابع ہو جائیگی- زبور 8 کل کائنات میں امن اور سلامتی ہو گی”-AK 349.1

    Journal of the Rev. joseph wolff, pages 378,379AK 349.2

    خداوند خدا ایک بار پھر اس دھرتی پر نگاہ کرے گا اور کہے گا- “بہت اچھا ہے” Ibid,pages,294AK 349.3

    ولف کا ایمان تھا کہ مسیح یسوع کی آمد نزدیک آ پہنچی ہے- نبوتی اوقات کی اسکی تشریح ملر نے جو وقت بتایا تھا اس سے تھوڑے سے کم سال پہلے تکمیل پائی- جو بائبل مقدس کا یہ حوالہ دیتے “کہ اس دن اور اس گھڑی کی بابتAK 349.4

    کوئی نہیں جانتا” متی -26:24 اس لئے کسی انسان کو مسیح کی آمد ثانی کے بارے جاننے کی کوئی ضرورت نہیں ایسوں سکو ولف نے جواب دیا کہ کیا “ہمارے خداوند نے یہ کہا کہ اس دن اور گھڑی کے بارے کبھی بھی علم نہیں ہونا چاہیے؟ کیا ان وقتوں کے لئے اس نے ہمیں نشانات نہیں بتائے- تاکہ ہم کم از کم اس کی آمد کے بارے جان سکیں؟ جیسے کہ انجیر کے درخت کٹ پتوں کے نکلنے سے موسم گرما کے آنے کا پتہ چل جاتا ہے- متی 32:24AK 349.5

    “کیا ہمیں کبھی بھی اس وقت کو نہیں جاننا ہے- خود خداوند نے نہ صرف دانی ایل نبی کی کتاب پڑھنے کے لئے نصیحت کی ہے بلکہ اسے سمجھنے کے لئے بھی ترغیب دی ہے- اور جہاں یہ لکھا ہے کہ اس کلام کو آخری وقت تک بند کر دے- وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ بہتیرے اسکی تفتیش وتحقیق کریں گے اور دانش افزوں ہو گی- دانی ایل 4:12علاوہ ازیں ہمارے خداوند کا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ آنے والے وقت کا پتہ ہی نہ چلے گا- بلکہ یہ کہ اسکے قطعی وقت یا دن کا کسی کو علم نہیں- مگر اس نے اس وقت کے نشانات بتا کر کافی معلومات فراہم کی ہیں تاکہ ہم اسکی آمد کیلئے تیار ہو سکیں- جیسے نوح نے کشتی تیار کی تھی”-AK 349.6

    Wolff, researches and missionary labours, pages 404,405AK 349.7

    تشریح اور تفسیر کرنے کے ہر دلعزیز انداز کے بارے، یا کلام پاک کی غلط تشریح کرنے کے بارے ولف نے لکھا “مسیحی کلیسیا کا زیادہ تر حصہ کلام پاک کی سادہ سوجھ بوجھ سے منحرف ہو گیا ہے- اور وہ بدھ مت کے ماننے والوں کی طرح نمائشی اور خیالی سوچ کی طرف پلٹ گیا ہے- جنکا ایمان ہے کہ مستقبل کی شادمانی کا انحصار بنی نوع انسان کا ہوا میں تیرنے پر ہے- اور انکا یہ بھی گمان ہے کہ جب وہ یہودی قوم کے بارے پڑھتے ہیں تو اسے غیر قوم سمجھیں- جب وہ یروشلیم پڑھتے ہیں، تو اسے کلیسیا سمجھیں- اور اگر زمین کہا جائے تو اسکا مطلب ہے آسمان، اگر خداوند کی آمد ثانی کا ذکر ہو تو اسے مشنری سوسائٹیز کی ترقی سمجھئے- اور خدا کے گھر کے لئے پہاڑ پر جانے کا مطلب میتھو ڈسٹس کی گرینڈ (Grand) کلاس میٹنگ سمجھئے”-AK 350.1

    Journal of the Rev. Joseph wolff, page. 96AK 350.2

    ولف نے چوبیس سالوں کے درمیان 1821 تا 1845بہت زیادہ سفر کیا- وہ افریقہ، مصر اور ابی سینیا گیا- ایشیا میں فلسطین، شام، فارستان، بخارہ، اور انڈیا کا سفر کیا- وہ یونائیٹڈ سٹیٹس بھی گیا وہاں سفر کے دوران اس نے آئی لینڈ آف سینٹ ہیلینا میں منادی کی- اگست 1837، وہ نیو یارک پہنچا- اس شہر میں منادی کرنے کے بعد اس نے فلڈلفیا اور بالٹی مور میں منادی کی اسکے بعد وہ واشنگٹن روانہ ہو گیا- اسکا کہنا ہے کہ “یہاں سابقہ پریذیڈنٹ جان کونیسی (Quincy) ایڈمز نے کانگرس کے ایک ہاؤس میں موشن (Motion) پیش کیا کہ میں کانگرس ہال کو وعظ کیلئے استعمال کر سکوں اور سارے ہال نے اسکی منظوری دیدی- وہ وعظ میں نے ہفتہ کے روز دیا جس میں کانگرس کے تمام شرکا شامل ہوۓ- بلکہ اسمیں بشپ آف ورجینیا نے بھی شرکت کی- انکے علاوہ واشنگٹن کے شہری اور پادری صاحبان بھی شریک ہوۓ- گورنمنٹ آف نیو سرجری، اور پنسلوینیا (Pennsylvania) نے بھی میری اسی طرح عزت افزائی کی جن کی موجودگی میں میں نے ایشیا میں کی گئی تحقیق پیش کی- اس کے علاوہ میں نے یہاں مسیح یسوع کی بادشاہت کے بارے بھی کلام کیا”- Ibid, pages 396-399AK 350.3

    ڈاکٹر ولف نے کسی یورپین اتھارٹی کی پناہ کے بغیر ہی بہت سے وحشی ملکوں کا بھی سفر کیا- اور اسے بہت سے خطرات لاحق رہے- اسکی پاکوبی کی گئی (پاؤں کے تلوؤں پر بید مار کر سزا دینا) اسے بھوکا رکھا گیا- اسے بطور غلام بیچا گیا- تین بار اسے موت کی سزا سنائی گئی- ڈاکو اس پر ٹوٹ پڑے- اور بعض اوقات پیاس سے قریب المرگ ہو گیا- ایک دفعہ اس کے پاس جو کچھ تھا چھین لیا گیا اور اسے سینکڑوں میل پیدل پہاڑوں میں چلنا پڑا- برف اسکے چہرے پر گرتی تھی اور اس کے ننگے پاؤں یخ بستہ زمین پر پڑنے سے بےحس ہو گئے تھے-AK 351.1

    جب اسے وحشی، غیر مہذب اور ان قبیلوں میں بغیر اسلحہ کے جانے سے منع کیا گیا جنکی آپس میں دشمنی ہے- تو اس نے کہا میرے پاس یہ اسلحہ ہے- AK 351.2

    “دعا اور مسیح یسوع کیلئے ولولہ اور اسکی مدد پر کامل بھروسہ- مجھے خداوند کی محبت حاصل ہے، وہی میرے دل میں میرا پڑوسی ہے- اور میرے ہاتھ میں بائبل”-AK 351.3

    W.H.D.Adams,in perils oft.page.192AK 351.4

    جہاں کہیں وہ جاتا عبرانی میں اور انگلش میں بیبے ساتھ لے جاتا، بعد کے ایک سفر کے بارے اس نے کہا- “میں بائبل کو کھول کر اپنے ہاتھ میں رکھتا تھا- میں محسوس کرتا تھا کہ میری قوت اسی کتاب میں ہے اور اسکی قوت ہی مجھے سنبھالے رکھے گی”- Ibid, page 201AK 351.5

    اسی بردباری کے ساتھ اس نے اپنی خدمت اسوقت تک جاری رکھی جب تک وہ دنی اکے بیشتر حصوں میں نہ پہنچ گیا- یہودیوں، ترکوں، پارسیوں، ہندؤں، اور کئی دوسری قوموں اور نسلوں کے درمیان اس نے خدا کے کلام کو انکی مختلف زبانوں میں پیش کیا اور مسیح یسوع کی بادشاہت نزدیک آ گئی ہے” اس بات کی منادی کیAK 351.6

    بخارہ میں سفر کے دوران اس نے مسیح یسوع کی جلد آمد کی تعلیم ماننے والوں کا پتہ چلایا جو دور افتادہ، الگ تھلگ رہنے والے لوگوں نے برقرار رکھی ہوئی تھی- یمن کے عربوں کے بارے وہ کہتا ہے “ان کے پاس ایک کتاب بنام سیرا (Seera) ہے- جو مسیح یسوع کی آمد اور جلالی حکومت کا ذکر کرتی ہے- اور وہ 1840 میں بڑے واقعات کے رونما ہونے کی توقع کرتے ہیں-AK 351.7

    Journal of the R.v,joseph wolff page 377AK 351.8

    اس نے کہا “یمن میں میں نے ریکاب کے بچوں کے ساتھ چھ دن گزرے- وہ مے نوشی نہیں کرتے- تاکستان نہیں لگاتے، بیج بوتے، اور خیموں میں رہتے ہیں اور نیک یوناداب کو یاد کرتے ہیں جو ریکاب کا بیٹا تھا- ان کے درمیان میں نے اسرائیل کے بچوں کو بھی دیکھا جو دان کے قبیلہ سے تھے- جو ریکاب کے بچوں کے ساتھ مسیح یسوع کی آسمانی بادلوں میں جلد آمد کے منتظر ہیں”- Ibid. page 389AK 351.9

    ایک اور مشنری نے بھی اسی طرح کا عقیدہ تاتاریوں میں پایا- تاتار کے پریسٹ نے مشنری سے پوچھا کہ مسیح یسوع دوسری بار کب آئے گا؟ جب مشنری نے یہ کہا کہ میں اس بارے کچھ نہیں جانتا تو وہ بائبل کے اس ٹیچر کی بے علمی پر بڑا حیران ہوا- اور جو اسکا اپنا اعتقاد تھا اسکے مطابق مشنری کو جواب دیا کہ وہ پیشینگوئی کے مطابق 1844 میں آئے گا- AK 352.1

    1826 کے اوائل میں، انگلینڈ میں ایڈونٹ پیغام کی تشہیر کی جانے لگی- یہاں تحریک اس طرح منظم نہ کی گئی جیسے امریکہ میں، یہاں آمد کے ٹھیک ٹھیک وقت کے بارے عموما نہیں سکھایا جاتا تھا- مگر مسیح یسوع کے قدرت اور جلال کے ساتھ جلد آنے کے بارے بھرپور منادی کی جاتی تھی- اور یہ صرف اختلاف رائے رکھنے والے یا وہ لوگ نہیں تھے جو انگلستان کی کلیسیا کے پیروکار نہ تھے- میورانٹ براک جو ایک انگلش رائٹر تھا اس نے بیان دیا کہ انگلینڈ کلیسیا کے سات سومناد “بادشاہت کی اس خوشخبری” کی منادی کرنے میں مشغول تھے- پیغام میں مسیح یسوع کی آمد ثانی 1844 کی طرف اشارہ کیا تھا، گریٹ بریٹن میں بھی اسکی منادی کی گئی- یونائیٹڈ سٹیٹس سے بڑی تعداد میں ایڈونٹ پبلی کیشنز شائع کی گئیں- کتابیں اور رسالے انگلینڈ میں شائع ہوۓ- 1842 میں رابرٹ ونٹر (Winter) جو انگلش نژاد تھا اس نے امریکہ میں ایڈونٹ فیتھ قبول کیا- اور اپنے آبائی ملک میں مسیح یسوع کی آمد ثانی کی منادی کرنے کیلئے واپس آیا- اس خدمت میں بہت سے لوگ اس کے ساتھ آ ملے اور انگلینڈ کے مختلف حصوں میں عدالت کے پیغام کی منادی کی گئی-AK 352.2

    ساؤتھ امریکہ میں جہالت اور پرستوں کی مکاری کے دوران لکنزا (Lacunza) جو ہسپانوی نژاد اور جیسوٹ تھا (جیسوٹ، Jesumit فرقہ ک ایک رکن)- کتاب مقدس کی تحقیق کی گئی اور اسے مسیح یسوع کی جلد آمد کا پتہ چل گیا- وہ اس بارے دنیا کو وارننگ دینے کیلئے بیتاب تھا مگر وہ روم کی ڈانٹ ڈپٹ سے ڈرتا تھا- اس نے اپنے خیالات ک اعزھار ایک فرضی نام “ربی بن عزرہ” کے تحت کیا- اور اس میں خود کو ایک تبدیل شدہ یہودی ظاہر کیا “لکنزا اٹھارویں صدی میں رہتا تھا- لیکن اسکی کتاب 1825 لندن پہنچ گئی اور اسکا انگریزی زبان میں ترجمہ ہوا- آمد ثانی کے مضمون کے بارے اسکی تحریرات نے اس بیداری میں گہری دلچسپی پیدا کر دی جو پیشتر ہی انگلینڈ میں موجود تھی-AK 352.3

    بنجل (Bengel) جو ایک لوتھرن کلیسیا کا مناد، بائبل سکالر اور نقاد تھا، اسکے ذریعہ جرمنی میں آمد ثانی کی تعلیم دی جا چکی تھی- اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بنجل (Bengel) نے خود کو بائبل کے مطالعہ کیلئے وقف کر دیا جس کے لئے اسکا روحانی (پلان) ابتدائی تربیت اور ڈسپلن کی وجہ سے تیار تھا- دوسرے نوجوانوں کی طرح جو پہلے اور بعد میں بھی غور وفکر کے عادی ہوتے ہیں، اسے بھی مذہبی نوعیت کے شکوک اور مشکلات سے جدوجہد کرنا پڑی- اور اشارے کنائے سے اسے پتہ چل رہا تھا ک یہ اس طرف اتنے خبر چھوڑنے جائیں گے جو اسکے دل کو چھلنی چھلنی کر دیں گے- اور اسے اپنی جوانی گزارنا مشکل ہو جائے گی- ورٹم برگ کونسل کا ممبر بننے پر اس نے مذہبی آزادی کی وکالت کی- “کلیسیا کے حقوق اور مراعات کی وکالت کرنے کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی معقول ضمیر کی آزادی کی بھی وکالت کی جو سمجھتے تھے کہ انہیں کلیسیا سے خارج کر دیا جائے گا- Encyclopedia Britannica ath ed,art. “Bengel” AK 353.1

    اس پالیسی کے اچھے اثرات آج بھی اسکے آبائی صوبے میں محسوس کئے جاتے ہیں-AK 353.2

    یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ مکاشفہ اکیسویں باب سے ایڈونٹ سنڈے کیلئے واعظ تیار کر رہا تھا، کہ مسیح کی آمد ثانی کی روشنی بنجل کے ذہن پر چمکی- مکاشفہ کی پیشینگوئیاں اسکے فہم پر یوں وارد ہوئیں جیسے پہلے کبھی نہ ہوئی تھیں- مناظر اور ان حیرت افزا بے مثال جلال اور اہمیت نے اسے اپنے وے میں لے لیا- جو نبی نے پیش کئے-AK 353.3

    مکاشفہ کی پیشینگوئیاں اسکی سمجھ میں پہلے کبھی بھی اس طرح نہیں آئی تھیں جیسے اب آنے لگیں- وہ مناظر جو نبی نے پیش کئے تھے انکی اہمیت اور عظیم الشان جلال نے حیرت افزا طور پر اسے گھیر لیا اور اسے مجبورا اس مضمون کو تھوڑی دیر کیلئے ترک کرنا پڑا جس پر وہ غور وخوض کر رہا تھا- یہ منظر ایک بار پھر پلپٹ سے اس پر اسی طرح بھرپور قوت کے ساتھ اور واضح طور پر نمودار ہو گیا- اس وقت سے اس نے خود کو پیشینگوئیوں کے مطالعہ کیلئے وقف کر دیا اور خصوصا ان پیشینگوئیوں کیلئے جو الہامی ہیں- اور اسے جلد یقین ہو گیا کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی نزدیک ہے- آمد ثانی کیلئے جو اس نے وقت مقرر کیا بعد میں ملر نے بھی تھوڑے فرق کیساتھ وہی اپنایا-AK 353.4

    بنجل کی تحریرات تمام مسیحی حکومتوں میں پھیلا دی گئی ہیں- پیشینگوئیوں کے جو اسکے نظریات ہیں وہ عام طور سے اسکی اپنی ریاست ورٹم برگ نے قبول کئے ہیں- اور کسی حد تک جرمنی کے دوسرے علاقوں نے بھی انہیں قبول کیا ہے- تھررک اسکی موت کے بعد بھی جاری رہی- اور ایڈونٹ پیغام جرمنی میں بھی سنا جاتا رہا اور دنے کے دوسرے حصوں کو بھی اس پیغام نے اپنی طرف متوجہ کر لیا- ابتدائی ایام میں بعض ایماندار روس گئے اور وہاں بستیاں قائم کر لیں- اور مسیح یسوع کے جلد آنے تعلیم کی ملک میں ابھی تک جرمن کلیسیائیں اپنائے ہوۓ ہیں-AK 353.5

    فرانس اور سوئٹزر لینڈ میں بھی نور چمکا- جنیوا کے مقام پر جہاں فیرل اور کیلون نے ریفریمیشن کی صداقت پھیلائی تھی- وہاں گاسین (Gaussen) نے آمد ثانی کے پیغام کی منادی کی- جب وہ سکول میں ابھی طالبعلم ہی تھا، گاسین کو معقولیت کی روح سے دوچار ہونا پڑا (یہ اصول کہ مذہب کی بنیاد عقل پر ہونی چاہیے) جو اٹھارویں صدی کے آخری اور انیسویں صدی کے شروع میں سارے یورپ میں سرایت کر چکی تھی- اور جب وہ خدمت میں داخل ہوا تو نہ صرف وہ حقیقی ایمان سے بے خبر تھا بلکہ اسے حقیقی تعلیم پر بھی شک تھا- اپنی جوانی میں اسے پیشینگوئیوں کے مطالعہ کرنے کا شوق ہوا- رولن (Rollin) کی قدیم ہسٹری پڑھنے کے بعد اسکی توجہ دانی ایل کے دوسرے باب کی طرف گئی- اور جس طرح پیشینگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی وہ ششدر رہ گیا- یہاں پاک نوشتوں کے الہامی ہونے کی گواہی تھی جو اسکے بعد کی زندگی کیلئے جو مصائب میں گھری تھی لنگر ثابت ہوئی- وہ معقولیت کی تعلیم سے بالکل مطمئن نہ ہوا اور پھر بائبل کا مطالعہ کرنے اور واضح روشنی پانے کے کچھ دیر بعد اس نے مثبت ایمان اپنا لیا-AK 354.1

    جونہی وہ پیشینگوئیوں کی تلاش کرتا گیا تو وہ اس پوائنٹ پر آ گیا جہاں وہ یقین کرنے لگا کہ مسیح کی آمد قریب ہے- اس عظیم صداقت کی سنجیدگی اور اہمیت سے متاثر ہو کر اسکی خواہش ہوئی کہ وہ سچائی لوگوں کے سامنے پیش کرے- مگر ہر دلعزیز ایمان یہ تھا کہ دانی ایل کی پیشینگوئیاں ایک راز ہیں اور انہیں سمجھا نہیں جا سکتا-یہی اسکی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی- پھر اس نے اسی طرح کا ارادہ کر لیا جیسے فیرل نے جنیوا میں بشارتی مہم چلائی- بچوں سے شروع کرنے کا سوچا اور انکے ذریعہ امید کی کہ والدین میں دلچسپی بڑھے گی-AK 354.2

    اس نے بعد میں کہا کہ میں یہ سمجھنا چاہتا تھا- اور جس مقصد کی اس نے ذمہ داری اٹھائی تھی “اس لئے نہیں کہ وہ کم اہمیت کا حامل تھا بلکہ برعکس اس کے یہ کہ وہ بڑی قدرومنزلت کا حامل تھا- اور میں اسے یوں پیش کرنا چاہتا تھا جیسے کوئی اس سے پہلے ہی آشنا ہو- اور اسے میں نے بچوں کے سامنے پیش کیا- میں چاہتا تھا کہ کوئی سمجھے، سنے اگرچہ میں ڈرتا تھا کہ اگر میں پہلے بالغوں سے کلام کروں تو ہو سکتا ہے کہ وہ مجھے سننا پسند نہ کریں- “اسلئے میں نے چوٹوں کے پاس جانے کا فیصلہ کر لیا- میں نے بچوں کی جماعت بطور سامعین کے جمع کر لی- اگر گروپ بڑا ہو جائے اور یہ پتہ چل جائے کہ یہ سنتے ہیں اور بہت خوش ہیں- دلچسپی لیتے ہیں اور مجھے یقین تھا کہ جلد ہی اسکے بعد ایک بڑا گروپ آئے گا اور بڑے لوگ اسکی افادیت سے آگاہ ہوں گے اور بیٹھ کر اسکا مطالعہ کریں گے- ایسا ہونے سے مقصد حاصل ہو جائے گا-AK 354.3

    L. Gaussen,Daniel the prophet, vol 2. Preface.AK 355.1

    کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوئی- جب اس نے بچوں سے خطاب کیا تو بڑے لوگ بھی سننے کیلئے آ گئے- اسکی کلیسیا کی گیلریز سامعین سے بھر گئیں- انکے درمیان بڑے بڑے گورنمنٹ کٹ آفیسرز، عالم فاضل، اجنبی اور غیر ملکی جو جنیوا میں وزٹ کیلئے آئے تھے شامل ہوۓ- یوں یہ پیغام دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی پہنچ گیا-AK 355.2

    اس کامیابی سے حوصلہ پا کر فرنچ بولنے والی کلیسیا میں گاسین نے اپنے اسباق اس امید پر پیش کئے کہ ان سے نبوتی کتب کے مطالعہ میں اضافہ ہو گا- گاسین کا کہنا ہے کہ ” بچوں کیلئے ہدایات شائع کرنے سے، بالغوں کو یہ کہنا تھا جو اکثر غلط تاثیر کے تحت کہہ دیتے ہیں کہ یہ غیر واضح ہے- یہ کیسے غیر واضح ہو سکتیں ہیں جبکہ انھیں اوکے بچے سمجھتے ہیں؟ اس نے کہا میری بڑی خواہش تھی کہ اگر مممکں ہو تو میں اپنے گلے کو پیشینگوئیوں کی معلومات فراہم کروں- اور میرے نزدیک اس وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے اور کوئی مطالعہ بہتر نہیں- یہ اسلئے ہیں کہ ہمیں بہت جلد آنے والی مصیبتوں کے لئے تیار ہونا ہے مسیح یسوع کی طرف تکتے اور اس کے منتظر رہنا ہے-AK 355.3

    گاسین، گو فرنچ زبان بولنے والے منادوں میں بہت ہی پیارا، ہر دلعزیز اور ممتاز شخص تھا اسے کچھ دیر کے بعد منسٹری سے معزول کر دیا گیا- اس کے اصولات کلیسیا کی تعلیم میں سدھار لانے کی بجائے، انکے لئے باعث زحمت ہوۓ- وہ مثبت ایمان سے محروم رہ گئے- اس نے تو نوجوانوں کو ہدایات دینے کیلئے کتاب مقدس کو استعمال کیا تھا- اور وہ تھیالوجیکل سکول میں معلم بن گیا- جبکہ وہ اتوار کے روز بھی بطور معلم خدمت انجام دیتا رہا- بچوں کو کلام مقدس میں سے ہدایات دیتا اور خطاب فرماتا- پیشینگوئی پر اس کے کاموں نے بڑی دلچسپی پیدا کر دی- پروفیسر کی پسند سے، پریس کے ذریعہ اور بچوں کے ٹیچر کی حیثیت سے جو اسکا دلپسند پیشہ تھا اس نے کئی سال کام جاری رکھا اور اسکے اس کام کی تاثیر کے باعث بہت سے لوگ پیشینگوئیوں کے مطالعہ کی طرف راغب ہوۓ اور جو مسیح یسوع کی جلد آمد ثانی کے بارے بیان کرتی تھیں-AK 355.4

    سکنڈے نیویا میں بھی ایڈونٹ پیغام کی تشہیر کی گئی اور بہت بڑے پیمانے پر وہاں لوگوں نے اس میں دلچسپی دکھائی- بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں پتہ چل گیا کہ صرف گناہوں کے اعتراف سے ہی گناہ معاف نہیں ہوتے- چنانچہ انہوں نے گناہوں کو ترک کیا اور مسیح یسوع کے نام سے معافی کی تلاش کی- مگر سٹیٹ کلیسیا کے پریسٹس نے اس تحریک کی مخالفت کی- لہٰذا ان کے اثرورسوخ سے بعض کو جیلوں میں ڈال دیا گیا جو اس پیغام کی تشہیر کرتے تھے- بہت سی جگہوں پر جہاں سے مسیح کی جلد آمد کے منادوں کو خاموش کر دیا گیا- وہاں خداوند نے بڑے معجزانہ طریقہ سے بچوں کے ذریعہ پیغام پہنچایا- کیونکہ وہ کم عمر تھے اور ریاستی قانون کے تحت انہیں حراست میں نہیں لیا جا سکتا تھا اس لئے وہ بغیر کسی سزا کے خوف سے بول سکتے تھے-AK 356.1

    یہ تحریک خصوصا ادنی طبقہ کے درمیان تھی اور مزدوروں کی جھونپڑیوں میں لوگ آگاہی کے پیغام سکو سننے کیلئے جمع ہوتے تھے- مناد بچے بھی زیادہ تر جھونپڑیوں میں قیام کرنے والے تھے- ان میں سے بعض کی عمریں صرف 6 یا 8 برس کے لگ بھگ تھیں- اور انکی زندگیاں یہ گواہی دیتی تھیں کہ وہ نجات دہندہ کو دل سے چاہتے ہیں- اور خدا کے تقاضوں کے مطابق زندگیاں بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں- اور ان کی عمر کے بچوں میں جو عموما قائیلیت ہوتی ہے وہی ذہنی بصیرت ان میں تھی- لیکن جب وہ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے تو اس بات کا ثبوت مل جاتا کہ ان کے پیچھے کوئی ایسی بڑی قوت ہے جو انکے اپنے فطری اوصاف سے بڑھ کر کام کر رہی ہے- انکا لہجہ اور طور اطوار بدل جاتے، وہ بڑی سنجیدہ قوت کے ساتھ عدالت کی آگاہی یعنی اس پاک کلام کی آگاہی دیتے-AK 356.2

    “خدا سے ڈرو اور اسکی تمجید کرو کیونکہ اسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے” مکاشفہ -7:14AK 356.3

    وہ لوگوں کے گناہوں پر تنبیہ کرتے، نہ صرف بد فعلی اور بری عادات بلکہ وہ دنیاوی طرز زندگی کو اپنانے اور برگشتگی پر بھی لعنت ملامت کرتے اور سامعین کو آگاہی دیتے کہ جلدی کرو اور اس کے غضب سے بچ جاؤ-AK 356.4

    لوگوں نے یہ پیغام تھرتھراتے ہوۓ سنا- خداوند کی قائل کرنے والی روح، انکے دل سے ہمکلام ہوئی- بہتیروں نے بڑی گہری اور نئی دلچسپی کے ساتھ پاک نوشتوں کی تفتیش کرنا شروع کر دی- بدپرہیزی اور بد اخلاقی کی اصلاح کی گئی- دوسروں نے بے ایمانیکے اعمال کو ترک کیا- اور کام اتنے اعلی طریقے سے انجام پایا، حتی کہ ریاستی کلیسیا کے مناد ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اس تحریک کے پیچھے خداوند خدا کا ہاتھ تھا-AK 356.5

    یہ خداوند کا منشا تھا کہ نجات دہندہ کے آنے کی خوشخبری سکنڈے نیویا کے ممالک میں پھیلائی جائے اور جب اسکے خادموں کی آوازیں خاموش کر دیں گئیں- تو اس نے اپنا روح بچوں پر نازل کیا تاکہ کام ترقی پائے- جب مسیح یسوع یروشلیم کے نزدیک پہنچا اور بھیڑ خوشی سے ہاتھوں میں کھجور کی ٹہنیاں لئے ہوۓ ابن داؤد کو ہوشعنا- مبارک کہہ رہی تھی تو فریسیوں نے خفا ہو کر یسوع سے کہا کہ انہیں چپ رہنے کو کہہ، مگر مسیح یسوع نے انہیں جواب میں کہا کہ یہ پیشینگوئی کی تکمیل ہے- اور اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلا اٹھیں گے- جب لوگ، سردار کاہنوں اور حاکموں کے خوف سے خاموش ہو گئے، تو ہیکل میں بچوں نے نعرے لگانے شروع کر دیئے- اور کھجور کی ٹہنیاں لہرائیں- اور پکارا- “ابن داؤد کو ہوشعنا”- متی 16-8:21AK 357.1

    اور جب فریسی سخت خفا ہو کر کہنے لگے کہ کیا تو سنتا ہے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں- یسوع نے جواب میں ان سے کہا ہاں کیا تم نے یہ کبھی نہیں پڑھا کہ بچوں اور شیر خواروں کے منہ سے تو نے حمد کو کامل کرایا- جیسے خداوند خدا نے مسیح یسوع کی پہلی آمد کے وقت سے حمد کروائی، اسی طرح اس نے اپنی آمد ثانی کے لئے بچوں کو استعمال کیا- خداوند کے کلام کی تکمیل ہونی چاہیے- تاکہ مسیح یسوع کی آمد کی خوشخبری کے پیغام کو تمام لوگوں، زبانوں اور قوموں تک پہنچایا جائے-AK 357.2

    ولیم ملر اور اسکے ہمخدمت کار گزاروں کو امریکہ میں آگاہی کی منادی کرنے کی خدمت سونپی گئی- یہ ملک بڑی ایڈونٹ تحریک کا مرکز بن گیا- یہیں پر پہلے فرشتے کے پیغام کی براہ راست تکمیل ہوئی- ملر اور اسکے شرکا کی تحریرات دوسرے ملکوں تک پہنچائی گئیں- جہاں کہیں ساری دنیا میں مشنری گئے وہاں مسیح یسوع کی جلد آمد کی خوشخبری کے پیغام کی بھی تشہیر کی گئی- ابدی خوشخبری کا یہ پیغام دور ونزدیک پھیلایا گیا- “خدا سے ڈرو اور اسکی تمجید کرو- کیونکہ اسکی عدالت کا وقت آ پہنچا ہے” مکاشفہ -7:14AK 357.3

    پیشینگوئیوں کی شہادت جو مسیح یسوع کی آمد 1844 بہار کے موسم کی طرف اشارہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی تھیں اسکا لوگوں کے ذہنوں پر گہرا اثر پڑا- جونہی پیغام ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پہنچا تو بہت بڑی دلچسپی بیدار ہوئی- بیشتر لوگوں نے تسلیم کیا ک یہ نبوتی اوقات بالکل درست ہیں اور وہ اپنی رائے سے درستبردار ہو گئے یر بڑی خوشی سے صداقت کو قبول کر لیا- بعض منسٹرز نے اپنے فرقہ پرستی نظریات اور محسوسات کو برطرف کر دیا- تنخواہیں لینا بند کر دیں- کلیسیاؤں کو خیر بعد کہہ دیا اور مسیح کی آمد ثانی کی تشہیر کرنے والوں کے ساتھ آ ملے-AK 357.4

    تو بھی یہ تھوڑے سے مناد تھے جنہوں نے اس پیغام کو قبول کیا تھا- اس لئے یہ کام زیادہ تر “لے مین” (Laymen) کے سپرد کیا گیا- کسانوں نے اپنے کھیت چھوڑ دیئے- کاریگروں نے اپنے اوزار رکھ دیئے- سوداگروں نے سوداگری ترک کر دی- پیشہ ور لوگوں نے اپنے مراتب چھوڑ دیئے- اس کے باوجود اس بہت بڑے کام کے مقابلہ میں کارگزار بہت ہی کم تھے- غیر متقی کلیسیا کی حالت اور بدی میں دھنسی ہوئی دنیا کا بوجھ سچے چوپان کی روح پر بڑا بوجھ تھا- اور وہ بہ رضا رغبت مشقت کرتے، تنگدستی برداشت کرتے اور اس لئے مصیبتیں جھیلتے تاکہ وہ لوگوں کو توبہ اور نجات کی طرف مائل کر سکیں- ابلیس کی مخالفت کے باوجود کام بڑی مستعدی سے آگے بڑھتا چلا گیا- اور ہزاروں ہزار نے ایڈونٹ صداقت کو قبول کر لیا-AK 358.1

    ہر جگہ تحقیقی گواہیاں سنی جا رہی تھیں گنہگاروں کو خواہ وہ کلیسیائی ممبر ہوں یا دیگر سب کو وارننگ دی جا رہی تھی کہ آنے والے غضب سے بھاگو- یوحنا بپتسمہ دینے والے کی طرح جو مسیح کی راہ تیار کرنے کے لئے بھیجا گیا تھا، منادوں نے درخت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھ دیا اور سبکو ترغیب دی کہ توبہ کے مطابق پھل لاؤ- انکی سرگرم اپیل اس یقین دہانی اور سلامتی کے بالکل برعکس تھی جو پلپٹ سے سنائی دیتی تھی- اور جہاں کہیں یہ پیغام دیا گیا وہاں لوگ متاثر ہوۓ بغیر نہ رہ سکے- کلام مقدس کی سادہ اور براہ راست گواہی روح القدس کی قوت سے لوگوں پر آ ٹھہری اور ان پر اس قدر قائیلیت کا بوجھ ڈالا کہ تھوڑے ہی لوگ تھے جنہوں نے اسکی مزاحمت کی- مذہبی پروفیسر اپنی جھوٹی سیکیورٹی سے بیدار ہوۓ- انہوں نے اپنی برگشتگی، مادہ پرستی، کم اعتقادی، خود سری، اور اپنی خود غرضی کو دیکھا- بیشتر نے فروتنی اور توبہ کر کے خداوند کو قبول کیا- وہ رجحان اور میلان جو مادہ پرستی کی طرف تھا اب آسمان کی طرف موڑ دیا گیا- خداوند کا روح ان پر آ ٹھہرا- وہ نر دلی اور تابعداری کیساتھ اس پکار میں شامل ہو گئے- “خداوند سے ڈرو اور اسکی تمجید کرو کیونکہ اس عدالت کا وقت آ پہنچا ہے”-AK 358.2

    گنہگاروں نے گویا روتے ہوۓ پوچھا “میں کیا کروں کہ نجات پاؤں” اعمال 30:16 وہ جنکی زندگیاں گناہ میں غلطاں تھیں انہوں نے زندگیوں کی بحالی اور تلافی کی تمنا کی- وہ سب جنہوں نے مسیح یسوع میں امن اور سلامتی پائی انہوں نے چاہا کہ یہ برکات دوسروں ک اے ساتھ بانٹیں- ماں باپ کے دل بچوں کی طرف اور بچوں کے ماں باپ کی طرف لوٹے- تکبر اور دوری کی بازو توڑ دی گئی- دل کی گہرائیوں سے اعتراف کئے گئے- اور خاندان کے افراد نے اپنے دوسرے عزیز واقارب کی نجات کیلئے کام کیا- اکثر شفاعتی دعا کی مخلص آواز سنائی دی گئی- ہر جگہ روحیں بڑی گریہ زاری سے خداوند سے التجا کر رہی تھیں- اور بعض یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے لئے ساری ساری رات دعا میں گزار دیتے کہ آیا انکے اپنے گناہ معاف ہوۓ یا نہیں، اور کیا انکے پڑوسیوں اور رشتہ داروں نے بدی کو ترک کر کے خدا کو اپنا لیا ہے یا نہیں؟AK 359.1

    تمام طبقے کے لوگ ایڈونٹسٹ عبادت میں شمولیت کرنے لگے- امیر غریب، اعلی وادنی سبھی کئی مختلف وجوہ کی بنا پر بڑے اشتیاق سے عبادت میں آتے تاکہ خود سنیں کہ آمد ثانی کی تعلیم کیا ہے- اور خداوند خدا نے مخالفت کی روح کو دور رکھا جب اسکے خادم یہ بیان کرتے کہ انکے ایمان کی وجوہات کیا ہیں- بعض اوقات بیان کرنے والا کمزور ہوتا مگر خداوند کا روح اپنی صداقت کو قوت مہیا کرتا- ان اجلاسوں میں خداوند کے پاک فرشتگان کی حضوری محسوس کی گئی- اور روزانہ ایمانداروں میں مزید لوگ شامل ہوتے گئے- جب مسیھیسو کی آمد ثانی کے جلد آنے کے ثبوت دہرائے جاتے تو بھیڑ بڑی خاموشی اور دھیان سے خداوند کے سنجیدہ کلام کو سنتی- ایسے دکھائی دیتا جیسے آسمان اور زمین ایک دوسرے کے گلے مل رہے ہوں- ہر نوجوان اور عمر رسیدہ نے خداوند کی قوت کو محسوس کیا- لوگ اپنے گھروں کو خدا کی حمدوثنا کرتے ہوۓ جاتے اور خوشی کے گیتوں سے رات کا سکوت ٹوٹ جاتا- وہ سب جنہوں نے ان عبادات میں شرکت کی وہ ان انتہائی دلچسپ مناظر کو کبھی نہیں بھول سکتے-AK 359.2

    مسیح یسوع کی آمد قطعی (Definite) وقت کے اعلان کی مخالفت میں بہت سے لوگ تمام طبقات میں سامنے آئے- پلپٹ سے خادموں کی مخالفت سے لیکر ناعاقبت اندیش اور زمانے کے راندہ ہوۓ گنہگاروں تک سب نے مخالفت کی، اور یوں پیشینگوئی کا یہ کلام پورا ہوا- “اخیر دنوں میں ایسے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئیں گے جو اپنی خواہشوں کے موافق چلیں گے اور کہیں گے کہ اسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپ دادا سوئے ہیں اس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا” 2 پطرس 4-3:3بہتیرے جو مسیح یسوع کا دل سے اقرار کرتے تھے انہوں نے کہا کہ مسیح کی آمد ثانی کے بارے ہمارا کوئی سوال نہیں ہے-ن مگر اس کے ٹھیک ٹھیک وقت کے تعین کے بارے ہم سوال کرتے ہیں-مگر خداوند کی آنکھ جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں وہ انکے دلوں کو پڑھ رہی تھی- وہ مسیح یسوع کی آمد کے بارے سننا نہیں چاہتے تھے کہ وہ آ کر راستبازی سے دنیا کی عدالت کرے گا- وہ وفادار خادم نہیں تھے- انکے کام خداوند کی عدالت کا سامنا نہیں کر سکتے، اسلئے وہ اپنے آقا کی ملاقات سے گھبراتے ہیں- جیسے کہ یہودی مسیح یسوع کی پہلی آمد کے وقت مسیح یسوع کو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار نہ تھے- وہ نہ صرف بائبل مقدس کی سادہ باتوں کو سننے کے لئے تیار تھے بلکہ انکا بھی مذاق اڑایا جو خداوند کی راہ دیکھ رہے تھے- ابلیس اور اسکے فرشتے باغ باغ ہو گئے- اور انہوں نے مسیح یسوع اور اسکے مقدس فرشتوں پر طنز کر کے کہا کہ آپ کے نام لیوا لوگ آپ سے اس قدر کم محبت کرتے ہیں کہ وہ آپ کی آمد کی تمنا ہی نہیں کرتے-AK 359.3

    ایڈونٹ فیتھ کو رد کرنے والے اکثر یہ بحث سامنے لاتے ہیں “لیکن اس دن اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا” متی -36:24AK 360.1

    مگر پورا حوالہ یوں ہے “لیکن اس دن اور اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا- نہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر صرف باپ” متی -36:24AK 360.2

    جو خداوند کی راہ تکتے ہیں انکی طرف سے مخالفین کو بڑی واضح اور کلام مقدس سے مطابقت رکھنے والا بیان پیش کیا گیا، اور انکی غلط فہمی دور کی گئی- یہ کلام مسیح یسوع نے کوہ زیتون پر اپنے شاگردوں سے کیا جب وہ آخری بار ہیکل میں سے باہر نکلا- شاگردوں نے مسیح یسوع سے یہ سوال پوچھا تھا “تیرے آنے اور دنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا” متی 3:24مسیح یسوع نے انہیں نشانات بتائے اور کہا “جب تم ان سب باتوں کو دیکھو تو جان لو کہ وہ نزدیک ہے، بلکہ دروازہ پر ہے” متی 33:24مسیح یسوع نے جو کچھ کہا اس میں مطابقت پائی جاتی ہے- یہ نہیں کہ ایک بات کی، اور پھر اسکے برعکس دوسری بات کہہ دی- بیشک کوئی شخص بھی اس کے آنے کے دن کے بارے کچھ نہیں جانتا- مگر ہمیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہم اس کے بارے جاننے کی کوشش کریں- اور ہمیں مزید بتایا گیا ہے کہ اسکی آگاہی کو رد کرنے اور اس آمد کے بارے جاننے کے بارے غفلت برتنے سے یہ اسی طرح ہمارے لئے ہولناک ہو سکتی ہے جیسے نوح کے زمانے کے لوگوں کیلئے ہوئی تھی- کیونکہ وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ طوفان کب آئے گا اور اسی باب میں وفادار اور بیوفا خادم کی تمثیل میں دونوں کا موازنہ کیا گیا ہے- اور اسے سزا کا حکم ملا جس نے اپنے دل میں کہا “میرے مالک کے آنے میں دیر ہے” اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مسیح یسوع انکو ہی اجر دے گا جو اسکی راہ تکتے اور اسکی آمد کی تعلیم دیتے ہیں- اسلئے اس نے فرمایا جاگتے رہو، جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہو ابن آدم آ جائیگا-AK 360.3

    “اس لئے تم بھی تیار رہو کیونکہ جس گھڑی تمکو گمان بھی نہ ہو گا ابن آدم آ جائے گا” متی -44:24 “مبارک ہے وہ نوکر جیسا اسکا مالک آ کر ایسا ہی کرتے پائے” متی -46:24 “پس یاد کر کہ تو نے کس طرح کی تعلیم پائی اور سنی تھی اور اس پر قائم رہ اور توبہ کر اور اگر تو جاگتا نہ رہے گا تو میں چور کی طرح آ جاؤں گا اور تجھے ہرگز معلوم نہ ہو گا” مکاشفہ -3:3AK 361.1

    پولس رسول اس کلاس کے بارے کلام کرتا ہے جس پر خداوند کا دن بےخبری میں آ پڑے گا- “خداوند کا دن اس طرح آنے والا ہے جس طرح رات کو چور آتا ہے- “جس وقت لوگ کہتے ہوں گے سلامتی اور امن ہے اس وقت ان پر ناگہاں ہلاکت آئے گی اور وہ ہرگز نہ بچیں گے” اور وہ مزید ان کے لئے کہتا ہے جو اسکی راہ تکتے ہیں- “تم اے بھائیو! تاریکی میں نہیں ہو کہ وہ دن چھوڑ کی طرح تم پر آ پڑے- کیونکہ تم سب نور کے فرزند ہو اور دن کے فرزند ہو- ہم نہ رات کے ہیں نہ تاریکی کے” 1 تھسلنیکیوں -5-2:5AK 361.2

    یوں یہ دکھایا گیا کہ پاک نوشتے یہ نہیں کہتے کہ بنی نوع انسان مسیح یسوع کی آمد ثانی کے بارے بےخبر رہیں- مگر وہ دانستہ طور پر سچائی کو رد کرنا چاہتے ہیں اہ ان تشریحات اور کلام کو سننے کے لئے اپنے کان بند کر لیتے ہیں- اور اکسی بازگشت مسلسل ٹھٹھے بازوں سے سنی جا رہی ہے کہ “اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتا” یہاں تک کہ مسیح کے بعض خادم بھی ایسا ہی کہتے ہیں- جونہی لوگ بیدار ہوۓ اور نجات کی راہ کے بارے پوچھنے لگے تو مذہبی اساتذہ، صداقت اور انکے درمیان حائل ہو گئے- اور خدا کے کلام کی غلط تفسیر کر کے انکے خوف کو دور کرنے کی راہیں تلاش کیں- بددیانت چوپان شیطان کے کام میں شریک ہو گئے اور سلامتی سلامتی پکارنے لگے جبکہ خداوند نے انہیں سلامتی کا پیغام نہیں دیا تھا- مسیح یسوع کے زمانے کے فریسیوں کی طرح بہتیرے تھے جو خدا کی بادشاہت میں خود داخل ہونے سے انکار کر رہے تھے اور جو داخل ہونا چاہتے تھے انکی راہ میں رکاوٹ بنے ہوۓ تھے- ان روحوں کا خون انکی گردن پر ہو گا-AK 361.3

    کلیسیا میں جو زیادہ وفادار اور حلیم افراد تھے عموما انہوں نے ہی پیغام کو پہلے قبول کیا- وہ جنہوں نے کلام مقدس کا مطالعہ خود کیا تو انہوں نے معلوم کر لیا کہ پیشینگوئیوں کے بارے جو عوامی نظریۂ ہے وہ ڈیایسٹی نہیں، اور جہاں کہیں بھی منسٹر لوگوں پر اثر انداز نہ ہوۓ، اور جہاں کہیں لوگوں نے خود اپنے لئے خدا کے کلام کی تحقیق کی وہاں الہی نوشتوں کو ہی بااختیار اور مستند سمجھا گیا-AK 361.4

    بہتیروںکو بےایمانوں نے مارا کوٹا، بعض نے کلیسیا میں اپنی پوزیشن کو بحال رکھنے کیلئے خاموشی اختیار کرنے میں مصلحت سمجھی- جبکہ دوسروں نے یہ محسوس کیا کہ خدا کے ساتھ ہماری وفاداری اسی میں ہے کہ جو سچائیاں اس نے ہمیں سونپی ہیں ہم انہیں نہ چھپائیں- بہتیروں کو صرف اس وجہ سے کلیسیا نے خارج کر دیا کیونکہ وہ مسیح کی جلد آمد ثانی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے- جن پر یہ آزمائشیں آئیں انکے نزدیک نبی کا یہ کلام ازحد بیش قیمت تھا- “تمھارے بھائی جو تم سے کینہ رکھتے ہیں اور میرے نام کی خاطر تمہیں خارج کر دیتے ہیں خداوند کی تمجید کرو تاکہ ہم تمہاری خوشی کو دیکھیں لیکن وہی شرمندہ ہوں گے” یسعیاہ -5:66AK 362.1

    خدا کے فرشتگان آگاہی کے نتائج کو بڑے غور وفکر کیساتھ دیکھ رہے تھے- جب کلیسیاؤں کی طرف سے پیغام کو عمومی طور پر رد کر دیا گیا تو فرشتے افسردہ ہو کر پلٹ گئے- تاہم ابھی بہتیرے باقی تھے جن کی ایڈونٹ صداقت کے مطابق جانچ نہیں ہوئی تھی- بہتیرے تھے جنکو خاوندوں، بیویوں، والدین یا بچوں نے گمراہ کیا- اور انہیں یقین دلایا کہ جو کچھ ایڈونٹسٹس تعلیم دے رہے ہیں یہ بدعت ہے اور اسے سننا بھی گناہ ہے- فرشتوں کو حکم ملا کہ ایسی روحوں پر وفاداری کے ساتھ نگاہ رکھیں- کیونکہ خداوند کے تخت سے صادر ہو کر ان پر دوسری روشنی چمکنے جو ہے-AK 362.2

    وہ جنہوں نے پیغام کو قبول کیا وہ ایسی تڑپ کیساتھ نجات دہندہ کی آمد کے منذر ہووہ جو بیان سے باہر ہے- وہ وقت جب وہ اپنے نجات دہندہ کو ملنے کی توقع کرتے تھے نزدیک آ گیا ہے- وہ انتہائی سنجیدگی کیساتھ اس وقت کو پہنچے ہیں- وہ خدا کی خوشگوار رفاقت میں رہے ہیں- اور انکے لئے اس زندگی کے بعد سلامتی ہو گی-ان میں سے کوئی بھی جسنے اس امید اور بھروسے کا تجربہ کیا ہے وہیں گھڑیوں کو بھول نہیں سکتا جن میں اس نے اپنے نجات دہندہ کا انتظار کیا- متوقع وقت سے کچھ در پہلے دنیوی کاروبار بند کر دیئے گئے- مخلص ایمانداروں نے بڑی احتیاط سے اپنے دلوں کے خیالات اور جذبات کی جانچ پڑتال کی جیسے کہ وہ اپنے بستر مرگ پر ہوں اور چند گھنٹوں کے بعد ان کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہونے کو ہوں- AK 362.3

    وہاں کوئی “Ascension Robe” نہیں بنائے جا رہے تھے (یہ قیاس کہ آسمان پر جانے کیلئے راستبازوں کا سفید لباد ہونا لازم ہے)- اور بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے ایسے چوغے بنوائے- مگر یہ لوگ تھے جنہیں کلام مقدس سے واقفیت نہ تھی (کیونکہ آسمان پر جانے کیلئے صرف مسیح یسوع کی راستبازی پہننا کافی اور ضروری ہے) بلکہ سب نے یہ محسوس کیا کہ نجات دہندہ کو ملنے کیلئے اسکا ثبوت ہمارے باطن سے آنا ضروری ہے- انکے سفید چوغے روح کی پاکیزگی، گناہ سے پاک چال چلن جسکا کفارہ مسیح کے خون سے دیا گیا ہو-خدا کے مخلص اور دیانتداروں میں ایسے تھے جو ابھی بھی اپنے دلوں کو جانچ پڑتال کر رہے تھے اور اسی روح کے تحت وہ مصمم اردہ سے اپنے ایمان کو تھامے ہوۓ تھے- اگر وہ اسی جذبے کے تحت خود کو مسلسل فروتن رکھیں رحم کی کرسی سے التماس کرتے رہیں تو انہیں آخر میں اس سے زیادہ بیش قیمت تجربہ حاصل ہو گا جو انہیں اب ہوا ہے-اس بھرپور فضل سے بہت سی روحیں محروم ہیں جو ہمارے ننجات دہندہ خداوند مسیح نے مہیا کر رکھا ہے- اور اسکی وجہ ببھٹ ہی کم دعا، گناہ کی طرف بہت ہی کم قائیلیت اور زندہ ایمان کی کمی ہے”-AK 363.1

    خدا نے اپنے لوگوں کا امتحان لینے کیلئے ایک تجویز بنا رکھی ہے-نبوتی اوقات کو شمار کرنے کی غلطی کو خداوند کا ہاتھ چھپا لیتا ہے- ایڈوینٹسٹس نے اس غلطی کو دریافت نہ کیا- اور نہ ہی اسکے بہت پڑھے لکھے مخالفین نے اسے دریافت کیا- ڈاکٹر بش نے کہا “آپ کی نبوتی اوقات کی گنتی بالکل درست ہے کچھ بڑے بڑے واقعات وقوع پذیر ہوں گے- مگر یہ وہ نہیں ہیں جنکی پیشینگوئی مسٹر ملر نے کی ہے- یہ دنیا کی تبدیلی (Conversion) کی ہے، نہ کہ مسیح کی آمد ثانی کی-AK 363.2

    جو متوقع وقت تھا وہ گزر گیا-اور مسیح یسوع اپنے لوگوں کو مخلصی دینے کیلئے ظاہر نہ ہوا- وہ سب جنہوں نے بڑی جانثاری اور ایمانداری سے اپنے نجات دہندہ کی راہ دیکھی تھی انہیں سخت مایوسی ہوئی-تاہم خداوند کے مقاصد پورے ہو گئے- وہ ان دلوں کی جانچ کر رہا تھا جو اسکی آمد کا اقرار کر رہے تھے- ان میں سے بہتیرے ایسے تھے جو مسیح کی جلد آمد کا انتظار صرف خوف کے تحت ہی کر رہے تھے- انکے ایمان کے اقرار نے نہ انکے دلوں پر اثر کیا نہ زندگیوں پر-جب متوقع واقعہ (Event) معرض وجود میں نہ آیا تو ان لوگوں نے اعلانیہ کہا کہ انہیں کوئی مایوسی نہیں ہوئی- انہوں نے یہ کبھی منا ہی نہیں تھا کہ میش یسوع آئے گا- وہ پہلے لوگ تھا جنہوں نے حقیقی ایمانداروں کے سوگ کا تمسخر اڑایا-AK 363.3

    مگر مسیح یسوع اور تمام آسمانی افواج نے ان پر بڑی محبت اور ہمدردی سے نگاہ کی جو آزمائے گئے اور وفادار ہے- گو وہ مایوس تھے لکین اگر دیدنی اور نادیدنی دنیا کے درمیان جو پردہ ہے اسے ہٹا دیا جائے تو فرشتے ان ثابت قدم روحوں کے نزدیک آتے دکھائی دیں گے جو ابلیس کی تضحیک سے انہیں پناہ دیں گے- AK 364.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents