Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    بائیسواں باب - پیشینگوئیاں پوری ہو گئیں

    جب 1844 بہار کا موسم گزر گیا، جس م این مسیح یسوع کی آمد ثانی متوقع تھی- تو وہ جو ایمان سے مسیح کے ظہور کی طرف دیکھ رہے تھے وہ کچھ وقت کے لئے شک وشبہات اور غیر یقینی کا شکار ہو گئے- جب کہ دنیا نے سمجھ لیا کہ یہ پوری طرح مات کھا آگے ہیں- اور یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انکا خیال مغالطہ پر مبنی تھا جبکہ انکی تسلی وتشفی کا ذریعہ ابھی بھی پاک کلام تھا- بہتوں نے کلام مقدس کا مطالعہ پھر بھی جاری رکھا اور اپنے ایمان کے ثبوت کا ازسرنو جائزہ لیا اور احتیاط کے ساتھ پیشینگوئیوں کا مطالعہ کیا تاکہ مزید روشنی حاصل کریں- انکی پوزیشن کی حمایت میں بائبل کی شہادت بڑی واضح اور قطعی تھی- مسیح یسوع کی جلد آمد کے نشانات ایسے واضح تھے جن میں غلطی کے احتمال کی گنجائش نہ تھی- گنہگاروں کی تبدیلی اور مسیحیوں کی روحانی زندگی میں بیداری خدا کی طرف سے خاص برکت تھی جو یہ ثبوت فراہم کرتی تھی کہ یہ پیغام آسمان کی طرف سے آیا ہے- گو ایماندار اپنی شدید مایوسی کا اظہار کرنے سے قاصر تھے، مگر انہوں نے اپنے ماضی کے تجربات میں اسکی رہنمائی کو یقینی طور پر محسوس کیا تھا-AK 381.1

    پیشینگوئیوں کے ساتھ وابستہ بعض امور کا اطلاق آمد ثانی پر کر لیا گیا جو محض ہدایت کے طور پر تھے اور انہیں دلاسہ دینے کیلئے تھے کہ صبر سے انتظار کریں ہے اور جو چیزیں اس وت تک تاریک دکھائی دیتی تھی وقت مقررہ پر بالکل واضح ہو جائیں گی-AK 381.2

    ان پیشینگوئیوں میں حبقوق 4-1:1 بھی تھا “میں اپنی دیدگاہ پر کھڑا رہوں گا اور برج پر چڑھ کر انتظار کروں گا کہ وہ مجھ سے کیا کہتا ہے اور میں اپنی فریاد کی بابت کیا جواب دوں، تب خداوند نے مجھے جواب دیا اور فرمایا کہ رویا کو تختیوں پر ایسی صفائی سے لکھ کہ لوگ دوڑتے ہوۓ بھی پڑھ سکیں- کیونکہ یہ رویا ایک مقررہ وقت کے لئے ہیں- یہ جلد وقوع میں آئے گی اور خطانہ کرے گی- اگرچہ اسمیں دیر ہو تو بھی اسکا منتظر رہ کیونکہ یہ یقینا وقوع میں آئے گی- تاخیر نہ کرے گی- دیکھ متکبر آدمی کا دل راست نہیں ہے لیکن صادق اپنے ایمان سے زندہ رہے گا”-AK 381.3

    1842 کی ابتدا میں اس پیشینگوئی میں ہدایت کی گئی کہ “رویا کو تختیوں پر ایسی صفائی سے لکھ کہ لوگ دوڑتے ہوۓ بھی پڑھ سکیں”-AK 382.1

    چارلس فچ (Fitch) کو مشورہ دیا گیا کہ وہ دانی ایل اور مکاشفہ کی رویا کے نبوتی چارٹ کو تیار کرے- اس چارٹ کی پبلیکیشن کو حبقوق کے حکم کی تکمیل سمجھا جاتا ہے- اس وقت تو کسی نے یہ نوٹ نہیں کیا تھا کہ یہ “دیری کا وقت” اسی پیشینگوئی میں پایا جاتا ہے- اس ناامیدی کے بعد یہ حوالہ بڑا واضح طور پر سامنے آیا“یہ رویا ایک مقررہ وقت کیلئے ہے- یہ جلد وقوع میں آئے گی اور خطاء نہ کرے گی اگرچہ اسمیں دیر ہو تو بھی اسکا منتظر رہ- کیونکہ یہ یقینا وقوع میں آئے گی- تاخیر نہ کرے گی صادق اپنے ایمان سے زندہ رہے گا”AK 382.2

    حزقی ایل کی پیشینگوئی کا کچھ حصہ ایمانداروں کے لئے حوصلہ بخش اور باعث تسلی تھا-AK 382.3

    “پھر خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا- کہ اے آدمزاد ملک اسرائیل میں یہ کیا مثل جاری ہے کہ وقت گزرتا جاتا ہے اور کسی رویا کا کچھ انجام نہیں ہوتا؟ اس لئے ان سے کہہ دے کہ خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ میں اس مثل کو موقوف کروں گا وقت آ گیا ہے اور ہر رویا کا انجام قریب ہے کیونکہ آگے کو بنی اسرائیل کے درمیان رویای باطل اور خوشامد کی غیب دانی نہ ہو گی- میں خداوند ہوں- میں کلام کروں گا اور میرا کلام ضرور پورا ہو گا- اے آدم زاد دیکھ بنی اسرائیل کہتے ہیں کہ جو رویا اس نے دیکھی ہے بہت مدت میں ظاہر ہو گی اور وہ ان ایام کی خبر دیتا ہے جو بہت دور ہیں- ان سے کہہ کہ جو بات میں کہوں گا پوری ہو جائے گی” حزقی ایل -28-27:12,25-21:12AK 382.4

    انتظار کرنے والے خوشیاں مناتے تھے اور مانتے تھے کہ وہ جو ابتدا سے انتہا تک جانتا ہے اس نے پہلے ہی سے ہماری مایوسی پر نگاہ رکھی حتی اور انہیں ہمت اور امید کا کلام عطا کر رکھا تھا اور یہ کہ خدا کے کلام میں بھرپور اعتماد رکھو، تو انکا ایمان آزمائش کے وقت بری طرح ناکام ہو جاتا- دس کنواریوں کی تمثیل جو متی رسول کی انجیل کے پچیسویں باب میں پائی جاتی ہے وہ بھی ایڈوینٹسٹ لوگوں کے تجربہ کی مثال ہے-AK 382.5

    متی کے چوبیسویں باب میں مسیح کی آمد کے نشانات ور دنیا کے خاتمے کے بارے شاگردوں کے سوال کا جواب دیتے ہوۓ مسیح یسوع نے اپنی پہلی آمد اور آمد ثانی کے ان اہم ترین نشانات اور واقعات کی طرف اشارہ کیا جو دنیا کی اور کلیسیا کی تاریخ میں رونما ہوں گے- مثلا یروشلیم کی تباہی، بت پرستوں اور رومی مذہبی حکومت کی کلیسیا کو ایذا پہنچانا- چاند اور سورج کا تاریک ہونا، ستاروں کا گرنا، اسکے بعد اس نے اپنی بادشاہت میں آنے کا ذکر کیا- اس کے متعلق دو قسم کے نوکروں (دو فرقوں) کا ذکر کیا جو اسکی آمد کا انتظار کر رہے تھے- پچیسواں باب ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے-AK 382.6

    “اس وقت آسمان کی بادشاہی ان دس کنواریوں کی مانند ہو گی”-AK 383.1

    یہاں چرچ کی اس حالت کو سامنے لایا گیا ہے جو اسکی آخری دنوں میں ہو گی- اسی طرح جس کا اشارہ چوبیسویں باب کے خاتمہ پر ہے- اس تمثیل میں مشرقی دنیا کی شادی کی مثال کا تجربہ پیش کیا گیا ہے-AK 383.2

    “اس وقت آسمان کی بادشاہی ان دس کنواریوں کی مانند ہو گی جنہوں نے اپنی مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا- مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کپیوں میں تیل بھی لے لیا اور جب دلہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں- آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دلہا آ گیا! اس کے استقبال کو نکلو”-AK 383.3

    مسیح یسوع کی آمد کے بارے میں پہلے فرشتے نے جو پیغام دیا وہ دلہا کی نمائندگی کرتا تھا- مشاہ یسوع کی آمد ثانی کی پکار جو ریفریمیشن کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلائی گئی وہ کنواریوں کی مثال ہے جو سامنے آئین- متی پچیس باب کی تفصیل میں دو گروہوں کی نمائندگی دکھائی گئی ہے- سب نے اپنی مشعلیں لیں- یعنی بائبل مقدس اور اسکی روشنی لے کر دلہا کو م لنے کیلئے گئیں، مگر جو بیوقوف تھیں انہوں نے اپنی مشعلیں تو لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا- مگر عقلمندوں نے اپنی مشعلوں کے ساتھ اپنی کپیوں میں تیل بھی لے لیا- موخرالذکر گروہ نے خداوند کا فضل بھی لے لیا- دوبارہ پیدائش اور روشن خیالی کی قوت روح القدس سے حاصل کر لی تھی- اور اسکا کلام جو “قدموں کے لئے چراغ اور راہ کیلئے روشنی ہے لے لیا” زبور -105:119خداوند کے خوف تلے انہوں نے سچائی جاننے کے لئے اسکے کلام کا مطالعہ کیا اور بڑی ایمانداری سے دل اور زندگی کی پاکیزگی کی تمنا کی- خدا اور اسکے کلام میں ایمان انکا شخصی تجربہ تھا- جو مایوسی یا دیری سے چھوڑا نہیں جا سکتا دوسرے گروہ نے اپنی مشعلیں لے لیں- مگر اپنے ساتھ تیل نہ لیا- وہ گروپ صرف جذبات کے تحت متحرک تھا- و ہولناک پیغام کے سبب خوف سے یہ سب، کچھ کر رہا تھا- اور انکا انحصار اپنے بھائیوں کے ایمان پر تھا- وہ جذبات کی جھلملاتی روشنی سے ہی مطمئن تھے- وہ گروپ سچائی کے بارے زیادہ واقفیت نہ رکھتا تھا اور نہ ہی دل میں حقیقی فضل کے عمل سے واقف تھا- یہ گروپ پرامید ہو کر فورا اجر حاصل کرنے کیلئے آگے بڑھا مگر یہ مایوسی اور دیری کے لئے تیار نہ تھا- جب آزمائشیں آئیں انکا ایمان ناکام ہو گیا اور انکی روشنیاں مدھم ہو گئیں-AK 383.4

    “اور جب دلہا نے دیر لگی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں “دلہا کی دیر، وقت کے گزرنے کی علامت ہے جس میں مسیح یسوع کے آنے کی توقع تھی، مگر مایوسی ہوئی اور دکھائی دے رہا تھا کہ اس کے آنے میں بہت دیر ہے- اس غیر یقینی وقت میں وہ جن کی دلچسپی محض سطحی تھی اور بےدلے تھے جلد ڈگمگانے اور آرام کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گئے- مگر وہ جن کا شخصی طور پر کتاب مقدس کی معرفت کا علم تھا وہ مستحکم چٹان پر کھڑے تھے جسے مایوسی کی لہر بہا کر نہ لے جا سکی- “سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں” ان میں سے ایک گروپ بے فکر ہو گیا اور ایمان کو ترک کر دیا- جبکہ دوسرے گروپ نے اس وقت تک بڑے صبر سے انتظار کیا جب تک انہیں صاف صاف روشنی نہ مل گئی- مگر آزمائش کی رات موخر الذکر کسی حد تک مات کھاتی نظر آئین- انکا جوش وخروش اور دینداری خطرے میں پڑ گئی- بےدلے اور سطحی ایمان رکھنے والے اپنے بھائیوں کے ایمان کا سہارا نہ لے سکے- یہ شخصی معاملہ ہے- ہر ایک کو خود ہی گرنا یا قائم رہنا ہو گا- دوسروں کے ایمان پر کوئی نجات نہیں پا سکتا-AK 384.1

    اس وقت مذہبی جنون نظر آنے لگا- وہ جنہوں نے پیغام کے لئے بڑے جوش وجذبے کا اقرار کیا تھا انہوں نے کلام مقدس کو بطور لاخطا رہبر کے ترک کر دیا اور دعوی کیا کہ وہ روح کی ہدایت میں چلتے ہیں- اور انہوں نے خود کو اپنی ذاتی محسوسات تصورات اور تاثرات کے قبضہ میں کر دیا- کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے اندھے اور متعصب جوش وجذبے کا مظاہرہ کیا اور ان سب کی مذمت کی جو انکی روشنی کو قبول نہیں کرتے- انکے جنونی خیالات عمل اور تعلیم سے زیادہ تر ایڈوینٹسٹس کو کوئی سروکار نہ تھا- مگر انہوں نے سچائی کے مقصد کو ضرور نقصان پہنچایا-AK 384.2

    ان زرائع سے ابلیس خدا کے کام کو برباد کرنے کی سعی ناکام کر رہا تھا- بہت سے لوگ ایڈونٹتحریک کے ذریعہ متحرک ہو چکے تھے- ہزاروں گنہگاروں نے خدا کو دل دے دیا- اور وفادار لوگوں نے “دیری” کے دوران بھی سچائی کی تشہیر کے لئے خود کو وقف کیا- بدی کا شہزادہ اپنی رعایا سے ہاتھ دھو رہا تھا- اور خدا کے کام کو بدنام کرنے کے لئے اس نے چاہا کہ خدا کے کچھ لوگوں کو اپنے ہاتھ میں لے لے اور انہیں انتہا پسندی کی راہ پر ڈال دے- پھر اس کے کارندوں نے ہر خطا، ہر ناکامی، ہر بےجا عمل کو لوگوں کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کیا تاکہ ایڈوینٹسٹس اور انکے ایمان کو معیوب ومکروہ قرار دے دے- یوں وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جو آمد ثانی میں ایمان رکھتے تھے انکے دلوں پر کنٹرول کر کے اپنے حلقے میں شامل کر لیا اور انکو دنیا کے سامنے یوں پیش کیا جیسے کہ یہ ایمانداروں کی ساری جماعت کی نمائندگی کرتے ہیں-AK 384.3

    ابلیس “بھائیوں پر الزام لگانے والا” (مکاشفہ 10:12 ) اور اسکی روح انسانوں کو ابھارتی ہے کہ وہ خدا کے لوگوں کی خطاؤں اور کوتاہیوں کو پکڑیں- اور انکے نیک کاموں کو نظرانداز کریں- وہ اس وقت زیادہ سرگرم ہوتا ہے جب خداوند خدا اپنے لوگوں کی نجات کے لئے کام کرتا ہے- جب خدا کے بیٹے خداوند کے حضور ظاہر ہوتے ہیں- ابلیس بھی ان کے ہمراہ چلا آتا ہے- بیداری کے ہر موقع پر وہ ہر اس شخص کو لانے کے لئے تیار رہتا ہے جس کا دل پاک نہیں اور جسکا ذہن غیر متوازن ہے- جب ایسے لوگ سچائی کے کچھ نقاط قبول کر لیتے ہیں اور ایمانداروں کے ساتھ انکا شمار ہو جاتا ہے تو پھر یہ وہ نظریات متعارف کرواتا ہے جو غیر محتاط ایمانداروں کو بہکا لیتے ہیں- ضروری نہیں کہ جو بھی شخص ایمانداروں کی کمپنی میں آ جائے وہ سچا ایماندار ہی ہو- یہاں تک کہ خدا کے گھر عبادتگاہوں اور عشائے ربانی کی میز پر آنے والا ہر ایک صادق نہیں ہو سکتا- ابلیس کا ایسے سنجیدہ موقعوںپر اپنے کارندوں کے ذریعہ اکثر آنا جانا رہتا ہے-AK 385.1

    بدی کا شہزادہ زمین کے ہر قطعہ پر خدا کے لوگوں کا مقابلہ کرتا ہے خاص طور پر جب وہ آسمانی شہر کی منزل کی طرف اپنے سفر کو آگے بڑھاتے ہیں- کلیسیا کی ساری تاریخ میں ریفریمیشن مشکل ترین رکاوٹوں اور مقابلہ کے بغیر آگے نہیں بڑھی- پلوس رسول کے دنوں میں بھی ایسا ہی ہوا تھا- جہاں کہیں بھی رسولوں نے کلیسیا قائم کی تو وہاں کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسیح یسوع کے ایمان کا اقرار کیا مگر وہ اپنے ساتھ بدعتوں کو لائے اور اگر انھیں قبول کر لیا جاتا تو صداقت کی محبت کو خارج کرنا پڑتا- لوتھر کو بھی ایسے جنونی لوگوں کے ہاتھوں بڑی پریشانی اور مشکل کا سامنا رہا- جن کا یہ دعوی تھا کہ خداوند براہ راست ان سے ہمکلام ہوا ہے- اس لئے انہوں نے اپنے خیالات اور رائے کو پاک نوشتوں کی شہادتوں سے افضل ٹھہرایا- وہ لوگ جو ایمان اور تجربہ میں ادھورے تھے مگر سمجھتے تھے کہ ان میں کسی بات کی کمی نہیں ہے، اور جو نئی تعلیم بھی سننا پسند کرتے تھے وہ نئے اساتذہ کے جھانسے میں آ گئے- اور وہ ابلیس کے ایجنٹوں کیساتھ ملکر کے اس کام کو بگاڑنے لگے جو خداوند نے لوتھر کو استوار کرنے کے لئے کہا تھا- ویسلی اور کئی دوسرے جنہوں نے اپنے اثرورسوخ اور ایمانداری کے ذریعہ دنیا کو برکت دی، انہیں بھی ہر قدم پر ابلیس کے مکروفریب کا سامنا رہا- اس نے ہر طبقہ سے انتہا پسند مذہبی جنونی، احمق، پاگل، اور ریاکاروں کو انکے سامنے لا کھڑا کیا- AK 385.2

    ولیم ملر کو ان سے کوئی ہمدردی نہ تھی جو مذہبی جنونی تھے- اس نے لوتھر کے ہم زبان ہو کر کہا کہ ہر ایک روح کا خدا کے پاک کلام کی رو سے امتحان کرو- لر نے کہا کہ “ابلیس کو ان دنوں بعض لوگوں کے ذہنوں پر بڑی قدرت حاصل ہے- اور ہم کس طرح سے جان سکتے ہیں کہ وہ کس روح کے ہیں؟ بائبل مقدس اسکا یوں جواب دیتی ہے- “انکے پھلوں سے تم انکو پہچان لو گے” متی -16:7AK 386.1

    دنیا میں بہت سی روحیں چل نکلی ہیں اور ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ان روحوں کو آزمائیں وہ روح جو ہمیں اس موجودہ دنیا میں سنجیدگی، راستبازی اور خداترسی کی زندگی بسر نہیں کرنے دیتی وہ مسیح کی روح نہیں ہو سکتی ہے- میں اس بات کا قائل ہوں کہ اس بے لگام موومنٹ کے پیچھے ابلیس کا ہاتھ ہے- ہم میں بہتیرے ایسے ہیں جن کا یہ دعوی ہے کہ وہ کلی طور پر مقدس اور پاک ہیں وہ انسانوں کی روایات کو مانتے اور ان سب کی صداقتوں کو نظرانداز کرتے ہیں جو انکی طرح مکاری نہیں کرتے”-AK 386.2

    Bliss,pages 236,237AK 386.3

    “خطا کار روح ہمیں سچائی سے دور لے جائے گی- جبکہ خدا کی روح ہماری صداقت کی طرف رہبری کرے گی- آپ کہہ سکتے ہیں کہ کوئی شخص غلطی پر ہے، مگر وہ سوچتا ہے کہ اس میں صداقت ہے- اس کا کیا حل ہے؟ اسکا جواب یہ ہے کہ روح اور کلام ایک دوسرے کے ہم آہنگ ہوتے ہیں- اگر ایسا شخص اپنی جانچ خدا کے کلام کے ذریعہ کرے اور سارے کلام کے ساتھ اسکی قائیلیت مطابقت رکھتی ہے پھر اسکو جان لینا چاہیے کہ اسمیں صداقت ہے- لیکن اگر وہ خدا کی شریعت یا اسکی کتاب سے مطابقت نہیں رکھتا پھر اسے بڑی احتیاط سے چلنا ہو گا، مبادہ ابلیس کے نرغنے میں نہ پھنس جائے”-AK 386.4

    The Advent herald and sighns of the time reporter,vol,8,no23, (Jan, 15, 1845)AK 386.5

    “میں نے اکثر باطنی پارسائی کے بہت سے ثبوت چمکتی آنکھوں، آنسوؤں سے تر رخساروں، اور ہچکیوں کے ہمراہ پائے ہیں”- AK 386.6

    Bliss, page 22AK 386.7

    ریفریمیشن کے زمانہ میں اس کے دشمنوں نے ان پر ہر طرح کے مذہبی جنوں کے الزامات لگائے جو بڑی ایمانداری سے انکے خلاف کام کر رہے تھے- اور ایڈونٹ موومنٹ کے مخالفین نے بھی یہی طریقہ کار اپنایا- نہ صرف انہوں انتہا پسندوں کی خطاؤں اور انکی نمائندگی پر اکتفا کیا بلکہ ایڈونٹ موومنٹ کے خلاف ایسی رپورٹ شائع کی جس کا موومنٹ کے ساتھ کسی طرح کا تعلق واسطہ بھی نہ تھا اور جس میں رتی بھر بھی سچائی نہ تھی- یہ اشخاص تعصب اور نفرت کے ہاتھوں ایسی حرکات کے مرتکب ہوۓ تھے- انکا آرام اس پیغام کی وجہ سے درہم برہم ہوا تھا کیونکہ مسیح کی آمد قریب بلکہ دروازہ پر ہے- وہ ڈرتے تھے کہ شاید یہ سچ ہو- اس کے باوجود انہیں امید تھی کہ ایسا نہیں ہو گا اور یہی رازتھا جس کے باعث وہ ایڈوینٹسٹس اور انکے ایمان کے خلاف برسرپیکار تھے- AK 386.8

    یہ سچ ہے کہ کچھ جنونی ایڈوینٹسٹس کے حلقہ میں کام کرتے تھے- اور اسکی وجہ سے یہ فیصلہ کر لینا درست نہیں کہ یہ موومنٹ خدا کی طرف سے نہ تھی- اگر ایسا ہوتا تو پھر پولس اور لوتھر کے دنوں میں ان کے کام کی مذمت کرنے کے لئے یہ کافی وجوہات تھیں- خدا کے لوگوں کو نیند سے بیدار ہونا چاہیے اور ایمانداری سے توبہ اور ریفریمیشن کے کام کو کرنا چاہیے- انہیں کلام مقدس میں اس صداقت کی تلاش کرنا چاہیے جو مسیح یسوع میں پائی جاتی ہے- انہیں خود کو خدا کے لئے وقف کر دینا چاہیے مگر یاد رہے کہ ابلیس ابھی بھی چوکس ہے- اس بارے ثبوتوں کی کمی نہیں ہے- وہ ہر ممکن دھوکے سے اپنی قدرت کا مظاہرہ کرے گا اور اپنے گرے ہوۓ فرشتوں کی ہر ممکن مدد حاصل کرے گا-AK 387.1

    یہ آمد ثانی کی منادی نہیں تھی جس سے مذہبی جنون اور تفرقات نے جنم لیا- یہ 1844 کی گرمیوں میں سب کچھ نمودار ہوا جب ایڈوینٹسٹس اپنی اصل پوزیشن کے بارے پریشان اور شک وشبہات کا شکار تھے- پہلے فرشتے کے پیغام کی منادی اور “مڈ نائٹ کرائے” (“Midnight Cry”) جنونیت اور نااتفاقی کو کچلنے کے بارے تھی- جو اس موومنٹ میں شریک ہوۓ تھے ان میں جو مکمل ہم آہنگی پائی جاتی تھی- ان کے دل ایک دوسرے اور مسیح کی محبت سے بھرپور تھے جسے وہ جلد ملنے کی توقع کرتے تھے- ایک ایمان، ایک مبارک امید نے انہیں ہر طرح کے انسانی اثرورسوخ سے بلند کر دیا تھا- اور یوں وہ ابلیس کے ہر حملے سے محفوظ تھے- AK 387.2

    “جب دلہا نے دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں اور سو گئیں- آدھی رات کو دھوم مچی کہ دیکھو دلہا آ گیا! اس کے استقبال کو نکلو- اس وقت وہ سب کنواریاں اٹھ کر اپنی اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں” متی -7-5:25AK 387.3

    1844کے سمر میں اس وقت کے نصف میں جب پہلے سوچا گیا تھا کہ 2300 دنوں کا خاتمہ ہو گا- اور خزاں کے اسی سال جب یہ دریافت ہوا کہ یہ وقت اس سے آگے مستقبل میں ہے- اور اسی حوالہ میں اس کا ذکر پایا جاتا ہے کہ “دیکھو دلہا آ گیا”!AK 387.4

    جس نے اس موومنٹ کی رہنمائی کی وہ ارتخششتا بادشاہ کے حکم کی دریافت تھی جو اس نے یروشلیم کی بحالی کے لئے دیا تھا- جو 2300دنوں کی شروعات کا پوائنٹ بنا- اور یہ B.C 457 خزاں میں موثر ہوا- مگر یہ سال کے ابتدا میں موثر نہیں ہوا تھا جیسے پہلے خیال کیا گیا تھا- 2300 سال خزاں 1844 میں اختتام پذیر ہوۓ-AK 388.1

    دلائل عہد عتیق سے بھی لئے گئے جو خزاں کے موسم کی طرف اشارہ کرتے تھے جب یہ واقعہ “ہیکل کی صفائی” کی علامت ہے ظہور پذیر ہو گا- اس پر خاص توجہ دی گئی جو مسیح یسوع کی پہلی آمد کے طریقہ کار کے مطابق پایہ تکمیل کو پہنچی-AK 388.2

    عید فسح کے بڑے کی قربانی مسیح یسوع کی موت کا عکس (پرتو) تھا- پولس رسول فرماتا ہے “ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا” 1 کرنتھیوں -7:5AK 388.3

    پہلے پھلوں کا ہدیہ، پولا جو عید فسح کے وقت خداوند کے آگے لہرایا جاتا تھا وہ مسیح یسوع کا مردوں میں جی اٹھنے کی علامت تھی- پولس رسول مسیح یسوع اور اسکے لوگوں کی قیادت کے بارے یوں فرماتا ہے “لیکن ہر ایک اپنی اپنی باری سے- پہلا پھل مسیح، پھر مسیح کے آنے پر اس کے لوگ” 1 کرنتھیوں -23:15AK 388.4

    ان مثالوں کی تکمیل نہ صرف واقعات کے لحاظ سے ہوئی بلکہ وقت کے لحاظ سے بھی- یہودیوں کے پہلے مہینے کی چودھویں تاریخ کو، اسی دن اور اسی ماہ پندرہ صدیوں تک فسح کا برہ ذبح ہوتا رہا- مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ فسح کھائی، اسے اپنی موت کی یادگاری کے لئے مقرر کیا-AK 388.5

    “خداوند کا برہ جو دنیا کے گناہ اٹھا لے جاتا ہے” اسی طرح اسے بدکار لوگوں نے پکڑا اور سولی چڑھا کر قتل کر دیا- اور جیسے کہ علامتی پولا خداوند کے سامنے لہرایا جاتا تھا ہمارا خداوند تیسرے دن مردوں میں سے زندہ ہو گیا- “سونے والوں میں پہلا پھل ہوا” “فی الواقع مسیح مردوں میں جی اٹھا ہے اور جو سو گئے ہیں ان میں پہلا پھل ہوا” 1 کرنتھیوں 20:15یہ تمام ایمانداروں کے جی اٹھنے کا نمونہ ہے-AK 388.6

    “ہماری پست حالی کے بدن کی شکل بدل کر اپنے جلال کے بدن کی صورت پر بنائیگا” فلپیوں 21:3AK 388.7

    اسی طریقہ سے علامتی سروس میں آمد ثانی کی مثال ہے مقررہ وقت پر پوری ہو گی- موسوی نظام کے تحت ہیکل یا کفارہ کا بڑا دن یہودیوں کے ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ کو ہوتا تھا- (احبار 34-29:16) جب سردار کاہن تمام بنی اسرائیل کے لئے کفارہ دیتا تھا اور یوں ہیکل سے ان کے گناہ باہر نکالتا تھا- اور باہر آ کر لوگوں کو برکت دیتا تھا- اس لئے یہ مانا جاتا ہے کہ مسیح یسوع ہمارا بڑا سردار کاہن گناہ اور گنہگاروں کو برباد کر کے زمین کو پاک کرنے کے لئے آئے گا- اور اپنے انتظار کرنے ولے لوگوں کو بقا کی برکت عطا کرے گا- ساتویں مہینے کی دسویں تاریخ، جو کفارے کا بڑا دن ہے، ہیکل کے صاف کرنے کا وقت جو 1844 میں 21 اکتوبر کو آیا- اسے مسیح کی آمد کا وقت سمجھ لیا گیا- اس کا ثبوت پہلے ہی دیا جا چکا ہے کہ 2300 دن خزاں کے اسی سال اختتام پذیر ہوتے ہیں- اور ایسا نتیجہ ہے جسکی مخالفت ناممکن ہے-AK 389.1

    متی 25باب کی تمثیل میں انتظار کرنے اور اونگھنے کا وقت، دلہا کے آنے کے ساتھ ساتھ آتا ہے- یہ ان دلائل کے موافق ہے جو ابھی پیش کی گئی ہیں- یہ دلائل نبوت اور نمونہ دونوں سے پیش کی گئی ہیں وہ اپنی صداقت کے بارے بڑی قائیلیت رکھتی تھیں اور ہزاروں نے “آدھی رات کی دھوم” کا چرچا کیا-AK 389.2

    جوار بھاٹا کی لہر کی طرح تحریک ملکوں میں پھیل گئی- شہر تا شہر، گاؤں تا گاؤں، اور ملک کے دور افتادہ علاقوں تک پہنچ گئی- یہاں تک کہ خداوند کے منتظر لوگ پوری طرح بیدار ہو گئے- اس پکار کے سامنے مذہبی جنونی ایسے رفو چکر ہو گئے جیسے سورج کے سامنے سے برف پگھل جاتی ہے- ایمانداروں نے دیکھا کہ ان کے شکوک اور پریشانی جاتی رہی ہے- امید اور ہمت نے ان کے دلوں میں زندگی پیدا کر دی- کام بےجا جوش وخروش سے آزاد تھا جو اس وقت نمودار ہو جاتا تھا جہاں انسانوں کے جوش وخروش پر خدا کے کلام اور روح القدس کی کنٹرول کرنے والی تاثیر نہ ہو- یہ اسی طرح کی فروتنی تھی جو بنی اسرائیل میں خدا کے خادموں سے سرزنش حاصل کرنے کے بعد واقع ہوئی اور وہ خدا کی طرف پلٹ آئے- اس میں وہی خصوصیات پائی گئیں جو خدا کے کام میں ہر زمانہ میں دیکھی گئیں، بہت ہی کم خوشی ومسرت کا سماں تھا، برعکس اس کے اپنے دلوں میں جھانکنے، گناہوں کا اقرار کرنے اور دنیا کو ترک کرنے کا وقت تھا- اور اپنی روحوں کا تسکین دینے اور اپنے خداوند سے ملنے کی تیاری کا وقت تھا- سرگرم دعائیں مانگی جا رہی تھیں اور کلی طور پر خود کو خدا کے لئے وقف کیا جا رہا تھا-AK 389.3

    اس کام کے بارے ملر نے بیان دیتے ہوۓ کہا “خوشی ومسرت کے اظہار کا اب نہیں بلکہ آنے والا وقت بڑی مسرت کا موقع ہو گا جب ہمارے ساتھ سارا آسمان اور زمین مل کر خوشیاں منائیں گے اور یہ خوشی کے نارے ہم نے آسمانی نعروں کے لئے بچا رکھے ہیں- مغنی (گیت گانے والے) خاموش ہیں- وہ آسمانی فرشتوں کی گروہ کا انتظار کر رہے ہیں جو آسمانی کوائر ہے- کسی کے جذبات ایک دوسرے کے خلاف نہیں ہیں- سب یکدل اور یکجان تھے- Bliss, pages 270-271AK 390.1

    دوسرے جنہوں نے اس تحریک میں شمولیت کی تھی یوں گواہی دی “اس سے ہر جگہ ہر کسی نے اپنے دل کو ٹٹولا اور آسمان کے خدا کے حضور اپنی روح کو فروتن کیا- لوگوں نے اس دنیا کی محبت اور اسکی چیزوں سے منہ موڑ لیا- دشمنی اور چپقلش کو دور کیا گیا- خدا کے حضور گناہوں اور خطاؤں کا اعتراف کیا گیا- اور اسکے سامنے شکستہ اور خستہ دلوں کو انڈیلا گیا- اور خداوند سے معافی کی درخواستیں گزرانی گئیں- یہ انکساری کی روح خدا خدا کے حضور رحم کی طالب تھی؟ اس طرح کا سماں کبھی دیکھنے کو نہ ملا تھا- جیسے یوئیل کے ذریعہ خداوند نے فرمایا تھا کہ جب خداوند کا دن نزدیک ہو گا تو کپڑے نہیں بلکہ دل چاک کریں گے، روزہ رکھ کر ماتم کرتے اور گریہ وزاری کرتے ہوۓ خداوند کی طرف متوجہ ہوں گے- اور خداوند نے زکریاہ کے ذریعہ فرمایا AK 390.2

    “اور میں داؤد کے گھرانے اور یروشلیم کے باشندوں پر فضل اور مناجات کی روح نازل کروں گا اور وہ اس پر جسکو انہوں نے چھیدا ہے نظر کریں گے اور اسکے لئے ماتم کریں گے جیسا کوئی اپنے اکلوتے کے لئے کرتا ہے” زکریاہ-10:12AK 390.3

    جو اسکی راہ تکتے تھے انہوں نے اپنی زخمی روحوں کو خداوند کے حضور انڈیلا- AK 390.4

    Bliss, in adevent shield, and review, vol, 1 ,p.271 (January, 1845)AK 390.5

    رسولوں کے زمانے سے لے کر کوئی بھی بڑی مذہبی موومنٹ انسانی خامیوں اور شیطانی چالوں سے اتنی آزاد نہیں رہی جتنی خزاں 1844 کی موومنٹ رہی- حتی کہ اتنے برس گزر جانے کے باوجود تمام جنہوں نے اس موومنٹ میں شرکت کی اور سچائی کے پلیٹفارم پر مستحکم کھڑے رہے وہ آج بھی اس کام کی مقدس تاثیر کو محسوس کرتے ہیں اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ موومنٹ خداوند خدا کی طرف سے تھی-AK 390.6

    اس بلاہٹ پر کہ “دلہا آ گیا!” اسکے استقبال کو نکلو- اور جو انتظار کر رہی تھیں اپنی مشعلیں درست کرنے لگیں- انہوں نے بڑی دلچسپی کے ساتھ کلام مقدس کا مطالعہ کیا- اور انہیں معلوم نہ تھا کہ خداوند نے آسمان سے فرشتوں کو بھیجا ہے تاکہ جو پست ہمت ہو چکے ہیں انہیں بیدار کریں اور انہیں پیغامAK 390.7

    قبول کرنے کے لئے تیار کریں- کام انسانوں کی حکمت اور علم پر قائم نہیں بلکہ خدا کی قوت پر قائم رہتا ہے- جنہوں نے سب سے پہلے بلاہٹ کو قبول کیا وہ سب سے زیادہ قابل تھے بلکہ یہ وہ تھے جو نہایت ہی فروتن اور جانثار تھے- کسانوں نے اپنی فصلیں کھیتوں میں چھوڑ دیں- کاریگروں نے اپنے اوزار ایک طرف رکھ دیئے- اور بڑی دلسوزی اور خوشی سے دوسروں کو وارننگ دینے نکل پڑے- وہ جنہوں نے پیشتر اس تحریک میں رہنمائی کی تھی، وہ بعد میں اس میں شامل ہوۓ- اس پیغام سکو سننے کے لئے کلیسیاؤں نے دروازے بند کر دیئے اور بہت سے لوگوں کے ساتھ تعلقات ختم کر لیے جنہوں نے اس پیغام کو قبول کیا تھا- مگر خداوند کی پروردگاری نے اس منادی کو دوسرے فرشتے کے پیغام کے ساتھ جوڑ دیا جس سے کام کو تقویت ملی-AK 391.1

    یہ پیغام “دیکھو دلہا آ گیا!” یہ کوئی بحث کا بڑا موضوع نہ تھا گو اس کے لئے کلام مقدس کا ثبوت واضح اور دو ٹوک تھا- اس کے ساتھ اکسانے والی قوت چل پڑی جس نے روح کو تحریک دی- کوئی شک تھا نہ کوئی سوال- یروشلیم میں مسیح یسوع کے شاہانہ داخلہ کے وقت وہ لوگ جو ملک کے تمام حصوں سے وہاں عید منانے کے لئے جمع ہوۓ تھے کوہ زیتون کی طرف آ گئے اور وہ اس بھیڑ کے ساتھ آ ملے جو مسیح یسوع کی پیروی کر رہی تھی- انہوں نے بھی اس تاثیر کو قبول کیا اور بھیڑ کے ساتھ ملکر یہ نعرہ لگانے لگے- “ابن داؤد سکو ہوشعنا-مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے” متی -9:21AK 391.2

    اس طرح بہت سے بے ایمان جو ایڈوینٹسٹ میٹنگز میں آئے، انمیں سے بہتیرے ایسے تھے جو تجسس کے تحت آئے- بعض صرف ٹھٹھا مذاق کے لئے اور کچھ کو روح نے قائل کیا اور وہ میٹنگز میں نہ شامل ہوۓ- “دیکھو دلہا آ گیا!”AK 391.3

    اسوقت ایسا ایمان تھا جو دعاؤں کا جواب لایا- یہ اسی طرح تھا جیسے پیاسی زمین پر بارش- فضل کی روح متلاشیوں پر نازل ہوئی- وہ جلد اپنے مخلصی دھندوں کے روبرو کھڑا ہونے کی توقع کرتے تھے انہوں نے اسقدر خوشی محسوس کی جو بیاں سے باہر ہے- روح القدس کی نرم وملائم اور مطیع کرنے والی قوت نے ایمانداروں کے دلوں کو گداز کر دیا جب اسکی برکات ان پر نچھاور ہوئیں-AK 391.4

    جنہوں نے پیغام کو قبول کیا وہ بڑی سنجیدہ ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ اس وقت تک آ پہنچے جس وقت وہ اپنے آقا سے ملاقات کرنے کی توقع کر رہے تھے- ہر صبح وہ یہ محسوس کرتے کہ یہ انکا اولین فرض ہے کہ وہ یہ ثبوت حاصل کریں کہ انہیں اس کام کیلئے خدا کی منظوری حاصل ہے- انکے دل ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوۓ تھے- وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر، اور ایک دوسرے کے لئے بہت زیادہ دعائیں مانگتے تھے- وہ اکثر خدا سے ملاقات کرنے کیلئے کسی علیحدہ جگہ جمع ہوتے- کھیتوں اور درختوں کے جھنڈوں میں سے شفاعتی دعائیں آسمان کی طرف جاتیں- انہیں روزمرہ کے کھانے کی نسبت مسیح یسوع کی منظوری کی ضمانت زیادہ ضروری تھی- اور اگر انکے ذہن شک کے بادلوں سے گھر جاتے تو وہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتے جب تک وہ شکوک ان کے ذہن سے دور نہ ہو جاتے- جیسے انہوں نے معافی بخشنے والے فضل کو محسوس کیا تو وہ اسے دیکھنا چاہتے تھے جسے ان کی روحیں بدل وجان پیار کرتی تھیں-AK 391.5

    مگر پھر انکی منزل مایوسی ٹھہری- متوقع وقت گزر گیا اور انکا نجات دہندہ نہ آیا- غیر متزلزل ایمان کے ساتھ انہوں نے اسکی آمد کا انتظار کیا تھا اور اب انہوں نے مریم کی طرح محسوس کیا جب وہ نجات دہندہ کی قبر پر آئی اور اسے خالی پایا تو اس نے زاروقطار روتے ہوۓ کہا “میرے خداوند کو اٹھا لے گئے ہیں اور معلوم نہیں کہ اسے کہاں رکھا ہے” یوحنا -13:20AK 392.1

    یہ خوف وہراس کہ آیا پیغام سچا تھا کہ نہیں بے ایمان دنیا عرصۂ تک اسی شش وپنج کا شکار رہی یہ شک ایک دم دور نہ ہوا- اس لئے وہ مایوس ہونے والوں پر فتح جتانے کی جرات نہ کر پائے- لیکن جب خدا کے غضب کا کوئی نشان دیکھنے کو نہ ملا، اور اپنے خوف سے بہور آئے تو انہوں نے اپنا ٹھٹھا مذاق اور لعن طعن شروع کر دی- ایک بہت بڑی گروہ جس نے مسیح یسوع کی جلد آمد ثانی کا یقین کیا تھا اپنے اس ایمان کو ترک کر دیا- اور وہ جو اس کا بہت زیادہ یقین کر بیٹھے تھے وہ اس دنیا سے عزت بچا کر بھاگ جانا چاہتے تھے- یوناہ کی طرح انہوں نے خدا سے شکایت کی اور زندگی کی بجائے موت مانگی- اور وہ جن کے ایمان کی بنیاد دوسروں کے صلاح مشورے پر تھی، نہ کہ خدا کے کلام پر، وہ اپنے نظریات کو بدلنے کیلئے پہلے ہی تیار بیٹھے تھے- ٹھٹھا مارنے والوں نے کمزوروں کو جیت لیا اور انہیں اپنے ساتھ ملا لیا- اور اعلانیہ کہا کہ کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی کوئی توقعات ہیں- وقت گزر گیا اور آقا نہ آیا- اور دنیا شائد ہزاروں سال اسی طرح رہے گی-AK 392.2

    مخلص ایمانداروں نے مسیح یسوع کی خاطر سب کچھ ترک کر دیا اور اسکی حضوری میں ایسے کبھی نہ آئے تھے جیسے اب آ گئے- اور انہوں نے اپنے ایمان کے مطابق دنیا کو آخری آگاہی دے دی تھی- اور توقع کر رہے تھے کہ وہ بہت جلد مسیح یسوع اور اسکے پاک آسمانی فرشتوں کی سوسائٹی میں شامل ہو جائیں گے- اور انہوں نے خود کو بہت حد تک ان لوگوں کی سوسائٹی سے الگ کر لیا تھا جنہوں نے پیغام کو قبول نہیں کیا تھا- انہوں نے بڑی دلجمعی کے ساتھ دعا مانگی تھی “اے خداوند یسوع آ- اور جلد آ” مگر وہ نہ آیا- اور اب انہیں دنیا کے فکروں اور پریشانیوں کو دوبارہ اپنے اوپر اٹھانا پڑا- علاوہ ازیں انہیں ٹھٹھا مارنے والوں کے طعنےسہنے پڑے- یہ ایمان اور صبر کی بڑی اذیت ناک آزمائش تھی- مگر یہ مایوسی اور پریشانی شاگردوں کی اس مایوسی سے زیادہ نہ تھی جب مسیح یسوع پہلی بار آیا تھا- جب مسیح یسوع شاہانہ طور پر یروشلیم میں داخل ہوا تو اسکے پیروکار یہ ایمان رکھتے تھے کہ یہ ابھی داؤد کے تخت پر مسند نشین ہو جائے گا- اور بنی اسرائیل کو انکے ستم گروں سے مخلصی بخشے گا- جب انہوں نے ای دوسرے کے ساتھ اپنی پرمسرت امیدوں کو بانٹا اور اپنے متوقع شہنشاہ کی جانب بڑی عقیدت کے ساتھ دیکھا- بہتیروں نے اپنے کپڑے اتار کر اسکی راہ میں بچھا دیئے- اور اسکے آگے آگے کھجوروں کی ٹہنیاں لہرا دیں- اور متحد ہو کر جوش وخروش کے نعرے مارنے لگے اور کہا “ابن داؤد کو ہوشعنا” پکار پکار کر کہنے لگے- اور جب فریسی اس سارے نظارے سے برہم ہوۓ اور مسیح یسوع کو کہا کہ اپنے شاگرد کو ڈانٹ دے- تو اس نے جواب میں ان سے کہا- “میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر یہ چپ رہیں تو پتھر چلا اٹھائیں گے” لوقا -----40:19 پیشینگوئی ضرور پوری ہو گی-شاگرد خداوند کے کام کو کر رہے تھے- اس کے باوجود انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا- چند ہی دن گزرنے کے بعد انہوں نے مسیح یسوع کی موت کو دیکھا اور اسے قبر میں رکھا- انکی توقعات اس ایک موقع پر پوری ہونا سمجھ سے باہر تھیں- انکی تمام امیدیں مسیح یسوع کے ساتھ ہی دم توڑ گئیں- اور جب تک مسیح یسوع موت پر فتح پا کر زندہ نہ ہو گیا اس وقت تک انہیں سمجھ نہ آئی کہ یہ سب عین پیشینگوئی کے مطابق ہے-AK 392.3

    “مسیح کو دکھ اٹھانا اور مردوں میں سے جی اٹھنا ضرور تھا” اعمال -3:17AK 393.1

    پانچ سو سال پیشتر حق تعالیٰ نے زکریاہ نبی کے ذریعہ فرمایا “اے بنت صیون تو نہایت شادمان ہو- اے دختر یروشلیم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے- وہ صادق ہے اور نجات اسکے ہاتھ میں ہے- وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے” زکریاہ -9:9AK 393.2

    اگر شاگردوں کو یہ معلوم ہوتا کہ مسیح یسوع کو ابھی عدالت اور موت کا سامنا ہے تو وہ اس پیشینگوئی کی تکمیل نہ کر پاتے-AK 393.3

    اسی طرح ملر اور اسکے ہمخدمتوں نے پیشینگوئی کو پورا کیا اور دنیا کو وہ پیغام دیا جسکی پیشتر ہی پیشینگوئی ہو چکی تھی- اور اگر وہ پیشینگوئیوں کو اچھی طرح سمجھتے جو انکی مایوسی کی طرف اشارہ کرتی تھیں تو وہ اس پیغام کی منادی دنیا کے سامنے نہ کر سکتے- پہلے اور دوسرے فرشتے کے پیغامات بالکل راست وقت پر دیئے گئے اور خداوند نے وہ مقصد حاصل کر لیا جو وہ انکے ذریعہ حاصل کرنا چاہتا تھا-AK 393.4

    دنیا یہ دیکھ رہی تھی اور توقع کر رہی تھی کہ اگر یہ وقت گزر گیا اور مسیح یسوع نہ آیا تو ایڈونٹ ازم کا سارا نظام ترک کر دیا جائیگا-جب بیشتر سخت آزمائش کے وقت ایمان سے منحرف ہو گئے تو پھر بھی کچھ ایسے لوگ تھے جو ثابت قدم رہے- ایڈونٹ تحریک کے پھل، فروتنی کی روح، ضمیر کی ملامت، گناہ کا احساس، دنیا سے منہ موڑنا اور زندگی کی اصلاح ان تمام لوگوں میں یہ تحریک کے پھل دیکھے گئے جو عبادات میں آتے رہے اور یہی بڑی گواہی اور بڑا ثبوت تھا کہ یہ کام خدا کا ہے- اس بات کا انکار نہیں کر سکتے تھے کہ یہ روح القدس کی قوت تھی جو آمد ثانی کی منادی میں شامل حال رہی- اور انہوں نے نبوتی اوقات میں کسی غلطی کو نہ پایا- یہاں تک کہ ان کے نہایت ہی لائق فائق مخالفین بھی انکی نبوتی نظام کی تشریح کو نہ جھٹلا سکے- وہ بائبل کے ثبوت کے بغیر اپنی اس پوزیشن سے دستبردار نہیں ہو سکتے تھے، جس تک وہ مخلص اور دعائیہ کلام مقدس کے مطالعے کے ذریعہ پہنچے تھے، جس کے لئے روح القدس نے انہیں روشن خیالی بخشی تھی- اور انکے دل اسکی زندہ قوت سے بھڑک رہے ہیں- پوزیشن اختیار کرنے سے انہیں شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا- ہر دلعزیز مذہبی رہنماؤں دنیاوی حکمت رکھنے والوں کی شدید مخالفت میں سب متحد ہو گئے- اور نیک اور برے ہر طرح کے لوگوں کو طعنہ وتشنیع برداشت کرنا پڑا-AK 394.1

    یہ تو سچ ہے کہ جس واقعہ (Event) کی وہ توقع کر رہے تھے اسمیں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا- مگر یہ بھی انکے ایمان کو خدا کے کلام سے نہ ڈگمگا سکا- جب یوناہ نے نینوا کے بازاروں میں یہ منادی کی کہ چالیس ڈنکے بعد شہر برباد کر دیا جائے گا- اس وقت خداوند نے نینوہ کے شہریوں کی خاکساری کو قبول کرتے ہوۓ انکے آزمائشی وقت میں اضافہ کر دیا- مگر جو یوناہ منادی کر رہا تھا وہ تو خدا کی طرف سے تھی- اور نینوہ کا امتحان خالق خداوند کی مرضی کے مطابق ہوا- اسی طرح ایڈوینٹسٹ ایمان رکھتے تھے کہ خدا نے عدالت کی وارننگ دینے کے لئے انکی رہنمائی کی ہے- انہوں نے کہا کہ جتنوں نے پیغام کو سنا ہے یہ انکے دلوں کا امتحان ہے اور آمد ثانی کے لئے انکے دل میں خدا کی محبت کو بیدار کیا ہے- یا اس پیغام سے نفرت پیدا ہوئی ہے، خدا کو جاننے اور اسکی آمد ثانی کے لئے (یہ ہمارا قیاس ہے)مگر اس قیاس نے ایک لائن کھینچ دی ہے- اور ہر ایک خود اپنے دل میں جھانکیں اور دیکھے کہ اگر خداوند آتا ہے تو وہ کس طرف کھڑے ہوں گے- کیا وہ یہ کہہ سکیں گے “لو یہ ہمارا خدا ہے- ہم اسکی راہ تکتے تھے اور وہی ہم کو بچائے گا” یسعیاہ -9:25 یا وہ پہاڑوں سے کہیں گے ہم کو چھپا لو اور ٹیلوں کو کہیں گے ہم پر آ گرو اور ہمیں اس کی نظروں سے جو تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور برہ کے غضب سے چھپا لو مکاشفہ 16:6 یوں خداوند نے لوگوں کا امتحان لیا- انکے ایمانوں کو جانچا اور اسکی تصدیق کی کہ آیا یہ اس پوزیشن میں آزمائش کے وقت قائم رہیں گے جہاں میں انکو رکھنا چاہتا ہوں یا پیچھے ہٹ جائیں گے- اور کیا یہ اس دنیا کو ترک کر کے خدا کے کلام کے ساتھ پورے ایمان سے چمٹے رہیں گے-AK 394.2

    The advent herald and the signs of the times reporter, vol,8,No, 14 (November 13, 1844)AK 395.1

    انکے تاثرات جو ابھی بھی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ گزرے تجربہ میں خداوند خدا نے انکی رہنمائی کی تھی انکا بیان ولیم ملر کے اس بیان کی روشنی میں دیکھئے-AK 395.2

    “اگر مجھے دوبارہ زندگی بسر کرنے کا موقع ملے تو وہی ثبوت جو اسوقت میرے پاس تھے، خدا اور انسان سے وفا کرتے ہوۓ اسی طرح پیش کروں گا جیسے میں نے پہلے کئے تھے-AK 395.3

    “میں امید کرتا ہوں کہ میں نے روحوں کے خون سے اپنے لباس کو صاف کر لیا ہے- اور میں محسوس کرتا ہوں کہ جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے خود کو تمام گناہوں کی لعنت سے آزاد کر لیا ہے- گو مجھے دوبارہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے- لیکن نہ تو میں پست ہمت ہوا ہوں اور نہ ہی میں افسردہ خاطر ہوں، مسیح یسوع کی آمد ثانی میں میری امید ہمیشہ کی طرح مستحکم ہے- میں نے یہ سب کچھ بڑی سنجیدگی کے ساتھ کئی سالوں کی سوچ بچار کے بعد کیا ہے- جو کچھ میں نے کیا ہے وہ بنی نوع انسان سے محبت اور اپنی قائیلیت کو خدا کا فرض سمجھ کر کیا ہے ایک بات میں جانتا ہوں میں نے صرف اسی چیز کی منادی کی ہے- جس پر میرا ایمان تھا- اور خداوند میرے ساتھ تھا- اسکی قدرت اور قوت اس کام میں ظاہر ہوئی ہے- اور اسکے بہت ہی اچھے نتائج برآمد ہوۓ ہیں اور اس وقت کی منادی کے ذریعہ نظروں نظر نے خداوند کے کلام کی سٹڈی کی ہے- اور ایمان اور مسیح یسوع کے خون کے چھینٹوں سے انہوں نے خدا کے ساتھ ملاپ کیا ہے”-AK 395.4

    Bliss, pages 256,255,277,280,281AK 395.5

    “جب دنیا نے ماتھے پر تیوری چڑھائی تو میں نے کبھی بھی اپنے چہرے پر خود پسندی کو نہیں سجایا اور نہ ہی میں پست ہمت ہوا- میں اب بھی انکی حمایت حاصل نہیں کروں گا اور نہ ہی میں اپنے فرض سے تجاوز کر کے انکی نفرت کا جواب دوں گا- میں ان سے اپنی اندگی کا مطالبہ نہیں کروں گا اور نہ ہو پیچھے ہٹوں گا اور اگر خدا کی یہی مرضی ہو گی تو میں اس زندگی سے ہاتھ دھونے کی بھی امید رکھتا ہوں”-AK 395.6

    J.white life of wrn.miller, page 315AK 395.7

    خداوند نے اپنے لوگوں کو ترک نہیں کیا تھا اسکا روح ابھی تک ان کے ساتھ تھا جو جلد بازی میں آمد ثانی کی اس روشنی کو جو انہیں خداوند نے دی ہے رد نہ کیا تھا- جنکی آزمائش ہوئی اور جو اس دوران خداوند کے منتظر تھے ان کے لئے عبرانیوں کے خط میں ہمت افزائی اور وارننگ کا کلام درج ہے-AK 396.1

    “پس اپنی دلیری کو ہاتھ سے نہ دو- اسلئے کہ اسکا اجر بڑا ہے- کیونکہ تمہیں صبر کرنا ضرور ہے تاکہ خدا کی مرضی پوری کر کے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرو- اور اب بہت ہی تھوڑی مدت باقی ہے کہ آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا- اور میرا راستباز بندہ ایمان سے جیتا رہے گا- اور وہ ہٹے گا تو میرا دل اس سے خوش نہ ہو گا- لیکن ہم ہٹنے والے نہیں کہ ہلاک ہوں بلکہ ایمان رکھنے والے ہیں کہ جان بچائیں گے” عبرانیوں -39-35:10AK 396.2

    یہ نصیحت اخیر دنوں کی کلیسیا کے لئے ہے اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ خداوند کی آمد بہت قریب ہے” آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا” اس سے واضح ہے کہ تھوڑی دیر ہے- اور وہ ظاہر ہو گا- یہاں جو ہدایات دی گئی ہیں وہ خصوصا ایڈونٹسٹس کے لئے ہیں- یہاں جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے وہ ایمان کی تباہی کے خطرے میں تھا- انہوں نے خداوند کی مرضی کو اسکی روح اور کلام کی رہنمائی میں پورا کیا تھا- وہ اسکے گزرے ہوۓ تجربے کے مقصد کو نہ سمجھ پائے- اور نہ ہی وہ اس راستے کو پہچان پائے جو انکے سامنے تھا- اور یوں انہیں شک گزرا کہ آیا خدا انکا رہبر تھا کہ نہیں- اسوقت اس کلام کا ان پر اطلاق ہوتا تھا- “راستباز ایمان سے جیتا رہے گا” جب “آدھی رات کو دھوم“کی روشنی نے ان کے راستے کو منور کیا اور انکے سامنے پیشنگوئیاں عیاں ہو گئیں اور نشانات کو پورا ہوتا دیکھا اور جان گئے کہ اسکی آمد نزدیک ہے- اور وہ اپنی آنکھوں کی مرضی کے مطابق چلے- لیکن اب وہ مایوس کن امیدوں کے ساتھ سربسجود ہو گئے- وہ صرف اب خدا میں اور اسکے کلام میں ایمان رکھنے سے ہی قائم رہ سکتے تھے- ٹھٹھا مارنے والی دنیا کہ رہی تھی “تم دھوکے کا شکار ہوۓ ہو- اپنے ایمان کو ترک کر دو- اور کہہ دو یہ یہ موومنٹ ابلیس کی طرف سے تھی” مگر خداوند خدا کا کلام فرماتا ہے “اگر کوئی پیچھے ہٹے گا تو میرا دل اس سے خوش نہ ہو گا” اسوقت اپنے ایمان کو ترک کرنا اور روح القدس کی اس قوت کا انکار کرنا جو پیغام کی روح رواں تھی، اپنے اوپر تباہی لانے کے مترادف تھی- پولس رسول کا ہمت افزا کلام انہیں ثابت قدم رکھنے کیلئے تھا “اپنی دلیری کو ہاتھ سے نہ جانے دو” آپکو صبر کی ضرورت ہے- “اب بہت ہی تھوڑی مدت باقی ہے کہ آنے والا آئے گا اور دیر نہ کرے گا” انکی مخلصی کا یہی ذریعہ تھا کہ وہ اس روشنی سے چمٹے رہیں جو رحیم خداوند نے انہیں دی ہے اسکے وعدوں کو تھامیں رہیں-اور بدستور پاک نوشتوں کی چھان بین کرتے رہیں- اور مزید روشنی حاصل کرنے کے لئے صبر سے منتظر رہیں-AK 396.3

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents