Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    ستائیسواں باب - موجودہ دور کی بیداریاں

    جہاں کہیں بھی خدا کا کلام وفا داری سے پھیلایا گیا اس کے نتائج سے تصدیق ہو جاتی ہےکہ یہ خدا وند خدا سے صادر ہوا ہے۔ خدا وند کی روح اپنے خادمیوں کے پیغامات کا ساتھ دیتی تھی تب کلام بھرپور قوت کے ساتھ بیان کیا جاتا تھا۔ گنہگار یہ محسوس کرتے تھے کہ ان کا ضمیر جاگ اٹھا ہے۔ حقیقی نو ر جو ہر ایک آدمی کو روشن کرتا ہے جو دنیا میں آیا۔(یوحنا9:1) وہ ان کے دلوں کے خلوت خانوں کو روشن کر دیتا اور اندھیرے میں چھپی ہوئی چیزیں ظاہر ہو جاتیں۔ ان کے دل و دماغ پر قائیلیت اپنی گرفت مضبوط کر لیتی۔AK 445.1

    اجیسے ہی آدمیوں کے گناہوں کے لیے صلیب غیر محدود قربانی کے ساتھ ان پر آشکارہ ہوئی انہوں نے دیکھ لیا کہ ان کے گناہوں کے کفارہ کے لیے صرف مسیح کی قربانی ہی کافی اور شافی ہے۔یہی انسان کا خدا کیساتھ ملاپ کر سکتی ہے۔ایمان اور فرتنی نے خدا کے برے کو قبول کر لیا جو دنیا کے گناہ اتھا لے جاتا ہے۔مسیح یسوع کو خون کے وسیلہ سے انکے ماضی کے گناہ معاف ہو گئے۔AK 445.2

    یہ روحیں وہ پھل لائیں جو توبہ کا سبب بنا۔ وہ ایمان لائین اور بپتسمہ لیا اور وہ نئی زندگی میں جی اتھیں گویا مسیح یسوع میں نئے انسان بن گئے۔ پرانی علتوں کو ترک کر دیا گیا ۔خدا کے بیٹے کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا گیا اس کی سیرت کو منعکس کیا اور ایسے ہی پاک ہو گئے جیسے وہ پاک ہے۔ وہ چیزیں جن سے وہ پہلے نفرت کرتے تھے ان سے پیار کرنا شروع کر دیا ۔مغرور اور اپنی برتری چاہنے والے حلیم اور دل کے غریب بن گئے۔خودنمائی کرنے اور دوسروں کو حقیر جاننے والے سنجیدہ اور دوسرے کے معاملہ میں بے دخل اندازی نہ کرنے والے بن گئے۔ بد معاش ، شریف انسان بن گئے ۔ شراب کے رسیا پر ہیز گار اور لچے لفنگے بن گئے۔ دنیا کے فضول فیشن کو ترک کر دئے گئے۔ مسیھوں کو ظاہری سنگار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ لکھا ہے ”تمہارا سنگار طاہری نہ ہو“ یسنی سرگوندھنا اور سونے کے زیور اور طرح طرح کے کپڑے پہننا۔ بلکہ تمہاری باطنی اور پوشیدہ انسانیت حلم اور مزاح کی غربت کی غیر فانی آرائش سے آراستہ رہے کیونکہ خدا کے نزدیک اس کی بڑی قدر ہے۔ 1پطرس4-3:3AK 445.3

    تجدید احیاء(بیداری) دل کی تفتیش اور حلیمی لے کر آئی۔ وہ گنہگاروں کے لیے سنجیدہ اور مخلص اپیل ہے اور التماس ہے کہ وہ مسیح یسوع کے خون خریدے ہیں ۔دونوں مردوزن نے روحوں کی نجات کے لیے خدا سے دعا کی۔ ان بیداریوں کا نتیجہ یہ نکلا کر روحیں نہ صرف خود انکاری کی قربانی دینے سے نہ کتراتیں بلکہ وہ خوش تھیں کہ وہ اس لائق سمجھی گئیں کہ وہ مسیح یسوع کی خاطر دکھ اور ملامت برداشت کریں۔AK 446.1

    ان کے بارے کہا جا سکتا ہے” اب میں اسیلئے خوش نہیں ہوں کہ تم کو غم ہوا بلکہ اس لیے کہ تمہارے غم کا انجام توبہ ہوا کیونکہ تمہارا غم خدا پرستی کا تھا تا کہ تم کو ہماری طرف سے کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔ کیونکہ خدا پرستی کا غم ایسی توبہ پیدا کرتا ہے جس کا انجام نجات ہے اور اس سے پچھتانا نہیں پٹرتا۔ مگر دنیا کا غم موت پیدا کرتا ۔ پس دیکھو اسی بات کہ تم خدا پرستی کے طور پر غمگین ہوئے تم میں کس قدر سرگرمی اور عدر اور خوف اور اشتییاق اور جوش اور انتقام پیدا کیا! تم نے ہر طرح ثابت کر دکھایا کہ تم اس میں بری ہو“۔ 2 کرنتھیوں 11-9:7 ۔AK 446.2

    خدا کی روح کے کام کا یہ نتیجہ ہے۔ حقیقی توبہ کا اور کوئی ثبوت نہیں اگر وہ اصلاح کا کام نہ کرے اسے چاہیے کہ وہ اپنے عہدکو بحا ل کرے ، جو کچھ اس نے کسی کا ناحق لے لیا ہے اسے واپس کرے ، گناہوں کا اعتراف کرے۔ بنی نوع انسان اور خدا کو پیار کرے پھر گنہگار کو یقین ہوجائے گا کہ اس خدا کا اطمینان پالیا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جنہوں نے گزرے سالوں میں مذ ہبی بیداری پیدا کی۔ وہ اپنے پھلوں سے پہچانے گئے۔ انہیں بنی نوع انسان کو نجات دینے اور سر بلند کرنے کی وجہ سے وہ خدا کے مبارک لوگ مانے گئے ۔AK 446.3

    لیکن زمانہ حال کی بہت سی جدید بیداریاں اس کے فضل سے یکسر محروم ہیں جو ماضی میں خدا کے خادموں کی خدمت سے ظاہر ہو تا تھا۔ یہ تو سچ ہے کہ اب ہر چگہ دلچسپی دیکھنے کو ملتی ہے بہت لوگوں ست مسیح کا اقرار کیا ہے ۔کلسیا ؤں میں بڑی افزائش دیکھنے کو ملی ہے۔ مگر نتائج اس بات کی سند نہیں ہے جن پر یقین کر لیا جائے کہ روحانی زندگی مین اضافہ ہو ا ہے۔وہ روشنی جو تھوڑی دیر کے لیے چمکتی ہے جلد بجھ جاتے ہے اور اپنے پچھلے پہلے سے کہیں زیادہ اندھیرا چھوڑ جاتی ہے۔AK 447.1

    یہ ہر دلعزیز تجدید احیاء مذہب اکثر تصورات کو ابھارنے والے جذبات اور کسی انوکھی اور حیران کن چیزکی وجہ سے بڑے بھاتے ہیں۔یوں لوگ جو تبدیل ہوتے ہیں انہیں بائبل کی صداقتوں کو سننے میں بہت دلچسپی ہو تی ہے اور انہیں نبیوں اور رسولوں کو بھی سننے کی خواہش نہیں ہوتی۔AK 447.2

    جب تک مذہبی سروس میں کچھ سنسنی خیز کلام نہ ہو ،تو یہ ان کے لیے دلچسپی کا باعث نہیں ہوتی۔پیغام اور وہ اپیل جو ان کے جذبات کو نہ بھڑکائے اس کا وہ کوئی جواب نہیں دیتے۔خدا کے کلام کی سادہ آگاہی جو ان کی ابدی دلچسپی کا باعث ہے۔اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔AK 447.3

    ہر حقیقی تبدیل شدہ روح کے نزدیک خدا کے ساتھ ناطہ اور ابدی چیزیں اس کی زندگی کا بڑا موضوع ہوں گے۔ لیکن اب کہاں ہر دلعزیز کلسیاؤں میں خدا کے لیے مخصوصیت کی روح پائی جاتی ہے؟ تبدیل ہونے والے فخرو گھمنڈ اور دنیا کو ترک نہیں کرتے۔ وہ اپنی تبدیلی سے پہلے خود انکاری کر کے صلیب اٹھانے کے لیے رضامند نہیں ہوتے تاکہ اپنے حلیم اور خا کسار آقا کی پیروی کریں ۔مذہب اب بے ایمانوں کی مدد کا ذریعہ بن گئے ہیں کیونکہ بہتیرے جو اپنے اوپرمذہب کا لیبل لیتے ہیں وہ اس کے اصولوں سے بالکل بے بہرہ ہیں۔ خدا ترسی کی قوت بہت سے کليسياؤں سے جاتی رہی۔ پکنکس(picnics)،کليسيائ تھيٹريکل،کليسيائ فيئرز (Fairs) -اعلے گھروں اور ذاتی نمود و نمائش نے خداوند کے بارے خيالات کو ختم کرديا ہے. زمينوں،مال ودولت ،گھريلوسازوسامان اور دنيوی خيالات دلوں ميں بھر چکے ہيں اور وہ چيزیں جو ابدی دلچسپی کا باعث ہيں کی طرف شاذ و نادر ہی دھيان جاتاہے۔ AK 447.4

    اس کے باوجود کہ ایمان اور پارسائی میں وسیع پیمانے پر انحطاط ہے ،پھر بھی ان کلسیاؤں میں خدا وند مسیح کے حقیقی پیروکار موجود ہیں ۔زمیں پر خدا وند کی آخری عدالت سے پہلے خدا کے لوگوں میں پہلے جیسی خدا ترس جدید بیداریاں آئے گی جو رسولوں میں آئی تھی،روح اور خدا کی قوت اس کے بچوں پر نازل ہو گی اور بہتر ے اس وقت ان کلسیاؤں سے الگ ہو جائیں گے جن میں اس دنیاکی محبت نے خدا اور اس کے کلام کی محبت کی جگہ لے رکھی ہے ۔بہت سے خدام اورلوگ بری خوشی سے ان صداقتوں کو قبول کر لیں گے جو اس وقت مسیح کی آمد ثانی کے تیار کرین گے روحوں کا دشمن اس کام کو روکنے کی کوشش کرے گا۔وہ یوں ظاہر کرے گا جیسے یہ خدا کی قدرت سے معرض وجود میں آیا ہے اور یہ خدا کی طرف سے خاص برکا ت ہین ۔وہاں وہ سب کچھ کرے گا جس کو بری مذہبی دلچسپی سمجھا جاتاہے۔عوام یہ سمجھ کر پھولے نہ سمائیں گے کہ خداوند ان کے لیے بڑے عجیب و غریب کام کر رہا ہے ۔جب کہ اس کے کرنے والی اور ہی روح ہے۔ مذہبی لبادہ پہن کر ابلیس مسیحی دنیا پر اپنا اثر و رسوخ بڑھائے گا۔AK 447.5

    بہت سی تجدید احیاء مذہب جو گزری نصف صدی میں وقوع پذیر ہوئی تھیں ان پر تھوڑا یا زیادہ یہی اثر دیکھا گیا ہے ۔جس کا مظاہرہ مستقبل کی تحریک میں زیادہ شدت سے ہو گا۔ بہت ہی زیادہ جزباتی اشتعال جھوٹ اور سچ دونوں کو ملا کر پیدا کیا گیا ہے جو بہت اچھی طرح سے گمراہ کر سکتا ہے۔ مگر کسی کو بھی دھوکا کھانے کی ضرورت نہیں۔خدا کے کلام کی روشنی میں یہ جاننا ہر گز مشکل نہیں کہ تحریکیں کس قسم کی ہیں جہاں کہیں بھی لوگ بائبل کی شہادت کو نظر انداز کرین گے اور ان سادہ روحوں کو پرکھنے والی صداقتوں سے انحراف کریں گے۔AK 448.1

    اپنے کلام کی صداقتوں میں خدا نے بنی نوع انسان کا اپنا مکاشفہ عطا فرمایا فرمایا ہے۔ اور وہ سب جو اس کو ماننتے ہیں وہ ان کے لیے ابلیس کے دھوکوں کے خلاف ڈھال ہے۔ یہ ان صداقتوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے جس نے بدی کے لیے دروازے کھول دئے ہیں جو اب مذہبی دنیا پر چھا گئی ہے خدا کی شریعت کی اہمیت کو بھال دیا گیا ہے اس کی خاصیت ،اس کی دائمی ہانا اور الہٰی شریعت کے بارے ہمارے ذمہ داری کے غلط قیاس نے تبدیلی اور مخصوصیت دونوں کو گمراہ کیا ہے۔ اس کے نتیجہ میں چرچ کے اند پاکیزگی اور خدا ترسی کے معیار کو گرا دیا گیا ہے۔ ہمارے زمانے میں تجدید احیاء مذہب میں خدا کی قوت اور اس کی روح کی کمی پائے جانے کا راز اس میں پوشیدہ ہے۔AK 448.2

    مختلف کلسیاؤں میں ایسے مرد موجود ہیں جو اپنی پارسائی کے لیے مانے جاتے ہین اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں اور کف افسوس ملتے ہیں ۔پروفیسر ایڈورڈ۔اے۔پارک نے اس موجودہ زمانے کے مذہبی اندیشے کے بارے میں سچ فرمایا۔ ایک تو خطرے کا ذریعہ پلپٹ ہے جو الہیٰ شریعت کے نفاذ کو نظر انداز کرنا ہے۔قدیم زمانہ میں ضمیر کی آواز سے پلپٹ گونجتا تھا۔ ہمارے بہت سے مثالی خادموں نےيسوع مسيح کے نقش قدم پر جلنے کی اعلے مثاليں قاہم کيں اورشريعت،قوانين اوراس کی دھمکيوں کو بڑی اہمیت دی۔یہ گناہ کی بدی کو کمتر خیال کرنے کے خطرے کی طرف لیجاتے ہیں۔ یہ اس کی وسعت اور اس کے نقصان کو خفیف کر کے پیش کرتا ہے۔ از راہِ تناسب احکامات کی بجا آوری کرنے والوں کی نسبت احکامات توڑنے والوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔AK 449.1

    و ہ خطرات جو اس کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور جنکا تذکرہ پیشتر کر دیا گیا ہے وہ خدا کے انصاف کا بہت ہی کمتر تخمینہ لگاتے ہین۔جدید پلپٹ کا یہ رجحان ہے کہ وہ الہیٰ انصاف کوالہیٰ فیض رسانی سے علیحدہ کر دے۔ خیر خواہی کے اصول میں سرفراز کرنے کی بجائے اسے جذبات مین ڈبو دیا جائے۔نئی تھیالوجیکل منشور یہ ہے کہ جسے خدا نے جوڑا ہے اسے توڑیں۔کیا الہٰی شریعت اچھی ہے یا بری؟ یہ اچھی ہے پھر انصاف بھی اچھا ہے۔ انسان عادتاً الہیٰ شریعت اور انساف کا کم تخمینہ لگاتے ہیں۔AK 449.2

    یوں انجیل انسانوں کے اذہان میں اپنی قدر و منزلت اور اہمیت کھو دیتی ہے اور پھر وہی عملی طور پر بائبل کو ایک طرف پھیکنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔AK 449.3

    کئی مذہبی ٹیچر دعویٰ کرتے ہیں کہ مسیح نے اپنی موت کے ذریعہ شریعت کو معطل کر دیا ہے اور بنی نوع انسان اب اس کے مطالبات سے آزاد ہین۔بعض اس المناک جواء کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔اور شریعت کی غلامی کے برعکس وہ اس آزادی کو پیش کرتے ہیں جس سے انجیل کے زیر سایہ یہ لطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔مگر اس طرح خدا وند کے نبیوں اور رسولوں نے خدا کی شریعت کو سمجھا۔داؤد نے فرمایا۔میں آزادی سے چلوں گا کیونکہ میں تیرے قوانین کا طالب رہا ہوں۔زبور45:119AK 450.1

    یعقوب رسول جس نے مسیح یسوع کی موت کے بعد لکھا۔ تو بھی اگر اس نوشتہ کے مطابق کہ اپنے پڑوسی سے اپنی مانند محبت رکھ اس بادشاہی شریعت کو پورا کرتے ہو تو اچھا کرتے ہو۔ یعقوب8:2 لیکن جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اس لیے برکت پائے گا کہ سن کر بھولتا نہین بلکہ عمل کرتا ہے۔ یعقوب 25:1AK 450.2

    یوحنا عارف مسیح کی صلیبی موت کی نصف صدی بعد انہیں با برکت قرار دیتا ہے۔ مبارک ہین وہ جو اپنے جامے دھوتے ہیں کیونکہ زندگی کے درخت کے پاس آنے کا اختیار پائیں گے اور ان دروازوں سے شہر میں داخل ہوں گے۔مکاشفہ 14:22 AK 450.3

    یہ دعوی کہ مسیح نے اپنی موت کے ذریعہ اپنے باپ کے احکام کو قلم زد کر دیا بے بنیاد ہے۔ اگر یہ ممکن ہا تا کہ شریعت کو تبدیل یا معطل کیا جا سکتا ہے تو انسان کو گناہ کی سزا سے بچنے کے لیے مسیح یسوع کو مرنا نہ پڑتا۔مسیح یسوع کی موت نے شریعت کو معطل کر دیا یہ بات بعید القیاس ہے۔بلکہ مسیح کی موت ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ شریعت دائمی ہے۔خدا کا بیٹا اس لیے آیا تا کہ ‘شریعت کو بزرگی دے اور اسے قابل تعظیم بنائے۔’ یسعیاہ21:42 اس نے فرمایا’’یہ نہ سمجھو کہ تو ریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ تو ریت سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔ ‘’متی 18:17 اور اپنے بارے وہ یوں فرماتا ہے’’اے میرے خدا ! میری خوشی تیری مرضی پوری کرنے میں ہے بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔ ‘’زبور8:40۔AK 450.4

    خدا کی شریعت اپنی فطرت صفات کے لحاظ سے لا تبدیل ہے۔یہ اپنے مصنف کی سیرت اور اس کے منشا کا مکاشفہ ہے چونکہ خدا محبت ہے اور اس کی شریعت محبت ہے ۔اس کے دوبڑ ے اصول یہ ہیں کہ خدا کو پیار کرو اور بنی نوع انسان کو پیار کرو۔ محبت شریعت کی تعمیل ہے۔ “رومیوں10:13۔ خدا کی سیرت راستبازی اور صداقت ہے۔ اسی کے مطابق اس کی شریعت کا سبھاؤ ہے۔ زبور نویس فرماتا ہے ”;تیری شریعت برحق ہے“۔ زبور142:119۔” تیرے فرمان برحق ہیں زبور172:119 ۔ اور رسول یوں فرماتا ہے ”پس شریعت پاک ہے اور حکم بھی پاک اور راست اور اچھا ہے۔“رومیوں12:7۔ ایسی شریعت خدا وند کی مرضی کا اظہار ہے یقیناً اپنے منصف کی طرح یہ بھی ابدی ہے۔AK 450.5

    تبدیلی اور تقدس انسان کو خدا کے ساتھ ملانے کا ذریعہ ہیں اور یہ شریعت کے اصولوں کے سبب ایک دوسرے کو متحد کرتے ہیں ۔ابتدا میں انسان خدا کی شبیہ پر پیدا کیا گیا ۔وہ خدا کی سیرت اور اس کی شریعت سے مکمل مطابقت رکھتا تھا۔وہ پھر خدا سے شبیہ کو منعکس کرنے سے قاصر ہو گیا۔اس کا دل خدا کی شریعت کے خلاف بر سر پیکار ہو گیا۔ اس لیے جسمانی نیت خدا کی دشمنی ہے کیونکہ نہ تو خدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔”رومیوں7:8۔ مگر خدا وند نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا ۔نہ ہو سکتی ہے۔ رومیوں 7:8۔ تا کہ آل آدم خدا کے ساتھ الھاق کر سکے۔ مسیح یسوع کو اوصاف کے سبب وہ اپنے خالق سے الحاق کر کے بحال ہو سکاتا ہے۔ اس کا دل الہیٰ فضل سے نیا بنتا لازم ہے ۔اسے آسمان کی طرف سے نئی زندگی ملنا لازم ہے۔یہ تبدیلی نئی پیدائش کے مترادف ہے ۔یسوع مسیح نے کہا کہ اس کے بغیر کوئی خدا بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔AK 451.1

    خدا کے ساتھ ملاپ کرنے کا پہلا قدم گناہ کا قرار کرنا ہے۔”گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے“ یوحنا4:3۔ گنہگار کو اپنے گناہ دیکھنے کے لیے اپنا چال چلن کو خدا کی راستبازی کے معیار سے جانچنا چاہیے۔ یہ آئینہ ہے جو راست چالچلن کی کاملیت دکھاتا اور خامیوں کے بارے آگاہ کرتا ہے۔AK 451.2

    شریعت انسان پر اس کے گناہ عیاں کرتی ہے مگر اس کا عکاج مہیا نہیں کرتی۔یہ وفا دار کو زندگی کا وعدہ دیتی ہے۔یہ بیان کرتی ہے کہ موت شریعت کو توڑنے والے کا بخرہ ہے۔مسیح یسوع کی انجیل ہی اسے گناہ کی لعنت سے بچا سکتی ہے۔مگر خدا وند سے معافی کا طالب ہونا ازحد ضروری ہے جس کی اس نے شریعت توڑی ہے اور اسے مسیح کے کفارہ کی قربانی میں ایمان رکھنا ہے۔یوں اپنے ماضی کے گناہوں سے علمی ھاصل کر سکتا ہے اور الہیٰ سیرت کا حصہ بن سکتا ہے۔ وہ خدا کا بچہ ہے اور خدا نے اسے اپنا لے پالک بنا لیا ہے اسی کے لیے وہ اسے ”ابا یعنی باپ“کہہ کر پکارسکتا ہے۔AK 451.3

    کیا اب وہ خدا کی شریعت توڑنے میں آزاد ہے؟رسول فرماتا ہے’’کیا شریعت کو ایمان سے باطل کرتے ہیں ؟ ہر گز نہیں بلکہ شریعت کو قائم رکھتے ہیںAK 452.1

    ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اس میں آئندہ کو زندگی گزاریں’’رومیوں31:3 رومیوں2:6۔ یوحنا فرماتا ہے ‘’خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کریں اور اس کے حکم سخت نہیں’’یوحنا3:5۔ نئی پیدائش میں دل کو خدا کی ہم آہنگی میں لایا جاتا ہے۔ جو نہی اسے خدا کی شریعت کے ساتھ جورا جاتا ہے گنہگار کے باطن میں بڑی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے اور وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہو جاتا ہے۔پھر شریعت کی راستبازی ہمارے باطن کو معمور کر دیتی ہے تا کہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں۔ رومیوں4:8۔ تب پھر ہماری روح پکار اٹھے گی۔ آہ میں تیری شریعت سے کیسی محبت رکھتا ہوں ۔ مجھے دب بھر اس کا دھیان رہتا ہے۔ زبور97:119۔AK 452.2

    خدا وند کی شریعت کامل ہے ۔وہ جان کو بھال کرتی ہے۔ زبور7:19۔ شریعت کے بغیر انسان کو خدا کے تقدس اور پاکیزگی کا کچھ اندازہ نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی اسے اپنی خطا اور نجاست سے اگاہی ہو سکتی ہے۔ یوں انسان کو گناہ کی قابلیت کا احساس تک نہیں ہوتا اور توبہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ خدا کی شریعت توڑنے والے اپنی بدھال کیفیت کو نہیں دیکھ سکیں گے اور نہ ہی مسیح یسوع کے خون کی ضرورت محسوس کریں گے جو ان کے گناہ گاروں کا کفارہ ہے، دل کی معقول تبدیلی کے بغیر نجات کی امیدیوں کو قبول کر لیا جاتا ہے۔ یو ں سطحی تبدیلی کاف سمجھ لیا جاتا ہے۔AK 452.3

    تقدس کے غلط نظریات خدا کی شریعت کو نظر انداز کرنے سے ابھرے رہے ہین جن کا آج کی مذہبی تحریکوں میں برا عمل دخل ہے۔یہ نظریات کتاب مقدس کی تعلیمات کے مطابق جھوٹی اور عملی نتائج کے لحاظ سے خطرناک ہیں۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ عوام انہیں بہت چاہتے ہیں۔اور فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ جو کچھ نوشتے سکھاتے ہیں ہمیں ان کی بڑی سوجھ بوجھ ہے۔AK 452.4

    سچی تقدس تو صرف بائبل کی تعلیم ہے۔تھسلنیکیوں کا کلیسیاکو پولس لکھتے ہوئے فرماتا ہے’‘ چنانچہ خدا کی مرضی ہے کہ پاک بنو پھر دعا کرتا ہے کہ خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے آپ ہی تم کو پاک کرے۔’‘ تھسلنیکیوں23:5,3:4AK 452.5

    کتاب مقدس بڑی صفائی سے بتاتی ہے کہ تقدس کیا اور اسے کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ نجات دہندہ نے اپنے شاگردوں کے لیے یوں دعا کی انہیں سچائی کے وسیلہ سے مقدس کر۔ تیرا کلام سچائی ہے۔ یوحنا 17:17۔ پولس رسول سکھاتا ہے کہ ایماندار روح القدس سے مقدس بن جائیں۔ رومیوں16:15روح القدس کا کیا کام ہے؟ مسیح یسوع نے اپنے شاگرد وں کو بتایا۔AK 453.1

    لیکن جب وہ یعنی حق روح حق آئے گا تو تم سچائی کی رایہ دکھائے گا یوحنا13:16 اور زبور نویس فرماتا ہے۔’’’تیرا کلا م سچائی ہے۔ خدا کے پاک کلام نے عظیم اصولات واضح کیے ہیں جو اس کی شریعت میں پائے جاتے ہیں، چونکہ خدا کی شریعت پاک اور راست اچھی ہے اور الہیٰ کی ملیت کا عکس ہے اس لیے جو کردار تابعداری سے اتوار رہے گا وہ بھی پاک ہو گا اس کردار کا مسیح کامل نمونہ ہے۔AK 453.2

    میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے’’میں ہمیشہ وہی کام کرتا ہوں جو اسے پسند آتے ہیں۔ْ یوحنا29:8,10:115AK 453.3

    مسیح یسوع کے پیروکاروں کو اس کی مانند بنتا ہے۔خدا کے فضل سے ایسا چال چلن اتوار کرنا ہے جو خدا وند کیم قدس شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے ۔یہ بائبل کے مطابق تقدیس ہے۔AK 453.4

    یہ کام صرف مسیح میں ایمان رکھنے اور خدا وند کی کی بسیرا کرنے والی روح کی وقت سے انجام پا سکتا ہے پولس رسول ایمانداروں کو نصیحت کرتا ہے۔ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کئے جاؤ۔کیونکہ جو تم نے نیت او ر عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لیے پیدا کرتا ہے وہ خدا ہے AK 453.5

    ہر مسیحی گناہ کے اشتعال کو محسوس کرے گا اور وہ ہر وقت اس کے خلاف بر سر پیکار رہے گا۔یہی وہ مقام ہے جہاں مسیح یسوع کی ضرورت درکار ہے۔ انسانی کمزوری الہیٰ قوت کے ساتھ متحد ہو جاتی ہے۔مگر خدا وند کا شکر ہے جو ہمارے خدا وند یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہم کو فتح بخشتا ہے۔ کرنتھیوں57:15 AK 453.6

    پاک نوشتے بڑی صفائی سے بیان کرتے ہیں کہ تقدس کا کام، بتدریج بڑھنے والا کام ہے۔ اب تبدیل ہو کر گنہگار خدا کے ساتھ کفارہ کے خون کے ذریعہ سلامتی حاصل کر لیتا ہے تو اس وقت سے اس کی مسیحی زندگی شروع ہو جاتے ہے ۔اب اسے کاملیت کی طرف گامزن ہونا اور بڑھنا ہے تاکہ وہ مسیح کے قد کے اندازہ تک پہنچ سکے۔ پولس رسول فرماتا ہے’’میرا گمان یہ نہیں کہ پکڑ چکا ہوں بلکہ صرف یہ کرتا ہوں کہ جو چیزیں پیچھے رہ گئیں ان کو بھول کر آگے کی چیزوں کی طرف بڑھا ہوا نشان کی طرف دوڑا ہوا جاتا ہوں۔ تاکہ اس انعام کو ھاصل کروں جس کے لیے خدا نے مجھے مسیح یسوع میں اوپر بلایا ہہے۔ فلپیوں14:13:2۔ ا ور پطرس رسول ہمارے سامنے ایسے اقدام رکھتا ہے جن کے ذریعہ پاکیزگی حاصل ہو۔ کمال کوشش کر کے اپنے ایمان پر نیکی اور نیکی پر معرفت ، معرفت پر پرہیز گاری ،اور پرہیز گاری پر صبر، اور صبر پر دینداری۔ کیوں کہ اگر ایسا کرو گے تو کبھی ٹھوکر نہیں کھاؤ گے۔ 2پطرس10,7-5:1۔AK 453.7

    جنہیں بائبل کے مطابق کا تجربہ حاصل ہوا ہے وہ فروتنی کی روح کا مظاہرہ کریں گے ۔موسیٰ کی طرح انہوں نے خدا وند خدا کے کامل تقدس کو دیکھ لیا اور انہیں اس کے برعکس اپنی نا اہلیت کا اندازہ ہوا اور لا محدود قادرِ مطلق کو جلال دیا۔AK 454.1

    دانی ایل نبی حقیقی تقدس کا نمانہ ہے اس کی زندگی اپنے آقا کی خدمت سے بھر پور بھی۔وہ ایسا شخص تھا جسے خدا وند بہت پیار کرتا تھا دانی ایل 11:10 مگر خود کو پاک اور مقدس طاہر کرنے کی بجائے اس معزز نبی نے خود کو گنہگار نبی اسرائیل کے برابر سمجھا جن کے لیے وہ خدا وند سے التجا کر رہا تھا۔ اے میرے خدا ہم ‘’تیرے حضور اپنی راسبتازی پر نہین بلکہ تیری بے نہایت رحمت پر تکیہ کر کے مناجات کرتے ہیں۔ ہم نے گناہ کیا ہم نے شرارت کی۔ وہ اعلانیہ کہتا ہے۔ میں یہ کہتا اور دعا کرتا اور اپنے اور اپنی قوم اسرائیل کے گناہوں کا اقرار کرتا تھا’’اور جب بعد میں AK 454.2

    خدا کا بیتا اسے ہدایت دینے کے لیے نمدار ہوا تو دانی ایل فرماتا ہے’میری تازگی پڑ مردگی سے بدل گئی اور میری طا قت جاتی رہی’’دانی ایل 20, 15, 18:9دانی ایل8:10AK 454.3

    جب ایوب نے خدا وند کی آواز بگولے میں سے سنی تو پکارا ٹھا’مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور میں خاک اور راکھ میں تابہ کرتا ہوں’’’ایوب6:42جب۔ یسیعاہ نبی نے خدا کے جلال کو دیکھا اور سرافیم کو یوں پکارتے سنا’’’قدوس قدوس رب الافواج ہے ساری زمین اس کے جلال سے معمور ہے’’’مجھ پر افسوس ہے! میں تو برباد ہوا۔یسیعاہ5,3:6۔ اور جب رسول تیسرے آسمان تک اٹھایا گیا تو اس نے وہاں ایسی چیزیں دیکھیں جن کا بیان کرنا انسان کو روا نہیں تو پھر یوں پکار اٹھا۔AK 454.4

    جو صلیب کے سایہ تلے چلتے ہیں وہ اپنی بزرگی نہیں چاہتے اور نہ ہی گھمنڈ کرتے ہیں کہ وہ گناہ سے آزاد ہو گئے ہیں بلکہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے گناہوں کے سبب ہی خدا کے بیٹے کا دل کرچی کرچی ہوگیا اور یہی خیال انہیں اپنی کمزدریوں کی طرف لے آتا ہے۔ جو مسیح یسوع کے قریب تر رہتے ہیں وہ بڑے ہی واضح طور پر انسانی کمزوریوں اور گناہ آلودہ زندگی کو دیکھ پاتے ہیں ،اور ان کی واحد امید مسیح مصلوب اور مردوں میں سے زندہ ہونے والے آقا میں ہی پائی جاتی ہے۔AK 455.1

    مذہی دنیا میں تقدیس اب نمایاں مقام حاصل کررہی ہے مگر یہ خودپسندی اور خودستائی کو بھی اپنے ہمراہ لا رہی ہے۔ اور یہ خدا کی شریعت کو انداز کرتی ہے جو یہ طے کرتی ہے کہ ان چیزوں کو بائبل کے مذہب سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور اس کا وکالت کرنے واے کہتے ہیں کہ تقدیس تو ایک لمحہ کا کام ہے جو فوراََصرف ایمان کے ذریعہ ہوسکتا ہے۔ وہ کامل پاکیز گی حاصل کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا کہ ‘‘ صرف ایمان رکھو اور برکت آپ کی ہو جائیں گی‘‘اس کے علاوہ تقدیس حاصل کرنے والے کو کوئی تردو کرنے کی ضرورت نہیں ۔مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ خدا کی شریعت کا انکار کرتے ہیں۔اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ شریعت مانے کے تمام فرائض سے چھوٹ گئے ہیں ۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ بنی نوع انسان خدا کی مرضی اور اس کی سیرت کے مطابق مقدس اور پاک ہوسکتے ہیں جب کہ وہ اس کے ان اصولوں کے ہم آہنگ نہیں ہیں جو خدا کی مرضی اور سیرت کا اظہار ہیں اور یہ عیاں کرتے ہیں کہ خدا وند کو کیا پسند آتا ہے؟AK 455.2

    آسان مذہب کی خواہش جس کے کچھ مطالبات نہ ہوں ۔ جس کے لیے کچھ ودونہ کرنا پڑے ۔ نہ اس کے لیے خود انکاری اور نہ ہی دنیا کی حماقتو ں کو چھوڑنا پڑے ۔ اس بات نے ‘’ایمان ‘‘ اور صرف ایما ن کی تعلیم کو ہر دلعز یز بنا رکھا ۔مگر خدا وند کا پا ک کلا م اس با رے کیا فر ما تا ہے ؟ یعقوب رسول یوں گو یا ہے ‘‘ اگر کو ئی کہے میں ایماندار ہوں بگر عمل نہ کر تا ہو تو کیا فا ئدہ ؟ کیا ایسا ایمان اسے نجا ت دئے سکتا ہے ؟ مگر اے نکمے آدمی !کیا تو یہ بھی نہیں جا نتا ایما ن کے بغیر اعمال بے کا ر ہے ؟ جب ہما رے با پ ابرا ہم نے اپنے بیٹے اضحاق کو قر با ن گا ہ پر قر بان کیا تو وہ کیا اعما ل سے رستبا زانہ ٹھہرا ؟ پس تو نے دیکھ لیا کہ ایمان نے اس کے اعمال کے ساتھ مل کر اثر کیا اور اعمال سے ایمان کا مل ہوا ۔ پس تم نے دیکھ لیا کے انسان صرف ایمان ہی سے نہیں بلکہ اعما ل سے رستبا ز ٹھہر تا ہے ۔یعقو ب 24/14:2۔AK 455.3

    ایمان بغیر اعمال کے فریب دینے والی تعلیم ہے اور کلام مقدس کی شہا دت اس کے خلا ف ہے یہ ایمان نہیں ہے جو آسمان سے رحم کا دعویٰ ان شرا ئط کو ما ننے بغیر کر تا ہے جن کی بدو لت خدا وند اپنا رحم عنا یت کر تا ہے ۔ یہ محظ مفروضہ ہے کیو نکہ حقیقی ایمان کی بنیا د وعدوں اور پا ک نو شتوں سے مشروط ہے AK 456.1

    کسی کو بھی دھو کے میں نہیں رہنا چا ہیے کہ وہ خدا کا کو ئی بھی مطا لبہ جان بوجھ کر نظر اندا ز کر کے پا ک اور مقدس ہو سکتا ہے ۔بے با کی کا گنا ہ گوا ہی دینے کی روح کو خا موش کر دیتا ہے اور انسان کو خدا سے جدا ‘’گناہ شرہ کی مخالفت ہی ہے ‘‘ جو کو ئی گنا ہ کر تا ہے نہ اس نے اسے دیکھا ہے نہ جا نتا ہے ‘‘ 1یو حنا 6.3 وہ یو حنا زیا دہ تر اپنے خط میں محبت بر قرا ر کر تا ہے مگر وہ ان کی ملا مت کر نے سے نہیں کترا تاجو شر یعت کی مخا لفت کر کے خود کو مقدس جتا تے ہیں۔AK 456.2

    ’’ پر عمل کرے اس میں یقیناًخدا کی محبت کامل ہو گی ۔ ایک یو حنا 5/4:2۔ یہاں ہر شخص کے اظہار و اقرا ر کا امتحا ن پا یا جا تا ہے ۔ ہم کسی بھی شخص کو تقدیس سے منسلک نہیں کر سکتے جب تک کے ہم اس خدا کی اس تقدیس کے معیا ر کے قریب نہیں لا تے جو آسمان اور زمین میں قا ئم ہے۔ اگر انسان اخلا قی شریعت کی پر واہ نہیں کر تے اور خدا کے فرا مین کو ہیچ جا نتے ہیں اور اگر وہ ان چھو ٹے سے چھو ٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑ دیتے ہیں تو ،آسمان کی نظر میں ایسے انسا نو ں کی کو ئی وقعت نہیں ۔ ہم جان سکتے ہیں ان کے دعو ے بے بنیا د ہیں ۔AK 456.3

    کسی کا یہ دعویٰ کہ وہ گناہ سے مبرا ہے ، یہ خود سے ایسا ثبوت ہے کہ دعویدار تقدیس سے کو سوں دور ہے اور یہ اس لیے ہے کہ اسے خدا کی لا محدود پا کیزگی اور پا ر سا ئی کا ادرا ک ہے ، یا اُسے یہ بھی علم نہیں کہ جس کو سیرت کے ہم آہنگ بننا ہے اسے کس طرح کا ہونا لازم ہے اسے مسیح یسوع کی پاکیزگی اور اعلی شفقت کا علم ہی نہیں اور نہ ہی اسے گناہ کی تباہی کا احساس ہے۔مسیح یسوع اور اس کے درمیان جس قدر زیادہ فاصلہ ہو گا اس کا فہم اتنا ہی خدا کی سیرت اور اس کے مطالبات کو سمجھنے سے قاصر ہو گا۔ حلانکہ وہ اپنی ہی نظروں میں میں بہت برا استباز بن کر دکھائی دے گا۔AK 456.4

    وہ تقدس جو کلام مقدس نے قائم کی ہے وہ پورے انسان یسنی روح ،جان اور بدن کی تقدس ہے۔ پولس رسولنے تھسلنیکیوں کی کلیسیا کے لیے خدا جو اطمینان کا چشمہ ہے آپ ہی تم کا بالکل پاک کرے اور تمہاری روح اور جان اور بدن ہمارے خدا وند مسیح یسوع کے آنے پورے پورے اور بے عیب محفوظ رہیں ۔ تھسلنیکیوں23:5 وہ پھر ایمانداروں کو لکھتا ہے۔پس اے بھائیوں! میں خدا کی رحمتیں یاد دلاتا کر تم سے التماس کرتا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لیے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسند یدہ ہو۔ رومیوں1:12۔AK 456.5

    قدیم وقتوں میں بنی اسرائیل جو بھی خدا کے سامنے گزرانتے اس کی اچھی طرح جانچ پرتال کی جاتی ہے۔اگر جانور میں کسی طرح کا نقص پایا جاتا تو اسے نامنظور کیا جاتا۔ کیونکہ خدا وند نے نذرانوں کے بارے حکم دے رکھا تھا کہ ‘’قربانی بے داغ ہو’’اس لیے مسیحیوں کو حکم ہے کہ وہ اپنے بدن زندہ قربانی کے طور پر پیش کریں جو پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ ایسا کرنے کے لیے ان کی تمام قوا ء کو بہترین طریقہ ست محفوظ کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی عمل جو انسانی یا ذہنی طور کمزور کرنے کا باعث ہو، وہ انسان کو خدا کی خدمت کے نا اہل بنا دیا جاتا ہے۔ مسیح یسوع نے فرمایا! تو خدا وند اپنے اسے اپنے پورے دل سے پیار کر’’وہ جو خدا وند کو اپنے پورے دل سے پیار کرتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کی بہترین خدمت پیش کرنا چاہیں گے۔ وہ اپنی ہر اقواء کو مسلسل خدا کی شریعت کے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں رہیں گے۔AK 457.1

    پطرس رسول کہتا ہے کہ ‘’’ان جسمانی خواہشوں سے پرہیز کرو جو روح کی لڑائی رکھتی ہیں۔ پطرس11:2؂AK 457.2

    ہر گناہ بھری خواہش صلاحیت کو بے حس اور ذہنی اور روحانی ادراک کو ہلاک کر دیتی ہے اور پھر خدا کا کلام یا روح دل پر بہت ہی کم اثر کرتا ہے۔ پولس رسول لکھتا ہے’’’آؤ ہم اپنے آپ کو ہر طرح کی جسمانی اور روحانی آلودگی سے پاک کریں اور خدا کے خوف کے ساتھ پاکیزگی کو کمال تک پہنچائیں۔2کرنتھیوں1:7AK 457.3

    اس سرگرم حتمی بیان کے باوجود بیان کتنے ہی مسیحی اپنی قواء کو فیشن کی پرستش کر کے کمزور کر رہے ہیں۔ کتنے ہیں جو بسیاری کے سبب خدا کے لائق اپنی مردی کو ذلیل کر رہے ہیں اور چر چزان کی ملامتکر نے کی بجائے ان کی ان بدکاریوں کی ہمت افزائی کر ہرے ہیں۔اگر مسیح یسوع آج ان کلسیاؤں میں داخل ہو اور ان کی ضیافتوں اور نجش خریدو فروخت کو دیکھے کو وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں۔ تو کیا ان بے حرمتی کرنے والوں کو اس طرح نہ مار بھگائے گا جس طرح اس نے ہیکل میں خریدو فروخت کرنے والوں کو نکال دیا تھا۔ متی13:21 AK 458.1

    یعقوب رسول فرما تا ہے کہ جو حکمت اوپر سے آتی ہے اول تو وہ پاک ہوتی ہے کیا اس نے ان کی ملامت کی ہے جو مسیح یسوع کا پاک اور قیمتی نام اپنے لبوں پر لیتے ہیں جو تمباکو کے سبب نجس ہو چکیہیں۔ انن کے اردگرد جتنے بھی ہوتے ہیں ان کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ اس زہریلی ہوا میں سانس لیں ۔اگر رسول اس طرح کے ماحول میں ائے جو انجیل پاکیزگی کو نجس کرے تو کیا وہ اسے شہوانی لعنتی نہ کہے گا؟ جو پاکیزگی کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی آسامانی امید کے بارے ساچئے۔ مکاشفہ27:21AK 458.2

    کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا بدن روح القدس کا مقدس ہے جو تم میں بسا ہوا ہے اور تم کو خدا کی طرف سے ملا ہے؟ اور تم اپنے نہیں کیونکہ قیمت خریدے گئے ہو۔ پس اپنے بدن سے خدا کا جلال ظاہر کرو۔ کرنتھیوں20-19:6 وہ جس کا بدن روح القدس کی ہیکل ہے وہ ضرور رساں عادات کا غلام نہیں بنے گا۔وہ کس طرح اس سرمایہ کو برباد کر کے بے قصور ٹھہر سکتا ہے؟ مسیح کا اقرار کرنے والے مسیحی سالانہ فضول اور نقصان دہ چیزوں پر خطیر وقرم خرچ کرتے ہیں۔ جب کہ روحیں زندگی کے کلام کے لیے تباہ ہو رہی ہیں۔ خدا وند کو دہ یکیوں اور ہدیوں میں تھگا جاتا ہے۔ مگر بے شما ر بے جا طور پر غیر ضروری چیزوں پر ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر مسیح یسوع کے سب حواری سچ مچ پاک اور مقدس بنیں تو ان کے ذرائع فضول اور نقصان دہ چیزوں پر خرچ ہونے کی بجائے خدا وند کے خزانہ بن جائیں۔ دنیا نفسپروری میں مگن ہے-AK 458.3

    جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی ‘’’یہ عوام الناس کو کنٹرومل کئے ہوئے ہیں مگر مسیض کے پیروکار کو پاک بننے کی بلاہٹ ہے۔ ان میں سے نکل کر الگ رہو اور ناپاک چیز چھوڑ دو’’’خدا وند کے کلا م کی روشنی میں ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اس وقت تک تقدیس کا کام حقیقی نہیں ہو سکتا جب تک جن گناہوں کا ذکر کیا گیا ہے انہیں تعک نہ کیا جائے۔اور جب تک دنیا کی خواہشات سے منہ نہ موڑا جائے۔AK 459.1

    اور جو اس شرط پر پورا اترتے ہین ان میں سے نکل کر الگ رہو’’’اور نا پاک چیز کو چھوؤ مت تو تم کو قبول کروں گا۔ اور تمہارا باپ ہوں گا۔ اور تم میرے بیٹے بیٹیاں ہو گے۔ہر ایک مسیحی کا یہ حق ہے کہ اسے خدا وند کی چیزوں میں بلثرت اور سیر حاصل تجربہ ہو، مسیح یسوع فرماتا ہے’’میں دنیا کا نو ہوں ،جو میری پیروی کرے گا وہ اندھیرے میں نہ چلے گا بلکہ زندگی کا نور پائے گا۔ یو حنا12:8AK 459.2

    صادقوں کی راہ نور سحر کی مانند ہے جس کی روشنی دوپہر تک بر ھتی ہے امچال18:4AK 459.3

    ایمان اور تابعداری کا ہر قدم انسان کو دنیا کے نور کے قریب کرتا ہے جس میں بالکل تاریکی نہین ۔راسبازی کے سورج کی کرنیں حق تعالیٰ کے خادموں پر چمکتی ہیں۔اور پھر وہ اس کی شعاعوں کو منعکس کرتے ہیں جیسے کہ ستارے ہمیں بتاتے ہیں کہ آسمان پر بہت بڑا نور ہے جو ہمیں منور کرتاہے۔مسیحیوں کو یہ اشکارا کرنا ہے کہ کل کائنات کے تخت پر خدا تخت نشین ہے ۔جس کی سیرت ہماری پرستش کی حقدار ہے۔ اس کی شہادت دینے والوں میں اس کی پاکیزگی ،پارسائی اور سیرت منعکس ہوگی۔AK 459.4

    پولس رسول کلیسیوں کی کلیسیاء خط میں ان برکات کا ذکر کرتا ہے جو خدا کے بچوں کو دی گئی ہیں۔ ہم بھی تمہارے واسطے یہ دعا کرنے اور درخواست کرنے سے باز نہیں آتے کہ تم کمال روحانی حکمت اور سمجھ کے ساتھ اس کی مرضی کے علم سے معمور ہو جاؤ۔اور اس کے جلال کی قدرت کے موافق ہر طرح کی قوت سے قوی ہو تے جاؤ تا کہ خواشی کے ساتھ ہر صورت سے صبر اور تحمل کر سکو۔ کلیسیوں11-9:1۔AK 459.5

    دوبارہ وہ افسس کے بھائیوں کو لکھتا ہے کہ اس کی خواہش ہے کہ آپ ایک مسیحی کے استحقا ق کی گہرائی کو سمجھ سکیں۔وہ ان کے سامنے نہایت ہی قابل فہم زبان میں قوت اور بصیرت کا بیان کرتا ہے جو باطن کو قوی تر بناتی ہیں۔جنہیں وہ خدا کے بیٹے اور بیٹیاں ہونے کے ناطے میں حاصل کر سکتے ہیں۔AK 459.6

    وہ اپنے جلال کی دولت کے موافق تمہیں یہ عنایت کرے کہ تم اس کے روح سے اپنے باطنی انسانیت میں بہت زور آور ہو جاؤ۔اور ایمان کے وسیلہ سے مسیح تمہارے دلوں میں سکونت کرے تا کہ تم محبت میں جڑ پکڑ کے اور بنیاد قائم کر کے، سب مقدسوں سمیت بخوبی معلوم کر سکو کہ اس کی چورائی اور لمبائی اور اونچائی اور گہرائی کتنی ہے۔ اور مسیح کی اس محبت کو جان سکو جو جاننے سے باہر ہے تا کہ تم خدا کی سارے معموری تک معمور ہو جاؤ۔ افسیوں19-16:3AK 460.1

    یہاں آشکارہ کیا گیا ہے کہ جب ہم اس کے مطالبات پورے کرتے ہین تو ہم ایمان کے ذریعہ اپنے آسمانی باپ کے وعدوں تک پہنچ سکتے ہیں۔جس نے اپنے بیٹے کو دریغ نہ کیا بلکہ ہم سب کی خاطر اس کو حوالہ کر دیا وہ اس کے ساتھ اور سب چیزوں پر بھی ہمیں کس طرح بخشے گا۔ رومیوں32:8 باپ نے اپنا روح بغیر ناپے اپنے بیٹے کو دے دیا۔ہم بھی اسی کی معموری میں شامل ہیں ۔ مسیح یسوع نے فرمایا ‘’’پس تم برے ہو کر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو آسمانی باپ اپنے مانگنے والوں کو روح القدس کیوں نہ دے گا۔ لوقا13:11۔AK 460.2

    اگرمیرے نام سے مجھ سے کچھ چاہو تو ہی وہی کروں گا۔’’اب تک تم نے میرے نام سے کچھ نہیں مانگا ۔ مانگو تو پاؤ گے تا کہ تمہاری خواہش پوری ہو جائے۔ یوحنا 14:14 یوحنا24:16AK 460.3

    ایک مسیحی کی زندگی انکساری اور عاجزی کی خوبی رکھتی ہے مگر اسے اداسی اوراپنی سبکی) تحقیر(نہ بنا لیں-ہر ایک کا استحقاق ہے کہ وہ اس کےمطابق زندگی گزارے جس کو خدا وند قبول کرے ہمارے آسمانی باپ کی ہرگز یہ مرضی نہیں ہے کہ ہم د لگیر, دکھی یا گناہ کے خوف تلے دبے رہیں. اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ حقیقی انکساری , سر جھکا کر چلنے اور اپنےبارے سو چتے رہنے کا نام ہے. ہم مسیح یسوع کےپاس جا کرپااک صاف ہوسکتےہیں. “پس اب جو مسیح یسوع میں ہیں ان پرسزا کا حکم نہيں.کيونکہ زندگی کے روح کی شريعت نے مسیح یسوع ميں مجھے گناہ اور شريعت سے آزاد کر ديا ``روميوں 1:8AK 460.4

    مسیح یسوع کے ذریعہ گناہ میں گرے ہوئے آدم کے بیٹے خدا کے بیٹے بن جاتے ہیں اس لیے کہ پاک کرنے والا اور پاک ہونے والا سب ایک ہی اصل سے پہیں۔ اس باعث وہ انہین بھائی کہنے سے نہیں شرماتا۔ عبرانیوں11:2 اس لیے ایک مسیحی کی زندگی خدا میں ایمان کے ذریعہ فتح مند اور خوشی و مسرت کی زندگی ہونی چاہیے’’’جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ دنیا پر غالب آتا ہے اور وہ غلبہ جس سے دنیا مغلوب ہے ہوئی ہے ہمارا ایمان ہے یوحنا4:5 خدا کے خادم نحمیاہ نے درست فرمایا’’خدا کی شادمانی تمہاری پناہ گاہ ہے۔ خدا وند میں ہر وقت خوش رہو۔ہر ایک بات میں شکر گزاری کرو۔ کیونکہ مسیح یسوع میں تمہاری بابت خدا کی یہی مرضی ہے۔ تھسلنیکیوں18.16:5AK 460.5

    تبدیلی اور تقدس بائبل کے پھل ہیں۔راستبازی کے جو غظیم اصولوں خدا کی شریعت میں رکھے گئے ہیں مسیحی دنیا یسے فرق انداز سے ہے اسی شاذونادر ہی ان کی زندگیوں میں یہ پھل دیکھے جاتے ہیں۔ اسی لئے جو گزرے سالوں میں تجدیدا حیا ء مذہب میں خدا کی روح کام کرتی اب وہ بہت ہی کم دیکھنے کو ملتی ہے۔AK 461.1

    ہم رحیم خداوند کی طرف تکنے سے ہی تبدیل ہو جاتے ہیں- اور ان قوانین میں جہاں رب العزت نے اپنی سيرت کی کامل پا کيزگی اورپارسائ انسان کے سامنے رکھی ہے ان کونظرانداز کرنے اور انسانوں کے نظريات اور تعليمات ميں دلچسپی رکھنے سے تعجب کی بات نئیں ہے کہ کلیسیا میں حقیقی پارسائ زوال پزیر ہے ۔ خداوند فرماتا ہے’’انہوں نے آب حيات کے چشمہ کو ترک کر ديا اوراپنے لئے حوض کھودے ہيں شکستہ حوض جن ميں پانی نھیں ٹھہرسکتا‘‘یرمياہ ۔13:2AK 461.2

    ’’مبارک ہے وہ آدمی جو آدمی جو شروں کی صلاحی پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھٹرا نہیں ہوتا۔بلکہ خداوند کی شریعت میں اس کی خوشنودی ہے اوراسی کی شریعت پر دن رات اس کا دھیان رہتا ہے۔وہ اس درخت کی مانندہ ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ۔جو اپنے وقت پر پھلتا ہے۔ اورجس کا پتہ بھی نہیں مرجاتا ۔سوجو کچھ کر ے باردر ہوگا‘‘زبور 3-1:1 ۔AK 461.3

    یہ اسی صورت میں ہوگا جب قادر مطلق خداوند کی شریعت کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا ، تب جا کر ماضی طرح خدا کے لوگوں میں بیداری آئے گی۔ خداوند فرماتا ہے۔ ‘‘ راستوں پر کھٹرے ہواور دیکھوں اور پرانے راستوں کی بابت پوچھو کہ اچھی راہ کہاں ہے؟ اسی پر چلو اور تمہاری جان راحت پائے گی‘‘ یرمیاہ 16:6 ۔AK 461.4

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents