Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    انتیسواں باب - مبدا (آغاز) گناہ

    بہتوں کے نزدیک گناہ کا مبدا اور اس کی موجودگی کی وجہ نہایت ہی پریشانی کا باعث ہے۔وہ بدیکا کام اور اس کے ہولناک نتیجہ کو دیکھتے ہیں جو تباہی و بر بادی اور دکھ کا باعث ہے اور وہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیونکر قادر مطلق کی بادشاہت میں ہو سکتا ہے جو حکمت،قوت اور قدرت اورمحبت سے بھرپور ہے، یہ وہ راز ہے جس کی انہیں وضاحت نہیں ملتی۔اپنی بے یقینی اور شکوک کی وجہ سے کلام مقدس کے اندر جو سچائیاں ظاہر کی گئی ہیں وہ انہیں دیکھ نہیں رہے جنہیں دیکھنا نجات کے لئے از حد ضروری ہے۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو گناہ کی موجودگی کے بارے جاننے کیلئے ان چیزوں میں تلاش کرنا چاہتے ہیں جنکو خدا نے کبھی آشکارا نہیں کیا- اس لئے ان کے پاس اپنی مشکلات کا کوئی حل نہیں اور یہ وہ ہیں جو شک کی روح میں بہہ کر خواہ مخواہ خدا کے پاک کلام کو رد کرنے کا بہانہ ڈھونڈتے ہیں،کچھ ایسے بھی ہیں جو گناہ کے مسلئے کو تسلی بخش حد تک نہیں سمجھتے۔ حقیقت یہ کہ روایات اور غلط تاویل و تفسیر نے بائبل کی تعلیم کو مبہم کر دیا ہے جو خدا کی فطرت ،سیرت اور اس کی حکومت کے بارے ہے اور ان اصولات کی بھی غلط تشریح کی ہے جن کے تحت خداوند گناہ کے ساتھ سلوک کرتا ہے-AK 474.1

    گناہ کے مبدا کو بیان کرنا ناممکن ہے اور اسی طرح اس کے وجود کی وجہ بیان کرنا بھی نا ممکن ہے۔تاہم اس کے آغاز اور گناہ پر حتمی کنٹرول کے بارے کافی واقفیت مہیا کی گئی ہے جس سے خدا وند کے انصاف اور گناہ کے ساتھ اس کا برتاؤ ظاہر کیا گیا ہے ۔ کلام مقدس میں بڑی صفائی سے سکھایا گیا ہے کہ خدا وند کسی بھی طرح گناہ کے جنم کا ذمہ دار نہیں۔نہ ہی الہٰی حکومت میں کوئی خرابی پائی گئی جو بغاوت کا موقع فراہم کرتی۔ گناہ زبر دستی مخل ہوا ہے۔ گویا یہ بن بلایا مہمان ہے۔ جس کی موجودگی کی کوئی وجہ نہیں دی جا سکتی۔ یہ پراسرار اور غیر زمہ دار ہے- اس سے چشم پوشی کرنا اسکا دفاع کرنا ہے- اگر اسکی وجہ معلوم ہو جائے، اور اس کے معرض وجود میں آنے کا بہانہ سمجھ میں آ جائے تو گناہ خود بخود ختم ہو جائے گا- ہم گناہ کی صرف یہی تعریف (Defination) جانتے ہیں جو خدا کے کلام میں دی گئی ہے- “یہ شریعت کی مخالفت ہے” یہ محبت کے عظیم اصول کے خلاف جنگ ہے جو الہی بادشاہت کی بنیاد ہے-AK 474.2

    گناہ کے داخل ہونے سے پہلے پوری کائنات میں امن سلامتی اور خوشی و مسرت تھی۔ ہر ایک شے خا لق خدا وند کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہے۔خدا کے لئے محبت سب سے مقدم اور عظیم تھی اور اسی طرح بنی نوع انسان کے لیے محبت اعلیٰ ترین شے تھی۔مسیح جو کلام ہے خدا کا اکلوتا بیٹا تھا۔وہ اور ابدی باپ ایک تھے۔ وہ فطرت ،سیرت اور مقصد میں ایک تھے۔ ساری کائنات میں صرف بیٹا ہی باپ کے مقاصد اور صلاح مشورے میں شریک ہو تا تھا۔ مسیح یسوع کے ذریعہ خدا وند نے کل آسمانی مخلوق کو تخلیق کیا- لکھا ہے“کیونکہ اسی میں سب چیزین پیدا کی گئیں۔ آسمان کی ہوں یا زمیں کی ۔ دیکھی ہوں یا اند یکھی ۔ تخت ہوں یا ریاستیں یا حکومتیں یا اختیارات سب چیزیں اسی کے وسیلہ سے اور اسی کے واسطے پیدا ہوئی ہیں” کلیسیوں 16:1۔ اور چونکہ مسیح یسوع باپ کے برابر تھا اس لئے تمام آسمان اس کا فرما نبردار تھا۔AK 475.1

    محبت کا قانون خدا کی حکومت کی بنیاد ہے اور تمام کائنات کی خوشی ومسرت کا انحصار اسی راستبازی کے عظیم اصول پر ہے- خداوند اپنی تمام مخلوق سے محبت کی خدمت کا خواہش مند ہے- ایسی عقیدت کا جو خدا کی سیرت کو سرائے- وہ کسی کو مجبور کر کے اپنا فرمانبردار بنانے میں خوشی محسوس نہیں کرتا ہے- وہ ہر ایک کو آزاد مرضی کی اجازت دیتا ہے تاکہ وہ اسے رضاکارانہ اپنی خدمت پیش کریں-AK 475.2

    مگر یہاں ایک ایسی ہستی تھی جس نے اس آزادی سے کجروی اختیار کرنے کا انتخاب کیا۔ گناہ اس سے صادر ہوا جو مسیح یسوع سے دوسرے درجے پر تھا۔ وہ خدا وند کا بہت چہیتا تھا اور وہ جلال اور قدرت میں دوسرے آسمانی باشندگان سے سبقت رکھتا تھا۔ اپنے زوال سے پہلے لو سیفر پہلا سایہ افگن کروبی تھا اور گناہ سے مبرا تھا۔ خداوند خدا اسکے بارے یوں فرماتا ہے “تو ختم الکمال دانش سے معمور اور حسن میں کامل ہے- تو عدن میں باغ خدا میں رہا کرتا تھا- ہر ایک قیمتی پتھر تیری پوشش کے لیے تھا۔ تو ممسوح کروبی تھا جو سایہ افگن تھا۔ اور میں نے تجھے خدا کے کوہ مقدس پر قائم کیا۔ تو وہاں آتشی پتھروں کے درمیان چلتا پھرتا تھا۔ تو اپنی پیدائش ہی کے روز سے اپنی راہ و رسم میں کامل تھا ۔جب تک کہ تجھ میں ناراستی نہ پائی گئی” حزقی ایل15-12:28AK 475.3

    لو سیفر کو خدا کی حمایت حاصل رہ سکتی تھی۔تمام آسمانی مخلوق اس کو محبت اور عزت دے سکتی تھی۔وہ دوسروں کے لیے با برکت چابت ہو سکتا تھا اور اپنے خالق کا جلال ظاہر کر سکتا تھا۔ مگر نبی فرماتا ہے ‘’’تیرا دل تیرے حسن پر گھمنڈ کرتا تھا تو نے اپنے جمال کے سبب سے اپنی حکمت کھو دی۔ میں نے تجھے زمیں پر پٹک دیا اور بادزشاہوں کے سامنے رکھ دیا تا کہ وہ تجھے دیکھ لیں۔ حزقی ایل 17:28۔ آہستہ آہستہ لو سیفر کے دل میں اپنی بزرگی اور برتری کی خواہش نے جنم لیا۔ چونکہ تو نے اپنا دل آلہ کا سا بنایا ۔ حزقی ایل6:28۔ “تو تو اپنے دل میں کہتا تھا میں آسمان پر چڑھ جاؤں گا، میں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اونچا کروں گا اور میں شمال کی اطراف میں باجماعت کے پہاڑ پر بیٹھوں گا۔ میں بادلوں سے بھی اوپر چڑھ جاٗوں گا۔ میں خدا وند تعالیٰ کی مانند ہوں ‘‘ یسیعاہ14-14:13۔ خدا وند کی مخلوق کو اپنی وفا داری اور عقیدت کے ذریعہ خدا کو ہی ارفع و اعلیٰ بنانا تھا، مگر لوسیفر ساری مخلوق کی عقیدت خود ھاصل کرنے کی کوشش میں تھا۔ فرشتوں کے اس شہزادے نے اس حق کو چھیننے کی آرزو کی جو صرف مسیح یسوع کا حق تھا۔AK 476.1

    سارا آسمان خا لق خدا وند کے جلال کو منعکس کر کے خوشیاں مناتا اور اس کی حمد و ثناء کرتا تھا اور یوں خدا وند کی عزت افزائی ہوتی تھی ہر طرف خوشی و طرب اور امن و امان تھا ۔ مگر نا چاقی کے ایک نوٹ نے الہٰی ہم آہنگی میں خلل پیدا کر دیا۔ اپنی عزت بزرگی اور خدمت کروانے کی خواہش خالق خدا وند کے پلان کے برعکس ہے، اور جو خدا وند کو جلال دینے کے خواہاں تھے ان کے اذہان میں بدی نے ڈیرہ جمالیا- آسمانی کونسلز (مجلس شوری) نے لوسفر سے التماس کی- خدا کے بیٹے نے اس کے سامنے خدا کی عظمت، بھلائی، اور انصاف کے بارے بتایا- اور اسکی مقدس شریعت کے لاتبدیل ہونے کے بارے بھی اگاہ کیا۔ خواہ خدا وند نے آسمان کے امن کو ترتیب دیا تھا۔ اس لئے لو سیفر کا خدا سے علیحدگی کا مطلب اپنے خالق کی تحقیر کرنا اور خود پر تباہی لانا تھی۔ مگر وہ تنبیہ جو لا محدود محبت اور رحم کے تحت دی گئیں ان کا اس پر کچھ اثر نہ ہوا بلکہ اس میں مزاحمت کی روح اور بھڑ ک اٹھی۔ لو سیفر نے مسیح کے خلاف تعصب کو غلبہ پانے دیا اور وہ اپنے ارادوں میں مزید مستحکم ہو گیا۔AK 476.2

    حشمت و شوکت کے غرور نے اسے فضیلت و اقتدار اعلی حاصل کرنے پر اکسایا۔ وہ جاہ و جلال جو حق تعالیٰ نے اسے عطا فرمایا تھا اس نے اس کی کچھ قدر نہ کی۔ اور نہ ہی لوسیفر اس نعمت کے لیے خدا کا شکر گزار ہوا۔ وہ اپنی تابناکی اور حشمت پر گھمنڈ کرتا رہا- اور خداوند کی ہمسری کرنے پر تل گیا- آسمانی مخلوق اسے چاہتی اور اسکی عزت کرتی تھی- فرشتے اسکا حکم بڑی سعادت مندی سے بجا لاتے تھے- وہ ان سبھوں سے بڑھ کر حکمت اور جلال سے ملبس تھا- تا ہم خدا کے بیٹے کو آسمان میں سب پر حاکمیت حاصل تھی ۔ وہ اختیار اور قوت میں باپ کے ساتھ شریک تھا۔ مسیح یسوع خدا کے ساتھ ہر طرح کی مشورت میں شریک ہو تا جب لوسیفر خدا کا پلان اور مقاصد میں دخل دینے کا مجاز نہ تھا۔ اس بہادر فرشتے نے سوال کیا- کیوں مسیح یسوع کو اختیار اعلیٰ حاصل ہے؟ کیوں اس کی لوسیفر سے زیادہ عزت افزائی کی جاتی ہے؟AK 476.3

    لوسیفر خداوند کی حضوری سے باہر نکل گیا اور فرشتوں میں بے قناعتی کی رروہ بھرنے لگا- بڑی رازداری اور کچھ عرصۂ تک بڑی مکاری سے ظاہر کرتا رہا جیسے وہ خداوند کا بڑا عقیدت مند ہے- مگر اپنے اصل مقاصد کو پوشیدہ رکھا- اس نے ان قوانین کے خلاف بے اطمینانی کو بھڑکایا جو آسمانی مخلوق پر لاگو ہیں- اور سب کو مطلع کیا کہ یہ بے جا پابندی عائد کی گئی ہے- اس نے مزید کہا کہ چونکہ فرشتے پاک اور مقدس ہیں اسلئے انہیں سب کچھ اپنی آزاد مرضی کے مطابق انجام دینا چاہیے- اس نے فرشتوں سے اپنے لئے یہ کہہ کر ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی کہ خدا نے مسیح یسوع کو اختیار اعلی دیکر میرے ساتھ نا انصافی کی ہے- اس نے دعوی کیا کہ جو میں نے زیادہ قوت وقدرت کی آرزو کی ہے وہ اپنی فضیلت کیلئے نہیں بلکہ میں ساری آسمانی مخلوق کی آزادی کو یقینی بنانا چاہتا ہوں تاکہ اسے حاصل کر کے مزید عروج تک رسائی کی جائے-AK 477.1

    خداوند خدا نے اپنے بڑے رحم میں لوسیفر کی برداشت کی- جب اسمیں بے قناعتی کی روح آ گئی تو خداوند نے اسے اس کے مرتبہ سے فورا معزول نہ کر دیا- اور اس وقت بھی اسے برداشت کیا جب اس نے وفادار فرشتوں کے سامنے اپنا جھوٹا دعوی پیش کیا- اسے کافی در تک آسمان میں رہنے دیا گیا- توبہ اور مطیع ہونے کی شرط پر اسے بار بار معافی کی پیشکش کی گئی- لامحدود پیار اور حکمت کی تمام کوششیں کی گئیں تاکہ وہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لے- بے قناعتی کی یہ روح آسمان میں پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی- حتی کہ شروع شروع میں لوسیفر خود بھی یہ نہ دیکھ سکا کہ وہ ڈگمگا رہا ہے- وہ اپنی حقیقی محسوسات کی نوعیت کو نہ سمجھ پایا- لیکن جب یہ ثابت ہو گیا کہ اسکی بے قناعتی اور بے اطمینانی کی کوئی وجہ نہیں تو لسسفر اپنی غلطی کا قائل ہو گیا- اور تسلیم کیا کہ الہی دعوے مبنی بر انصاف ہیں ابس کا اسے تمام آسمانی مخلوق کے سامنے اعتراف کر لینا چاہیے تھا- اگر وہ ایسا کر لیتا تو وہ خود کو اور بیشتر دیگر فرشتوں کو بچا لیتا- اس وقت گو لوسیفر نے خدا سے اپنی وفاداری کلی طور سے برطرف نہیں کی تھی- خواہ اسکی سایہ افگن فرشتے کی پوزیشن جاتی رہی تھی- لیکن اگر ابھی بھی وہ خدا کی طرف پلٹنے کا ارادہ کرتا اور خالق خداوند کی حکمت کو تسلیم کر لیتا اور خدا کی عظیم تجویز میں جو اسکی جگہ رکھی گئی تھی اس پر قانع ہو جاتا تو اسے اسکی پوزیشن پر بحال کیا جا سکتا تھا- مگر گھمنڈ نے اسے خود کو خدا کے تابع کرنے سے روک دیا- وہ ہٹدھرمی سے جس راہ پر چل نکلا تھا اسی پر قائم رہا- اور سمجھا کہ اسے توبہ کی کوئی ضرورت نہیں اور یوں اس نے اپنے خالق کے خلاف عظیم کشمکش کیلئے مصمم ارادہ کر لیا-AK 477.2

    اب اس کی عالی دماغ کی تمام قواء دھوکہ ،فریب کے کام کی طرف جھک گئیں اور فرشتے اس کے زیرِ کمان جیتنے میں مصروف ہو گئیں ۔ درحقیقت مسیح کی تنبیہ اور مشورت کے باوجود اپنے گمراہ کن راستے پر گامزن رہا۔ وہ جو اس پر اعتبار کرتے اور اس سے دلیمحبت کرتے تھے اس نے انہیں بتایا کہ اس کی غلط عیب جوئی کی گئی ہے اور اس کے عہدے کی کوئی قدر نہیں کی گئی۔اس نے آزادی پر قد غن لگا ئی گئی ہے اور اس نے مسیح یسوع کی باتوں کو غلط رنگ دیکر سازش کرتے ہوئے کہا کہ مسیح یسوع نے آسمانی مخلوق کے سامنے میری بے عزتی کی ہے۔ اس نے وفا دار فرشتوں اور اپنے درمیان بھی ایشو اٹھایا جن کو وہ اپنی طرف نہ کر سکا ان پر الزام لگایا کہ وہ آسمانی مخلوق کے خیر خواہ نہیں ہیں۔ وہ کلم جو وہ خود کر رہا تھا اس کا الزام اس نے ان فرشتوں پر لگا دیا جو خدا سے وفا دار رہے۔اور خدا پر بے انصافی کے الزام کو درست قرار دینے کے لیے اس نے خدا کے کلام اور اس کے عمل کے بارے دروغ بیانی سے کام لیا۔خدا کے مقاصد کے بارے غلط دلائل دے کر فرشتوں کو پریشان کرنا اس کی پالیسی تھی ۔ہر وہ چیز جو سادہ اور واضح تھی اس نے اسے مشکوک بنا دیا۔ اور یہواہ خدا کے سادہ بیانات کے بارے گمراہ کن شکوک پیدا کر دئیے۔ اس کی اعلی پوزیشن اور الہٰی انتظامیہ کے ساتھ اس کے نزدیکی تعلق نے اس کی نمائندگی کی بڑی تعداد بڑھائی اور بیشتر فرشتے اس کے ساتھ آسمانی ارباب اختیار کے خلاف بغاوت میں شامل ہو گئے۔ خدا وند نے اپنی حکمت سے شیطان کو اپنا کام بڑھانے دیا۔یہاں تک کہ اطاعت سے انحرافی کی روح پختہ ہو کر بغاوت پر اتر آئی۔یہ ضروری تھا کہ اسکی تجاویز پوری طرح پروان چڑھیں تاکہ سب اسکے ارادوں کو بھانپ سکیں- لوسیفر ممسوح کروبی تھا اور شوکت وحشمت میں بڑھ کر تھا- آسمانی مخلوق اسے بڑا پیار کرتی تھی اور اسکا ان پر بڑا اثرورسوخ تھا- خدا وند کی حکومت نہ صرف آسمانی مخلوق پر تھی بلکہ ان تمام دنیاؤں پر بھی تھی جو اس نے تخلیق کی تھیابلیس نے سوچا کہ اگر بغاوت میں وہ فرشتوں کو اپنے ساتھ لے لے تو وہ دوسری دنیاؤں کو بھی اپنے ساتھ ملا لے گا۔ اس نے اپنے سوال کو بڑی ہوشیاری اور عیاری کیساتھ پیش کیا- جس میں اس نے اپنا مقاصد حاصل کرنے کے لیے غلط استدال اور دھوکے بازی کو شامل کیا۔اس میں دھوکہ دینے کی بڑی قدرت تھی اور جھوٹ کے لبادہ میں خود کو چھپائے ہوئے اس نے بہت فائد ہ اٹھایا یہاں تک کہ وفا دار فرشتے بھی اس کے کردار کو نہ پہچان سکے اور سمجھ نہ سکے کہ اس کا منصوبہ انہیں کس طرف لے جا رہا ہے۔AK 478.1

    شیطان بہت ہی معزز ہستی مانا جاتا تھا اور اس کے تمام کا م راز داری سے انجام پا رہے تھے کیونکہ اس کے کوموں کی نوعیت کو سمجھنا فرشتوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ جب تک گناہ پوری طرح پروان نہ چڑھ جائے اس وقت تک گناہ کسی گھناؤنی شے کے طور پر نہیں دکھائی دیتا۔ اس سے پہلے خدا کی کی کائنات میں گناہ کا کوئی وجود نہ تھا اور مقدس فرشتوں کو اس کی ہولناکی کا کچھ اندازہ نہ تھا۔وہ بالکل بھی نہ سمجھتے تھے کہ خدا کی شریعت کو عدول کرنے کے لیے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ ابلیس نے پہلے پہل اپنے کام کو خدا کی وفا داری پر پوشیدہ رکھا اس نے دعویٰ کیا کہ کدا کی عزت و وقار میں اضافے کا متلاشی ہے۔وہ اس کی گورنمنٹ کو پائیداری دینا چاہتا ہے- علاوہ ازیں وہ تمام آسمانی مخلوق کی فلاح وبہبود کا خواہاں ہے۔ جس وقت ان فرشتوں کے ذہن میں بے قناعتی کا بیج بع رہا تھا جو اسکے ماتحت تھے تو وہ بڑے فریب سے یہ ظاہر کر رہا تھا کہ وہ بے اطمینانی کو دور کرنا چاہتا ہے- اور جب وہ خدا کی گورنمنٹ کے آرڈر اور فرامین کو تبدیل کرنے پر زور دے رہا تھا، تو اسکا کہنا تھا کہ یہ آسمانی ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ازحد ضروری ہے-AK 479.1

    گناہ کے ساتھ نمٹنے کے لیے خدا وند صرف راستبازی اور صداقت کو ہی بروئے کار لائے گا۔ابلیس تو خوشامد اور فریب کو استعمال کرتا ہے۔جو خدا نہیں کر سکتا۔ اس کے خدا کے بارے دروغ گوئی سے کام لیا ہے اور کدا کی حکومت کی فرشتوں کے سامنے غلط نمائندگی کی اور دعویٰ کیا کہ خدا نے آسمانی مخلوق پر رولز اور قوانین نافذ کرنے سے بے انصافی سے کام لیا ہے۔ اور وہ اپنی مخلوق سے اطاعت اور تابعداری کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس امر میں ابلیس اپنی برتری کا خواہاں تھا۔ اس لئے آسمانی مخلوق اور دیگر دنیاؤں کے سامنے اس کے کرتوت مکمل طور پر سامنے لانا ضروری تھا اور تہ دکھانا بھی ضروری تھا کہ خدا کی حکومت انصاف پر مبنی ہے اور اس کی شریعت کامل ہے۔اس غالب کا حقیقی کردار اور اصل مقصد سب کو سمجھنے کی ضرورت تھی ۔اس کے پاس وقت ہونا چاہیے تھا کہ وہ اپنے بد کاروں کے سبب خود کو آشکارآ کر سکے۔AK 479.2

    وہ نا چاقی جو اس کے اپنے طرز عمل سےآسمان میں پیدا ہوئی۔ اس کا الزام شیطان نے شریعت میں اور خدا کی حکومت پر لگایا۔ اس نے کہا کہ تمام بد کاری الہٰی انتظامیہ کی وجہ سے معرض وجود میں آئی ہے۔ یہ اس کا دعوی تھا کہ خدا کے آئین میں بہتری لانا چاہتا تھا- اس لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے دعوٗوں کی بناوٹ و ساخت کا مظاہرہ کرے۔ اور الہی آئین میں جو تبدیلی چاہتا تھا کر کے دکھائے- اسکے اپنے کام اسے مجرم ٹھہرائیں- شیطان نے شروع میں یہ ہی کہا تھا کہ وہ باغی نہیں ہے اس لیے ساری کائنات اس دھوکے باز کا بے نقاب چہرہ دیکھ لے۔AK 480.1

    حتی کہ جب یہ فیصلہ ہو گیا کہ وہ مزید آسمان مین نہیں ٹھہر سکتااس وقت بھی پایاں محبت نے اسے تباہ نہ کیا۔ چونکہ صرف محبت کی رو سے کی گئی خدمت خداوند کو قابل قبول نہیں۔اس لیے اس کی مخلوق کی تابعداری اس کے انساف قائیلیت پر خیر اندیشی اور فیض رسائی پر ہونی چاہیے۔ آسمانی مخلوق اور دوسری دنیائیں تیار نہیں تھیں کہ وہ گناہ کی فطرت اور اسکے نتائج کو سمجھ سکتیں- اور اگر اس وقت شیطان کو تباہ کر دیا جاتا تو وہ خدا کے انصاف اور اسکے رحم کو دیکھ نہ پاتیں- اور اگر اسے فوراً نیست و نابود کر دیا جاتا ہے توآسمانی مخلوق اور دوسری دنیاؤں کے باشندے محبت کی بجائے خوف سے خدا کی خدمت کرتے ۔اور دھوکہ با زکی اثر و رسوخ کو پوری طرح موقع ملنا چاہیے تھا ۔ساری کائبات کی بھلائی کی خاطر نا تمام زمانوں تک شیطان کو پانے اصولات کو ترقی دینا چاہیے ،تا کہ وہ الزامات جو اس نے الہیٰ حکومت کے خلاف لگائے تھے انہیں ہر کوئی ان کی اصل صورت میں دیکھ سکے۔تا کہ اس کے بغیر کسی سوال کے خدا کا رحم اور انصاف اور اس کی شریعت کا دوام ہمیشہ برقرار رہے۔AK 480.2

    تمام آنے والے زمانوں کے لیے ابلیس کی بغاوت سبق بننے کو تھی۔ گناہ کے بارے ایک دائمی گواہی اور اس کے ہولناک نتائج کے بارے سب کو آگاہی ملنے کو تھی۔ ابلیس کے رولز (Roles) کے لحاظ اور اس کے انسانوں اور فرشتوں کے اثرات بتا سکتے ہیں کہ الہیٰ اختیار کو ترک کرنے کے کیا ثمرات حاصل ہو تے ہین یہ گواہی پیش کرے گیکہ خدا کی حکومت اور اس کی شریعت کی موجودگی اس کی مخلوق کے لیے بری فیض رساں ہے جسے اس نے تخلیق کیا ہے۔ یوں اس ہولناک بغاوت کے تجربہ کی تاریخ تمام آسمانی مخلوق کی دائمی نگہبان بننے کو ٹی ایر وہ گناہ کرنے کے دھوکے سے محفوظ رہیں گے- نہ وہ گناہ کریں گے اور انہیں اسکی سزا بھگتنا پڑے گا-AK 480.3

    آسمان میں عظیم کشمکش کے خاتمہ پر بھی ابلیس غاصب خود کو حق بجانب قرار دے رہا تھا- جب یہ اعلان کر دیا گیا کہ شیطان اور اسکے تمام اتحادی فرحت بخش آسمان سے خارج کر دیئے جائیں- اس وقت بھی ابلیس نے دیدہ دلیری سے خدا کی شریعت کی توہین کی- اس نے بار بار اپنے دعوؤں کو دہرا کر کہا کہ فرشتوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہونا چاہیے- انہیں اپنی مرضی پر چلنے کا حق ہونا چاہیے تب وہ ہمیشہ راست قدم اٹھائینگے-AK 481.1

    اس نے الہٰی قوانین کی مذمت کی وہ وہ ان کی آزادی پر رکاوٹ ہیں۔اس نے مزید کہا کہ میرا مقصد تھا کہ میں انہیں منسوخ کر دوں۔اور اس پابندی کے خاتمہ کے بعد آسمانی افواج زیادہ شان و شوکت، اور جلالی رتبہ پا سکیں گے۔ ابلیس اور اس کے اتحادیوں نے یک زبان ہو کر اپنی بغاوت کا الزام مسیح یسوع پر لگایا۔ اور کہا کہ اگر ہمیں لعنت ملامت نہ کی جاتی تو ہم کبھی بھی بغاوت پر نہ اترتے۔یوں سر کش اور بے وفا فرشتے خدا کی حکومت کو گرانے کی کوشش میں رہے اور بڑی مکاری سے دعوی کرتے رہے کہ ہم معصوم ہیں اور ہم پر ظلم ہوا ہے۔لوسیفر اور اس کے تمام ہمدرد بالآخر آسمان سے نکال دئے گئے۔AK 481.2

    جس روح نے آسمان پر بغاوت کو ہوا دی تھی وہی روح اب زمین پر بغاوت کو بھڑکاتی ہے۔ انسانوں کے ساتھ وہی پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے جو اس فرشتوں پر آزمائی تھی۔اب اس کی روح نا فرمان بچوں پر حکمرانی کرتی ہے۔ وہ بھی اس کی طرح خدا کی شریعت کی پابندیون کو توڑنا چاہتے ہین اور خدا کے فرامین کی حکم عدولی کرنے سے لوگوں کو آزادی دینے کا وعدہ کرتے تھے۔AK 481.3

    گناہ کی ملامت ابھی بھی نفرت اور مزاحمت کو بھڑکاتی ہے۔ جب خدا کی طرف سے آگاہی کا پیگام ضمیر تک پہنچتا ہے تو شیطان ان کی مدد کرتا ہے اوروہ خود کو حق بجانب جانیں اور ان کے گناہ کے عمل کے لیے دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرے۔ ان کی خطاؤں کو درست کرنے کی بجائے وہ تنبیہ کرنے والے کے خلاف نفرت بھڑکاتے ہیں جیسے کہ سارا قصور اسی کا ہو۔ راستباز ہابل کے دنوں سے لیکر ہمارے زمانے تک ان کے خلاف ایسی ہی روح کا مظاہرہ کیا جاتا ہے جو گناہ کی ملامت کرتے ہیں-AK 481.4

    خدا کی سیرت کے بارے اسی طرح کی غلط بیانی کر کے جو اس نے آسمان میں کی تھی کہ خداوند بہت بے رحم اور بہت جابر ہے- شیطان نے انسانوں کو گناہ کرنے کیلئے راغب کیا ہے- جب وہ یہاں تک کامیاب ہو گیا تو اس نے اعلانیہ کہا کہ خدا کی بے جا پابندیوں کے باعث انسان گناہ میں گرا ہے-AK 481.5

    مگر ابدی خداوند نے جب اپنی سیرت کے بارے اعلان کیا تو کہا- “خداوند خداوند خدای رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی- ہزاروں پر فضل کرنے والا- گناہ اور تقصیر اور خطاء کا بخشنے والا لیکن وہ مجرم کو ہرگز بری نہیں کرے گا” خروج -7-6:34AK 482.1

    ابلیس کو آسمان سے نکالنے پر خدا نے اپنے انصاف اور اپنے تخت کے وقار کو قائم رکھا۔ لیکن جب انسان نے شیطان کے ورغلانے سے گناہ کیا تو خدا نے اپنی محبت کا ثبوت اپنے پیارے بیٹے کو گناہ میں گری ہوئی نسل انسانی کے لیے قربان ہونے کے لیے دے دیا۔ کفارہ میں خداوند کا سبھاؤ کھل کر سامنے آتا ہے۔صلیب کے بارے بہت بڑی بحث تمام کائنات کے سامنے آشکارہ ہو جاتی ہے ۔کہ گناہ کی وہ را ہ جو ابلیس نے اختیار کی اس کا الزام کسی طرح بھی خداوند کی حکومت پر نہیں آتا۔AK 482.2

    ابلیس اور مسیح کے درمیان مقابلہ مسیح کی زمینی خدمت کے دوران مہا دھوکے باز کی خصلت کے ذریعہ کھل کر سامنے آگئی جب کہ اس نے نجات دہندہ پر حملے کیے۔ ابلیس کو آسمانی فرشتوں اور وفا دار کائنات کی محبت سے نکال کر پھینکا بہت ہی کار گر ثابت ہوا۔ اس کا یہ کفر کہ مسیح اسے جھک کر سجدہ کرے ، اور پھر اس کی یہ گستاخی کہ وہ نجات دہندہ و پہاڑ کی چوٹی اور ہیکل کے کنگرے پر لے گیا اور ناپاک ارادوں کے تحت اسے ترغیب دی کہ وہ خود نیچے گرا دے۔ پھر اس نے کاہنوں اور دوسرے لوگوں کو اکسایا کہ اس کی محبت کو رد کر دیں اور بالآخر چلا چلا کر کہا کہ اسے سولی دو،سولی دو۔ اس نے تمام کائنات کی حیرانی اور نفرت کو ہوا دی۔AK 482.3

    یہ ابلیس ہی تھا جس نے دنیا کو اکسایا کہ وہ مسیح کو رد کر دے۔ بدی کے شہزادے نے ایڑی چوٹی کا زور لگا یا کہ وہ نجات دہندہ کو بربا د کر دے۔ کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ نجات دہندہ کا رحم اور محبت ،اس کی ہمدردی ،اس کی حلیمی دنیا کے سامنے خدا کی سیرت اجاگر کرے گی، شیطان نے مسیح یسوع کے ہر دعویٰ کا مقابلہ کیا اور اس نے انسانوں کو اپنے ایجنٹس(agents) کے طور پر استعمال کیا تا کہ وہ نجات دہندہ کی زندگی غمگینی سے بھر دے۔ مکاری اور دروغ گوئی جن کا ذریعہ اس کا مسیح کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ، اور نا فرمان بچوں کی ذریعہ بھڑکائی۔ وہ جس کی زندگی بھلائی سے بھرپور تھی اس سے بدلہ لینے کی غرض سے اس کے خلاف بے جا الزامات لگائے۔ حسد ،بغض،نفرت اور بدلہ لینے کی آگ خدا کے بیٹے کے خلاف کوہِ کلوری پر بھڑک اٹھی اور ان منظر کو آسمانی مخلوق نے بڑی ہولناک خاموشی کے ساتھ دیکھا جب عظیم قربانی بھسم ہو گئی، خداوند آسمان پر چڑھ گیا اور اس وقت تک فرشتوں کی پرستش قبول کرنے سے انکار کیا جب تک اس نے اپنے باپ سے یہ درخواست نہ کر لی “اے باپ میں چاہتا ہوں کہ جنہیں تو نے مجھے دیا ہے جہاں میں ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہوں” یوحنا -24:17 پھر بڑی محبت کیساتھ باپ کے تخت سے یہ جواب آیا- “خدا کے سب فرشتے اسے سجدہ کریں” عبرانیوں 6:1 مسیح یسوع پر کوئی دھبہ نہ لگا- اسکی حقارت اور اسکی قربانی تکمیل کو پہنچی اور اسے سب ناموں سے اعلی نام بخشا گیا-AK 482.4

    اب ابلیس کے پاس اسکے گناہ کا کوئی بہانہ نہ رہا- اسکے جھوٹے اور قاتل ہونے کی خصلت ظاہر ہو گئی- یہ دیکھا گیا کہ آل آدم میں ابلیس نے جس روح کو ڈال دیا اگر اسے آسمانی مخلوق کو کنٹرول کرنے کی اجازت دی جاتی تو وہ یہی روح آسمانی مخلوق میں بھی ڈال دیتا- اسکا دعوی تھا کہ خدا کی شریعت کی حکم عدولی آزادی اور شوکت وحشمت کی ضامن ہے- مگر اسکا نتیجہ تو ذلت وتحقیر اور غلامی دیکھا گیا-AK 483.1

    خدا کی سیرت اور اس کی حکومت پر لگائے گئے جھوٹے الزامات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئے۔ اس نے خدا پر لازام لگایا تھا کہ وہ صرف اپنی مخلوق سے تابع داری اور اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔اور یہ بھی کہا کہ خدا دوسروں سے خود انکاری، ایثار اور قربانی کا مطالبہ کرتا ہے جب ایثار اور قربانی کا نمونہ پیش نہیں کرتا۔ مگر اب دیکھ لیا گیا کہ گنہگار نسل انسانی کی نجات کے لیے کون و مکان کے خلاق و مالک نے عظیم قربانی پیش کی جو صرف محبت ہی ایسا کر سکتی تھی۔کیونکہ خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دنیا کا میل ملاپ کر لیا۔ 2 کرنتھیوں19:5 اور یہ بھی دیکھا گیا کہ ابلیس نے اپنی بڑائی کے لیے گناہ کے لیے دروازہ کھولا۔ مگر مسیح یسوع نے گناہ کو تباہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو “یہاں تک پست کر دیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ موت بلکہ صلیبی موت گوارہ کی” فلپیوں -8:2AK 483.2

    خدا وند نے بغاوت کے اصولوں کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر دیا۔ اس کے انصاف کے مظاہرے کو سارے آسمان نے دیکھا جو اس نے یطان کی ملامت اور آل آدم کی نجات کے لیے کیا تھا۔ لوسیفر نے کہا تھا کہ اگر خدا کی شریعت لا تبدیل ہے اور اس کی سزا معاف نہیں ہو سکتی تو پھر ہر ایک شریعت کو عدول کرنے والوں کو خدا کی حمایت سے محروم رہنا چاہیے۔ اسکا دعوی تھا کہ گنہگار پشت نجات حاصل نہیں کر سکتی اس لئے وہ میرا جائز شکار ہے- مگر مسیح یسوع کی موت انسان کے حق میں تھی جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- شریعت کی سزا اسکے کندھوں پر آئی جو خدا کا ہم پلہ تھا اور انسان مسیح یسوع کی راستبازی قبول کرنے کیلئے آزاد تھا- اور توبہ اور فروتنی سے اسی طرح فتح پا سکتا تھا جیسے مسیح یسوع نے ابلیس پر فتح پائی- یوں ظاہر ہو گیا کہ خدا راست ہے اور ان سبھوں کو راستباز ٹھہرا سکتا ہے جو مسیح یسوع پر ایمان لاتے ہیں-AK 483.3

    مگر صرف یہی نہیں کہ مسیح یسوع اس دھرتی پر آیا اور دکھ اٹھایا اور جان دیکر انسان کی نجات کا بندوبست کیا- بلکہ وہ “شریعت کو برائی دینے آیا” اور اسکی عظمت اور عزت وتوقیر کو بڑھانے آیا- وہ صرف اس دنیا ہی کے باشندوں کو یہ سکھانے نہیں آیا تھا کہ شریعت کو اسی طرح مانا جائے جیسا ماننے کا حق ہے بلکہ دوسری دنیاؤں کو بھی بتانے آیا کہ خدا کی شریعت لاتبدیل ہے- اگر شریعت کے مطالبات کو ترک کیا جا سکتا تو مسیح یسوع کو اپنی جان کا کفارہ دینا نہ پڑتا- مسیح یسوع کی موت اسکے دائمی ہونے کا ثبوت ہے- اور اس قربانی کیلئے جسے بے پایاں محبت نے باپ اور بیٹے کو مجبور کیا تاکہ گنہگار مخلصی حاصل کرے وہ ساری کائنات کے سامنے سامنے آشکارا ہے کہ کفارے کی اس تجویز سے کم کچھ بھی گنہگار انسان کی مخلصی کا باعث نہیں ہو سکتا تھا اور کل کائنات نے یہ بھی دیکھا کہ خدا کی شریعت اور اسکی حکومت کی بنیاد رحم اور انصاف پر مبنی ہے-AK 484.1

    عدالت کی آخری کاروائی میں ظاہر ہو جائیگا کہ گناہ کی موجودگی کی کوئی وجہ نہ تھی- جب تمام دھرتی کا منصف شیطان سے یہ مطالبہ کرے گا- “تو نے میرے خلاف کیوں بغاوت کی- میری بادشاہت کی رعایا کو ٹھگا؟”- تو بدی کے بانی کے پاس کوئی بہانہ نہ ہو گا- ہر ایک منہ بند ہو جائیگا اور اسکی تمام باغی افواج گونگی ہو جائینگی-AK 484.2

    جہاں کلوری کی صلیب شریعت کو لاتبدیل قرار دیتی ہے، وہاں وہ تمام دنیا کے سامنے پکار پکار کر کہتی ہے کہ گناہ کی مزدوری موت ہے- مسیح یسوع نے صلیب پر جان دیتے ہوۓ فرمایا “پورا ہوا” ابلیس کی موت کا نقارہ بج گیا- عظیم کشمکش جو عرصۂ سے جاری تھی اسکا فیصلہ ہو گیا- اور گناہ کی بیخ کنی یقینی ہو گئی- خدا کا بیٹا قبر کے دروازہ میں سے گزرا- تاکہ “موت کے وسیلہ سے اسکو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے” عبرانیوں -14:2 اعلی وبرتر ہونے کی خواہش نے لوسیفر کو یہ کہنے کی ترغیب دی- “میں اپنے تخت کو خدا کے ستاروں سے بھی اونچا کروں گا” یسعیاہ 13:14 “میں خدا تعالیٰ کی مانند ہوں گا” یسعیاہ 14:14 “میں تجھے زمین پر راکھ کر دوں گا”- حزقی ایل 19:28 “دیکھو وہ دن آتا ہے جو بھٹی کی مانند سوزان ہو گا- تب سب معزز اور بدکردار بھوسے کی مانند ہوں گے اور وہ دن انکو ایسا جلائے گا کہ شاخ واں کچھ نہ چھوڑے گا رب الافواج فرماتا ہے” ملاکی -1:4AK 484.3

    کل کائنات گناہ کی فطرت اور اس کے نتائج سے آگاہ ہو گئی ہے- اگر اسے ابتدا میں ہی تباہ کر دیا جاتا تو یہ فرشتوں میں خوف وہراس کا باعث بنتا، جو خداوند کی بے حرمتی ہے- اب اسکی محبت کو کائنات نے دیکھ لیا ہے اور اسکی مرضی بجا لانے میں مسرت حاصل کرتی ہے- خداوند کا پاک کلام فرماتا “عذاب دوبارہ نہ آئے گا” ناحوم-9:1 خداوند کی شریعت کو جیسے شیطان نے غلامی کا جوا کہہ کر اسکی ملامت کی تھی- اب اسکی آزادی کے قانون کی حیثیت سے عزت افزائی ہو گی- جانچی پرکھی اور آزمائی ہوئی مخلوق، خداوند کی وفاداری سے منہ نہیں موڑے گی جسکی لازوال محبت اور حکمت انکے سامنے آشکارہ ہو چکی ہے-AK 485.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents