Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    پہلا باب - یروشلیم کی تباہی

    “کاش توُ اپنے اسی دن میں سلامتی کی باتیں جانتا! مگر اب وہ تیری آنکھوں سے چھپ گئی ہیں۔ کیونکہ وہ دن تجھ پر آئیں گے کہ تیرے دشمن تیرے گرد مورشہ باندھ کر تجھے گھیر لیں گے اور ہر طرف سے تنگ کریں گے۔ اور تجھ کو اور تیرے بچوں کو جو تجھ میں ہیں زمین پر دے پٹکیں گے اور تجھ میں کسی پتھر پر پتھر باقی نا کھوڑیں گے اس لئے کہ تو نے اُس وقت کو نہ پہچانا جب تجھ پر نگاہ کی گئی” لوقا 44-42:19۔AK 15.1

    کوہِ زیتوں کی چوٹی پر سے مسیح یسوع نے یروشلم پر نگاہ کی۔ اُس کے سامنے بڑا سہانا منظر پھیلا ہوا تھا۔ یہ عید فسح کا وقت تھا اور تمام ملک سے یعقوب کے بچے اس قومی جشن کو منانے کے لئے جمع تھے۔ باغوں اور تاکستانوں میں اور ہرے بھرے نشینوں میں جاتریوں کے خیمے استادہ تھے۔ چبوترا نما پہاڑیاں، شاہی محلات اور ٹھوس فصیل دار اسرائیلی دارالسلطنت اور صیون کی بیٹی اپنے تکبر میں یوں کہتی ہے کہ میں شہزادی براجمان ہوں اور کبھی غم نہ دیکھوں گی۔ وہ خوبصورتی میں یکتا تھی اور سجھتی تھی کو وہ آسمان کی منظور نظر ہے۔ جیسے کہ گزرے وقتوں میں شاہی مغنی گاتے تھے “شمال کی جانب کوہ صیون جو بڑے بادشاہ کا شہر ہے۔ وہ بلندی میں خوش نما اور تمام زمین کا فخر ہے” زبور 2:48۔ ہیکل کی شاندار عمارتوں کا بھرپور منظر دکھائی دیتا تھا۔ غروب آفتاب کی کرنوں سے خوبصورت برف کی مانند سفید سنگِ مرمر کی بنی دیواریں اور سنہری گیٹ اور ہیکل کے کنگرے جگمگا رہے تھے۔ ہیکل خوبصورتی میں کامل تھی۔ یہودی قوم اس پر فخر کرتی تھی۔ بنی اسرائیل اس منظر پر تعریف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھے بغیر نہ رہ سکتے تھے۔ مگر مسیح یسوع کے ذہن میں اس کے بارے اور ہی خیال سمائے جاتے تھے۔ “جب نزدیک آکر شہر دیکھا تو اُس پر رویا” لوقا 41:19۔AK 15.2

    ہمہ گیر خوشیوں کے درمیان مسیح یسوع کا فاتحانہ داخلہ اور جب کھجور کی ٹہنیوں کا لہرانا ور ہوشعنا مبارک کے نعروں سے پہاڑیاں صدائے بازگشت سے گونج اٹھی۔ اور پھر جونہی ہزاروں آوازوں نے اُس بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا تو دُنیا کا نجات دہندہ اچانک پُر اسرار غم میں ڈوب گیا۔ وہ جو اسرایئل کا موعودہ مسیح تھا، جس نے موت پر فتح پائی اور اس کے اسیروں کو قبر سے باہر بلایا، اس سمے رو رہا تھا۔ یہ کوئی عام سا غم نہیں تھا بلکہ اہک شدید غم تھا جس سے جان چھڑانا نا ممکن تھا۔ AK 15.3

    اُس کے آنسو اپنے لئے نہیں تھے۔ گو وہ اچھی طرح جانتا تھا اُس کا سفر کس طرف ہے۔ اُس کے سامنے گتسمنی باغ تھا۔ اُس کی جانکنی کا منظر قریب آرہا تھا۔ بھیڑ دروازہ بھی اُس کی نطروں کے سامنے تھا۔ جس میں سے ہزاروں قربانی کے جانور گزر چکے تھے۔ اور یہ اُس کے لئے بھی کھلنے کو تھا جب اُسے ذبح کرنے کو لے جائیں گے یسعیاۃ 7:53۔ مقم کلوری بھی وہاں سے کچھ دور نہیں تھی جہاں اُسے مصلوب ہونا تھا۔ وہ راہ جس پر مسیح کو جانا تھا جہاں اُس نے اپنی جان گناہ کے لئے دینی تھی وہ تاریکی اور خوف و ہراس سے بھرپور راہ تھی۔ تاہم وہ خوشی کے اس موقع پر متذکرہ مناظر پر غور و حوض نہیں کر رہا تھا جن کی وجہ سے وہ دل گیر ہوا۔ اُسے اپنی ذہنی اور جسمانی تکلیف نے اُس کی بے لوث روح کو غمگین اور پریشان نہیں کیا تھا۔ اُس کا رونا یروشلم کے ہزاروں مرنے والوں کے لئے تھا جنہیں وہ برکت دینے اور نجات دینے آیا تھا۔ اُن کے اندھے پن اور اُن کی توبہ نا کرنے پر وہ رویا۔ AK 16.1

    ہزاروں سالوں کی وہ تاریخ جس میں خُداوند اپنے چنیدہ لوگوں کی خاص دستگیری اور رہنمائی کرتا رہا تھا یسوع مسیح کی نطروں کے سامنے تھی۔ وہیں موریاہ کا پہاڑ تھا جہں موعودہ بیٹا جو بلا مزاحمت مذبح پر باندھا گیا تھا اور جو مسیح یسوع کی قُربانی کی علامت تھا۔ اہیں ایمانداروں کے باپ کے ساتھ برکات کا عہد اور مسیح موعود کے جلالی وعدہ کی توثیق ہوئی پیدائش 9:22، 18-16:22. ۔ اُسی جگہ یبوسی اُرنان کے کھلیہان سے قُربانی کے شعلے آسمان کی طرف بلند ہوئے تھے اور جہاں ہلاک کرنے والے فرشتے کی تلوار کو روک دیا گیا 1 تواریخ 21۔ باب یہ علامت مسیح یسوع کی قربانی پر صادق آتی ہے جس نے اپنی جان گنہگار انسن کے لئے دی۔ تمام رُوی زمین پر خُدا وند کی نظر میں یروشلم بڑی عزت و توقیر رکھتا تھا۔ خُداوند نے صیون کا انتخاب کیا تھا ” کیونکہ خُداوند نے صیون کو چنا ہے اُس نے اُسے اپنے مسکین کے لئے پسند کیا ہے” زبور 13:132۔ وہاں کئی زمانوں تک خُداوند کے پاک نبیوں نے آگاہی کے کلام کی تشہیر کی تھی۔ وہاں کاہنوں نے عودون کو لہرایا تھا اور بخور کا دھواں ایمانداروں کی دعاؤں کے ساتھ بادل کی صورت میں آسمان کی طرف اُتھا تھا۔ وہاں روزانہ قربانی کے بروں کا خون گزرانا جاتا تھا جو خُدا کے برے کی طرف اشارہ تھا۔ وہاں رحم کی کرسی پر خُداوند جلالی بادل میں ظاہر ہوتا تھا۔ وہاں اُس عارفانہ سیڑھی کی بنیاد تھی جو زمین کو آسمان سے ملاتی تھی پیدائش 12:28، یوحنا 51:1۔ اُس سیڑھی پر خُدا کے فرشتے چڑھتے اور اُترتے تھے اور جس نے بنی نوع انسان کے لئے پاکترین مقم کے دروازے کھول دئیے۔ اگر بنی اسرائیل قوم آسمان کے تابع فرمان رہتی تو خُداوند کا چنیدہ شہر یروشلم تا ابد قائم رہتا یرمیاہ 25-21:17۔ مگر جن لوگوں کی دستگیری کی گئی اُن کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ باغی اور برگشتہ قوم نکلی۔ اُنہوں نے خُداوند کے فضل کی حقارت کی اور اپنے حقوق کا نا جائز استعمال کیا اور یوں اپنے حق اور شرف کو حقیر جانا۔ AK 16.2

    اگرچہ بنی اسرائیل نے “خُدا کے پیغمبروں کو ٹھٹھوں میں اُڑایا اور اُس کی باتوں کو ناچیز جانا اور اُس کے نبیوں کی ہنسی اُڑائی 2 تواریخ 16:36۔ پھر بھی وہ اُن پر “خُدای رحیم اور مہربان اور قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی” کے طور پر ظاہر ہوتا رہا۔ گو اُنہوں نے اُسے بار بار رد کیا اس کے باوجود اُس کا رحم مسلسل متوجہ ہونے کی تاکید کرتا رہا۔ جتنا ایک باپ اپنے بیٹے تو پیار کرتا ہے اُس سے بھی زیادہ پیار خُداوند نے اُنہیں دکھای اور اُن کے لئے “پیغمبروں کو اُن کے پاس بروقت بھیج بھیج کر پیغام بھیجا کیونکہ اُسے اپنے لوگوں اور اپنے مسکن پر ترس آتا تھا” 2 تواریخ 15:36۔ AK 17.1

    جب سب نصیحتیں اور سرزنش ناکام ہو گئیں تو اُس نے آسمان کا جو بہترین تحفہ تھا وہ دیا۔ اور اُس تحفے میں تمام آسمان نچھاور کر دیا۔ خُدا نےمسیح کو بھیجا تاکہ وہ غیر تائب شہر کی توجہ خُدا کی طرف مبذول کرائے۔ یہ مسیح یسوع ہی تھا جو بنی اسرائیل کو مصر سے بطور ایک اچھی تاک لایا زبور 8:80۔ اُس کے اپنے ہاتھ نے غیر قوموں کو اُن کے سامنے سے دور کیا۔ اُس نے اُنہیں نہایت ہی زرخیز اور پھلدار پہاڑی پر لگایا۔ اُس کے سرپرست نے اُس کے گرد باڑ لگائی اور اُس کے خادموں نے اُس کی پرورش کی۔ اور پھر وہ پوچھتا ہے کہ” میں اپنے تاکستان کے لئے کیا کر سکتا تھا جو میں نےنہ کیا“؟ یسعیاہ 4-1:5 ۔ اور جب اُس نے اچھے انگوروں کی اُمید کی تو اُص میں جنگلی انگور لگے۔ پھر بھی وہ پھل کی اُمید لئے ہوئے انسانی شکل میں آیا کہ شائد وہ تباہی سے بچ جائے۔ اُس نے اُسے کھودا اُس میں سے جڑی بوٹی کو تلف کیا اور اُس کی پرورش کی۔ اور جوتاک اُس نے خود لگائی تھی اُسے بچانے کے لئے اُس نے انتھک کوشش کی۔ AK 17.2

    تین سال تک جلالی خُداوند اپنے لوگوں میں آتا جاتا رہا ۔ “وہ بھلائی کرتا اور اُن سب کو جو ابلیس کے ہاتھ سے ظلم اٗٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا” اعمال 38:10۔ اُس نے شکستہ دلوں کو تسلی دی، اسیروں کو آزاد کیا اندھوں کو بینائی دی، لنگڑوں کو چلایا اور بہروں کے کان کھولے، کوڑھیوں کو باک صاف کیا، مُردوں کو زندہ کیا اور غریبوں کی خوشخبری سنائی لوقا 18:4، متی 5:11۔ اُس نے ہر طبقے کے لوگوں کو یہی پُر فضل بلاہٹ دی کہ “اے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دوں گا” متی 28:11۔ AK 17.3

    گو نیکی کے بدلے اُنہوں نے بدی کی اور محبت کے عوض عداوت رکھی (زبور 5:109)۔ پھر بھی اٗس نے ثابت قدمی سے اپنے رحم کے مشن کو جاری رکھا۔ لیکن جنھوں نے اُس کے فضل کی چاہت کی اُنہیں دھتکارا نا گیا۔ بے گھر آوارہ گرد، لعنتی اور مفلس کی حاجتوں کو رفع اور اُن کے دکھوں کو دور کیا۔ نیز اُنہیں ترغیب دی کہ وہ زندگی کی بخشش کو قبول کریں۔ ضدی اور سرکش دُلوں نے رحم کی لہروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ اور رحم کی وہ لہریں اس سے بھی بڑآ دھارا بن کر اُن تک اُس محبت کے ذریعہ پہنچیں جو بیان سے باہر ہے۔ اور بنی اسرائیل اپنے بہترین دوست اور واحد مددگار سے پھر گئے۔ اُس کی محبت کی تحقیر کی گئی اور اُس کے مشورے کو تھکرادیا گیا اور اُس کی تنبیہ کو ٹھٹھوں میں اُڑایا گیا۔ AK 18.1

    اُمید اور معافی کا وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ خُداوند کے غضب کا پیالا جسے وہ ایک عرصے سے ٹال رہا تھا تقریباً بھر گیا۔ وہ بادل جو زمانوں سے برگشتگی اور بغاوت کے ذریعہ جمع ہو چکا تھا وہ رنج و الم اور غم ساے تاریک ہو گیا اور قصور وار لوگوں کے سر پر پھٹنے کو تیار تھا۔ اور جو واحد شخص اُنہیں جلا وقوع میں آنے والی آفت سے بچا سکتا تھا اُسے ناچیز جانا گیا۔ اُس کی تحقیر کی گئی اُسے رد کیا تھا بلکہ وہ جلد ہی مصلوب ہونے کو تھا۔ AK 18.2

    جب مسیح یسوع کو کوہِ کلوری پر لٹکا دیا گیا تو اسرائیلی قوم جو خُدا کی طرف سے برکت پاتی اور خُدا کی طرف داری حاصل کرتی تھی وہ اختتام پذیر ہو گئی۔ آسمان کی نظر میں ایک روح کی قیمت دُنیا کے تمام خزانوں سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جب مسیح یسوع نے یروشلیم پر نگاہ کی تو تمام قوم اور سارے شہر کی موت اُس کے سامنے تھی۔ وہ شہر ، وہ قوم جو کسی وقت خُداوند کی چنیدہ قوم اور اُسکا بلا شرکت غیر خزانہ تھا۔ AK 18.3

    انبیائے اِکرام نے بنی اسرائیل کی برگشتگی پر اور اُس ہولناک تباہی پر اُن کے گناہوں کے باعث آنسو بہائے۔ یر میاہ نبی نے کہا کاش میری آنکھیں آنسوؤں کا چشمہ ہوتیں تا کہ میں شب و روز اپنی بنت قوم کے مقتولوں پر ماتم کرتا، اور خُدا کے اُس گلے کے لئے روتا رہتا جو اسیری میں چلا گیا یرمیاہ 1:9، یرمیاہ 17:13۔ پھر اُس کا غم کتنا ذیادہ ہوگا جس کی نبیانہ نگاہ نے چند سالوں کو نہیں بلکہ کئی زمانوں کو دیکھا۔ اُس نے اُس شہر کو دیکھا جو عرصہ سے خُداوند کی سکونت گاہ رہا تھا۔ اور اُس نے اُس شہر کو برباد کرنے والے فرشتہ کو بھی دیکھا جس کے ہاتھ تلوار تھی۔ کوہِ زیتون کے ٹیلے سے جہاں ٹائیٹس اور اُس کی فوجوں نے ڈیرا لگایا، وہاں سے اُس نے وادی کے پار مقدس صحن اور پیش گاہوں (عمارت کے چھتوں) کو دیکھا اُس نے آنسو بھری آنکھوں سے دیکھا، بہت ہی ہولناک منظر، جس کا محاصرہ اجنبی فوجوں نے کر رکھا تھا۔ اُس نے فوجوں کو جنگ کے لئے مارچ کرتے دیکھا تھا۔ اُس نے اُس شہر میں جس کا محاصرہ کیا گیا تھا ماؤں اور بچوں کو روٹی کے لئے آہ و بکا کرتے سنا تھا۔ اُس نے اُس شہر کے مقدس اور خوبصورت گھر، اُس کے محلات اور چبوتروں کو دیکھا جو آگ کے شعلوں سے بھڑک رہے تھے اور کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے تھے۔ AK 18.4

    آنے والے زمانوں پر نگاہ کرتے ہوئے اُس نے دیکھا کہ وہ لوگ جن کے ساتھ خُدا کے عہد و پیمان ہوئے تھے ہر ملک میں پراگندہ ہو گئے۔ بلکل اسی طرح جیسے “بیابان کے کنارے کھنڈر” وہ عارضی عذاب جو اُس کے بچوں پر گرنے کو تھا اُس نے یہ خُدا کے غضب کے پیالے میں سے پہلا قطرہ دیکھا تھا اور اسے آخری عدالت کے دن غضب کے پیالے کی تلچھٹ کو نوش کرنا تھا۔ الٰہی رحم، اشتیاق بھری محبت، اس افسوسناک کلام میں پائی جاتی ہے۔ “اے یروشلیم! اے یروشلیم تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور کو تیرے پاس بھیجے گئے اُن کو سنگسار کرتا ہے۔ کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہی اُسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تم نے نہ چاہا” متی 37:23۔ تُو ایسی قوم ہے جس کی میں نے دوسری قوموں کی نسبت زیادہ طرف داری کی۔ کاش کہ تُو اپنے اُوپر آنے والے دِنوں کو پہچانتی اور جو تیرے لئے امن اور سلامتی کی چیزیں تھیں اُنہیں تھام لیتی۔ میں نے انصاف کرنے والے فرشتے کو روکے رکھا، میں نے تجھے توبہ کے لئے کہا مگر یہ سب بیکار رہا۔ یہ صرف میرے نبی، بندے اور پیغمبر ہی نہیں تھے جن کو تو نے رد کردیا بلکہ تو نے اُس قدوس کو رد کر دیا جو بنی اسرائیل کا نجات دہندہ ہے۔ اپنی تباہی کی تو خود ذمہ دار ہے۔ “پھر بھی تم زندگی پانے کے لئے میرے پاس آنا نہیں چاہتےٗ یوحنا 40:5۔ AK 19.1

    بے ایمانی اور بغاوت میں سرکش دُنیا کی علامت کو مسیح یسوع نے یروشلیم میں دیکھا جب کہ وہ خود خُدا کی انتقامی عدالت کی طرف تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ تمام گنہگار نسل کے رنج و مصائب اُس کی روح کو کچل رہے تھے۔ اور اُس کے ہونٹ زبردستی چیخ و پکار رہے تھے ۔ اُس نے گناہ کے ریکارڈ کو دیکھا جس کے باعث بنی نوع انسان پر رنج و الم، اور کشُت و خون برپا تھا۔ اُس کا دل دھرتی پر رہنے والوں کے دُکھ و درد کو دیکھ کر بے پایاں رخم سے بھر آیا۔ وہ اُن سبھوں کو مصیبتوں سے رہائی دینے کا خواہاں تھا۔ بعض نے خیال کیا شائد اُس کے ہاتھ انسنی دُکھوں کے جوار بھاٹے کو نہ تھام سکیں گے اس لیے اُنہوں نے اپنی مدد کے لئے اپنے ذرائع تلاش کئے۔ وہ تو اپنی جان دینے کے لئے بھی تیار تھا اور نجات کو اُن کی جھولی میں ڈالنے کا خواہاں تھا۔ مگر بہت ہی کم لوگ اُس کے پاس آئے تاکہ زندگی پائیں۔ AK 19.2

    آسمان کی زینت، قادرِ مطلق مسیح یسوع، رویا اور اُس کی جان کو بڑی تکلیف پہنچی اور وہ اس اذیت کے باعث سر بسجود ہو گیا۔ اس منظر نے تمام آسمان کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ منظر ہمیں گناہ کی معصیت (نافرمانی — پاپ) کی شدت سے آگاہ کرتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کی خُدا کی شریعت کو توڑنے کے لئے نتائج سے گنہگار کو بچانے کے لئے قادرِمطلق کے لئے بھی کس قدر مشکل پیدا کردی ہے۔ مسیح یسوع نے قدیم پشت پر نگاہ ڈالی اور جانا کہ وہ دُنیا بھی اُسی فریب کا شکار تھی جع یروشلیم کی بربادی کا باعث بنا۔ یہودیوں کا سب سے بڑا گناہ مسیح یسوع کو ردِ کرنا تھا۔ اور مسیحی دُنیا کا بڑا گناہ ہوگا کہ وہ خُدا کی شریعت کو رد کریں گے۔ جو کہ آسمان اور زمین پر اُس کی حکومت کی بنیاد ہے۔ یہوداہ کے احکام کی تحقیر کرنے اور اُنہیں ناچیز جاننے والے ہزاروں گناہ کے غلام، ابلیس کے اسیر، دوسری موت کا مزہ چکھیں گے۔ اور یہ وہ ہوں گے جنہوں نے سچائی کا کلام کو سننے سے انکار کیا۔ یہ ہولناک اندھا پن اور حیرت انگیز کم عقلی ہے۔ AK 20.1

    عید فسح سے دو دن پہلے اُس وقت مسیح یسوع آخری با ہیکل میں گیا۔ جب اُس نے یہودی حکمرانوں کی ریا کاری کی مذمت کی۔ وہ ایک بار پھر اپنے شاگردوں کے ساتھ کوہِ زیتون پر گیا اور وہ اُن کے ساتھ ڈھلان پر بیٹھا جب اُس کے سامنے شہر کا منظر تھا۔ ایک بار پھر اُس نے شہر کی دیواروں، میناروں اور اس کے محلات پر اُچکتی ہوئی نظر ڈالی۔ ایک بار پھر اُس نے ہیکل کی چمک دَمک اور شان و شوکت کو دیکھا، جو مقدس پہاڑ کے سر خوبصورت کلاہ شاہی (تاج) تھا۔ AK 20.2

    کوئی ہزار برس پیشتر زبور نویس نے اسرائیل کے لئے خپدا کی اس بے حد حمایت کی تعریف کی تھی کہ اُس نے اپنی سکونت گاہ اُن کے درمیان رکھی ہے۔ “سالم میں اُس کا خیمہ ہے اور صیون میں اُس کا مسکن“بلکہ یہوداہ کے قبیلے کو چنا۔ اُسی کوہِ صیون کو جس سے اُس کو محبت تھی۔ اور اپنے مقدس کو پہاڑوں کی مانند تعمیر کیا” زبور 69-68:78,2:76 ۔ پہلی ہیکل اسرائیل کی تاریخ کے اُس دور میں بنی جب بنی اسرائیل کی حکومت اپنے کامران اور پوچھے جوبن پر تھی۔ داؤد بادشاہ نے اس مقصد کے لئے بہت بڑا خزانہ جمع کیا۔ جس کی تعمیر کا ڈھانچہ خود خُداوند نے دیا 1 تواریخ 12:28، 19:28۔ سلیمان بادشاہ نے جو بنی اسرائیل کے تمام بادشاہوں سے زیادہ حکمت سے معمور تھا کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اس ہیکل کی عمارت ایسی شاندار تھی کہ اس سے پیشتر دُنیا نے اتنی شاندار عمارت نہیں دیکھی تھی۔ تاہم خُداوند خُدا نے حجی بنی کے ذریعہ دوسری ہیکل کے بارے یوں فرمایا “اس پچھلے گھر کی رونق پہلے گھر کی رونق سے زیادہ ہوگی” “میں سب قوموں کو بلاؤں گا اور اُن کی مرغوب چیزیں آئیں گی اور میں اس گھر کو جلال سے معمور کروں گا رب الافواج فرماتا ہے” حجی 7،9 ۔ AK 20.3

    نبوکدنضر کےہاتھوں ہیکل کی تبا ہی کے بعد میسح یسوع کی پیدائش سے تقریباًپا نچ سو سال پہلے دوبارہ اُن لو گوں نے اس ہیکل کی تعمیر کی جو عمر بھر کی اسیری کےبعد اُجڑے ہوئے ویران ملک میں واپس آئے- اُن لوگوں میں کچھ عمر رسیدہ لو گ بھی تھے جنہوں نے سلیمان کی ہیکل کی شان و شو کت کو د یکھا تھا- یہی لو گ نئی ہیکل کی بنیاد ڈالنے کےوقت زارو قطار روئے۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ پہلی ہیکل کی نسبت سے بہت ہی کم مرتبہ ہو گی- اُن جذبات کو نبی نے بڑے ہی دل دوز انداز میں پیش کیا ہے۔ “تم میں سے کس نے اسہیکل کی پہلی رونق کو دیکھا ؟اور اب کیسی دکھائی دیتی ہے؟کیا یہ تمھاری نظر میں نا چیز نہیں ہے“؟حجی3:2، عزار 12:3-پھر یہ وعدہ کیا گیاکہ اس گھر کی شان و شوکت پہلے گھر کی شان و شوکت سے کہیں زیادہ ہو گی-AK 21.1

    مگر دوسری ہیکل پہلی ہیکل کی شان و شوکت کا مقا بلہ نہ کر سکی۔ اور نہ ہی اس میں الٰہی مو جودگی کاکوئی دیدنی نشان ظا ہر ہوا جیسے پہلی ہیکل میں تھا۔ اور نہ ہی اس مخصو صیت کے لئے کوئی مافوق الفطرت معجزہ دیکھنے کو ملا نہ کوئی جلالی بادل دکھائی دیا جو اس نئی ہیکل کو معمور کر دیتا۔ نہ ہی آسمان سے قربانی کو بھسم کرنے کے لئے آگ نا زل ہوئی۔ پاک تر ین مقام میں کروبیوں کے درمیان خُدا کا جلال سکونت نہیں کر رہا تھا- عہد کا صند وق،رحم کی کرسی اور شہادت کی میز بھی وہاں نہیں تھی۔ اور کاہنوں کے سوال کے جواب میں آسمان سے کوئی آواز نہ آئی۔AK 21.2

    صدیوں تک یہودی قوم اُس وعدے کو دہرانے کی فضول کوشش کرتے رہے جب کہ وہ وعدہ جوخُدا نے حجحی نبی کے ذریعہ کیاتھاوہ پورا ہو چکا تھا۔ تا ہم اُن کے غرور اور کم اعتقادی نےاُن کے اذہان پر پردہ ڈال دیا تھا اور وہ نبی کے کلام کے اصل معنوں کو سمجھ نہ پا ئے۔ گو دوسری ہیکل کو خُدا کے جلال کے بادل کا شرف حاصل نہ ہوا تو بھی اُس میں بنفس نفیس زندہ حضوری کے ساتھ وہ تھا جس کی الوہیت کی ساری معوری اُسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے[کلیسوں 9:2]۔ جو خُدا تھا اور جسم ظاہر ہوا۔جو “تمام قوموں کی اُمنگ“بیشک وہ اُس وقت اپنی ہیکل میں آیا۔ جب یسوع ناصری نے لوگوں کو مقدس احاطہ میں تعلیم دی اور شفا بخشی۔ میسح یسوع کی حضوری کی وجہ سے یہ دوسری ہیکل پہلی ہیکل سے زیادہ جلالی ٹھہری۔ مگر نبی اسرا ئیل نے آسمانی پیش کردہ تحفے کو رد کر دیا۔ فروتن اُستاد جب گو لڈن گیٹ سے باہر نکلا تو ہیکل سے خُداوند کا جلال ہمیشہ ہمیشہ کے لئےجاتا رہا۔ مسیح یسوع کا کلام پیشتر ہی پورا ہو گیا “تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھو ڑا جاتا ہے“متی 38:23 ۔AK 21.3

    شاگرد میسح کی اس پیشینگوئی سے حیرت زدہ ہو گئے کہ ہیکل برباد کر دی جا ئےگی۔ اور اُن کی دلی تمنا تھی کہ وہ میسح کے اس کلام کو مزید وضا حت سے سمجھ پائیں۔ روپیہ روپیہ،اس پر محنت مشقت اور تعمیری [عما رتی] ُہنرکو تقر یباً چا لیس برس کے قریب اس کی آرائش اور شان و شو کت کو قائم رکھنے کے لئے صرف ہو چکے تھے۔ ہیرو دیس دی گر یٹ نے رومی دولت اور یہو دی خزانہ کو اس پر دل کھول کر خرچ کیا تھا۔بلکہ دُنیا کے بڑے بڑےبا د شا ہوں نے اسے اپنے تحائفسے آراستہ اور مالا مال کر دیا تھا۔ سفید سنگ مرمر کے بھاری بھرکم بلا کس روم سےاس مقصد کے لئے بھیجے گئے جس سے اس کا کچھ حصہ بنا یا گیا اور اسی لئے شاگردوں نے یہ کہہ کر اپنے آقا کی توجہ اس ہیکل کی طرف مبذ ول کرائی“اسے استاد دیکھ یہ کیسے کیسے پتھر اور کیسی کیسی عمار تیں ہیں” مرقس 1:13۔AK 22.1

    اس پر مسیح یسوع نے بہت ہی سنجیدہ اور حیران کن جواب دیا۔“اُس نے جواب میں اُن سے کہا کیا تم ان سب چیزوں کو نہیں دیکھتے؟میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا“متی 2:24۔ شاگردوں نے سوچا کہ یرو شلیم کی بربادی کے ساتھ ہی مسیح یسوع کی آمد ثانی ہو گی اور وہ شخصی طور پر عالمگیر سلطنت کا مالک بن جا ئے گا اور غیر تا ئب یہو دیوں کو سزا دے گا، نیز قوم کے کندھےسے رومی جوئےکو تو ڑ پھینکے گا۔ مسیح یسوع نے انہیں بتایا کہ وہ دوسری بار آئے گااور یرو شلیم کو عدالت میں لائےگا۔اس لئے اُنکے خیالات اُس کی آمد کی طرف عود آئے۔اور جب وہ کوہِ زیتون پر نجات دہندہ کے گرد جمع تھے تو اُنہو ں نے اُس سے پو چھا “ہم کو بتا کہ باتیں کب ہوں گی؟اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہو نے کا نشان کیا ہو گا؟“متی 3:24 ۔AK 22.2

    رحمدلی کے تحت مستقبل شا گر دوں پر عیاں نہ کیا گیا۔ اگر اُنہیں اُسی وقت دو مغمو م وا قعات کا پتہ چل جا تا جن میں مسیح یسوع کے دُکھ اور موت، اُن کے شہر اور ہیکل کی بر بادی شا مل تھی وہ خوف و ہراس میں گم ہو جا تے ۔ مسیح یسوع نے اُن کے آخری زمانے کے معروف واقعات کا خاکہ پیش کیا تھا۔اُس کی باتوں کو تو اُس وقت پورے طور پر نہ سمجھا گیا مگر جو ہدایات اُن میں دی گئی تھیں اُس کے لوگ اُن کی روشنی میں اُنہیں سمجھ سکتے ہیں۔ جو پیشینگو ئی اُس نے کی وہ ذُو معنی تھی۔ یروشلیم کی تباہی کی ثمثیل آخری ہو لناک عظیم دن کا پیش خیمہ بھی ہے۔ AK 22.3

    اُس عدالت کے بارے جو بنی اسرائیل پر آنے کو تھی اُس کے بارے مسیح یسوع نے اعلان کیا اور خصو صاً اُس عذاب کے بارے بتایاجو اُنہیں مسیح کو رد کرنے اور اُسے مصلوب کرنے کے عوض بھگتنا پڑے گا۔ اس جلالی عروج سے پہلے صریح نشا نات ظاہر ہوں گے۔ وہ بال جان وقت فوراً اور بڑی سرعت سے نازل ہو گا۔ اور اس بارے نجات دہندہ نے اپنے پیروکاروں کو آگاہ کیا“پس جب تم اُس اُجاڑے والی مگر وہ چیز کو جس کا ذکر دانی ایل نبی کی معرفت ہوا۔ مقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو[پڑھنے والا سمجھ لے]تو جو یہو د یہ میں ہوں وہ پہاڑون پربھاگ جا ئیں۔ جو کو ٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا اسباب لینے کو نیچے نہ اترے “لو قا21: 20۔21۔AK 23.1

    جب مقدس سر زمین میں روم کی طرف سے بت پر ستی کا معیا ر رائج ہو جا ئے جو شہر کی دیواروں کے باہر چند فرلانگ تک رسائی کئے ہوئے تھےتب مسیح کے پیرو کاروں کو صرف بھا گنے میں ہی سلامتی ملنی تھی۔ جب وہ نشان ظاہر ہوں جن کے بارے آگاہی دی گئی تو جو بچ سکتے ہیں وہ بھا گنے میں دیر نہ کر یں۔یہود یہ اور یر و شلیم کی ساری سر زمین میں بھاگ نکلنے کے سگنل کی فوراً تعمیل کی جانی تھی۔ جسے گھر کی چھت پر جانے کا موقع ملے وہ نیچے اپنے گھر میں خواہ اندر اُس کا کتنا ہی قیمتی خزانہ کیوں نہ ہو بچا نے کے لئے نہ جائے۔ اور جو تا کستان یا کھیت میں کام کر رہے ہوں وہ اُس کپڑے کو جو اُنہوں نے سخت گرمی کے دوران کھیتوں میں کام کر تے ہوئے اُتار کر رکھے تھے لینے کے لئے واپس نہ جائیں۔ ایک لمحہ بھی ضا ئع نہ کر یں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ عام تباہی کی زد میں آجائیں۔AK 23.2

    ہیرودیس کے زمانہ میں یرو شلیم کو نہ صر ف خو بصورت بنایا گیا تھا بلکہ میناروں،دیواروں اور قلعوں کا بھی اضافہ کیا گیا تھا تا کہ اس کے محلے وقوع کو فطری قوت اور مضبوطی حاصل ہو۔ بظاہر ایسے دکھا ئی دیتا تھا کہ یہ قابلَ تسخیر ہے۔ اُس وقت اگر اس کی تباہی کے لیے اعلانیہ کہنا چا ہتا تو اُس کو بھی لوگ پاگل ہی سمجھتے جیسے نوح کے زمانہ کے لوگ نوح کو سمجھتے تھے۔ مگر مسیح یسوع نے فرما دیا تھا کہ “آسمان اور زمین ٹل جا ئیں گی لیکن میری باتیں ہرگز نہ ٹلیں گی “متی 35:24 ۔یر و شلیم کے گناہوں کے سبب غضب نا زل ہوا اور اس کی بے ایمانی نے ہلاکت کو یقینی بنایا۔AK 23.3

    خُداوند خُدا نے اپنے بندہ میکاہ کے ذریعہ فرمایا” اے نبی یعقوب کے سردار اور اے نبی اسرا ئیل کے حاکموں جو عدالت سے عداوت رکھتے ہو اور ساری راستی کو مڑور تے ہو اس بات کو سنو۔ تم جو صوِن کو خو نر یزی سے اور یروشلیم کو بے انصافی سے تعمیر کرتے ہو۔ اُس کے سردار رشوت لیکر عدالت کرتے ہیں اور اُس کے کاہن اُجرت لیکر تعلیم دیتے ہیں اور اُس کے نبی روپیہ لیکر فا لگیرن کرتے ہیں تو بھی وہ خُداوند پر تکیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کیا خُداوند ہمارے درمیان نہیں؟ پس ہم پر کو ئیگی“میکاہ 9:3۔11۔AK 24.1

    یہ کلام یروشلیم کے باشندوں کی با شندوں کی با شندوں کی بد چلنی اور ریاکاری کو بجا طور پر پیش کرتا ہے ۔ جہاں وہ خُدا کی شریعت کی پا بندی کر نے کے دعوے کر تے تھے وہیں وہ خُدا کے اصولوں کی خلاف ورزی بھی کرتے تھے۔وہ مسیح یسوع سے اس لئے نفرت کرتے کیونکہ اُس کی پاکیزگی اور پرہیز گاری اُن کی بدی کو آشکارہ کرتی تھی۔ اور اُن کے گناہوں کے سبب سے جو اُن پر مصائب آتے تھے اُن کے لئے وہ مسیح یسوع کو مو ر دالزام ٹھراتے۔ گوہ وہ جانتے تھے کہ گنہگار نہیں تھا پھر بھی اُنہوں نے کہا کہ قوم کے لئے اور اُن کی سلامتی کے لئے اُس کا مرنا بہتر ہے۔“اگر ہم اُسے یوں ہی چھوڑ دیں تو سب اُس پر ایمان لے آئیں گے اور رومی آکر ہماری جگہ اور قوم دونوں پر قبضہ کر لیں گے“یوحنا 48:11۔ اگر دلیل دیتے ہو ئے اُنہوں نے سردار کاہنوں کی مشورت کو بھی اس فیصلے میں شامل کر لیا کہ ساری قوم کی بجا ئے ایک شخص کا مرنا اچھا ہے۔AK 24.2

    یوں یہودی لیڈروں نے “صیون کی خو نر یزی سے اور یر و شلیم کو بے انصافی سے تعمیر کیا” میکاہ 10:3 ۔ اور اُنہوں نے اپنے نجات دہندہ کو قتل کیا کیوں کہ وہ اُن گناہوں کے سبب سے ملامت کرتا تھا۔ یوں وہ خود اپنے آپ کو استبار ٹھہراتے اور سمجھتے تھے کہ خُداوند کے لوگ ہیں جن کی خُداوند حمایت کرتا اور وہ اُنہیں دشمنون سے رہائی دے گا۔ اس لئے نبی نے کلام کو جاری رکھتے فرمایا“اس لئے صیون تمہارے ہے سبب سے کھیت کی طرح جاتا جائے گا اور اس گھر کا پہاڑ جنگل کی اونچی جگہوں کی مانند ہو گا“میکاہ 12:3۔AK 24.3

    گو مسیح یسوع نے یروشلیم کی تباہی کا اعلان کر دیا تو بھی اُس کے تقریباً 40 برس تک خُداوندنےشہراور بنی اسرائیل قوم پر بربادی لانے میں دیری کا مظاہرہ کیا۔ خُداوند کا صبراُس کی خو شخبری کو رد کرنے اورمسیح کو قتل کر نے والی قوم کے خلاف بے نہایت ہے۔ پھل نہ لانے والے درخت کی ثمثیل خُدا کے برتاو کی نما ئند گی کر تی ہے اُس نے یہودی قوم سے روا رکھا۔ حکم دے دیا گیا تھا کہ ” اسے کاٹ ڈال، یہ زمین کو بھی کیوں روکے رہے ؟“لوقا 7:13 ۔ مگر الٰہی رحم نے اسے کچھ دیر اور رہنے دیا۔ابھی تک یہودی قوم میں بہتیر ایسے تھے جو مسیح یسوع کی سیرت اور اُس کت کلام سے نا واقف تھے- بچوں نے اپنے والدین کی بد چلنی میں حصہ نہیں لیا تھا یا اُس روشنی کو حاصل نہیں کیا تھا جسے اُن کے والدین نے رد کر دیا تھا۔ روسولوں اور اُن کے معاونین کی منادی کے ذریعہ خُداوند اُن پر روشنی چمکا نے کا خواہاں تھا، اُنہیں یہ دکھانا مقصود تھا کہ کس طرح پیشینگوئی پوری ہوئی۔ نہ صرف مسیح یسوع کی پیدائش کے بارے بلکہ اُس کی موت اور مردوں میں سے جی اُٹھنے کی پیشینگوئی بھی پوری ہوئی۔ والدین کے گناہوں کے سبب سے بچے مجرم نہیں ٹھہرائے گئے- بلکہ جب تمام روشنی اُن کے والدین کو دی گئی تو بچوں نے اُس اضافی نور کو ٹھکرا دیا جو اُنہیں دیا گیا۔یوں وہ اپنے والدین کے گناہوں میں شامل ہو گئے اور اپنے بدی کے پیمانہ کو لبریز کر لیا-AK 25.1

    یروشلیم کے لیے خُداوند کے صبر نے یہودیوں کے ضدی اور غیر تائب ہو نے کی توثیق کر دی- مسیح یسوع کے شاگردوں کے خلاف ظلم و ستم اور نفرت دکھانےسے اُنہوں نے رحم کی آخری پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا-تب خُدا نے اُن پر سے اپنی پناہ کا ہاتھ اُٹھا لیا اور اُس مزاحمتی قوت کو جو وہ ابلیس اور اُس کے فرشتوں کے خلاف استعمال کرتا تھا اُسے روک لیا۔ اور قوم کو اُس لیڈر کے کنٹرول میں دے دیا جسے اُنہوں نے خود منتخب کیا تھا- اُن کے بچوں نے مسیح یسوع کے فضل کو حقیر جانا جو اُن کی بدی کی خواہشات کو مغلوب کر سکتا تھا۔ مگر اب وہ بدی کے اسیر ہو گئے ۔ اور ابلیس نے اُن کی روح کے نہایت ہی ہیجان خیز اور بے آبروشوق پیدا کر دیا۔ مرد بے ادر اک ہو گئے ۔ وہ معقو لیت سے بہت دور چلے گئے۔ اُن کے جذبات اور بے جاغضب آنہیں کنڑول کرتا تھا۔ ظلم و تشدد میں وہ ابلیس کے ہم خصلت ہو گئے۔ خاندان اور قوم میں ، بڑے اور چھو ٹے طبقے میں شک و شبہات و حسد، نفرت، جھگڑا اور اخلا فات، بغاوت اور خو نر یزی پائی جانےلگی ۔ سلامتی کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ دوست و احباب ارو رشتہ دار ایک دوسرے سے دغا کرتے۔ والدین اپنے بچوں کا قتل کر دیتے اور بچے والدین کو مار دیتے تھے ۔ حکمرا نوں میں اپنے اورپر ضبط کرنے کی قوت مفقود تھی۔ بے قابو جذبات نے اُنہیں جابر بنا دیا تھا ۔ یہو دیوں نے خُدا کے معصوم بیٹے کو ملعون ٹھہرانے کے لئے جھوٹی گواہی کر لیا۔ اب غلط الزامات نے اُن کی اپنی زندگیوں کا غیر یقینی بنا دیا۔ اپنے کاموں کے ذریعہ وہ عرصہ سے کہہ رہے تھے “اسرائیل کے قدوس کو ہمارے درمیان سے مو قوف کرو“یسعیاہ 11:30 ۔ اب اُن کی خواہش پوری ہو گئی خُدا کا خوف اب اُنہیں پریشان نہیں کرتا تھا ۔ ابلیس اُن کی قوم کا سردار تھا۔ اور اعلٰے سول اور مذ ہبی اختیارات رکھنے والے اُس کی رہنمائی میں چلتے تھے۔ AK 25.2

    مخالف جماعتوں کے لیڈر بھی اُس وقت اپنے آفت زدہ شکار کو اذیت دینے کے لئے متحد ہو گئے ۔ اور ایک بار پھر وہ ایک دوسرے کی فوجوں پر جھپٹ پڑے اور بے دریغ قتل عام کیا۔ حتٰی کے ہیکل کا تقدس بھی اُسے اُن کت وحشی پن سے نہ بچا سکا۔ عبادت گزاروں کا مذ بح کے قریب ہی مارا گیا۔ اور مقتولوں کی لاشوں سے ہیکل کو ناپاک کیا گیا۔ اس کے باوجود اُن کے بے بصیرت اور کافرانہ گمان جو اُنہیں اس گھناو نے کا م پر اُکساتا تھا وہ بظاہر یہی بتاتا تھا کہ اُنہیں یرو شلیم کی بربادی کا خوف نہیں ۔ کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ خُداوند کا اپنا شہر ہے۔ اپنی قوت کو مزید مستحکم کرنے کے لئے اُنہوں نے نبیوں کو رشوت دی کہ وہ خُدا سے التجا یں کہ وہ جوگ ابھی تک تیری رہائی کے منتظر ہیں ۔ حالانکہ اُس وقت فوجوں نے ہیکل کا محاصرہ کر رکھا تھا۔ آخر تک عوام اس اعتقاد پر ڈٹے رہے کہ خُداوند ہمارے دشمنوں کو شکست دینے کے لیے مداخلت کرے گا۔ مگر بنی اسرائیل نے تو خُدا کی پناہ کو جھٹک دیا تھا اور اب اُن کے لئے دفاع نہ تھا۔ چاروناچار یروشلیم اندرونی خلفشار کا شکار ہو گیا۔ ہر ایک نے دوسروں کے بچوں کا اتنا خون بہایا کہ اُس کی گلیاں خون سے لت پت ہو گئیں۔ اور اجنبی فوجوں نے اُس کی فصیلوں کو مسمار اور اُس کے جنگی مردوں کو ہلاک تر دیا۔ یروشلیم کی بربادی کت بارے جتنی پیشینگو ئیاں میسح یسوع نے کیں وہ حرف بہ حرف پوری ہوئیں اُس کے کلام کی سچائی کی تنبیہ کا یہودیوں کو تجربہ ہو گیا” جس پیمانہ سے تم ناچتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناچا جائے گا“متی 2:7۔AK 26.1

    بحران اور بربادی کا جو فتویٰ دیا گیا تھا اُس کے نشانات اور حیرت انگیز چیزیں وقوع میں آنے لگیں۔ رات کے دوران ایک غیر معمولی روشنی ہیکل اور مذ بحہ پر چمکی۔ غروب آفتاب کے وقت بادلوں پر رتھوں اور جنگی مردوں کی تصویر یں نمودار ہوئیں جو جنگ کے لئے جمع ہوئے تھے۔ وہ کاہن جو ہیکل میں رات کے وقت خدمت انجام دے رہے تھے پُر اسرار آوازوں سے بے وجہ خوفزدہ ہو گئے۔ زمین لرز گئی اور بہت سی آوازیں یہ کہتی ہوئی سنی گئیں کہ “اب ہمیں یہاں سے یہاں سے رخصت ہو جانا چاہیے“بڑا مشرقی گیٹ جو اس قدر بھاری تھاکہ بیسیوں آدمی بمشکل بند کرتے تھے۔ اور اُسے لوہے کی بڑی سلاخوں سے محفوظ اور ٹھوس پتھروں کے زمین میں گاڑھا گیا تھا۔ اُسے آدھی رات کو دیدنی ہاتھوں نے کھول دیا۔ AK 26.2

    Milan, the history of the Jesus, book 13.AK 27.1

    7 سال تک ایک شخص یروشلیم کے بازاروں میں مسلسل اُس بربادی کے بارے منادی کرتا رہا جو اُس پر آنے کو تھی ۔رات دن وہ بے اثر نوحہ کرتا رہا۔ “مشرق کی طرف سے آواز مغرب کی طرف سے آوازچاروں اطراف سے آواز14 آواز جو یروشلیم اور اُس کی ہیکل کے خلاف تھیدلہا کے خلاف آوازدُلہن کے خلاف آوازتمام لوگوں کے خلاف آواز۔ Ibid: book 13AK 27.2

    اس انوکھے شخص کو قید میں ڈالا گیا، اُسے کوڑے مارے گئے مگر اُس کے لبوں سے شکوے کا ایک بھی لفظ نہ نکلا۔ اُس نے اپنی تذ لیل اور تشددکے جواب میں صرف یہ کہا افسوس ، افسوس یرو شلیم اور اُس کے باشندوں پر افسوس، اُس کی منادی اُس وقت تک اختتام پذ یر نہ ہوئی جب تک وہ شہر کے اُس محاصرے میں مارا نہ گیا تھا جس کی اُس نے پیشینگوئی کی تھی۔AK 27.3

    یروشلیم کی تباہی میں ایک بھی مسیحی ہلاک نہ ہوا کیونکہ مسیح یسوع نے اپنے شا گر دوں کو آگاہ کر دیاتھا ۔ اور جتنے اُس کے کلام پر ایمان لائے وہ اُس مو عودہ نشان کی تاک میں رہے۔“جب تم یروشلیم کو فوجوں سے گھر ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔ اُس وقت جو یہودیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور یروشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں“لوقا 21:20:21 ۔AK 27.4

    جب سیسٹسں (Cestius) کی زیر کمان رومیوں نے شہر کا محاصرہ کر لیا تو غیر متوقع طور پر محاصرہ اُس وقت ختم کر دیا گیا جب ایسے معلوم ہوتا تھا کہ فوری حملے کے لئے ہر طرح حالات سازگار ہیں۔محصور، جو بھاگ نکلنے کو تیار تھے وہ اب ہتھیار ڈالنے پر مائل تھے ۔ اُسی وقت رومی جرنیل نے بغیر کسی وجہ کے فوجوں کو نکال لیا۔ مگر مہربان خُدا وند کی پروردگاری اپنے لوگوں کی بھلائی کے لئے واقعات کو موڑ رہی تھی۔ انتظار کر نے والے مسیحیوں کو موعودہ نشان دیا گیا۔ اور اُن سب کو موقع فراہم کیا گیا جو میسح یسوع کی اگا ہی کو ماننے کے لئے تیار تھے۔ اُن واقعات کو یوں مسترد کر دیا گیا کہ نہ ہی رومی، مسیحیوں کی روانگی کو روک سکے۔ سیسٹسں کی پسائی پر، یہودی یروشلیم نے فوراً باہر نکلے اور بھا گنے والی فوج کا تعاقب کیا، اور جب یہ دونوں اطراف کی فو جیں پوری طرح مشغول تھیں ، اُس دوران مسیحیوں کے پاس نکل جانے کا اچھا موقع تھا۔ اس وقت شہر کو بھی دشمنوں سے پاک کر لیا گیاتھا جو اُنہیں روکنے کی کوشش کر سکتے تھے۔ محاصرے کے وقت یہودی یروشلیم میں ہیکل کی عید منانے کے لئے جمع تھے ، یوں مسیحی پورے ملک سے کسی کو خبر ہوئےاور تکلیف اُٹھائے بغیر بچ کر جانے کے قابل ہوئے۔ وہ بغیر دیر کئے محفوظ مقام پیلا (Pella) شہر میں چلےگئے ، جو یردن کے پار پیریا کی سرزمین ہے۔ AK 27.5

    یہودی فوجیوں نے نے سیسٹس اور اُس کی فو جوں کا پیچھا کیا اور اُن کے پچھلے حصے پر اتنا زور دار وار کیا کہ وہ قریب قر یب تباہ ہو گیا۔ رومی بمشکل اپنی واپسی میں کامیاب ہوئے ۔ اور یہودی بغیر کسی نقصان کے بچ گئے ۔ اور مال غنیمت کے ساتھ فاتحانہ انداز میں یروشلیم کو لو ٹے۔ تاہم یہ نمایاں کامیابی اُن کے لئے صرف بدی کا موجب بنی۔ اس کامیابی نے مزاحمت کر نے کرنے والی ضدی روح کو تحریک دی جس سے اُنہوں نے رومیوں کی مزاحمت کی۔ جو بڑی تیزی سے اس شہر پر ایسی بربادی لائی جا بیان سے باہر ہے۔ AK 28.1

    لیکن جب ٹائیٹس کے زیر کمان یروشلیم کا محاصرہ کیا گیا تو شہر پر نہا یت ہی ہو لناک قہر ڈھایا گیا۔ عید فسح کے وقت شہر میں غلے کے بڑے ذخیزے تھے جب کروڑوں یہودی عید فسح منانے کے لئے شہر کے اندر آئے تھے۔ اُن کی خوراک کے گودام ، اگر اُنہیں احتیاط سے استعمال کیا جاتا تو وہ اُس کے باشندوں کے لئے کئی سالوں کے لئے کافی اناج ہوتا۔ پہلے اسے مختلف فاقوں کے تمام وحشت ناک تجربات سے دو چار ہوناپڑا۔ ایک پیمانہ گیہوں ایک درہم کا بکنے لگا۔ فاقوں کی یہاں تک نوبت آگئی کہ لوگ کمر بند اور جوتوں اور اپنی شلیڈ کے غلاف کھانے لگے۔ بڑی تعداد میں لوگ رات کے وقت شہر کی دیواروں کے باہر چلے جاتے تاکہ اُگنے والی جڑی بو ٹیوں کو لا کر پیٹ کی آگ بجھائیں۔ مگر اُن میں سے بہتیرے پکڑے جاتے اور اُنہیں سخت اذیت دیکر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا۔ اور جو محفوظ واپس آجاتے اُنہوں نے جو اِتنے خطرے کو مول لے جمع کیا ہوتا اُسے لوٹ لیا جاتا۔ جو حکومت اور اختیار رکھتے تھے وہ غیر انسانی ظلم روا رکھتے اور وہ لوگوں سے تھو ڑی بہت جو رسد اُنہوں نے چھپا کر رکھی تھی وہ چھین لیتے۔ اور اچھے کھاتے پیتے تھے غربا سے سب کچھ چھین لیتے تھے۔ ہزاروں لوگ فاقوں اور وبائی امراض کا شکار ہو گئے ۔ مہر و محبت جاتی رہی۔ میاں بیوی ایک دوسرے کو ٹھگنے لگے۔ بچے اپنے بوڑھے ماں باپ کے منہ سے کھانا چھیننے لگے۔ نبی کا سوال “کیا یہ ممکن ہے کوئی ماں اپنے شیر خوار بچے کو بھول جائے۔“یسعیاہ 15:49 ۔ اس کا جواب تباہ شدہ بدبخت شہر کی دیواروں سے ملتا ہے۔ “رحم دل عورتوں کے ہاتھوں نے اپنے بچوں کا پکایا میری دُختر قوم کی تباہی میں وہی اُن کی خوراک ہوئے “نوحہ 10:4 ۔ ایک بار پھر آگاہئ کی پیشینگوئی جو 14 سو سال پہلے دی گئی تھی پوری ہوئی۔ “وہ عورت بھی جو تمہارے درمیان ایسی ناز پر وردہ اور نازک نازک بدن ہوگی کہ نرمی و نزاکت کے سبب سے اپنے پاوں کا تلوا بھی زمین سے لگانے کی جرات نہ کرتی ہو اُس کی بھی اپنے پہلو کے شوہر اور اپنے ہی بیٹے اور بیٹی اور اپنے ہی نو زا ئیدہ بچے کی طرف جو اُس کی رانوں کے بیچ سے نکلا ہو بلکہ اپنے سب لڑکوں بالوں کی طرف جن کو وہ جنے گی بُری نظر ہو گی۔ کیونکہ وہ تمام چیزوں کی قلت کت سبب سے اُن ہی کو چھپ چھپ کر کھائے گی۔ جب اُس محاصرہ کے موقع پر اور اُس آڑے وقت میں تیرے دشمن تیری ہی بستیوں میں تجھ کو تنگ کر ما ریں گے۔ استشناہ 56:28 -57۔AK 28.2

    رومی لیڈر یہودیوں کو خوف وہراس کا شکار کرنا چاہتے تھے تاکہ وہ جلد ہتھیار ڈال دیں۔ و ہ قیدی جنہوں نے پکڑے جانے کے وقت مزاحمت کی اُنہیں اذیت ناک سزا ئیں دی گئیں، اُن پر تشدد کیاگیا اور بعض کو شہر کی دیوار کے ساتھ پھا نسی دی گئی، اس طرح روز انہ سینکڑوں کو موت کے گھاٹ اُتار جاتا۔ اور یہ بھیانک کام اُس وقت تک جاری رہا جب تک یہوسفت کی وادی اور کلوری میں اس قدر سولیاں کھڑی نہ کر دیں گئیں کہ اُن کے درمیان چلنے پھرنے کے لئے با لکل جگہ نہ رہی ۔ پیلاطس کی عدالت کے سامنے بنی اسرائیل نے کہا تھا کہ” اس کاخون ہماری اور ہماری اولاد کی گردن پر” متی 25:27 اس کی لعنت اُن پر وحشتناک طور پر نازل ہوئی۔ AK 29.1

    ایک موقع پر ٹا ئیٹس خود اس دل دہلا دینے والے منظر کو ختم کرنے کا خواہاں تھا۔اور یوں وہ یر و شلیم کو پوری تباہی سے بچا نا چاہتا تھا۔ جب اُس نے وادیوں میں لاشوں کے انبار دیکھے تو اُس کا دل دہل گیا۔ کوہِ زیتون کے ٹیلے پر سے اُس نے عا لیشان ہیکل کو دیکھا اور حکم دیا کہ اس کے ایک پتھر کو بھی چُھوا نہ جائے۔ مرکزی قلعے پر قبضہ کرنے سے پہلے اُس نے یہودی قیادت سے مخلص اپیل کی کہ اُسے مجبور نہ کریں کہ وہ اس مقدس جگہ کو خون سے نجس کرے۔اگر وہ اس جگہ کی بجائے کسی اور جگہ پنجہ آزمائی کرنا چا ہیں تو کو ئی بھی رومی ہیکل کے تقدس کو پا ئمال نہیں کر یگا۔ خود جوز فس نے فصیح اور جادو بیاں اپیل کی کہ وہ ہتھیار ڈال دیں، یوں خود کو بچائیں، اپنے شہر کو بچا ئیں اور اپنی عبادت گاہ کو بچا ئیں۔ مگر اُس التماس کے جواب میں اُس پر لعنتیں بھیجی گئیں۔ اور اُس پر بھالے سے حملہ کیا گیا جو اُن کا آخری ایڈوو کیٹ تھا۔ اور وہ اُن سے التجا کر رہا تھا۔ یہودیوں نے خُدا کے بیٹے کی التجاوں کو ناچیز جانا اور اب افہام و تفہیم سے معا ملہ حل کرنے کی التماس پر اُنہوں نے آخر تک مزاحمت کرنے کے لیے مصمم ارادہ کر لیا۔ ٹا ئیٹس کی ہیکل کو بچا نے کی تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ کیونکہ جو اُس سے اعلٰی، بلند اور قو ی تھا اُس نے کہہ دے تھا کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو گرایا نہ جائے گا۔ AK 29.2

    محصور شہر میں یہودی رہنماوںکی احمقانہ سرکشی اور قا بل نفرت جرائم نے رومیوں کے غیض و غضب کو بھڑکا دیا۔ بالآ خر ٹا ئیٹس نے فیصلہ کیا کہ ہیکل پر ایک دم حملہ کیا جائے۔ پھر بھی اُس کا یہ ارادہ تھا کہ اسے تباہی سے بچا لیا جا ئے۔ مگر اُس کے حکم کی کچھ پر واہ نہ کی گئی۔ کیونکہ جب وہ رات کے وقت اپنے خیمہ میں سونے کے لئے گیا تو یہودیوں نے ہیکل میں سے رومی سپاہیوں پر حملہ کر دیا۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران ایک سپاہی نے آگ کا گولہ پھینکا جوڈیوڑھی کے چھتے پر گرا۔ اور اُس نے مقدس مقام کی دیوار سے بنے چوہاروں میں آگ بھڑکادی۔ ٹا ئیٹس اپنے جر نیلوں اور فوجی دستوں کے ساتھ فوراً وہاں پہنچا اور آگ کو بجھانے کا حکم دیا مگر اُس کے حکم اُس کے شنوائی نہ ہوئی۔ سپاہیوں نے اپنے طیش میں آکر ایک اور آگ کا گالہ اُس کو ٹھری میں پھینکا جو ہیکل سے ملحق تھی۔ اور پھر اُنہوں نے اَن گنت یہودیوں کو تلوار سے موت کے گھاٹ اُتارا جو وہاں پناہ لئے ہوئے تھے۔ خون ہیکل کی سیڑھیوں سے پانی کی طرح بہہ نکلا ۔ لاکھوں کر وڑوں یہودیوں کی جانیں تلف ہو گئیں۔ جنگی آوازوں کے علاوہ یہ آوازیں بھی سنی گئیں“حشمت اسرائیل سے جاتی رہی” ۱ سموئیل 21:4 ۔AK 30.1

    ٹا ئیٹس نے دیکھا کہ سپاہیوں کے غیض و غضب کو روکنا نا ممکن ہے۔ وہ اپنے آفیسرز کے ہمراہ اندر گیا اور مقدس عمارت کا جائزہ لیا۔ اور اُس کے جلوے کو دیکھ کر حیران رہ گیا اور چو نکہ ابھی مقدس مقام تک شعلے نہیں پہنچے تھے اسے بچا نےکے لئے اپنی آخری کوشش کی۔ اور آگے بڑھ کر سپاہیوں کو ترغیب دی کہ آتش کو مزید بڑھنے سے روکیں۔ صو بیدار نے بلا تعصب کوشش کی کہ ٹا ئیٹس کے حکم کو بجالایا جائے مگرشہنشاہ کی عزت و تکریم کے باوجود یہودیوں کے خلاف عداوت کی آگ تیز سے تیز تر ہو گئی۔ جنگ کی شدید ہیجان خیزی اور غنیمت کے مال کا لالچ اُنہیں حکم کی بجا آوری میں مزاحم حال رہا۔ سپاہیوں نے اپنی چاروں طرف سونے کی چیزوں کو چمکتے دمکتے دیکھا، جو شعلوں کے درمیان اور بھی تاباں ہو گئیں۔ اُنہیں گمان ہوا کہ ہیکل کے اندر بہت بڑا خزانہ پڑا ہوا ہے۔ ایک سپاہی نے بنا سوچے دروازوں کی چولوں سے جلتی ہوئی مشعل پھینکی ۔ جلد ساری عمارت شعلوں کی لپیٹ میں آگئی۔ آنکھوں کو اندھا کر دینے والے دھو ئیں اور آگ نے افسروں کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا اور عا لیشان ہیکل کو اُس کے حال پر چھو ڑ دیا۔ AK 30.2

    “اگر رومیوں کے لئے یہ منظر ڈراونا تھا تو یہودیوں کے لئے یہ منظر کیسا ہو گا؟ پہاڑ کی نہا یت ہی بلند چو ٹی جو شہر کی شو کت تھی وہ آتش فشاں کی طرح بھڑک رہی تھی۔ ایک ایک کر کے سب عمار تیں زوردار دھماکے کے ساتھ گر رہی تھیں جنہیں آگ کی غار ہڑپ کر تی جا رہی تھی۔ دیوار کی چھتیں شعلے کی چادروں کی طرح تھیں۔ ہیکل کے سنہری کنگرے سرخ لائٹ کی کیلوں کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ گیٹ کے مینار سے شعلے اور دوھو ئیں کی لمبی لمبی لٹیں آسمان کی طرف اُٹھ رہی تھیں۔ اڑوس پڑوس کی پہاڑیاں بھی جگمگا اُٹھیں۔ لو گوں کا ایک غمگیں گروپ اس ہولناک تباہی کو بڑی تشویش سے دیکھ رہا تھا۔ دیواریں اور شہر کا بالائی حصہ ایسے لو گوں سے کھچا کھچ بھرا پڑا تھا جن کے چہرے مایوسی کی ذہنی کرب سے پہلے پڑ چکے تھے۔ AK 31.1

    اور بعض بدلہ نہ لے سکنے پر غضب آلود نگاہوں سے گھور رہے تھے۔ رومیوں کے نعرے بازی کا شرابہ جب وہ بھاگے بھاگے اِدھر اُدھر جاتے آتے تھے، اور پھر اُن لو گوں کی چیخ و پکار جو آگ کے شعلوں میں برباد ہو رہے تھے ان سب کا شور آگ کے بھڑ کنے کے شوراور گرتی ہوئی جلی لکڑ یوں کے شور کے ساتھ مل گیا۔ پہاڑوں نے لو گوں کی چیخ و پکار کی باز گشت سنائی۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ آہ وزاری اور چیخ و پکار دوبارہ سنائی دینے لگی۔ کیو نکہ وہ مردو زن جو فاقوں کے باعث قریب المرگ تھے اُنہوں نے اپنی رہی سہی قوت کو جمع کر کے اذیت اور غارت گری پر واویلا کیا۔“شہر کے باہر کی نسبت شہر کے اندر قتل و غارت کا منظر نہایت ہی بھیانک تھا۔ مرد اور خواتین، بزرگ اور جوان، سر کش اور کاہن،وہ جو جنگ کر رہے تھے اور جو رحم کی درخواست کر رہے تھے سب کو بلا امتیاز ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔ رومی فوجیوں کو تباہی پھیلانے کے لئے ُمردوں کے ڈھیرکے اوپر سے بمشکل گزرنا پڑتا تھا۔ Milan, the history of the Jesus, book 16AK 31.2

    ہیکل کی تباہی کے بعد پورا شہر رومیوں کے قبضہ میں آگیا، یہودی ایلڈ اپنے ناقا بلِ تسخیر قلعوں سے دستبردار ہو گئے ۔ ٹا ئیٹس نے اُنہیں تنہائی کا شکار پایا۔ اُس نے اُن پر حیرت زدہ نگاہ ڈالی اور اعلا نیہ کہا کہ خُداوند نے اُنہیں میرے ہا تھ میں کر دیا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی آلہ حرب[جنگی ہتھیار ] خواہ وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو ان عظیم الشان اور حیرت انگیز برج نمادیواروں کو مسمار نہیں کر سکتا تھا۔ شہر اور ہیکل اوپر سے نیچے بنیادوں تک بالکل برباد ہو گئے اور وہ زمین جس پر مقدس مقام استادہ تھا” کھیت کی طرح جوتا گیا“یرمیاہ 18:26۔ محاصرے میں کروڑ ہالوگ ہلاک ہوئے اور جو زندہ بچ گئے اُنہیں اسیر کر کے غلاموں کی طرح فرو خت کیا گیا۔ اُنہیں گھسیٹ کر روم لایا گیا تاکہ فتح کا جشن منا یا جائے۔ اول (Oval) تماشہ گاہ میں جنگی درندوں کے آگے پھینکا گیا یا اُنہیں بے گھر آوارہ گردوں کی طرح دُنیا بھر میں پرا گندہ کر دیا گیا۔ AK 31.3

    یہودیوں نے اپنی بیڑیاں خود تیار کیں۔ اُنہوں نے مصائب جو اُن کی پر یشانی میں اضا فے کا باعث بنے یہ ساری فصل جو وہ اب کاٹ رہے تھے خود اُنہوں نے بوئی تھی ۔ بنی فرفاتا ہے ” اے اسرائیل یہی تیرں ہلاکت ہے کہ تو میرا یعنی اپنے مددگار کا مخا لف بنا” ہوسیع 9:13۔ “اے اسرائیل خُداوند اپنے خُدا کی طرف رجوع لا کیونکہ تُو اپنی بد کرداری کے سبب سے گر گیا ہے” ہوسیع1:14۔AK 32.1

    اُن کی سزاوں کو اکثر ایسے پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ براہِ راست خُدا کے حکم سے اُن پر نازل ہو ئیں۔ اسی طریقہ سے وہ بڑا دھوکے باز [ابلیس ] اپنے کام پر پردہ ڈالتا ہے۔ خُدا کی محبت اور رحم کو رد کرنے کی وجہ سے یہودیوں کے سر پر خُدا کی پناہ اُٹھ گئی۔ اور ابلیس کو اجازت دے دی گئی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق اُن پر حکومت کرے۔ وہ ہو لناک مظالم جو یرو شلیم کی تباہی میں دیکھے گئے ہیں وہ ابلیس کی انتقامی قوت کا اُن پر مظا ہرہ ہے جو خُدا کو اُس کے کنڑول میں دے دیتے ہیں۔ AK 32.2

    ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ اُس امن اور پناہ کے لئے مسیح یسوع کے ہم کتنے قر ضدار ہیں جس کا ہم لطف اُٹھاتے ہیں۔ یہ خُداوند کی مزاحمتی قوت ہی ہےجو بنی نوع انسان کو کلی طور پر ابلیس کی علمداری میں جانے سے روکتی ہے۔ نافرمان اور ناشکر گزار انسان کیلئے خُدا کے رحم اور صبر کی شکر گزاری کر نے کے لئے بہت سی وجوہات ہیں جو وہ بد خواہ ظا لم ابلیس کو روکنے کے لئے کرتا ہے۔ لیکن جب انسان خُدا کے صبر کی حد کو عبور کرتے ہیں تو خداوند کی مزا حمتی قو ت دور ہو جاتی ہے۔ تب خُداوند گنہگار کیسا تھ نہیں رہتا جیسے کہ قصورثا بت ہونے پر جج قصور وار ی حمایت سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ پھر خُدا اُن کو اُن ہی کے حال پر چھوڑ دیتا ہے جو اُس کے رحم کو ناچیز جا نتے ہیں تاکہ جو کچھ اُنہوں نے بویا ہے اُسے کاٹیں۔ روشنی کی کرن کو ٹھکرانا، تنبیہ کو حقیر جاننا، ہر خوا ہش اور جذبے کو جائز قرار دینا ، اور خُدا کی شر یعت کے ہر حکم کو تو ڑنا۔ یہ وہ سب بیج ہیں جو نا فرمان شخص بوتا ہے مگر اِس کی فصل یقینی ہے جو اُسے کاٹنی ہی ہو گئی۔ جب خُدا کے روح کی مسلسل مزاحمت کی جائے تو وہ با لآ خر گنہگار کو چھوڑ دے گا۔ تو پھر کوئی اور قوت نہ ہو گی جو اُس کت بد کار جذبات اور خواہشات کو کنڑول کر سکے اور نہ ہی اُسے ابلیس کی گھناو نی عداوت اور دشمنی سے پناہ دے سکے۔ یروشلیم کی بربادی اُن سب کے لئے نہایت ہی ڈراونی اور سنجیدہ تنبیہ ہے جو الٰہی فضل کی پیشکش کو نا چیز جانتے اور خُدا کے رحم کی مزاحمت کرتے ہیں۔ گناہ کے خلاف خُدا کی نفرت کی ایسی قطعی شہادت اور مجرم کو یقینی سزا پہلے کبھی نہیں دی گئی۔ AK 32.3

    میسح یسوع نے یرو شلیم پر جو عدالتی فیصلے کی پیشینگوئی کی تھی اُس کی تکمیل کے بعد اب ایک اور پیشینگوئی کی تکمیل ہونے ہو والی ہے۔ یرو شلیم کی تباہی و بربادی اس پیشینگوئی کی تکمیل کے مقابلہ میں نہایت ہو خفیف ہے۔ چنیدہ شہر کی ہلاکت میں ہم اپنی دُنیا کی ہلاکت کو دیکھیں گے جس نے خُدا کے رحم کو رد اور اُس کی شریعت کو پا ئمال کیا ہے ۔ ان طو یل صدیوں کے جرائم کے دوران دُنیا نے انسانی بد بختی اور سیاہ شامت اعمال کو دیکھا ہے ۔ اس کے تصور سے ہی دل بیٹھ جاتا ہے اور ذہن پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ خُدا کے اختیار کو رد کر نے کے نتا ئج نہا یت ہی وحشت ناک تھے ۔ مگر مستقبل کے مکاشفات میں اس سے بھی زیادہ تاریک منظر پیش کیا گیا ہے۔ ماضی کے ریکارڈز، شورشوں کے جلسے جلوس، تصادم اور انقلابات، جنگجووں کی لڑائی کا پریشان کن شور ، اور خون میں لت پت پوشاکیں[یسعیا 5:9]۔ اُس دن کے مقابلہ میں یہ دہشت کچھ بھی نہیں جب خُداوند کی مزاحمتی روح قطعی طور پر بد کاروں پر سے ہٹالی جائے گی۔ اُس وقت شیطانی غیض و غضب اور انسانی بُری خُوا ہشات کو روکا نہ جا سکے گا۔ ایسے میں دُنیا ابلیس کی علمداری کے ایسے نتا ئج دیکھے گی جو اُس نے پہلے کبھی نہ دیکھے ہو نگے ۔ AK 33.1

    مگر اُس دن بھی جیسے یرو شلیم کی تباہی کے وقت ہوا خُدا کے لو گوں کو بچا جائے گا۔ جن کے نام کتابِ حیات میں لکھے ملیں گے اُن میں سے ہر ایک کو بچا جائے گا۔ یسعیا 3:4۔ میسح یسوع نے فرمایا کہ وہ اپنے برگذیدوں کو جمع کر نے کے لئے دوسری بار آئے گا۔ “اس وقت زمین کی سب قو میں چھاتی پیٹین گی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اُس کے بر گذیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اُس کنارے تک جمع کریں گے۔ متی 30:24- 31۔AK 33.2

    مگر وہ جنہوں نے اس کی انجیل کو قبول نہیں کیا اُن کو وہ “اپنے منہ کی پھونک سے ہلاک اور اپنی آمد کی تجلی نیست کریگا“2تھسلنیکیوں 8:2۔ قدیم بنی اسرائیل کی طرح بے دینوں نے خود اپنے آپ کو ہلاک کر رکھا ہے۔ وہ اپنی ہی بدی کے باعث زوال پذ یر ہیں۔ گناہ کی زندگی کے باعث اُنہوں نے خود کو خُدا سے بہت دور کر لیا ہے وہ اپنی بُری فطرت اور بد چا لچلنی کے سبب اس قدر بے آبرو ہو گئے ہیں کہ خُدا کا جلال اُن کے لئے جلانے والی آگ بن جائے گا۔ AK 34.1

    پس چاہیے کہ بنی نوع انسان خبردار رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ میسح کے کلام میں دیئے گئے اسباق کو بھول جائیں۔ جیسے اُس نے اپنے شاگردوں کو یروشلیم کی تباہی کے بارے جتا دیا تھا۔ اور تباہی کی طرف بڑھنے والے نشانات کی آگاہی دی تھی تاکہ وہ ہلاک نہ ہوں۔ اُسی طرح اُس نے موجود ہ زمانے کو آخری تباہی کے بارے آگاہ کر دیا ہے۔ اور آخری زمانہ کیلئے نشانات بھی بتا دئیے ہیں تاکہ جتنے چاہیں وہ آنے والے غضب سے بچ جائیں۔ میسح یسوع نے اعلانیہ کہا” سورج اور چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہو گی” لوقا 25:21، مرقس 26:24:13 ، مکاشفہ 17:12:6۔وہ سب جو اُس کی آمد کے خبر رساں نشانات کو دیکھیں گے وہ جان جائیں گے “کہ وہ نزدیک بلکہ دروازہ پر ہے“متی 33:24۔ “پس جاگتے رہو” مرقس 35:24۔ یہ اُس کی نصیحت ہے اور وہ جو اُس کی آگاہی پر کان دھرتے ہیں جہالت میں نہ رہیں گےمگر جو اُس کی طرف نہ دیکھتے ہوں گے اُن پر خُداوند کا دن اس طرح آئے گا جیسے ” رات کو چور آتا ہے” ۱ تھسلنیکیوں 5:2:5۔ AK 34.2

    یروشلیم کی تباہی کی تنبیہ کی طرح جو میسح یسوع نے یہودیوں کو دی تھی موجود دُنیا بِھی اُس پیغام کو قبول کرنے کے لئے چند ان بہتر نہیں ہے۔ مگر ایک نہ ایک دِن خُدا وند کا دن بے دینوں پر چور کی طرح آپڑے گا۔ اب جبکہ زندگی مختلف ادوار میں سے گزررہی ہے۔ اور انسان عیش و عشرت میں غرق ہیں، بز نس میں، خریدو فروخت میں، دولت جمع کرنے میں، اور یہ مذہبی لیڈرز دُ نیوی تر قی اور روشن خیالی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر ہے ہیں، اور لو گ جھوٹی سلامتی سے مطمئن ہیں۔ تو جس طرح آدھی رات کو چور اُس جگہ نقب لگاتا ہے جہاں کو ئی جاگتا نہ ہو اُسی طرح بے دینوں اور غا فلوں پر خداوند کا دن آپڑے گا۔“جس وقت لوگ کہتے ہوں گے کہ سلامتی اور امن ہے اُس وقت اُن پر اس طرح ناگہاں ہلاگت آئے گی جس طرح حاملہ کودرد لگتے ہیں اور وہ ہر گز نہ بچیں گے“۱ تھسلنیکیوں 3:5۔ AK 34.3

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents