Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    آٹھواں باب - لوتھر کی کانفرنس (Diet) کے سامنے پیشی

    چارلس پنجم جرمنی کے تخت پر نیا بادشاہ براجمان ہو گیا اور روم کے سفیر فورا مبارک باد دینے کے لئے اس کے دربار پہنچ گئے- انہوں نے فرمانوا کو ترغیب دی کو ریفریمیشن کے خلاف طاقت کا استعمال کرے- لیکن دوسری طرف سیکسونی کے ایلکٹورنے ، جس کے اس شہنشاہ پر تاج حاصل کر نے کے سلسلہ میں بڑے احسان تھے اس نے التماس کی کہ وہ لوتھر کے خلاف اس وقت تک کوئی قدم نہ اٹھائے جب تک آپ خود اس کی سمارت نہ کر لیں- شہنشاہ شرمساری اور مخصمے میں پڑ گیا- پوپ کے حامی اس سے کم کسی سودے پر راضی نہ تھے کہ لوتھر کو موت کا حکم صادر کرے- لیکن ایلکٹور نے بڑی ثابت قدمی سے اعلان کر دیا تھا کہ “اس کی ریاچت کے کسی بھی بڑے عہددار یا کسی اور لوتھر کی تحریرات کے خلاف ایسا کچھ نہیں کہا کہ انہیں برباد کیا جائے”- اس لئے اس نے درخواست کی کہ ” ڈاکٹر لوتھر کو سلامتی کا پروانہ مہیا کیا جائے تاکہ وہ پڑ ھے لکھے متقی، اور شاہی ججز کی ٹربیونل کے سامنے حاضر ہو سکے” D' Aubigne, B.6 ch.1AK 141.1

    شہنشاہ چا رلس کے تخت نشین ہونے کے فورا بعد تمام پارٹیوں کی توجہ اس اسمبلی کی طرف دلائی گئی جو ورمز(Worms) میں بلائی گئی تھی- اس قومی کونسل میں بہت سے اہم سیاسی ، اور دلچسپ اپور زیر بحث آنے کو تھے- پہلی بار جرمنی کے شہزادے اس جوان شہنشاہ سے اس حکمت سے معمور اسمبلی میں ملنے کو تھے- جرمنی کے ہر حصے سے کلیسیا اور سٹیٹ کے معززین آئے تھے- سیکولر لارڈز، اعلے نسب اور اختیار رکھنے والے، موروثی حقوق پر فخر کرنے اور شاہانہ آن بان رکھنے والے خادم دین م امنے اختیار اور عہدہ پر برتری کے باعث اکڑ اکڑ کر آرہے تھے- در باری سورمے اور ان کے اسلحہ برادر ، اجنی اور دور دراز کےملکوں کے سفیر، یہ تمام کے تمام ورمز میں جمع ہوئے- اس وسیع اسمبلی میں جو موضوع سب کی گہری دلچسپی کا باعث بنا وہ سیکشن ریفارمر کے حوالے سے تھا- AK 141.2

    چارلس نے پیشتر ہی ایلکٹور کو کہا تھا کہ وہ لوتھر کو اپنے ہمراہ کو اپنے ڈائٹ لائے- اور اس کی لائق فائق لوگوں کیساتھ متنازعہ فیہ سوالات پر آزادانہ گفتگو ہوگی- لوتھر تو شہنشاہ کے سامنے پیش ہونے کے لئے بڑا بے تاب تھا مگر اس قوت لوتھر کی صحت خراب تھی-اس کے باوجود اس نے ایلکٹور کو لکھآ ” اگر میں خارب صحت کی وجہ سے خود ورم نہ آسکا- تو خواہ کتنا ہی بیمار کیوں نہ ہوں مجھے وہاں پہنچایا جائے — اگر شہنشاہ مجھے بلاتا ہے تو مجھے بالکل شک نہیں کہ یہ بلاہٹ خداوندکی طرف سے ہے- اور اگر وہ میرے خلاف تشدد کرنا چاہیں جو کافی حد تک ممکن ہے تب بھی میں یہ سارا معاملہ خداوند کے ہاتھ میں چھوڑتا ہوں- جس نے تین نوجوانوں کو جلتی بھٹی سے بچایا وہ ابھی تک زندہ ہیں اور حکومت کرتا ہے- اور اگر وہ مجھے بھی نہ بچائے تو میری زندگی کی حقعقت ہی کیا ہے- ہمیں تو صرف انجیل کو بدکاروں کی حقارت سے بچانا ہے- آیئے ہم اس کے لئے امنا خوں بہائیں ، اور اگر ہم ڈریں تو وہ فتح مند یہوں گے- یہ فیصہ کرنا میرا کام نہیں کہ آیا میری موت یا زندگی تمام لوگوں کے لئے زیادہ فائدہ مند ہوگی- آپ مجھ سے خداوند سے دست بردار ہونے اور بھاگ جانے کے علاوہ ہر چیز کی توقع کر سکتے ہیں- میں بھاگ نہیں سکتا- مگر اپنی رائے کو بھی واپس نہیں لوں گا- IBID.B.7 ch.1AK 142.1

    جیسے یہ خبر ورمز میں پھیلی کہ لوتھر ڈائٹ کے سامنے پیش ہونے کو ہے عام لوگوں میں جوش و خروش کی لہر دوڑ گئی- الینڈر(Aleander) جو پوپ کا قانونی نمائندہ تھا اور جسے یہ کیس(case) سونپا گیا تھا وہ چوکنا اور گصے سے لال پیلا ہو گیا- اس نے دیکھا کہ کیس کا نتیجہ پوپ کے لئے منحوس خبر کے مترادف ہو گیا- اس کیس کی تفتیش کرنا جس کی پوپ نی پیشتر ہی گرفتاری کی سزا دی ہے پوپ کے اختیار پر کاری ضرب ہو گی- اس لئے اس نے ہنگامی طور پر لوتھر کی ورمز کے سامنے پیشی کے خلاف چارلس سے چکایت کی- اسی وقت لوتھر کو کلیسیا سے ضارج کرنے کے احکامات شائع کر دئے گئے- اور اس کے ساتھ ہی پوپ کے چند قانونی نمائندے چارلس کے پاس آئے تاکہ ان پر عمل در آمد کرائیں — اس نے ایلکٹور کو لکھا کہ اگر لوتھر نے اپنی تعلیمات اے انکار نہیں کرنا تو پھر وٹن برگ میں ہی رہے- AK 142.2

    الینڈر(Aleander) اپنی اس فتح سے مطمئن نہ ہوا- اور اس نے اپنی قوت اور اختیار کے ساتھ کوشش کی کہ لوتھر کی ملامت آمیز سزا کو بحال رکھا جائے- کسی بہتر مقصد کے لئے وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہا اور شہزادوں ، کلیسیا کے اعلے عہدہداروں اور اسمبلی کے دوسرے ارکان کو بھی مجبور کیا جائے- اور اس نے ریفارمر کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وہ باغی، کافر، دھوکے باز اور ناراست شخص ہے- لیکن جو تندی و طیش اور آرزو، پوپ کے قانونی نمائندے نے دکھائی اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اسے کیسی روح برایگختہ کر رہی ہے- اس کے بارے میں عام لوگوں کی یہ رائے تھی ” وہ جوش و ولولہ کی بجائے بفرت اور انتظام کی وجہ سے متحرک ہے-” اس لئے ڈائٹ کی اکثریت نے لوتھر کے کار خیر کی پہلے سے کہیں زیادہ حمایت کی — IBID.B.7.ch.1AK 142.3

    دگنے غصے اور ولولہ کے ساتھ الینڈر نے شہنشاہ کو ترغیب سی کہ پوپ کے احکام کی بجا آوری کرے- مگر جرمنی کے قانون کے مطابق شہزادوں کی منظوری کے بغیر ممکن نہ تھا- بالآخر پوپ کے قانونی نمائندہ کا تقاضا غالب آی، اورچارلس کے اسے کہا کہ اپنا کیس(case) ڈائٹ کے سامنے پیش کرے- پوپ کے سفیر کے لئے یہ مبارک دن تھا- اور مقصد(cause) اس سے بھی زیادہ عظیم تر تھآ- الینڈر نے روم کے لئے التماس کرنا تھی- جو تمام کلیسیاوں کی مان اور ملکہ تھی- اس نے مسیحی ریاستوں کے حکمرانوں ے سامنے پطرس کی شاہانہ ریاست کا بول بالا کرنا تھا- اسے جوش بیانی کا فن حاصل تھآ اور وہ اس موقع کی عظمت کے لئے کھڑا تھا- حاصل کردہ آدر کے مطابق روم کو آگسٹ کی ٹرائی بیونل کے سامنے بہترین خطیبوں کے ذریعہ اپیل کرنا تھے مگر روم نے لوتھر کو پیشتر ہی مجرم ٹھرا دیا تھا- Wylie B, 6 ch.4AK 143.1

    جو ریفارمر کی حمایت کرتے تھے ان میں سے بعض نے شکوک کے پیش نظر الینڈر کی تقریر کے اثرات کا انتظار کیا- سیکسونی کا ایلکٹور حاضر نہیں تھا- ، مگر اس کی ہدایت پر اس کے مشیروں کے نمائندے کے خطاب کا نو ٹس لیتے رہے- AK 143.2

    ذخیرہ علوم کی قوت اور جوش بیانی کے ساتھ الینڈر نے صداقت کو پرے پھینک دیا کلیسیا اور ریاست کے دشمنوں کے طور پو اس نے الزامات کی بوچھاڑ کر دی — اس نے کہا یہ زندوں اور مردوں کا دشمن ہے- یہ ماسبانوں اور کیلسیا کے ممبران کا دشمن ہے- یہ کونسلز اور عام مسیحیوں کا دشمن ہے- “لوتھر کے جرائم کافی ہیں” اس نے “سینکڑوں ہزاروں بدعتیوں” کو جلانے کے وارنٹ کا اعلان کیا- AK 143.3

    اختتام پر اس نے اس بات پر زور دیا کہ لوتھر اور اس ک حامیوں پر ہتک کا فتویٰ لگایا جائے- “آخر یہ لوتھر اور اس کے حامی کون ہیں” استادوں کا گستاخ شیطانی لسکر، کرپٹ پریسٹس ، بد چلن راہب و جاہل وکیل، گھٹیا امیرزانے اور کچھ عوام جنہیں گمراہ اور بر گشتہ کیا گیا ہے- ان کے مقابلہ میں کیتھولک پارٹی تعداد، صلاحیت اور طاقت میں اس سے اعلے و بدتر ہے- اس مثالی اسمبلی سے مجموعی طور پر فرمان پاس کیا جائے جو سادہ لوگوں کے ذہنوں کو روشن کرے، گستاخ کو تنبیہ ، ڈگمگانے والوں کو قرار دے اور کمزور کع مضبوط کرے- D' aubigne,B.7. ch.3AK 143.4

    سچائی کی وکالت کر نے والوں پر ہر زمانہ میں ویسے ہس اوازروں سے حملے ہوتے رہے ہیں- یہی دلائل آج بی ان کے خلاف دئیے جاتے ہیں جو غلط تعلیم کے خلاف لوگوں کو خداوند کے سادہ پاک کلام کی طرف متوجہ کرتے ہیں- اور یہی کہتے ہیں ” نئی تعلیم کی مندی کرنے والے کوں ہیں ؟یہ وہی پوچھتے ہیں جو ہر دلعزیز مزہب کے خواہاں ہیں- وہ تو جاہل ہیں، تعداد میں بھی آتے میں نمک کے برابر ہیں اور ان کا تعلق مفلس طبقہ سے ہے- وہ بے علم اور گمراہ ہیں- ہماری کلیسیا میں بہت سے پڑھے لکھے لوگ ہیں- بہت بڑی طاقت ہماری طرف ہے- یہ اور اس طرح کے دیگر استدلال دنیا کو تاثر دینے کے لئے موجود ہیں- مگر اب ریفارمر کے زمانہ میں یہ استدلال اپنی افادیت کھو چکے تھے- AK 144.1

    جیسے بعض سوچتے تھے، ریفریمیشن لوتھر کے ساتھ ختم نہ ہوئی- یہ تو اخیر زمانے کی تاریخ تک جاری رہنے کو ہے- لوتھر نے ابھی وہ رومنی جو اس تک پہنچی ہے بہت سارے لوگوں پر منعکس کرنی ہے- تاہم اسے ابھی وہ ساری توشتوں پر مسلسل درخشاں ہے اور نئی سچائیاں تواتر کے ساتھ ظاہر ہوتی جارہی ہیں- AK 144.2

    پوپ کے قانونی نمائندہ کے خطاب نے ڈائت پر گہرا اثر ڈاالا — لوتھر تو وہاں موجود نہ تھا جس کے پاس خداوند کے سادہ مگر واضح کلام کی سچائی تھے جو پوپ کے چمپیئن کو مات کرتی- ریفارمر پر حملہ روکنے کے لئے کرئی کوشش نہ کی گئی- عام رائے یہی تھی کہ نہ صرف لوتھر اور اس کی تعلیمات کو ملعوں قرار دیا جائے- بلکہ اگر ممکن ہو ےو بدعت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے- روم امنے مقصد کو بچانے پر بڑا نازاں تھا- اپنی پشت پناہی میں جو کچھ وہ کہنا چاہتا تھا، وہ کہا گیا- مگر یہ ظاہری فتح ، شکست کا سگنل تھا- یہاں سے ہی صداقت اور جھوٹ میں جو تضاد پایا جاتا ہے صاف صاف نظر آنا شروع ہوگیا-ا س دن کے بعد روم اس قدر کبھی بھی مستحکم نہ ہوا جتنا ہوا کرتا تھا-AK 144.3

    ڈائٹ کے زیادہ ممبر لوتھر کو روم کے حوالہ کرنے سے زرا بھی پس و پیش نہیں کر رہے تھے- بہت سے ایسے بھی تھے جنہوں نے اس محرومی کو بھی دریافت کیا جو کلیسیا میں پائی جاتی تھی اور ان کی خواہش تھی کہ ان برائیوں کا قلع قمع کیا جائے جن کا نقصان جرمن لوگوں کو مذہبی حکومت کے حرص و لالچ کی وجہ سے ہو رہا ہے- پوپ کے قانونی نمائندے نے پوپ کے قوانین اپنے حق کی روشنی میں پیش کئے- اب خداوند نے ڈائٹ کے ممبران کو ابھارا کہ وہ حقیقی صورت حال کو پیش کر دیں- ڈیوک جارج آف سیکسونی شہزادوں کی اس اسمبلی میں کھڑا ہوا اور پوپ کی حکومت کے جبرو تشدد کی روداد کے اثرات بیان کئے- اور ان کے ہیبتناک نتائج بھی بیان کئے- خاتمہ پر اس نے کہا — AK 145.1

    ”یہ وہ بدکاریوں ہیں جو روم کے خلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر چلاتی ہیں — ہر طرح کی شرم و حیا کا دامن چھو ڑ دیا گیا ہے- اس کا کلی مقصد صرف پیسہ،پیسہ اور پیسہ ہے- لہذا پاسبان جن کا کام صرف سچائی کی منادی کرنا ہے- وہ جھوٹ کے علاوہ اور کچھ بیاں نہیں کرتے، نہ صرف ان کو برداشت کیا جاتا ہے بلکہ انہیں انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ہے- کیونکہ جتنا زیادہ وہ جھوٹ بولیں گے اتنا ہی زیادہ انہیں فائدہ ہو گا- یہ وہ گندا چشمہ ہے جس سے غلیظ پانی بہتا ہے- افسوس کی بات تو یہ بدمی پریسٹ کی پیدہ کردہ ہے جو بہت ہی غریب روحوں کو ابدی ہلاکت میں دھکیل رہی ہے- لہذا ایسی اصلاحی تحریک ضرور ہے کہ جنم لے“ IBID. B.7 ch.4AK 145.2

    ہو سکتا ہے پوپ کی قیادت کی بدکاریوں پر خود لوتھر اتنے اچھے اور جاندار طریقے سے ملامت نہ کر پاتا- حقیقت میں یہ سپیکر ریفارمر کا دشمن تھا جس نے لوتھر کے کلام کو بڑا موثر بنا دیا- اگر اسمبلی کی آنکھیں کھولی جاتیں تو وہ ضرور خدا کے فرشتوں کو اپنے درمیان دیکھ سکتے ہیں ، جو غلط تعلیمات کی تاریکی کم کرنے کے لئے اپنی شعا ئیں بکھیر رہےتھے — اور سچائی کو قبول کرنے کے لئے ان کے دماغ کو کھول رہے تھے- یہ خدا کی حکمت اور صداقت کی قدرت تھی جس نے ریفریمیشن کے دشمنوں کو کنٹرول کر رکھا تھا- اور یوں اس عظیم کام کے لئے راہ تیار کی گئی جو قائم ہونے کو تھا- مارٹن لوٹھر تو وہاں موجود نہ تھا مگر اس کی آواز سنی گئی- AK 145.3

    ڈائٹ کی طرف سے فورا ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی تاکہ وہ پوپ کی حکومت کے جبر و ستم کی تفصیل تیار کرے جو جرمن لوگوں پر بھاری جوا ہے- اس فہرست میں ایک سو ایک خصوصی باتیں شامل ہیں جو شہنشاہ کو پیش کی گئیں- اور درخواست کی گئی کہ ان برائیوں کی روک تھا م کے لئے فوری اقدامات کئے جائیں- AK 145.4

    ” یہ مسیحی روحوں کا کس قدر زیاں ہے در خواست گزار نے کہا یہ کیسی لوٹ گھسوٹ اور چھینا جھپٹی ہے۔ اپنے لوگوں کی اس بے حرمتی اور تباہی کو روکنا ہمارا فرض ہے- اسی لئے ہم بڑی فروتنی اور عجلت کی ساتھ التماس .کرتے یں. کہ آپ جنرل ریفریمیشن کا حکم کریں اور اس کی تکمیل کی نگرانی کریں “IBID.B.7 ch.4 AK 146.1

    اب کونسل نے لوتھر کو پیش ہونے کی اجازت دے دی- سمز (Summons)کے ہمراہ سلامتی کا پروانہ بھی دیا اور اسے سلامتی سے پہنچنے کی ضمانت بھی دی گئی- ڈیلی گیٹس کا طائفہ وٹن برگ بھیجا گیا جس نے رومز میں کمشن مقرر کرنا تھا- AK 146.2

    لوتھر کے دوست بڑے خوفزدہ اور نہایت مغموم ہوئے- اس کے خلاف تعصب اور دشمنی کو سمجھتے ہوئے انہیں ڈر تھا کہ کہیں اس کی سلامتی کے پر وانے کو بھی نظر انداز نہ کر دیا جائے- چناچہ انہوں نے اس کیمنت سماجت کی کہ وہ اپنی جان کو خطرے میں نہ ڈالے — مگر اس نے جواب میں کہا ” پوپ کے حامی تو نہیں چاہتے کہ میں ورمز جاوں، مگر میری موت اور میری تعزیر یہ سزا چاہتی ہے کی یں وہاں جاوں — اس کی کوئی فکر نہیں- میرے لئے دعا نہ کیجیے ، مگر خدا کے پاک کلام کے لئے دعا کیجیے ، مسیح یسوع مجھے اس غلط تعلیم پھیلانے والے چرواہوں پر فتح پانے کے لئے اپنی روح عطا کرے گا- میں نے امنی زندگی میں ان کی سرزنش کی ہے- اور میں موت کے ذریعہ بھِ اس پر فتح پاوں گا- وہ رومز میں مجھ سے انکار کروانے کے لئے بڑے بضد ہیں اور میرا انکا ر یوں ہو گا پہلے میں نے کہا تھاکو پوپ مسیح کا نائ ہے، لیکن اب میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ وہ ہمارے آقا کا دشمن اور ابلیس کا چیلا ہے- IBID.B.7 ch.6AK 146.3

    اس خطرناک سفر پر لوتھر اکیلا نہیں جا سکتا تھا- حکومتی پیامبر کے علاوہ اس کے تین جگری دوست بھی اس کے ساتھ جانے کا مصمم ارادہ رکھتے تھے — میلانچ تھان نے بڑی ایمانداری کے ساتھ جانے کی خواہش ظاہر کی- اس کا دل لوتھر کے ساتھ جڑ گیا اور بدل و جان اس کی پیروی کرنے کا خواہاں تھا- وہ اس کے ساتھ جیل جانے اور مرنے کو کو بھی تیار تھا- مگر اس کی گزارشات منظور نہ کی گئیں- جیسے ہی لوتھر میلاد جچ تھان سے جدا ہوا تو اس نے کہا “اگر میں مارا جاوں تو ریفریمیشن کی امیدمیرے ہم خدمت نوجوانوں کے مرکز میں داخل ہو جائے گی-” اگر میں واپس نہ آوں اور میرے دشمن مجھے موت کے گھاٹ اتار دیں ، تعلیم دیتے رہنا اور صداقت کے حق میں ثابت رہنا- یہ خدمت میری خاطر کرنا- اگر آپ زندہ رہیں تو میری موت سے کچھ فرق نہیں پڑے گا”- IBID.B.7 ch.7AK 146.4

    سٹوڈنٹس اور شہری جو اس کی روانگی کے وقت موجود تھے ان کے دلوں میں اس کے لئے ہمدردی کا گہری جذبہ پیدا ہوا- وہ بھیڑ جن کے دل انجیل سے متاثر ہوئے تھے انہوں نے روتے ہوئے اسے الوداع کہا — یوں ریفارمر اور اس کے ساتھی وٹن برگ کو روانہ ہوئے- AK 147.1

    سفر کے دوران انہوں نے دیکھا کہ لوگوں کے دل غم سے چور ہیں- گو بعض قصبوں میں انہیں کو ئی عزت نہ دی گئی- جونہی وہ ایک جگہ رات بسر کرنے کے لئے ٹھہرے ایک دوستانہ رویہ رکھنے والا پریسٹ آیا اور اس نے اپنا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اس کے سامنے اٹلی کے ایک ریفارمر کی شہادت کی ہو بہو شبیہ بیان کی- اگلے روز یہ سنا گیا کو لوتھر کی تحریرات ورمز میں حرام قرار دی گئی- شاہی پیامبر شہنشہاہ کے حکم کا اعلان کر رہے تھے اور لوگ کہہ رہے تھے کہ ممنوعہ قرار دیا جانے والا یہ سارا مجسٹریٹس کے حوالے کر دو- خبر کے مطابق کونسل میں لوتھر کی سلامتی کا خطرہ تھا- اور سوچاگیا کہ شائد لوتھر کے اراادے متزلزل ہو گئے ہوں گے- اس لئے لوتھر سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی آپ آگے جانا چاہیں گے- اس نے جواب میں کہا کہ اگر ہر ایک شہر میں ممانعت ہو پھر بھی میں آگے جاوں گا- IBID.B.7 ch.7AK 147.2

    ارفرٹ میں لوتھر کو بڑی عزت و توقیر حاصل ہوئی — وہ امنی تعریف کرنے والی بھیڑ میں گھر گیا، وہ ان گلیوں میں سے گزرا جن میں سے وہ اکثر گداگروں کا تھیلا لیکر چلا تھا- وہ اپنے کا نونٹ سل میں بھی گیا اور اس جدوجہد کو یاد کیا جس کے ذریعے اب جرمنی بقعہ ء نور بن گئی اور اس کی روح پر بھی چمکی- اسے منادی کرنے کے لئے روکا گیا تھا- مگر خبر پہنچانے والے نے اسے اجازت دے دی- اور وہ راہب جو بیگاری تھا اب پلپٹ پر آگیا تھا- AK 147.3

    اسمبلی کے مجمع میں اس نے مسیح یسوع کے کلام کی مندی کی” فلاسفر ، ڈاکٹراور مصنفین لو گوں کو سکھا نے کی ابدی زندگی حاصل کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں- مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکتے- میں آپکو ابھی بتاؤں گا خداوند خدا نے ایک شخص کو مردوں میں سے زندہ کیا یعنی مسیح یسوع کو تاکہ وہ تخت کو تباہ کرے- گناہ پر فتح کرے اور جہنم کے دروازے بند کر دے- یہ نجات کا کام ہے- مسیح یسوع نے جہنم اور گناہ کو نیست و نابود کرد یا یے۔ اور یہ خوشی کی خبر ہے۔ اور ہم اسکے کاموں سے بچائے گئے ہیں نہ کہ اپنے کاموں سے۔ ہمارے آقا مسیح یسوع نے فرمایا۔ تمیاری سلامتی ہو۔ میرے ہاتھوں کو دیکھو۔ یہ میں ہی ہوں جس نے تمحارے گناہ اٹھا لئے ہیں۔ اور تمہارا کفارہ دے دیا ہے۔ اور اب تمہیں سلامتی مل گئی ہے خُداقند فرماتا ہے۔ AK 147.4

    اس نے کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حقیقی ایمان پاکیزہ زندگی کی بدولت ہی عیاں ہو گا۔ چونکہ خُداقند نے ہمیں جچالیا۔ تو ہم اپنے کاموں کو اس طرح انجام دیں جو اس کے نزدیک قابل قبول ہوں۔ کیا تو امیر ہے؟ تیرا مال و دولت غریبوں کی ضروریات ِ زندگی کو پوار کرے۔ کیا غریب ہے؟ ایسی خدمت انجام دو جو میراوں کو قابلِ قبول ہو۔اگر آپ کی محنت مشقت صڑف آپ کے لئے ہی مفید ہو تو خدمت جو تو کہتا ہے کہ وہ خُدا کے لئے ہے سراسر جھوٹ ہے”AK 148.1

    لوگ لوتھر کو اتنے انہماک سے سن رہے تھے جیسے ان جادو کر دیا گیا ہو۔ زندگی کی روٹی ان فاقہ کش روحوں کے لئے جاری تھی ۔ انکے سامنے مسیح یسوع کو پوپوں اور پوپ کے قانونی نمائندوں شہنشاہوں اور باد شاہوں پر ففیلت دی جارہی تھی۔ لوتھر نے اپنی تکلیف اور ظلم و تشدو کو کوئی حوالہ نہ دیا۔ اس نے اپنے لءَ کوئی ہمدردی حاصل کرنے کا نہ سوچا۔ وہ مسیح یسوع کے بارے یہاں تک غوروخوض کر رہا تھاکہ وہ بھول گیا ۔ وہ کلوری کے شخص کے پیچھے چھپ گیا اور صرف اسی کو پیش کرنے کا خواہاں ہواجو گناہ گاروں کو نجات دہندہ ہے۔ AK 148.2

    جیسے ہی ریفارمرا اپنے سفر پر آگے بڑھا ہر جگہ بڑی دلچسپی سے اس کی آو بھگت ہوئی ۔ سرگرم بھیڑ کا اس کے گرد مجمع لگ گیا۔ اور دوستانہ آوازوں نے اسے رومیوں کی ینت کے بارے آگاہ کیا۔“وہ تجھے جلا دیں گے۔ اور تمہارے جسم کی راکھ بنا لیں گے جس طرح جان ہس کے جسم کی راکھ بنائی تھی” وہ لوتھر نے جواب میں کہا“خواہ وہ مزسے لیکر قٹن برگ تک آگ بھٹکا رکھیں اور انکے شعلے آسمان سے باتیں کرنے لگیں میں انکے اندر سے بھی خُداکے نام سے چلتا چلوں گا، میں انکے سامنے پیش ہوں گا۔ اور مسیح یسوع کے نام میں اس ہپو پاٹمس کے منہ میں جاکر اس کے ذانت توڑدوں گا۔” IBID.B.7 ch.7AK 148.3

    لوتھر کی ورمز میں پہنچے کی خبر بے ہلچل مچا دی۔ اس کے دوست و احباب اس کی سلامتی کے لئے لرز گئے۔ اور اس کے دشمن اپنے مقصد کی کامیابی کے لئے خوفزدہ ہو گئے۔ اور سر توڑ کوشش کی گئی کہ وہ شہر میں داخل نہ ہو۔ پوپ کے نمائندوں کے اکسانے پر اسے ایک دوست سو رمے کے کیسل (Castle)میں ٹھہرنے کے لئے تر غیب دی گئی ۔ اور اعلان کیا گیا کہ سب کچھ سلامتی کے ساتھ حل ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ دوستوں نے خطروں کو بھا نپتے ہوئے اسے خبردار کیا۔ سب کی کو شش ناکام رہیں۔ لوتھر بالکل نہ لرزہ اور اس نے اعلانیہ کہا” خواہ ورمز میں اتنے ابلیس ہوں جتنی اس کی چھت پر ٹائلز ہیں میں پھر بھی اس میں داخل ہو ںگا” IBID.B.7 ch.7AK 148.4

    ورمز پہنچے پر بہت بھیڑ گیٹ پر اسے خوش آمدید کہنے کے لئے پہنچ گئی ۔ اتنا بڑا مجمع شہنشاہ کو بھی خوش آمدیدکرنے کے لئے کبھی جمع نہ ہوا تھا۔ شدید اشتعال تھا۔ بھیڑ میں سے تیز اور ایسی دھنوں کی آوازیں آرہی تھیں جو جنازہ کے وقت نجائی جاتی ہیں۔ اور یہ لوتھر کے لئے وارننگ تھی جو اس کی منتظر تھی۔ خُداوند میری پناہ ہو گا” جونہی وہ بگھی سے نیچے اترا اس نے کہا۔ پوپ کے حامیوں نے یقین نہیں کیا تھا کہ لوتھر سچ مچ ورمز کے سامنے پیش ہونے کے لئے جرات کرے گا۔ اور اسکی آمد نے انہیں سراسمیگی کا شکار کر دیا۔ نے فوراً اپنے مشیروں کو بلا لیا کہ اب کوں سی راہ اختیار کی جائے ۔ ایک بشپ بہت ہی کڑپوپ کا حامی تھا اس نے کہا “ہم نے بہت مدت تک اس مسئلے پر صلاح مشورہ کیا ہے۔ شہنشاہ معظم اب فوراً اس آدمی سے نجات حاصل کر نی چاہیے۔ کیا سگس مانڈ نے ہس کو نظر آتش نہیں کیا تھا؟ ہم بدعتی شخص کے ساتھ سلامتی کے قول کے پابند نہیں ہیں“۔ مگر شہنشاہ نے کہا کہ نہیں ہمیں اپنا وعدہ وفا کرنے چاہیے چناچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریفارمر کی بات سنی جائے۔ AK 149.1

    شہر کے تمام اس نامورشخص کو دیکھنے کے خواہش مند تھے۔ لہذا جلد ہی اس کے ملاقا تیوں سے اس کا کمرہ بھر گیا۔ لوتھر نے ابھی بشکل اپنی حالیہ بیماری سے شفا ہائی تھی ۔ وہ سفر کا تھکاماندہ تھا جس میں پورے دو ہفتے لگے تھے۔ اور اسے کل صبح کے یادگار مو قع کے لئے تیاری بھی کرنی تھی ۔ اور اس کے لیے ایت تخلیہ اور آرام کی ضرورت تھی۔ مگر اس کو ملنے والوں کی خواہش حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی کہ وہ چند گھنٹے ہی آرام کر پایا جب اشرا فیہ، سورما حضرات ، پادری صا حبان اور بہت سے شہری اس کے گرد آجمع ہوئے ۔ ان بہت سے ایسے نو بلز بھی تھے جنہوں نے بڑی جرات کے ساتھ شہنشاہ سے مطالبہ کیا تھا کہ پادریوں کی بد کاریوں کی اصلاح ہونی چاہیے۔ AK 149.2

    دوست اور دشمن سبھی اس بے باک راہب کو دیکھنے آئے ۔ مگر اس کے سوالات کے جوابات بڑے وقار کے ساتھ مہذہب انداز میں حکمت کے ساتھ دِیے گے، اسکی قوت برداشت ثابت قدم اور حو صلہ بخش تھی۔ اسکا پیلا دبلا چہرہ جو بیماری اور سختیوں کی عکاسی کرتا تھا اس پر حلیمی اور خوشی کا تاثر نمایاں تھا۔ سنجیدگی اور اس کے کلام کی عمیق ایمان داری نے اسے ایسی قوت بخشی کہ دشمن بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکے تھے دوست اور دشمن دونوں حیران رہ گئے ۔ بعض اس بات کے قائل ہو گئے کہ الہی تاثیر اس کے شامل حال ہے۔ جب کہ دوسروں نے جیسے فریسیوں نے مسیح کو کہا تھا ، یہ کہہ دیا” اس میں بدروح ہے” داسرے دن لوتھے کو بلایا گیا تا کہ ڈائٹ کے سامنے پیش ہو۔ مملکت کے آفیسر کو تعینات کیا گیا تا کہ وہ لوتھر کو سامعین کے ہال کے اندر جگہ دے ۔ تاہم وہ بمشکل مقررہ جگہ پر پہنچ پایا۔ ہر راستہ ا ن لوگوں سے بھرا پڑا تھا جو اس مانک کو دیکھنے کے مشاق تھے جس نے پوپ کے اختیار کی مزاحمت کرنے کی جرات کی تھی، AK 150.1

    جب وہ اپنے ججوں کے سامنے حاضر ہونے کو ہی تھا تو ایک عمر رسیدہ جنرل جو بہت سی جنگوں کا ہیرو تھا آیا اورلوتھر مڑی مہر و محبت سے کہا” بے چاروے راہب، بے چارے رہب تو اب بہت ہی شریفانہ قدیم لینے لگا ہے جو میں نے یا کسی اور کیپٹن نے اپنی خونی جنگ و جدل میں بھی نہ لیالیکن اگر آپ کا مقصد مبنی برانصاف ہے اور آپ کو اس کا پورا پورا یقین ہے تو خُدا کے نام سے آگے بڑھو اور کسی سے خوف نہ کھاو خُداوند آپ کو ترک نہیں کرے گا“ D'aubigne B.7, ch.8AK 150.2

    لوتھر کو کچھ دوری پر بیٹھایا گیا جہاں شہنشاہ تخت پر براجمان تھا ۔ اور مملکت کے نہایت ہی مثالی لوگوں کے درمیان گھرا ہو تھا، اس سے پہلے کبھی کوئی ایسی مرعوب اسمبلی کے سامنے حاضر نہیں ہوا تھا جس کے سامنے مار ٹن لوتھر کو اپنے ایمان کی گواہی دینا تھی۔ “یہ پیشی مذاتِ خود پوپ پر فتح کا ایک واضح سگنل تھا“۔ پوپ نے لوتھر کو قصور وار گردانا تھا۔ اور اب وہ ٹر بیونل کے رو برو کٹھرا تھا یہ سارا عمل پوپ پر بدتری کا مظہر تھا۔ پوپ نے تو ساے نفرت انگیز قرار دیا تھا اور تمام انسانی سوسائٹی سے علیحدہ کر دیا تھا مگر اسے بڑ ے ادب سے بلایا تاکہ آگسٹ کی بہت بڑی اسمبلی کے سامنے بولنے کو تھا جو دنیا کے دار داز مسیحی مملک سے یہاں آئے تھے ۔ یوں لوتھر کی کار پردازی سے ایک بڑے انقلاب کی داغ بیل پڑی اور روم اپنی تخت سے مغزول ہو رای تھا جس کی ساری تذلیل کا باعث ایک راہب کی آواز بنی۔ IBID.B.7 ch.8AK 150.3

    اس طاقتور خطاب یافتہ اسمبلی کے سامنے غریب سا ریفارمر شرمساری محسوس کر ریا تھا،۔ بہت شہزادے اس کے جذبات کا جائزہ لے رہے تھے۔ انہوں نے اس تک رسائی کی ور ان میں سے ایک نے کہا ان سے مت ڈرو جو صرف جسم کو ہلاک کر سکتے ہیں مگر روح کو ہلاک نہیں کر سکتے دوسرے نے کہا ” جب تمہیں میری خاطر بادشاہوں اور اختیار والوں کے حوالہ کریں گے تو تمہیں اس وقت بتا دے گا کہ تمہیں کیا کہنا ہے” یوں مسیح یسوع کا کلام دنیا کے عظیم لوگوں کی طرف سے لوتھر کی ٹرائل کے وقت اسے تقویت دینے کے لئے پہنچا۔ AK 151.1

    لوتھر کو شہنشاہ کے سامنے جگہ دی گئی ۔ اس کھچا کھچ بھری اسمبلی پر گہرا سناٹا چھا گیا ۔ پھر ا مپیریل آفیسر اٹھا اور لوتھر کی تحریرات کی طرف اشارہ کیا اور لوتھر سے دو سوالات کے جواب مانگے۔ کیا وہ تسلیم کر تا ہے کہ یہ سب اس کی ملکیت ہے۔ یا وہ اپنی اس رائے کو واپس لینے کا سوچتا ہے جس کو اس نے ترقی دی ہے۔ کتابوں کے نام پڑھے گئے لوتھر نے جواب میں کہا کہ آپ کے پیلے سقال کا جواب یہ ہے کہ میں ان کتابوں کی ملکیت تسلیم کرتا ہوں۔ اور دوسرے سوال کے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سوال ایمان اور روحوں کی نجات سے علا قہ رکھتا ہے اور ان کے علاوہ اس میں خُداوند کا پاک کلام شامل ہے جو آسمان یا زمیں میں ایک عظیم خزانہ ہے ۔ اس پر اگر غور خوض کئے بغیر جواب دے دوں تو یہ بے پرواہی کے زمرے میں آئے گا۔ حالات کے تضاضا کے مطابق اس میں تھوڑا کم ثابت قدم ہوں۔ یا اس قدر ثابت قدم نہیں ہوں جتنا صداقت کا مطالبہ ہے۔ لہذا یہ گناہ کے مترادف ہو گا۔ مسیح یسوع نے فرمایا“جو کوئی آدمیوں نے سامنے میرا انکار کر ے گا میں بھی اپنے باپ کے سامنے اسکا انکار کروں گا جو آسمان میں ہے مجھے وقت دیں تاکہ میں خدا کے کلام کے خلاف گناہ کئے بغیر جواب دینے کے قا بل ہو سکوں D'aubigne B.7, ch.8{AK 151.2

    یہ درخواست کرنے سے لوتھر نے بڑی عقلمندی سے قدم اٹھایا ۔ اسکے اس قدم نے اسمبلی کو قائل کر لیا کہ وہ سب کچھ جزبات میں آکر نہیں کر رہا۔ بھرپور اور خود ضبطی کی ایسی شخص سے توقع نہیں کی جاتی جس نے بڑی جرات کا مظاہرہ کیا ہوا اور سمجھ تہ کرنے پر راضی نہ ہو۔ ان تمام امور نے اس کی قوت میں اضافہ کیا اور اسے اس قابل بنایا کہ بعد میں عاقبت اندیشی ، مستقل مزاجی اور وقار جے ساتھ جواب دے سکے جس سے دشمن حیران اور مایوس ہوئے اور یہ انکی گستاخی اور تکبر کے منہ پر بھرپور تھپڑ تھا۔ AK 151.3

    اگلے روز لوتھر کو اپنا فائنل جواب جمع کروانا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے اس کا دل ان قو توں کو دیکھ کر بیٹھ گیا جو سچا ئی کے خلاف متحد ہوئی تھیں۔ اسکا ایمان ڈگمگایا ، خوف اور لرزہ اس پر طاری ہوا۔ یوں اس پر وحشت چھا گئی ۔ ایسا دکھائی دے رہا تھا جیسے خطرات کا مجمع لگ گیا۔ ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے اسکے دشمن فتح پانے ، اور تاریکی کی قو تیں غالب آنے کو ہیں۔ اسکے گرد بادل چھا گئے ایسے دکھائی دیا جیسے انہوں نے خُدا اور لوتھر کے درمیان جدائی کی دیوار کھٹری کر دی ہے۔ وہ اس بات کی یقین دہانی چاہتا تھا کہ رب الافواج اسکے ساتھ ہے۔ انتہائی ذہنی اذیت کے تحت وہ زمین پر اوندھے منہ سر بسجود ہو گیا اور اسکے حضور چلایا جسے خُدا کے سوا اور کوئی سمجھ نہ پایا۔ اس نے خُداوند سے یوں التجا کی۔ AK 152.1

    “اے قادرِ مطلق ابدی خُداوند یہ دنیا کس قدر ہولناک ہے۔ دیکھ اس نے مجھے نگل جانے کے لئے منہ کھولا ہے اور میرا تجھ میں بہت ہی کم بھروسہ رہ گیا ہے۔ اگر مجھے اس دنیا کی طاقت میں بھروسہ کرنا ہے پھر تو سب کچھ تمام ہوا۔ میرا آخری وقت آچکا اور مجھے ملعون ٹھہرانے کا حکم صادر ہو چکا ہے۔ اے خُداوند مجھے اس دنیا کی حکمت کے خلاف مدد فراہم کر۔ تویہ کرسکتا ہہے ۔۔ صرف تو ہی۔۔۔ کیونکہ یہ میرا نہیں بلکہ تیرا کام ہے اور یہ راست اور ابدی کام ہے۔ اے میرے خُدا میری مدد فرما۔ اے خُدا تو جو وفا دار اور لا تبدیل خُداوند ہے ۔ میں کسی انسان پر توکل نہیں کروں گا۔ انسان کت تمام کام غیر یقینی ہیں جو کچھ انسان کی طرف سے آتا ہے ناکام اور زوال پذیر ہے۔ تو نے مجھے اس کام کے لئے منتخب کیا ہے، اپنے پیارے بیٹے مسیح یسوع کی خاطر میرے ساتھ کٹھرا ہو تو جو میری پناہ اور سپر اور مضبوط قلعہ ہے۔ AK 152.2

    حکمت سے معمور خُداوند نے لوتھر کو مصیبت سمجھنے اور دیکھنے کی اجازت دی اور یہ کہہ کہ وہ اپنی قوت پر بھروسہ نہ کرے اور ہٹ دھرمی سے خطرے میں نہ کودے ۔تاہم یہ ذاتی اذیت کے بارے خوف نہ تھا اور نہ ہی یہ تشدد اور موت کا خوف تھا، جس نے اس پر فوری اثر کیا۔ اسے بحران کا سامنا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ اسکے مقابلے کے لئے اس کے سبب صداقت کے مقصد کو زک پہنچ سکتا تھا۔ اپنی سلامتی کے لئے نہیں بلکہ انجیل کی فتح کی خاطر اس نے خُدا کے ساتھ کشتی کی ۔ بالکل اسرائیل کی طرح جس نے اپنی روح کی تلخی میں تنہا ندی کنارے خُدا کے فر شتہ کے ساتھ کشتی کی۔ اپنی پست ہمتی بیان کرنے سے اسکا ایمان مسیح یسوع میں نہا یت ہی مستحکم ہوا۔ اسے اس یقینی دہانی سے ہمت ملی کہ وہ اکیلا اس کونسل کے سامنے پیش نہیں ہو گا۔ اس کی روح کو سکون مل گیا اور اسے اس بات پر بڑی مسرت ہوئی کہ اسے قوم کے سرداروں کے سامنے خُدا کے پاک کلام کو عظمت دینے کی اجازت مل گئی ہے۔ AK 152.3

    اپنے ذہن کو خُدا پر قائم رکھتے ہوئی لوتھر اس جدوجہد کے لئے تیار ہو گیا جو اس کے سامنے تھی ۔ اس نے جواب دینے کی تدبیر پر غور کیا۔ اور جو عبارات اسکی تحریرات میں تھیں انکا جائزہ کیا اور کلام مقدس میں سے ثابت کریے کے لئے اور اپنی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لئے مناسب اقتباسات حاصل کئے ۔ پھر اس نے اپنا بایاں ہاتھ مقدس والیم پر رکھا اور دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر عہد کیا کہ وہ انجیل کے ساتھ وفادار رہے گا اور بلا جھجک اپنے ایمان کا اقرار کرے گا۔ خواہ اسے اپنی گواہی کو اپنے خون سے سر مہر کیوں نہ کرنا پڑے” IBID.B.7 ch.8AK 153.1

    جب اسے دوبارہ ڈائٹ کے سامنے پیش کیا گیا تواس کے چہرے پر خوف یو شرمشاری کے آثار ہویدہ نہ تھے ۔ پر سکوں اور مطمئن مگر دلیر اور عالی ظرف خُدا کا گواہ دنیا کے عظیم لوگوں کے درمیان کھٹر ہوا۔ اعلے حکومتی آفسیرز نے اس فیصلے کا مطالبہ کیا اور پوچھا کیا وہ اپنی تعلیمات سے دستبردار ہونا چاہتا ہے۔ لوتھر نے اپنا جواب بڑی فروتنی سے دیا جس میں گستاخی یا جزبات کا کوئی شائبہ نہ تھا ۔ اسکا برتاو نیا اور با اخلاق تھا۔ اس کے باوجود اس نے اعتماد اور مسرت کا مظاہرہ کیا جس سے اسمبلی حیران رہ گئی ۔ لوتھر نے کہا خوش بخت شہنشاہ مثالی شہزادو مہربان لارڈز۔۔ میں خُدا کے فضل و کرم سے صدق دل سے آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ تحمل سے میری سنیں۔ اور اگر بے علمی کے باعث میں کورٹ کی توہین کا رتکب ہو جاوں تو میری التجا ہے کہ مجھے معاف فرما دینا۔ کیونکہ میری پرورش شاہی محلوں میں نہیں بلکہ کا نونٹ کے گوشہ تنہائی میں ہوئی ہے۔ IBID.B.7 ch.8AK 153.2

    پھر سوال کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے کہا کہ میری تصنیف کا سارا کام ایک ہی نوعیت کا نہیں ہے ۔ بغض تصا نیف میں ایمان اور اعمال حسنہ کے بارے لکھا ہے جن کے بارے دشمنوں نے بھی اقرار کیا ہے کہ یہ نہ صرف بے ضر رہے بلکہ فائدہ مند ہے انکا انکار کرنے سچائی کا انکار ہے جس کا تمام پارٹیاں اقرار کرتی ہیں۔ دوسری قسم کی تصانیف پوپ کی حکومت کی کرپشن اور اسکی بدکاریوں کا راز فاش کر تی ہیں ۔ ان کاموں کا انکار کرنے کامطلب روم کے مظالم کو تقویت پہنچا نا ، اور مزید بہت بڑی بڑِ ی خرامکاریوں کے لئے دراز کھولنا ہے ۔ اس کتابوں کی تیسری قسم میں اس نے ان ہستیوں کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے جوموجودہ برائیوں کا دفاع کرتے ہیں۔ انکے لئے وہ بڑی بیباکی سے اقرار کرتا ہے کہ انکو میں نے کچھ زیادہ ہی آڑے ہاتھوں لیا ہے- مگر اسکا یہ دعوی نہیں کہ وہ خطاء سے خالی ہیں- اسکے باوجود وہ ان کتابوں کی تردید نہیں کرے گا- ایسا کرنے سے سچائی کے دشمن ڈالر ہو جائیں گے اور پھر وہ خدا کے لوگوں کو اس سے بھی زیادہ ظلم وستم کے ساتھ تباہ کرنے کیلئے موقع تلاش کریں گے-AK 153.3

    مگر میں تو محض انسان ہوں خدا نہیں- اس نے بات کو جاری رکھتے ہوۓ کہا اس لئے مینن خود کا اسی طرح دفاع کروں گا جیسے میرے خداوند مسیح یسوع نے اپنا دفاع کیا- اگر میں نے کوئی بری بات کی ہے - تو اس برائی کی گواہی دو- خدا کے رحم وکرم سے میں آپ سب سے سماجت کرتا ہوں- عالی مرتبہ شہنشاہ اور آپ جو مثالی شہزادے ہیں اور ہر درجہ کے تمام لوگوں سے کہ آپ رسولوں اور نبیوں کی تصانیف سے ثابت کریں کین میں نے خطاء کی ہے- جتنی جلدی میں اس کا قائل ہو جاؤں گا اتنی ہی جلدی میں ہر غلط تصنیف کو منسوخ کر دوں گا اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں گا جو اپنی کتابوں کو پکڑ کر آگ میں پھینکوں گا-AK 154.1

    جو کچھ میں نے ابھی ابھی کہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ میں نے بڑے احتیاط سے اسکو پرکھا اور ان خطروں کو پہچانا ہے جو میں نے اپنے لئے مول لئے ہیں- مگر مجھے دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ جیسے یہ اب ہے اسی طرح یہ قدیم زمانہ میں بھی مصائب اور تضاد کا سبب رہی ہے- یہی خدا کے کلام کی خاصیت ہے- میں زمین پر صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں- مسیح یسوع نے فرمایا- خداوند خدا اپنے مشورے دینے میں نہایت ہی عجیب وغریب اور ہولناک ہے- خبردار، کہیں تضاد ختم کرنا کے لئے آپ خداوند خدا کے مقدس کلام کو نقصان پہنچائیں- اور اپنے اوپر ایسا بحرانوں کا اور ہولناک تباہی کا طوفان برپا کریں جس پر آپ غالب نہ آ سکیں گے- میں خداوند خدا کے پاک کلام میں سے بہت سی مثالوں کا حوالہ دے سکتا ہوں- میں فرعون کے بارے بول سکتا ہوں- بابل کے بادشاہوں کے بارے اور اسرائیل کے بادشاہوں کے بارے کلام کر سکتا ہوں- جب انہوں نے اپنے مشیروں سے مشورہ لیا تو انہیں اس میں بڑی حکمت نظر آئی جو انکی مملکت کو طاقتور بنا سکتی تھی- مگر انکی یہی کارکردگی انکی تباہی کا باعث بنی- خداوند خدا پہاڑوں کو ہلا سکتا ہے مگر انہیں خبر نہیں تھی- IBID.B.7.ch.8AK 154.2

    لوتھر نے ساری باتیں جرمن زبان میں کیں اب اس سے درخواست کی گئی کہ یہ کلام لاطینی زبان میں کرے- گو وہ پہلی تقریر کے سبب تھکا ہوا تھا- اس کے باوجود اس نے لاطینی میں اسی جوش وجذبہ اور وضاحت سے تقریر کی جیسے پہلے کی تھی- خداوند خدا کی پروردگاری نے اس خدمت میں اسکی مدد فرمائی- بہت سے شہزادوں کے خیالات غلط تعلیم اور روایات کے سبب اس قدت تاریک ہو چکے تھے کہ پہلی تقریر کے وقت انہیں لوتھر کے استدلال میں چندان جان نظر نہ آئی- مگر جب دوبارہ وہی تقریر کی گئی تو جو لحاظ اس نے پیش کئے تھے انہیں بڑی صفائی سے سمجھ پائے-AK 154.3

    وہ جنہوں نے ہٹ دھرمی سے اپنی آنکھیں روشنی کی طرف سے بند کر لیں، اور ارادہ کر لیا کہ وہ سچائی کے قائل نہیں ہو گے وہ لوتھر کی باتوں سے بھڑک اٹھے- اور اس نے بولنا بند کیا تو ڈائٹ کے سپیکر نے بڑے غصے سے کہا “تم نے اس سوال کا جواب نہیں دیا جو تم سے پوچھا گیا تھا- کیا تم اپنی تعلیم سے دستبردار ہو گے یا نہیں؟ اس کا جواب واضح اور مختصر دو”-AK 155.1

    ریفارمر نے جواب میں کہا: جبکہ یہاں نہایت ہی قابل احترام شہنشاہ اور دوسرے مملکت کے بہادر اور طاقتور ترین لوگ بیٹھے ہوۓ ہیں اور انہوں نے میرا واضح اور مختصر جواب مانگا ہے- تو میں آپکو ایک جواب دیتا ہوں- اور وہ یہ ہے کہ “میں اپنا ایمان پوپ کے یا کونسل کے تابع نہیں کر سکتا- کیونکہ یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ انہوں نے مسلسل خطائیں کی ہیں- اور ایک دوسرے کے خلاف کام کیا ہے- میں پاک نوشتوں کی گواہی کا قائل ہوں جن کے استدلال بڑے واضح ہیں تو جو اقتباسات میں نے پیش کئے ہیں اگر میں انکی روشنی میں اس طرف مائل ہوں اور اگر میرا ضمیر خدا کے کلام کے تابع ہے تو میں نہیں کر سکتا اور انکا انکار نہیں کروں گا- کیونکہ ایک مسیحی کیلئے اپنے ضمیر کے خلاف بولنا غیر محفوظ ہے- میں آپکے سامنے کھڑا ہوں- میں اس سے پیچھے نہیں ہٹوں گا- خداوند میری مدد فرمائے- آمین” IBID.B.7.ch.8AK 155.2

    یوں خدا کا راستباز بندہ خدا کے کلام کی مضبوط بنیاد پر کھڑا ہوا- آسمانی روشنی نے اس کے چہرہ کو بقعہ نور بنا دیا- اسکے چال چلن کی پاکیزگی اور عظمت، اور اسکے دل کی مسرت اور سکوں سب پر نمایاں ہو گیا جب اس نے غلط تعلیمات کے خلاف گواہی دی اور اس اعلی و بالے ایمان کی گواہی دی جو دنیا کو مغلوب کرتا ہے-AK 155.3

    ساری اسمبلی حیران ہو کر کچھ دیر کیلئے بالکل خاموش ہو گئی- پہلے جواب کیلئے لوتھر نے آھستہ سے دھیمے لہجے میں مودب جواب دیا، بالکل اطاعت گزاروں کی طرح- اس سے روم نے یہ اندازہ لگایا کہ اسکی ہمت ختم ہونا شروع ہو گئی ہے- انہوں نے رکنے کی درخواست اس لئے مان لی کہ یہ اب اپنے دعوی سے دستبردار ہو جائیگا- چارلس نے خود حقارت سے راہب کے خستہ بدن پر نظر کی جو سادہ کپڑوں میں ملبوس تھا- اور اس نے اس کے خطاب کی سادگی پر غور کیا- اور کہا کہ ”یہ راہب مجھے بدعتی نہیں بنا سکتا“- مگر جواب اس نے ثابت قدمی اور ہمت کا مظاہرہ کیا، اور جس قوت اور وضاحت کے سااتھ اس نے استدلال دیئے اس نے تمام پارٹیوں کو حیرت میں ڈال دیا- شہنشاہ خود متاثر ہو کر اسکی تعریف کرنے لگا- اور فرمایا ”یہ راہب نڈر اور غیر متزلزل ہمت کے ساتھ کلام کرتا ہے“- بہت سے جرمن شہزادوں نے بڑے فخر اور مسرت کے ساتھ اپنی قوم کے نمائندے کو دیکھا-AK 155.4

    روم کے حامیوں کی حالت غیر ہو رہی تھی- کیونکہ انکے مقصد کو پزیرائی ملتی ہوئی نظر نہ آئی- وہ تو اپنی طاقت کو بحال رکھنے کے خواہاں تھے، کلام مقدس کی بدولت نہیں بلکہ دھمکیوں کے ذریعے - روم کی فیل نہ ہونے والی بحث کو جاری رکھتے ہوۓ ڈائٹ کے سپیکر نے کہا- “اگر تم انکار نہیں کرتے تو شہنشاہ اور مملکت کی ریاستیں باہم مشورہ کریں گی کہ اس غیر اصلاح پذیر بدعتی کے خلاف کونسا راستہ اپنانا ہے”-AK 156.1

    لوتھر کے دوست جنہوں نے اسکی شریفانہ دفاع کو بڑی خوشی سے سنا تھا، ان الفاظ پر لرز اٹھے، مگر ڈاکٹر خود بڑا مطمئن تھا- اس نے بڑے سکوں سے کہا ”خداوند میرا مددگار ہو- میں ہرگز انکار کرنے کیلئے تیار نہیں“- IBID.B.7.ch.8AK 156.2

    جب تک شہزادے آپس میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں اس وقت تک لوتھر کو کہا گیا کہ وہ ڈائٹ کو چھوڑ دے- یہ محسوس کیا جا رہا تھا کہ بہت بڑا بحران پیدا ہو گیا ہے- لوتھر کا ہتھیار نہ ڈالنے فیصلہ شاید کلیسیا کی تاریخ پر صدیوں تک اثر انداز ہو- یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس سے انکار کروانے کیلئے ایک اور موقع فراہم کیا جائے- اور جب آخری بار وہ اسمبلی میں لایا گیا- تو اس سے دوبارہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنی تعلیمات سے دستبردار ہونے کو راضی ہے؟ مگر اس نے کہا ”کہ میں نے جو جواب پہلے دیا تھا میرا وہی جواب ہے- میرے پاس کوئی اور جواب نہیں“ تو یہ کافی ثبوت تھا کہ وہ دھمکیوں یا وعدوں سے خود کو روم کے تابع نہیں کرے گا- AK 156.3

    پوپ کے قیادت کی برہمی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جنکی حکومت کے سامنے بادشاہ اور نوبل کانپ اٹھتے تھے، وہ ایک معمولی راہب کے ہاتھوں ذلیل ہوئی ہے- وہ چاہتے تھے کہ اسکی زندگی کو ایذا پہنچا کر اسے اپنے غضب سے آگاہ کریں- مگر انکے خطرات کو سمجھتا تھا- اور جنکا اس نے بڑے مسیحی وقار اور سکوں کے ساتھ اظہار کیا- اسکے الفاظ فخر اور بے جا، جذبات اور غلط بیانی سے پاک تھے- وہ خود کو بھول گیا کہ وہ عظیم لوگوں کے نرغے میں ہے- بلکہ یوں محسوس کیا کہ وہ اسکے حضور میں حاضر ہے جو پوپ، کلیسیا کے اعلی عہدیداران اور بادشاہوں، شہنشاہوں سے بھی بزرگ وبرتر ہے- مسیح یسوع نے لوتھر کی گواہی کے ذریعہ بڑی قدرت اور جاہ وجلال کیساتھ ایسا کلام کیا کہ دوست اور دشمن دونوں دنگ رہ گئے- اس کونسل میں خدا کا روح حاضر تھا جو سلطنت کے اعلی افسران کے دل پر تاثیر کر رہا تھا- بہت سے شہزادوں نے بڑی دلیری سے تسلیم کیا کہ لوتھر کا مقصد مبنی بر انصاف ہے- اور بہتیرے سچائی کے قائل ہو گئے- مگر بعض پر یہ تاثیر دیر پا قائم رہنے والا نہ ہوا- وہاں ایک اور کلاس بھی تھی جس نے اس وقت اپنی قائلیت کا اظہار نھکیہ بلکہ انہوں نے خود پاک نوشتوں سے تحقیق کی اور مستقبل میں ریفریمیشن کے نڈر حامی ثابت ہوۓ-AK 156.4

    الیکٹور فریڈرک ڈائٹ میں لوتھر کی پیشی کو بڑے اشتیاق سے دیکھ رہا تھا- اور گہرے جذبات کیساتھ اس نے اسکی تقریر کو سنا- بڑے فخر اور خوشی کیساتھ اس نے ڈاکٹر کی ہمت، ثابت قدمی، خود ضبطی، مصمم ارادے کی داد دی- اور جن پارٹیوں کے درمیان مقابلہ تھا ان کے بارے اس نے یوں دیکھا کہ پوپ بادشاہ اور کلیسیا کے اعلی عہدیداران، سب سچائی کے مقابلہ میں ہیچ ٹھہرے- پوپ کے حواریوں کو ایسی شکست ہوئی جو ہر قوم اور ہر زمانے میں محسوس کی جائیگی-AK 157.1

    جب پوپ کے قانونی نمائندے نے لوتھر کی تقریر کی تاثیر کو محسوس کیا تو وہ اس سے پہلے اتنا کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوا تھا جتنا اب ہوا- اس لئے رومی ھلومت کی سیکورٹی کے لئے اس نے لوتھر کو گرانے کیلئے ہر حربہ استعمال کرنے کا قصد کر لیا- شعلہ بیانی اور تمام سیاسی صلاحیتیں جنکے لئے وہ منا ہوا تھا ان کے ساتھ وہ جوآن شہنشاہ سے ملا- اور اس پر عیاں کیا کہ معمولی سے راہب کی بات ماننے سے کیا کیا خطرات اور حماقتیں جنم لے سکتی ہیں- اس کے علاوہ طاقتور روم کی دوستی اور حمایت اسکی بھینٹ چڑھ سکتی ہیں-AK 157.2

    اسکی باتیں بے تاثیر نہ تھیں- لوتھرے کے جواب دینے کے اگلے روز چارلس نے ایک پیغام ڈائٹ کے سامنے پیش کیا جس میں اس نے اسی پالیسی کو جاری رکھنے کا عزم کیا تھا جو اسکے سابقہ حکمرانوں کی تھی تاکہ کیتھولک مذھب کو قائم اور محفوظ رکھا جائے- چونکہ لوتھر نے اپنی خطاؤں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اس لئے اس کے اور اسکی بدعتی تعلیم کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں- ایک تنہا راہب اپنی حماقت میں مسیحی حکومتوں کے ایمان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے- اس فسق وفجور کے خلاف میں اپنی بادشاہت، خزانے، اپنے دوست احباب، اپنا بدن، اپنی روح اور زندگی قربان کر دوں گا- اب میں آگسٹن، لوتھر کو فارغ کرتا ہوں اور اسے تنبیہہ کرتا ہوں کہ لوگوں میں انتشار نہ پھیلائے- اب میں اسکے بدعتیوں اور اسکے گستاخ بدعتیوں کے خلاف کلیسیا سے بے دخلی، مذہبی فرائض سے محرومی اور دیگر ہر موزوں ذریعہ سے انکا قلع قمع کروں گا- میں ریاست کے ممبران کو کہنا چاہتا ہوں کہ ایماندار مسیحیوں کا سا رویہ اپنائیں”- IBID.B.7.ch.9AK 157.3

    تاہم شہنشاہ نے یہ ضرور کہا کہ لوتھر کو جو سلامتی کا پروانہ دیا گیا ہے اسکو تسلیم کرنا لازم ہے- اور اسکا تعین کاروائی کو آگے بڑھانے سے پہلے یقینی ہو جانا چاہیے اور اسے سلامتی سے اپنے گھر جانے کی اجازت ہونی چاہیے-AK 158.1

    اب ڈائٹ کی طرف سے دو متضاد آرا پر اسرار کیا گیا- پوپ کے سفیروں اور نمائندوں کا مطالبہ تھا کہ اس کے سلامتی کے پروانے کو منسوخ کیا جائے- اور کہا “رائن (Rhine) میں اسکی راکھ پھینکی جائے جیسیا کہ ایک صدی پیشتر جان ہس کی راکھ اس میں پھینکی گئی تھی”- IBID.B.7.ch.9AK 158.2

    مگر جرمنی کے شہزادوں نے اسکے خلاف احتجاج کیا گو وہ روم کے حامی اور لوتھر کے دشمن تھے- انہوں کے کہا کہ ایسا سلوک قوم کی عزت پر دھبہ ہو گا- وہ پروانہ جو اسکی حفاظت کی ضمانت کے طور پر بادشاہ نے دیا ہے اسکی قدر کی جانی چاہیے- انہوں نے ان ناگہانی آفات کا ذکر کیا جو ہس کی موت کے بعد پیش آئیں- اور انہوں نے کہا کہ ہم یہ جرات نہیں کر سکتے کہ یہ آفات جرمنی پر اور نوجوان شہنشاہ پر ان ہولناک سابقہ برائیوں کو دہرانے سے نازل ہوں-AK 158.3

    چارلس نے خود اس نکمی تجویز کے بارے جواب دیتے ہوۓ کہا- “بیشک ساری دنیا سے عزت وقار اور ایمان غائب ہو جائے، پھر بھی انہیں شہزادوں کے دل میں پناہ ملے گی”- IBIB.B.7.ch.9AK 158.4

    تاہم اسے لوتھر کے جانی دشمنوں کی طرف سا ترغیب دی گئی کہ وہ ریفارمر کے ساتھ اسی طرح سلوک کرے جیسے سیگس مانڈ نے ہس کیساتھ کیا تھا- اسے چرچ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا- مگر یاد کریں جب ہس نے پبلک اسمبلی میں اپنی زنجیروں کی طرف اشارہ کر کے فرمانروا کو اپنے ایمان کے ساتھ جو اس نے پیمان کیا تھا یاد دلایا- چارلس v نے اعلان کیا “مجھے سگس مانڈ کی طرح شرمناک مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے”- Lenfant, vol. 1, p. 422 اس کے باوجود چارلس نے ان سچائیوں کو جان بوجھ کر رد کر دیا جو لوتھر نے پیش کی تھیں- “میں پکا ارادہ کر چکا ہوں کہ میں اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کروں گا”- فرمنبروا نے لکھا- D’aubigne. b.7.ch.9AK 158.5

    اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ رسم ورواج کی راہ سے منہ نہیں مورے گا خواہ وہ راستی کی راہوں پر چل بھی پڑے کیونکہ میرے آباؤ اجداد نے بھی ایسا ہی کیا- اس لئے میں پوپ کی حکومت کی کرپشن اور مظالم کے باوجود اسکو سرفراز کروں گا- اس لئے اس نے اس روشنی سے مزید روشنی قبول کرنے سے انکار کر دیا جو اسکے آباؤ اجداد کو دستیاب ہوئی تھی- اور نہ ہی وہ کوئی ایسا فرض نبھانا چاہتا ہے جو اسکے آباؤ اجداد نے نہ نبھایا ہو-AK 159.1

    آج بھی دنیا میں بہتیرے ایسے لوگ ہیں جو اپنے آباؤ اجداد کے رسم ورواج اور روایات سے لپٹے ہوۓ ہیں- جب خدا انہیں اضافی روشنی عطا کرتا ہے وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں- صرف اسلئے کہ یہ اضافی روشنی انکے والدین کو نہیں ملی تھی- یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہم اس زمانہ میں نہیں جہاں ہمارے آباؤ اجداد تھے- ظاہر ہے کہ ہمارے فرائض اور ذمہداریاں اسی طرح کی نہیں جیسی انکی تھیں- خداوند خدا تو اسکی تصدیق نہیں کرتا کہ ہم خدا کے سچائی کے کلام کی خود تحقیق کرنے کی بجائے صرف اپنے آباؤ اجداد کے نمونہ کو ہی اپنائیں- ہماری ذمہداری ہمارے آباؤ اجداد کی ذمہ داری سے کہیں زیادہ ہے- ہم اس روشنی کے ذمہ دار ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد کو ملی، اور اس روشنی کے بھی جو زمانہ بہ زمانہ ہمیں وراثت میں ملی- اور ہم اس اضافی روشنی کے بھی ذمہ دار ہیں جو ابھی ہم پر خدا کے پاک کلام سے ضیاء پاشی کر رہی ہے-AK 159.2

    مسیح یسوع نے ایمان نہ لانے والے یہودیوں سے یوں فرمایا “اگر میں نہ آتا اور ان سے کلام نہ کرتا تو وہ گنہگار نہ ٹھہرتے لیکن اب ان کے پاس اسکے گناہ کا عذر نہیں” یوحنا 22:15------ اسی الہی طاقت نے لوتھر کے ذریعہ جرمنی کے شہنشاہ اور شہزادوں سے کلام کیا اور جیسے خداوند کے پاک کلام سے روشنی آگے بڑھی تو اسکی روح نے اسمبلی میں آخری بار بعض سے التماس کیا- جیسے کہ پیلاطسنے کئی صدیاں پیشتر گھمنڈ اور ہر دلعزیز ہونے کیلئے دنیا کے نجات دہندہ کو قبول کرنے کیلئے اپنے دل کو بند کر لیا تھا، اور جیسے فیلکس نے سچائی کے پیامبر سے کہا “اس وقت تو جا فرصت پا کر تجھے پھر بلاؤں گا” اعمال -25:24اور جس طرح مغرور اگر پا نے اقرار کیا “تو تو تھوڑی ہی سی نصیحت کر کے مجھے مسیحی کر لینا چاہتا ہے” اعمال -28:26اس کے باوجود آسمانی پیامبر سے دور چلا گیا- اس طرح چارلس پنجم نے دنیاوی جاہ وحشمت اور پالیسی کی بنیاد پر سچائی کے نور کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا-AK 159.3

    لوتھر کے خلاف جو منصوبے بنائے جا رہے تھے وہ دور ونزدیک ہر جگہ پھیل گئے جس سے شہر میں ہلچل مچ گئی- ریفارمر نے بہت سے دوست بنا لئے تھے جو یہ جانتے تھے کہ روم نے انکے خلاف کون کون سے مظالم ڈھائے جنہوں نے اسکی کرپشن کا بھانڈا پھوڑنے کی جرات کی- اسکے دوست نہیں چاہتے تھے کہ لوتھر ان مظالم کی بھینٹ چڑھے- سینکڑوں نوبلز نے اسے پناہ دینے کا عہد کیا- پچھلے ہفتے لوتھر کو روم کے تابع ہو جانے کا جو اظہار ہوا تھا اس شاہی پیغام کی بھتیروں نے کھلم کھلا مذمت کی- گھروں کے دروازوں اور عوامی جگہوں پر پلے کارڈز (Placards) چسپاں کئے گئے- بعض حکومت کے خلاف اور بعض کارڈز لوتھر کے حق میں تھے- جبکہ ایک پلے کارڈز پر دانا شخص کا یہ قول لکھا ہوا تھا- “اے مملکت تجھ پر افسوس جب نابالغ تیرا بادشاہ ہو” واعظ -16:10AK 160.1

    ساری جرمنی میں لوتھر کے حق میں جو مظاہرے ہوۓ ان سے شہنشاہ اور ڈائٹ کے سبھی مندوبین سمجھ گئے کہ اگر اسکے ساتھ کوئی بے انصافی ہوئی تو یہ سلطنت کے امن وامان میں خلل کا باعث ثابت ہو گی اور اس سے حکومتی تاج کی پائیداری کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے-AK 160.2

    فریڈرک آف سکسونی نے قصدا اپنے خیالات کا اظہار مخفی رکھا- اور ریفارمر کے حق میں جو اس کی حقیقی محسوسات تھیں انہیں مصلحت کے تحت منذر عام پر نہ آنے دیا- مگر اسی دوران اس نے لوتھر کی بدل وجان حفاظت کی اور اسکے دشمنوں کی چالوں پر بھرپور نظر رکھی- مگر زیادہ تر لوگ ایسے ہی تھے جنہوں نے لوتھر کے ساتھ کسی طرح کی ہمدردی کا اظہار نہ کیا- اسے ملنے کیلئے امیر، نواب، راجے اور کئی دوسرے نامور لوگ آئے- ان میں چرچ کے اعلی نمائندے اور عام ممبر بھی شامل تھے- سپالاٹن نے لکھا “ڈاکٹر کے چھوٹے سے کمرے میں تمام ملنے والے سما نہ سکے”- Martym, Vol.1.p.404 AK 160.3

    لوگ لوتھر کو یوں دیکھتے جیسے وہ کوئی انسانوں سے بالاتر مخلوق ہے- حتی کہ وہ لوگ جن کا اس کی تعلیمات میں ایمان نہیں تھا وہ بھی اسکی بلند پایہ، راستبازی کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے جس نے اسے اپنی ضمیر کے خلاف جانے کی نسبت موت قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا-AK 160.4

    بڑی مخلص کوششیں کی گئیں تاکہ لوتھر کی منظوری سے روم کے ساتھ سمجھوتہ ہو سکے- نوبلز اور شہزادے اس کے پاس آئے اور کہا کہ اگر تم چرچ اور کونسل کے خلاف اسی طرح کے فیصلوں پر قائم رہے تو تمہیں جلد ہی سلطنت سے جلا وطن کر دیا جائے گا تو پھر تمہارا کا کوئی دفاع نہ ہو کر سکے گا- انکی اپیل کے جواب میں لوتھر نے کہا “مسیح یسوع کی انجیل کی تشہیر نقصان اٹھائے بغیر نہیں ہو سکتی” تو پھر کیوں خوف وہراس اور خطرات مجھے خدا سے اور الہی کلام سے جو واحد صداقت ہے جدا کریں؟ نہیں، خواہ مجھے اس کے لئے اپنا بدن، لہو اور زندگی ہی کیوں نہ دینی پڑے”- D’ aubigne,b.7.ch.10AK 161.1

    ایک بار اسے پھر ترغیب دی گئی کہ شہنشاہ کے فیصلے کے سامنے سر تسلیم خم کر دو- پھر تمہیں کسی چیز سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں- اس ن اے اپنے جواب میں کہا- “میں بدل وجان، شہنشاہ، شہزادوں، حتی کہ معمولی سے مسیحی کے بھی تابع ہونے کو تیار ہوں- بشرطیکہ وہ خدا کے کلام کو اپنا معیار بنائیں- کیونکہ انسان کا کلی فرض یہ ہے کہ وہ خدا کے تابع فرمان رہے- اس کے علاوہ انسان کا اسکے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں- میرے ضمیر کو جبروتشدد سے نہ ڈراؤ جو پہلے ہی الہامی صحائف کی زنجیروں سے جکڑی ہوتی ہے”-IBID.B.7.ch.10AK 161.2

    ایک اور اپیل کے سلسلہ میں اس نے کہا “میں اپنے سلامتی کے پروانے سے ڈیایسٹی بردار ہوتا ہوں- میں خود کو، اور اپنی زندگی کو شہنشاہ کے حوالے کرتا ہوں- لیکن میں خداوند کے پاک کلام کو اس کے حوالے نہیں کر سکتا”- IBID.B.7.ch.10AK 161.3

    اس نے یہ بھی رضامندی ظاہر کر دی کہ وہ خود کو جنرل کونسل کے فیصلے کے تابع کر دے گا- بشرطیکہ فیصلہ الہامی نوشتوں کے مطابق ہو- جہاں تک خدا کے کلام اور ایمان کا تعلق ہے، تو ہر ایک مسیحی اتنا ہی اچھا جج ہے جتنا کہ پوپ خواہ اسے ملین کونسلز کی مدد حاصل ہو”- Martyn, Vol.1.p.410AK 161.4

    دوست اور دشمن دونوں سمجھ گئے کہ سمجھوتے کی مزید کوشش بے سود ہے-AK 161.5

    اگر ریفارمر ایک شوشہ کے برابر بھی انکے تابع ہو جاتا تو ابلیس اور اسکی افواج فتحیاب ہو جاتیں- مگر اسکی نہ لرزنے والی ثابت قدمی رومی کلیسیا کو کمزور کرنے اور ایک بہتر دور کا آغاز کرنے کا ذریعہ بنی- اس ایک آدمی کا اثرورسوخ، جس نے مذہبی معاملات کے بارے سوچنے اور اس پر عمل کرنے کی جسارت تھی وہ کلیسیا اور دنیا کو نہ صرف اپنے زمانے، بلکہ ہر آنے والی نسل پر اپنا تاثر چھوڑنے والا تھا- اسکی پائیداری اور ایمانداری، اخیر زمانہ میں انکو قوت بخشنے کو تھی جنھیں اسی طرح کے تجربات سے دوچار ہونا تھا- خداوند خدا کی قدرت اور جاہ وجلال انسانوں کی کونسل اور ابلیس کی جلیل القدر طاقت پر سبقت لے گئی-AK 161.6

    جب شہنشاہ کے ارباب اختیار نے لوتھر کو واپس گھر جانے کا حکم دیا- تو اسے پتہ تھا کہ اس حکم کے فورا بعد مجھے ملامت آمیز سزا کا نوٹس جاری ہو جائیگا- دھمکیوں کے بادل اس کے راستے پر چھا گئے- لیکن جونہی وہ ورمز سے نکلا اسکا دل خوشی ومسرت اور خدا کی ثنا سے لبریز ہو گیا- “ابلیس نے خود کہا کہ وہ پوپ کے قلعہ کی نگرانی کرتا ہے”- مگر مسیح یسسوع نے اس میں بڑا رخنہ ڈال دیا- اور ابلیس یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا کہ خداوند خدا مجھ سے قوی ہے”- D’ aubigne,b.7.ch.11 AK 162.1

    اسکی روانگی کے بعد، لوتھر نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ثابت قدمی کو بطور بغاوت سمجھا جائے- اس لئے لوتھر نے شہنشاہ کو لکھا “خداوند جو دلوں کو جانچتا ہے وہی میرا گواہ ہے کہ میں بڑی دیانتداری سے آپ کے حکم کو ماننے کیلئے تیار ہوں- عزت یا بے عزتی کی حالت میں زندگی یا موت کی حالت میں- اور یہ سب کچھ خدا کے کلام کے علاوہ جس سے انسان زندہ ہے غیر مشروط ہے- اس موجودہ زندگی کے تمام امور میری وفاداری کو لرزہ نہیں کر سکتے- کیونکہ یہاں کچھ کھو دینا یا فائدہ اٹھا لینا نجات کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں- لیکن جب ابدی دلچسپیوں کا تعلق ہو تو خداوند خدا نہیں چاہے گا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے تابع فرمان ہو جائے- کیونکہ یہ تابعداری حقیقی عبادت کے مترادف ہے- اور یہ پورے دل سے خالق خداوند کے سپرد کر دینی چاہیے”- IBID.B.7.ch.11AK 162.2

    ورمز سے سفر اختیار کرنے پر لوتھر کی پہلے کی نسبت زیادہ آؤ بھگت ہوئی- شاہی پرسٹس نے کلیسیا سے بے دخل راہب کا پرجوش خوش آمدید کیا- اور سول حکمرانوں نے اس شخص کی بڑی عزت افزائی کی جسے شہنشاہ نے مورد الزام ٹھہرایا تھا- گو حکومت کی طرف سے ممانعت تھی پر بھی اسے منادی کرنے کے لئے کہا گیا- وہ پلپٹ پر سے منادی کرنے لگا- “میں نے کبھی یہ عہد نہیں کیا کہ میں خدا کے کلام کو زنجیریں ڈال دوں گا اور نہ یہ کبھی کروں گا”- Martyn, Vol.1.p.420AK 162.3

    ورمز سے گئے ہوۓ اسے کچھ زیادہ عرصۂ نہیں ہوا تھا جب پوپ کے حامیوں نے شہنشاہ پر غلبہ پا لیا اور کہا کہ لوتھر کے خلاف فرمان جاری کرے- اس فرمان میں لوتھر کو انسان کے روپ میں شیطان قرار دیا گیا جس نے راہب کا چوغہ زیب تن کر رکھا تھا- D’ aubigne,b.7.ch.11AK 162.4

    حکم دیا گیا کہ فورا اسکی سلامتی کا پروانہ منسوخ ہو جائے، اسکے کام کو روکنے کے اقدامات کئے جائیں- ہر کس وناکس کو مطلع کیا گیا کہ وہ اسے نہ اپنے پاس ٹھہرائیں نہ اسے روٹی پانی دیں- اپنے کلام یا عمل سے، پبلک میں یا پرائیویٹ اسکی اعانت (مدد) نہ کرے- جہاں کبھی بھی وہ ہو اسے گرفتار کر کے ارباب اختیار کے حوالہ کر دیا جائے- اسکے پیروکاروں کو بھی جیل بھیجا جائے اور انکی پراپرٹی ضبط کر لی جائے- اسکی تصنیفات برباد کر دی جائیں- اور جو کوئی اس حکم کے خلاف عمل کرنے کی جرات کرے ان پر بھی یہی سزا لاگو کی جائے- سیکسونی کا ایلکٹور شہزادے جو لوتھر کے بہت دوست تھے وہ لوتھر کی روانی کے بعد ورمز سے چلے گئے- اس لئے شہنشاہ کو ڈائٹ نے منظوری دے دی- اور انہوں نے سوچ کہ اب ریفارمر کا قصہ تمام ہوا-AK 163.1

    اس مصیبت کی گھڑی میں خداوند خدا نے اپنے خادم کے بچاؤ کیلئے راہ مہیا کر دی- ایک چوکس بیدار آنکھ لوتھر کی حرکات وسکنات پر نظر رکھے ہوۓ تھی- اور ایک سچے اور شریف دل نے لوتھر کو بچانے کا عہد کیا- یہ تو ظاہر ہے کہ روم اسکی موت سے کم کسی چیز سے تسلی پذیر نہیں ہو سکتا تھا- صرف پوشیدگی ہی اسے شیر کے جبڑوں سے محفوظ رکھ سکتی تھی- خداوند نے سیکسونی کے فریڈرک کو حکمت دی کہ وہ ریفارمر کو محفوظ رکھنے کے لئے منصوبہ تیار رکرے- سچے دوستوں کے تعاون سے آیلکٹور کا منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا- اور لوتھر اپنے دوستوں اور دشمنوں کی نظروں سے غائب ہو گیا- جب وہ اپنے گھر کی طرف رواں تھا اسے گرفتار کر لیا گیا، اور جو اسکی نگہداشت پر مامور تھے ان سے اسے جدا کر کے جلدی جلدی اسے جنگل کے راستہ وارٹ برگ کیسل میں پہنچا دیا گیا- یہ دور افتادہ تنہا الگ تھلگ مونٹن فارسٹ تھا- اس کے پکڑنے والے اور رازدار اس بھید میں اس قدر کھو گئے تھے کہ کافی عرصۂ تک فریڈرک کو بھی معلوم نہ ہوا کہ انہوں نے لوتھر کو کہاں رکھا ہے- یہ بے علمی بھی بغیر مقصد نہ تھی- جب تک آیلکٹور لوتھر کے محل وقوع کے بارے کچھ نہیں جانتا تھا، اس وقت تک وہ کچھ بھی آشکارا نہ کر سکتا تھا- وہ خود بالکل مطمئن تھا کہ ریفارمر بالکل محفوظ ہے- اور وہ اسی پر قانع تھا-AK 163.2

    موسم بہار، گرما، اور خزاں گزر گیا، سرما آ گیا لوتھر ابھی تک قیدی تھا- الینڈر اور اسکے رفقا خوشی سے پھولے نہ سمائے کیونکہ انجیل کی روشنی بجھتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی- مگر اسکے برعکس ریفارمر اپنا چراغ سچائی کے سٹور ہاؤس سے لبالب بھر رہا تھا- اور اسکی روشنی پہلے سے کہیں زیادہ روشن ہو کر پھیل رہی تھی-AK 163.3

    وارٹ برگ کی دوستانہ سیکورٹی میں لوتھر کچھ وقت کیلئے جنگ کے اضطراب کی گرمی کی رہائی پر خوش تھا- مگر وہ زیادہ دیر تک پوشیدہ اور آسودہ جگہ پر تسلی پذیر نہیں ہو سکتا تھا سرگرم زندگی اور شدید کشمکش کا عادی اب غیر متحرک زندگی سے بیزار ہو گیا- ان تنہائی کے دنوں میں چرچ کی حالت ابھر کر اسکے سامنے آئی اور وہ مایوسی میں چلا اٹھا- “افسوس ان آخری ایام میں اسکے غضب کے دن کوئی نہیں جو اسرائیل کو بچانے کیلئے خدا کے سامنے دیوار کی طرح کھڑا ہو جائے”- IBID.B.7.ch.2AK 164.1

    دوبارہ اسکے خیالات اپنی طرف پلٹ آئے اور وہ ڈرا کہ کہیں بزدلی کے باعث وہ مقابلہ سے باہر نہ ہو جائے- وہ اپنی کاہلی اور دلجوئی پر خود کو ملامت کرتا پھر بھی وہ روزانہ اس قدر انجام دے لیتا تھا جو اس کیفیت میں مبتلا شخص سے ناممکن دکھائی دیتا ہے مگر اسکا قلم بیکار نہ بیٹھا- جبکہ اسکے دشمن خوش ہو رہے تھے کہ اسے خاموش کر دیا گیا ہے- مگر وہ بڑے حیران اور تذبذب کا شکار ہو گئے جب انہیں اسکے ابھی تک سرگرم ہونے کے ٹھوس ثبوت مل گئے- اس نے بہت زیادہ ٹریکٹ لکھے اور ساری جرمنی میں انکی اشاعت کی- اس نئے عہدنامے کا ترجمہ جرمن زبان میں کر کے مختلف باشندوں کی بڑی خدمت کی- اس نے اپنے چٹانی پتمس سے تقریبا سارا سال انجیل کی منادی کی اور گناہ اور اپنے زمانے کی بدکاریوں کی سرزنش کی-AK 164.2

    یہ لوتھر کو دشمنوں سے صرف محفوظ رکھنے کا مسلہ ہی نہ تھا اور نہ ہی اسے اس اہم خدمت سے کچھ پرسکون آرام مہیا کرنا تھا، جو خداوند اپنے خادم کو عوامی زندگی کی سٹیج سے دور لے گیا- بلکہ اس سے بھی اہم نتائج حاصل کرنا مقصود تھا- اکسی پہاڑ میں پسپائی، تنہائی اور پوشیدگی کا مقصد اسے زمینی مدد او انسانی تعریف سے دور لے جانا تھا- یوں اسے گھمنڈ، اور خود انحصاری کے گناہ سے بچانا تھا جو اکثر کامیابی کے باعث نمودار ہو جاتی ہے- تکلیف اٹھانے، اور تذلیل کے ذریعہ اسے تیار کیا گیا کہ وہ ان بد حواس راہوں پر دوبارہ چل سکے جن پر اسے اچانک سرفرازی مل گئی تھی-AK 164.3

    انسان اس آزادی کے باعث خوش ہوتا ہے جو اسے سچائی کے باعث حاصل ہوتی ہے- اور لوگ ان حضرات کی تعریف کے پل باندھ دیتے ہیں جنھیں خداوند خدا نے غلط تعلیم اور روایات کی زنجیریں توڑنے کیلئے بلایا تھا- شیطان اس تلاش میں رہتا ہے کہ انسانوں کی مہر ومحبت خدا کی طرف سے ہٹا کرAK 164.4

    شیطانی ایجنسی کی طرف مبذول کر دے- وہ انکی توجہ اوزار کی طرف موڑ دیتا ہے اور اس ہاتھ کو نظر انداز کر دیتا ہے جو سارے واقعات پیدا کر دیتا ہے- اکثر ایسے مذہبی رہنما جنکی تعریف اور عزت کی جاتی ہے وہ خدا کو بھول جاتے ہیں جس پر انکا انحصار ہے اور وہ اپنی ذات پر ہی انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں- اسکے نتیجہ میں وہ لوگوں کے ذہن ودماغ اور ضمیر پر کنٹرول کرنے کی تلاش می رہتے ہیں- اور لوگوں کو خدا کے کلام سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اپنی طرف مائل کرتے ہیں- اصلاح مذھب کا کام اکثر اس لئے پیچھے رہ گیا کیونکہ اسکے مددگاروں میں نفس پروری کی ایسی ہی روح پیدا ہو گئی- اس خطرے کے پیش نظر خدا ریفریمیشن کے مقصد کی نگرانی کرتا ہے- اسکی خواہش ہوتی ہے کہ کام کو قبول کیا جائے نہ کہ انسانی تاثر کو، کیونکہ یہ تو خدا کی طرف سے ہے- بطور تشریح کنندہ (مفسر) کے لوگوں کی نظریں لوتھر کی طرف لگ گ ای تھیں- اسے دور کر دیا گیا کہ سب کی ناظرین سچائی کے ابدی بانی کی طرف لگ جائیں- AK 165.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents