Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    گیارہواں باب - شہزادوں کا احتجاج

    ریفریمیشن کے لئے جتنے اعلی ٰ ہمت بیان اور گواہیاں دی گئیں ان سب میں، جرمنی کے کرسچن شہزادوں کا احتجاج جو انہوں نے 1529 میں ڈائٹ آف سپائرز میں کیا وہ تمام احتجاجوں سے بھرپور احتجاج تھا۔خُدا کے ان مردوں کا حوصلہ، ایما ن اور ثابت قدمی نے آنے والی نسلوں کے لئے آزادی لانے اور ضمیر کے مطابق فیصلے کا حق عطا کر دیا۔ اس کے احتجاج نے صلاح شدہ چرچ کو “پروٹسٹنٹ” کا نام بخشا- ان کے اصول پروٹسٹنٹ ازم کی اصل روح ہیں۔D’Aubigne,B.13.c AK 192.1

    ریفریمشین کے لئے تاریک اور دھمکی آمیز دن آ پہنچا- باوجودیکہ ورمز (worms) کا شاہی فرمان جاری ہو چکا تھا کہ لوتھر باغی ہے اور اسکی تعلیمات اور عقائد کو نفرت انگیز قرار دے دیا گیا اور سلطنت کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا- اور ہر جگہ اس کی مذمت کی گئی- مگر خداوند خدا نے ان قوتوں کی کمر توڑی جو صداقت سکو تہس نہس کرنے پر تلی ہوئی تھیں- چارلس v ریفریمیشن کی بیج کنی پر کمر بستہ تھا اور جب کبھی اس نے اسے برباد کرنے کے لئے ہاتھ اٹھایا، اسے ایسا کرنے سے زبردستی روک دیا گیا- ہر بار جب ان لوگوں کو تباہ کرنا ناگریز سمجھا گیا، تو ان نازک لمحات میں ترکی آرمی مغربی محاذ پر پہنچ گئی، یا فرانس کا بادشاہ، یا خود پوپ، شہنشاہ کی برتری سے خوفزدہ ہو کر اس پر حملہ آور ہو گیا- یوں قوموں کے جھگڑوں رگڑوں، اور شورش کے دوران، ریفریمیشن کو بڑھنے پھولنے اور قوت پانے کا موقع ملتا رہا-AK 192.2

    آخر کار پوپ کی حکومت نے تمام حکومتوں کے سربراہوں پر سختی کی اور انھیں کہا کہ آپس کے تمام تنازعہ ختم کریں اور سب مل کر اصلاح کار کے خلاف کام کریں، دی ڈائٹ آف سپائرز نے 1526 میں ہر ایک سٹیٹ کو، جنرل کونسل کی میٹنگ تک تمام مذہبی معاملات کے بارے پوری آزادی دے دی- لیکن جونہی خطرہ ٹل گیا جس کی رعایت حاصل ہوئی تھی تو شہنشاہ نے 1529 میں دوسری بار بدعت کا خاتمہ کرنے کے لئے سپائرز میں میٹنگ کال کر لی- اگر ممکن ہو تو نرمی اور پیار سے شہزادوں کو مائل کرنے کا سوچا گیا تاکہ وہ ریفریمیشن کی مخالفت کریں- لیکن اگر وہ نہ مانیں تو چارلس تلوار بھی چلانے کا ارادہ رکھتا تھا- پوپ کے حواری بڑے شادمان تھے- وہ بڑی تعداد میں اپنے حامیوں کے ساتھ سپائرز پہنچے- اور اصلاح کار اور ان کے حامیوں کے خلاف اپنی دشمنیوں کا برملا اظہار کیا، میلانچتھان (Melanchthan) نے کہا “ہم تو دنیا کا کوڑا کرکٹ ہیں- مگر مسیح یسوع اپنے حلیم لوگوں پر نگاہ کرے گا اور انھیں محفوظ رکھے گا”- Ibid,b. 13,ch.5 AK 192.3

    جو ایونجلیکل شہزادے ڈائٹمیں شرکت رکھتے تھے انھیں تو ان کی رہائش گاہوں میں بھی منادی کی اجازت نہ دی گئی- مگر سپائرز کے لوگ خداوند کے کلام کے ایسے پیاسے تھے کہ منع کرنے کے باوجود سیکسونی کے ایلکٹور کے چیپل میں ہزاروں ہزار سروس کے لئے پہنچ گئے- اس سے خطرہ جلد آ موجود ہوا- ڈائٹ کو شاہی فرمان ملا کہ ضمیر کی آزادی کے قانون نے بدامنی کو فروغ دیا ہے- شہنشاہ کو اسے منسوخ کرنا چاہیے، اس یکطرفہ عمل نے ایونجلیکل مسیحیوں کے غیض وغضب سکو بھڑکا دیا- ان میں سے ایک نے کہا “مسیح یسوع ایک بار پھر کیفا اور پیلاطس کے ہاتھوں میں آ گیا ہے” رومی اور بھی ظالم ہو گئے ہیں- پوپ کے ایک چہیتے نے کہا “لوتھرن سے ترک اچھے ہیں- کیونکہ ترک روزے رکھتے ہیں اور لوتھر اور اس کے حامی روزوں کی بے حرمتی کرتے ہیں- مگر میلانچ تھان نے جواب میں کہا اگر ہمیں خدا کے مقدس نوشتوں اور کلیسیا کی غلط تعلیمات کٹ درمیاں چناؤ کا حق ملے تو ہمیں آخر کو رد کرنا ہو گا- ہر روز پوری اسمبلی میں ہم انجیل کے مبشروں پر شاطر نئے پتھر مارتے ہیں”- Ibid,b. 13.ch.5AK 193.1

    مذہبی عدم تشدد کا پہلے ہی قانون پاس ہو چکا تھا- اور تمام ایونجلیکلریاستیں اپنے حقوق کی خلاف ورزی پر اس کی مخالفت پر تہیہ کئے ہوۓ تھیں- لوتھر جس پر ورمز نے پابندی لگا رکھی تھی اسے سپائرز میں آنے کی اجازت تھی مگر اس کی جگہ اس ہنگامی صورت میں اس کے ہمخدمتوں اور شہزادوں نے پر کی انھیں خداوند خدا نے اپنے کام کی حمایت کے لئے کھڑا کیا- سیکسونی کا نوبل فریڈرک، لوتھر کا سابقہ حامی اور سرپرست تھا وہ انتقال کر چکا تھا- مگر ڈیوک جان جس نے ریفریمیشن کو بڑی خوشی سے خوش آمدید کیا- اس نے بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا اور ان تمام امور کی حوصلہ افزائی کی جن کا ایمان کے ساتھ واسطہ تھا-AK 193.2

    پریسٹس نے مطالبہ کیا کہ جن ریاستوں نے ریفریمیشن کو قبول کر لیا ہے وہ خود کو کلی طور پر رومی علمداری میں دے دیں- دوسری طرف اصلاح کار اس آزادی کا مطالبہ کرتے تھے جس کا انھیں پیشتر حق دیا گیا تھا- وہ روم سکو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ وہ ان ریاستوں پر دوبارہ قبضہ کرے جنہوں نے خداوند کے کلام کو بڑی خوشی سے قبول کر لیا ہے- AK 193.3

    تصفیہ کے طور پر بلآخر یہ تجویز کیا گیا کہ جہاں ریفریمیشن قائم نہیں ہوئی وہاں ورمز کا حکم سختی سے لاگو کیا جائے اور وہ ریاستیں جو اس سے روگردانی کر گئی ہیں اور جہاں بلوے اور بدامنی کے بغیر قائم نہیں ہو سکی، وہاں کوئی نئی اصلاح متعارف نہ کروائی جائے- وہ وہاں کسی متضاد نقطے پر گفتگو نہ کریں- وہ ماس (Mass) کے منانے کی مخالفت نہ کریں- اور کسی رومن کیتھولک کو لوتھرازم قبول کرنے کی اجازت نہ دیں- Ibid,b. 13.ch.5 AK 194.1

    پوپ کے پریسٹس اور چرچ کے اعلی عہدہداران کی تسلی کے لئے ڈائٹ نے ان اقدامات کی اجازت دے دی- اگر ان فرمان کو زبردستی لاگو کر دیا جاتا- تو ان جگہوں تک ریفریمیشن پھیل نہ سکے گی جنھیں اس کا علم نہیں اور نہ ہی ٹھوس بنیادوں پر وہاں قائم ہو سکے گی جہاں یہ پہلے سے موجود ہے- Ibid,b.13.ch.5AK 194.2

    نہ تو کسی کو بولنے کی اجازت ہو گی نہ ہی کسی کو تبدیل (Convert) کرنے کی- ان پابندیوں اور ممانعت کے ہوتے ہوۓ ریفریمیشن کے دوستوں کو فورا تابع ہونے کا حکم دیا جائے گا- ایسے لگتا تھا جیسے دنیا کی امیدیں دم توڑ دیں گی اور رومی فرمانروا دیرینہ برائیوں کو واپس لانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں گے- ایسا موقع تلاش کر لیا جائے گا جو مکمل تباہی لائے گا- جسے تشدد، مذہبی جنون اور اختلاف رائے کے ذریعے پیشتر ہلا کر رکھ دیا گیا ہے- Ibid,b.13.ch.5AK 194.3

    جب ایونجلیکل پارٹی غوروخوض کے لئے میٹنگ کی تو وہ مایوسی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے- اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے “اب کیا کرنا چاہیے” دنیا کے لئے بڑے بڑے ایشو داؤ پر لگے ہوۓ تھے- “کیا ریفریمیشن کے چیف ہتھیار ڈال دیں اور حکم مان لیں“؟ اس بڑے بحران کے دوران اس غلط روش پر اصلاح کار کی بات چیت کتنی معقول تھی- تابع فرمان ہونے کے لئے کتنے خوش نما حیلے بہانے اور معقول وجوہات انھیں ملیں- لوتھرن کے شہزادوں کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی ضمانت مل چکی تھی- اور وہی بخشش انکی دوسری رعایا کو بھی دی گئی جنہوں نے اصلاح مذہب کے نظریات کو مان لیا تھا- کیا وہ اس پر قانع نہ ہوتے؟ کیا فرمان مان لینے سے بہت سارے مسائل سے بچا نہیں جا سکتا تھا؟ کون سے مصائب اور خطرات یہ مخالفین ان کے خلاف عمل میں لا سکتے ہیں؟ کون جانتا ہے کہ مستقبل ان کے لئے کتنے ہی نیک ساعت مہیا کرے؟ آئیے صلح کو تھام لیں!آئیے زیتون کی اس شاخ کو پکڑ لیں جو روم پیش کر رہا ہے- اور جرمنی کے زخموں کو بند کر دیں- اس طرح کی بحث سے اصلاح کار شاید خود کو مبنی برانصاف سمجھیں، مگر یہ ایسا راستہ تھا جو بہت جلد ان کے مقصد کو تہہ وبالا کر دیتا-AK 194.4

    “بڑی خوشی سے اس اصول پر غور کیا جس پر اس بندوبست کی بنیاد تھی- اور انہوں نے ایمان کے بھروسے، اس پر عمل کیا- وہ اصول کیا تھا؟ ضمیر کو جبری دبانا اور آزادانہ تفتیش کی ممانعت روم کا حق تھا- مگر غمزدہ اور ان کے پروٹسٹنٹ رعایا کو مذہبی آزادی کا حق نہیں تھا؟ہاں خاص امداد کے لئے معاہدے میں ایک شرط رکھی گئی تھی مگر وہ حق (Right) نہیں تھا- عظیم اصول کے اختیار کا کلی مقصد حکمرانی تھا- ضمیر کا مسلہ کورٹ سے باہر تھا- روم لا خطا جج تھا جس کے فیصلے کو ماننا ہی پڑتا تھا- اس تجویز شدہ بندوبست کو ماننے سے یہ تھا کہ مذہبی آزادی سیکسونی کے اصلاح شدہ علاقوں تک ہی محدود رہے اور دوسری مسیحی حکومتوں کے لئے بھی یہی تھا- آزادانہ تفتیش اور اصلاح شدہ ایمان جرم ہو گا- اسے جیل میں ڈھونسا جائے گا یا سولی اس مقدر بنے گی- کیا وہ مذہبی آزادی کی اجازت کو مقامی سطح تک محدود کریں گے؟ اور ریفریمیشن کو بتانا پڑے گا کہ اس نے اپنا آخری شخص کب تبدیل کیا ہے؟ اور اپنے آخری محکوم کو قبرستان پہنچاتا ہے؟ اور اب تک جہاں تک روم جڑیں پھیلا چکا ہے وہاں اس کی دائمی حکمرانی ہو گی؟ کیا اصلاح کاروں نے یہ عذر پیش کیا ہے کہ وہ ان سینکڑوں ہزاروں کے خون کے بارے میں جانتے ہیں جو اس بندوبست کے تعاقب میں پوپ کی سرزمین پر ہلاک ہوۓ؟ یہ تو اس اعلی وقت میں مسیحی حکومتوں کی آزادی اور انجیل کے کام کے ساتھ دغا ہے- Ibid,b.13.ch.5AK 195.1

    اس کے لئے وہ ہر ایک چیز قربان کر دیں گے- یہاں تک کہ اپنی ریاستیں، اپنے تاج اور اپنی زندگیاں بھی- D’Aubigne,B,13.ch.5AK 195.2

    شہزادوں نے کہا، آئیں ہم اس حکم کو رد کر دیں- “ضمیر کے فیصلوں کے بارے اکثریت کو کچھ اختیار حاصل نہیں” ڈپٹیز نے اعلانیہ کہا- 1526کے حکم کے مطابق ہم اس امن کے مقروض ہیں جس کا سلطنت لطف اٹھاتی ہے- اس کی موقوفی سے جرمنی میں شورش اور تفرقے پیدا ہو جائیں گے- اور جب تک کونسل کا اجلاس نہیں ہو جاتا اس وقت تک ڈائٹ مذہبی آزادی کو بچانے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی- Ibid,b.13.ch.5AK 195.3

    ضمیر کی آزادی کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے- اور یہ مذہبی معاملات میں اس کے اختیار کو محدود کرتی ہے- ہر سیکولر گورنمنٹ جو سول اختیار کے ذریعہ مذہبی عقیدوں کو لاگو کرنا چاہتی ہے وہ اس اصول کی قربانی دیتی ہے جس کے لئے ایونجلیکل مسیحیوں نے بڑے عرصے سے اور بڑی ہمت سے پر امن جدوجہد کی ہے-AK 195.4

    پوپ کے حواریوں نے یہ پکا قصد کر رکھا تھا کہ جو بھی اس فرمان سے انحراف کرنے کی جرات کرے گا اسے کچل کر رکھ دیا جائے گا- پہلے تو انہوں نے ریفریمیشن کے حامیوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی پوری پوری کوشش کی، اور ان سب سکو ہراساں کیا جنہوں نے ابھی تک اعلانیہ ریفریمیشن کی حمایت نہیں کی تھی- انہوں نے آزاد شہروں کے نمائندگان کو ڈائٹ کے سامنے پیش کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ ان تجاویز کو تسلیم کرتے ہیں جو پیش کی گئی ہیں- جس کے جواب کے لئے انہوں نے کچھ وقت مانگ لیا- مگر اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا- اور جب آزمائش کا وقت آ گیا تو تقریبا ان میں سے آدھے مصلح مذھب کی حمایت میں کھڑے ہوۓ پائے گئے- ان میں سے ایک ڈیلیگیٹ نے کہا کہ “جنہوں نے ضمیر کی آزادی، اور شخصی قوت فیصلہ کو قربان کرنے سے انکار کر دیا، انھیں اچھی طرح علم تھا کہ ان پر نکتہ چینی کی بوچھاڑ ہو گی- انہیں ملعون قرار دیا جائے گا اور وہ ایذا رسانی کے شکار بھی ہوں گے- ہمیں یا تو خدا کے کلام سے انکار کرنا تھا، یا پھر آگ کی بھٹی میں جلنا تھا” Ibid,b,13.ch.5AK 196.1

    کنگ فرڈینینڈ (Ferdinand) جو ڈائٹ میں شہنشاہ کا نمائندہ تھا- اس نے دیکھا کہ اگر شہزادوں کو اسے قبول کرنے پر آمادہ نہ کیا گیا تو اس فرمان کے ذریعہ بہت ہولناک تفرقہ پیدا ہو جائے گا- چناچہ اس نے مصالحت کی راہ اختیار کرنے میں بھلائی سمجھی- کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ اگر ان لوگوں کے خلاف طاقت کا استمال کیا گیا تو یہ اپنے قول پر مزید ڈٹ جائیں گے- چناچہ اس نے شہزادوں کی منٹ سماجت کی کہ وہ اس فرمان کو تسلیم کر لیں- اور انھیں یقین دلایا کہ اس سے شہنشاہ ان سے بہت زیادہ خوش ہو گا- مگر ان وفادار مردوں نے، زمینی حکمرانوں کے اختیار پر خداوند خدا کے اختیار کو تسلیم کیا اور بڑے تحمل سے جواب دیا- “ہم شہنشاہ کا ہر وہ حکم مانیں گے جس سے امن عامہ قائم ہو اور خداوند خدا کا جلال ظاہر ہو”- Ibid,b.13.ch.5AK 196.2

    ڈائٹ کی موجودگی میں آخرکار میں بادشاہ نے الیکٹور اور اس کے دوستوں کے سامنے اعلان کر ہی دیا کہ ان کا حکم “اسی صورت میں قبول کر لیا گیا ہے جیسے تجویز کیا گیا تھا” اور یہ انہیں خود کو اکثریت کے اختیار میں کرنا ہو گا- یہ کہہ کر وہ اسمبلی سے باہر چلا گیا- اور اصلاح کاروں کو بولنے کا کوئی موقع نہ دیا گیا- انہوں نے اپنے نمائندے بھیجے کہ وہ بادشاہ سکو راضی کر کے واپس اسمبلی میں لائیں- مگر ان کے احتجاج پر اس نے صرف یہ جواب دیا “معاملہ طے ہو چکا ہے اور صرف اب حکم ماننا ہی باقی رہ گیا ہے”- Ibid,b.13.ch.5AK 196.3

    امپریل پارٹی اس بات کو مانتی تھی کہ کرسچن شہزادے الہامی نوشتوں کو انسانی تعلیمات اور مطالبات سے برتر ماننے میں حق بجانب ہیں اور وہ جانتے تھے کہ جہاں کہیں بھی اصول کو مانا جائے گا- وہاں سے پوپ کی فرمانروائی ختم ہو جائے گی- مگر ان ہزاروں لوگوں کی طرح جو وقتی طور پر “ظاہری چیزوں پر نظر رکھتے ہیں انہوں نے بڑی خوشی سے کہا کہ فرمانروا اور پوپ کا مقصد جاندار اور مضبوط تھا، جبکہ اصلاح کاروں کا بےجان اور کمزور تھا- بیشک اصلاح کار تعداد میں کم اور کمزور تھے اور روم کے ساتھ انکا کوئی مقابلہ نہ تھا، مگر انکی بھی ایک قوت تھی- “ڈائٹ کی رپورٹ سے خدا کے کلام تک، شہنشاہ چارلس سے یسوع مسیح تک جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے”- Ibid,b.13.ch.5 AK 197.1

    جس طرح فرڈیننڈ نے ان شہزادوں کی با اصول قائیلیت کو نامنظور کر دیا اسی طرح شہزادوں نے بھی اس کی غیر موجودگی کی کوئی پرواہ نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا- اور بغیر تاخیر کئے نیشنل کونسل کے سامنے احتجاج کرنے کے لئے قدم اٹھ لیا- چنانچہ ایک نہایت ہی سنجیدہ اعلامیہ تیار کر کے ڈائٹ کو پیش کر دیا- “ان دستخطوں کی رو سے ہم خداوند سے احتجاج کرتے ہیں جو ہمارا واحد خالق ہے، ہمارا محافظ اور نجات دہندہ ہے اور جو ایک دن ہمارا اور ساری کائنات کا جج ہو گا- ہم اپنے اور اپنے لوگوں کے لئے اس تجویزکردہ فرمان کی بالکل اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی اس کی کسی شق کو مانیں گے جو خدا، اس کے پاک کلام اور ہماری ضمیر کی آزادی کے حقوق اور ہماری روحوں کی نجات کے خلاف ہو-AK 197.2

    ہم اس فرمان کی یہ توثیق کرتے ہیں! کہ ہم وثوق سے دعوی کر سکتے ہیں کہ جب تک قادر مطلق خداوند اپنے عرفان کے لئے انسان کو نہیں بلاتا اس وقت تک وہ خداوند کے عرفان کو حاصل نہیں کر سکتا؟ “خدا کے کلام کے بعد اور کوئی با اعتبار تعلم نہیں ہے- خداوند خدا کسی اور طرح کی تعلیم کی ممانعت کرتا ہے- پاک نوشتوں کی تفسیر کو کلام مقدس ہی کے دوسرے واضح حوالہ جات سے بیان کی جائے- یہ مقدس کتاب مسیحیوں کے لئے ضابطہ حیات اور بہت ہی اہم کتاب ہے- یہ بہ آسانی سمجھنے اور اندھیروں کو بھگانے کے لئے مناسب ذریعہ ہے- خدا کے فضل سے ہم نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ ہم خدا کے پاک کلام کو کلی طور پر بحال رکھیں گے- وہ پاک کلام جو عہد عتیق اور عہد جدید پر مشتمل ہے- ہم اس میں کسی ایسی چیز کا اضافہ نہیں کریں گے جو خداوند کے پاک کلام سے متصادم ہو- صرف یہی کلام سچائی ہے- یہی ہر طرح کی تعلیمات اور زندگی کی پرکھ کے لئے کسوٹی ہے- یہ نہ تو خود ناکام ہوتا ہے اور نہ ہی کبھی ہمیں ورغلاتا ہے- کوئی بھی جو اس فونڈیشن کی بنیاد پر تعمیر کرتا ہے وہ جہنم کے اختیار کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے- جبکہ انسان کی تمام تر لغویات اور بےبنیاد تعلیمات خدا کے سامنے مغلوب ہو جائیں گی-AK 197.3

    “اسی وجہ سے ہم اس جوۓ کو رد کرتے ہیں جو ہم پر زبردستی رکھا گیا ہے اور ہم جہاں پناہ سے یہ توقع کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مسیحی شہزادوں کا سا سلوک روا رکھا جائے جو ہر شے پر خداوند کو برتری دیتے اور اسے پیار کرتے ہیں- اور یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ تمام فرائض جو جائز اور مہرومحبت پر مبنی ہیں ہم جہاں پناہ کے لئے اور کل کائنات کے بانی کے لئے ادا کرتے رہیں گے”- Ibid,b.13.ch.6 AK 198.1

    ڈائٹ پر اس کا گہرا اثر پڑا- اکثریت احتجاج کرنے والوں کی دلیری پر بڑی حیران اور دہشت زدہ ہو گئی- مستقبل انہیں کسی آنے والے طوفان سے آگاہ کر رہا تھا- اختلاف رائے، بلوا اور خون خرابہ ناگزیر دکھائی دے رہا تھا، مگر اصلاح کاروں نے اپنے مقصد کو مبنی برانصاف قرار دیا اور کہا کہ وہ صرف قادر مطلق خداوند کے بازو پر ہی بھروسہ کریں گے جو ثابت قدمی اور ہمت سے بھرپور ہے- AK 198.2

    “اس احتجاج میں جو سول اصول پائے جاتے تھے، وہ پروٹسٹنٹ ازم کی اصل روح تھے- اس احتجاج نے ایمان کے بارے میں انسان کی دو برائیوں کے خلاف آواز بلند کی-AK 198.3

    1-سول مچسٹریٹس کے کام میں بےجا مداخلت-AK 198.4

    2-کلیسیا کا یکطرفہ اختیار-AK 198.5

    ان دو برائیوں کے علاوہ اصلاحی سوچ ضمیر کی آواز کو مچسٹریٹ کے فیصلے پر برتری، اور دیدنی کلیسیا کے اختیار پر خدا کے کلام کو برتری دیتی ہے یہ عقیدہ الہی چیزوں پر سول اختیار کو رد کرتا ہے-اور نبیوں اور رسولوں کے ساتھ ملکر یہی کہتا ہے “کہ ہمیں خدا کے حکم کو انسانوں کے حکم کی نسبت ماننا زیادہ ضروری ہے” چارلس پنجم کے تاج کے زمانہ میں یہ مسیح یسوع کی صلیب کو برتری دیتے ہیں- یہ اس سے بھی آگے بڑھ کر کہنا چاہتے ہیں کہ یہ ایک اصول قائم کر رہے ہیں کہ تمام انسانی تعلیمات خدا کے پاک کلام کے تابع ہوں”- Ibid,b,13.ch.6AK 198.6

    احتجاج کرنے والوں نے مزید با ضابطہ اعلان کیا کہ انھیں اپنے ایمان کے اظہار کا حق حاصل ہے- ہم خدا کے کلام کو جو وہ ہمیں سکھاتا ہے نہ صرف اسے آپ مانیں گے بلکہ اسے دوسروں کو بھی سکھائیں گے اور اس امر میں وہ پریسٹ یا مچسٹریٹ کی مداخلت کو نہ منظور کرتے ہیں- سپائرز کا احتجاج مذہبی تشدد کے خلاف ایک سنجیدہ گواہی تھی اور جس میں ہر شخص کو ضمیر کے مطابق خداوند کی عبادت کرنے کا حق حاصل تھا-AK 199.1

    حتمی بیان تیار ہو گیا- یہ ہزاروں ذہنوں میں نقش ہو گیا اور آسمانی کتابوں میں درج ہوا جہاں اسے کوئی انسان مٹا نہیں سکتا تھا- یمام ایونجلیکل جرمنی نے اسے اپنے ایمان کے اظہار کے طور پر قبول کر لیا- ہر جگہ اس اعلامیہ کو اس زمانہ کے لئے بہتر اور نئے وعدہ کے طور پر دیکھا گیا- ایک شہزادہ نے سپائرز کے احتجاج کرنے والوں کو کہا-“کاش خداوند قادر مطلق خدا جس نے آپ کو بڑی قوت اور جوش وخروش، بے باکی سے، اس کا اقرار کرنے کے لئے فضل عطا کیا ہے- آپ کو ابدیت تک مسیح یسوع میں ثابت قدم رکھے”- Ibid,b.13.ch.6AK 199.2

    اگر کامیابی حاصل کرنے کے بعد ریفریمیشن دنیا کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ابن الوقت (موقع پرست) بن جاتی- تو یہ نہ تو خدا سے وفاداری ہوتی اور نہ ہی خود سے اور یوں خود اپنی تباہی کا سامان مہیا کرتی- ان شریف وںجیب اصلاح کاروں کا تجربہ آنے والی نسلوں کے لئے سبق آموز ہے- خدا اور اس کے کلام کے خلاف ابلیس کے کام کرنے کا طریقہ کار تبدیل نہیں ہوا- وہ آج بھی پاک نوشتوں کی جو زندگی کے رہبر ہیں اسی طرح مخالفت کرتا ہے جیسے وہ سولھویں صدی میں کرتا تھا- آج بھی ہمارے زمانے میں کتاب مقدس کی تعلیمات اور قوانین سے بہت دوری پائی جاتی ہے- اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم عظیم پروٹسٹنٹ اصول کی طرف لوٹ جائیں- اور وہ اصول ہے- بائبل اور صرف بائبل ہی ایمان اور فرض کا پیمانہ ہے- ابلیس ابھی بھی ریلیجیس لبرٹی کو برباد کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے- مخالف مسیحی قوت جسے احتجاج کنندہ نے سپائرز میں رد کر دیا تھا، نئے جوش وجذبہ کے ساتھ دوبارہ اسی فضیلت کو قائم کرنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہے- قدیم ریفریمیشن کے بحران کے وقت خدا کے پاک کلام کو آشکارا کرنے کے لئے جس غیر متزلزل استقامت کا مظاہرہ کیا گیا- موجودہ زمانہ میں اصلاح کی بھی وہی واحد امید ہے-AK 199.3

    پروٹسٹنٹ کے سامنے خطرات نمودار تھے- مگر یہ آثار بھی ہویدہ تھے کہ ایمانداروں کی حفاظت کے لئے الہی ہاتھ موجود ہے- یہی وہ وقت تھا جب “میلانچ تھان بڑی سرعت سے سپائرز کی گلیوں میں سے ہوتا ہوا رائن (Rhine) کی طرف اپنے دوست سائمن گرائی نائیس (Gryneus) کے پاس پہنچا اور اسے مجبور کیا کہ وہ دریا پار کرے- ایسی جلد بازی پر سب کو حیرانی ہوئی- میلآنچ تھان نے کہا “ایک حلیم اور پروقار بزرگ مجھے ملا ہے جسے میں نہیں جانتا اس نے مجھ سے کہا کہ فرڈیننڈ چند منٹوں تک سائمن گرائی نائیس کو گرفتار کرنے کے لئے آفیسرز آف جسٹس کو بھیج رہا ہے”-AK 200.1

    دن کے وقت Gryneus کو ایک معروف ڈاکٹر کے ذریعہ رسوا کرنے کی چالیں چلی گئیں- اور آخر میں اس کے خلاف بعض قابل نفرت تعلیمات کا دفاع کرنے کے لئے احتجاج کیا- اس فریبی شخص نے اپنے غصے سکو چھپائے رکھا اور اس کے فورا بعد اس بادشاہ سے مشورہ کر کے ہیڈل برگ کے اس اڑیل پروفیسر کے خلاف آرڈر حاصل کر لئے- میلانچ تھان کو یہ بالکل شک نہیں کہ خداوند خدا نے اس کے دوست کو بچانے کے لئے اپنے ایک فرشتہ کو آگاہ کرنے کے لئے بھیجا تھا-AK 200.2

    میلانچ تھان بےحس وحرکت رائن دریا کے کنارے کھڑا رہا- اور اس وقت کا انتظار کے عجب تک Gryneus لو ندی کے پانی نے دشمنوں کے ہاتھ سے بچا نہ لیا- آخر میں میلانچ تھان اپنے دوست کو دوسرے کنارے پر دیکھ کر چلایا کہ “بالاخر وہ ان کے جبڑوں سے چھڑا لیا گیا جو اس معصوم کے خون کے پیاسے تھے- جب میلانچ تھان گھر پہنچا تو اسے بتایا گیا کہ Gryneus کو ڈھونڈنے میں آفیسرز نے ہر شے تہہ وبالا کر دی تھی- Ibid,b.13.ch.6AK 200.3

    زمین کے ارباب اختیار کے سامنے ریفریمیشن کو بڑی امتیازی حیثیت حاصل ہو گئی- ایونجلیکل شہزادوں کی بادشاہ فرڈیننڈ نے سننے سے انکار کر دیا- مگر انھیں یہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ اپنے مقصد کو فرمانروا، اور کلیسیا اور ریاست کے معززین کے سامنے پیش کر سکتے ہیں- اس تفرقہ بازی کو خاموش کرنے کے لئے جس نے ریاست میں ہلچل مچا دی تھی، چارلس پنجم نے سپائرز کے احتجاج کے بعد ڈائٹ کو اگس برگ میں کال کر لیا- جہاں اس نے خود حاضر ہو کر اپنے ارادہ کا اظہار کرنے کا عندیہ دے دیا- اس میں پروٹسٹنٹس رہنماؤں کو بھی بلا لیا گیا-AK 200.4

    بہت سے خطرات ریفریمیشن کے سر پر منڈلا رہے تھے- مگر اسکی وکالت کرنے والے اپنے مقصد میں توکل رکھتے تھے کیونکہ وہ خدا کی طرف سے تھا- اور انہوں نے عہد کیا کہ وہ انجیل کے بارے ثابت قدم رہیں گے- سیکسونی کے الیکٹور کو اس کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ وہ ڈائٹ نہ جائے- انہوں نے کہا کہ شہزادوں کی موجودگی اس لئے ہے کہ انھیں جال میں پھنسا لیا جائے- “کیا یہ ہر طرح سے خطرہ نہیں ہے کہ کوئی خود ایک طاقتور دشمنوں اور شہر کی دیواروں میں جا کر محصور ہو جائے”- مگر دوسروں نے بڑی جواں مردی سے کہا “شہزادوں کو ہمت سے کام لینا چاہیے کیونکہ خدا کا مشن محفوظ رہے گا لوتھر نے کہا “خداوند بھلا اور وفادار ہے وہ ہمیں ترک نہیں کرے گا”- Ibid,b.14.ch.2sAK 201.1

    ایلکٹور اپنے جلو (Retinue) کے ساتھ آگس برگ کی طرف چل پڑا- سب ان خطرات سے وقف تھے جو انھیں درپیش تھے- اور بہتیرے تھے جو ٹوٹے اور افسردہ دل کے ساتھ آگے بڑھے- مگر لوتھر جو ان کے ساتھ برگ (Coburg) تک گیا اس نے سفر کے دوران یہ گیت لکھا اور انکے لئے گایا “خداوند ہمارا محکم قلعہ ہے” اس گیت نے بہتوں کے ڈوبتے ہوۓ ایمان کو اچھالا- بہتوں کے اندیشے دور ہو گئے، بہت سے بھاری دل اس متحرک کرنے والے مزمور سے ہلکے ہو گئے- AK 201.2

    اصلاح شدہ شہزادوں نے پکا ارادہ کر لیا کہ ان کے جو نظریات ہیں انہیں سلسلہ وار کلام مقدس کی روشنی اور ثبوتوں کے ساتھ ڈائٹ کے سامنے پیش کیا جائے گا- اور اسے تیار کرنے کی ذمہ داری لوتھر، ملانچ تھان اور ان کے معاونین کو سونپی گئی- یہ اعتراف پروٹسٹنٹس نے اپنے ایمان کے اظہار کے طور پر قبول کیا اور وہ سب اس اہم دستاویز پر دستخط کرنے کے لئے جمع ہوۓ- یہ بہت ہی سنجیدہ اور آزمائش کا وقت تھا- ریفارمرز نے التماس کی کہ ان کا مقصد سیاسی سوالات کی بھینٹ نہیں چڑھنا چاہیے- انہوں نے کہا کہ خدا کے کلام سے بڑھ کر اس پر کسی دوسری شے کو اثر انداز نہیں ہونا چاہیے- جب اس اعتراف پر دستخط کرنے کے لئے مسیحی شہزادے آگے بڑھے تو ملانچ تھان نے انھیں یوں کہہ کر روکا کہ “یہ علم الہیات کے ماہرین اور منسٹرز نے تجویز پیش کی ہے- اس دنیا کا اختیار رکھنے والوں کو کسی اور موقع پر زحمت دیں گے- مگر جان آف سیکسونی نے کہا کہ خدا نہ کرے کہ آپ مجھے اس سے باز رکھیں- جو کچھ راست ہے میں اسے انجام دینے پر کمر بستہ ہوں- ایسے میں مجھے اپنے تاج کی بھی پرواہ نہیں- میں خداوند کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں- میرا ایلکٹورل تاج مجھے مسیح یسوع کی صلیب سے زیادہ عزیز اور قیمتی نہیں یہ کہہ کر اس نے دستخط کر دیئے- ایک اور شہزادے نے قلم (pen) پکڑتے ہوۓ کہا “اگر میرے آقا مسیح یسوع کی عزت وابرو یہی تقاضا کرتی ہے کہ میں اپنا مال ودولت اور زندگی اس کے لئے نچھاور کر دوں تو یہ سب کچھ اس کے لئے حاضر ہے- میں اس دستاویز میں درج تعلیم کے علاوہ کوئی اور تعلیم قبول کرنے کی بجائے، اپنے جدامجد کی دھرتی کو ترک کر دوں گا”- Ibid,b.14.ch.6 AK 201.3

    خدا کے ان مردوں کا کیسے ایمان اور کیسی دلیری تھی- واہ!AK 202.1

    فرمانروا کے سامنے حاضر ہونے کا مقررہ وقت آ پہنچا- چارلس پنجم اپنے تخت پر براجمان ہوا- شہزادے اور ایلکٹورز اس کے گرد جمع تھے- یہی پروٹسٹنٹ اصلاح کاروں کے سامعین تھے- ان کے ایمان کا عتراف پڑھا گیا- آگسٹ کی اس اسمبلی میں انجیل کی صداقتیں بڑی وضاحت کے ساتھ پیش کی گئیں- اور پوپ کی کلیسیا کی غلط تعلیمات کی بھرپور نشاندہی کی گئی- اس دن کو نہ صرف مبارک دن کہا گیا بلکہ “ریفریمیشن کا عظیم دن اور بنی نوع انسان اور مسیحی تاریخ کا نہایت ہی جلالی دن”- Ibid,b.14.ch.7AK 202.2

    گزرے چند سال پہلے وٹن برگ کا مانک (monk) ورمز کی قومی کونسل کے سامنے تنہا کھڑا تھا- لیکن اب اس کی بجائے سلطنت کے عالی منصب شہزادے کھڑے تھے- لوتھر کی آگس برگ میں حاضر ہونے کی ممانعت تھی، مگر وہ اپنی تعلیم اور اپنی دعاؤں کے ذریعہ وہاں حاضر تھا- “اس نے لکھا کہ مجھے انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ میں اس وقت تک زندہ رہا جس میں مسیح یسوع کو ان مثالی مردوں کے اعتراف کے ذریعہ عالی مرتبہ اسمبلی میں جلال ملا- Ibid,b.14.ch.7AK 202.3

    اور جو کلام مقدس میں لکھا ہے وہ پورا ہوا- “میں بادشاہوں کے سامنے تیری شہادتوں کا بیان کروں گا- اور شرمندہ نہ ہوں گا”- زبور 46:119AK 202.4

    پولس رسول کو جس انجیل کی وجہ سے جیل میں ڈالا گیا، اس انجیل کی وجہ سے شہزادوں اور شرفا کو امپیریل سٹی میں لایا گیا- چنانچہ اس موقع پر، جبکہ فرمانروا نے پلپٹ سے واعظ منع کر رکھا تھا- اس کی منادی محل (Palace) سے بہتر ہوئی- اور بہتیرے تھے جنہوں نے کہا کہ یہ غلط ہوا ہے کہ جسے نوکروں، اور سلطنت کے ماسٹرز اور لارڈ نے بڑی حیرت سے سنا- بادشاہ اور درباری سامعین تھے- وہ تاجدار شہزادے واعظین اور واعظ خود خدا کی شاہی صداقت پر تھا- مصنف کا کہنا ہے کہ “رسولوں کے زمانہ سے اس دن تک اتنا عظیم کام نہیں ہوا تھا- اور نہ ہی اتنا شاندار اعتراف”- D’Aubigne,B. 14.ch.7AK 202.5

    پوپ کے ایک بشپ نے اقرار کیا کہ ” جو کچھ لوتھر نے کہا ہے وہ سچ ہے” ہم اس کا انکار نہیں کر سکتے- ایک اور Dro Eck نے کہا کہ “کیا آپ اس اعتراف سکو معقول دلائل کے ذریعہ جھٹلا سکتے ہیں جو آیلکٹور اور حمائتیوں نے کیا ہے؟” “رسولوں اور نبیوں کے کلام کے لحاظ سے اور جس کا جواب تھا “نہیں” “لیکن فادرز اور کونسلز کے لحاظ سے وہ ہاں تھا “میں سمجھتا ہوں” ---- سوال کرنے والے نے کہا---- “آپ کے مطابق لوتھرن پاک نوشتوں کے اندر ہیں اور ہم ان کے باہر ہیں”- Ibid,b. 14.ch.8AK 203.1

    جرمنی کے کچھ شہزادوں نے اصلاح شدہ ایمان کو قبول کر لیا- فرمانروا نے خود اقرار کیا کہ پروٹسٹنٹ کا مضموں صداقت پر مبنی ہے- یہ اعتراف کئی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور سارے یورپ میں تقسیم کیا گیا- اور اسے اپنے ایمان کے اظہار کے طور پر کروڑ ہا کروڑ لوگوں نے قبول کیا- خدا کے وفادار خادم اکیلے ہی مشقت نہیں کر رہے تھے- جب ریاستیں، حکومت اور اختیار والے اور اونچے مقاموں میں رہنے والی بدروحیں ان کے خلاف جمع ہوئیں تو اس وقت خداوند نے اپنے وفادار خادموں کو ترک نہ کیا- اگر ان کی آنکھیں کھودی جاتیں تو وہ اس الہی موجودگی کو دیکھ لیتے جو الیشعنبی کو بھی حاصل ہوئی تھی- جس وقت الیشع کے خادم نے اس کی توجہ اس غنیم کی فوجوں کی طرف مبذول کروائی جو انھیں محاصرے میں لئے ہوۓ تھیں اور جس نے ان کے بچ نکلنے کی تمام راہیں روک رکھی تھیں- نبی نے یوں دعا کی- “اے خداوند اس کی آنکھیں کھول دے تاکہ وہ دیکھ سکے” 2سلاطین 17:6AK 203.2

    اس نے جو نگاہ کی تو دیکھا الیشع کے گرداگرد کا پہاڑ آتشی گھوڑوں اور رتھوں سے بھرا ہے- اسی طرح خدا کے فرشتوں نے ان ریفریمیشن کے کار گزاروں کو بھی پناہ دی-AK 203.3

    ایک اصول جسے لوتھر نے بڑی ثابت قدمی سے قائم رکھا کہ ریفریمیشن کے لئے کوئی سیکولر حمایت نہ لی جائے- اور اس کے دفاع کے لئے اسلحہ وغیرہ کے لئے اپیل نہ کی جائے- اسے بڑی خوشی ہوئی کہ حکومت کے شہزادوں نے انجیل کو قبول کیا ہے- مگر اس نے کہا کہ انجیل کی تعلیم کا دفاع صرف خداوند خدا ہی کرے- اس میں جس قدر کم انسانوں کا عمل دخل ہو گا اتنا ہی زیادہ اس کے حق میں خداوند خدا کی مداخلت ہو گی- سیاسی احتیاتی اقدام کے طور پر جتنے بھی مشورے پیش کئے گئے ان کے بارے میں اس کا نظریہ یہ تھا کہ یہ غیر ضروری خوف اور بے اعتباری کے گناہ کی بدولت ہے- D’Aubigne,London,ed.B.10ch.14AK 203.4

    جب زبردست دشمن اصلاح شدہ ایمان کو ختم کرنے کے لئے متحد ہو رہے تھے اور اس کے خلاف ہزاروں تلواریں میان میں سے باہر آتی دکھائی دے رہی تھی- لوتھر نے لکھا “ابلیس اپنا غضب اگل رہا ہے- اور بے دین پوپ کی فوجیں اس سازش میں شامل ہیں- اور ہمیں جنگ کی دھمکیاں مل رہی ہیں- لوگوں کو نصیحت کریں کہ دعا اور ایمان کے ذریعہ خدا کے تخت کے سامنے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑی بہادری سے مقابلہ کریں- تاکہ ہمارے دشمن خدائی کی روح سے معدوم، اور صلح کے لئے مجبور ہو جائیں- دعا ہماری سب سے بڑی ضرورت اور خدمت ہے- لوگوں سکو بتائیں کہ وہ تلوار کی دھار اور ابلیس کے غضب تلے ہیں- انھیں دعا کی لئے ابھاریں”- D,Aubigne,B.10.ch.14AK 204.1

    بعد میں کسی اور تاریخ پر مصلح شہزادوں کی لیگ میں لوتھر نے اعلان کیا جو ہتھیار اس جنگ میں استعمال کیا جائے وہ صرف “روح کی تلوار” ہونی چاہیے- اس نے سیکسونی کے الیکٹور کو لکھا کہ جس اتحاد کا ذکر کیا گیا ہے ہمارا ضمیر اسے قبول نہیں کرتا، اگر انجیل کے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک قطرہ خون کا بہہ جائے تو بہتر ہے کہ ہم خود اس کے لئے دس بار ہلاک ہوں- ہمارا حصہ تو ذبح ہونے والے برہ کا ہے- مسیح کی صلیب اٹھانا ہو گی- جہاں پناہ آپ بالکل بیدل نہ ہوں- ہم اپنے تمام دشمنوں کی لاف زینوں کا مقابلہ دعاؤں سے کر سکتے ہیں- آپ کے ہاتھ اپنے بھائیوں کے خون سے نہ رنگے جائیں- اگر فرمانروا ہمیں ٹربیونل کے سامنے حاضر ہونے کے لئے کہے گا تو ہم پیش ہونے کے لئے تیار ہیں- آپ ہمارے ایمان کا دفاع نہیں کر سکتے، ہر ایک کو خطرہ مول لے کر ایمان کا اظہار کرنا ہی ہو گا- Ibid,b.14.ch.1AK 204.2

    دعا کے ذریعے غیبی جگہ سے قوت آئی جس نے دنیا کو عظیم ریفریمیشن کے لئے ہلا کر رکھ دیا- ایک مقدس سے سکوں کے ساتھ خداوند کے خدام نے اپنے پاؤں وعدوں کی چٹان پر رکھ دیئے- آگس برگ کی جدوجہد کے دوران لوتھر نے “کوئی ایسا دن نہ جانے دیا جس میں اس نے کم ازکم تین گھنٹے دعا میں نہ گزارے ہوں- اور یہ تین گھنٹے وہ اسکی سٹڈی میں سے تھے”- اپنی کوٹھڑی کی تنہائی میں اسے سنا گیا کہ وہ اپنی روح بلند آواز میں خدا کے سامنے انڈیل دیتا تھا- پرستش، سے بھرپور (الہی خوف اور امید سے) وہ ایسے کلام کرتا جیسے کوئی ایک دوست دوسرے دوست کے ساتھ کیا کرتا ہے-AK 204.3

    “میں جانتا ہوں کہ تو ہمارا باپ اور ہمارا خداوند ہے- اور یہ بھی کہ تو اپنے بچوں کے دشمنوں کو تتربتر کر دے گا- کیونکہ ہمارے ساتھ تو بھی خطرے میں ہے- یہ سارا معاملہ تیرا ہے اور تو ہی نے ہمیں اس میں اپنے ہاتھ ڈالنے کے لئے مجبور کیا ہے- تو پھر تو خداوند خدا ہمارا خود دفاع کر”- Ibid, b.14.ch.6AK 204.4

    میلانچ تھان جو خوف وہراس اور فکروتشویش کے بوجھ تلے کچلا گیا تھا اسے لوتھر نے لکھا “فضل اور سلامتی مسیح یسوع میں تجھے حاصل ہو، مسیح یسوع میں نہ کہ دنیا میں- آمین- میں ینن بڑھی ہوئی فکروں کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں جنہوں نے تجھے جلا دیا ہے- اگر مقصد بےانصافی پر مبنی ہے تو اسے ترک کر دو- لیکن اگر مبنی بر انصاف ہے تو پھر ہم اس کے وعدوں کو کیوں جھٹلائیں جس نے حکم دیا کہ فکروں کو خاطر میں نہ لاؤ- صداقت اور انصاف کے کام میں مسیح یسوع کمی نہیں چاہتا- وہ زندہ ہے وہ حکومت کرتا ہے پھر ہمیں کس چیز کا خوف ہے- Ibid,b.14.ch.6AK 205.1

    خداوند نے اپنے خادموں کی پکاروں کو سنا لیا- اس نے شہزادوں اور منسٹرز کو فضل اور ہمت بخشی ہے تاکہ وہ اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں کے خلاف صداقت کو قائم رکھیں- خداوند خدا فرماتا ہے “دیکھو میں صیون میں کونے کے سرے کا چنا ہوا اور قیمتی پتھر رکھتا ہوں- جو اس پر ایمان لائے گا ہرگز شرمندہ نہ ہو گا- 1پطرس 6:2 ان پروٹسٹنٹ اصلاح کاروں نے خود کو مسیح یسوع پر تعمیر تھا اور اس لئے عالم ارواح کے دروازے ان پر غالب نہ آ سکتے تھے-AK 205.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents