Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲۴ - کُرنتھُس

    اعمال ۱:۱۸-۱۸

    مسیحی دَور کی پہلی صدی میں کُرنتھس شہر، یونان میں ہی نہیں بلکہ دُنیا بھر میں سر فہرست تھا۔ یہودی اور رومی، قافلوں کی صُورت میں دیس دیس سے سوداگری کے لئے آتے اور گلیوں بازاروں میں اُن کی وجہ سے ریل پیل رہتی۔ یہ بہت ہی بڑا تجارتی مرکز تھا اور ایسی جگہ واقع تھا جہاں سے رومی سلطنت کے تما م علاقوں سے تاجربہ آسانی یہاں آ جا سکتے تھے۔ چونکہ یہ نہایت ہی اہم مقام تھا اس لئے یہاں خُدا اور اس کی صداقت کا جھنڈا گاڑھا جانا چاہئے تھا۔ IKDS 228.1

    کُر نتھس میں دوسرے یہودیوں کے ساتھ اکولہ اور پرسکلہ (میاں بیوی) بھی رہتے تھے جو بعد میں مسیح یسُوع کے لئے نامی کار گزار ثابت ہوئے۔ ان کے نیک چال چلن کو دیکھ کر پالُس اُن کے ساتھ رہا”۔ IKDS 228.2

    اپنی خدمت کے آغاز میں ہی آمدورفت کی اس گنجان جگہ پر رسُول نے اپنے کام کی راہ میں پائی جاے والی رکاوٹوں کو بھانپ لیا۔ تقریباً سارے کا سارا شہر بُت پرستی کا گھر بنا ہوا تھا۔ زہرہ اُن کی دلپسند دیوی تھی۔ جس کی پرستش کے ساتھ بہت سی اخلاق سے گری ہوئی رسُوم مربوط تھیں۔ یہاں کے باسی اپنی بدکاریوں اور سیاہ کاریوں کی وجہ سے کُر نتھس کے رہنے والے بُت پرستوں سے بھی بدتر تھے۔ وہ عیش و نشاط ، لہو و طرب اور لہو و لعب کے سوا دوسری باتوں میں بہت ہی کم دھیان دیتے تھے۔ IKDS 228.3

    پولُس رسُول نے اتھینے میں جس طریقہ سے انجیل کی منادی کی تھی، کُر نتھس میں آ کر اُس طریقہء تعلیم کو تبدیل کر لیا۔ اتھینے میں تو اس نے دلیل کا جواب دلیل سے، فلسفے کا جواب فلسفے، اور سائنس کا جواب سائنس کی رُو سے دیا تھا۔ اور جب اُس نے اپنے مجوزہ طریقہ ء کار پر نظرثانی کی تو اس نتیجہ پر پہنچا کہ اُس کا چنداں پھل نہ ملا، چنانچہ اُس نے کُرنتھس میں اُس سے فرق طریقہ استعمال کرنے کا سوچا تاکہ کُرنتھس کے بے پرواہ اور نیکی بدی میں تمیز نہ کرنے والوں کی توجہ اپنی طرف کھینچے۔ چنانچہ وہاں اُس نے مباحثہ نہ کرنے کا تہیہ کر لیا۔ “کیوں کہ میں یہ ارادہ کر لیا تھا کہ تمہارے درمیان یسوع مسیح بلکہ مصلوب کے سوا اور کچھ نہ جانوں گا۔ اور میری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لُبھانے والی باتیں نہ تھیں بلکہ وہ رُوح اور قُدرت سے ثابت ہوتی تھیں”۔ ۱-کرنتھیوں ۲:۲-۴IKDS 229.1

    کُرنتھس میں پولُس یونانیوں کے سامنے جسے بطور مسیحا پیش کرنے کو تھا وہ ایک یہودی فروتر قوم سے تعلق رکھتا تھا اور اُس کی پرورش ایسے قصبے میں ہوئی جسکی شُہرت اچھی نہ تھی۔ اسے اس کی اپنی قوم نے رد کر دیا تھا اور بالآخر اپسے مُجرم کے طور پر پھانسی چڑھایا تھا۔ یونانیوں کا ایمان تھا کہ نسل انسانی کو بلند تر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور وہ سمجھتے تھے کہ حقیقی سرفرازی حاصل کرنے کا ذریعہ فلسفہ اور سائنس ہی ہے۔ کیا انہیں کوءی یہ ترغیب دے سکتا تھا کہ اس گمنام شخص میں ایمان رکھنے کی قوت اور قدرت سے ہی انسانی نسل کی سرفرازی ممکن ہے؟IKDS 229.2

    لوگوں کے ذہنوں میں آج کلوری کی صلیب مقدس یادوں کے ساتھ جاگزیں ہے۔ اور مسیح کی صلیبی موت کے مناظر کے ساتھ مقدس ایسوسی ایشنز وابستہ ہیں۔ لیکن پولُس کے وقتوں میں صلیب خوف اور کراہیت کا نشان تھا۔ مسیح یسُوع کو جس نے صلیب پر جان دی اسے آل آدم کے منجی کے طور پیش کرنا، مخالفت اور تمسخر کو دعوت دینا تھا۔ IKDS 229.3

    پولُس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ کُرنتھس کے یہودی اور یونانی اس کے پیغام کے ساتھ کیسا برتاو کریں گے “مگر ہم اس مسیح مصلوب کی منادی کرتے ہیں جو یہودیوں کے نزدیک ٹھوکر اور غیر قوموں کے نزدیک بیوقوفی ہے” اکر نتھیوں ۲۳:۱ رسُول کے یہودی سامعین میں بہتیرے ایسے لوگ تھے جو اس پیغام سے برہم ہو سکتے تھے جو وہ پیش کرنے کو تھا جبکہ یونانیوں کے نزدیک اس کا کلام بے وقوفی کے مترادف تھا۔ اور جب وہ صلیب کے پیغام کو انسانی معراج اور نجات کے ساتھ منسلک کرتا تو یقیناً یہودی اور یونانی اُسے احمق سمجھتے۔ IKDS 230.1

    تاہم پولُس کے نزدیک صلیب ہی ہر چیز پر سبقت رکھتی تھی۔ جب سے یسُوع ناصری نے اُسے مسیحیوں کے خلاف ظلم کرنے سے روک دیا تھا اُس وقت سے اُس نے صلیب کو جلال دینے میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ جب مسیح یسوع پکڑا گیا تو مسیح یسوع کی صلیبی موت میں خُدا وند کی عظیم محبت پائی جاتی تھی جس اُسے مکاشفہ عنائت ہوا۔ اسی لئے اُس کی زندگی میں بڑی ہی نمایاں تبدیلی واقع ہوئی۔ چنانچہ اُس وقت سے اُس کا ہر مقصد ہر تجویز خُداوند کی مرضی کے ہم آہنگ رہی، اُسی وقت وے وہ مسیح میں نیا انسان بن گیا۔ چنانچہ وہ اپنے ذاتی تجربہ سے جانتا تھا کہ جب گنہگار ایک بار خُدا کی محبت کو اُس کے بیٹے کے فدیہ میں دیکھ لیتا اور ایمان لے آتا ہے تو اس کا دل یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ ازاں بعد یسوع ہی اس کے لئے سب کچھ ہوتا ہے۔ IKDS 230.2

    اپنی تبدیلی کے وقت پولُس رسُول میں یہ تحریک پیدا ہوئی تھی کہ یسوع ناصری کو زندہ خُدا کے بیٹے کے طور پر ہر کس وناکس کے سامنے پیش کرے گا جو انہیں تبدیل کرنے اور بچانے کی قدرت رکھتا ہے۔ چنانچہ اُسی وقت سے اُس نے اپنی زندگی مسیح مصلُوب کی محبت اور قُدرت بیان کرنے میں وقف کر دی۔ چنانچہ اُس نے زندگی کے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں تک مسیح مصلُوب کی محبت اور قُدرت کو پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ “میں یونانیوں اور غیر یونانیوں۔ داناوں اور نادانوں کا قرضدار ہوں” رومیوں ۱۴:۱۔ اُس کے دل میں اُس خُدا خُدا کو جلال دینے کی محبت نے جڑ پکڑی جس کےمقدسین کو اُس نے بڑی بیدردی سے ستایا تھا۔ IKDS 230.3

    رسُول کو کرُنتھس کی ہیکل میں منادی کرتے ہوئے دیکھئے جو موسیٰ اور نبیوں کے صحائف سے دلائل دیتا ہے، اور اپنے سامعین کو مسیح موعود کی آمد تک لاتا ہے۔ سنیئے جب وہ نجات دہندہ کی خدمت کو بڑی صفائی سے بیان کرتے ہوئے اُسے بنی نوع انسان کا سردار کاہن ثابت کرتا ہے۔ جس نے اپنی ہی جان کی قربانی دے کر تمام نسل انسانی کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کفارہ دے دیا۔ اور اس کے بعد وہ مسیح مصلوب کی آسمانی خدمت کا بیان کرتا ہے۔ پولُس رسُول نے اپنے سامعین کو قائل کیا کہ جس مسیح موعود کی انہیں انتظار تھی وہ تو آ چکا اور اس کی موت نے تمام رسمی قربانیوں کے سلسلہ کو تمام کر دیا۔ اور اس کی آسمانی ہیکل میں خدمت کے بارے دلیلیں دے دے کر سمجھایا کہ زمینی ہیکل کی خدمت آسمانی ہیکل کی خدمت کا پرتو (عکس تھی) اور زمینی ہیکل کی رسمی قربانیاں (بھیڑوں — مینڈوں) اسکی صلیب پر عظیم قربانی کی مثیل تھی۔ IKDS 231.1

    پولُس نے “یہودیوں کی گواہی دی کہ یسُوع ہی مسیح تھا۔ اُس نے عہد عتیق کی پیشنگوئیوں اور یہودیوں کی عالمگیر توقع کے مطابق بتایا کہ اُسے ابرہام ور داود کی نسل سے آنا تھا۔ پھر ابرہام اور زبور نویس کی شاہی نسل کی نشاندہی کی۔ اُس نےمسیح موعود کی خدمت اور اُس کی سیرت اس کے اوصاف اُس کی موت کے بارے میں نبیوں کی شہادت پیش کی۔ یہ بھی کہ اس دھرتی پر اُس کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جائے گا۔ پھر پولُس نے دکھایا کہ کتاب مقدس کے مطابق یہ تمام پیشنگوئیاں اُس کی زندگی، خدمت اور صلیبی موت کی صُورت میں پُوری ہو چکی ہیں۔ IKDS 231.2

    پولُس نے اُنہیں بتایا کہ مسیح یسوع پہلے اُس قوم کو جو اپنی قومی حیات کی شان و شوکت کے لئے مسیح موعود کی راہ تکتی تھی نجات دینے کے لیے آیا۔ لیکن اُس قوم نے اُسے رد کر دیا جو اُسے IKDS 232.1

    زندگی بخش سکتا تھا۔ اور اُس قوم نے دُوسرا حاوی چُن لیا جس کی حکومت اُسکے مرنے کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو گئی۔ اُس نے اپنے سامعین کو مزید بتایا کہ اب صرف توبہ ہی اُنہیں آنے والی تباہی سے محفوظ رکھ سکتی ہے اور اُس نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ جن صحائف کے بارے وہ سوچتے تھے کہ اُن کی تفسیر و تاویل خُوب جانتے ہیں اُن سے وہ بالکل بے بہرہ ہیں۔ اُس نے اُنہیں مادہ پرستی، منصب ، خطاب، نمودونمائش اور خود غرضی پر جھڑکا۔ IKDS 232.2

    رُوح کی قوت میں پولُس رسُول نے اپنی تبدیلی کی مُعجزانہ کہانی اور عہدِ عتیق کے صحائف میں اعتقاد جو یسوع ناصری کی زندگی میں پایہء تکمیل کو پہنچا بڑی خوبی سے بیان کیا۔ اُس کا کلام خلوص نیتی، لگن اور اتنی ایمانداری سے سامعین کے کانوں تک پہنچا کہ وہ یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ مسیح مصلوب جو مردوں میں سے جی اُٹھا پولُس اپسے اپنے پُورے دل سے پیار کرتا ہے۔ اُنہوں نے پہچانا کہ اُس کی سوچ کا مرکز ہی مسیح یسُوع ہے اور اُس کی اپنی زندگی آقا کے ساتھ پیوست (ننھی) ہو چُکی ہے۔ اُس کا کلام اس قدر موثر تھا کہ صرف وہی جو مسیحی مذہب کے خلاف نفرت سے بھرےپڑے تھے اُن کے علاوہ باقی سبھی متاثر ہوئے۔ IKDS 232.3

    پولُس نے جو شہادتیں بڑی وضاحت اور صفائی سے پیش کیں کُر نتھس کے یہودیوں نے اُن کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اُس کی التماس کو ٹھکرا دیا۔ وہی رویہ جس نے اُنہیں مسیح کو ٹھکرانے کے لئے اُبھار اُسی نے اُنہیں اُسکے خادم کے خلاف غُصے سے بھر دیا۔ اور اگر خالق خُدا وند اُسے غیر قوموں میں پیغام پھیلانے کے لئے اپنی پناہ میں نہ لے لیتا تو ہو اُس کی زندگی تمام کر دیتے۔ IKDS 232.4

    “جب لوگ مخالفت کرنے اور کُفر بکنے لگے تو اُس نے اپنے کپڑے جھاڑ کر اُن سے کہا تُمہارا خون تُمہاری ہی گردن پر۔ میں پاک ہوں ۔ اب سے غیر قوموں کے پاس جاوں گا۔ پس وہاں سے چلا گیا اور ططس یوستس نام ایک خُدا پرست کے گھر گیا جو عبادت خانہ سے ملا ہوا تھا”۔IKDS 232.5

    سیلاس اور تیمتھیس مکُدونیہ سے پولُس کی مدد کے لئے آئے جہاں اُنہوں نے غیر اقوام کے لئے خدمت کی۔ بُت پرستون اور یہودیوں دونوں کے سامنے اُنہوں نے نجات دہندہ کی منادی کی۔ اُنہوں نے مشکل فلسفہ اور معرفت سے گریز کر کے صرف ذات الہٰی کی اُس محبت پر روشنی ڈالی جو وہ بنای عالم سے پیشتر بنی نوع انسان کے ساتھ رکھتا تھا۔ اُنہوں نے بتایا کہ صرف اُسی نے کائنات کو بنایا اور وہی اُس کا حاکم اعلیٰ ہے۔ صلیب کے علمبرداروں کے دل خُدا اور اُس کی محبت سے نور و نور ہو گئے اور اُنہوں نے سامعین سے اپیل کی کہ اُس لامحدود خُدا اور اُس کے لا محدود فدیہ پر غور کریں جو اُس نے اپنے بیٹے کی قربانی دیکر گنہگار نسل انسانی کو بچا لیا ۔ خصوصاً اُنہوں نے بت پرستوں سے اپیل کی کہ اُس قربانی پر غور کریں جو گر ے ہوئے انسان کے حق مین دی گئی۔ رسُول جانتے تھے کہ بُت پرست جو عرصہ سے بت پرستی کے اندھیرے میں ٹکریں مار رہے ہیں اگر وہ اُس روشنی کو دیکھ لیں گے جو کلوری کی صلیب سے پھُوٹ رہی ہے تو وہ نجات دہندہ کی طرف کھینچے چلے آئیں گے۔ کیونکہ مسیح نے فرمایا تھا۔ “میں اگر زمین سے اُونچے پر چڑھایا جاوں گا تو سب کو اپنے پاس کھینچوں گا”۔ (یوحنا ۳۲:۱۲)IKDS 233.1

    انجیل کے علمبرداروں نے اُن لوگوں کی رُوحوں کے بارے ہولناک خطرات کو بھانپ لیا جن کے لئے وہ خدمت کر رہے تھے اور اُنہیں اس کا اندازہ یوں ہوا کیونکہ وہ اُس صداقت اور حق کو بیان کر رہے تھے جو مسیح یسوع میں ہے۔ اُن کا پیغام بڑا واضح اور سادہ اور حتمی تھا کہ موت اور زندگی آپ کے سامنے رکھ دی ہے۔ زندگی کے مالک کو چن کر زندگی کا انتخاب کر لو اُسے رد کر کے موت کو گلے لگا لو۔ اُن کی گفتار میں ہی نہیں بلکہ اُن کے کردار میں بھی انجیل کو ہی سرفرازی حاصل تھی۔ اُن کی چال اُن کی ڈھال اُن کی گفتار اور اُن کے کردار سے انجیل ہی آشکارہ ہوئی تھی۔ فرشتوں کا تعاون اور خُدا وند کا فضل اور قوت اُن کے شامل حال تھی چنانچہ بہت سی رُوحوں نے مسیح کو اپنا نجات دہندہ قبول کر لیا “اور عبادتخانہ کا سردار کرسپُس اپنے تمام گھرانے سمیت خُداوند پر ایمان لایا اور بہت سے کُرنتھی سُن کر ایمان لائے اور بپتسمہ لیا”۔ IKDS 233.2

    پولُس کے خلاف یہودیوں کی نفرت اب بڑی شدت اختیار کر گئی۔ کرسپُس کی تبدیلی اور بپتسمہ کی وجہ سے قائل ہونے کی نسبت اڑیل اور ضدی مخالفین آگ بگولا ہو گئے۔ وہ پولُس کی منادی کے خلاف کوئی معقول دلیل پیش کرنے سے قاصر تھے اس لئے اُنہوں نے اپنی ہی نا لائقی پر پردہ پوشی کرنے کے لئے دھوکے سے اُس پر قاتلانہ حملے کی ٹھان لی۔ اُنہوں نے مسیح اور انجیل کے خلاف کفر بکا۔ غصے سے پاگل ہو کر اُنہوں نے مسیح اور انجیل کے بارے گھٹیا سے گھٹیا زبان استعمال کی۔ وہ اس بات کا انکار نہیں کر سکتے تھے کہ مسیح نے معجزات نہیں کئے تاہم اُنہوں نے کہا کہ یہ ابلیس کی مدد سے معجزات کرتا تھا۔ اور وہ اعلانیہ کہتے کہ جو مُعجزات پولُس سے صادر وہوتے ہیں وہ بھی اسی بعلز بول کی مدد سے ہوتے ہیں جو یسُوع کی مدد کرتا تھا۔ IKDS 234.1

    بے شک کُرنتھس میں پولُس کو کافی کامیابی ہوئی، لیکن جو بدکاری اس نے اس بدکار شہر میں سُنی اور دیکھی اس کی وجہ سے وہ بے دل ہو گیا۔ غیر قوموں میں جو اس نے بد چلنی اور فسق و فجور دیکھا اور جو یہودیوں کے ہاتھوں اُسے رسوائی اٹھانا پڑی اُس نے اُن کی رُوح مجرُوح ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کے خیال میں وہاں ایسے لوگوں پر کلیسیا قائم کرنا قرین قیاس نہ تھا۔ IKDS 234.2

    جب وہ کُرنتھس سے کسی اور شہر میں جانے کے بارے منصوبہ بنا رہا تھا تو خُداوند نے رات کو رویا میں پولُس سے کہا۔۔۔۔”خوف نہ کر بلکہ کہے جا اور چُپ نہ رہ۔ اس لئے کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور کوئی شخص تُجھ پر حملہ کر کے ضرر نہ پہنچا سکے گا۔ کیونکہ اس شہر میں میرے بہت سے لوگ ہیں۔ ” پس وہ ڈیڑھ برس ان میں رہ کر خُدا کا کلام سکھاتا رہا۔ پولُس سمجھ گیا کہ یہ خُدا کا حکم ہے کہ میں اسی شہر میں رہوں اور وہ اُس بیج کو بار ور کرنے کا وعدہ کرتا ہے جو بویا گیا ہے۔ حوصلہ اور ہمت پا کر وہ بڑی ثابت قدمی سے بڑے جوش و خروش کے ساتھ وہاں منادی کرتا رہا۔ IKDS 234.3

    پولُس کی منادی کی کوشش کو صرف پبلک میٹنگز تک ہی محدود نہیں رہنا تھا کیونکہ اس طرح بہتیری اور رُوحوں تک رسائی ممکن نہ تھی۔ اس لئے اس نے گھر گھر جا کر خدمت کی اور یوں وہ اُن خاندانوں کی ضرُورت کو پُورا کرنے کے لئے خود اُن کے ہاں حاضر ہو جاتا۔ بیماروں سے ملاقات کرتا، دکھیوں کو دلاسا دیتا اور کچلے ہووں کو بحال کرتا۔ لہٰذا جو کچھ اس نے کہا اور جو کچھ کیا وہ یسوع نام کو جلال دینے کے لئے کیا۔ “اور میں کمزوری اور خوف اور بہت تھرتھرانے کی حالت میں تُمہارے پاس رہا”۔ ۱۔کرنتھیوں ۳:۲IKDS 235.1

    وہ اس لئے تھر تھرایا مبادا اس کی تعلیم سے ذات الہٰی نہیں بلکہ انانی تاثیر ظاہر ہو۔ IKDS 235.2

    “پھر بھی کاملوں میں ہم حکمت کی باتیں کہتے ہیں” مگر بعد میں پولُس نے یوں فرمایا۔ IKDS 235.3

    “لیکن اس جہاں کی اور اس جہاں کے نیست ہونے والے سردارون کی حکمت نہیں۔ IKDS 235.4

    بلکہ ہم خُدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جو خُدا نے جہاں کے شُروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مُقرر کی تھی۔ جسے اس جہاں کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خُدا وند کو مصلُوب نہ کرتے، بلکہ جیسا لکھا ہے ویسا ہی ہُوا کہ جو چیزیں نہ آنکھوں نے دیکھیں نہ کانوں نے سُنیں نہ آدمی کے دل میں آئیں وہ سب خُدا نے اپنے محبت رکھنے والوں کے لئے تیار کر دیں۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسیلہ سے ظاہر کیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خُدا کی تہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔ کیوں کہ انسانوں میں سے کون کسی انسان کی باتیں جانتا ہے سِوا انسان کی اپنی رُوح کے جو اُس میں ہے؟” اسی طرح خُدا کے رُوح کے سوا کوئی خُدا کی باتیں نہیں جانتا۔ مگر ہم نے نہ دُنیا کی رُوح بلکہ وہ رُوح پایا جو خُدا کی طرف سے ہے تاکہ اُن باتون کو جانیں جو خُدا نے ہمیں عنایت کی ہیں۔ اور ہم ان باتوں کو اُن الفاظ میں نہیں بیان کرتے جو انسانی حکمت نے ہم کو سکھائے ہوں بلکہ اُن الفاظ میں جو رُوح نے سکھائے ہیں اور رُوحانی باتوں باتوں کا رُوحانی باتوں سے مقابلہ کرتے ہیں” ۱- کرنتھیوں ۶:۲-۱۳IKDS 235.5

    پولُس نے یہ محسوس کر رکھا تھا کہ یہ اس کی اپنی سوچ حکمت نہیں بلکہ رُوح القدس کی موجودگی ہے جس نے اس کے دل میں فضل کی تاثیر بھر دی ہے جو ہر خیال اور چیز کو قید کر کے مسیح کے تابع کر دیتی ہے۔ چنانچہ وہ خود فرماتا ہے۔ “ہم ہر وقت اپنے بدن میں یسوع کی موت لئے پھرتے ہیں تاکہ یسوع کی زندگی بھی ہمارے بدن میں ظاہر ہو۔ ” ۲۔ کرنتھیوں ۱۰:۴ پولُس کی زندگی میں یسُوع کو مرکزیت حاصل تھی۔ “میں مسیح کے ساتھ مصلُوب ہوا ہوں اور اب میں زندہ نہ رہا بلکہ مسیح مجھ میں زندہ ہے”۔ گلتیوں ۲۰:۲ IKDS 236.1

    پولُس نہایت ہی اعلیٰ مقرر تھا۔ اپنی تبدیلی سے پیشتر اس نے اکثر اپنے سامعین کو شعلہ بیانی کے زور سے متاثر کیا تھا۔ مگر اب اُس نے ان تمام باتوں کو ترک کر دیا۔ شاعرانہ تخلیات اور دلرُبا تقریروں اور فلسفوں کو جو سُننے والوں کے دل موہ لیتے اور خیالات کو جلا بخشتے ہیں لیکن وہ لوگوں کے دلوں کو مسیح کے قدموں میں لانے کے لئے نہیں چُھو سکتے۔ اُن کی بجائے پولُس نے فیصلہ کیا کہ سادہ اور صریح زبان میں زندگی بخش سچائیاں پیش کی جائیں۔ عالمانہ، خوبصورت اور رنگین زبان میں پیش کردہ سچائیوں پر شائد دل مست ہو کر جُھوم اُٹھے مگر اکثر اس طرح پیش کی گئی سچائیاں وہ حیات بخش غذا مہیا نہیں کر سکتیں جو زندگی کی جنگ میں ایماندار کے لئے مورچہ ثابت ہو۔ جدوجہد کرتی ہوئی رُوحوں کو ان کی موجودہ آزمائشوں کے پیش نظر پختہ اور علمی ہدایات مسیحیت کے بنیادی اصولات کے ساتھ دی جانی چاہئیں۔ IKDS 236.2

    کُرنتھس میں پولُس کی کوششیں بے ثمر نہ رہیں۔ بہت سی قیمتی رُوحوں نے بُتوں کی پرستش سے منہ موڑ لیا اور زندہ خُدا کی عبادت میں مگن ہو گئیں۔ یوں ایمانداروں کی بہت بڑی کلیسیا مسیح کے جھنڈے تلے جمع ہو گئی۔ بہتیری رُوحیں غیر قوموں کے لہو و لعب سے بچ کر خُدا وند کے رحم کی یادگار بن گئیں۔ اُن کے گناہ یسُوع کے خُون سے دُھل گئے۔ پولُس کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے پیش نظر جو اُسے مسیح کو پیش کرنے میں حاصل ہوئی اُس نے بے ایماں یہودیوں کو مخالفت پر اور بھی آمادہ کر دیا۔ IKDS 237.1

    “اور جب گلیواحیہ صوبہ دار تھا یہودی ایکا کر کے پولُس پر چڑھ آئے اور اُسے عدالت میں لے جا کر کہنے لگے کہ یہ شخص لوگوں کو ترغیب دیتا ہے کہ شریعت کے برخلاف خُدا کی پرستش کریں”IKDS 237.2

    یہودی مذہب، رُومی حکومت کی پناہ میں تھا۔ لہٰذا اُنہوں نے سوچا کہ اگر ہم اُس پر اپنے یہودی شریعت کو توڑنے اور اُس کی بے حرمتی کرنے کا الزام لگائیں گے تو رومی حکومت اُسے ہمارے حوالے کر دے گی تاکہ ہم تفتیش کر کے اس پر فرد جُرم عائد کریں۔ یوں وہ اُسے مار دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ مگر گلیو ایک ایماندار شخص تھا اور وہ یہودیوں کے تعصب سے اچھی طرح واقف تھا بدیں وجہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ وہ تفتیش کریں یا پولُس کو سزا کا حکم سنائیں۔ اور جب پولُس نے اپنے دفاع میں بولنا چاہا تو صوبہ دار نے کہا اس کی کوئی ضرُورت نہیں۔ اس کے بعد اس نے یہودیوں سے کہا “اے یہودیو! اگر کچھ ظُلم یا بڑی شرارت کی بات ہوتی تو واجب تھا میں صبر کر کے تُمہاری سُننا۔ لیکن جب یہ ایسے سوال ہیں جو لفظوں اور ناموں اور خاص تمہاری شریعت سے علاقہ رکھتے ہیں تو تُم ہی جانو۔ میں ایسی باتوں کا منصف بننا نہیں چاہتا۔ اور اُس نے اُنہیں عدالت سے نکلوا دیا”۔ IKDS 237.3

    دونوں یہودی اور یونانی گلیو کے فیصلے کی بڑی چاہت سے انتظار کر رہے تھے۔ لیکن اُس کا اس قدر جلد مقدمہ کو خارج کر دینا جو عوام کی دلچسپی کا باعث نہ تھا، اُس سے یہودیوں کو بڑا طیش آیا۔ مگر اس مین یہودیوں کے لئے یہ بھی اشارہ تھا کہ تُم بھی اس مقدمے سے دستبردار ہو جاو۔ صوبے دار کے فیصلے نے غوغائی تکراری (شوروہنگامہ برپا کرنے والی) بھیڑ کی آنکھیں کھول دیں جو یہودیوں کی اعانت کر رہے تھے اور وہ پولُس کی حمایت کرنے پر آمادہ ہو گئے۔ یورپ میں خدمت کے دوران یہ پہلی بار تھی جب صوبہ دار کی موجودگی میں بھیڑ پولُس کی جانب ہو گئی۔ اور ایک یہودی پر تشدد کرنا شُروع کر دیا جو پولُس پر سب سےزیادہ الزام تراشی کرتا تھا۔ “پھر سب لوگوں نے عبادت خانہ کے سردار سو ستھینس کو پکڑ کر عدالت کے سامنے مارا مگر گلیو نے ان باتوں کی کچھ پرواہ نہ کی” یوں مسیحیت کی جیت ہوئی۔ IKDS 238.1

    “پاس پولُس بہت دن وہاں رہا” اگر اس وقت پولُس کُرنتھس سے فوراً نکال دیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ مبتدیوں کے لئے وہاں بڑی مصیبتیں اُٹھ کھڑی ہوتیں، یہودی اس کا فائدہ اُٹھاتے اور مسیحیت کی کُرنتھس سے بیخ کنی کرنے کی پُوری پُوری کوشش کرتے۔ IKDS 238.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents