Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۳۵ - یہودیوں کے لئے نجات

    رومیوں کے نام پولُس رسُول کا خط

    بہت سی ناگزیر تاخیر کے بعد پولُس بالآخر کُرنتھس پہنچ ہی گیا جہاں اس نے ماضی میں بڑے ذوق شوق سے خدمت کی تھی اور اب کچھ دیر سے اسے اس کلیسیا کی فکر دامنگیر تھی۔ اس نے دیکھا کہ ابھی تک یہاں بہت سے لوگ موجود ہیں جو یہ سمجھتے ہوئے اسے پیار کرتے ہیں کہ اس نے سب سے پہلے ہمیں انجیل کی روشنی پہنچائی تھی۔ جیسے ہی وہ بھائیوں سے ملا اور ان کے جوش و خروش کو دیکھا تو اسے اس بات پر بڑی خُوشی ہوئی کہ اس کی محنت یہاں رائیگاں نہ گئی۔ IKDS 349.1

    کُرنتھس کے وہ ایماندار جو کسی وقت پانی مسیحی بلاہٹ سے گمراہ ہوگئے تھے اب انہوں نے مسیحی چال چلن میں بڑی تقویت پانی تھی۔ اُن کے کام اور کلام دونوں خُدا کے فضل کی تبدیل کرنے والی قوت کو ظاہر کرتے تھے اور اب وہ بت پرستی کے گڑھ میں نیکی اور بھلائی کی بڑی قُوت کے طور پر اُبھرے تھے۔ ان وفادار ایمانداروں اور تبدیل شدہ بھائیوں کے درمیان آ کر رسُول کی شکستہ اور بے چین رُوح نے آرام پایا۔ IKDS 349.2

    کُرنتھس میں قیام کے دوران پولُس رسُول نے نئے علاقوں میں کام کھولنے کے بارے سوچا۔ روم کو جاتے ہوئے اس کے ذہن میں یہ خیالات چھائے ہوئے تھے۔ دُنیا کے بڑے بڑے مراکز میں مسیحی ایمان کو بڑھتا پھولتا دیکھنا اس کی دلی تمنا اور اُمید تھی ۔ روم میں پہلے ہی کلیسیا قائم ہو چکی تھی اور وہ ایمانداروں کی مدد سے اٹلی اور دوسرے ممالک میں بھی خُداوند کی کلیسیا کو قائم کرنے کا خواہاں تھا۔ ان بھائیوں میں خدمت کرنے کی راہ تیار کرنے کے لئے اس نے بہت سے ایسے حضرات کو بھی خط بھیجے جو اس کے لئے اجنبی تھے اور ان خطوط میں اس نے بتایا کہ میرا روم میں آنے کا مقصد یہ ہے کہ سپین میں مسیح کی صلیب تلے کلیسیا قائم کی جائے۔ IKDS 349.3

    رومیوں کے خط میں پولُس رسُول نے رومیوں کے سامنے انجیل کے عظیم اصول رکھ دیئے تھے۔ اس نے ان مسائل پر اپنی رائے دی جو یہودی ایمانداروں اور غیر قوم ایماندارون کے درمیان وجہ ء اضطراب بنے ہوئے تھے۔ پولُس نے انہیں اس خط کے ذریعہ دکھایا کہ وہ وعدے جو پہلے خصوصاً یہودیوں کے لئے تھے وہی وعدے غیر قوم والوں کو بھی پیش کئے گئے ہیں۔ IKDS 350.1

    بڑی صفائی اور قُوت کے ساتھ رسُول نے مسیح میں ایمان کے ذریعہ راستباز ٹھہرنے کی تعلیم پر یہ سمجھتے ہوئے سیر حاصل تبصرہ کیا کہ روم میں دوسری کلیسیا ئیں بھی اس خط کے ذریعہ بھیجی کئی ہدایات سے مستفید ہو سکیں گی۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے کلام کی تاثیر روم سے بھی کہیں دُور نکل جائے گی۔ تاہم اس نے اپنے خط کی دُھندلی سی تاثیر ہی دیکھی۔ ایمان سے راستباز ٹھہرنے کی تعلیم کی سچائی ہر زمانہ میں تائب گنہگاروں کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوئی ہے۔ اسی روشنی کی بدولت لُوتھر کے ذہن سے وہ اندھیرے چھٹ گئے جو چھائے ہوئے تھے اور اس پر واضح ہو گیا کہ صرف یسُوع مسیح کے خون کی قُوت اور قُدرت ہی گناہ سے پاک صاف کر سکتی ہے۔ اسی روشنی نے ہزاروں گنہگاروں کی معافی اور اطمینان بخشنے والے سر چشمہ کی جانب رہبری فرمائی ہے۔ رومیوں کے نام لکھے ہوئے خط کے لئے ہر مسیحی کو خُدا کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ IKDS 350.2

    اس خط کے ذریعہ پولُس نے آزادانہ طور پر اس بوجھ کا کھل کر ذکر کیا جو وہ یہودیوں کے لئے رکھتا تھا۔ جب سے مسیح نے اسے پکڑا تھا اسی وقت سے اُس کی یہ دلی تمنا تھی کہ یہودی بھائی انجیل کے پیغام کی واضح سُوجھ بُوجھ حاصل کر لیں “اے بھائیو! میرے دل کی آرزُو اور ان کے لئے (یہودیوں) خُدا سے میری دُعا یہ ہے کہ وہ نجات پائیں”۔ رومیوں ۱:۱۰IKDS 350.3

    پولُس کی یہ خواہش عارضی نوعیت کی نہین تھی جسے وہ محسُوس کی کرتا تھا۔ وہ مسلسل بنی اسرائیل کے حق میں التجا کی کرتا تھا جو یسُوع ناصری کو مسیح موعود تسلیم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس نے رومی ایمانداروں کو یقین دلاتے ہوئے فرمایا “میں مسیح میں سچ کہتا ہوں جھوٹ نہیں بولتا اور میرا دل بھی رُوح القدس میں گواہی دیتا ہے کہ مجھے بڑا غم ہے اور میر دل برابر دُکھتا رہتا ہے۔ کیوں کہ مجھے یہاں تک منظور ہوتا کہ اپنے بھائیوں کی خاطر جو جسم کے رُو سے میرے قرابتی ہیں میں خُود مسیح سے محروم ہو جاتا۔ وہ اسرائیل ہیں اور لے پالک ہونے کا حق اور جلال اور عہود اور شریعت اور عبادت اور وعدے ان ہی کے ہیں۔ اور قوم کے بزرگ ان ہی کے ہیں اور جسم کے رُو سے مسیح بھی ان ہی میں سے ہُوا جو سب کے اوپر اور ابد تک خدائی محمود ہے۔” رومیوں ۱:۹۔۵IKDS 351.1

    یہودی خُدا وند کی چنیدہ قوم تھی جس کے ذریعہ اس نے تمام دُنیا کو برکت دینے کا عہد کیا تھا۔ ان میں سے ہی خُدا وند نے بہت سے نبی پیدا کئے انہوں نے مسیح موعود کے آنے کی پیشنگوئی کی تھی اور یہ بھی کہ وہی لوگ اُسے رد کر کے مصلوب کریں گے جنہیں سب سے پہلے اسے مسیح موعود تسلیم کرنا تھا۔ IKDS 351.2

    یسعیاہ نبی کے رویا کے ذریعہ صدیوں سے دیکھا کہ ایک نبی کے بعد دوسرے کو رد کیا گیااور آکر کار خُدا کے بیٹے بھی قبول نہ کیا۔ اس نے الہام کی رُو سے یہ بھی بتایا کہ پھر مسیح موعود کو وہ تسلیم کر لیں گے جن کا شمار کبھی بھی بنی اسرائیل کے ساتھ نہ ہوا تھا اس پیشنگوئی کا حوالہ دیتے ہوئے پولُس فرماتا ہے۔ IKDS 351.3

    “جنہوں نے مجھے نہیں دُھونڈا انہوں نے مجھے پالیا۔ جنہوں نے مجھ سے نہین پوچھا ان پر میں ظاہر ہو گیا۔ لیکن اسرائیل کے حق میں یوں کہتا ہے میں دن بھر ایک نافرمان اور حُجتی اُمت کی طرف اپنے ہاتھ بڑھائے رہا ۔” رومیوں ۲۰:۱۰۔۲۱ IKDS 351.4

    بے شک بنی اسرائیل نے مسیح موعود کو رد کردیا مگر نجات دہندہ نے اُنہیں ترک نہ کیا۔۔۔۔ پولُس رسُول کے دلائل پر توجہ دیں۔ “پس میں کہتا ہوں کیا خُدا نے اپنی اُمت کو رد کر دیا؟ ہرگز نہین کیوں کہ میں بھی اسرائیلی ابرہام کی نسل اور بنیمین کے قبیلہ میں سے ہوں۔ خُدا نے اپنی امت کو رد نہیں کیا جیسے اس نے پہلے سے جانا۔ کیا تُم نہیں جانتے کہ کتاب مقدس ایلیاہ کے ذکر میں کیا کہتی ہے؟ کہ وہ خُدا سے اسرائیل کی یوں فریاد کرتا ہے کہ اے خداوند! انہوں نے تیرے نبیوں کو قتل کیا اور تیری قربان گاہوں کو ڈھا دیا۔ اب میں اکیلا باقی ہوں اور وہ میرے جان کےبھی خواہاں ہیں۔ مگر جواب الہٰی اس کو کیا ملا؟ یہ کہ میں نے اپنے لئے سات ہزار آدمی بچا رکھے ہیں جنہوں نے بعل کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ پس اسی طرح اس وقت بھی فضل سے برگزیدہ ہونے کے باعث کچھ باقی ہیں”۔ IKDS 352.1

    بنی اسرائیل لڑکھڑائے اور گرے مگر اس میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اُن کا اُٹھنا ناممکنات میں سے ہے “پس میں کہتا ہوں کہ کیا انہوں نے ایسی ٹھوکر کھائی کہ گر پڑیں؟ ہرگز نہیں! بلکہ ان کی لغزش سے غیر قوموں کو نجات ملی تاکہ انہیں غیرت آئے۔ پس جب ان کی لغزش دُنیا کے لئے دولت کا باعث اور ان کا گھٹنا غیر قوموں کے لئے دولت کا باعث ہوا تو ان کا بھر پور ہونا ضرور ہی دولت کا باعث ہو گا”۔ “میں یہ باتیں تُم غیر قوموں سے کہتا ہوں چونکہ میں غیر قوموں کا رسُول ہوں اس لئَ اپنی خدمت کی بڑائی کرتا ہوں۔ تاکہ کسی طرح سے اپنے قوم والوں کو غیرت دلا کر ان میں سے بعض کو نجات دلاوں کیونکہ جب ان کا خارج ہو جانا دُنیا کے آ ملنے کا باعث ہُوا تو کیا ان کا مقبول ہونا مردوں میں سے جی اٹھنے کے برابر نہ ہو گا؟IKDS 352.2

    یہ تو خُدد کا ارادہ تھا کہ اس کا فضل غیر قوموں اور بنی اسرائیل دونوں میں ظاہر ہو اور یہ صداقت عہد عتیق کی پیشنگوئیوں میں بڑی واضح حیثیت رکھتی ہے۔ رسُول نے ان میں سے بعض ایک پیشنگوئیوں کو پیش بھی کیا۔ “کیا کمہار کو مٹی پر اختیار نہیں کہ ایک ہی لوندے میں سے ایک برتن عزت کے لئے بنائے اور دوسرا بے عزتی کے لئے؟ پس کیا تعجب ہے اگر خُدا اپنا غضب ظاہر کرنے اور اپنی قُدرت آشکارا کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلاکت کے لئے تیار ہوئے تھے نہایت تحمل سے پیش آیا۔ اور یہ اس لئے ہُوا کہ اپنےجلال کی دولت رحم کے برتنوں کے ذریعہ سے آشکارا کرے جو اس نے جلال کے لئے پہلے سے تیار کئے تھے۔ یعنی ہمارے ذریعہ سے جنکو اس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیر قوموں میں سے بھی بُلایا۔ اور جیسے وہ ہوسیع کی معرفت یوں فرماتا ہے “جو میری امت نہ تھی اسے پیاری کہوں گا۔ اور جو پیاری نہ تھی اسے پیاری کہوں گا۔ اور ایسا ہو گا کہ جس جگہ ان سے یہ کہا گیا تھا کہ تُم میری اُمت نہیں ہو اسی جگہ وہ زندہ خُدا کے بیٹے کہلائیں گے”۔ رومیوں ۲۱:۹۔۲۶، ہوسیع ۱۰:۱ IKDS 353.1

    بنی اسرائیل کی قوم کی ناکامی کے باوجود ان میں ابھی تک کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں بچانے کی ضرورت ہے۔ مسیح یسُوع کی پہلی آمد کے وقت بہت سے ایماندار مردوزن ایسے تھے جو یوحنا کے پیغام پر ایمان لائے اور یوں مسیح موعود سے علاقہ رکھنے والی پیشنگوئیوں کا انہیں مطالعہ کروایا گیا۔ جب ابتدائی کلیسیا معرض وجود میں آئی؟ یہ کلیسیا انہیں وفادار یہودیوں پر مشتمل تھی جو یسوع ناصری کی آمد کے منتظر تھے۔ پولُس اسی بقیہ کا ذکر کرتے ہوئے یوں فرماتا ہے “جب نذر کا پہلا پیڑا پاک ٹھہرا تو سارا گوندھا ہوو آٹا بھی پاک ہے اور جب جڑ پاک ہے تو ڈالیاں بھی ایسی ہی ہیں”۔ IKDS 353.2

    پولوس رسُول بنی اسرائیل کو زیتوں کے درخت سے تشبیہ دیتا ہے جسکی بعض شاخیں ٹوٹ گئی ہیں۔ وہ غیر قوموں کو جنگلی زیتوں کی ٹہنیوں کے مشابہ قرار دیتا ہے جو خُدا کے گھر میں قائم کی گئی ہیں۔ “لیکن اگر بعض ڈالیاں توڑی گئیں اور تُو جنگلی زیتوں (غیر قوموں سے مخاطب) ہو کر اُن کی جگہ پیوند ہوا اور زیتوں کی روغن دار جڑ میں شریک ہو گیا۔ تو ان ڈالیوں کے مقابلہ میں فخر نہ کر اور اگرفخر کرے گا تو جان رکھ کہ تو جڑ کو نہیں بلکہ جڑ تجھ کو سنبھالتی ہے۔ پس تو کہے گا کہ ڈالیاں اس لئے توڑی گئیں کہ میں پیوند ہو جاوں۔ اچھا وہ تو بے ایمانی کے سبب سے توڑی گئیں اور تو ایمان کے سبب سے قائم ہے۔ پس مغرور نہ ہو بلکہ خوف کر۔ کیوں کہ جب خُدا نے اصلی ڈالیوں کو نہ چھوڑا توتجھ کو بھی نہ چھوڑے گا۔ پس خُدا کی مہربانی اور سختی کو دیکھ۔ سختی ان پر جو گر گئے ہیں اور خُدا کی مہربانی تجھ پر بشرطیکہ تُو اس مہربانی پر قائم رہے ورنہ تو بھی کاٹ ڈالا جائے گا۔ IKDS 353.3

    بے ایمانی اور خُدا کے منصوبہ کو رد کرے کے سبب بنی اسرائیل کا ناطہ خُدا سے ٹوٹ گیا۔ لیکن ڈالیاں جو والدین سے جدا ہو گئیں انہیں خُدا وند حقیقی والدین میں قائم کرنے پر قادر ہے۔ “وہ بھی” (رسول توڑی ہوئی شاخوں سے مخاطب ہوا) اگر بے ایمان نہ رہیں تو پیوند کئے جائیں گے۔ کیونکہ خُدا انہیں پیوند کر کے بحال کرنے پر قادر ہے۔ اس لئے جب زیتوں کے اس درخت سے کٹ کر جسکی اصل جنگلی ہے اصل کے برخلاف اچھے زیتوں میں پیوند ہو گیا تو وہ جو اصل ڈالیاں ہیں اپنے زیتوں میں ضرور ہی پیوند ہو جائیں گی۔ اس لئے میں نہیں چاہتا کہ تُم اس بھید سے ناواقف رہو اور ایسا نہ ہو کہ تُم اپنے آپ کو عقلمند سمجھ لو اسرائیل کا ایک حصہ سخت ہو گیا ہے اور جب تک غیر قومیں پُوری پُوری داخل نہ ہوں وہ ایسا ہی رہے گا۔ ”IKDS 354.1

    “اور اس صورت سے تمام اسرائیل نجات پائے گا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ چھڑانے والا صیّون سے نکلے گا اور بے دینی کو یعقوت سے دفع کرے گا اور ان کے ساتھ میرا یہ عہد ہو گا۔ جبکہ میں ان کے گناہوں کو دُور کر دوں گا۔ انجیل کے اعتبار سے تو وہ تمہاری خاطر دشمن ہیں لیکن برگزیدگی کے اعتبار سے باپ دادا کی خاطر پیارے ہیں۔ اس لئے کہ خُدا کی نعمتیں اور بلاوا بے تبدیل ہے۔ لیکن جس طرح تُم پہلے خُدا کے نافرمان تھے لیکن اُن کی نافرمانی کے سبب سے تُم پر رحم ہوا۔ اسی طرح اب یہ بھی نافرنان ہوئے تاکہ تُم پر رحم ہونے کے باعث اب ان پر بھی رحم ہو۔ اس لئے کہ خُدا نے سب کو نافرمانی میں گرفتار ہونے دیا تاکہ سب پر رحم فرمائے۔”IKDS 354.2

    “واہ خُدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں! خُڈا کی عقل کو کس نے جانا؟ یا کون اس کا اصلاح کار ہوا؟ یا کس نے پہلے اُسے کچھ دیا ہے جس کا بدلہ اسے دیا جائے؟ کیوں کہ اسی کی طرف سے اور اسی کے وسیلہ سے اور اسی کے لئے سب چیزیں ہیں۔ اس کی تمجید ابد تک ہوتی رہے۔ IKDS 355.1

    یوں پولُس دکھاتا ہے کہ یہودیوں اور غیر قوموں کے دلوں کو تبدیل کرنے کی خُدا وند میں کثرت سے قُوت موجود ہے۔ اور ہر ایماندار کو وہ برکات دینے پر قادر ہے جن کا اُس نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا۔ خُدا کے لوگوں کے متعلق رسول، یسعیاہ نبی کا بیان پیش کرتا ہے۔ “گو بنی اسرائیل کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو تو بھی ان میں سے تھورے ہی بچیں گے۔کیونکہ خُداوند اپنے کلام کو تمام اور منقطع کر کے اس کے مطابق زمین پر عمل کرے گا۔ چنانچہ یسعیاہ نے پہلے بھی کہا ہے کہ اگر رب الافواج ہماری کچھ نسل باقی نہ رکھتا تو ہم سدوم کی مانند اور عمورہ کے برابر ہو جاتے”۔ IKDS 355.2

    یروشلیم میں ہیکل کی تباہی کے موقع پر ہزاروں یہودی غلام بنا کر بت پرستوں کے ہاتھوں فروخت ہوئے۔ تباہ شدہ جہاز کی مانند جو صحراوں میں بکھرا پڑا ہو، بنی اسرائیل قوموں کے اندر پراگندہ ہو گئے تھے، اٹھارہ سال تک یہودی دُنیا بھر میں جگہ بہ جگہ مارے مارے پھرتے رہے اور کسی بھی جگہ انہیں یہ حق نہ دیا گیا کہ وہ پہلے کی طرح بطورِ قوم عزت ووقار کے ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔ صدیوں تک لعنتیں، نفرت، ظلم و ستم اُن کا مقدر بنا رہا۔ IKDS 355.3

    بنی اسرائیل پر بطور ایک قوم کے یسُوع ناصری کو رد کرنے پر ہولناک سزا کا حُکم سنایا گیا تھا، اس کے باوجود ہر زمانہ میں بہت سے خُدا ترس خواتین و حضرات موجود رہے ہیں جنہوں نے بڑی خاموشی سے ظلم برداشت کیا۔ خُدا نے مصیبت کے وقت انہیں تسلی دی اور ان کے خطر ناک حالات پر دل سوزی کے ساتھ نگاہ کی۔ اُسے اُن پر ترس آیا۔ اس کے حضور ان کی آہ و زاری کے ساتھ دعائیں پہنچی جنہوں نے اپنے پورے دل سے اس کے پاک کلام کو راست سمجھنے کے لئے چاہت کی۔ بعض نے یسُوع ناصری میں مسیح موعود کو دیکھنا شروع کر دیا تھا جسے ان کے بزرگوں نے رد کر دیا تھا۔ جیسے کہ ان کے اذہان مسیح یسُوع سے علاقہ رکھنے والی پیشنگوئیوں کو سمجھنا کر دیا تھا جو روایات اور غلط تفسیر و تاویل کی وجہ سے بند ہو چکے تھے ان کے لئے دل خُدا وند کی شکر گزاری سے بھر پور ہو گئے کہ وہ ان پر بے بیان نعمتیں عطا کرتا ہے جو یسُوع کو شخصی نجات دہندہ کو قبول کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ IKDS 356.1

    اسی جماعت کے لوگوں کا یسعیاہ حوالہ دیتے ہوئے فرماتا ہے “بقیہ بچایا جائے گا” چنانچہ پولُس کے دنوں سے لے کر آج تک خُداوند کی رُوح یہودیوں اور غیر قوموں دونوں کو بلاتا ہے۔ اسی لئے رسُول فرماتا ہے کہ “خُدا کسی کا طرفدار نہین” اور پولُس یہ بھی فرماتا ہے کہ میں یہودیوں اور غیر قوموں کا قرضدار ہوں۔ لیکن وہ یہ بات کبھی نہ بھولا کہ یہودیوں کو دوسری قوموں پر اس لئے فضیلت تھی کیونکہ خُدا وند نے انہیں اپنی شریعت دے رکھی تھی۔ چنانچہ اس نے کہا کہ انجیل ان کے لئے خُدا کی وہ قُوت ہے جو ایمن لاتے ہیں پہلے یہودی اور پھر یونانی کے لئے۔ کیونکہ خُدا وند کی راوستبازی اُن میں ایمان سے ہی آشکارا ہوتی ہے۔ جیسے کہ لکھا ہے “راستباز ایمان سے جیتا رہے گا” یہ تو مسیح کی انجیل ہی ہے جو یہودیوں اور غیر قوموں کے لئے برابر تاثیر رکھتی ہے۔ اسی لئے پولپس رومیوں کے خط میں لکھتا ہے کہ میں انجیل سے نہیں شرماتا۔ IKDS 356.2

    جب یہ انجیل یہودیوں کو بھر پور انداز میں سنائی جائے گی تو بیش تر مسیح یسُوع کو اپنا نجات دہندہ قبول کر لیں گے۔ مسیحی خادموں میں بہت ہی کم خادم ایسے ہیں جو یہ محسُوس کرتے ہیں کہ انہیں یہودیوں کے لئے خدمت کرناہے۔ تاہم جن یہودیوں یا ان کے علاوہ کسی اور کو بھی اگر نظر انداز کیا گیا ہے اُنہیں بھی مسیح میں رحم اور اُمید کا پیغام پہنچایا جانا چاہئے۔ IKDS 357.1

    انجیل کی منادہ کی اخیر دنوں میں ان لوگوں کے لئے جن کو اب تک نظر انداز کیا گیا ہے اُن کے لئے اب خاص کام کیا جانا چاہئے۔ مسیح خُدا وند پانے پیغام رساں ایلچیوں سے توقع کرتا ہے کہ وہ یہودی لوگوں میں خاص دلچسپی لیں جو انہیں دُنیا کے ہر کونے میں مل جائیں گے۔ جیسے کہ پرانے عہد نامے کے صحائف عہد جدید کے ساتھ مدغم ہیں جو یہواہ کے ابدی مقصد کی وضاحت کرتے ہیں یہ بہت سے یہودیوں کی رُوح کے لئے نئی تخلیق (پیدائش) ہوگی جیسے ہی وہ مسیح کی انجیل کو عہد عتیق میں پائیں گے، اور جان جائیں گے کہ عہد جدید کس صفائی سے عہد عتیق کے صحائف کی تشریح کرتا ہے تو ان کی اونگھتی ہوئی قوا بیدار ہو جائیں گی۔ تب وہ مسیح کو دُنیا کے نجات دہندہ کی صُورت میں پہچان جائیں گے۔ بہتیرے ایمان سے مسیح کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کر لیں گے۔ ان کے لئے خُدا کا یہ کلام پُورا ہوگا “لیکن جتنوں نے اُسے قبول کیا اُس نے اُنہیں خُدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی اُنہیں جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں” ۔ یوحنا ۱۲:۱IKDS 357.2

    یہودیوں میں کچھ ساول ترسی کی طرح کتاب مقدس کے ماہر ہیں اور یہ بڑی قُدرت کے ساتھ خُدا کی شریعت کے لا تبدیل ہونے کے لئے منادی کریں گے۔۔۔۔ بنی اسرائیل کا خُداوند یہ سب کچھ ہمارے ہی دنوں میں پُورا کرے گا۔ اس کا ہاتھ چھوٹا نہیں ہو گیا کہ بچا نہ سکے۔ خُدا کے خادم جب ایمان کے ساتھ ان کے لئے خدمت کرتے ہیں جو عرصہ تک نظر انداز یا رد کئے گئے تو خُداوند کی نجات آشکارہ کی جائے گی۔ IKDS 357.3

    “اس لئے خُدا وند جو ابر ہام کا نجات دینے والا ہے یعقوب کے خاندان کے حق میں یوں فرماتا ہے کہ یعقوب اب شرمندہ نہ ہو گا اور وہ ہرگز زرد رُو نہ ہو گا۔ بلکہ اس کے فرزند اپنے درمیان میری دستکاری دیکھ کر میرے نام کی تقدیس کریں گے۔ ہاں وہ یعقوب کے قدوس کی تقدیس کریں گے اور اسرائیل کے خُدا سے ڈریں گے۔ اور وہ بھی جو رُوح میں گمراہ ہیں فہم حاصل کریں گے اور بڑبڑانے والے تعلیم پذیر ہوں گے”۔ یسعیاہ ۲۲:۲۹۔۲۴ IKDS 358.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents