Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۴۴ - قیصر کا گھرانہ

    حلیم اور فروتن طبقات میں انجیل عظیم ظفر یا بیاں حاصل کرتی ہے “بہت سے حکیم، بہت سے اختیار والے، بہت سے اشراف نہیں بلائے گئے”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۲۶:۱ ۔۔۔۔ اس لئے غریب اور بے یارو مدد گار پولُس قیدی سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اعلیٰ طبقوں کے دولتمندوں کو جو رومی شہریت بھی رکھتے تھے اُن کو مسیحیت کے حلقہ بگوش کر سکتا۔ دولتمندوں اور اعلیٰ طبقات کے لوگوں کو تو آنکھوں کو چندھیا دینے والی بدی برائی ہی اپنا حلقہ بگوش بنا سکتی تھی۔ مگر آقاوں کے ظُلم تلے پسے اور کُچلے ہوئے، مشکلات جھیلنے والے اور غربت کے ماروں غلاموں میں سے بہتیروں نے پولُس کےکلام کو بڑی خُوشی سے سُنا اور مسیح میں ایمان رکھنے کے سبب ان مصیبتوں کے باوجود، اُمید اور اطمینان اور خُوشی پائی۔ IKDS 431.1

    تاہم جب پولُس کی خدمت ناداروں اور غربت کے ماروں میں شُروع ہوئی تو اُس کے اثرات نے سُلطان کے محلات تک رسائی کی۔ روم اُن دنوں میں دُنیا کا دارالخلافہ تھا۔ پُرتمکنت (مغرور — اکڑباز) قیصر تقریباً دُنیا بھر کی تمام قوموں کو احکام جاری کیا کرتا تھا۔ بادشاہ اور درباری یا تو یسُوع ناصری سے ناواقف تھے یا پھر اُس سے نفرت کرتے اور اُس کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ اس کے باوجود انجیل نے اپنا راستہ دو سال کے عرصہ میں قیدی کے معمولی جھونپڑے سے شاہی ایوانوں تک بنا لیا۔ پولُس تو بدکار لوگوں کی وجہ سے زنجیروں میں جکڑا ہُوا ہے مگر “خُدا کا کلام قید نہیں”۔۲۔تیمتھیس ۹:۲۔ IKDS 431.2

    گزرے برسوں میں پولُس نے انجیل کی منادی فاتحانہ قُوت کے ساتھ کی تھی۔ نشانوں اور مُعجزات کے ذریعہ اُس نے خُداوند کی طرف سے اپنے اس اختیار کو ثابت کیا تھا۔ وہ بڑی ثابت قدمی کے ساتھ یونانی حکیموں کے مقابلہ کو کھڑا ہوا تھا اور اس نے اپنی شعلہ بیانی، فصاحت اور بلاہٹ کے زور پر فلاسفروں کے منہ بند کر دئیے تھے۔ بڑی بے باکی سے وہ بادشاہوں اور اختیار والوں کے سامنے کھڑا ہُوا۔ اور راستبازی، پرہیز گاری اور روز عدالت کی منادی کی جس کو سُن کر بڑے سرکش اور اکڑ باز حاکم بھی کانپنے لگے۔ IKDS 432.1

    اب رسُول کو اس طرح کا کوئی موقع نہ دیا گیا، بلکہ اُسے تو اسی مکان میں رہنا تھا جو اُس کے لئے مقرر تھا۔ وہ صرف ان سے ہی کلام کر سکتا تھا جو وہاں سننے کے لئے خُود آجاتے تھے۔ وہ موسیٰ اور ہارون کی مانند نہیں تھا جنہیں خُدا کی طرف سے حُکم ملا تھا کہ جا کر فرعون کو بتاو کہ “میں جو ہوں” نے تیرا ظلم و ستم دیکھ لیا ہے جو تو میرے لوگوں پر کرتا ہے۔ اُس وقت جب بظاہر یہ معلوم ہوتا تھا کہ پولُس کا رابطہ عوام سے کٹ گیا ہے اپسی دوران شاہی خاندان کے بہت سے افراد کلیسیا میں آ ملے اور یہ انجیل کی بہت بڑی جیت تھی۔ IKDS 432.2

    روم کے دربار کے سوا کسی اور جگہ مسیحیت کے لئے ماحول اتنا نا خوشگوار نہ تھا۔ ایسے دکھائی دیتا تھا جیسے نیر و بادشاہ نے اپنی روح پر سے ذات الہٰی بلکہ انسانیت کے بھی آخری عکس و نقش کو مٹا دیا ہے اور اپنی روح پر شیطان کی مہر ثبت کر لی ہے اُس کے محافظ اور درباری بھی آتش مزاج، بے حیا اور نیرو کی طرح رشوت خور اور بد اخلاق تھے۔ IKDS 432.3

    ہر طرح سے بظاہر یہی دکھائی دیتا تھا کہ نیرو کے محلوں اور دربار میں مسیحیت کی رسائی ناممکن ہے۔ مگر اس معاملہ میں اور کئی دیگر معاملات میں پولُس کا دعوی سچ ثابت ہوا ہے کہ اپس کے جنگ کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خُدا کے نزدیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابل ہیں ۲ کرنتھیوں ۴:۱۰ حتٰی کہ نیرو کے گھرانے میں بھی صلیب نے فتح پائی۔ خبیث ترین بادشاہ کے خبیث ترین محافظوں میں سے مسیحیت کے حلقہ بگوش ہو کر خُدا کے بیٹوں میں پوشیدہ نہیں بلکہ اعلانیہ شامل ہوئے ۔ وہ اپنے نئے ایمان سے ہرگز شرمندہ نہ تھے۔ IKDS 432.4

    وہ کون سے وسائل تھے جن کی بدولت اس جگہ رسائی ممکن ہوئی اور مسیحیت نے قدم جمائے جہاں اس کا گزر بھی ناممکن دکھائی دیتا تھا؟ فلپیوں کو خط لکھتے وقت پولُس نے اپنی قید و بند کا اور نیرو کے گھرانے سے مسیح کے لئے روحوں کو جیتنے کی کامیابی کے بارے بیان کیا تھا۔ اس خوف سے کہ کہیں یہ نہ خیال کر لیا جائے کہ پولُس کی صعوبتوں نے انجیل کی خدمت میں رکاوٹ ڈال دی ہے اس نے یقین دلایا “اے بھائیو! میں چاہتا ہوں تُم جان لو جو مجھ پر گزرا وہ خُوشخبری کی ترقی ہی کا باعث ہوا” ۔ فلپیوں ۱۲:۱IKDS 433.1

    مسیحی کلیسیاوں نے جب یہ سُنا کہ پولُس روم جا رہا ہے۔ تو وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر میں اب انجیل کی فتوحات دیکھنے کو ملیں گی۔ پولُس نے کئی ملکوں میں سچائی کا بیج بویا تھا۔ بڑے بڑے شہروں میں بھی اسے انجیل کی تشہیر کا موقع ملا تھا۔ ان کا خیال تھا انجیل کا یہ ہیرو دُنیا کے اس دار الخلافہ میں بھی روحوں کو جیتنے میں برابر کامیاب ہو گا۔ مگر اُس وقت اُن کی اُمیدوں پر پانی پھر گیا جب پو لُس قیدی بن کر روم پہنچا۔ اُنہیں تو بڑی اُمید تھی کہ اگر ایک بار یہ عظیم سنٹر انجیل کی منادی کےلئے قائم ہو گیا تو پھر یہاں سے دُنیا کی ہر قوم اس خطے میں انجیل کا پیغام تیزی سے پھیل جائے گی۔ مگر اُنہیں بڑی مایوُسی ہوئی۔ بے شک انسانی توقعات ناکام ہو گئی تھیں مگر خُدا کا عزم ناکام نہیں ہوا تھا۔ IKDS 433.2

    پولُس کے وعظ (SERMONS) نہیں بلکہ اُس کی زنجیروں نے درباریوں کی توجہ کو مسیحیت کی طرف مبذول کیا۔ یہ ایک قیدی تھا جس نے بہت سی زنجیروں میں جکڑی ہوئی رُوحوں کو گناہ کی غلامی سے آزاد کرادیا، یہی نہیں اُس نے پُکار کر کہا “اور جو خُدا وند میں بھائی ہیں ۔ان میں سے اکثر قید ہونے کے سبب سے دلیر ہو کر بے خوف خُدا کا کلام سنانے کی زیادہ جرات کرتے ہیں”۔ فلپیوں ۱۴:۱IKDS 433.3

    پولُس کا صبر، لمبی اور بے انصافی پر مبنی قید، اُس کی ہمت ، ایمان اور خُوش مزاجی مسلسل ایک وعظ تھی۔ اس کی رُوح دنیاوی روح سے کس قدر مختلف تھی جو اس بات کی غماز تھی کہ اس میں زمینی قُوت سے بُلند تر قُوت جا گزیں ہے۔ اور اس کے نمونہ کو اپناتے ہوئے پبلک میں انجیل کی خدمت کے لئے جس سے پولُس کو خارج کر دیا گیا تھا، مسیحی عظیم قُوت (خدا) کی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہوئے۔ یوں پولُس کی زنجیریں اثر انداز ہوئیں۔ پس جب اس کی قُوت اور افادیت جاتی ہوئی معلوم ہوئی اور ایسے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اب کچھ بھی نہیں کر سکے گا۔ اسی وقت اُس نے اُسس کھیت سے پُولے جمع کئے جہاں سے اُسے نکال دیا گیا تھا۔ IKDS 434.1

    قیدو بند کے دو سال اختتام کو پہنچنے سے پہلے پولُس کہ کہہ سکتا تھا “یہاں تک کہ قیصری سپاہیوں کی ساری پلٹن اور باقی سب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ میں مسیح کے واسطے قید ہوں” اور فلپیوں کو سلام لکھتے وقت رسُول نے قیصر کے گھرانے کا سلام بھی لکھا۔ سب مقدس خصوصاً قیصر کے گھر والے تمہیں سلام کہتے ہیں۔ فلپیوں ۱۳:۱، ۲۲:۴IKDS 434.2

    کامیابیاں، ہمت اور صبر کا بکرہ ہے، اور آزمائشوں تلے فروتنی سے مسیح کے لئے رُوحیں جیتی جا سکتی ہیں۔ وہ مسیحی جو سوگواری اور ظلم و ستم کے دوران صبر اور زندہ دلی اور رُوح پروری کا مظاہر ہ کرتے ہیں اور جو غیر متزلزل ایمان کے ساتھ سکون اور اطمینان کے ساتھ موت کا سامنا کرتے ہیں وہ اپنی عمر بھر کی وفادار خدمت کی نسبت یوں زیادہ موثر انجیل کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ اکثر جب ایک خادم عملی خدمت سے خارج ہو جاتا ہے تو خُدا وند اُس سے ایسے طریقے سے خدمت لیتا ہے جو کسی اور طریقہ سے انجام نہیں دی جا سکتی تھی۔ IKDS 434.3

    خُدا کے پیروکاروں کو اُس وقت یہ نہ سوچ لینا چاہئے جب وہ خُدا کے لئے عملی خدمت کے قابل نہیں رہتے کہ اب وہ کچھ بھی کر سکتے اور اُن کے لئے کوئی اجر نہیں۔ انہیں ایسا نہیں سوچنا چاہئے۔ خُدا کے سچے اور وفادار خادم کبھی خدمت سے دستبردار نہیں ہوتے۔ صحت یا بیماری ، زندگی اور موت سبھی حالتوں میں خُدا انہیں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جب شیطان کے ظلم و ستم کے سبب مسیح کے خادم ستائے جاتے تھے تو اُن کی عملی خدمت میں رکاوٹ تو پیدا ہو جاتی تھی۔ اور اسی طرح جب وہ جیلوں میں ڈالے جاتے، زنجیروں میں جکڑے جاتے تو یہ وہ وقت ہوتا تھا جب سچائی کی بڑی فتح ہوتی۔ جیسے ہی ان وفاداروں نے مسیح کی گواہی پر اپنے خون سے مہر کی، وہ روحیں جو پہلے شکوک اور بے یقینی کا شکار تھیں مسیح میں ایمان لانے کے لئے قائل ہو گئیں اور انہوں نے خُداوند کے لئے بڑا جرات مندانہ قدم اُٹھایا۔ شہیدوں کی راکھ سے خُداوند کے لئے بکثرت فصل اکٹھی کی گئی۔۔۔۔۔ IKDS 435.1

    جب حالات ناگفتہ بہ تھے۔ مسیح کے خادموں کا کوئی اعتبار نہیں کرتا تھا اور انہیں حقارت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا، اس وقت بھی پولُس اور اس کے ہم خدمتوں کے جوش و جذبہ اور دیانتداری میں کمی واقع نہ ہوئی۔ پولُس کے معاونین کہہ سکتے تھے کہ نیرو کے خادموں کو توبہ کرنے اور مسیح میں ایمان رکھنے کی تلقین کرنا فضول ہے کیونکہ وہ تو آتش مزاج اور ممنوعہ آزمائشوں کے تابع ہیں۔ مہیب اور بھیانک اڑچنوں (آڑ۔رکاوٹ) سے گھرے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر وہ ایمان لے آئے تو اُنہیں بھیانک مخالفت کا سامنا کر نا پڑے گا۔ ان حالات میں اگر وہ سچائی کے قائل ہو بھی جائیں تو وہ کس طرح وفاداری دکھا سکیں گے؟ مگر پولُس نے اس طرح کا کوئی مباحثہ نہ کیا۔ اس نے ان روحوں کے سامنے انجیل پیش کی اور ان میں بعض ایسے تھے جنہوں نے ہر قیمت پر وفاداری دکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ رکاوٹوں اور خطرات کے باوجود انہوں نے نور کو قبول کر لیا اور خُدا پر بھروسہ رکھتے ہوئے اس سے مدد چاہی کہ ان کی روشنی دوسروں کو بھی منور کرے۔ IKDS 435.2

    قیصر کے گھرانے سے نہ صرف سچائی کے لئے افراد جیت لئے گئے بلکہ وہ اپنی تبدیلی کے بعد بدستُور قیصر کے خاندان میں ہی رہے۔ انہوں نے اپنے فرائض منصبی سے یہ سمجھ کر انحراف نہ کیا کہ اب حالات خُوشگوار اور سازگار نہیں رہے۔ سچائی نے انہیں جہاں وہ تھے وہیں ڈھونڈ نکالا اور وہ بھی وہیں رہے، تاکہ اپنی تبدیل شدہ زندگیوں اور چالچلن کے ذریعے نئے ایمان کی تبدیل کرنے والی قُوت کی گواہی دے سکیں۔ IKDS 436.1

    کیا کوئی ایسا ہے جو اپنے حالات کو بہانہ بنا کر مسیح کی گواہی سے باز رہنے کی آزمائش میں ہے؟ انہیں قیصر کے گھرانے میں شاگردوں کی حالت کو مدِنظر رکھنا چاہئے۔ جہاں شہنشاہ کی سیاہ کاری اور درباریوں کی اوباشی کا دور دورہ تھا۔ ہم مسیحی زندگی کے لئے اس سے بدتر اور نامساعد حالات کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور نہ ہی اتنی قربانی اور مخالفت کا جو ان نئے ایمانداروں کو روم میں در پیش تھی۔ تاہم اس قدر مشکلات اور خطرات کے بیچ میں اُنہوں نے دیانتداری کو قائم رکھا۔ اُن رکاوٹوں کے سبب جن کو دُور کرنا ناممکن دکھائی دیتا ہو ایک مسیحی اگر ان کی آڑ میں سچائی کی پیروی نہ کرنے کا فیصلہ کرے تو وہ خُدا کو کیا حساب دے گا جس نے اپنے بچوں کے لئے مفت نجات کا انتظام کر رکھا ہے؟IKDS 436.2

    وہ جس کا دل خُدا وند میں مستحکم ہے وہ اُس کی گواہی دینے کا ضرور کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈلے گا۔ وہ جو پہلے اُس کی بادشاہی اور راستبازی تلاش کرنے کا مصمم ارادہ باندھ لیتا ہے اُس کے سامنے رکاوٹیں بے بس ہو جاتی ہیں۔ کلام کے مطالعہ اور دُعا مانگنے سے جو قُوت حاصل ہوتی ہے اُس کے ذریعہ وہ بدی کو ترک کرنے اور بھلائی کرنے کے مواقع تلاش کرے گا۔ مسیح کی طرف دیکھتے ہوئے جو ہمارے ایمان کا بانی اور کام کرنے والا ہے گنہگاروں کی مخالفت کو جو وہ اپس کے خلاف کرتے ہیں برداشت کرتا ہے۔ ایماندار رضا کارانہ طور پر سفلہ پن اور تحقیر کو خیر باد کہہ دیں گے۔ وہ جس کا کلام سچ ہے اُس نے ہر طرح کے حالات کے لئے فضل اور مدد مہیا کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ وہ رُوح جو مدد کے لئے اُس کے پاس آتی ہے اُس کے ابدی بازو اُسے گلے لگا لیتے ہیں۔ اُس کی نگہداشت میں یہ کہتے ہوئے ہم بحفاظت آرام پا سکتے ہیں۔ “جس وقت مجھے ڈر لگے گا میں تجھ پر توکل کروں گا”۔ زبور ۳:۵۶۔۔۔۔ وہ جو اپنا بھروسہ یہواہ میں رکھتے ہیں اُن سبھوں کے لئے خُداوند اپنا وعدہ پُورا کرے گا۔ IKDS 436.3

    مسیح یسوع نے خُود اپنے نمونہ سے دکھا دیا کہ اُس کے پیروکار دُنیا میں رہ سکتے ہیں مگر دُنیا کے ہو کر نہیں۔ وہ دُنیا کی دلفریبیوں اور راحت و سرور سے لُطف اندوز ہونے کے لئے نہیں آیا تھا اور نہ ہی وہ اُس کے رسم و رواج کی غلامی کرنے کے معمول کو اپنانے آیا تھا۔ بلکہ اپنے باپ کی مرضی، یعنی کھوئے ہووں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا تھا۔ اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے مسیحی ہر طرح کے ماحول میں بے داغ رہ سکتا ہے۔ اُس کی کوئی بھی خدمت کیوں نہ ہو اور جیسے بھی حالات ہوں یعنی خواہ وہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہو یا معمولی خدمت انجام دے رہا ہو وہ ہر حال میں اپنے فرض کو وفاداری سے نبھانے کے لئے حقیقی مذہب کی قُوت کو ضروری اُجاگر کرے گا۔ IKDS 437.1

    مسیحی کردار کی نشوونما آزمائش سے آزاد ہو کر نہیں بلکہ آزمائش کے دوران ہوتی ہے۔ مزاحمتیں اور مخالفتیں مسیح کے پیروکارون کو جاگتے رہنے اور مخلص دُعا کی طرف راغب کرتی ہیں تاکہ قادرِ مطلق سے مدد حاصل کریں۔ سخت آزمائشوں کی برداشت کی برداشت خُدا کے فضل سے صبر، بیدار مغزی، تحمل، ضبط اور خُدا میں گہرا اور دیر پا رہنے والا ایمان پیدا کرتی ہے۔ یہ مسیح ایمان کی فتح ہے جو مسیحی پیروکاروں کو دکھوں کے ذریعہ سے مضبوط کرتا ہے۔ خُود کو مسیح کے تابعد کرنے کی توفیق بخشتا ہے۔ ہر روز مرنے سے زندہ اور صلیب اُٹھانے سے جلالی تاج جیتنے کے قابل بناتا ہے۔ IKDS 437.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents