Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۵۴ - وفادار گواہ

    یوحنا کے عام خطوط

    مسیح کے آسمان پر صعود فرما جانے کے بعد یوحنا اپنے آقا کے لئے ایماندار ور وفادار خادم کی طرح قائم رہا۔ دوسرے شاگردوں کے ساتھ پنتکست کے روز یوحنا نے بھی رُوح القدس کی برکات کا خط اُٹھایا اور نئے جوش و جذبہ اور تازہ قوت کے ساتھ لوگوں میں زندگی کے کلام کی منادی کرنے لگا اور ہمیشہ لوگوں کی توجہ اندیکھے خُدا کی طرف مبذول کرنے کا آرزو مند رہا۔ وہ نہایت ہی زبردست ولولہ انگیز اور مخلص مقرر تھا۔ خوبصورت زبان اور سُریلی آواز میں وہ خُدا کا کلام اور کام بتا یا کرتا تھا۔ تقریروں کے ذریعہ وہ سامعین کے دل موہ لیتا۔ سچائی کی برتری جو وہ بیان کرتا، اور تعلیم دینے میں جو وہ سرگرمی دکھاتا اُس نے اُسے تمام طبقون میں کامیابی عطا کی۔ IKDS 512.1

    رسُول کی زندگی اس تعلیم سے مطابقت رکھتی تھی جو وہ دوسروں کو دیتا تھا۔ یعنی رسُول جو کچھ کہتا (تعلیم دیتا) اُسی کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔ اس کے دل میں مسیح کے لئے جو محبت جگمگا رہی تھی اُسی نے اُسے بنی نوع انسان کے لیے اور خصوصاً مسیحی کلیسیا کے لیے انتھک خدمت کرنے کی ترغیب دی۔ مسیح یسُوع نے شاگردوں کو حُکم دیا تھا کہ ایک دوسرے سے اسی طرح محبت رکھیں جیسے اُس نے اُن سے محبت رکھی تھی۔ یوں وہ دُنیا کو گواہی دینے کو تھے کہ مسیح یسوع میں ہی فضل کی اُمید پائی جاتی ہے۔ اس نے فرمایا “میں تمہیں ایک نیا حُکم دیتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت رکھو جیسے میں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔”یوحنا ۳۴:۱۳۔۔۔ مسیح یسُوع کے دکھوں اور مصلوب ہونے کے بعد مردوں میں سے زندہ ہونے اور آسمان پر صعود فرمانے، اور پنتکست کے روز رُوح القدس کے نزول کی گواہی دی تب ہی اُنہیں خُدا کی محبت اور اُس محبت کا علم ہوا جو انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رکھنا تھی۔ چنانچہ یوحنا اپنے ہمخدمت شاگرد بھائیوں کو کہہ سکتا تھا کہ “ہم نے محبت کو اسی جانا کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی اور ہم پر بھی بھائیوں کے واسطے جان دینا فرض ہے”۔ ۱۔یوحنا ۱۶:۳IKDS 512.2

    رُوح القدس کے نزول کے بعد جب شاگرد زندہ مسیح کا پرچار کرنے کے لئے آگے بڑھے تو روحوں کی نجات ان کا واحد مقصد تھا۔ وہ مقدسین کی شیریں رفاقت سے محظوظ و مسرُور ہوتے۔ وہ نرم دل، دوسروں کی فکر کرنے والے، خود غرضی سے خالی، خود انکاری اور سچائی کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے رضامند تھے۔ روز مرہ کی رفاقت کے دوران وہ ایک دوسرے پر مسیح کی محبت آشکارہ کرتے جو اپس نے انہیں ودیعت کر رکھی تھی۔ وہ اپنے بے غرض کلام اور کام سے دوسرون کے دلوں میں اس محبت کو متحرک کرنے کی بھرپور جدو جہد کرتے۔ IKDS 513.1

    اسی محبت کو ایمانداروں نے اپنے دل میں پالنا پوسنا اور اسکی پرورش کرنا تھی ۔ انہیں رضاکارانہ طور پر مسیح کے حُکم کو ماننے کے لئے آگے بڑھنا تھا۔ انہیں مسیح یسُوع کے ساتھ اس قدر متحد ہونا تھا جو انہیں اس کے تمام مطالبات کو پورا کرنے کے قابل بنا سکے۔ انہیں اپنی زندگیوں کو نجات دہندہ کی قوت اور قدرت کو بزرگی دینا تھی جو انہیں اسکی راستبازی سے راستباز ٹھہرانے کی قدرت رکھتی ہے۔ IKDS 513.2

    مگر بتدریج اس میں تبدیلی رُونما ہوئی۔ ایماندار ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنے لگے۔ دوسروں کی غلطیاں ڈھونڈنے، نکتہ چینی کرنے کے سبب وہ نجات دہندہ اور اسکی محبت سے عاری ہو گئے۔ انہوں نے بیرونی رسوم کو انجام دینے پر زیادہ توجہ دینا شُروع کر دی اور ایمان کی بجائے نطریات پر زیادہ توجہ دینے لگے۔ دوسروں کو قصور وار ٹھہرانے کے جنون میں وہ اپنی کمزوریوں اور قصوروں کو نظر انداز کرنے لگے۔ وہ برادرانہ محبت جو یسُوع مسیح نے ان کے دل میں ودیعت کی تھی اسے کھو بیٹھے۔ اس پر دُکھ اور افسوس کا مقام یہ کہ وہ اتنے بڑے نقصان سے بے خبر تھے۔ انہوں نے یہ محسوس ہی نہ کیا کہ شادمانی اور خوشی و مسرت ان کی زندگیوں سے خارج ہو رہی ہے اور اپنے دل میں خُدا کی محبت کو داخلہ نہ دینے کی وجہ سے وہ خود ہی اندھیروں میں بھٹکنا شروع کر دیں گے۔ IKDS 513.3

    یوحنا نے بروقت یہ پہچان لیا کہ کلیسیا سے برادرانہ محبت زوال پذیر ہو رہی ہے چنانچہ اس نے بھائیوں کو اس کی ضرُورت کی مسلسل ترغیب دی۔ اس کے خطوط جو اس نے کلیسیا کو لکھے اس خیال سے بھر پور ہیں۔ “محبت خُدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خُدا سے پیدا ہُوا ہے اور خُدا کو جانتا ہے۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ خُدا کو نہیں جانتا کیونکہ خُدا محبت ہے۔ جو محبت خُدا کو ہم سے ہے وہ اس ے ظاہر ہوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے سبب سے زندہ رہیں۔ محبت اس میں نہیں کہ ہم نے خُدا سے محبت کی بلکہ اس میں ہے کہ اس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کے لئے اپنے بیٹے کو بھیجا۔ اے عزیزو! جب خُدا نے ہم سے ایسی محبت کی تو ہم پر بھی ایک دوسرے سے محبت رکھنا فرض ہے۔”۱۔یوحنا ۷:۴۔۱۱ IKDS 514.1

    خاص وجہ جس کے لیے ایمانداروں کو اس محبت کا اظہار کرنا چاہئے اس کے بارے رسُول یوں رقمطراز ہے۔ “اے عزیزو! میں تمہیں کوئی نیا حُکم نہیں لکھتا بلکہ وہی پُرانا حُکم جو شروع سے تمہیں ملا ہے۔ یہ پرانا حُکم وہی کلام ہے جو تُم نے سُنا ہے۔ پھر تمہیں ایک نیا حُکم لکھتا ہوں اور یہ بات اس پر صادق آتی ہے کیونکہ تاریکی مٹتی جاتی ہے ور حقیقی نور چمکنا شُروع ہو گیا ہے۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نور میں ہوں اور اپنے بھائی سے عداوت رکھتا ہے وہ ابھی تک تاریکی میں ہی ہے۔ جو کوئی اپنے بھائی سے محبت رکھتا ہے وہ نُور میں رہتا ہے اور ٹھوکر نہیں کھانے کا۔ لیکن جو کوئی اپنے بھائی سے عدالت رکھتا ہے وہ تاریکی میں ہے اور تاریکی میں ہی چلتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ کہاں جاتا ہے کیوں کہ تاریکی نے اُس کی آنکھیں اندھی کر دی ہیں”۔ “کیونکہ جو پیغام تُم نے شُروع سے سُنا وہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں”۔ ۔۔۔۔۔۔ جو محبت نہیں رکھتا وہ موت کی حالت میں رہتا ہے۔ اور جو کوئی اپنے بھائی سے عدالت رکھتا ہے وہ خُونی ہے اور تُم جانتے ہو کہ کسی خُونی میں ہمیشہ کی زندگی موجود نہیں رہتی۔ ہم نے محبت کو اسی سے جانا ہے کہ اس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی اور ہم پر بھی بھائیوں کے واسطے جان دینا فرض ہے”۔ IKDS 514.2

    یہ دُنیا کی مخالفت نہیں جس سے مسیح کی کلیسیا کو سب زیادہ خطرہ ہے۔ بلکہ یہ وہ بدی ہے جو ایمانداروں کے دل میں پرورش پاتی ہے جو خود ان کی تباہی و بربادی اور خُدا کے کام میں باعث تنزلی ہوتی ہے۔ حسد، بغض، شک و شبہات ، عیب جوئی اور بدی کی قیاس آرائیوں سے زیادہ روحانی طور پا کمزور کرنے کا اور کوئی زیادہ ذریعہ موجود ہی نہیں۔ اور دوسری طرف یہ زور دار گواہی کہ خُدا نے اپنے بیٹے کو دُنیا کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے بھیجا جن پر کلیسیا مشتمل ہے اتحاد اور ہم آہنگی کا باعث ہے۔ مسیح کے پیروکاروں کا یہ حق اور شرف ہے کہ وہ یہ گواہی دیں۔ مگر ایسا کرنے کے لئے اُنہیں مسیح کے حُکم کو ماننا ہوگا۔ اُنکے چالچلن اور مزاج کا مسیح یسُوع کے مزاج اور چالچلن کے ساتھ مطابقت رکھنا ازحد ضروری ہے۔ IKDS 515.1

    میں تمہیں ایک نیا حُکم دیتا ہوں مسیح یسُوع نے فرمایا کہ جس طرح یں نے تُم سے محبت رکھی تُم بھی ایک دوسرے سے محبت رکھو۔ یوحنا ۳۴:۱۳ یہ اقتباس جس قدر خوبصورت ہے اسی قدر اس پر کم عمل کیا جاتا ہے۔ خُدا کی کلیسیا میں برادرانہ محبت کی شدید کمی ہے۔ بہتیرے ایسے ہیں جو مسیحی ہونے کا اقرار تو کرتے ہیں مگر اپنے بھائیوں سے محبت نہیں رکھتے۔ اور ان کے ارد گرد غیر مسیحی یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا ان کی اپنی زندگیوں میں بھی پاکیزگی کی تاثیر پائی جاتی ہے یا نہیں اور وہ فوراً ہی معلوم کر لیتے ہیں کہ مسیحیو ں کی زندگیوں میں بہت سی برائیاں کمزوریا ں اور نقاص موجود ہیں۔ وہ جلد دیکھ لیتے ہیں کہ یہ منافقت اور بے ثباتی کا شکار ہیں۔ غیر مسیحیوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دیں کہ یہ مسیحی جو یسُوع ناصری کے جھنڈے تلے جمع تو ہیں مگر ایک دوسرے سے کس قدر نفرت کرتے ہیں۔ تمام مسیحی ایک ہی خاندان کے افراد ہیں اور ابدی زندگی کے لئے سب کی ایک ہی مُبارک اُمید ہے۔ IKDS 515.2

    الہٰی محبت دل کو بہت ہی موثر اور دلپذیر التماس کرتی ہے کہ اسی محبت اور دلجوئی کا مظاہرہ کرو جس کا مسیح یسُوع نے کیا ۔ جو اپنے بھائی سے بے لوث محبت دکھائے گا اسی کے دل میں خُدا کے لئے سچی محبت ہو گی۔ حقیقی مسیحی، آزمائشوں اور تکلیفوں کے دوران اپنے دل کو بے لگام نہیں چھوڑےگا۔ وہ اپنے دل میں خطاوں کو گھسنے نہیں دے گا جو اس پر مایوسی یا پست ہمتی لائے اور نہ ہی وہ دل کو شیطان کے شکنجے میں پھنسنے دے گا۔ IKDS 516.1

    جنہیں مسیح کی محبت سے واقفیت نہیں وہ دوسروں کو اسکی محبت کا مزہ نہیں چکھا سکتے اور نہ انہیں زندگی کے چشمہ کے پاس لا سکتے ہیں۔ دل میں مسیح کی محبت دوسروں تک پہنچنے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ وہ ان کی گفتگو کے ذریعہ، نرمی اور حلیمی کے ذریعہ اور دوسروں کی زندگیوں کو سرفراز کرنے سے آشکارہ ہو جاتی ہے۔ مسیحی کارگزار جو اپنی خدمت میں کامیابی حاصل کرتے ہیں اُن کے لئے لازم ہے کہ وہ مسیح یسوع کو جانیں اور اُسے جاننے کے لئے اُنہیں اُسکی محبت کو جاننا ہو گا۔ آسمان میں اُن کے موزوں کار گزار ہونے کو ناپنے کا پیمانہ محبت ہو گی۔ IKDS 516.2

    ” ہم کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی محبت کریں”۔۱۔یوحنا ۱۸:۳۔ مسیحی سیرت کی تکمیل اُسی صورت میں ہوتی ہے جب دوسروں کی مدد کرنے اور اُنہیں برکت دینے کا عمل خود بخود اور مسلسل انسان کے اندر سے چشمہ کی طرح پُھوٹے۔ اور یہ محبت کا ہی کرشمہ ہے جو ایماندار کی رُوح کو اپنے بازہ میں گھیرے ہوئے ہے جس نے اسے زندگی بخش بنا رکھا ہے اور خُدا اسکی خدمت پر برکت بخشتا ہے۔ IKDS 516.3

    خُداوند کے لئے اعلیٰ اور بے پناہ محبت ا ور اپنے بھائی بندوں سے بے لوث چاہت ہی آسمانی باپ کی طرف سے سب بڑا تحفہ ہے۔ یہ محبت محض جذبات ہی نہیں بلکہ الہٰی اصول اور ضابطہ ہے جو ایک دائمی قوت ہے۔ اس محبت کو غیر مخصوص شدہ دل اسے کسی طرح بھی پیدا نہیں کر سکتا۔ یہ صرف اسی دل میں ملتی ہے جس میں یسُوع رہتا ہے۔ ہم اس لئے محبت کرتے ہیں کیونکہ اس نے پہلے ہم سے محبت کی۔ وہ دل جس کی تجدید فضل سے ہوئی ہے اس میں محبت کی حکمرانی ہے۔ یہ فضل یہ چالچلن کی اصلاح کرتا ہے، جذبات کو قابو میں رکھتا ہے اور محبت اور چاہت کے میلان کو جنم دیتا ہے۔ یہ محبت رُوح میں پرورش پاتی ہے، زندگی کو خوشگوار بناتی ہے اور اڑوس پڑوس میں رہنے والوں پر نہایت ہی شائستہ تاثر نچھاور کرتی ہے۔ IKDS 517.1

    یوحنا نے ایمانداروں کی بڑی ہی جانفشانی سے رہنمائی کی تاکہ وہ اُس کامرانی کو سمجھ سکیں جو محبت کی روح سے حاصل ہوتی ہے۔ مخلصی بخشنے کی یہ قوت دل کو بھرپور کر کے ہر ارادے پر کنٹرول کرتی اور اسکے مالک کو دُنیا کے ہر بُرے اثر سے بالا تر رکھتی ہے۔ اور جب اس محبت کو پوری حکمرانی کرنے کی اجازت دی جائے تو جس دل میں یہ محبت ہے اُس کا بھروسہ خداوند میں کامل ہو جاتا ہے۔ IKDS 517.2

    “اسی سبب سے محبت ہم میں کامل ہو گئی ہے تاکہ ہمیں عدالت کے دن دلیری ہو کیوں کہ جیسا وہ ہے ویسے ہی دُنیا میں ہم بھی ہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کر لیں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور ادل ہے” خداوند خُدا سے معافی اور رحم طلب کرنے کی شرائط بڑی آسان اور معقول ہیں۔ خداوند ہم سے کسی تکلیف دہ کام کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا تاکہ ہم اس سے معافی حاصل کریں۔ معافی پانے کے لئے ہمیں لمبے لمبے سفر کر کے یاتاترا نہیں کرنا اور نہ ہی اپنے گناہوں کے لیے ہمیں بہت بڑی رقم خداوند کی نذر کرنا ہے۔۔۔۔ بلکہ صرف یہ لکھا ہے جو کوئی اپنے گناہوں کا اقرار کر کے انہیں ترک کرے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔ اس کے گناہ معاف کئے جائیں گے۔ امثال ۱۳:۲۸۔۔۔ آسمانی عدالت میں خُداوند یسُوع مسیح اپنی کلیسیا کی شفاعت کر رہا ہے۔ جن کے لیے اس نے ان کی نجات کے لیے اپنے خون سے فدیہ دیا ہے۔ زمانے اور صدیاں اس کفارے کی افادیت میں کمی واقع نہیں کر سکتیں۔ نہ زندگی نہ موت، نہ بلندی نہ پستی خُدا کی جو محبت ہمارے خداوند یسُوع مسیح میں ہے اس سے ہمیں کوئی جُدا نہیں کر سکتا۔ اس لئے نہیں کہ ہم اسے بڑی مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں بلکہ اس نے ہمیں اپنے مضبوط ہاتھوں میں اچھی طرح پکڑا ہوا ہے۔ اگر نجات کا انحصار ہمارے کاموں پر ہوتا تو ہم کبھی بھی نہ پا سکتے مگر اس کا انحصار اس پر ہے جو تمام وعدوں کی پاسداری کرتا ہے۔ شاید ہماری گرفت ڈھیلی دکھائی دے مگر جب تک ہم اس کے ساتھ ایک ہیں ہمیں کوئی بھی اس کے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا۔ IKDS 517.3

    کئی سال گزرنے کے بعد جب ایمانداروں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہو گیا تو یوحنا اپنے بھائیوں کے لیے وفادار سے انتھک اور بے لوث خدمت کرتا رہا۔ کلیسیا پر یہ بڑی مصیبت کا وقت تھا۔ ابلیس کی فریب کاریاں ہر جگہ موجود تھیں۔ جھوٹے قاصدوں اور غلط جھگڑوں اور نااتفاقی نے ڈیرے ڈال لئے۔ بعض مسیحیوں نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ اسکی محبت نے ہمیں خُدا کی شریعت سے آزاد کر دیا ہے۔ بعض نے یہ سکھانا شروع کر دیا کہ یہودی رسوم کا ماننا ناگزیر ہے (ضروری ہے) اور وہ کہتے تھے کہ مسیح کے خون میں ایمان رکھے بغیر ہی صرف رسوم کی ادائیگی نجات کے لیے کافی ہے۔ جبکہ بعض مسیح یسُوع کو صرف ایک اچھا اور نیک انسان سمجھنے لگے اور اسکی الوہیت سے انکاری ہو گئے۔ کلیسیا میں ایسے بھی لوگ موجود تھے جو حقیقی مسیحی ہونے کا بظاہر دعویٰ تو کرتے تھے مگر اصل میں وہ دھوکے باز اور فریبی تھے، چنانچہ وہ انجیل اور مسیح کا عملی طور پر انکار کرتے تھے۔ گناہ کی زندگی بسر کرتے ہوئے وہ کلیسیا میں بدعتوں کو متعارف کرواتے تھے۔ لہٰذا بہتیرے دھوکے اور وسوسے کاشکار ہو گئے اور انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ سچی تعلیم اور عقیدہ کیا ہے۔ IKDS 518.1

    جب یوحنا نے ان برائیوں کو کلیسیا کے اندر گھستے دیکھا تو اس کا دل غم سے چھلنی چھلنی ہو گیا۔ اس نے فوراً بھانپ لیا کہ کلیسیا کو کیا خطرات در پیش ہیں چنانچہ اس نے بِلا توقف اس ہنگامی صورت حال کاسدِ باب کرنے کا تہیہ کیا۔ یوحنا رسُول کے خطوط میں محبت کی رُوح دھڑکتی ہے۔ اور ایسے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے محبت کی رُوشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر یہ خطوط لکھے ہیں۔ لیکن جب وہ ایسے لوگوں سے ملا جو خُدا کی شریعت کو توڑنے کے بعد بھی یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم بے گناہ ہیں تو اس نے بِلا جھجک اُن کو اس بھیانک دھوکے سے آگاہ کیا جس کے نرغے میں وہ پھنس چکے تھے۔ IKDS 519.1

    ایک بہن کو جو انجیل کی منادی میں معاون تھی اور شہرت کی مالکہ تھی اسے رسُول نے لکھتے ہوئے یوں فرمایا “بہت سے ایسے گمراہ کرنے والے دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں جو یسوُع مسیح کے مجسم ہو کر آنے کا اقرار نہیں کرتے۔ گمراہ کرنے والا اور مخالف مسیح یہی ہے۔ اپنی بابت خبردار ہوتا کہ جو محنت ہم نے کہ ہے وہ تمہارے سبب سے ضائع نہ ہو جائے بلکہ تُم کو پورا اجر ملے۔ جو کوئی آگے بڑھ جاتا ہے اور مسیح کی تعلیم پر قائم نہیں رہتا اس کے پاس خُدا نہیں۔ اگر کوئی تُمہارے پاس آئے اور یہ تعلیم نہ دے تو نہ اسے گھر میں آنے دو اور نہ سلام کرو۔ کیونکہ جو کوئی ایسے شخص کو سلام کرتا ہے وہ اس کے بُرے کاموں میں شریک ہوتا ہے”۔۲۔یوحنا ۷:۱۔۱۱ IKDS 519.2

    ہمیں بھی ان کے بارے ویسا ہی رویہ اختیار کرنے کا حق حاصل ہے جو مسیحی ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر خُا کی شریعت کو عدول بھی کرتے ہیں۔ اس موجود زمانہ میں بھی وہی برائیاں موجود ہیں جن سے ابتدائی کلیسیا کی برومندی کو خطرہ لاحق تھا، چنانچہ جو تعلیم رسُول نے دی ہے اسکی بڑی سرگرمی سے پاسداری کی جانی چاہئے ۔ وہ جو پاکیزگی اور تقدیس کے دعویدار ہیں وہ ہر جگہ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ “تُم میں محبت ہونی چاہئے” مگر حقیقی محبت اُن گناہوں پر پردہ پوشی نہیں کر سکتی جن کا اقرار کر کے توبہ نہ کی گئی ہو۔ جہاں ہمیں ان روحوں کو محبت دکھانا ہے جن کی خاطر مسیح یسُوع نے اپنی جان دی وہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ کسی بھی حالت میں ہمیں بدی سے سمجھوتہ نہیں کرنا اور نہ ہی ہمیں سرکش رُوحوں کے ساتھ اتحاد کرکے اسے محبت کا نام نہیں دینا ہو گا۔ خداوند اپنے لوگوں سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ان برائیوں کے خلاف غیر متزلزل کمر بستہ رہیں جو بربادی کا باعث ہیں۔ IKDS 520.1

    رسُول کی یہ واضح تعلیم ہے کہ جہاں ہم مسیحی شائستگی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کرتے ہیں وہاں ہمیں گناہ اور گنہگار سے بخوبی نپٹنا چاہئے اور یہ حقیقی محبت کے ہرگز منافی نہیں ہے۔ چنانچہ رسُول لکھتا ہے “جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شروع کی مخالفت ہی ہے۔ اور تُم جانتے ہو کہ وہ اس لئے ظاہر ہوا تھا کہ گناہوں کو اُٹھالے جائے اور اسکی ذات میں گناہ نہیں۔ جو کوئی اس میں قائم رہتا ہے وہ گناہ نہیں کرتا۔ جو کوئی گناہ کرتا ہے نہ اُس نے اُسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے”۔ IKDS 520.2

    مسیح کا گواہ ہوتے ہوئے یوحنا نہ تو کسی مناقشہ (نزاع۔جھگڑا) کا شکار ہوا اور نہ ہی تلخ بحث مباحثے میں اُلجھا۔ اُس نے وہی کچھ کہا جو کچھ وہ جانتا تھا اور جو کچھ اُس نے سُنا اور دیکھا تھا۔ اُس نے مسیح کی قربت میں وقت گزارا اور اسکی تعلیم کو سُنا اور بھرپُور انداز میں اُن معجزات کی گواہی دی جو اُس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ جس طرح یوحنا نے مسیح کی سیرت کی پاکیزگی، لطافت اور خُوبصورتی کو دیکھا، اس طر ح بہت ہی کم لوگوں نے اُسکی سیرت کی پاکیزگی کو دیکھا جہاں تک اس کا تعلق تھا تاریکی جاتی رہی اور حقیقی نور اس پر چمک رہا تھا، مسیح یسُوع کی زندگی اور موت کے بارے اسکی گواہی بڑی واضح مدلل اور زور دار تھی۔ مسیح یسُوع کی محبت کی بُہتات اُسکے دل سےخود بخود چشمہ کی طرح پھُوٹ رہی تھی اور اُس کے سامنے بند باندھنا کسی کے بس کا روگ نہیں تھا۔ IKDS 520.3

    اس نے فرمایا “جو شُروع سے تھا اور جسے ہم نے سُنا اور اپنی آنکھوں سے دیکھا بلکہ غور سے دیکھا اور اپنے ہاتھوں سے چُھوا۔ (زندگی کے کلام کو) جو کچھ ہم نے دیکھا اور سُنا ہے تمہیں بھی اُس کی خبر دینے ہیں۔ تا کہ تُم بھی ہمارے شریک ہو اور ہماری شراکت باپ کے ساتھ اور اس کے بیٹے یسوُع مسیح کے ساتھ ہے ۔ IKDS 521.1

    ہماری دُعا ہے کہ ہر ایک حقیقی مسیحی اپنے تجربہ سے یہ مہر ثبت کرنے کے قابل ہو سکے “جس نے اس کی گواہی قبول کی اس نے اس بات پر مہر کر دی کہ خُدا سچا ہے” چنانچہ جو کچھ کسی نے دیکھا اور سُنا اور یسُوع کی قُوت اور قُدرت کو محسُوس کیا ہے اُسی کی گواہی دے۔ IKDS 521.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents