Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۱۱ - سامریہ میں انجیل کی منادی

    اعمال باب ۸

    ستفنس کی موت کے بعد ایمانداروں کے خلاف اس قدر ظُلم ہُوا کہ “سب لوگ یہودیہ اور سامریہ میں پراگندہ ہو گئے۔ اور ساول کلیسیا کو اس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گھُس کر اور مردوں اور عورتون کو گھسیٹ کر قید کراتا تھا۔۔۔۔۔۔ اس ظلم کے بارے ساول نے خود یوں اقرار کیا۔۔۔۔ “میں نےبھی سمجھا تھا کہ یسوع ناصری کے نام کی طر ح طرح سے مخالفت کرنا مُجھ پر فرض ہے۔ چنانچہ میں نے یروشلیم میں ایس ہی کیا۔ اور سردار کاہنوں کی طرف سے اختیار پا کر بہت سے مُقدسوں کو قید میں ڈالا اور جب وہ قتل کئے جاتے تھے تو میں بھی یہی رائے دیتا تھا۔ اور ہر عبادت خانہ میں اُنہیں سزا دلا دلا کر زبردستی اُن سے کُفر کہلواتا تھا۔ بلکہ اُن کی مخالفت میں ایسا دیوانہ بنا کہ غیر شہروں میں بھی جا کر اُنہیں ستاتا تھا”۔ اعمال ۹:۲۶-۱۱ IKDS 93.1

    ظلم اور مصیبت کے اُس وقت نیکدُیُمس بڑی دلیری کے ساتھ نجات دہندہ مسیح مصلُوب کی گواہی کے لئے آگے بڑھا۔ نیکدُیُمس یسوع کو قبول کرنے سے ہچکچارہا تھا۔ تین برس تک اُس نے صداقت کو اپنے سینے میں چھپائے رکھا۔ جس کا کوئی پھل نظر نہ آیا۔ جب تک نیکدُیُمس نے مسیح یسوع کا اعلانیہ اقرار نہیں کیا تھا اُس وقت تک وہ سنہیڈرن کونسل میں رہ کر کاہنوں کی مسیح کو مصلُوب کرنے کی سکیموں کو ناکام بناتا رہا۔ لیکن جب آخر کار اُسے صلیب پر لٹکا دیا گیا تو نیکدُیُمس کو وہ باتیں یاد آئیں جو کوہِ زیتوں پر رات کے وقت ایک ملاقات میں مسیح یسوع نے اُسے بتائی تھیں۔ “اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طرح ضرُور ہے کہ ابن آدم بھی اونچے پر چڑھایا جائے”۔ یوحنا ۱۴:۳ نیکدُیُمس نے “مسیح میں” نجات دہندہ کو دیکھا۔ IKDS 93.2

    یوسف ارمتیاہ کے ساتھ مل کر نیکدُیُمس نے مسیح یسوع کے کفن دفن کے تمام اخراجات برداشت کئے۔ شاگرد کھل کر دُنیا کو بتانے سے ڈرتے تھے کہ وہ مسیح یسوع کے پیروکار ہیں۔ مگر نیکدُیُمس اور یوسف بڑی دلیری کے ساتھ ان کی مدد کو آئے۔ تاریکی کی گھڑیوں میں ان دو معتبر، بارُسوخ اور صاحب ثروت حضرات کی اشد ضرورت تھی۔ یہ دونوں حضرات اپنے مرحُوم آقا کے لئے وہ سب کچھ کر سکتے تھے جو ان نادار شاگردوں کے لئے ناممکن تھا۔ لہٰذا ان کی دولت اور عزت و وقار نے شاگردوں کو کاہنوں اور سرداروں کی نفرت اور تکرار سے بڑی حد تک محفوظ کر لیا۔ IKDS 94.1

    اور اب جب کہ یہودی ابتدائی کلیسیا کو برباد کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو نیکدُیُمس ہی اُس کے دفاع کے لئے آیا۔ شاگردوں سے پُوچھ گچھ اور (اختیار والوں کی طرف سے) تنبیہ کا سلسلہ زیادہ دیر تک نہ رہا۔ اُس نے شاگردوں کے ایمان کو حوصلہ بخشا اور اپنے روپے پیسے کو بے دریغ خرچ کیا تاکہ یروشلیم میں انجیل کی منادی پھیل جائے۔ وہ صاحب اختیار جو پہلے نیکدُیُمس کی عزت کرتے تھے اب اُسے حقارت سے دیکھنے اور ستانےلگے۔ نیکدُیُمس دنیاوی مال و دولت کے لحاظ سے وہ غریب ہو گیا۔ اس کے باوجود اُس کے ایمان میں سر مو فرق نہ آیا۔ اور اُس نے ہر طرح اپنے ایمان کا دفاع کیا۔ IKDS 94.2

    وہ ظُلم جو یروشلیم میں برپا ہوا اُس نے انجیل کے کام کو آگے بڑھنے کے لئے اچانک متحرک کر دیا۔ یروشلیم میں کلام کی منادی بڑی کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور اب خطرہ تھا کہ کہیں شاگرد یروشلیم میں ہی بہت زیادہ عرصہ تک ٹکے نہ رہیں اور تمام دُنیا میں جانے کے حکم سے غافل نہ ہو جائیں جو نجات دہندہ نے اُنہیں دیا تھا۔ اس قوت کو بھولتے ہوئے جو تندہی سے خدمت کرتے ہوئے بدی کی مزاحمت کرنے کے لئے اچھی طرح حاصل ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچنے لگے کہ یروشلیم میں کلیسیا کو دُشمن کے حملہ سے محفوظ و مامون کرنے کے مقابلہ میں کوئی اور کام اتنا اہم نہیں۔ نئے ایمانداروں کو یہ تعلیم دینے کی بنائے کہ وہ انجیل کی خُوشخبری اُن تک پہنچائیں جنہوں نے ابھی تک نہیں سُنی، شاگرد اس خطرے میں تھے کہ وہ اُسی کامیابی پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں جو وہ حاصل کر چکے ہیں۔ چنانچہ خداوند نے اپنے نمائندوں کو دُور و نزدیک بھیجنے کےلئے جہاں وہ دوسروں کی خدمت کر سکیں، اُن پر ایذا اور ظُلم کو برپا ہونے دیا۔ یروشلیم سے نکالے جانے کے بعد ایماندار ہر جگہ “کلام کی خوشخبری دیتے پھرے” ۔ اعمال ۴:۸IKDS 94.3

    جن کو مسیح یسوع نے یہ حکم دیا تھا “تُم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناو” (متی ۱۹:۲۸) اُن میں معمولی مردوزن شامل تھے جنہوں نے اپنے آقا کو پیار کرنا سیکھ لیا تھا اور اُنہوں نے اس کی بے لوث خدمت کا نمونہ اپنانے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔ ان سادہ لوگوں اور شاگردوں کو جو نجات دہندہ کے ساتھ زمینی خدمت کے دوران رہے تھے نہایت ہی قیمتی اعتماد حاصل ہوا تھا وہ مسیح کے ذریعہ دُنیا تک نجات کی خوشخبری پہنچانے کو تھے۔ جب وہ ایذا اور ظلم کے سبب پراگندہ ہوئے تو وہ مشنری جوش و جذبہ سے معمور ہو کر آگے بڑھے۔ اُنہوں نے اپنے مشن کی ذمہ داری کو محسُوس کیا۔ وہ جانتے تھے کہ اُن کے ہاتھ میں فاقہ زدہ دُنیا کے لئے زندگی کی روٹی ہے اور وہ مسیح کی محبت کے تحت مجبُور کو شفا ملی اور غریبوں کو انجیل کی خوشخبری سنائی گئی۔ IKDS 95.1

    فلپس جو سات ڈیکنیز میں سے ایک تھا وہ بھی اُن بھائیوں میں شامل تھا جنہیں یروشلیم چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ اور وہ شہر سامری میں جا کر لوگوں میں مسیح کی منادی کرنے لگا اور جو معجزے فلپس دکھاتا تھا لوگوں نے اُنہیں سُن کر اور دیکھ کر بالاتفق اُس کی باتوں پر جی لگایا۔ کیوں کہ بہتیرے لوگوں میں سے ناپاک رُوحیں بڑی آواز سے چلا چلا کر نکل گئیں اور بہت سے مفلوج اور لنگڑے اچھے کئے گئے اور اُس شہر میں بڑی خوشی ہوئی”۔ اعمال ۴:۸-۸ IKDS 95.2

    یعقوب کے کنویں پر سامری عورت کے ساتھ یسوع مسیح کا پیغام پھل لایا یسوع مسیح کی باتیں سن کر سامری عورت شہر کے لوگوں کے پاس جا کر یُوں کہنے لگی۔ ۔۔۔۔ “آو ایک آدمی کو دیکھو جس نے میرے سب کام مجھے بتا دئیے کیا ممکن ہے کہ مسیح یہی ہے” اور اُس شہر کے بہت سے سامری اس عورت کے کہنے سے اس پر ایمان لے آئے۔ اور اس سے درخواست کرنے لگے کہ ہمارے پاس رہ۔ وہ دور روز وہاں رہا۔ “اور اس کے کلام کے سبب سے اور بھی بہتیرے ایمان لائے”۔ یوحنا ۲۹:۴، ۳۹:۴-۴ IKDS 96.1

    اور جب اُس کے شاگردوں کو یروشلیم سے نکالا گیا تو اُن میں سے بُہتوں نے سامریہ میں پناہ لی۔ سامریوں نے انجیل کے پیغام کا دل سے خیر مقدم کیا۔ اور یہودی ایماندارون نے اُن میں سے بہتات سے فصل جمع کی جن کے وہ پہلے جانی دُشمن تھے۔ IKDS 96.2

    سامریہ میں فلپس کی خدمت نہائت ہی کامیاب ثابت ہوئی۔ چنانچہ اُس کی حوصلہ افزائی کے لئے خدا وند خدا نے اُسے یروشلیم مدد کے لئے بھیجا۔ تب وہ مسیح یسوع کے اس کلام کو مزید وضاحت کے ساتھ سمجھا کہ “لیکن رُوح القدس تم پر نازل ہو گا تو تُم قوت پاو گے اور یروشلیم اور تما یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے”۔ اعمال ۸:۱ فلپس ابھی تک سارمریہ میں ہی تھا جب اُسے آسمانی پیامبر نے پیغام دیا کہ “اُٹھ کر دکن کی طرف اُس راہ تک جاجو یروشلیم سے غزہ کو جاتی ہے۔۔۔۔ وہ اُٹھ کر روانہ ہوا” ۔ اعمال ۲۶:۸-۲۷۔۔۔۔ اُس نے اپنی بُلاہٹ کے لئے نہ سوال کیا اور نہ ہی حکم مانے میں چوں چراں کی۔ کیونکہ اپس نے خدا کی مرضی کے برعکس چلنے کے بارے عبرت حاصل کر لی تھی۔ IKDS 96.3

    “اور دیکھو ایک حبشی خوجہ آرہا تھا۔ وہ حبشیوں کی ملکہ کندا کا ایک وزیر اور اُس کے سارے خزانے کا مختار تھا۔ اور یروشلیم میں عبادت کےلئے آیا تھا۔ وہ ایک رتھ پر بیٹھا ہوااور یسعیاہ بنی کے صحیفہ کو پڑھتا ہوا واپس جا رہا تھا”۔ اعمال ۲۷:۸-۲۸ یہ حبشی اچھی پوزیشن پر فائض تھا اور بڑے اثر و رسوخ کا مالک تھا۔ خدا وند خدا نے دیکھا کہ جب یہ شخص ایمان لے آئے گا تو اُس روشنی کو جو یہ خود حاصل کرے گا دوسروں تک بھی پہنچائے گا۔ اور انجیل کے حق میں اپنا زیادہ سے زیادہ اثر و رسوخ کو کام میں لائے گا۔ خُدا کے فرشتے نور کے اس متلاشی کو دیکھ رہے تھے اور وہ نجات دہندہ کے پاس لایا گیا۔ رُوح القدس کی خدمت کے ذریعہ خُدا وند اُسے ایسے شخص کے پاس لایا جو نور تک اس کی رہنمائی کر سکتا تھا۔ IKDS 97.1

    فلپس کو ہدایت کی گئی کہ وہ حبشی خوجہ کے پاس جائے اور اُ س پیشنگوئی کی وضاحت کرے جو وہ پڑھ رہا تھا۔ “رُوح نے فلپس سے کہا کہ نزدیک جا کر اُس رتھ کے ساتھ ہولے” اعمال ۲۹:۸ جُونہی فلپس اُس کے قریب گیا تو اُس سے پوچھا “جو تُو پڑھتا ہے اُسے سمجھتا بھی ہے؟ اُس نے کہا یہ مجھ سے کیوں کر ہو سکتا ہے جب تک کوئی مجھے ہدایت نہ کرے؟ اور اُس نے فلپس سے درخواست کی کہ میرے پاس آ بیٹھ۔ کتاب مقدس کی جو عبارت وہ پڑھ رہا تھا یہ تھی کہ “لوگ اُسے بھیڑ کی طر ذبح کرنے کو لے گئے اور جس طرح برّہ اپنے بال کترنے والے کے سامنے بے زبان ہوتا ہے اُسی طرح وہ اپنا منہ نہیں کھولتا اُس کی پست حالی میں اُس کا انصاف نہ ہوا۔ اور کون اُس کی نسل کا حال بیان کرے گا؟ کیونکہ زمین پر سے اُس کی زندگی مٹائی جاتی ہے۔ خوجہ نے فلپس سے کہا میں تیری منت کر کے پُوچھتا ہوں کہ نبی یہ کس کے حق میں کہتا ہے؟ اپنے یا کسی دوسرے کے؟ پھر فلپس نے نجات کے بارے عظیم سچائی کا بیان کیا۔ “فلپس نے اپنی زبان کھول کر اسی نوشتہ سے شُروع کیا اور اُسے یسوع کی خوشخبری دی”۔ اعمال ۳۰:۸-۳۵ جب کتاب مقدس کی عبادت کا مفہوم سمجھایا گیا تو حبشی خوجہ کا دل خوشی سے لبریز ہو گیا۔ اور جب شاگرد بتانے سے فارغ ہوا خوجہ دی گئی روشنی کو قبول کرنے کو تیار پایا گیا کیوں کہ انجیل کو قبول کرنے کی راہ میں اس کا دنیاوی اعلیٰ رتبہ باعثِ رکاوٹ نہ ہوا۔ IKDS 97.2

    “اور راہ چلتے چلتے کسی پانی کی جگہ پہنچے۔ خوجہ نے کہا دیکھ پانی موجود ہے اب مجھے بپتسمہ لینے سے کونسی چیز روکتی ہے؟ پس فلپس نے کہا کہ اگر تُو دل و جان سے ایمان لائے تو بپتسمہ لے سکتا ہے۔ اُس نے جواب میں کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ یسوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے۔ پس اُس نے رتھ کو کھڑا کرنے کا حُکم دیا اور فلپس اور خوجہ دونوں پانی میں اُتر پڑے اور اُس نے اُس کو بپتسمہ دیا۔ جب وہ پانی میں سے نکل کر اُوپر آئے تو خُدا وند کا رُوح فلپس کو اُٹھا لےگیا۔ اور خوجہ نے اُسے پھر نہ دیکھا کیونکہ وہ خوشی کرتا ہوا اپنی راہ چلا گیا۔ اور فلپس اشدُود میں آ نکلا اور قیصریہ میں پہنچنے تک سب شہروں میں خوشخبری سُناتا گیا”۔ اعمال ۳۶:۸-۴۰ IKDS 98.1

    یہ حبشی اُس بڑی جماعت کو نمائندگی کرتا ہے جسے فلپس جیسے مشنریوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسے مشنری جو خُدا کی آواز کو سُنیں اور جہاں وہ اُنہیں بھیجے جائیں۔ بہتیرے ہیں جو کلام مقدس کا مطالعہ تو کرتے ہیں مگر اُس کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھتے۔ تمام دُنیا میں مردوزن بڑی تمنا کے ساتھ آسمان ی طرف دیکھ رہے ہیں۔ فضل، رُوح القدس اور روشنی کے لئے دعائیں اور آنسو، درخواستیں ، خواہشمند رُوحوں کی جانب سے آسمان کی طرف جاتی ہیں۔ بہتیرے ایسے ہیں جو بادشاہی کے کنارے کھڑے ہیں اور اُن کی خواہش ہے کہ کوئی آ کر اُنہیں بادشاہت کے دُوسرے فرزندوں کے ساتھ ملا دے۔ IKDS 98.2

    فرشتہ نے فلپس کی اُس شخص تک پہنچنے میں رہنمائی کی جو نور کا متلاشی تھا اوع جو انجیل کو قبول کرنے کے لئے تیار تھا۔ آج فرشتے اپن کارگزاروں کے قدموں کی رہنمائی کرنا چاہتے ہیں جو رُوح القدس کو اپنی زبانیں پاک اور دلوں کو راست بنانے کی اجازت دینے ہیں۔ وہ فرشتہ جو فلپس کے پاس بھیجا گیا وہ خود بھی حبشی خوجہ کے لئے خدمت انجام دے سکتا تھا، مگر خُدا اس طرح کام نہیں کرتا یہ اُس کی تجویز ہے کہ آدمی اپنے بھائی بندوں کے لئے خود کام کریں۔ IKDS 99.1

    وہ صداقت، قوت اور قابلیت جو پہلے شاگردوں کو دی گئی ہر زمانے کے ایمانداروں کو دی گئی۔ ہر شخص جس نے انجیل کو قبول کیا ہے اُس کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ اس صداقت کو دُنیا تک پہنچائے۔ خُدا کے ایماندار لوگ ہمیشہ جو شیلے مشنری رہے ہیں۔ اُنہوں نے اسکی عزت و جلال کے لئے اپنے ذرائع مخصوص کر دئیے اور اپنے توڑوں کو اُس کی خدمت کے لئے بڑی حکمت اور دانائی سے صرف کیا۔ IKDS 99.2

    ماضی میں مسیحیوں کی بے لوث خدمت ہمارے لئے مشعل راہ ہونی چاہیے۔ خدا کی کلیسیا کے لوگوں کو بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ دُنیا کی خواہشات سے الگ ہو کر اُس کے نقش قدم پر چلیں جو بھلائی کرتا رہا۔ جو حاجتمند ہیں اُن کے لئے دلوں میں ہمدردی اور رحم پیدا کرکے اُن کی مدد کرنا چاہیے۔ اور گنہگاروں کو نجات دہندہ کی محبت کے بارے سکھانا چاہیے۔ ایسے کام بہت محنت طلب ہیں مگر ان کا صلہ بڑا ہی عظیم ہے۔ جو اس خدمت کو خلوص نیتی اور دل کی پاکیزگی سے کرتے ہیں وہ نجات دہندہ کے لئے رُوحوں کو ضرُور جیتیں گے۔ کیونکہ عملی طور پر الہٰی مشن کو پُورا کرنے کے لئے جو تاثیر نگرانی کرتی ہے اسکی مزاحمت ممکن ہی نہیں۔ IKDS 99.3

    اس مشن کی تکمیل کی ذمہ داری صرف مخصوص شدہ پاسبان پر ہی نہیں۔ ہر ایک شخص جس نے مسیح کو قبول کر لیا ہے اُسے یسوع مسیح کی طرف سے بُلاہٹ ہے کہ وہ اپنے بھائی بندوں کے لئے نجات کی خدمت انجام دے۔ “رُوح اور دُلہن کہتی ہیں آ اور سُننے والا بھی کہے آ”۔ مکاشفہ ۱۷:۲۲ یہ حُکم کلیسیا کے تمام افراد کے لئے ہے۔ ہر ایک جس نے اس دعوت کی آواز کو سن لیا ہے اُسے اس پیغام کو پربت پربت اور وادی وادی یہ کہتے ہوئے سنانا ہے کہ “آ”۔ IKDS 99.4

    یہ سوچنا سخت حماقت ہو گی کہ رُوحوں کو جیتنے کا کام صرف خادموں کا ہی ہے۔ حلیم فروتن اور مخصوص شدہ ایماندار جس کے شانوں پر تاکستان کے مالک نے رُوحوں کا بوجھ رکھتا ہے وہ اُن آدمیوں سے حوصلہ پاتا ہے جن کے کندھوں پر مسیح یسوع نے اس سے کہیں زیادہ بھاری ذمہ داریاں رکھی ہوئی ہیں۔ جو خُدا کی کلیسیا میں بطور لیڈر ہیں اُنہیں یہ محسوس کرنا چاہیے کہ مسیح یسوع کا حُکم اُن سبھوں کے لئے ہے جو اُس کے نام میں ایمان رکھتے ہیں۔ خُدا وند اپنے تاکستان میں بہت سی ایسی رُوحوں کو بھی بھیجے گا جو ہاتھ رکھنے سے خدمت کے لئے مخصوص نہیں ہوئیں۔ IKDS 100.1

    سینکڑوں بلکہ ہزاروں جنہوں نے نجات کا پیغام سُنا تھا وہ ابھی تک بازار میں بیکار کھڑے ہیں۔ جب کہ اُنہیں کسی بھی کار آمد خدمت کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ ایسوں کے لئے خُدا وند یسوع مسیح فرماتا ہے۔ “تُم کیوں یہاں تمام دن بیکار کھڑے رہے؟ وہ اس کے ساتھ اس بات کا اضافہ کرتے ہوئے فرماتا ہے “تُم بھی تاکستان میں چلے جاو”۔ متی ۶:۲۰۔۷ ایسا کیوں ہے کہ بہت سے اس بُلا ہٹ کا جواب نہیں دیتے؟ کیا اُن کو یہ بہانا مل جاتا ہے کہ وہ منبر (Pul Pit) پر کھڑے نہیں ہوئے؟ اُن کو معلوم ہونا چاہیے کہ پلیٹ (منبر) کے باہر بہت بڑا کام ہونے والا باقی ہے جو ہزاروں وقف شُدہ خُود پرور ممبران کو انجام دُنیا ہے۔ IKDS 100.2

    کافی عرصہ تک خُدا وند خُدا نے خدمت کی رُوح کا انتظار کیا ہے کہ وہ تمام کلیسیا کو اپنے قبضہ میں لے لے تاکہ ہر ایک اپنی قابلیت کے مطابق خُدا وند کے لئے خدمت انجام دے۔ جب خُدا کی کلیسیا کے لوگ اپنے وطن یا باہر (جہاں بھی ضرورت ہو) انجیل کے حُکم کی تکمیل میں اپنی اپنی ذمہ داریاں پُوری کریں گے تو تمام دُنیا کو جلد آگاہی مل جائے گی اور یسوع مسیح اس دھرتی پر بڑی قُدرت اور جلال کے ساتھ آجائے گا “اور بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہو گا”۔ متی ۱۴:۲۴ IKDS 100.3

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents