اب جس بات کا فیصلہ کرنا ہے وہ یہ ہے کہ جب بیوی دیکھتی ہے کہ اُس کے شوہر پر شہوت کا بھوت سوار ہے اور اگر اس کی عقل اور ادراک قائل ہو چکے ہیں کہ وہ اس عمل کو اپنے بدن کو نقصان پہنچا کر ہی کر سکتی ہے جس کو خدا نے اُسے بخشا ہے کہ وہ اسے پاکیزگی اور معزز طور پر محفوظ رکھے تا کہ وہ خدا کے لیے ایک زندہ قربانی ہو تو کیا اس صورت میں اسے اپنے خاوند کے مطالبات کے سامنے بغیر حیل و حجّت جھک جانا چاہیے؟ یہ خالص اور پاک محبّت نہیں جو بیوی کو اس کے خاوند کی حیوانی شہوت پرستی کی طرف مائل کرتی ہے کہ جس سے اس کی صحت اور زندگی خطرہ میں پڑ جائے اگر عورت مخلص محبّت اور حکمت کی مالکہ ہو تو وہ اپنے خاوند کے خیالات کو شہوت پرستی کی آسودگی سے ہٹا کر دلچسپ روحانی مضامین کا ذکر کرتے ہوئے اعلیٰ اور روحانی امور کی جانب مبذول کرے گی۔ شاید اسے حلیمی، فروتنی اور محبّت کی راہ سے منت و سماجت کرنا پڑے اور خاوند کی ناراضگی مول لے کر بھی کہے کہ مَیں اس افزوں شہوت پرستی میں پڑ کر اپنے کو اتنی ذلیل نہیں کر سکتی وہ بڑی الفت ، مہربانی اور شفقت سے اُسے یاد کرائے کہ اس کے سارے وجود پر خدا کا سب سے مقدم اور اوّل حق ہے اور کہ وہ اس حق کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتی۔ کیونکہ اُسے روزِ قیامت اس کا حساب دینا پڑے گا۔ CChU 193.3
اگر وہ محبّت کو سرفراز اور اپنی پاکدامنی کو بڑی پاکیزگی اور عزت سے محفوظ رکھے گی تو وہ اپنے خاوند کو اپنے عقلمندانہ اثر سے پاک کرنے میں بہت کچھ کر سکتی ہے اور ا،س طرح اپنے اعلیٰ عزائم کی تکمیل بھی کر سکتی ہے اور یُوں وہ اپنے شوہر اور اپنے آپ کو بھی بچا سکتی ہے اور دوہرے عمل کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ بڑا نازک ہے اور جس کا بڑی مشکل سے انتظام ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے زیادہ صبر اور حکمت کی ضرورت ہے اور اخلاقی جرأت اور جسارت کی بھی۔ طاقت اور فضل دعا ہی سے مل سکتے ہیں۔ دل پر خالص محبت کی حکمرانی کا اصول ہونا چاہیے۔ خدا سے محبت، شوہر سے محبت ہی کے عمل کے واحد صحیح مقام ہو سکتے ہیں۔ CChU 194.1
جب بیوی اپنے بدن اور دل و دماغ کو اپنے خاوند کے سپر د کر دیتی ہے اور اُس کی تابع ہو کر اپنی ضمیر، عصمت اور اپنی شخصیت تک برباد کر دیتی ہے تو وہ بھلائی کے اس زبردست اثر سے جس سے وہ اپنے شوہر کو سدھار سکتی ہے۔ ہاتھ دھو بیٹھتی ہے اسے اپنے شوہر کی سنگین فطرت کو ملائم کرنا چاہیے اور اپنے پاکیزہ اثر کو آراستگی اور پاکیزگی کے لیے استعملا کر کے اُسے اس راہ پر ڈالنا چاہیے کہ وہ اپنے جذباتِ حیوانی کو قابو میں لانے کی بڑی سرگرمی سے کوشش کرے اور زیادہ روحانی بنے تا کہ وہ دونوں اس بربادی سے جو شہوت پرستی میں پائی جاتی ہے۔ محفوظ ہو کر الٰہی خصلت میں شریک ہو جائیں۔ اثر کی طاقت اتنی زبردست ہے کہ وہ ادنیٰ اور جسمانی شہوت پرستی سے جس کے لیے وہ دل جس کی خدا کے فضل سے تجدید نہیں ہوئی آہیں بھرتا ہے دل و دماغ کو سرفراز کر کے اعلیٰ اور نیک مضامین کی طرف مبذول کر دیتا ہے۔ اگر بیوی محسوس کرتی ہے کہ اسے اپنے خاوند کی خوشنودی کے لیے ایسی ادنیٰ معیار پر بھی اُتر آنا چاہیے جبکہ حیوانی شہوت پرستی اس کی محبت کا بنیادی اصول ہے۔ اور اس کے اعمال پر غالب ہے تو وہ خدا کو ناراض کرتی ہے۔ کیونکہ وہ اپنے شوہر پر ایک پاکیزہ اثر ڈالنے میں ناکام رہتی ہے۔ اگر وہ سوچتی ہے کہ وہ کسی شکوہ کے بغیر اپنے خاوند کی شہوت پرستی میں شریک ہو جائے تو وہ نہ اپنے شوہر کے فرائض سے اور نہ خدا سے واقف ہے۔ CChU 194.2