خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنے فرض کی جو خدا نے شروع میں ا سکے لیے ٹھہرایا تھا تکمیل کرے۔ یعنی اپنے شوہر کے برابر ہو۔ دنیا کو صرف نام کی ماؤں کی ضرورت نہیں بلکہ ایسی ضرورت ہے جو ہر لحاظ سے مائیں ہوں۔ ہم یہ کہنے میں درست ہیں کہ عورت کے نمایاں فرائض آدمی کے فرائض سے زیادہ مقدّس اور زیادہ پاک ہیں۔ عورت کو چاہیے کہ وہ کام کے تقدس کا احساس کر کے خدا کی قوّت اور خوف میں اپنے زندگی بھر کے کام میں مشغول ہو جائے۔ اُسے چاہیے کہ وہ بچّوں کو اس زندگی میں بہتر فرائض انجام دینے اور آئندہ کی بہتر دنیا میں ایک اعلیٰ گھر کے حصول کے لیے تعلیم و تربیت دے۔ ماں یعنی بیوی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اپنی طاقت کو قربان کر کے اپنے قوأ کو سست اور کاہل بنا دے اور اپنے خاوند پر سرا سر انحصار رکھے اس کی انفرادیت اس کے خاوند کی انفرادیت میں تحلیل نہیں ہو سکتی۔ اسے خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے کاودن کے ہم پلہ ہے یعنی اس اس کے ساتھ کھڑے ہو کر وہ اپنے کام میں اور اپنے خاوند کے کام میں وفادار رہے۔ اپنے بچّوں کی تعلیم و تربیت میں اس کام کا ہر لحاظ سے اسی طرح سر بلند اور شریفانہ ہے۔ جیسے کہ اس کے خاوند کو کسی جگہ اعلیٰ کام کے لیے مدعو کیا جائے خواہ وہ قوم کا کوئی اعلیٰ تر درجہ کا کام کیوں نہ ہو۔ تخت نشین بادشاہ کا کام بھی ماں کے کام سے اعلیٰ تر نہیں ماں اپنے خاندان میں ملکہ ہے۔ اس کے ہاتھ میں بچّوں کے چال چلن کو ڈھالنے کا کام ہے تا کہ وہ اعلیٰ تر اور غیر فانی زندگی کے اہل ہوں۔ فرشتہ بھی اس سے کسی اعلیٰ تر کام کی التماس نہیں کر سکتا۔ کیونکہ اس کام کی تکمیل میں خدا کی خدمت انجام دے رہی ہے۔ اسے اپنے کام کی نوعیت کا احساس کرنا چاہیے۔ اس سے اُس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اُسے اپنے کام کی قدرومنزلت کا احساس کر کے خد اکے سارے ہتھیار پہن لینے چاہئیں تا کہ وہ دنیا کی نقل کرنے کے خلاف آزمائش کا مقابلہ کر سکے۔ اس کام کا حال اور مستقبل میں یعنی تا ابد ہے۔ CChU 203.2
اگر ازدواجی زندگی میں آدمی اپنی بیوی کو بچّوں کی خبر گیری کے لیے گھر پر چھوڑ کر جائیں تو وہ خاوند یعنی بچّوں کے باپ جیسا ہی بڑا اور اہم کام سر انجام دیتی ہے۔ بلا شبہ وہ بھی ایک مشنری علاقہ میں خاندانی مشنری کا کام سر انجام دے رہی ہے لیکن اس کی فکریں اور پریشانیاں اور تفکرات اس کے خاوند یعنی بچّوں کے باپ کے کام سے بہت زیادہ ہیں۔ ممکن ہے کہ باہر علاقہ میں لوگ خاوند کی تعریف کرتے ہوں اور گھریلو محنتی کو اس کی محنت و مشقت کے لیے کوئی عزت و تکریم حاصل نہ ہو لیکن اگر وہ بچّوں کے چال چلن کو خدا کی سیرت پر ڈھالنے کے لیے اپنے خاندان میں دلچسپی لے کر بہترین خدمت سر انجام دے رہی ہے۔ تو مقرر فرشتہ اپنی کتاب میں اس کا نام دنیا میں بہترین مشنری کے طور پر رقم کرتا ہے۔ خدا چیزوں کو ان نظروں سے نہیں دیکھتا جن سے محدود نظر انسان دیکھتا ہے۔ دنیا میں بگاڑنے والے اثرات کی کمی نہیں نوجوان فیشن اور دستور سے گہرا تاثر لیتا ہے اگر ماں اپنے بچّوں کو تعلیم و تربیت اور ہدایت و مشورات دینے میں ناکام رہتی ہے تو اس کے بچّے فطرتاً بدی کو پسند کر کے نیکی سے منہ موڑ لیں گے ہر ماں کو نجات دہندہ کے پاس یہ التماس لے کر جانا چاہیے۔ ”ہمیں سکھا کہ ہم بچّے کی کیسے تربیت کریں۔ اور ہمیں اس سے کیسا سلوک کرنا چاہیے۔“ اس کو خدا کے کلام میں مذکورہ ہدایت پر عمل کرنا چاہیے اور ضرورت کے مطابق اس کو حکمت ملے گی۔ CChU 204.1
ہر ماں کو سوچنا چاہیے کہ اس کے لمحات انمول ہیں اس کے کام کی پڑتال قیامت کے سنجیدہ دن میں ہو گی اس وقت ظاہر ہو گا کہ آدمیوں اور عورتوں کی کئی ناکامیوں اور جرائم کی جڑ ان اشخاص کی کہالت اور جہالت پر تھی جن کے ذمہ ان کے بچّوں کی صحیح صحیح تعلیم و تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی۔ اس وقت یہ بھی ظاہر ہو گا کہ ا یسے لوگ جنہوں نے اس دنیا کو اپنی ذہانت سچائی اور پاکیزگی سے مالا مال کیا ہے وہ ان اصول کے مقروض ہیں جو اِن کی دعا گو مسیحی ماں کی کامیابی اور اثر کے خاص مصادر تھے۔ CChU 205.1