نوجوان اس بات کو یاد کریں کہ وہ تمام حقوق کے لیے اپنے وقت کے صحیح استعمال اور اپنی قابلیت کے صحیح استعمال کے لیے جواب دہ ہیں۔ شاید وہ سوچیں کہ کیا ہمیں کسی قسم کی خوشی یا تفریح نہیں کرنا چاہیے؟ کیا ہم تبدیلی کے بغیر کام، کام اور کام ہی کرتے رہیں؟ (سی ۔ ٹی ۳۳۷) CChU 233.1
سخت جسمانی محنت میں جس میں طاقت پر شدید دباؤ پڑا ہو۔ کچھ آرام ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ آرام کے بعد پھر زور و شور سے اسی محنت و مشقت اور کام میں زیادہ زور سے لگ جائیں۔ جہاں تک اِس جسمانی طاقت کا تعلق ہے شاید مکمل آرام کی ضرورت نہ ہو بلکہ بہترین نتائج کے بغیر اس پر توجہ بھی نہ دی جائے گو کسی ایک کام سے تھک بھی جائیں تو بھی اپنے انمول لمحات کو ضائع نہ کریں۔ تبدیلی شغل کے لحاظ سے کسی دوسرے کام میں جو زیادہ تھکا دینے ولا نہ ہو ...... بلکہ جو ماؤں اور بہنوں کے لیے برکت کا باعث ہو ان کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے خیال سے خواہ مشکل بوجھ بھی اُٹھانا پڑے انہیں اس میں بھی خوشی حاصل ہو سکتی ہے جو اصول سے صادر ہونا ہے اور جس سے وہ حقیقی حظ اٹھا سکتے ہیں۔ اِس طرح ان کا وقت بیہودہ گپ شپ اور خود غرضی میں صرف نہ ہو گا بلکہ ہمیشہ مفید طور سے صرف ہو گا اور تبدیلی شغل سے تازہ ہوتے رہیں گے۔ پھر بھی وقت سے فائدہ اٹھائیں گے۔ اور اپنی مفیدگی کا ہر لمحہ دوسرے سے ذکر کرتے رہیں گے۔ (۳ ٹی ۲۲۳) CChU 233.2
اکثر اشخاص کہتے ہیں کہ جسمانی صحت اسی وقت ٹھیک رہ سکتی ہے جبکہ خود غرض خوشیوں میں شریک ہوں۔ یہ درست ہے کہ تبدیلی شغل جسم کی بہتری و بہبودی کے لیے ضروری ہے بلکہ دماغ اور بدن اس سے تازگی اور قوت پاتے ہیں۔ لیکن یہ مقصد روزانہ کے فرائض سے جن کو نوجوانوں کو سرانجام دینا چاہیے گریز کرنے سے حاصل نہیں ہو گا۔ (اے۔ ایچ ۵۰۸) CChU 233.3
خوشی اور تفریح کے لیے آرام اور سکون میں سب سے خطرناک سینما ہے۔ جیسا کہ اکثر کہا جاتا ہے سینما اخلاقیات اور نیکی کے بجائے بدکاری کی سرسبز زمین ہے۔ ایسی تفریحات سے گندی عادات اور گناہ آلودہ رغبتوں کو طاقت اور قیام حاصل ہوتا ہے۔ گندے گانے، شہوت پرستی کے اشارے، اظہار اور رجحانات تصوّر اور سوچ کو بگاڑتے ہیں۔ اور اخلاقیات کا بیڑہ ڈبو دیتے ہیں۔ ایسے مشاہدہ میں جانے والا ہر عادی نوجوان اصول تباہ برباد ہو جائے گا۔ ہمارے ملک میں خیال کو گندہ کرنے، اشتہا کو برباد کرنے، پُر سکون خوشی اور زندگی کو سنجیدہ قدروں کو برباد کرنے کے لیے سینما سے بُری کوئی چیز نہیں جس طرح شراب خوری کی عادت شراب پینے سے بڑھتی جاتی ہے۔ اسی طرح سینما میں ان تصویروں کو دیکھنے سے ان کی محبّت اور رغبت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سلامتی کی واحد راہ یہ ہے کہ سینما تھیٹر اور ایسی ہر قابلِ اعتراض تفریح سے گریز کیا جائے۔ (سی ٹی ۳۳۴، ۳۳۵) CChU 233.4
عیش پسندوں نے موجودہ دور کے رواجی نا چ رنگ کے دفاع کے لیے خدا تعالیٰ کی حضوری میں تعظیم و تکریم کے لیے حضرت داؤد کے ناچنے کو پیش کیا ہے۔ لیکن اس دلیل کو کوئی جواز نہیں۔ ہمارے دور کے ناچ رنگ کا تعلق حماقت، بے ہودگی، نیم شبی، عیش و عشرت اور مے نوشی کے ساتھ ہے۔ صحت و تندرستی اور اخلاقیات عیش و نشاط کی بھینٹ چڑھا دیئے گئے ہیں۔ ناچ گھروں اور مے کدوں کی بھر مار مقصد خدا کی سوچ اور تعظیم نہیں دعا اور حمد و ستائش کے گیت ان اجتماع میں بے محل سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہی جانچ فیصلہ کُن ہے۔ جس تفریح میں مقدّس چیزوں سے محبت میں کمی کا رجحان ہو اور جس سے خدا تعالیٰ کی خدمت کرنے میں خوشی کا فقدان ہو۔ مسیحی لوگوں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ عہد کے صندوق کی نقل مکانی کے وقت گانا بجانا اور خدا کی حمد و تعریف کرتے ہوئے خوشی اور رقص کی مثل کا موجودہ دور میں شائبہ تک نہیں ایک کا منشا خدا تعالیٰ کی حمد و تعریف یادگاری اور اس کے بزرگ نام کی سرفرازی تھا اور دوسرے کا منشا خدا کو فراموش کرنے اور توہین کرنے کے لیے شیطانی تجویز ہے۔ (پی پی ۷۰۷) CChU 234.1
نوجوان عموماً ایسی روش اختیار کرتے ہیں کہ گویا مہلت کے انمول لمحات جن میں خدا کا رحم وکرم ٹھہرا ہو ا ہے۔ ایک عظیم الشان تہوار ہے وہ سوچتے ہیں کہ وہ اس دنیا میں محض اپنی خوشیوں کے لیے موجود ہیں تا کہ وہ اپنے جوش و خروش سے حظ اٹھاتے رہیں۔ شیطان بر ابر خاص کوشش کرتا رہتا ہے کہ وہ نوجوانوں کو دنیاوی تفریحات میں خوشیوں کی تلاش میں لگائے رکھے۔ اور یہ ظاہر کرے کہ یہ تفریحات بے ضرر ہیں اور صحت و تندرستی کے لیے ضروری ہیں۔ (ٹی ۵۰۱) CChU 234.2
بہترے لوگ دنیاوی مخرب اخلاق تفریح میں بڑی خوشی سے شریک ہوتے ہیں۔ لیکن خدا ان تفریحات کی ممانعت کرتا ہے۔ اس طرح وہ خدا سے اپنا تعلق منقطع کر کے دنیا کے عیش پسندوں کےساتھ تعلق قا ئم کر لیتے ہیں۔ جن گناہوں نے قبل از طوفان لوگوں کو اور سدومؔ اور عمودہؔ کے شہروں کو تباہ و برباد کر دیا۔ آج بھی موجود ہیں نہ صرف غیر اقوام میں اور نہ اقراری مسیحیوں میں بلکہ ابنِ آدمؔ کے منتظر لوگوں میں سے بعض میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر خدا ان گناہوں کو جیسے کہ وہ اس کی نظر میں ہیں۔ آپ پر ظا ہر کرے تو آپ پر شرمندگی اور دہشت طاری ہو جائے گی۔ (۵ ٹی ۲۱۸) CChU 235.1
جوش و خروش اور عیش و نشاط کی تمنا ایک آزمائش ہے اور خدا کے لوگوں کے لیے عموماً اور نوجوانوں کے لیے خصوصاً ایک دام تزویر ہے شیطان ہر وقت ایسی ترغیبات کے گھڑنے میں مشغول رہتا ہے کہ جس سے وہ مستقبل قرب کے مناظر کے تیاری کے سنجیدہ کام سے توجہ ہٹا دے وہ بے دینوں کے ذریعہ سے ایک جذباتی سلسلہ مسلسل قائم رکھتا ہے تا کہ بے خبر انسان دنیاوی عیش و نشاط میں ڈھل جائے۔ سینما کے شو، تقریریں، اور تفریحات کے لا منتہا اقسام ہیں جن کا مقصد دنیاوی محبّت کی جانب توجہ مبذول کرنا ہے۔ دنیا کے ساتھ اتحاد سے ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ خدا عیش پسند شخص کو اپنا پیرو کار نہیں سمجھتا۔ خداوند کے پیروکار وہی لوگ ہیں جو خود انکار، پرہیز گار، فروتن اور پاک زندگی بسر کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کو دنیا پسندوں کی نکمی، اسفل اور ہلکی گفتگو سے خوشی نہیں ہوتی۔ (سی ٹی ۳۲۵، ۳۲۸) CChU 235.2
اگر آپ فی الحقیقت خداوند کے پیروکار ہیں تو آپ کو خداوند کے لیے گواہی کے مواقع ملیں گے۔ آپ کو تفریح طبع کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ اس وقت آپ کے لیے اپنے خداوند کے لیے گواہی دینے کا موقع ہو گا۔ اگر اس وقت آپ خداوند یسوعؔ کے وفادار ہیں تو اپنی عدم موجودگی کے لیے عذر پیش نہیں کریں گے۔ بلکہ بڑی صفائی سے کہیں گے آپ خدا کے فرزند ہیں اور آپ کے اصول اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ آپ ایک مرتبہ بھی ایسی جگہ جائیں جہاں آپ کے ساتھ آپ کا خداوند نہیں جا سکتا۔ (اے ۔ ایچ ۵۱۹) CChU 235.3
مسیحی تفریح کے لیے خداوند یسوعؔ مسیح کے پیروکاروں کی رفاقت اور عیش اور دنیاوی لوگوں کی تفریحات میں بڑا نمایاں فرق ہو گا۔ دعا میں خداوند مسیح اور مقدس چیزوں کے نام لینے کی بجائے دنیاوی عیش و عشرت کے پرستاروں کے لبوں سے ہرزہ گوئی، بے ہودہ مذاق، اور یاوہ گوئی سنائی دے گی۔ ان کا نظریہ ایک عام نشاطی دور ہے ان کی تفریح کا آغاز حماقت سے اور انجام بطلان میں ہوتا ہے۔ (اے ۔ ایچ ۵۱۲) CChU 235.4