جب ہم اپنے کسی بھائی کے خلاف کوئی بات سنتے ہیں تو اس بات کو گرفت کر کے سوال پوچھتے ہیں۔ ”اے خداوند تیرے خیمہ میں کون رہے گا؟ تیرے کوہِ مقدس پر کون سکونت کرے گا؟“ زبور نویس اس کا خود جواب دیتا ہے۔ ”وہ جو راستی سے چلتا اور صداقت کا کام کرتا اور دل سے سچ بولتا ہے وہ وہ جو اپنی زبان سے بہتان نہیں باندھتا اور اپنے دوست سے بدی نہیں کرتا اور اپنی ہمسایہ کی بدنامی نہیں سنتا۔“ (زبور ۱:۱۵۔) CChU 248.1
اگر ہر آدمی اس بات کا خیال کرتا کہ جو اس کے سامنے دوسرے کی بد نامی کرتے ہیں وہ موقع پا کر اس کی بھی دوسرے کے سامنے بدنامی کریں گے۔ تو ایسی گپ شپ اور بکواس کب کی بند ہو چکی ہوتی! ہمیں ہر شخص کی بابت اچھی سوچ رکھنا چاہیے۔ اور خصوصاً اپنے بھائیوں کے متعلق نیک خیال رکھنا چاہیے۔ ہاں اگر ہمیں اس کے برعکس سوچ پر مجبور کر دیا جائے ہمیں بُری خبروں کو جلد بازی سے قبول نہیں کرنا چاہیے۔ ایسی باتیں اکثر اوقات حسد یا غلط فہمی کا سبب ہوتی ہیں یا مبالغہ آمیزی یا تمام حقائق سے عدمِ واقفیت پر مبنی ہوتی ہیں۔ جب ایک دفعہ حسد اور شکوک کو دل میں داخل ہونے کا موقع فراہم کرایا تو یہ اونٹ کٹارے کے بڑھنے کی طرح نشر و اشاعت کرتے ہیں۔ اگر کوئی بھائی راہ سے بھٹک جائے تو آپ اس وقت اس میں فی الحقیقت دلچسپی ظاہر کریں۔ اس کے پاس جا کر بڑی محبّت اور پیار سے اس کے ساتھ اور اس کے لیے دعا کریں۔ خداوند مسیح کی گراں قیمت کو جو اس نے اس شخص کی مخلصی کے لیے پیش کی ہے یاد رکھیں اس طرح ایک جان کو موت سے بچا کر بہت سے گناہوں پر پردہ ڈال سکتے ہیں۔ CChU 248.2
یہ ممکن ہے کہ بدی کے ساتھ ایک جھلکی، ایک لفظ یا آواز کا لہجہ ایسا ہو جو کسی کے دل میں تیز تیر کی مانند چبھ جائے اور زخم لا علاج ہو جائے اس طرح ایک شک ، ایک بہتان کسی ایسے شخص پر لگایا جائے کہ جس کے وسیلہ سے خدا ایک اچھے کام کی تکمیل چاہتا ہے تو اس کا اثر پژمُردہ اور اس کی کارآمدگی برباد ہو جاتی ہے۔ حیوانات میں بعض ایسی جنسیں ہیں کہ اگر ان کا ایک رکن زخمی ہو کر گر جائے تو اس کےساتھی فوراً اس پر جھپٹ کر اُس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں اور ایسا ہی ظلم اور تشدد ایسے مرد اور عورتیں کر سکتی ہیں جو اپنے کو مسیحی کہتے ہیں وہ فریبانہ رویہ اختیار کر کے دوسرے کو جو ان سے کم مجرم ہوتا ہے۔ سنگسار کر دیتے ہیں۔ بعض ایسے بھی ہیں جو اپنی برائی اور بدی پر پردہ پوشی کے لیے دوسروں کی ناکامیوں اور نقائص کو دوسروں پر ظاہر کرتے پھرتے ہیں یا خدا تعالیٰ اور کلیسیا کے لیے اپنی مبینہ غیرت کے اظہار کے لیے ایسا کرتے پھرتے ہیں۔ (۵ ٹی ۵۸، ۵۹) CChU 248.3
خداوند میسیح کے خادموں کی نکتہ چینی اور ان کے کاموں کی عیب جوئی پر جو وقت صرف کیا جاتا ہے اس کو دعا اور مناجات میں بہتر طریقہ سے صرف کیا جا سکتا ہے اکثر اوقات دوسرے کی عیب جوئی کرنے والے اگر ان کے صحیح حالات سے جن کی وہ نکتہ چینی کرتے ہیں۔ واقف ہوتے تو ان کے خیالات اور اقوال ا ن کی بابت بالکل مختلف ہوتے۔ یہ کتنا بہتر ہوتا کہ دوسرے کی نکتہ چینی اور طعن و تشنیع کرنے کی بجائے ہر ایک کہتا ‘‘مجھے اپنی نجات کا کام کرنا ضرور ہے اگر میں خدا کے ساتھ جو میری روح کو بچانا چاہتا ہے مل کر کام کروں تو مجھے محتاط ہونا ضرور ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں سے ہر بدی کو منقطع کر دینا چاہیے مجھے خداوند مسیح میں نئی مخلوق بننا اور ہر خامی پر غلبہ پانا چاہیے۔ تب میں ان (بھائیوں) کو جو بدی کے خلاف مساعی جمیلہ میں مصروف ہیں کمزور کرنے کی بجائے حوصلہ افزائی کے کلام سے مضبوط کر سکتا ہوں۔ (۸ ٹی ۸۳، ۸۴) CChU 249.1