ہمیں اپنی پریشانیوں اور مایوسیوں کو اتنا غالبؔ نہیں آنے دینا چاہیے کہ وہ ہماری روح کو تباہ کر کے ہمیں بد خو اور جنگ جُو بنا دیں۔ پس جھگڑا رگڑا نہ ہو اور نہ بد خوئی اور بد خواہی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ حق تعالیٰ ناراض ہو جائے۔ میرے بھائی اگر آپ دل کو حسد اور بدخواہی کے لیے کھول دیں تو پاک روح اس میں نہیں رہ سکتا۔ خداوند مسیح یسوعؔ کی معموری کی تلاش کریں۔ اس کی سطور پر محنت کریں آپ کے ہر قول و فعل اور خیال سے خداوند کا جلال ظاہر ہو جس محبّت نے رسولوں کے ایّام میں سب کو یک دل کر دیا تھا۔ آپ کو بھی اس محبّت کا بپتسمہ روزانہ لینا چاہیے۔ اس محبّت سے بدن دماغ اور رُوح کو صحت حاصل ہو گی۔ اپنی روح کو روحانیت میں تقویت دینے والے ماحول سے محیط کریں۔ ایمان ، اُمید، حوصلہ اور محبّت کو پروان چڑھائیں تا کہ خد ا کا اطمینان آپ کے دل میں ہو (۸ ٹی ۱۹۱) CChU 249.2
حسد مزاج کی طرف ضد نہیں بلکہ اس کا بگاڑ ہے اور تمام قوأ اور اعضاء اس سے تاثر لیتے ہیں۔ اس کا آغاز شیطان سے ہوااس نے آسمان میں اوّل درجہ چاہا اور چونکہ وہ تمام شان و شوکت اور طاقت جس کی اس نے کوشش کی حاصل نہ کر سکا اس نے خدا کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی۔ اس نے ہمارے پہلے والدین سے حسد کر کے اُن کی آزمائش کی اور اُن کو گناہ میں ڈال دیا اور اس طرح ان کی تمام نسلِ انسانی کو تباہ و برباد کر ڈالا۔ CChU 250.1
حسد کرنے والا دوسروں کی اچھی خوبیوں اور کاموں سے اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ وہ ہمیشہ اعلیٰ ترین چیز کو بھونڈی شکل میں اور غلط رنگ میں پیش کرنے کے لیے تیار رہتا ہے۔ اکثر اوقات آدمی اپنے قصوروں کا اقرار کرتے اور ان کو ترک کر دیتے ہیں۔ مگر حاسد سے ایسی امید بہت کم ہوتی ہے چونکہ دوسرے سے حسدکرنے سے گویا یہ اقرار ہے کہ وہ اس سے بالا تر ہے اس لیے متکبر کوئی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔ اگر حاسد کو اس کے قصوروں کو منوانے کی کوشش بھی کی جائے تو وہ اپنے جذبات میں اور زیادہ سخت ہو جاتا ہے۔ اور اکثر اوقات لا علاج رہتا ہے۔ حاسد ہر جگہ اپنا زہر پھیلاتا جاتا ہے اور دوستوں کو دوستوں سے جدا کرتا اور خدا اور انسان کے خلاف بغاوت پھیلاتا رہتا ہے۔ اس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کو اس کی اپنی بہادرانہ اور خود انکارانہ کوشش سے نہیں بلکہ اسی جگہ جہاں وہ ہے دوسروں کی خوبیوں اور اوصاف کو نظر انداز کر کے اسے بہترین اور بلند ترین سمجھا جائے۔ شرارت کرنے والی اور بے ہودہ گو زبان کہتی ہے خبر لاؤ اور میں اس خبر کی تشہیر کر وں گی۔ رسول یعقوب ایسی زبان کے متعلق رقمطراز ہیں کہ وہ جہنم کی آگ کی طرح جلتی رہتی ہے۔ وہ ہرسُو آگ کے شعلے زن کرتی رہتی ہے۔ جھوٹی باتیں پھیلانے والے کو اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ وہ بے گناہ کو بدنام کرتا ہے؟ وہ پہلے ہی سے اپنے بوجھ کی چکی میں پسے ہوؤں میں امید اور حوصلہ کو برباد کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس کو صرف تہمت لگانے اور شرارت کے کام سے محبّت ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ مسیحی لوگ بھی ان باتوں سے جو پاک، شرافت کی اور پسندیدہ ہیں۔ اپنی آنکھیں بند کر کے قابلِ اعتراض اور اوندھی باتوں کو اکٹھا کر کے ان کو پھیلاتے رہتے ہیں۔ (۵ ٹی ۵۶، ۵۷) CChU 250.2