جب شادی بیاہ کا نتیجہ اتنا خراب ہوتا ہے تو پھر نوجوان کیوں عقلمند نہیں ہوتے؟ وہ کیوں ہمیشہ یہ محسوس کرتے رہیں گے کہ ان کو بڑوں اور زیادہ تجربہ کار بزرگوں کی مشورت کی ضرورت نہیں۔ تجارتی کاروبار میں مرد اور زن بڑی احتیاط سے کام کرتے ہیں کسی اہم کاروبار میں شریک ہونے سے پہلے وہ اس کام کے لیے تیاری کرتے ہیں۔ اِس مضمون پر وقت روپیہ پیسہ اور بڑے غور و خوض سے مطالعہ کیا جاتا ہے کہ کہیں اس کام میں انہیں ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے۔ CChU 164.3
شادی بیاہ کے رشتہ میں شریک ہونے کے لیے ان کو اس سے بہت زیادہ احتیاط اور غور و فکر کی ضرورت ہے یہ ایک ایسا رشتہ ہے کہ جس کا اثر آنے والی نسلوں اور آئندہ زندگی پر پڑتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس بسا اوقات اس رشتہ میں ہنسی ٹھٹھا، شیخی، جوش و جذبہ، شہوت پرستی کو تاہ بینی اور بے صبری سے شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک ہی تشریح ہے کہ شیطان دنیا میں بد بختی اور تباہی کو پسند کرتا ہے۔ وہ روحوں کو پھنسانے کے لیے اپنا جال ڈالتا ہے۔ وہ ان اشخاص کو جو اس دنیا میں اپنی خوشی سے اور آنے والی دنیا میں اپنے گھر بار سے محروم ہوں گے، دیکھ کر خوشی مناتا ہے۔ CChU 164.4
کیا بچّے اپنے والدین کے تصفیہ اور مشورے کے خلاف صرف اپنی تمناؤں اور خواہشات کی پیروی کریں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بعض بچّے نہ اپنے والدین کی خواہشات اور ترجیحات کا خیال کرتے ہیں اور نہ ان کی پختہ رائے کی پرواہ کرتے ہیں۔ خود غرضی نے اُن کے دلوں کو فرزندانہ اُلفت کے لیے بند کر دیا ہے۔ اس مسئلہ سے متعلق نوجوانوں کے دل و دماغ کو بیدار کرنا چاہیے۔ پانچواں حکم ہی ایک ایسا حکم ہے کہ جس کے ساتھ ایک وعدہ بھی ہے لیکن عشق اور لہو و لعب میں اس کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی۔ ایک ماں کی محبّت کی تحقیر اور ایک باپ کی فکر و تشویش کی تذلیل ہی ایسے گناہ ہیں جو بیشتر نوجوانوں کے خلاف آسمانی کتاب میں لکھے رہیں گے۔ CChU 164.5
اس مضمون سے متعلق ایک سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ نوجوان اور ناتجربہ کار اشخاص پسند نہیں کرتے کہ ان کے عشق و پیار میں دخل دیا جائے اور نہ ان کے عشق و محبّت کے تجربہ میں کسی طرح کی انگشت نمائی ہو۔ اگر کسی وقت بھی کِسی مضمون کے ہر پہلو پر غور و فکر کی ضرورت تھی تو وہ یہ مضمون ہے۔ اس مسئلہ پر دوسروں کی مدد معاونت اور د ونوں طرف اس مسئلہ پر خوب سوچ بچار کر کے اسے تولنے کی ضرورت ہے۔ بیشتر لوگ اس مضمون کو بہت ہلکا اور سُبک سمجھتے ہیں۔ نوجوان دوستو! اس مسئلہ پر دعا کریں، اپنے خدا ترس والدین سے مشورہ کریں۔ CChU 165.1
آپ پوچھتے ہیں ”کیا بیٹے یا بیٹی کی مرضی یا احساس کے بغیر والدین ایک ساتھی کا انتخاب کریں؟“ میں آپ سے جیسا کہ چاہیے سوال پوچھتی ہوں کیا آپ کے بیٹے یا بیٹی کو اپنے والدین سے مشورہ کیے بغیر ایک ساتھی کا انتخاب کرنا چاہیے جبکہ اس اقدام کا اثر مالی طور پر والدین کی خوشی پر پڑے گا۔ اگر ان کے دل میں اپنے بچّوں کے لیے محبّت ہے؟ اور کیا وہ چہ اپنے والدین کے نیک مشورے اور مِنت سماجت کو پس پشت ڈال کر اپنی مرضی پر چلے؟ اس کا جواب پُر زور طریقہ سے دیتی ہوں ۔ نہیں ہرگز نہیں وہ ایسی شادی ہرگز نہ کرے۔ پانچواں حکم ایسے طور و طریقہ کی ممانعت کرتا ہے۔ ”تو اپنے باپ اور اپنی ماں کی عزت کرنا تا کہ تیری عمر اس ملک میں جو خداوند تیرا خدا تجھے دیتا ہے دراز ہو۔“ یہاں ایک حکم ہے جس کے ساتھ ایک وعدہ بھی ہے جس کو خداوند یقیناً اپنے فرماں برداروں کے لیے پُورا کرے گا۔ عقل مند والدین اپنے بچّوں کے لیے ان کی خواہش کے خلاف کبھی کوئی ساتھی نہ چُنیں گے۔ CChU 165.2
والدین کو یہ سوچنا چاہیے کہ ان پر اپنے نوجوان بچّوں کی رہبری کرنے کا فرض عائد ہوتا ہے۔ اس لیے ان کے لیے مناسب ساتھیوں کا انتخاب کیا جائے۔ وہ اس بات کو فرض سمجھیں کہ انہیں اپنی تعلیم و عمل سے خدا کے فضل کی مدد سے اپنے بچّوں میں شروع ہی سے ایسے کردار کی تعمیر کریں کہ وہ پاک و نیک اور اچھے ہوں اور سچائی کی جانب مائل ہوں۔ جنس اپنی جنس کو کھینچتی ہے۔ جنس اپنی جنس کی مدد کرتی ہے۔ سچائی پاکیزگی اور بھلائی کے لیے شروع ہی سے محبّت پیدا کی جائے۔ اِس طرح نوجوان نیک کردار کے مالک معاشرہ کو پسند کریں گے۔ CChU 165.3