خدا نے شادی کی مقدس رسم کو مقرر کیا ہے اس میں خود غرض روح سے شامل نہیں ہونا چاہیے جو لوگ اس مقدس قدم کو اٹھانے پر غور و خوض کر رہے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ بڑی اہمیت اور سنجیدگی اور دُعا کے ذریعہ سے غور و خوض کریں۔ اور خدا سے حکمت مانگیں تا کہ ان کو معلوم ہو کہ آیا وہ خدا کی مرضی کے مطابق ہر قدم اٹھا رہے ہیں ۔ اس کے متعلق خدا کے کلام میں دی ہوئی ہدایت کو بڑی احتیاط سے پڑھیں۔ خدا اس شادی کو پسند کرتا ہے جو اس سنجیدہ خواہش سے کی جاتی ہے کہ وہ پاک نوشتوں میں مذکورہ ہدایت کے مطابق ہو۔ اگر کوئی ایسا مضمون ہے جس پر ٹھنڈے دل سے اور غیر جذباتی ادراک سے غور کیا جائے تو وہ شادی بیاہ کا مضمون ہے اگر بائبل مقدس کو مشیر کے طور پر لینے کے لیے کسی وقت بھی ضرورت پڑے تو وہ وقت اس قدم کو اٹھانے سے قبل ہے جس میں زندگی بھر کے لیے دو اشخاص آپس میں جوڑے جاتے ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ایسے جذبات پھیلے ہوئے ہیں کہ اس معاملہ میں جذبات کی تقلید کی جاتی ہے۔ اور بیشتر اوقات عشق سے مغلوب جذبات غالب آ کر یقینی تباہی و بربادی کی جانب رہبری کرتے ہیں۔ اسی معاملہ میں نوجوان کسی اور معاملہ کی بہ نسبت کم عقلی اور کم فہمی کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اسی معاملہ میں وہ عقل اور دلیل کو سننا پسند نہیں کرتے۔ بظاہر ان پر شادی کا بھوت سوار ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو خد اکے حوالے نہیں کرتے ہیں ان کے احساس زنجیر میں جکڑے جاتے ہیں۔ وہ خاموشی سے آگے بڑھتے ہیں انہیں ڈر ہوتا ہے کہ ان کے لائحہ عمل میں کوئی حائل ہو گا۔ بیشتر خطرناک بندرگاہ کی طرف تیرتے رہے ہیں۔ ان کو ایک اچھے ملاح کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ضروری مدد سے غفلت کر رہے ہیں ۔ وہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے جہاز کو صحیح سمت لے جانے کے اہل ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ وہ ایک پوشیدہ چٹان سے ٹکرانے کو ہیں جس سے ان کے ایمان اور خوشی کا جہاز غرق ہو جائے گا اور جب وہ خدا کے کلام کے مستعد طالب علم نہ ہوں۔ ان سے شدید غلطیاں سرزد ہوں گی جن سے نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آئندہ دنیا میں بھی بھی ان کی خوشیاں اور دوسروں کی خوشیاں بھی برباد ہو جائیں گی۔ CChU 163.1
اگر عورتیں شادی کے متعلق سوچنے سے پہلے دن میں دو مرتبہ دعا کرنے کی عادی ہیں تو جب وہ شادی کا قدم اٹھانے کے متعلق غور و فکر کر رہی ہیں تو ان کو دن میں چار دفعہ دعا کرنا چاہیے۔ شادی بیاہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے آپ کی زندگی نہ صرف اس دنیا میں بلکہ آئندہ دنیا میں بھی متاثر ہو گی۔ CChU 164.1
ہمارے زمانہ میں بیشتر شادیاں اور پھر جس طریقہ سے وہ منعقد کی جاتی ہیں، آخری زمانے کے نشانات میں سے ایک نشان بن جاتی ہیں۔ آدمی اور عورتیں اتنے کٹر مزاج اور سرکش ہیں کہ وہ خدا کو اس امر میں سے باہر کر دیتے ہیں اور مذہب کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں گویا کہ ان کا اس اہم اور سنجیدہ امر میں کوئی حصہ ہی نہیں۔ CChU 164.2