خُداوند یسوع مسیح نے اپنی زمینی زندگی کے دوران خُدا اور فطرت دونوں سے مسلسل رلبطہ رکھا۔ اس رفا قت کے زریعے اُس نے ہم پر ظاہر کیا کہ زندگی کی قوت کا راز کیا ہےَ؟ مسیح خُداوند بڑی دیایتداری سے مسلسل خدمت میں مگن رہتے تھے۔ اس دُنیا میں اس طرح ذمہ داریوں کو نبھانے والا ابھی تک کوئی پیدا نہ ہوا تھا۔ کسی نے بھی آج تک دُنیا کے گناہ اور غموں کا بوجھ برداشت نہ کیا تھا۔ کسی نے بھی اتنی جانفشانی سے بنی آدم کے لیے بھلائی نہ کی تھی۔ اس کے باوجود وہ تندرست توانا زندگی کا مالک تھا۔ روحانی اور جسمانی دونوں لحاظ سے وہ قربانی کے اُس برے کی نمائندگی کرتا تھا جو“بے داغ اور بے عیب ہو” 1 پطرس 19:1۔ وہ جسمانی اور روحانی طور پر مثا لی انسان تھا۔ ابتدا میں خُداوند خُدا کا یہی منشا تھا کہ بعداری اور شریعت کی پیروی کرکے تمام بشر ایسے ہی مثالی انسان بنیں۔ SKC 26.1
جب لوگ خُداوند مسیح کے چہرے پر نگاہ کرتے تو وہ خُدا کی محبت اور جلال کو دیکھتے۔ اُنہیں ایسے معلوم ہوتا جیسے روحانی فضا نے اسے چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ وہ اپنے شریف ونجیب رویہ کی بدولت اپنے سامعین کے دل موہ لیتا۔ اس نے کبھی بھی اس الٰہی قدرت اور طاقت کو جو اس میں چھپی ہوئی تھی بلاوجہ ظاہر نہ کیا۔ اپنی خدمت کے دوران وہ ایسے شریر اور ریا کارانسانوں کے درمیان گھرا رہا جو اس کی جان کے درپہ تھے۔ اُس کی جاسوسی کی جاتی۔ اُس کی ہر بات کو ہدف تنقید بنایا جاتا تاکہ کسی نہ کسی طرح اُس پر الزام لگائیں۔ اُس زمانے کے معلم اور عالی زات لوگ اُسے اُس کی باتوں میں پھنسا کر شکست دینا چاہتے تھے۔ مگر اُنہیں کبھی کوئی ایسا موقع ہاتھ نہ لگا۔ بلکہ انہیں ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی جب کہ گلیلی معلم کی شہرت اور عزت بڑھتی ہی رہی۔ مسیح خُداوند کی تعلیم سے وہ تازگی اور قوت صادر ہوتی تھی جس سے پہلے کوئی انسان واقف نہ تھا۔ حتٰی کہ اُس کے دشمنوں نے اقرار کیا “کہ انسان نے کبھی ایسا کلام نہیں کیا” یوحنا46:7۔ SKC 26.2
مسیح خُداوند کا بچپن عسرت اور غریبی میں گزرا۔ تاہم اس نے بدکار زمانے کی کوئی مصنوعی عادت نہ اپنائی۔ بڑھئی کی دکان پر کام کرتے، گھریلو زندگی کا بوجھ برداشت کرتے، محنت مشقت اور تا بعداری کا سبق سیکھتے ہوئے اس نے فطرت سے فطرت کے رازوں کے واقفیت حاصل کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بھرپور حظ اُٹھایا۔ جب وہ خُدا کے کلام کا مطالعہ کرتا اس کی خاشی کے لمحات بڑے پُر سکوں ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی خدمت کو انجام دے کر کھیتوں اور راحت بخش وادیوں کی جانب بڑھتا تو خُداوند کے گیان دھیان میں مگن ہوجاتا۔ اور یہ سلسلہ پہاڑوں کے دامن اورجنگل کے درختوں کے درمیان بھی جاری رہتا۔ صبح سویرے عموماً اُسے کسی تنہا جگہ خُدا کے کلام کا مطالعہ کرتے اور اس پر سوچ و بچار کرتے ہوئے دیکھا جاتا۔ صبح کی شعاعوں کو خُدا کی تعریف میں گیت گار کر خوش آمدید کہتا۔ شکرگزاری کے گیت گا کر وہ اپنی خدمت کے اوقات کو خوشگوار بنا دیتا جس سے تھکے ہارے مایوس اور پست ہمت لوگ تازگی اور مسرت محسوس کرتے۔ SKC 26.3
اپنی خدمت کے دوران خُدا وند مسیح کا زیادہ وقت دور کھلی فضاؤں میں گزرا۔ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پیدل ہی جاتا۔ اگر دیکھا جائے تو تعلیم دینے کا زیادہ تر کام اس نے کھلی فضا میں کیا اپنے شاگردوں کو تعلیم دینے کے لیے اُس نے شہروں کے ہنگاموں کو چھوڑ کر اکثر کھیتوں کا رُخ کیا۔ اس نے اپنی تعلیم میں ان کو سادگی، خُدا پر بھروسہ اور خود انکاری کا سبق دیا۔ یہ سلسلہ عموماً پہاڑوں کے دامن اور درختوں کے سایہ میں جاری رہتا۔ آپ کو یاد ہو گا یہ درخت اور خوبصورت پہاڑ گلیل کی جھیل سے تھوڑی ہی دور واقع تھے جہاں خُداوند مسیح نے بارہ شاگردوں کو بلا کر پہاڑی وعظ دیا۔ خُداوند یسوع مسیح اکثر لوگوں کا کھلے آسمان تلے، پہاڑوں کے دامن، یا ندی کے کنارے جمع کرکے تعلیم دیتا تھا۔ اس طرح وہ لوگوں کو دھیان مصنوعی چیزوں سے ہٹا کر فطرت کی حقیقی چیزوں کی طرف لگاتا تھا۔ فطرت کی نشوونما خُدا کی بادشاہی کے اصولوں کے بھید ظاہر کرتی ہے۔ جب ہم انسان پہاڑوں کی طرف اپنی آنکھیں اُٹھا کر اُس کے ہاتھ کی تمام کاریگری کو دیکھتے ہیں تو اس سے الٰہی سچائی کے بہت سے سبق سیکھتے ہیں۔ اساتذہ اپنے بچوں کو فطرت سے بہت اعلٰی سبق دے سکتے ہیں جو ان کے زہنوں کو وسیع کرنے اور دلوں میں اطمینان بھرنے کے لیے کافی ہیں۔ SKC 27.1
وہ شاگرد جو اس کے ساتھ ملکر خدمت کرتے تھے۔ خُداوند یسوع مسیح انہیں تھوڑی دیر کے لیے چھٹی دیتا تاکہ وہ اپنے گھروالوں کو مل سکیں اور آرام پائیں۔ مگر شاگرد باوجود بسیار کوشش کے نا کام رہے کہ مسیح اپنی خدمت چھوڑ کر اپنے عزیزوں کو ملے یا آرام فرمائے۔ جو بھی اس کے پاس آتا خُداوند یسوع مسیح اس کو پورا دن خدمت کرتا۔ مگر شام اور صبح سویرے وہ تنہا پہاڑوں پر چلا جاتا تاکہ اپنے باپ سے رفاقت کرے۔ لگاتار کام، دشمنوں کی کشمکش اور ربیوں کی جھوٹی تعلیم اکثر اسے اتنا پریشان کر دیتی کہ اس کی مقدسہ ماں، بھائی اور شاگرد سوچتے کہ اس کی زندگی بہت جلد تمام ہو جائے گی۔ مگر جو نہی وہ شام کا کام ختم کرکے اور اپنے باپ سے دعا کرکے لوٹتا تو اس کے چہرے پر وہ اطمینان ، تازگی دیکھی جاتی جس سے اُس کا پورا بدن طاقت سے بھرپور ہو جاتا ۔ خُداوند کے ساتھ رفاقت رکھنے کی بدلت وہ ہر صبح تازہ دم ہوکر بنی آدم کے سامنے آسمانی نور بکھیرتا ۔ اپنے پہلے مشنری سفر سے شاگرد ابھی لوٹے ہی تھے کہ خداوند مسیح نے انہیں ہدایت کی الگ جا کر تھوڑی دیر آرام کرلو۔ انجیل کی خوشخبری پھیلانے میں بڑی کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ مگر اُسی وقت انہیں ہیرودیس کے ہاتھوں یوحنا بپتسمہ دینے والی کی موت کی بھی خبرملی۔ یہ تو سخت مایوسی اور پریشانی کے لمحات تھے۔ مسیح خُداوند جانتا تھا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کو جیل میں مرنے کے لیے چھوڑ دینا شاگردوں کا بڑا امتحان تھا جو اُس نے لیا۔ وہ اُن کے چہروں پر غم اور اُداسی دیکھ سکتا تھا۔ اُس کی اپنی بھی آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں جب اُس نے فرمایا“تم آپ الگ ویران جگہ چلے آؤ اور ذرا آرام کرو” مرقس 31:6۔ SKC 27.2
بیت صدا کے نزدیک گلیل کی جیل کی شمالی جانب ایک غیرآباد علاقہ تھا۔ مگر وہ خوبصورت سبزہ زارمقام تھا۔ جہاں خُداوند یسوع مسیح اور اُس کے شاگرد اکثر جایا کرتے تھے۔ اس مقام سے وہ کشتیوں میں بیٹھ کر جھیل کے دوسرے کنارے جاتے۔ جہاں پر وہ بھیڑ سے الگ ہو کر آرام پاتے۔ اس جگہ فریسیوں کی مداخلت سے بے نیاز ہو کر شاگرد یسوع سے تعلیم پاتے۔ ایسی جگہ وہ تھوڑی دیر کے لیے خُداوند خدا کی رفاقت کا حظ اُٹھاتے۔ SKC 28.1
خُداوندیسوع مسیح یہاں تھوڑی دیر کے لیے اپنے شاگردوں کے ساتھ تنہا ہوتا۔ مگر یہ لمحات اُن کے لیے بہت ہی قیمتی ہوا کرتے تھے۔ وہ باہم ملکر وہاں خوشخبری پھیلانے کے بارے سوچ و بچار کرتے۔ اور یہ بھی کہ کس طرح مزید موثرانداز میں وہ لوگوں تک رسائی کرسکتے ہیں۔ جن خُداوندیسوع میسح سچائی کے خزانے اُن پر نچھاور کرتے تو وہ امید اور ہمت اور الہٰی طا قت سے بھرپور ہو جاتے۔ با لآخر پھر بھیڑ ڈھونڈتی ڈھونڈتی اُن کو پالیتی۔ غالباً ہجوم کو معلوم ہوتا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ لہٰزا بھیڑ وہاں ہی پہنچ جاتی۔ خُداوند یسوع مسیح کا پاکیزہ دل ان بے تاب روحوں کی بڑی قدر کرتا تھا جو حقیقت میں سچائی کی پیاسی تھیں۔ سارا دن خُداوند یسوع اُن کی خدمت میں مشغول رہتا اور شام کو اُنہیں رخصت کرتا تاکہ اپنے اپنے گھر جا کر آرام پائیں۔ گو خُداوند یسوع مسیح نے اپنی پورری خدمت ناداروں کی بھلائی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ پھربھی اُس نے ضروری سمجھا کہ انسانوں سے تھوڑی دیر دور رہ کر خالق خُداوند سے رفاقت کا لطف اٹھائے۔ یوں وہ انسان اور اپنے باپ خُدا دونوں سے رابطہ منقطہ نہ کرتا۔ جب بھیڑ رخصت ہو جاتی تو اکیلا پہاڑوں میں چلا جاتا اور اپنی روح دُعا میں خُداوند کے حضور انڈیل دیتا ۔ وہ اُن دُکھی گنہگار انسانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنے باپ سے درخواست کرتا۔ جب خُداوند یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ فضل تو بہت ہے مگر مزدور تھوڑے ہیں تو اس نے اُنہیں یہ نہ کہا کہ فصل زیادہ ہے اس لیے کام کرنا بند کرو بلکہ یہ کہ فصل کے مالک کی منت کرو کہ وہ اپنی فصل کاٹنے کے لیے مزدور بھیجے۔۔۔۔ متی38:9۔ آج بھی خُداوندیسوع مسیح اپنے تھکے ماندہ مزدوروں کو کہتا ہے کہ تم بہت تھک چکے ہو۔ ان سے الگ ہو کر تھوڑی دیر آرام کر لو۔ اُسی طرح جیسے اُس نے اپنے شاگردوں سے فرمایا تھا۔ SKC 28.2
وہ تمام کارگزار جو خُداوند کی خدمت میں ہیں اُنہیں فطرت اورخُدا دونوں کے ساتھ رفاقت رکھنے کےلیے وقت نکالنے کی ضرورت ہے۔ پھر انہیں ایسی زندگی مہیا ہوگی جو دنیا مہیا نہیں کر سکتی۔ اور وہ خُدا کی مرضی کا ذاتی اور شخصی تجربہ حاصل کریں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ خُداوند شخصی طور سے ہم سب سے علیحدہ علیحدہ کلام کرے۔ جب باہر کا تمام شور شراہا دور ہوتا ہے تو خُداوند کی آواز بڑی صفائی سے سنی جا سکتی ہے۔ وہ فرماتا ہیے “خاموش ہو جاؤ اور جان لو کہ خُدا ہوں” زبور10:46۔ خُداوند کی خدمت کی تیاری کے لیے یہ بھید بڑا ہی موثر ہے۔ دنیا کے ہنگاموں، کام کی ذیادتی اور پریشانی میں خُداوند کے نور اور تسلی و تشفی کی فضا ہمیں اپنے بازوؤں میں گھیر لے گی۔ ذہنی اور جسمانی خزانہ ملے گا۔ ایسے شخص کی زندگی سے الہٰی قوت صادر ہو گی جو انسانوں کے دلوں تک رسائی کرے گی۔ SKC 29.1
*****