“وہ اپنے جی میں کہتی تھی کہ اگر صرف اُس کی پوشاگ ہی چھُو لُوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی” متی 21:9۔ یہ ایک غریب عورت تھی جس نے ایسا کہا۔ یہ وہ عورت تھی جو بارہ سال سے بیماری کے ہاتھوں دُکھ اُٹھارہی تھی۔ یہ بیماری اُس کا بہت بڑا بوجھ تھا۔ وہ اپنا سارا روپیہ پیسہ طبییوں کو کھلا چکی تھی مگر شفا یاب نہ ہو سکی۔ بلکہ اس کی بیماری لاعلاج قراردی گئی۔ جس وقت اس نے عظیم طبیب کے بارے سنا اس کے دل میں اُمید کی کرن پیدا ہوگئی اُس نے سوچا کہ اگر وہ خُداوند مسیح کے اتنا قریب ہو جائے کہ اس سے بات کر سکے تو یقیناً اُسے شفا مل جائے گی۔ خُداوند یسوع مسیح یا ئرکے گھر کی جانب جا رہا تھا۔ وہ یہودی معلم تھا اور اس نے درخواست کر رکھی تھی کہ یسوع آ کر اُس کی بیٹی کو شفا بخشے۔ اُس نے یوں عرض کیا تھا “ میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے تو آکر اپنے ہاتھ سے اس پر رکھ تا کہ وہ اچھی ہو جائے اور زندہ رہے” مرقس 23:5 یائر کی اس منت سے خُداوند یسوع کا دل بھر آیا اور وہ یائر کے ساتھ فوراً اس کے گھرکی طرف چل پڑا۔ چونکہ بھیڑ نے مسیح خُداوند کو چاروں طرف سے دبا رکھا تھا اس لیے آہستہ آہستہ جا رہا تھا۔ خُداوند یسوع مسیح اس جگہ آ کر رُک گیا جہاں وہ بیمار عورت کھڑی تھی۔ کئی بار وہ مسیح خُداوند کے قریب جانے کی بیکار کوشش کر چکی تھی۔ اب تو اُسے موقع مل گیا۔ مگر اُس نے دیکھا کہ یہاں تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بات کا کوئی موقع نہیں اس نے یہ بھی سوچا کہ یہ بھیڑ پہلے ہی بڑی آہستہ آہستہ چل رہی ہے اور اگر میں نے بات کرنا چاہی تو ان کی رفتار اور سست پڑجائے گی۔ مگر اٗس نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ بعض کو اس کا چوغہ چھونے سے شفا ہوگئی تھی۔ اس ڈر سے کہ وہ یہ موقع بھی ہاتھ سے نہ کھو دے آہستہ آہستہ مسیح خُداوند کی جانب یہ کہتے ہوئے بڑھی “کہ اگر میں اُس کی پوشاک ہی چھو لوں گی تو اچھی ہو جاؤں گی” SKC 30.1
خُدا وند مسیح اُس کے ذہنی خیالات اور کیفیت سے بوابی واقف تھا اس لیے وہ بھی اُسی طرف بڑھ رہا تھا جہاں وہ خاتون کھڑی تھی۔ اُس نے اُس کی ضرورت کو محسوس کیا اور اسی لیے وہ اس کی مدد کر رہا تھا کہ وہ اس کے ایمان کو کام میں لائے جو اُس میں موجود ہے۔ جب خُداوند یسوع مسیح کے پاس سے گزر رہا تھا تو اس خاتون نے اس کے چوغے کو چھولیا اوراُسی لمحہ اس نے شفا پا لی۔ اُس کی کمزوری اور درد اسی لمحہ جاتا رہا ۔ اور یہ اس کی زندگی کے آیمان کا بہت بڑا عمل تھا جس نے اس کی بیماری کو شفا میں بدل دیا۔ اس نے فوراً یہ محسوس کیا جیسے اُس کی نس نس سے برقی رو گزرگئی ہے۔ اور وہ مکمل صحت یاب ہو گئی۔ “کیوںکہ فی الفور اس کا خون بہنا بند ہوگیا اور اس نے اپنے بدن میں معلوم کیا کہ میں نے اس بیماری سے شفا پائی” مرقس29:5۔ پس وہ نیک خاتون جس کا دل شکرگزاری سے معمور ہو گیا تھا۔ اب اپنے اس مربی کا شکرادا کرنا چاہتی تھی جس کی پوشاک کا کنارہ ہی چھو کر اس نے شفا پائی تھی۔ اس مہربانی کا جس نے وہ شفا کا کام کیا جو بارہ برس میں دنیا کا کوئی طبیب نہ کر سکا۔ مگر اس میں یسوع کا سامنا کرنے کی ہمت نہ تھی۔ اس نے سوچا کہ وہ اس بھیڑ میں سے شکرگزار دل کے ساتھ چلی جائے۔ مگر اس سے پہلے وہ نیک خاتون بھیڑ میں سے نکل جائے مسیح خُداوند اچانک رُک گیا ۔ اور اِدھر اُدھر دیکھ کر پوچھا مجھے کس نے چھوا ہے؟ پطرس نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھنے ہوئے کہا “ اے صاحب لوگ تجھے دبا تے ارو تجھ پر گرے پڑتے ہیں” اور تو پوچھتا ہے کہ مجھے کس نے چھوا ہے۔ لوقل 45:8۔ “کسی نے مجھے چھوا تو ہے کیونکہ میں نے معلوم کیا کہ قوت مجھ سے نکلی ہے۔ لوقا 46:8۔۔۔۔۔۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بھیڑ کے عام چھونے اور ایمان سے چھونے میں فرق ہے۔ اور یہی امتتیاز خُداوند مسیح نے معلوم کر لیا تھا کہ کسی نے خاص مقصد کے لیے اُسے چُھوا ہے اور اُس نے اپنے من کی مراد پا لی ہے۔ SKC 30.2
خُداوند یسوع مسیح نے اپنی معلومات کے لیے یہ سوال نہ پوچھا تھا بلکہ عام ہجوم کے لیے اپنے شاگردوں اور شفا پانے والی خاتون کے لیے تاکہ سب جان جائیں کہ دُکھیوں اور بیماروں کے لیے ابھی اُمید باقی ہے۔ وہ ان کے دل میں اُمید کا دیا جلانا چاہتا تھا۔ وہ ان کو بتانا چاہتا تھا کہ اس خاتون پر ظاہر کرے کہ تیرے ایمان کا عمل شفا میں ظاہر ہوا ہے وہ اس خاتون پر ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ وہ اس کی کمزوری اس کے ایمان اور شفا کے بارے بخوبی واقف تھا۔ اور یہ جو کوئی ایمان رکھتا ہے خُداوند مسیح اس کے لیے سب کچھ کرنے پر قادر ہے۔ اسی لیے مذکورہ خاتون کی طرف دیکھتے ہوئے مسیح خُداوند نے بتکرار پوچھا کہ مجھے کس نے چھوا ہے؟ اور جب اس خاتون نے دیکھاکہ وہ چھپ نہیں سکتی تو کاپنتی ہوئی خُداوند مسیح کے سامنے آئی۔ اور اس کے قدموں میں گر پڑی اور شکرگزاری کے آنسو بہا کر بتانے لگی کہ اُس نے کیوں خُداوند مسیح کو چھوا۔ اور یہ بھی کہ اس نے اسی لمحہ شفا پا لی۔ وہ ڈرتی اس لیے تھی کہ شاید مسیح یسوع اس کی اس حرکت (چھونے کا عمل) سے ناراض ہوجائے۔ اس لیے اقرار پر ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح یسوع نے اسے بالکل نہ جھڑکا۔ بلکہ اس کے ایمان اور عمل کی تعریف کی ۔ ہمدردی اور محبت کی رو سے فرمایا “ بیٹی تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا سلامت چلی جا” اس کلام سے اُسے کتنی شاد مانی ہوئی ہو گی۔ اب وہ ہر طرح کے خوف و ہراس سے پاک ہو کر چلی گئی۔ مگر وہ لوگ جو محض تماش بین تھے۔ اور وہ لوگ جن کو تجسؔس نے گھیر رکھا تھا۔ جو یسوع مسیح پر گرے پڑے تھے اُں میں سے کسی کو بھی یہ زندگی بخش قوت میسر نہ آئی مگر صرف اس دُکھی نیک خاتون کو جو ایمان کے ساتھ اس کے پاس آئی اور شفایاب ہوئی۔ اس لیے روحانی زندگی میں ایسا ہی ہے۔ اگر ہم ایمان سے مسیح یسوع کو چُھوتے ہیں تو ضرور برکت پائیں گے۔ مگر ایمان کے بغیر اگر ہم اسے چھوئیں گے تو کچھ حاصل نہ ہو گا۔ محض مسیح یسوع کو دُنیا کی نجات دہندہ ماننے سے ہماری روح کی سچائی کو قبول کرنا نہیں۔ حقیقی ایمان وہ ہے جو شخصی طور پر مسیح خُداوند کو اپنا نجات دہندہ کے طور میں قبول کرنا “خُدا نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے” یوحنا 16:3۔ جب میں خُداوند کے کلام کے مطابق مسیح یسوع کے پاس آتا ہوں تو مجھے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ اس کے بچانے والا فضل مجھےے حاصل ہوگیا ہے۔ اور “جو زندگی اب میں گزارتا ہوں تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں جس نے مجھ سے محبت رکھی اور اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دیا” گلتیوں 20:2۔ بچانے والا ایمان ایسا راضی نامہ قانونی کاروائی ہے جس کے زریعے جو خُداوند یسوع مسیح کو اپنا لیتے ہیں وہ اس عہد کے ذریعے خُدا کے ساتھ مل جاتے ہیں۔ زندہ رہنے کا مطلب ہے یسوع کے فضل سے قدرت، فضل اور توکل میں بڑھتے اور نشوونما پاتے جانا۔ ایمان موت سے بھی طاقتور فتح ہے۔ اگر بیماروں کی نظریں ایمان کے ذریعے عظیم شفا بخشنے والے کی طرف مبذول کرا لی جائیں تو اس کے نہایت ہی حیران کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اس سے روح اور بدن دونوں میں زندگی آ جائے گی۔ SKC 31.1
جوبُری عادات کے شکنجے میں جکڑے ہیں ان کی توجہ اس تباہی و بربادی کی طرف مبذول نہ کرائیں جس کی طرف وہ دوڑے ہوئے جاتے ہیں۔ بلکہ خُداوند مسیح یسوع کے فضل کی طرف لگائیں۔ یوں اُن کی روح اور بدن خُداوند کے فضل سے بچ سکیں گے۔ انہیں کسی بھی حالت میں مایوس اور نہ اُمید نہ چھوڑیں اُن کی حوصلہ افضائی بڑھاتے رہیں۔ SKC 32.1