Go to full page →

آٹھواں باب - تُم نے مُفت پایا مُفت دینا SKC 59

انجیل کی خوشخبری کی دعوت صرف ان چند مخصوص لوگوں کے لیے نہیں ہے جن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں کہ دعودت کو قبول کر کے ہمیں شرف عزت بخشیں گے۔ یا جن سے ہمیں کچھ ذاتی فائدہ پہنچنے کا امکان ہو۔ یہ پیغام تو ہر کس وناکس کے پاس پہنچنا چاہیے۔ جب خُداوند اپنے بچوں کو برکت دیتا ہے تو برکات صرف ان ہی کے لیے نہیں ہوتیں، بلکہ تمام دنیا کی خاطر خداوند ان کو اپنی بر کات دیتا ہے۔ جب وہ اپنی نعمتیں ہمیں دیتا ہے تو ان میں اضافہ کرنے کے لیے ہمیں وہ نعمتیں دوسروں تک پہنچانا لازم ہے۔ SKC 59.1

وہ سامری عورت جس نے یعقوب کے کنویں پر خُداوند مسیح سے گفتگو کی۔ جب اس نے نجات دہندہ کو پا لیا تو فوراً دوسرے لوگوں کو خُداوند کے پاس لے آئی۔ وہ تو خُداوند مسیح کے اپنے شاگردوں سے بھی موثر مشنری ثابت ہوئی۔ شاگردوں نے سامریہ میں کوئی ایسی بات نہ پائی جو ان کی ہمت افزائی کا باعث ہوتی۔ ان کے خیالات اور دھیان اس بڑے کام پر جمے ہوئے تھے جو مستقبل میں ہونے کو تھا۔ اور وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ ان کے نزدیک ہی فصل تیار ہے جسے جمع کرنا ہے۔ مگر ایک عورت جس کو وہ حقارت کی نظر سے دیکتے تھے پورے شہر کو یسوع کے قدموں میں لے آئی تاکہ اس کی سنیں۔ جو نُور اس تک پہنچا تھا اس نے اپنے لوگوں تک پہنچا دیا۔ SKC 59.2

یہ عورت مسیح یسوع میں عملی ایمان کی اچھی مثال ہے۔ خُداوند کی بادشاہی میں ہر سچا شاگرد ایک مشنری ہوتا ہے۔ جس گھڑی وہ یسوع کو پا لیتا ہے اسی گھڑی وہ دوسروں کو یسوع مسیح سے واقف کرواتا ہے۔ وہ اس سچائی اور پاکیزگی کو جو یسوع سے حاصل کرتا ہے۔ اپنی تیئں محدود نہیں رکھتا۔ جو زندگی کے پانی میں سے پیتا ہے خود زندگی کا چشمہ بن جاتا ہے ۔ یعنی لینے والا دینے والا بن جاتا ہے۔ SKC 59.3

ہماری روح میں خُدا کا فضل ایسا ہے جیسے صحرا میں پانی کا ٹھنڈا میٹھا چشمہ جو پھوٹ پھوٹ کر سب کو تازگی بخشتا ہے۔ اور جو مرنے کےقریب ہیں ان کو زندگی بخشتا ہے۔ ایسا کرنے سے ہم بڑی برکت پاتے ہیں۔ وہ جو خُدا کا فضل پاتے ہیں خُداوند تعالٰی ان کے بارے میں یوں فرماتا ہے۔ SKC 59.4

” اور میں اُن کو اور اُن جہگوں کو جو میرے پہاڑ کے آس پاس ہیں برکت کا باعث بناؤں گا اور میں بروقت مینہ برساؤں گا۔ برکت کی بارش ہو گی۔ حزقی ایل 26:34۔ “پھر عید کے آخری دن جو خاص دن ہے یسوع کھڑا ہوا اور پکار کر کہا اگر کوئی پیاسا ہو تو میرے پاس آ کر پیے۔ جو مجھ پر ایمان لائے گا اس کے اندر جیسا کہ کتاب مقدس میں آیا ہے زندگی کے پانی کی ندیاں جاری ہوں گی” یوحنا 37:7-38۔ جو حاصل کرتے ہیں اُنہیں دوسروں کو دینا ہے ہر طرف سے “مدد کرو” “مدد کرو” کی پکاریں آتی ہیں۔ خُدا ہمیں بلاتا ہے کہ خوشی سے اپنے ہم جنسوں کی خدمت کریں۔ SKC 60.1

“کیا تم کہتے نہیں کہ فصل کے آنے میں ابھی چار مہینے باقی ہیں۔ دیکھو میں تم سے کہتا ہوں اپنی آنکھیں اُٹھا کر کھیتوں پر نظر کرو کہ فصل پک گئی ہے۔ اور کاٹنے والا مزدوری پاتا اور ہمیشہ کی زندگی کے لیے پھل جمع کرتا ہے۔ تاکہ بونے والا اور کاٹنے والا دونوں ملکر خوشی منائیں” یوحنا،35:4،36۔ SKC 60.2

تین سال تک خُداوند یسوع کا شاندار نمونہ شاگردوں کے سامنے رہا۔ ہر روز وہ اس کے ساتھ چلتے پھرتے گفتکو کرتے اس سے وہ تازگی بخش کلام سنتے جو فکروں تلے دبے ہوئے اور پریشان حال کو حوصلہ بخشتا۔ وہ اس کی اس قدرت کا بھی نظارہ دیکھتے جو وہ بیماروں اور تکلیف زدگان کے لیے استعمال میں لاتا اور جب اس کا شاگردوں سے جدا ہونے کا وقت آیا تو اس نے ان کے کاموں کو فضل اور قوت سے معمور کیا تاکہ جس کام کو اس نے شروع کیا تھا اس کے نام میں رواں دواں رکھ سکیں۔ اب انہیں اس کی محبت کی خوشخبری اور شفا کی کرنوں کو دور دور تک بکھیرنا تھا۔ خُداوند کا ان کے ساتھ وعدہ تھا کہ میں تمہیں تنہا نہیں چھوڑوں گا اور یہ سچ ہے کہ وہ روح القدس کے زریعے پہیلے سے یعنی جب وہ ظاہری طور پر ان کے ساتھ چلا پھرا کرتا تھا نزدیک تر ہو گیا۔ SKC 60.3

جو خدمت شاگردوں نے سر انجام دیں وہی خدمت ہمیں سرانجام دینا ہے۔ جن کو مدد درکار ہے ہمیں ہمدردی اور رحمد لی سے ان کی خدمت کرنا ہے۔ خود انکاری اور بے لوث محبت کے زریعے دکھی انسانیت کے مصائب کا بوجھ کم کرنا ہے۔ ہم سب ہی اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کر سکتے ہیں۔ کسی کو بھی یہ سوچنا نہیں چاہیے کہ وہ خُداوند یسوع مسیح کی خدمت کرنے کے لائق نہیں خُداوند یسوع مسیح ہر بشر کے ساتھ ہے۔ تاکہ اسے آسمانی خاندان کا فرد بنا دے۔ وہ خود زمینی خاندان (کلیسیا ) کا ممبر بنا۔ وہ ابن آدم ہے۔ یوں وہ ہر انسان کا آدم میں بھائی ہے۔ اس کے پیروکاروں کو یہ نہ سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اس دنیا سے علیحدہ ہیں جو ان کے آس پاس برباد ہو رہی ہے۔ بلکہ وہ بھی بنی نوع انسان کی برادری کا ایک حصہ ہیں۔ SKC 60.4

لاکھوں، کروڑوں لوگ بیماری، جہالت اور گناہ میں پڑے ہوئے ہیں جنہوں نے کبھی سنا ہی نیہں کہ خُداوند یسوع مسیح انہیں بے حد پیار کرتا ہے۔ اگر حالات ایسا پلٹا کھائیں کہ وہ ہماری جگہ لے لیں اور ہم ان کی سطح پر چلے جائیں تو پھر ہماری کیا خواہش ہو گی کہ وہ ہمارے لیے کریں؟ اس لیےجو کچھ انسانی بس میں ہے ہمیں ان کے لیے کرنا چاہیے یسوع مسیح نے ہم سب کے سامنے ایک سنہری اصول رکھ دیا ہے یعنی “جو کچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہ ہی تم بھی ان کے ساتھ کرو” متی 12:7۔ اگر ہمیں دوسرے سے بہتر تعلیم ملی ہے۔ اگر ہم دوسروں سے زیادہ مہذب اور سلیقہ مند ہیں۔ اگر ہم دوسروں سے زیادہ سیرت کی پاکیزگی رکھتے ہیں۔ اور اگر ہمیں سے زیادہ مسیحی تربیت نصیب ہوئی ہے یا اگر ہمیں دوسروں سے زیادہ مذہبی تجربہ حاصل ہے تو جو لوگ ان خوبیوں سے بے نیاز ہیں ہم ان کے قرضدار ہیں اس لیے ہمیں ان کی خدمت کر کے اس قرض کو چکانا ہے۔ اگر ہم طاقت ور اور توانا ہیں تو ہمیں کمزوریوں کے ہاتھ تھامنا ہے۔ SKC 61.1

جلالی فرشتے ہر وقت ہمارے آسمانی باپ کا منہ تکتے رہتے ہیں تاکہ اس کے حکم پر ان چھوٹوں کی خدمت کریں۔ جس جگہ بھی فرشتوں کی مدد کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ وہیں پہنچ جاتے ہیں۔ ان کے پاس جن کی خود اپنے اندر اپنے ساتھ جنگ ہوتی ہے۔ اور جن کا کردار غدار اور قابلِ اعتراض ہے انکی وہ بڑی نگرانی کر تے ہیں۔ جس خدمت کو خود غرض شخص باعث شرم خیال کرتا ہے یعنی بد بختوں اور ردی چال چلن کے مالکوں کی تو اس کو جان لینا چاہیے کہ ایسوں کی خدمت ان کے ذمے ہے جو پاک اور بے گناہ مخلوق ہے یعنی فرشتوں کے۔ SKC 61.2

جب ہم برباد ہو رہے تھے۔ تو خُداوند یسوع مسیح نے آسمان پر رہنا نہ چاہا۔ اس نے آسمان کو چھوڑا تاکہ ذلت، بے عزتی اور ایسی موت گوراہ کرے جو شرم و ننگ کا باعث ہے۔ وہ جو آسمانی خزانوں کا مالک تھا غریب بنا تاکہ اس کی غربت سے ہم دولت مند ہو جایئں۔ ہمیں اسی کے نقش قدم پر چلنا ضرور ہے۔ SKC 61.3

جو خُدا کا فرزند بن جاتا ہے اسے یہ خیال کرنا چاہیے کہ اب وہ اس آسمانی زنجیر کا حلقہ بن گیا ہے جو دنیا کو بچانے کے لیے آسمان سے لٹکائی گئی ہے۔ SKC 61.4

آج کتنے اس دُنیا میں ہیں جو اس سر زمین کو دیکھنا چاہتے ہیں جہاں خُداوند یسوع مسیح اپنی زمینی خدمت کے دوران چلتے پھرتے اور خدمت کرتے رہے۔ جہاں خداوند یسوع مسیح چلا وہاں وہ بھی چلنا چاہتے ہیں۔ اس جھیل کو دیکھنا چاہتے ہیں جس کے کنارے وہ تعلیم دیتا رہا- ان پہاڑوں اور وادیوں کو دیکھنا چاہتے ہیں جن کو وہ اکثر دیکھا کر تا تھا۔ مگر عزیزو ہمیں ناصرت کفر نحوم یا بیت عنتیاہ جانے کی ضروت نہیں کہ ہم یسوع کے نقش قدم پر چل سکی۔ بیماروں کے سرہانے، غریبوں کے تنگ و تاریک جھوپنڑوں اور بڑے بڑے شہروں کی گلیوں میں جو بے یار و مددگار پڑے ہیں وہاں یہ اس کے قدموں کے نشان پا سکتے ہیں۔ ہم ہر اس جگہ مسیح یسوع کے قدموں کے نشان پا سکتے ہیں جہاں بھی کوئی ٹوٹا ہوا دل تسلی و تشفی اور ڈھارس کے لیے آہ پکار کر رہا ہے۔ SKC 62.1

ہمیں بھوکوں کو کھلانا ہے، ننگوں کو کپڑا اور بد حالوں کو تسلی اور تشفی دینی ہے۔ خُداوند یسوع مسیح کی بے لوث خدمت بدکاروں کو راہ راست پر لانے کےلیے تلوار یا عدالتوں کی سزاہ سے کہیں بڑھ کی ہوتی ہے۔ قانون شکن کو راہ راست پر لانے کے لیے سزا ملنی چاہیے مگر مہربان مشنری اب سزاؤں سے بھی زیادہ کام دیکھا سکتا ہے-اکثر دیکھا گیا ہے کہ جن کے دل عدالتوں کی سزاؤں کے سبب سخت ہو چکے ہوتے ہیں وہ خُدواند یسوع مسیح کی محبت سے نرم پڑ جاتے ہیں۔ مشنری محض جسمانی بیماری سے شفا کا باعث نہیں بنتا بلکہ وہ مریض کو عظیم طبیب کے پاس لے آتا ہے جو روح کو گناہ کے کوڑھ سے شفا بخش سکتا ہے۔ خُداوند کے خادموں کے زریعہ سے بیمار، بد نصیب اور جن کو بدروحوں نے جکڑ رکھا ہے خُداوند کی آواز سنیں گے۔ خُداوند یسوع نے اپنی قیمتی جان اسی لیے قربان کی ہے تاکہ وہ ایسی کلیسیا قائم کرے جو دکھیوں اور غمزدوں اور آزمائش میں گھرے ہوؤں کی خدمت کرنے کے لائق ہو۔ ایمانداروں کی جماعت خواہ مفلس، بے علم یا گمنام ہی کیوں نہ ہوں وہ گھروں اور معاشرے میں حتٰی کہ دور دور علاقوں میں ایسی خدمت انجام دے سکتی ہے جس کے نتائج ابدیت کی طرح دوررس ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ خُداوند یسوع مسیح نے فرمایا۔ SKC 62.2

“آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے۔ پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور ان کے باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔” پتی 18:28، 19، مرقس 15:16 اس کی حضوری کا وعدہ ہمارے ساتھ بھی ہے “دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں” متی 20:28۔ SKC 62.3

آج ایسی کوئی گروہ نہیں جو بیابان میں مسیح کو سننے اور اس سے تعلیم پانے کی مشتاق ہو کر ا س کے گرد جمع ہو۔ اب اس کی آواز مصروف بازاروں میں سنائی نہیں دیتی ۔ کوئی بھی چلا کر نہیں کہتا “یسوع ناصری جارہا ہے”لوقا 37:18۔ تاہم یہ کلام آج بھی سچ ہے۔ ہماری گلی کوچو ں میں سے خُداوند نظر آئے بغیر گزر جاتا ہے۔ اپنی رحمت کا پیغام لیکروہ ہمارے گھروں میں آتا ہے۔ جو بھی اس کے نام سے خدمت کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے انتظار کرتا ہے۔ اگر ہم اسے قبول کریں تو وہ ہمارے درمیان ہے تاکہ ہمیں برکت اور شفا بخشے۔ SKC 62.4

“خُداوند یوں فرماتا ہے کہ میں نے قبولیت کے وقت تیری سنی اور نجات کے دن تیری مدد کی اور میں تیری حفاظت کروں گا۔ اور لوگوں کے لیے تجھے ایک عہد ٹھراؤں گا تاکہ ملک کو بحال کرے اور ویران میراث وارثوں کو دے۔ تاکہ تو قیدیوں کو کہے کہ نکل چلو اور ان کو جو اندھیرے میں ہیں کے اپنے آپ کو دکھلاؤ ” یسعیاہ8:49-9۔ SKC 63.1

“اس کے پاؤں پہاڑوں پر کیسے ہی خوشنما ہیں جو خوشخبری لاتا ہے اور سلامتی کی منادی کرتا ہے۔ اور خیریت کی خبر اور نجات کا اشتہار دیتا ہے۔ جو صیون سے کہتا ہے تیرا خُدا سلطنعت کرتا ہے” یسعیاہ 7:52۔ اے یروشلیم کے ویرانوں! خوشی سے للکارو بلکہ نغمہ سرائی کرو کیونکہ خُداوند نے اپنی قوم کو دلاسہ دیا۔ وہ اس نے یروعشلیم کا فدیہ دیا ۔ خُداوند نے اپنا پاک بازو تمام قوموں کی آنکھوں کے سامنے ننگا کیا ہے اور زمین سراسر ہمارے خُدا کی نجات کو دیکھے گی”۔ یسعیاہ 9:52-10۔ SKC 63.2

*****