Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    چالیسواں باب - خدا کے لوگوں نے رہائی پائی

    جب ان پر سے جو خدا کی شریعت کو عظمت دیتے ہیں انسانی قوانین کا تحفظ اٹھ جائے گا تو پھر مختلف ممالک میں انکو تباہ کرنے کے لئے ایک ہی وقت میں تحریک چلائی جائے گی اور جوں جوں مقرر کیا ہوا وقت نزدیک آتا جائے گا تو لوگ اس گروہ کو تباہ کرنے کی شازش کریں گے جس سے وہ نفرت کرتے ہیں- اور یہ مصمم ارادہ کر لیا جائے گا کہ ایک ہی رات میں فیصلہ کن وار کر کے ان کا کام تمام کر دیا جائے جو مخالفین کی ملامت کرنے والی آواز کو تاابد خاموش کر دے- AK 608.1

    خدا کے لوگ بعض جیلوں میں، بعض جنگلوں اور پہاڑوں کے دوردراز حصوں میں پوشیدہ ابھی تک الہی پناہ کے لئے ملتجی ہیں- جب کہ ہر طرف مسلح مردوں کو بدکار فرشتوں کی افواج خدا کے لوگوں کو موت کے گھات اتارنے کے لئے بھڑکا رہی ہیں- اسی مشکل ترین گھڑی میں بنی اسرائیل کا خداوند اپنے چنیدہ لوگوں کی رہائی کے لئے مداخلت کرے گا- خداوند فرماتا ہے “تب تم گیت گاؤ گے جیسے اس رات گاتے ہو جب مقدس عید مناتے ہو اور دل کی ایسی خوشی ہو گی جیسے اس شخص کو جو بانسری لئے ہوۓ خراماں ہو کر خداوند کے پہاڑ میں اسرائیل کی چٹان کے پاس جائے اور خداوند اپنی جلالی آواز سنائے گا اور اپنے قہر کی شدت اور آتش سوزاں کے شعلے اور سیلاب اور آندھی اور اولوں کے ساتھ اپنا بازو نیچے لائے گا” یسعیاہ -30-29:30AK 608.2

    فتح کے نعروں، طعن وتشنیع اور نفرین کے ساتھ بدکاروں کا ہجوم اپنے شکار پر جھپٹنے کو ہوتا ہے، کہ دیکھو ایسا اندھیرا جو کالی رات سے بھی گہرا ہو زمین پر چھا جاتا ہے- پھر کمان خداوند کے تخت سے جلوہ گر ہوتی ہوئی ہر ایک دعا مانگتی ہوئی روح کو اپنے گھیرے میں لے لیتی ہے- غضبناک بھیڑ اچانک گرفتار ہو جاتی ہے- انکی ٹھٹھا مارتی ہوئی آوازیں اچانک گم ہو جاتی ہیں- انہیں قتل وغارت کرنے کے عزائم بھول جاتے ہیں- خوف سے گھبرائے ہوۓ خدا کے عہد کی علامت پر غور کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسکی تجلی کی گرفت سے بچ نکلیں-AK 608.3

    خدا کے لوگوں کو یہ پرمسرت سریلی آواز سنائی دیتی ہے “اوپر دیکھو” اور وہ آسمان کی طرف نگاہ کرتے ہیں اور خدا کے عہد کی کمان کو دکھتے ہیں- کالے، غصیلے بادل جو فضا پر چھائے ہوۓ تھے چھٹ گئے اور ستفنس شید کی طرح انہوں نے آسمان میں خدا کے جلال اور ابن آدم کو اپنے تخت پر بیٹھا ہوا دیکھا- انہوں نے اس کی الہی بادشاہت میں اسکی فروتنی کے نشانات دیکھے اور انہوں نے اس کے لبوں سے وہ درخواست سنی جو اس نے اپنے باپ اور مقدس فرشتوں کے حضور گزرانی-AK 609.1

    “اے باپ میں چاہتا ہوں کہ جنھیں تو نے مجھے دیا ہے جہاں میں ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہوں- تاکہ مرے اس جلال کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے کیونکہ تو نے بنامی عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی” یوحنا -24:17 پھر فتح اور موسیقی کی آواز سنائی دیتی ہے- “وہ آ گئے! وہ آ گئے! مقدس، بے ضرر” بے ضرر اور جو نجس نہیں ہوۓ- انہوں نے میرے صبر کے کلام کو تھامے رکھا- وہ فرشتوں کے درمیان چلیں پھریں گے” اور ان کے پیلے پڑے ہوۓ لرزتے ہونٹوں سے جنہوں نے اپنے ایمان کو ثابتقدمی سے تھامے رکھا فتح کا نعرہ بلند ہوتا ہے-AK 609.2

    یہ نیم شب ہے کہ خداوند نے اپنے لوگوں کو رہائی دینے کے لئے اپنی قوت وقدرت کا مظاہرہ کیا- سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکا- اس کے فورا بعد نشانات اور عجائب شروع ہو گئے- بدکار اس منظر کو خوف وحیرانگی کے ساتھ دیکھنے لگے- جبکہ راستبازوں نے بڑی خوشی اور انبساط کے ساتھ اپنی رہائی کے نشانات کو دیکھا- ایسے دکھائی دینے لگا جیسے کہ فطرت کی ہر شے تہ وبالا ہو گئی ہے- ندیوں کی روانی رک گئی- بھاری کالے بادل آ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے- غضبناک آسمان کے درمیان ایک جلالی خلا ہے جو بیان سے باہر ہے، جہاں سے بہت سے پانی کی آواز کی طرح خداوند کی یہ آواز سنائی دیتی ہے “ہو چکا” مکاشفہ -17:16AK 609.3

    اس آواز سے آسمان اور زمین ہل گئے اور بہت بڑا بھونچال آ گیا- “جب سے انسان زمین پر پیدا ہوۓ ایسا بڑا اور سخت بھونچال کبھی نہ آیا تھا” مکاشفہ -18:16 آسمان کھلتا اور بند ہوتا تھا- ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے کہ خداوند کا جلال اس میں سے چمک رہا ہے- جیسے آندھی سے سرکنڈے ہلتے ہیں پہاڑ ہلنے لگے اور چٹانیں ٹوٹ کر ادھر ادھر بکھر گئیں- بڑی آندھی کا ہلڑ سنائی دینے لگا- سمندر غضبناک ہو گیا- طوفان بادوباراں کی آوازیں ایسی سنائی دینے لگیں ججسے کہ بدروحیں تباہی مچانے کے لئے اپنے مشن پر ہوں- تمام زمین سمندر کی لہروں کی مانند ابھرنے، سکڑنے لگی- ایسے لگتا تھا جیسے اسکی بنیادیں اس کے نیچے سے سرک رہی ہوں- پہاڑی سلسلے زمین میں دھنسنے لگے- آباد جزیزے نظروں سے اوجھل ہو گئے- وہ بندرگاہیں جو بدکاری میں سدوم اور عمورہ کی مانند تھیں انہیں غضبناک پانی نے ہڑپ کر لیا- بڑے بابل کی خدا کے ہاں یاد ہوئی تاکہ اسے اپنے سخت غضب کی مے کا جام پلائے اور آسمان سے آدمیوں پر من من بھر کے بڑے بڑے اولے گرے تاکہ تباہی مچائیں” مکاشفہ -21-19:16AK 609.4

    دنیا کے متکبر بلندوبالا شہر پست ہو گئے- شاہی محلات جن پر دنیا کے امیر لوگوں نے بے حساب دولت خرچ کی تھی تاکہ انکی عظمت میں اضافہ ہو ان کی آنکھوں کے سامنے گر کر تباہ ہو گئے- جیلوں کے دروازے خودبخود کھل گئے اور خدا کے لوگ جو اپنے ایمان کی خاطر جیلوں میں ٹھونسے گئے تھے آزاد کر دیئے گئے-AK 610.1

    قبریں کھل گئیں اور جو خاک میں سو رہے تھے ان میں سے بہتیرے جاگ اٹھینگے- بعض حیات ابدی کے لئے اور بعض رسوائی اور ذلت کے لئے” دانی ایل -2:12 وہ سب جو تیسرے فرشتے کے پیغام پر ایمان لا کر مسیح میں سو گئے تھے وہ جلالی صورت میں قبروں سے نکلیں گے-AK 610.2

    “دیکھو بادلوں کے ساتھ آنے والا ہے اور ہر ایک آنکھ اسے دیکھے گی اور جنہوں نے اسے چھیدا تھا وہ بھی دیکھیں گے’ مکاشفہ -7:1 وہ جنہوں نے مسیح یسوع کی موت کا تمسخر اڑایا تھا، اور وہ جو اسکی صداقت اور اس کے لوگوں کے سخت مخالف تھے انہیں مسیح یسوع کے جلال اور ایمانداروں کی عزت افزائی دیکھنے کے لئے زندہ کیا جائے گا-AK 610.3

    گھنے بادل ابھی تک آسمان پر چھائے ہوۓ ہیں- ابھی تک سورج آنکھ مچولی کھیل رہا ہے- ایسے لگتا ہے جیسے یہواہ کی آنکھ بدلہ لے رہی ہے- غضبناک بجلیاں کوند کر آتی جاتی اور زمین کو آگ کی چادر میں لپیٹ رہی ہیں- ہولناک گرج چمک کے ساتھ بڑی پراسرار اور ڈراؤنی آوازیں بدکاروں کی موت کا سندیسہ دیتی ہیں- کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور نہ کوئی ایک دوسرے کی بات سمجھتا ہے- مگر جھوٹے استاد اسے بخوبی سمجھتے ہیں جو اس سے تھوڑی در پہلے لاپرواہ اور خدا کے مخالف تھے- اور جو خدا کے احکام کو ماننے والوں کے خلاف ظلم وجبر کرنے والے تھے اب وہ خوف سے تھرتھراتے اور سراسیمگی میں ڈوب گئے ہیں- انکا فلک شگاف آہ ونالہ ہر جگہ سنائی دیتا ہے- بدروحیں مسیح یسوع کی الوہیت کو تسلیم کرتی اور اسکے اختیار کے سامنے تھرتھراتی ہیں- جبکہ آل آدم رحم کی اپیل کرتے اور اپنی کمینگی اور رسوائی سے پانی پانی ہو رہی ہے-AK 610.4

    قدیم نبیوں نے جب رویا میں اس منظر کو دیکھا تو یوں کہا “اب تم واویلا کرو کیونکہ خداوند کا دن نزدیک ہے- وہ قادر مطلق کی طرف سے بڑی ہلاکت کی ماند آئے گا” یسعیاہ -6:13“خداوند کے خوف سے اور اسکے جلال کی شوکت سے چٹان میں گھس جا اور خاک میں چھپ جا- انسان کی اونچی نگاہ نیچی کی جائے گی اور بنی آدم کا تکبر پست ہو جائے گا اور اس روز خداوند ہی سربلند ہو گا-کیونکہ رب الافواج کا دن تمام مغروروں بلند نظروں اور متکبروں پر آئے گا اور وہ پست کئے جائیں”- “اس روز لوگ اپنی سونے چاندی کی مورتوں کو جو انہوں نے پوجنے کے لئے بنائیں چھچھوندروں اور چمگادڑوں کے آگے پھینکیں گے- تاکہ جب خداوند زمین کو شدت سے ہلانے کے لئے اٹھے تو اس کے خوف سے اور اس کے جلال کی شوکت سے چٹانوں کے غاروں اور ناہموار پتھروں کے شگافوں میں گھس جائیں” یسعیاہ -21-20:2, 12-10:2AK 611.1

    بادلوں کے شگاف میں سے ایک ستارہ چمکتا ہے جس کی شعاؤں کی تابناکی تاریکی کے مقابلہ میں چوگنی بڑھتی ہی جاتی ہے- یہ وفاداروں کے لیے امید اور خوشی کا سندیسہ ہے- مگر خدا کی شریعت کو پامال کرنے والوں کے لئے شدید غضب کا پیغام ہے- وہ جنہوں نے مسیح یسوع کے لئے سب کچھ قربان کر دیا اب بالکل محفوظ ہیں- ایسے جیسے کہ وہ خداوند کے پوشیدہ بنگلہ میں ہوں- انکی آزمائش کی گئی- دنیا اور صداقت کی حقارت کرنے والوں کے سامنے انہوں نے اپنی وفاداری اس کے لئے ثابت کر دکھائی جس نے ان کی خاطر اپنی جان دی- ان میں نہایت ہی اعلی تبدیلی واقع ہوئی جو موت کے سامنے بھی خداوند سے وفادار رہے- وہ اچانک تاریکی اور بنی آدم کے ظلم وجبر سے رہا ہو گئے اور وہ سارا ملبہ بدکاروں کے سر پر آ پڑا- ایمانداروں کے جو چہرے سخت پیلے، پریشن اور وحشت زدہ تھے اب ایمان اور محبت اور خدا کے اس عجب کام سے تابدار ہو گئے- وہ فتح کے گیت گانے لگے- “خداوند ہماری پناہ اور قوت ہے- مصیبت میں مستقد مددگار- اس لئے ہم کو کچھ خوف نہیں خواہ زمین الٹ جائے اور پہاڑ سمندر کی تہہ میں ڈال دیئے جائیں- خواہ اسکا پانی شور مچائے اور موجزن ہوا اور پہاڑ اس کی طغیانی سے ہل جائیں” زبور -3-1:46AK 611.2

    پاکیزہ اعتماد کا یہ کلام جب خداوند کے حضور پہنچتا ہے، بادل چھٹ جاتے ہیں، ستاروں بھرا آسمان نظر آتا ہے- اور غضبناک فضا تاریکی کے مقابلہ میں نہایت ہی جلالی ہو جاتی ہے- پھر آسمان میں ایک ہاتھ ظاہر ہوتا ہے جو پتھر کی دولوحوں کو پکڑے ہوئے ہے ۔ نبی فرماتا ہے (اور آسمان اس کی صداقت بیان کریں گے کیونکہ خدا آپ ہی انصاف کرنے والا ہے ) زبور 6:50۔ وہ مقدس شریعت ، خداوند کی راستبازی جو کوہ سینا سے گرج اور چمک کے درمیا ن سے جو بطور (رہبر زندگی ) دی گئی ۔ اب وہ نبی آدم پر انصاف کے معیار کے طور پر ظاہر کی گئی ۔ ایک ہاتھ ان تختیوں کو کھولتا ہے اور وہاں قوانین کا مجموعہ دیکھنے کو ملتا ہے جیسے آگ کے قلم سے نقش کیا گیا ہو ۔ اس کے الفاظ اس قدرسادہ ہیں کہ انہیں ہر کوئی پڑھ سکتاہے ۔ یاداشت کو بیدار کیا گیا ۔ تو ہم پرستی اور بدعتوں کی تاریکی ہر ذہین سے موقوف ہو گئی اور دنیا کے باشندوں کے سامنے خداوند کے دس الفاظ ( احکام ) اختصار ، جامع اور مصدقہ طور پر پیش کئے گئے ۔AK 612.1

    ان لوگوں کی وحشت کو الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے جنہوں نے خدا کی مقدس شریعت کو پامال کیا ۔ خدا وند نے انہیں اپنے احکام دیئے وہ ان کیساتھ اپنے کردار کا موازنہ کرکے نقائص کو دور کرسکتے تھے جب ان کے پاس توبہ اور اصلاح کا موقع تھا۔ مگر دنیا کی دستگیر ی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے خداوند کی شریعت کو ترک کردیا اور دوسروں کی بھی حوصلہ افزائی کی کہ وہ بھی اس کی تحقیر کریں ۔انہوں نے خدا کے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کے سبت کی بے حرمتی کریں۔ اب اسی شریعت کے تحت ان پر فردجرم عائد کی گئی ہے جس کی انہوں نے بے حرمتی کی تھی ۔ اب انہیں اچھی طرح علم ہو چکا ہے کہ ان کے پاس اس وقت کوئی بہانہ تھا اور نہ ہی اب ہے ۔ انہوں نے اسی کا انتخاب کیا جس کی وہ عبادت اور خدمت کرنے کے خواہاں تھے ۔ (تب تم رجوع لاو گے اور صادق اور شریر میں اور خدا کی عبادت کرنے والے میں امتیاز کرو گے ) ملا کی 18:3۔AK 612.2

    خدا کی شریعت کے دشمن خادمان دین سے لیکر معمولی سے کار گزار تک صداقت اور فرض کا نیا نظر یہ رکھتے ہیں ۔ بڑی دیر بعد انہیں علم ہوا کہ چوتھے حکم کا سبب زندہ خدا وند کی مہر ہے ۔ بہت دیر بعد انہیں اپنے جعلی سبت کی اصل فطر ت کا اور اس کی ریتلی بنیاد کا علم ہوا جس پر وہ تعمیر کررہے تھے ۔ انہیں اپنے جعلی سبت کی اصل فطر ت کا اور اس کی ریتلی بنیاد کا علم ہوا جس پر وہ تعمیر کررہے تھے ۔ انہیں یہ علم ہو گیا کہ وہ خدا کے خلاف جنگ کررہے تھے ۔ مذہبی استادروحوں کو جہنم میں دھکیل رہے تھے ۔ بلکہ دعوے یہ کرتے تھے کہ وہ انہیں بہشت کے دروازے کی طرف لے جارہے ہیں ۔ روز عدالت تک اس بات کا علم نہ ہوسکے گا کہ مقدس پیشے میں نبی آدم کی کیا زمہ داریاں ہیں اوران کی بے وفائی کے کس قدر ہولناک نتائج ہیں ۔ صرف ابدیت ہی ہمیں علم ہوگا کہ صرف ایک ہی روح کے کھو جانے کا کتنا نقصان ہوا ہے ۔ اس کی بربادی کتنی ہی خطرناک ہوگی جسے خدا وند کہے گا ۔“اے بدکار میر ے پاس سے چلے جاو”-AK 612.3

    آسمان سے خدا وند کی آواز سنی گئی جس نے مسیح یسوع کی آمد کے وقت کا اعلان کیا اور اپنے لوگوں کو ابدی عہد دیا ۔ بادلوں کی بڑی گرج اور کڑک کی طرح اس کا کلام ساری دنیا میں پھیل گیا ۔ بنی اسرائیل آسمان کی طرف آنکھیں جمائے کھڑے سنتےرہے ۔ اس کے جلال سے ان کے چہر ے دمک اٹھتے اور جیسے موسی کا چہرہ وہ کوہ شینا سے اتر اچمک رہا تھا ۔ اسی طرح ان کے چہرے چمکنے لگے ۔ بدکار ان پر نگاہ نہیں کر سکتے تھے اور جب ان پر خداوندنے اپنی برکات نازل کیں جو خدا کے سبب کو مقدس مانتے رہے تھے اس وقت فتح کا بہت بڑا نعرہ بلند ہو ا۔AK 613.1

    پھر بہت جلد مشرق میں ایک چھوٹا سیا ہ بادل نمورار ہو ۔ جو تقریباً انسانی ہاتھ کا نصف تھا۔ یہ بادل نجات دہندہ کو گھیرے ہوئے تھا اور دور سےاسے دکھائی دیتا تھا جیسے یہ تاریکی میں ڈھکا ہوا ہو ۔ خدا کے لوگ جانتے تھے کہ یہ ابن آدم کا نشان ہے ۔ اور جونہی یہ زمین کے نزدیک پہنچاتو انہوں نے بڑی عقیدت سے اس پر نگا ہ کی ۔ بہت ہی جلالی اور روشن سے روشن تر ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ یہ برف کی مانند سفید بادل بن گیا ۔ اس کی جلالی بنیاد (Base) ایسی تھی جیسے بھسم کرنے والی آگ ہو اور اس کا سر (Top) عہد کی مانند تھا۔ اس پر مسیح یسوع عظیم فاتح کی طرح سوار تھا۔ اب وہ (مردغمناک )نہیں تھا جسے رسوائی کا کڑوا پیالہ پینا تھا ۔ وہ آسمان اور زمین پر بطور فاتح کے تھا جو زندہ اور مردوں کا انصاف کرنے کو آرہا تھا۔AK 613.2

    “سچااور حق وہ راستی اور انصاف کیساتھ لڑائی کرتا ہے آسمانی فوجیں کتانی کیڑے پہنے اس کے پیچھے پیچھے ہیں” مکاشفہ 14-11:19۔ مقدس ترانے گاتے ہوئے انگنت فرشتے اس کے ہمراہ تھے۔ فضاہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ جلالی فرشتوں سے بقعہ نور بن گئی ۔ کوئی بھی انسانی علم اس نظارہ کی منظر کشی نہیں کر سکتا اور نہ ہی کوئی فانی انسان اس پر شکوہ منظرکو کلی طورپر سمجھ سکتا ہے ۔ اس کا جلال آسمان پر چھا گیا اور زمین اس کی حمد سے معمور ہوگئی ۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی ۔ اس کے ہاتھ سےکرنیں نکلتی تھیں اوراس کی قدرت نہاں تھی ، حبقوق4-3:3 ۔ جیسے کہ وہ زندہ بادل مزید نزدیک آتا ہے ہر ایک آنکھ زندگی کے شہزادے کو دیکھتی ہے ۔ اس کے سر پر کوئی کانٹوں کاتاج نہیں اور نہ ہی کوئی ماتھے پر زخم ہے ۔بلکہ اس کی مقدس پیشانی پر جلالی تاج ہے اور اس کا چہرہ دوپہر کی روشنی کو بھی مات کرتا ہے ۔ “اور اس کی پوشاک اور ران پر یہ نام لکھا ہوا ہے ۔ بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خدا” مکاشفہ 16:19 ۔ اور اس کی حضور ی میں سب کے چہرے زرد ہوگئے۔ اور خدا کے رحم کو رد کرنے والوں کے چہروں پر ابدی مایوسی چھا گئی ۔“ان کے دل پگھل گئے اور گھٹنے ٹکرانے لگے اور ان سب کے چہرے زرد ہوگئے” یرمیاہ 6:30 ،نا حوم 10:2 ۔ راستباز تھرتھراتے ہوئے چلاتے ہیں کہ کون قائم رہ سکے گا “فرشتو ں کے گیت تھم گئے اور کچھ دیر کے لئے سناٹا چھا گیا ۔پھر یسوع کی آواز سنائی دی (میرا فضل تیرے لیے کافی ہے” راستباز وں کے چہرے خوشی سے تمتمااٹھے اور فرشتے جب زمین کے مزید قریب ہوگئے تو پھر اونچی سروں میں گانے لگے۔AK 613.3

    شہنشاہوں کا شہنشاہ آگ کے شعلے میں لبٹا ہو ابادلوں سے نیچے اترتاہے ۔ آسمان مکتوب کی طرح لپٹتے جاتے ہیں ، زمین اس کے سامنے تھرتھراتی ہے ہر ایک پہاڑ اور جزیرہ اپنی جگہ سے ہل گیا(ہمارا خدا آئے گا اور خاموش نہیں رہے گا۔ آگ اس کے آگے بھسم کرتی جائے گی اور اس کی چاروں طرف بڑی آندھی چلے گی ۔ اپنی امت کی عدالت کرنے کے لئے آسمان و زمین کو طلب کرے گا کہ میر ے مقدسوں کو میرے حضور جمع کرو) زبور4-3:50۔AK 614.1

    “اور زمین کے بادشاہ اورامیر اور فوجی سردار اور مالدار اور زور آوراور تمام غلام اور آزاد پہاڑوں کے غاروں اور چٹانوں میں جا چھپے کیونکہ ان کے غضب کا روزِعظیم آپہنچا۔ اب کون ٹھہر سکتا ہے ” مکاشفہ 17-15:6۔AK 614.2

    طنز کرنا بند ہو گیا ۔جھوٹ بکنے والے خاموش ہوگئے ۔ آلات حر ب کا آپس میں ٹکرانا اور جنگ کی شورش موقوف ہو گئی “کیونکہ جنگ میں مسلح مردوں کے تمام سلاح اور خون آلودہ کپڑے جلانے کے لئے آگ کا ایندھن ہوں گے” یسعیاہ 5:9۔ اب اور کچھ نہیں صرف چیخنے چلانے ، آہ دنالہ کرنے اور دعا کی آواز کے سوا کچھ سنائی دیتا اور جو پہلے ٹھٹھے مارتے تھے اب ان کے لبوں سے چیخ و پکار کی آواز یں سنائی دیتی ہیں ۔“اس کے غضب کا عظیم دن آپہنچاکون اس کے سامنے کھڑا رہ سکے گا” ۔ بدکار اس کا سامنا کرنے کی بجائے جسے انہوں نے حقیر جان کر رد کردیا تھا پہاڑوں کی غاروں میں دفن ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ AK 614.3

    یہ آواز سے واقف تھے جو مردوں کے کانوں میں بھی سرائت کرجاتی ہے ۔ کتنی بار اس نے نرم لہجہ میں انہیں توبہ کی دعوت دی ۔ کتنی بار اس آواز نے انہیں دوستوں ، بھائیوں اور نجات دہند ہ کی صورت میں ان سے التماس کی ۔ اس کے فضل کو ترک کرنے والوں کے علاوہ اور کسی نے اس آواز کی ملامت نہ کی جس نے ان کےلئے التماس کیا۔ “شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے” حزقی ایل 11:33۔AK 614.4

    ان کے نزدیک تو یہ آواز ایک اجنبی کی تھی ۔ مسیح یسوع فرماتا ہے “چونکہ میں نے بلایا اور تم نے انکار کیا۔ میں نے ہاتھ پھیلایا اورکسی نے خیال نہ کیا ۔ بلکہ تم نے میری مشورت کو نا چیز جانا اور میری ملامت کی بیقدری کی” امثال 24:125-۔ اسی آواز نے ان کی یاداشت کو بیدار کیاجو کمزورہو چکی تھی اور جس نے آگاہیوں کی تحقیر کی ۔دعوتوں کو مسترد کیا اور مواقع دیئے انہیں نا چیز جانا ۔AK 615.1

    ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے مسیح یسوع کی حلیمی اورفروتنی میں اس کا تمسخراڑایا تھا ۔ ان کے ذہن میں بڑی سرعت سے مسیح یسوع کی باتیں آتی ہیں جب سردار کا ہن نے اس سے حلف لیا ۔ تو اس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا “اس کے بعد تم ابن آدم کو قادرِمطلق کی ذہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھوگے” متی 64:26۔ اب انہوں نے اسے اس کے جلال میں دیکھا اور ابھی اور انہوں نےاسے باپ کے تخت پر سہنے ہاتھ بیٹھے ہوئے دیکھنا باقی ہے۔AK 615.2

    وہ جنہوں نے اس کے اس دعوے کو ٹھکر ا دیا تھا کہ وہ خدا کو بیٹا ہے ، اب ان کی زبانیں گنگ ہو گئی ہیں ۔ وہاں مگرور ہیر ودیس ہے جس نے اس کے شاہی القاب کا تمسخر اڑادیا اور ٹھٹھامارنے والے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اسے شاہی تاج پہنائیں ۔ وہاں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے اپنے ناپاک ہاتھوں سے اس کے مبارک بدن پر ارغوانی جوغہ پہنایا اور اس کی مبارک پیشانی پر کانٹوں کا تاج رکھا اوراس کے غیر مزاحمتی ہاتھوں میں مذاق کے طور پر شاہی عصادیا اور کفر بکتے ہوئے اسے سجدہ کیاو ہ لوگ جنہوں نے اسے مارا اورزندگی کے مالک کے منہ پر تھوکا اس کی نظروں سے بچ کر بھاگے اور اس کے جلال کی زیرکرنے والی قوت سے پنا ہ مانگی ۔ وہ جنہوں نے اس کے ہاتھوں اور پاوں میں کیلیں ٹھونکی سپاہیوں جس نے اس کی پسلی کو چھید اانہوں نے ان نشانات کو خوف اور شرم کے ساتھ ملاخطہ کیا۔AK 615.3

    بڑے ہولناک خوف اور افسوس کے ساتھ کاہنوں اور حاکموں کو کلوری کے واقعات یاد آئے ۔ انہیں خوف سے لرزتے ہوئےیاد پڑا کہ اس طرح انہوں نے دل لگی کے لئے یہ سب کہاتھا “اس نے اوروں کو بچایا ۔ اپنے تیئں نہیں بچاسکتا ۔ یہ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے اب صلیب پر سے اترآئے تو ہم اس پر ایمان لائیں ۔ اس نے خدا پر بھروسہ کیاہے اگر وہ اسے چاہتا ہے تو اب اس کو چھڑالے کیونکہ اس نے کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہو ں” متی43-42:27۔AK 615.4

    اس وقت تاکستان کی تمثیل ہو بہو ان کے سامنے آگئی ۔ جو مسیح یسوع نے انہیں سنائی تھی ۔ جس کے مالک نے تاکستان باغبانوں کو ٹھیکے پر دیا اور خود پر دیس چلا گیا اور جب پھل حاصل کرنے کا وقت آیا تو ٹھیکے داروں نے پھل دینے سے انکار کردیا اور آخر کار اس کے بیٹے کو بھی قتل کردیا اور پھر مسیح یسوع نے پوچھا کہ جب وہ مالک واپس آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیاکرے گا ؟ انہوں نے جواب میں کہا کہ “ان بدکاروں کو بری طرح ہلاک کرکے گا اور باغ کا ٹھیکہ دوسرے باغبانوں کودے گا جو موسم پر اس کو پھل دیں“۔ ان بے وفالوگوں کے گنا ہ اور سزاپانے میں پر یسٹس اور ایلڈرز کو اپنا چہرہ نظر آگیا۔ اور اب وہ آہ و نالہ کررہے ہیں ۔ ان کا اب چیخنا چلانا اس شور شرابے سے اونچاتھا جب انہوں نے کہا تھا کہ اسے “سولی چڑھاؤ،اسے سولی چڑھاؤ” اس سے یروشلم کی گلیا ں گونج اٹھیں ۔ ان کی مایوسی کی کوئی حد نہ رہی جب انہیں معلوم ہو گیا کہ “یہ خدا کے بیٹا ہے، وہی حقیقی مسیحاہے” وہ بادشاہوں کے بادشاہ کی حضوری سے بھا گ جانا چاہتے تھے- زمین میں گہرے غار بن گئے اور انھیں نے بےسود چونے کی کوشش کی-AK 616.1

    وہ سب لوگ جو صداقت کو رد کرتے ہیں انکی زندگی میں بھی ایسے مواقع آتے ہیں جب انکا ضمیر بیدا ہو جاتا ہے- جب ریاکاری کی یادیں اذیت پہنچاتی اور بے فائدہ پشیمانی ناک میں دم کردیتی ہے مگر اس ندامت کا اس دن کے ساتھ کیا موازنہ ہوگا جب “دہشت طوفان کی طرح آپڑے گی اور بگولے کی طرح تم کو ٓلے گی” امثال 27:1۔ وہ لوگ جنہوں نے مسیح اور اس کے وفادار پیروکاروں کو برباد کیا، اب وہ ان کے سروں پر خدا وند کا جلال ٹھہرا ہوا دیکھیں گے ۔ بدکار لوگ اپنے خوف و ہراس کی چیخ و پکار میں خوشی کا یہ نعرہ سنیں گے “لو یہ ہمارا خدا ہے ۔ ہم اس کے انتظار میں تھے ۔ ہم اس کی نجات سے خوش و خرم ہوں گے” یسعیاہ 9:25۔AK 616.2

    زمین کے ڈگمانے کے دوران بجلی کی چمک اور بادلوں کی گھن گرج میں ،مسیح یسوع سوئے ہوئے مودمین کو قبروں سے باہر بلائے گا۔ وہ مقدسین کی قبروں پر نگا ہ کرے گا اور پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اور پکارے کر کہے گا ۔ “تم جو خاک میں سو رہے ہو اٹھو” زمین کےطول و عرض میں مردے اس آواز کو سنیں گے اور جو سنیں گے وہ مردوں میں سے جی اٹھیں گے اور ساری زمین ہرقوم ، قبیلے ، زبان کے لوگوں کی بہت بڑی فوج کی زمین پر چلنے کی آواز سنائی دے گی ۔ موت کے بندھن سے چھوٹ کر اور ابدی جلال سے ملبس ہو کر وہ یہ نعرہ لگاتے ہیں “اے موت تیری فتح کہاں رہی ؟اے موت تیرا ڈنگ کہاں رہا ؟” 1 کرنتھیوں 55:15 ۔ ازاں بعد زندہ اور مردوں میں سے جی اٹھنے والے راستباز ہم آواز ہو کر خوشی سے فتح کا گیت گائیں گے ۔AK 616.3

    سب اسی قدوقامت کے ساتھ قبروں میں سے باہر آئیں گے جیسے وہ اپنی قبروں میں داخل ہوئے تھے ۔ آدم جو زندہ ہونے والے ہجوم میں شامل ہو گا اس کا قد سب سے بڑا ہو گا ۔ مگر مسیح یسوع کی قامت سے قدرے کم ہو گا ۔ وہ (آدم ) آنے والی پشتوں میں سیک خاص امتیاز کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس لحاظ سے بعد کی نسلوں میں بہت زیادہ پستی پائی گئی ۔ مگر تازہ ، ہشاش بشاش اور ابد ی جوانی کے ساتھ قبروں سے باہر آئیں گے۔ ابتدا میں انسان کی شبیہ پربنایا گیا ۔ نہ صرف سیرت (کردار) بلکہ شکل و صورت اور دیگر خصوصیات میں بھی وہ خدا کی شبیہ پر تھا ۔ گنا ہ نے اس شبیہ کو مسخ کردیا ۔ مگر جو کچھ کھوچکا تھا مسیح یسوع اسے بحال کرنے کے لئے آیا ۔ وہ ہمار ے حقیراور خراب بدنوں کوجلالی بدنوں میں تبدیل کر دے گا ۔ یہ فانی ، خستہ خراب ہونے والا بدن جو خوش اندامی سے محروم تھا اور جسے گنا ہ نے برباد کر دیا ، کا مل ، خوبصور ت اور غیر فانی بن جائے گا ۔ ہر طرح کا تقص (عیب ) بدنمائی اور بدصورتی قبرمیں رہ جائیں گی ار مدتوں سے کھوئے ہوئے عدن کے کھوئے ہوئے زندگی کے درخت تک رسائی ہوگی اورنجات یافتہ برومند ہوگے ملا کی 2:4۔اور وہ جسمانی ساخت میں ابتدائی نسلوں کی مانند ہو ں گے ۔ گناہ کے پرانے داغ مٹا دیئے جائیں گے اور خدا وند کے وفادار“ہمارے خداوند یسوع مسیح کے دلکش روپ میں ظاہر ہوں گے اور وہ روحانی ، جسمانی اور ذہنی طور سے اپنے آقا کی کامل شبیہ کو منعکس کریں گے ۔ کیسی عالی شانجات ہے اس کے بارے عرصے سے گفتگو کی گئی ، اس پر بڑے ذوق شوق سے غور و خوض کیا گیا مگر ہم اسے پوری طرح سے سمجھ نہ پائے ۔AK 617.1

    زندہ راستباز تبدیل ہو جائیں گے اور یہ “ایک دم میں ایک پل میں پچھلا نر سنگا پھونکتے ہی ہو گا” خداوند کی آواز کے ساتھ ہی و ہ جلالی ہوگئے ۔ اب وہ غیر قانونی ہو گئے اور مردوں میں سے جی اٹھنے والے راستبازوں کے ساتھ ہو ا میں اڑکر اپنے آقا کا استقبال کریں گے ۔ اور فرشتے “اس کے برگذیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اس کنارے تک جمع کریں گے“۔متی 31:24 ۔ چھوٹے بچوں کو پاک فرشتے اٹھا کر ان کی ماوں کے حوالے کریں گے ۔ دوست و احباب جن کوموت نے عرصے سے جدا کردیا تھا کبھی نہ جدا ہونے کے لیے دوبارہ متحد ہو جا ئیں گے اور مسرت و طرب کے گیت گاتے ہوئے اکٹھے خدا کے شہر کی طرف صعود فرمائیں گے۔AK 617.2

    بادلوں کے رتھ کی ہر طرف (Wings) ہیں ان کے نیچے زندہ پہیے(Wheels) ہیں اور جیسے کہ رتھ اوپر کی طرف رواں ہوتا ہے تو پہیوں سے آواز آتی ہے (قدوس) اور پر آگے کو پرواز کرتے ہیں تو ان سے آواز آتی ہے (قدوس) اور فرشتے کی جلوپکارتی ہے “قدوس،قدوس،قدوسرب الافواج” اور جیسے کہ رتھ نئے یروشلم کی طرف بڑھتا جا تا ہے نجات دہندہ اپنے پیروکار وں پر فتح کی علامتی نشانی عطا کرتا ہے اور انہیں ان کی شاہی ریاست کے لیے امتیازی نشانات (Badges) عطا کرتا ہے ۔ تمام درجہ وار ایک دائرہ کی شکل میں بادشاہ کے گرد جمع ہوتے ہیں جو نجات یافتہ کی انگنت افواج کی نظر یں اس پر جمی ہوئیہیں اور اس کے جلال کو دیکھ رہی ہیں جس کا چہرہ ہر شخص سے زیادہ بگر چکا تھا اوراس کا بدن سب انسانوں سے زیادہ کچلاگیا تھا ۔ ان سبھوں کے سروں پر جو غالب آئے تھے خداوند یسوع مسیح اپنے دہنے ہاتھ سے جلالی تاج رکھتا ہے اور ہر ایک کے تاج پر اس کا اپنا (نیا نام ) لکھا ہواہے (مکاشفہ 17:2) AK 618.1

    اور کندہ ہے “خداوند کے لیے پاک ہے” ہر ایک کے ہاتھ میں فتح کا نشان کھجور کی ٹہنی اور چمکیلی ستار ہے اور پھر جو نہی فرشتوں کو کمانڈر نوٹ بجاتا ہے تو ہرایک ہاتھ بڑ ی مہارت کیساتھ تاروں کو چھوتا ہے ۔ ہر ایک دل ایسے جوش و خروش سے موجزن ہوتا ہے جو بیان سے باہر اورہر ایک آواز خداوند کے لیے رطب السان ہے “جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور اپنے خون کے وسیلہ سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی اور ہم کو ایک بادشاہی بھی اور اپنے خدااور باپ کے لیے ہن بھی بنا دیا اس کا جلال اور سلطنت ابدالآباد ہے ۔ آمین” مکا شفہ 6-5:1۔AK 618.2

    جس بڑی بھیڑ کا کفارہ دیا گیا ان کے سامنے مقدس شہر ہے ۔ مسیح یسوع اس کے جو اہرات سے مرصع دروازوں کو کھولتا ہے اور وہ قومیں جنہوں نے صداقت کو مانا وہ اس میں داخل ہوتی ہیں ۔ وہاں وہ خداوند کے فردوس کو دیکھتی ہیں جو معصومیت کے زمانے میں آدم کا گھر تھا۔ پھر وہ آواز جو ایسی سریلی تھی جو کسی انسان کے کانوں میں نہ پڑی ہو یہ کہتی ہوئی سنائی دی ۔ “تمہاری کشمکش اختتام پذیر ہوئی““آو میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنا ی عالم سے تمہارے لیے تیار کی گئی ہے اسے میراث میں لو” متی 34:25۔AK 618.3

    اب مسیح یسوع کی دعا کی تکمیل ہوئی جو اس نے اپنے شاگردوں کے لئے مانگی تھی ۔“اے باپ میں چاہتاہوں کہ جنہیں تو نے مجھے دیا جہاں میں ہوں وہ بھی میر ے ساتھ ہوں تاکہ میرےاس جلال کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے” یوحنا 24:17AK 619.1

    “اپنے جلال میں کمال خوشی کے ساتھ بے عیب کھڑا (یہودا24) مسیح یسوع ان کو خدا کا باپ کے سامنے پیش کرتا ہے جنہیں اس نے اپنے خون سے خریدا تھا اور کہتا ہے “یہاں میں ہوں اور وہ بچے بھی جو تو نے مجھے دئیےجو تو نے مجھے بخشا ہے ان کی حفاظت کی” یوحنا 12:7۔ نجات بخشنے والی محبت کیسی عجیب و غریب ہے ۔ اس وقت جب قادرِمطلق خداوند ان پر نگا ہ کرتا ہے جن کا کفارہ دیا گیا ہے ۔ ان میں اپنی شبیہ کو دیکھے گا گناہ سے سمجھوتا ختم ، اس کی پژمرد گی جاتی رہی اور ایک بار پھر الہی شبیہ بنی آدم میں آگئی ۔AK 619.2

    بے پایاں محبت کےساتھ اپنے وفادار بندوں کو خدا وند یسوع مسیح باپ کو خوشی میں شرکت کے لیے خوش آمدید کہتا ہے ۔ وہ روحیں جو اس کی رسوائی اور جانکنی سے بچائی گئیں انہیں خدا کی بادشاہی میں دیکھ کر اس کی مسرت دیدنی تھی ، نجات یافتہ بھی جب ان روحوں کو اس کی بادشاہی میں دیکھیں گے جو ان کی دعاوں ، قربانیوں اور محبت کے جواب میں مسیح یسوع کے لیے جیتی گئیں اور جیسے کہ وہ سفید تخت کے گرد اگرد جمع ہوتے ہیں ، تو ان کو دیکھ کر جنہیں انہوں نے مسیح یسوع کے لیے جیتا تھا دل خوشیوں سے لبریز ہوجائے گا اور یہ بھی کہ ایک نے دوسرے کو جیتا اور اسی طرح سلسلہ چلتا گیا اور سب کے آرام میں داخل ہوگئے اور سب نے اپنے اپنے تاج اتار کر مسیح کے قدموں میں رکھ دیئے اور اس کی تعریف ابدیت تک جاری رکھی ۔AK 619.3

    جب نجات یافتہ کا خدا کے شہر میں خیر مقدم ہو گیا تو فضا میں خوشی و توقیر کا نعر ہ بلند ہوا ۔ دو آدم آپس میں ملنے کو ہیں ۔ مسیح یسو ع خدا کا بیٹا بنی نو ع انسان کے جدا امجد کو لینے کے لیے بازوداکئے ہوئے کھڑا ہے ، جسے اس نے تخلیق کیا تھا ، جس نے اپنے خالق کے خلاف گنا ہ کیاتھا اور جس نے گناہوں کی وجہ سے مسیح مصلوب نے اپنے جسم پر اس کے داغ لئے اور جب آدم نے مسیح یسوع کے بدن پر کیلوں کے چھید دیکھے تو اس کے سینے سے نہ لگا بلکہ اس کے قدموں میں گر کر کہنے لگا “ذبح کیاہو ا ہی عزت اور تمجید کے لائق ہے” مکا شفہ 12:5۔ نجات دہندہ اسے بڑی شفقت سے اوپر اٹھاتا ہے اور اسے فرماتا ہے کہ اپنے عدن کے گھر کو دیکھو جس میں سے آپ عرصہ سے جلا وطن کر دیئے گئے تھے ۔AK 619.4

    جب آدم کو عدن سے نکال دیا گیا تو اس کی زمین پر دکھوں سے بھر گئی تھی ہرایک مرتا ہو اپتا ، ہر ایک قربان کیا جانے والا جانور ، اور خوبصورت فطرت پر ہر بدنما دھبہ ، انسان کی پاکیزگی پر ہرداغ، گنا ہ کی یاد تازہ کرتا تھا اور جب وہ بڑھتی ہوئی بدی کو دیکھتا تو اسے ہولناک ذہنی کرب اور پچھتاوے کا سامنا ہوتا اور گنا ہ اسے ملامت نفس سے دو چار کیے رکھا اور اپنے گنا ہ کی پاداش میں اس نے اسے تقریباً ایک برس تک بڑے صبر سے برداشت کیا ۔ بڑی خلوص نیتی سے اس نے توبہ کی اور موعودہ مسیح پر ایمان لے آیا اور وہ مردوں میں سے جی اٹھنے کی امید میں خدا وند کو پیارا ہو گیا ۔ خدا کے بیٹے نے آدم کو نا کامی اورگناہ سے رہائی بخش دی اور اب کفار کی خدمت کے ذریعہ وہ اپنی پہلی بادشاہت میں بحال ہو گیا ۔AK 620.1

    خوشی سے آگے بڑھتے ہوئے وہ ان درختوں کو دیکھتا ہے جو ایک وقت اس کے لیے باعث مسرت تھے ۔ وہی درخت جن کے پھل وہ معصومیت اور خوشی کے زمانہ میں جمع کیا گرتا تھا ۔ انگور کی ان بیلوں کو دیکھا جن کی اس نے خودنگہبانی کی تھی اور ان پھولوں کو بھی جنہیں وہ محفوظ رکھنے میں خوشی محسوس کرتا تھا۔ اس کے ذہن میں وہ سارا منظر آگیا ۔ اسے سمجھ آگئی کہ یہ بحال شدہ عدن ہے اور یہ اس وقت سے بھی زیادہ دلکش ہے جب وہ اس میں سے نکالا گیا تھا ۔ مسیح یسوع اسے زندگی کے درخت کے پاس لے جاتا ہے اور جلالی پھل توڑ کر اسے کھانے کے لیے کہتا ہے وہ اپنی طرف دیکھتا ہے اور اپنے خاندان کے بہت بڑے نجات یافتہ گروہ کو دیکھتا ہے جو خدا کے فردوس میں کھڑا ہے اس کے بعد وہ اپنا آب وارتاج اتار کر مسیح یسوع کے قدموں میں رکھ دیتا ہے اور اپنے نجات دہند ہ کے سینے سے لگ کر چمٹ جاتا ہے پھر وہ سنہری ستارہ چھوتا ہے اور گنبدہ فلک سے یہ آواز گونجتی ہے (ذبح کیا ہوا برہ ہی عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے ۔ پھر زندہ ہے تمام بنی آدم اپنے تاج اتار کر نجات دہندہ کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں اور خود اس کی پرستش کے لیے اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہو جا تے ہیں ۔AK 620.2

    اس دوبارہ ملاپ کو فرشتے دیکھتے ہیں جو آدم کے گناہ میں گرنے پر روۓ تھے اور مسیح یسوع کے مردوں میں سے جی اٹھنے اور آسمان پر چڑھنے کے وقت نہایت شادمان ہوۓ تھے ور جس نے ان سبھوں کی قبروں کو کھول دیا جو اس پر ایمان لائے تھے- اب انہوں نے نجات کے کام کی تکمیل کو انجام پاتے دیکھ لیا اور حمدوثنا کی آوازوں میں اپنی آوازوں کو ملایا- AK 620.3

    تخت کے سامنے شیشے کے سے سمندر جس میں آگ ملی ہوئی تھی اور خدا کی روشنی سے دمک رہا تھا اس پر وہ لوگ کھڑے تھے جنہوں نے حیوان اور اس کے بت اور اس کی چھاپ اور اس کے نام کے عدد پر فتح پائی- “پھر میں نے شیشہ کا سا ایک سمندر دیکھا جس میں آگ ملی ہوئی تھی اور اس حیوان اور اس کے بت اور اسکے نام کے عدد پر غالب آئے تھے ان کو اس شیشہ کے سمندر کے پاس خدا کی بربطیں لئے کھڑے ہوۓ دیکھا اور وہ خدا کے بندہ موسیٰ کا گیت گاتے تھے- “پھر میں نے نگاہ کی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ برہ صیون کے پہاڑ پر کھڑا ہے اور اس کے ساتھ ایک لاکھ چوالیس ہزار شخص ہیں جن کے ماتھے پر اس کا اور اس کے باپ کا نام لکھا ہوا ہے اور مجھے آسمان پر سے ایک ایسی آواز سنائی دی جو زور کے پانی اور بڑی گرج کی سی آواز تھی اور وہ آواز ایسی تھی جیسے بربط نواز بربط بجاتے ہوں اور وہ تخت کے سامنے نیا گیت گا رہے تھے- جسے ایک لاکھ چوالیس ہزار شخصوں کے سوا جو دنیا میں سے خرید لئے گئے تھے کوئی اس گیت کو نہ سیکھ سکا- کیونکہ یہ گیت ان کے تجربے کا گیت تھا- ایسا تجربہ جو کسی اور کو نہ ہوا ہو- یہ وہ ہیں جو برہ کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں جہاں کہیں وہ جاتا ہے- یہ وہ ہیں جو زندوں کی دھرتی سے آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور یہ خدا اور برہ کے لئے پہلے پھل ہونے کے واسطے آدمیوں میں سے خرید لئے گئے ہیں” مکاشفہ -5-1:14, 3-2:15 یہ وہی ہیں جو اس بڑی مصیبت سے نکل آئے ہیں کہ ج ب سے قومیں قائم ہیں ایسی بڑی مصیبت نہیں آئ انہوں نے یعقوب کے وقت کی مصیبت بھی برداشت کی ہے وہ خداوند کی آخری عدالت میں بھی بغیر شفاعتی کے کھڑے ہوۓ- مگر انھیں رہائی مل گئی کیونکہ انہوں نے اپنے جامے دھوۓ اور برے کے خون سے سفید کئے- “ان کے منہ سے کبھی جھوٹ نہ نکلا تھا- وہ بے عیب ہیں” مکاشفہ -5:14AK 621.1

    اس لئے وہ خداوند کے تخت کے سامنے ہیں اور اسکی مقدس ہیکل میں رات دن اس کی عبادت کرتے ہیں اور جو تخت پر بیٹھا ہے وہ اپنا خیمہ ان پر تانے گا- انہوں نے وبا اور قحط سے زمین کو ویران ہوتے دیکھا ہے اور سورج کو انسانوں کو جھلسنے کو قوت ملی- انہوں نے خود بھی بڑی مصیبتیں جھیلیں ہیں، بھوک اور پیاس برداشت کی ہے- “اس کے بعد نہ کبھی انکو بھوک لگے گی نہ پیاس اور نہ کبھی ان کو دھوپ ستائے گی نہ گرمی- جو برہ تخت کے بیچ میں ہے وہ انکی گلہ بانی کرے گا اور انہیں آب حیات کے چشموں کے پاس لے جائے گا- اور خدا ان کی آنکھوں کے سب آنسو پونچھ دے گا” مکاشفہ -17-14:7AK 621.2

    ہر زمانہ میں نجات دہندہ کے چنیدہ لوگ آزمائشی سکول میں تعلیم اور نظم وضبط کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں- وہ اس دنیا میں تنگ راستے پر چلتے رہے- وہ مصیبتوں کی بھٹی میں پاک صاف ہوتے رہے- مسیح یسوع کی خاطر انہوں نے حقارت، مخالفت اور تہمت اور بہتان برداشت کئے- انہوں نے شدید کشمکش کے دوران اس کی پیروی کی- انہوں نے خود انکاری برداشت کی ور مایوسیوں کا تلخ تجربہ کیا- اپنے تکلیف دہ تجربہ سے انہوں نے گناہ کی بدی، اسکی قوت کو دیکھا اور اس سے نفرت کی- گناہ کے علاج کے لئے جو بے پایاں قربانی دی گئی اس کے احساس نے انہیں بڑی حلیمی عطا کی اور ان کے دل اس کے لئے خوشی ور شکر گزاری سے بھر گئے- ور وہ جو کبھی گناہ میں نہیں گرے وہ اسکی قدر نہیں کر سکتے- جو گناہ میں گرے ہیں وہ زیادہ محبت دکھاتے ہیں کیونکہ انہیں زیادہ معاف کیا گیا ہے- مسیح یسوع کے دکھوں میں شامل ہونے سے وہ اس لائق ٹھہرے کہ وہ اس کے جلال میں بھی شریک ہو سکیں-AK 622.1

    خدا کی میراث بالی منزلوں، تنگ وتاریک مکانوں، جیلوں، سولیوں، پہاڑوں، ویرانوں، زمین کی غاروں اور سمندر کی کہف (تہہ) سے آتی ہے- اس دھرتی پر وہ بدنصیب محتاج، مصیبت زدہ، اور عذاب میں مبتلا تھے- کروڑوں ذلت وخواری میں لدھے ہوۓ قبروں میں اتر گئے کیونکہ انہوں نے شیطان کے دھوکے فریب کو قبول نہ کیا- انسانی مسند عدالت نے ان کے ساتھ بدترین مجرموں کا سا سلوک کیا- مگر اب “خدا آپ ہی انصاف کرنے والا ہے” زبور -6:50 اب زمینی فیصلے رد کر دیئے گئے ہیں- “اس کے لوگوں کی رسوائی تمام سر زمین پر سے مٹا دی جائے گی” یسعیاہ -8:25 وہ خود کو مقدس اور مخلصی یافتہ لوگ کہیں گے اس نے انہیں “راکھ کے بدلے سہرا اور ماتم کی جگہ خوشی کا روغن اور اداسی کے بدلے ستائش کا خلعت” دینے کا اعلان کیا ہے- وہ اب کبھی بھی کمزور، ستم رسیدہ، پراگندہ اور کچلے نہیں جائیں گے- اب سے لے کر ہمیشہ تک وہ خداوند کے ساتھ رہیں گے- وہ تخت کے سامنے ایسا قیمتی لباس پہن کر کھڑے ہوں گے جیسا کسی بھی زمینی معزز اور صاحب نے کبھی بھی نہ پہنا ہو- ان کے سروں پر ایسے جلالی تاج ہوں گے جو کسی بھی زمینی حکمران کو نصیب نہ ہوۓ- آہ ونالہ اور درد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اختتام پذیر ہو گیا- جلال کے بادشاہ نے تمام چہروں سے آنسو پونچھ دیئے- غم واندوہ کے بننے کی ہر وجوہ کو موقوف کر دیا گیا- کھجوروں کی ٹہنیوں کے لہرانے کے دوران وہ حمدوثنا کا بڑا واضح اور شیریں گیت گاتے ہیں- ہر ایک گیت میں سر ملاتا ہے یہاں تک کہ آسمان کے گنبد گونج اٹھتے ہیں “نجات ہمارے خدا کی طرف سے ہے جو تخت پر بیٹھا ہے اور برہ کی طرف سے- اور سب فرشتے تخت کے آگے منہ کے بل گر پڑے اور خدا کو سجدہ کر کے کہا آمین- حمد اور تمجید اور حکمت اور شکر اور عزت اور قدرت اور طاقت عبد الا آباد ہمارے خدا کی ہو- آمین” مکاشفہ -12-10:7 AK 622.2

    اس زندگی میں ہم نجات کے شاندار موضوع کو سمجھنا شروع کر سکتے ہیں- اپنے محدود فہم کے ساتھ ہم بڑی ایمانداری سے رسوائی اور عظمت، اندگی اور موت، انصاف اور رحم کو ہی سمجھ پاتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں- پھر بھی ہم کسی طرح ابھی اسکی پوری اہمیت کی گہری سے شناسائی حاصل نہیں کر سکتے- مخلصی بخشنے والی محبت کی لمبائی اور چوڑائی، گہرائی اور اونچائی کو ہم بہت ہی کم سمجھ سکتے ہیں- نجات کی تجویز پوری طرح سمجھ میں نہ آ سکے گی- گو جن کا کفارہ ادا کیا گیا ہے جیسے وہ دیکھتے ہیں، جیسے وہ دیکھے گئے ہیں، اور جانتے ہیں جیسے وہ جانے گئے ہو- مگر ابدی زمانوں میں نئی صداقت متحیر اور پرمسرت ذہنوں پر مسلسل آشکارا ہوتی رہے گی- بیشک اس دنی اکے رنج والم اور آزمائش اور انکی وجوہ موقوف ہو جائیں گی- پھر بھی خدا کے لوگوں کو یہ امتیازی علم حاصل ہوتا رہے گا کہ انکی نجات کے لئے کیا ادا کرنا پڑا-AK 623.1

    نجات یافتگان کے لئے مسیح کی صلیب ابدیت تک سائنس اور گیت ہو گا- وہ جو مسیح یسوع میں جلالی ہو کر آئے وہ مسیح مصلوب کو دیکھیں گے اور اس بات کو کبھی بھی فراموش نہ کریں گے کہ جسکی قدرت نے تخلیق کیا، انگنت دنیاؤں کو وسیع فضاؤں کے ذریعہ سہارا دیا، خدا کا چہیتا، آسمان کی عالی قدر ہستی، وہ جس کی کروبی اور سرافیم عبادت کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، اس نے خود کو اس قدر پست کر دیا تاکہ گری ہوئی آل آدم کو بلند کرے- اس نے گناہ کی رسوائی کو اپنے اوپر اٹھایا اور باپ نے جب چہرہ چھپا لیا تو اس اذیت کو بھی برداشت کیا- یہاں تک کہ کھوئی ہوئی دنیا نے اسکا دل توڑ دیا اور کلوری کی صلیب پر اسکی زندگی کچل دی- تمام دنیا کے خالق نے اپنے تمام جلال کو ایک طرف رکھ دیا اور رسوائی قبول کی- اب سے تمام کائنات اسکو ہدیہ عقیدت پیش کرے گی اور جیسے کہ بچائے ہوۓ اپنے نجات دہندہ کو اور اس کے چہرے پر اس کے باپ کا تابدار جلال دیکھیں گے، جب اس کے تخت پر نگاہ کریں گے جو ہمیشہ ہمیشہ تک قائم رہے گا اور جب یہ بھی جان لیں گے کہ اسکی بادشاہیت ابدی ہے تو وہ یہ نعرہ ہائے تحسین بلند کریں گے- “ذبح کیا ہوا برہ ہی عزت اور تمجید اور حمد کے لائق ہے، اس نے ہمیں خدا کے لئے اپنے بیش قیمت خون سے مخلصی بخشی!”AK 623.2

    صلیب کا بھید، دیگر تمام بھیدوں کا انکشاف کرتا ہے- وہ روشنی کی ندیاں جو کلوری سے ضیاپاشی کرتی ہیں، وہ خداوند کے وہ اوصاف ہیں جن سے ہم خوف کھاتے تھے مگر اب وہ دلکش دکھائی دیتے ہیں- رحم، شفقت اور پدرانہ محبت کو، پاکیزگی، انصاف اور قدرت کے ساتھ ملتے ہوۓ دیکھا گیا ہے اور جب ہم اس کے تخت کی عظمت کو دیکھتے ہیں جو بہت ہی ارفع واعلے ہے تو ہم اسکی پر فضل سیرت کو سمجھتے ہیں، اور اس کے اس خطاب “اے ہمارے باپ” کی اہمیت کو جیسے اب سمجھتے ہیں پہلے نہیں سمجھتے تھے-AK 624.1

    یہ بھی دیکھا جائے گا کہ وہ جس کی حکمت بےپایاں ہے ہماری نجات کے لئے اپنے بیٹے کی قربانی کے علاوہ کوئی اور ترکیب نہیں سوچ سکتا تھا- اس قربانی کا عوضانہ، ان لوگوں کی خوشی، پاکیزگی اور بقا بخشتا ہے جن کا کفارہ دیا گیا- مسیح یسوع کی کشمکش جو تاریکی کے حاکموں کے ساتھ تھی اس کا نتیجہ نجات یافتگان کے لئے مسرت، اور تاابد خدا کے جلال تک رسائی اور اس روح کی خدا کی نظر میں ایسی بڑی قدر ہے کہ خداوند نے جو اس کے لئے قیمت ادا کی ہے اس سے مطمئن ہے اور خود خداوند یسوع مسیح بھی اپنی عظیم قربانی کے ثمرات کو دیکھ کر بہت ہی مطمئن ہے-AK 624.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents