Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    دسواں باب - جرمنی میں اصلاح کی پیش رفت

    لوتھر کی پراسرار گمشدگی نے پوری جرمنی کو حیرت زدہ کر دیا۔ اسکے بارے ہر جگہ باز پرس ہونے لگی۔ افواہیں گردش کرنے لگیں اور بیشتر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ اسے قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کے لئے نہ صرف اسکے جگری دوستوں نے نوحہ کیا بلکہ ان ہزاروں لوگوں نے بھی جنہوں نے اعلانیہ ریفرمیشن کا ساتھ نہ دیا تھا۔ اس میں بہتیرے ایسے تھے جنہوں نے اس کی موت کا بدلہ لینے کے لئے قسم کھا لی۔ AK 180.1

    رومی لیڈروں نے خوفزدہ ہو کر دیکھا کہ لوگوں کے تاثرات ان کے خلاف کس قدر سر اٹھا رہے ہیں۔گو پہلے تو وہ لوتھر کی موت کا سن کر بڑے خوش ہوۓ، لیکن پھر جلد ہی لوگوں کے غضب کی وجہ سے منہ چھپانے لگے- جب لوتھر ان کے درمیان میں تھا تو اس کے بہادری اور بےباکی کے عمل سے اس کے دشمن اس قدر خوفزدہ نہ تھے جتنے اس کے معزول ہونے پر ہوۓ- وہ جو اپنے غصے کی حالت میں اس بےباک اصلاح کار کو تباہ کرنے کے خواہاں تھے اب خوف سے اس لئے بھر گئے کہ وہ اب بےبس قیدی ہے- ان میں سے ایک نے کہا کہ “ہمارے بچنے کی اب ایک ہی راہ ہے کہ ہم لوتھر کی تلاش دنیا کے ہر حصے میں شروع کر دیں اور قوم کے سامنے اسے پیش کریں جو اسکی موجودگی کا مطالبہ کر رہی ہے”- D’aubigne,b.9.ch.1 AK 180.2

    شہنشاہ کا حکم بےوقعت دکھائی دیتا ہے- پوپ کے قانونی نمائندے یہ دیکھ کر غضبناک ہو گئے کہ اس نے لوتھر کی نسبت ہمارے حکم کو کم توجہ دی- ان خبروں سے کہ وہ محفوظ ہے مگر قید میں ہے- اس سے لوگوں کے خدشات میں کمی واقع تو ہوئی مگر اس کے حق میں مزید جوش وخروش بڑھ گیا- اس کی تحریرات پہلے اتنے ذوق وشوق سے نہیں پڑھی جاتی تھیں جتنی اب پڑھی جانے لگیں- اس بہادر شخص کے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے ممبران کی تعداد بڑھتی اور اس کے ساتھ ملتی گئی جس نے مشکل حالات میں خدا کے کلام کا دفاع کیا- ریفریمیشن مسلسل قوی تر ہو گئی- وہ بیج جو لوتھر نے بویا تھا ہر جگہ اگنے لگا- اس کی غیر موجودگی نے وہ کام کر دکھایا جو اسکی موجودگی بھی نہ کر پائی- لوتھر کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے کارگزاروں نے اپنی نئ ذمہ يداریوں کومحسوس کيا۔ کيوںکہ اب انکا ليڈر جاتا رہا ہے۔AK 180.3

    نئے ایمان اور دیانتداری کیساتھ انہوں نے پوری ہمت کے ساتھ کام کو آگے بڑھایا تاکہ وہ کام جو عالی ہمتی سے چلا تھا اسکی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو-مگر ابلیس بیکار بیٹھا نہ تھا- اب اس نے وہی کچھ کرنے کی کوشش کی جو اس نے ہر اصلاحی تحریک میں کرنے کی کوشش کی تھی- یعنی لوگوں سکو دھوکے سے اصلی کام کی جگہ نقلی کام مہیا کر کے برباد کرنے کی کوشش- اسی طرح جیسے پہلی صدی میں کلیسیا کے اندر جھوٹے مسیح آ دھمکے تھے- سولھویں صدی میں جھوٹے نبی بھی اٹھ کھڑے ہوۓ-AK 181.1

    تھوڑے سے مرد جو مذہبی دنی اکی اصلاح سے بڑے متاثر ہوۓ انہیں یہ گمان گزرا کہ خاص آسمانی مکاشفہ انہیں بخشا گیا ہے تاکہ ریفریمیشن کے اس کام کو مکمل کریں جس کے بارے انہوں نے کہا کہ لوتھر نے کم ہمتی سے شروع کیا تھا- جبکہ یہ حقیقت تھی کہ جو کام ہو چکا تھا وہ اسے ہی برباد کرنے کے خواہاں تھے- انہوں نے اس بڑے اصول کو رد کر دیا جو ریفریمیشن کی بنیاد تھی- یعنی خداوند کا پاک کلام ہی ایمان اور اسکی ضروری مشق کے لئے بھرپور معیار مہیا کرتا ہے- اور انہوں نے اس لا خطا رہبر کی جگہ، تغیر پذیر اور غیر یقینی معیار رکھ دیا جس کا انحصار ان کی اپنی محسوسات اور سوچوں پر تھا- یوں غلط اور جھوٹی تعلیم کی نشاندہی کرنے والوں کو ایک طرف رکھنے سے ابلیس کے لئے راستہ ہموار کر دیا تاکہ وہ لوگوں کے اذہان کو اپنی مرضی کے مطابق کنٹرول کر سکے-AK 181.2

    ان میں سے ایک نبی نے کہا کہ مجھے جبرئیل فرشتہ نے ہدایات دی ہیں- ایک سٹوڈنٹ جو اس کے ساتھ آ ملا اس نے اپنی پڑھائی لکھائی ترک کر دی اور دعوی کیا کہ خدا نے مجھے خود حکمت عطا کی ہے کہ میں اس کے کلام کی تعبیر کروں- ان کے ساتھ بہتیرے جو جنونی طبیعت کے مالک تھے آ ملے- اس طرح کی تحریک نے کافی ہلچل مچا دی- لوتھر کی منادی نے ہر جگہ لوگوں کو بیدار کر دیا تھا کہ وہ ریفریمیشن کی ضرورت کو محسوس کریں- اور اب بعض جو حقیقت میں مخلص لوگ تحت ان نئے نبیوں کے بہکاوے میں آ گئے-AK 181.3

    اس تحریک کے لیڈرز وٹن برگ پہنچے اور انہوں نے اپنا دعوی ملانچ تھان اور اس کے ہم خدمتوں کے سامنے پیش کیا- انہوں نے کہا کہ “خدا نے ہمیں لوگوں کو ہدایت دینے کے لئے بھیجا ہے- ہماری خداوند کے ساتھ بڑی طویل اور خوشگوار ماحول میں گفتگو ہوئی ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ کیا ہو گا- ہم رسول اور انبیاء ہیں اور ہم ڈاکٹر لوتھر کو درخواست کرتے ہیں”- IBid,B,9.Ch,17.AK 181.4

    نئی تعلیم کا پھل جلد سامنے آنے لگا- لوگوں کو کہا گیا کہ وہ بائبل کو نظر انداز کر دیں یا پھر اس کو نظروں سے دور کر دیں- سکولز افراتفری کا شکار ہو گئے- طالب علموں نے تمام پابندیوں کو پاؤں تلے روندا، تعلیم کو خیر باد کہہ دیا اور یونیورسٹیاں خالی کر دیں- وہ مرد جو خود سکو اس قابل سمجھ رہے تھے کہ وہ اصلاحی کام کا کنٹرول سنبھال لیں گے اور بیداری لائیں گے وہ صرف ریفریمیشن کے کام کو تباہی کے دہانے پر لانے میں ہی کامیاب ہو سکے- پوپ کی قیادت میں اب پراعتمادی آ گئی اور اس نے فخریہ کہا کہ “ایک اور دھکا- پھر سب کچھ ہمارا ہو جائیگا”- IBid,B,9.Ch,17.AK 182.1

    جو کچھ ہوا تھا اس کے بارے لوتھر نے وارٹ برگ میں جان کر کہا کہ “میں ہمیشہ سے یہ توقع کرتا تھا کہ ابلیس ہمارے پاس ایسی وبا ضرور بھیجے گا”- IBid,B,9,Ch,7.AK 182.2

    اس نے ان مکار نبیوں کے صحیح کریکٹر کو بھانپ لیا- اور اس خطرے سکو جان لیا جو سچائی کے مقصد کو درپیش تھا- پوپ اور شہنشاہ کی مخالفت اسے اس قدر پریشن اور مایوس نہ کر پائی، جتنا اس کو اب تجربہ ہونے لگا- ریفریمیشن کے یہ برائے نام حمایتی اس کے بدترین دشمن بن گئے- وہ صداقتیں جو اس کے لئے بڑی مسرت اور سکون کا سبب بنیں، ان کو ہی استمال کر کے کلیسیا میں فساد اور گومگو کی حالت پیدا کر دی گئی-AK 182.3

    اصلاح کے کام میں، لوتھر کو خداوند کی روح نے آگے بڑھنے کے لئے مائل کیا تھا- اس کے کام کو اور اسے بہت آگے تک پہنچایا گیا تھا- جس طرح کی اس نے پوزیشن لی تھی اس کے متعلق تو اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا- کہ وہ اس قدر بنیادی تبدیلیاں لے آئے گا- تاہم وہ قادر مطلق کے ہاتھ میں محض ایک اوزار کے طور پر رہا- وہ اکثر اپنے کام کے نتیجے سے کانپ اٹھتا تھا- ایک دفعہ اس نے یوں کہا “اگر میں جانتا کہ میری تعلیم سے جو خود بشارت ہے کوئی بھی ایک شخص زخمی ہو سکتا ہے خواہ وہ کتنا ہی ادنی کیوں نہ ہو- تو میں غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی نسبت دس دفعہ مرنے کو تیار ہوتا”- IBid,B,9.Ch,7AK 182.4

    لیکن اب وٹن برگ جو ریفریمیشن کا مرکز تھا، جنونیوں اور لاقانونیت کے ہاتھوں آ چکا تھا- تو بھی یہ ہولناک حالت لوتھر کی تعلیم کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی- مگر ساری جرمنی میں اسکا الزام اس کے سر تھوپا جا رہا ہے- کبھی کبھی وہ روح کی تلخی میں پوچھتا “کیا ریفریمیشن کے عظیم کام کا یہ نتیجہ نکلنا تھا“؟ IBid,B,9.Ch,7.AK 182.5

    پھر وہ جیسے کہ دعا میں خدا کے ساتھ کشتی کرتا تھا تو اس کے دل میں سکون آ جاتا تھا- وہ کہتا “یہ کام میرا نہیں ہے، بلکہ صرف تیرا کام ہے” “تو اسے اوہام پرستی یا جنونیت کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دے گا- چناچہ ایسے بحران کے دوران وہاں زیادہ دیر تک قیام کرنے کے خیال کی کشمکش غیر فعال رہ گئی- لہٰذا اس نے وٹن برگ جانے کا فیصلہ کر لیا-AK 183.1

    تاخیر کئے بغیر وہ اپنے خطرناک سفر پر روانہ ہو گیا- وہ حکومت کی قید میں تھا- دشمن کسی وقت بھی اس کی جان لے سکتے تھے- اس کے دوستوں کو منع کیا گیا تھا کہ نہ اسے کسی طرح کی مدد فراہم کریں اور نہ ہی پناہ دیں- امپریل گورنمنٹ اس کے ساتھیوں کے خلاف سنگین اقدامات کرنے کو تھی- مگر اس نے دیکھا کہ انجیل کا کام خطرے میں ہے اور وہ بلا خوف وخطر خداوند کے نام سے سچائی کے لئے جنگ لڑنے کو نکل پڑا-AK 183.2

    وارٹ برگ چھوڑنے کا مقصد بیان کرنے کے بعد، ایک خط میں ایلکٹور کو لوتھر نے کہا “عالی جاہ آپکو معلوم ہو میں وٹن برگ اس کے زیر پناہ جا رہا ہوں جو ایلکٹور اور شہزادوں سے بھی عالی مقام ہے- میں آپ کی مدد کی درخواست نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے آپکی پناہ درکار ہے- بلکہ میں خود آپ کا دفاع کروں گا- اگر میں جانتا کہ حضور میرا دفاع کر سکتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں تو میں کبھی بھی وٹن برگ نہ جاتا- کوئی تلوار اس مقصد کو آگے بڑھانے سے عاری ہے- کسی بھی انسان کی مدد یا مرضی کے بغیر خدا تنہا سب کچھ کرنے پر قادر ہے- وہ جس کا ایمان بہت بڑا ہے وہی سب سے زیادہ دفاع کرنے کے قابل ہے”- IBid,B,9.Ch,8AK 183.3

    وٹن برگ جاتے ہوۓ راستے میں جو دوسرا خط لکھا لوتھر نے اس میں یہ اضافہ کیا- “عالی جاہ میں اپنے اوپر آپ کی ناراضگی اور ساری دنیا کا غصہ لینے کو تیار ہوں- کے وٹن برگ کی بھیڑیں میری بھیڑیں نہیں- کیا خدا نے انھیں میرے سپرد نہیں کیا؟ اور اگر ضروری ہو تو کیا میں ان کی خاطر موت کا سامنا نہ کروں؟ علاوہ ازیں مجھے جرمنی میں ہولناک شورش نظر آ رہی ہے جس کے ذریعہ سے خداوند ہماری قوم کو سزا دے گا”- IBid,B,9,Ch,7.AK 183.4

    بڑی احتیاط اور فروتنی اور ثابت قدمی کے فیصلے کے ساتھ وہ اپنی خدمت میں داخل ہوا- اس نے کہا کہ ہمیں بات چیت سے اس سارے منصوبے کو تباہ کرنا ہو گا جو تشدد کے ذریعہ قائم کیا گیا ہے میں اوہام پرستوں اور بے ایمانوں کے “خلاف طاقت کا استعمال نہیں کروں گا---- کسی کو بھی مجبور نہیں کیا جانا چاہیے- آزادی ہی ایمان کا اصل جوہر ہے- IBid,B,9,Ch,8AK 183.5

    وٹن برگ کے ذرائع نے یہ مشہور کر دیا گیا کہ لوتھر واپس آ گیا ہے اور وہ منادی کرے گا- لوگ ہر طرف سے جمع ہونا شروع ہو گئے اور چرچ میں تل دھرنے کو جگہ نہ رہی-AK 184.1

    پلپٹ پر چڑھ کر اس نے بڑی دانائی اور شائستگی سے ہدایت دی، نیکی کی ترغیب دی اور ان کی سرزنش بھی کی جنہوں نے تشدد کے ذریعہ ماس (Mass) کو موقوف کیا تھا- اس نے کہا AK 184.2

    “ماس (Mass) بری چیز ہے- خداوند اس کا مخالف ہے- اسے موقوف ہونا ہی چاہیے- اور میری خواہش ہے کہ دنیا بھر میں انجیل کی اس پر برتری ہو- لیکن طاقت کے ذریعہ سے کسی کو بھی برباد نہیں کرنا چاہیے-ہمیں اس معاملہ کو خداوند کے ہاتھ میں چھوڑ دینا چاہیے- اس کے کلام کو عمل کرنا چاہیے نہ کہ ہمیں ایسا کیوں ہے؟ آپ سوال کر سکتے ہیں- کیونکہ میں انسان کا دل اپنے ہاتھ میں نہیں پکڑتا، جیسے کہ کمہار مٹی کو پکڑتا ہے- ہمیں بولنے کا حق ہے- مگر عمل کرنے کا حق نہیں- آئیے ہم منادی کریں- باقی کام خداوند کے ہاتھ میں چھوڑ دیں-کیا میں طاقت کا استعمال کروں-اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ تصنع، ظاہرداری، انسانی قانون اور رسوم اور ریاکاری، مگر اس میں نہ دل کی مخلصی، نہ ایمان اور نہ ہی محبت شامل ہو گی- جہاں ان تین چیزوں کی کمی ہو گی- میں ایسا نتیجہ حاصل کرنے کے لئے کسی کو بھی نہیں اکساؤں گا-رب جلیل صرف اپنے کلام سے اس سے بھی زیادہ کر سکتا ہے جتنا میں اور آپ اور ساری دنیا اکٹھے مل کر بھی نہیں کر سکتے- خداوند ذوالجلال دلوں کو اپنی گرفت میں لیتا ہے، اور جب دل لے لیا جائے تو سب کچھ جیت لیا جاتا ہے-AK 184.3

    “میں منادی بھی کروں گا، بحث مباحثہ بھی کروں گا اور لکھوں گا بھی- مگر میں کسی کو کبھی مجبور نہیں کروں گا کیونکہ ایمان کلیا رضاکارانہ فعل ہے- دیکھئے جو کچھ میں نے کیا ہے- میں پوپ کے گناہوں کی معافی کی خریدوفرخت اور پوپ کے تمام حواریوں کے خلاف کھڑا ہوں- مگر تشدد اور شورش کے بغیر- میں خداوند کا پاک کلام آگے رکھتا ہوں- میں نے منادی کی اور لکھا- میں نے صرف یہی کیا ہے اور جب میں سو رہا تھا تو اس کلام نے جس کی میں نے منادی کی اس نے پوپ کی حکومت کے حواریوں کو شکست دی- اتنا نقصان تو اسے بھی کسی شہنشاہ یا پرنس نے بھی نہیں پہنچایا- اس میں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا- اور اگر میں نے فورس کے لئے اپیل کی ہوتی تو شاید ساری جرمنی خون کے سیلاب میں ڈوب جاتی- مگر اسکا نتیجہ کیا ملتا؟ روح اور بدن دونوں کی تباہی وبربادی- اس لئے میں خاموش ہو گیا اور ساری دنیا میں صرف پاک کلام کو جانے دیا”- IBid,B,9.Ch,8AK 184.4

    ایک پورا ہفتہ لوتھر مسلسل ان لوگوں کے سامنے منادی کرتا رہا جن کو دلی چاہت تھی- جنونی جوش وخروش کے جادو سکو کلام مقدس نے ختم کر دیا- انجیل کی قدرت ان لوگوں کو سچائی میں واپس لے آئی جو گمراہ ہو گئے تھے- لوتھر کا جنونیوں کے ساتھ الجھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، جن کے طریقہ کار نے کئی برائیوں کو جنم دے دیا تھا- وہ ان کو جانتا تھا کہ وہ مرد ایسے ہیں جن کی قوت فیصلہ درست نہیں- ان کے جذبات ان کے قابو میں نہیں ہیں جن کا دعوی تو یہ ہے کہ انھیں آسمانی مکاشفہ حاصل ہوا ہے مگر وہ زرہ بھر بھی غلط تعلیمات کی مخالفت نہیں کرتے- اس کے لئے نہ کسی کو مشورہ دیتے ہیں اور نہ ہی سرزنش کرتے ہیں- قبضہ بالجبر ان کے سامنے سپریم اتھارٹی ہے، اور وہ ہر ایک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے دعوؤں کو مانے-اور جب انہوں نے اس کے ساتھ انٹرویو کا مطالبہ کیا تو اس نے انھیں اجازت دے دی، اور اس نے ان کی مکاریوں سکو اتنی کامیابی سے عیاں کیا کہ وہ بہروپئے فورا وٹن برگ سے رفو چکر ہو گئے-AK 185.1

    مذہبی جنون کچھ دیر کے لئے روک دیا گیا- مگر کئی سالوں بعد یہ بہت بڑے دہشت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا، جس کے بہت ہی ہیبتناک نتائج برآمد ہوۓ، اس تحریک کے لیڈران کے بارے میں لوتھر نے کہا “ان کے لئے کلام مقدس بے جان الفاظ تھے، وہ چلاتے ہیں کہ “اے روح، اے روح” مگر میں ہرگز ان کی پیروی نہیں کروں گا- جہاں چاہے روح انہیں لے جائے- خداوند خدا اس کلیسیا سے مجھے محفوظ رکھے جس میں سوائے سینٹس (Saints) کے اور کوئی نہیں ہوتا- میں تو مسکین، کمزور اور بیمار کے ساتھ رہنا چاہوں گا جو جانتے اور اپنے گناہوں کو محسوس کرتے ہیں اور جو خداوند خدا سے مسلسل اپنے دل کی گہرائیوں سے آہ ونالہ کرتے ہیں تاکہ اس کی مدد اور تسلی حاصل کر سکیں”- IBid,B,10.Ch,10AK 185.2

    تھامس (Thomaa Munzer) منذر بہت ہی سرگرم مذہبی جنونی تھا- وہ نہایت ہی قابل شخص تھا- اگر اسکی صحیح رہنمائی کی جاتی تو وہ بہت بھلائی کرنے والا شخص ثابت ہوتا- مگر اس نے حقیقی مذہب کی ابتدائی باتیں (نہیں سیکھیں تھیں) ہی نہیں سیکھیں تھیں- “اس کی دلی تمنا تھی کہ وہ دنیا میں اصلاح لائے، مگر وہ ان جوش وخروش رکھنے والے سرگرم کارندوں کی طرح بھول گیا کہ ریفریمیشن تو پہلے اسکے اپنے باطن میں شروع ہونی چاہیے”- IBid,B,9.Ch,8 AK 185.3

    وہ تو بس اعلی مرتبہ اور اثر ورسوخ حاصل کرنا چاہتا تھا- اور وہ نمبر 1 ہونا چاہتا تھا اور نمبر 2 بننے کے لئے بالکل راضی نہ تھا- یہاں تک کہ وہ لوتھر سے بھی کم ہونے کو تیار نہ تھا- اس نے اعلان کیا کہ اصلاح کار پوپ کی بجائے کلام مقدس کو اختیار کل بنانا چاہتے ہیں- جو پوپ پرستی کی ایک اور قسم ہے- اس نے دعوی کیا کہ مجھے سچی اور راست اصلاح متعارف کروانے کا حکم ملا ہے- منذر نے کہا کہ “جس میں ایسی روح ہے، وہی حقیقی ایمان رکھتا ہے- خواہ اس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کلام مقدس نہ دیکھے ہوں”- IBid,B,10.Ch,10 AK 185.4

    مذہبی جنونی ٹیچرز نے خود کو اپنے وہم وگمان اور قیاس کے تابع کر دیا اور ہر وہ خیال اور ہر وہ حرکت جو ابھارتی اسے خدا کی آواز قرار دے دیا-اس کے نتیجہ میں وہ انتہا پسندی کی طرف آ گئے- بعض نے تو یہ کہتے ہوۓ اپنی بائبلیں بھی جلا دیں کہ “لفظ مار ڈالتے ہیں مگر روح زندہ کرتی ہے” 2 کرنتھیوں 6:3- منذر کی تعلیم نے لوگوں کی خواہش کو انوکھا بننے کی ترغیب دی- انسانی خیالات اور آرا کو خدا کے پاک کلام پر برتری دینے پر ان کے گھمنڈ میں اضافہ ہوا- ہزاروں لوگوں نے پبلک ورشپ کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ شہزادوں کی تابعداری کی جائے اور یہ خدا اور بلیعال دونوں کی بیک وقت پرستش کروانے کا مقصد تھا-AK 186.1

    لوگوں نے پیشتر ہی پوپ پرستی کے جوۓ کو پھینکنا شروع کر دیا تھا- منذر کی انقلابی تعلیم جو الہی اجازت کا دعوی کرتی تھی- اس نے انہیں ہر طرح کے اختیار سے آزاد ہونے پر اکسایا- اور ہر چیز کی باگ ڈور اپنے جذبات اور آرا کے ہاتھ تھما دی- اس کے بعد سرکشی اور جنگ وجدل کے وہ مناظر دیکھے گئے جن سے جرمنی کا میدان خون میں لت پت ہو گیا-AK 186.2

    روح کی جانکنی کا تجربہ جو لوتھر کو کافی عرصۂ پہلے ارفرٹ میں ہوا تھا- اب وہ دگنی قوت سے اس کی روح پر آ پڑا- اس نے دیکھا کہ مذہبی جنونیت کے نتیجے کا سارا ملبہ ریفریمیشن پر ڈالا گیا- پوپ کے شہزادوں نے کہا کہ لوتھر کی تعلیمات کے باعث یہ بغاوت معرض وجود میں آئی ہے اور بہت سے لوگوں نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی-گو یہ الزام بالکل بے بنیاد تھا- اس سے اصلاح کار بے حد بے چین ہوا- سچائی کے مقصد کو مذہبی جنوں کے برابر خیال کر لیا گیا اور یہ سب کچھ اسکی برداشت سے باہر تھا- اور دوسری جانب منحرف ہونے والے لیڈر، لوتھر سے نفرت کرنے لگے کیونکہ نہ صرف اس نے ان کی تعلیمات کی مخالفت کی بلکہ ان کے اس دعوی کو بھی مسترد کر دیا کہ انھیں الہی مکاشفہ حاصل ہوا ہے- علاوہ ازیں انہیں سول ارباب اختیار کے خلاف باغی قرار دیا گیا- اس کے جواب میں انہوں نے لوتھر کو سفلہ ریاکار قرار دے دیا- اسے ایسے دکھائی دیا جیسے وہ خود اپنے اوپر شہزادوں اور لوگوں کا غم وغصہ لے آیا ہے-AK 186.3

    پوپ کے حامی تو باغ باغ ہو گئے اور ریفریمیشن کی تنزلی کی جلد توقع کرنے لگے- وہ لوتھر سکو ان غلط تعلیمات کے لئے بھی مورد الزام ٹھہراتے تھے جن کی تصحیح کے لئے اس نے مخلصانہ کوششیں کی تھیں- مذہبی جنونی پارٹی جھوٹے دعوی کرنے لگی کہ ان کے ساتھ بڑی بے انصافی ہوئی ہے، اور اسے لوگوں کی ہمدردیاں ملنے میں کامیابی حاصل ہو گئی، اور جیسے یہ اکثر ہوتا ہے کہ جو غلط طرف جا کھڑے ہوتے ہیں انھیں شہید خیال کر لیا جاتا ہے- چنانچہ جنہوں نے ریفریمیشن کی شدید مخالفت کی انہیں ہمدردیاں ملیں اور انہیں ظلم وستم اور سفاکی کا شکار جان کر ان کے گن گائے گئے- یہ ابلیس کا کام تھا جو اسی باغی روح سے اکسایا گیا جو پہلے آسمان میں آشکارہ ہوئی تھی-AK 187.1

    ابلیس انسانوں کو مسلسل دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے- اور انھیں گناہ کو راستبازی، اور راستبازی کو گناہ کہنے کی ترغیب دے رہا ہے-اسے اس کام میں کس قدر کامیابی حاصل ہوئی ہے!- کتنی ہی بار خدا کے وفادار لوگوں پر لعنت کی جاتی ہے کیونکہ وہ بے خوفی سے سچائی کے دفاع کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں- جبکہ وہ لوگ جو ابلیس کے کارندے ہوتے ہیں ان کی بڑی تعریف کی جاتی ہے بلکہ انھیں شہیدوں کی طرح قبول کر لیا جاتا ہے- جبکہ جن کی عزت وتوقیر ہونی چاہیے اور خدا کے ساتھ وفادار رہنے کے سبب انکی دستگیری کی جانی چاہیے انہیں بدگمانی اوربے اعتمادی کے تحت تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے-AK 187.2

    جعلی پارسائی، مصنوعی تطہیر، ابھی بھی دھوکے فریب کا کام کر رہی ہے- یہ کئی صورتوں میں اسی روح کا مظاہرہ کر رہی ہے جیسا لوتھر کے زمانہ میں کیا تھا- یہ لوگوں کی توجہ کلام پاک سے ہٹا رہی ہے، اور انسانوں کو ترغیب دے رہی ہے کہ وہ خداوند کی شریعت کے تابع ہونے کی نسبت، اپنی محسوسات اور جذبات کی پیروی کریں- ابلیس کا یہ بہت ہی کامیاب حربہ ہے جس کے ذریعہ وہ پاکیزگی اور سچائی کی سرزنش کرتا ہے-AK 187.3

    لوتھر نے بڑے جارحانہ انداز میں ہر طرف سے ہونے والے حملوں سے انجیل کا دفاع کیا- ہر کشمکش میں خدا کے پاک کلام نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک طاقتور ہتھیار ہے- اس ہتھیار کے ساتھ اس نے پوپ کے بالجبر اختیار، اور سکول ٹیچرز کی استدلالی فلاسفی کے خلاف جنگ لڑی- اور مذہبی جنونیوں کے سامنے مستحکم چٹان کی طرح کھڑا رہا جو ریفریمیشن کے اتحادی بننا چاہتے تھے-AK 187.4

    یہ تمام مخالفت کرنے والے عناصر اپنے طریقہ کار کے ذریعہ مقدس نوشتوں کو ترک کرنے کے چکر میں اور اسکی جگہ انسانی حکمت کو مذہبی سچائی اور علم کا ذریعہ بنانا چاہتے تھے- ریشنل ازم (یہ اصول کہ مذہب کی بنیاد عقل پر ہونی چاہیے) شعور پرست ہے اور وہ اسے مذہب کے لئے کسوٹی بناتی ہے- اور پوپ پرست، پوپ کے اختیار کل کا دعوی کرتے ہیں اور رسولوں کی نہ ٹوٹنے والی لائن اور آسمانی مکاشفہ مانتے ہیں- اور یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ ہر زمانہ میں لا تبدیل رہا ہے اور ہر صنف کا نا معقول عمل اور فضول خرچی اور کرپشن کو پاک قرار دینا ہے- وہ مکاشفہ جس جسکا دعوی منذر اور اسکے ساتھیوں نے کیا وہ کسی اعلے وبالےذرائع سے نہیں بلکہ بے سروپا خیالات اور تصورات کی پیداوار تھا، اور اسکا اثر تمام انسانی اور الہی اختیارات کی خلاف ورزی نکلا- حقیقی مسیحیت خدا کے کلام کو بہت بڑا خزانہ سمجھتی ہے جو الہی سچائی ہے اور ہر طرح کے مکاشفات کی کسوٹی ہے-AK 188.1

    وارٹ برگ واپس آنے پر لوتھر نے عہد جدید کا ترجمہ مکمل کر لیا تھا اور جرمنی کے لوگوں کو ان کی اپنی زبان میں جلد ہی انجیل دے دی گئی- انہوں نے اس ترجمے کو جو سچائی کے دلدادہ تھے بڑی خوشی سے قبول کیا- مگر جن لوگوں نے انسانی احکام اور روایات کا انتخاب کر لیا انہوں نے اسے بڑی حقارت سے رد کر دیا-AK 188.2

    اس پر پریسٹس کے کان کھڑے ہو گئے- کیونکہ انہوں نے سوچا کہ اب عام لوگ ان سے خدا کے کلام کے قانون وغیرہ پر بحث کریں گے- یوں انکی کلام مقدس کے بارے لاعلمی ظاہر ہو جائے گی- ان کے انسانی دلائل کے اوزار، روح کی تلوار کے سامنے بے بس تھے- روم نے اپنے تمام اختیارات کے ساتھ کلام مقدس کی اشاعت کو روکنے کی کوشش کی- مگر سب احکام، ایذا رسانی اور لعنتیں بھیجنا بےمعنی ثابت ہوئیں- جتنا زیادہ انہوں نے بائبل کی ممانعت کی اتنا ہی زیادہ لوگوں سکو یہ جاننے کا اشتیاق بڑھا کہ یہ کیا سکھاتی ہے- جو پڑھ سکتے تھے وہ خود خدا کے کلام کا مطالعہ کرنے کی تمنا کرنے لگے- وہ اسے اپنے ساتھ لے گئے اور اسے بار بار پڑھا اور اس وقت تک وہ تسلی پذیر نہ ہوۓ جب تک انہوں نے اس کا بہت سا حصہ زبانی نہ یاد کر لیا- یہ دیکھتے ہوۓ کہ نئے عہد نامے کو لوگوں نے کس ذوق وشوق سے قبول کیا، لوتھر نے فورا عہد عتیق کا ترجمہ شروع کر دیا اور اس کے مکمل ہونے پر اسے جزوی شائع کر دیا گیا-AK 188.3

    لوتھر کی کتابوں کو شہروں اور گاؤں دونوں میں خوش آمدید کہا گیا- جو کچھ لوتھر اور اس کے دوستوں نے لکھا تھا اسے دوسروں نے مشتہر کیا- مانکس (Monks) خانقاہ کی غیر قانونی ذمہ داریوں کے قائل ہو گئے- سستی اور کاہلی کی زندگی کی جگہ سرگرم زندگی کی خواہش کی گئی- مگر وہ اس قدر لاعلم تھے کہ وہ خدا کے کلام کی تشہیر کرنے سے بالکل قاصر تھے- وہ صوبوں میں گئے، گاؤں کے چکر کاٹے، جھونپڑیوں میں پہنچے جہاں انہوں نے لوتھر اور اس کے دوستوں کی کتابوں کو بیچا- جرمنی بہت جلد ان باعزم اور نڈر کالپوٹرزسے بھر گئی- (کالپوٹر یعنی ادبی مبشر) IBid,B,9,Ch,11 AK 188.4

    ان کتابوں کا مطالعہ غریب اور امیر پڑھے لکھے اور بےعلم سب نے بڑی گہری دلچسپی سے لیا- رات کے وقت گاؤں کے اساتذہ آگ کے الاؤ کے پاس چھوٹے سے گروپ کے لئے انھیں اونچی آواز میں پڑھتے- ان کی ہر طرح کی کوششوں سے کچھ روحیں سچائی کی طرف مائل ہوئیں، اور انہوں نے بڑی خوشی سے خداوند کے پاک کلام کو قبول کیا- اور پھر دوسروں کے ساتھ اس خوشخبری کو بانٹا-AK 189.1

    مکاشفے کے کلام کی تصدیق کی گئی- “تیری باتوں کی تشریح نور بخشتی ہے- وہ سادہ دلوں کو عقلمند بناتی ہے” زبور -130:119 کلام مقدس کا مطالعہ لوگوں کے ذہن ودماغ اور دلوں میں بڑی تبدیلی کا باعث بنا- پوپ پرستی نے اپنی رعایا پر لوہے کا جوا رکھ دیا تھا جس کے باعث وہ بےعلمی اور رسوائی کا شکار ہو چکے تھے- اوہام پرستی اور اس طرح کی دوسری رسموں پر پورا غور وفکر کیا جاتا تھا مگر ان کی تمام سروسز میں دل ودماغ اور شعور کو بہت ہی کم دخل حاصل تھا- لوتھر کی منادی خدا کی سادہ سچائی پیش کرتی اور پھر خدا کا کلام عام لوگوں کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا، جس نے ان کی بےحس، خوابیدہ قوا کو بیدار کر دیا- جس نے نہ صرف ان کی روحانی فطرت کو پاکیزگی بخشی بلکہ ان کی عقل ودانش سکو نئی قوت اور استعداد بخشی-AK 189.2

    ہر طبقے کے لوگوں کے ہہاتھوں میں بائبل دیکھی جانے لگی- اور وہ ریفریمیشن کی تعلیم کا دفاع کرتے دیکھے گئے- پوپ کے وہ حواری جنہوں نے کلام مقدس کا مطالعہ ترک کر رکھا تھا، اب ان پریسٹس اور مانکس (monks) سکو کہا گیا کہ وہ سامنے آئیں، اور لوتھر کی نئی تعلیم کا مقابلہ کریں- مگر وہ بیچارے جو پاک کلام کی تعلیم اور خداوند کی قوت اور قدرت سے بے بہرہ تھے، پرسٹس اور راہب سبھی ان سے بری طرح مات کھا گئے جن کو وہ بے علم اور بدعتی کہتے تھے- ایک کتھولک مصنف نے بادل ناشاد لکھا- “لوتھر نے اپنے پیروکاروں کو راغب کر لیا ہے کہ وہ کلام مقدس کے علاوہ کسی اور چیز پر ایمان نہ رکھیں”- D’aubigne,b.9.ch,11AK 189.3

    معمولی تعلیم رکھنے والے لوگوں سے سچائی کو سننے کے لئے بڑی بھیڑ جمع ہو جاتی اور ان کے ساتھ بڑے پڑھے لکھے اور علم الہیات کے استاد بحث ومباحثہ کرتے- ان بڑے بڑے لوگوں کی شرمناک لاعلمی عیاں ہو جاتی جب انکی بحث کا مقابلہ خدا کے پاک کلام کی سادہ سی تعلیم کے ساتھ ہوتا- مزدور، سپاہی، خواتین، حتی کہ بچے بھی بائبل کی تعلیم سے ان پریسٹس اور ڈاکٹر سے زیادہ واقفیت رکھتے تھے- انجیل کے شاگردوں اور پوپ کی اوہام پرستی کی برتری قائم کرنے والوں میں نمایاں فرق تھا- پوپ کے سکالرز، عام لوگوں سے چنداں بہتر نہ تھے- “قدیم مذہبی حکمت کے چمپین جنہوں نے زبانوں کا مطالعہ نظر انداز کر رکھا تھا اور لٹریچر کو فروغ نہیں دیا تھا انکی مخالفت عالی ہمت ذہین اور فیاض دل نوجوانوں نے کی، جنہوں نے خود کو مطالعہ کے لئے اور کلام مقدس کی تحقیق اور قدیم شہکاروں سے روشناس کرنے کے لئے وقف کر دیا، سرگرم ذہن رکھنے، سرفراز روح، نڈر دل رکھنے والے یہ نوجوان جلد ایسی تعلیم کے خواہاں ہوۓ جس کا عرصۂ تک کوئی مقابلہ نہ کر پایا-AK 190.1

    لہٰذا، جب یہ نوجوان ریفریمیشن کا دفاع کرنے والے کسی بھی اسمبلی میں پوپ کی حکومت کے حامی ڈاکٹرز سے ملے، تو ان پر اس اعتماد کے ساتھ حملہ اور ہوۓ کہ یہ بے علم ڈاکٹرز ان سے ہچکچانے لگے اور شرمندہ ہوۓ اور سب کی نظروں سے گر گئے- IBid,B,9.Ch,11 AK 190.2

    جب رومی پادریوں نے دیکھا کہ ان کی کانگری گیشن میں کمی واقع ہو رہی ہے تو انہوں نے مچسٹریٹس کی مدد طلب کی اور کہا کہ جو کچھ ان کے اختیار میں ہے وہ کریں اور ان کے سامعین کو واپس لانے کی کوشش کریں- مگر لوگوں نے نئی تعلیم پا لی تھی جو ان کی تمام ضرورتوں سکو مہیا کرتی تھی، اور وہ ان سے دور چلے گئے تھے جنہوں نے انہیں اوہام پرستی اور انسانی روایات پر رکھا تھا جو نکمی خوراک کے مترادف ہے-AK 190.3

    جب سچائی کے اساتذہ کے خلاف دوبارہ ایذا رسانی بھڑک اٹھی تو وہ مسیح یسوع کے کلام کی طرف متوجہ ہوۓ “جب تم سکو ایک شہر میں ستائیں تو دوسرے کو بھاگ جاؤ” متی 23:10 روشنی ہر جگہ سرایت کر گئی- پناہ گیروں کو کھلا ہوا کوئی دروازہ قیام کرنے کے لئے مل جاتا- وو تو وہاں مسیح یسوع کی منادی کر لیتے اور کبھی کبھی چرچز میں بھی مسیح کی منادی کرتے- لیکن اگر انکار کر دیا جاتا تو پھر پرائیویٹ گھروں یا کھلی فضا میں منادی کرتے- جہاں بھی ان کو سامعین مل جاتے وہی ان کے لئے مخصوص شدہ ہیکل ہوتی- صداقت کو اس قدر یقین دہانی اور قدرت کے ساتھ پیش کیا گیا کہ کوئی قوت اسے پھیلنے سے روک نہ سکی-AK 190.4

    فضول ہی چرچ اور سول کے ارباب اختیار کو کہا گیا کہ بدعت کو کچلیں، فضول ہی انہوں نے جیلوں میں ڈالنے، تشدد کرنے، آگ سے جلانے اور تلوار سے گردن اڑانے کی چارہ جوئی کی- ہزاروں ایمانداروں نے اپنے خون سے ایمان پر مہر ثبت کی- اس کے باوجود کام آگے ہی آگے بڑھتا گیا- ایذا رسانی نے سچائی کو پھیلانے میں بڑا کردار ادا کیا اور وہ مذہبی جنون جسے شیطان نے اس کے ساتھ ملانے کی کوشش کی اس کے نتیجہ میں ایسا نمایاں فرق واضح ہو گیا جو شیطان کے کاموں اور خدا کے کاموں کے درمیان پایا جاتا ہے-AK 191.1

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents