اپنے بچّوں کو تعلیم دیں کہ ان کی چیزوں پر خدا اپنا حق ظاہر کرتا ہے اور اس کا طالبہ لا تردید ہے۔ ان کی چیزیں محض ایک امانت ہیں تا کہ ان کی پڑتال ہو کہ آیا وہ فرمانبردار ہوں گے یا نہیں۔ دولت ایک ضروری خزانہ ہے۔ اِس لیے اس کو ایسے لوگوں پر جن کو اس کی ضرورت نہیں فضول خرچ نہ کریں۔ ایسے آپ کے رضا کارانہ تحفہ کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ اسراف اور فضول خرچ ہیں تو جتنی جلدی ہو سکے اِس سے باز رہیں ایسا نہ کرنے سے آپ ابدیت کے لیے بھی دیوالیہ ہو جائیں گے۔ (سی جی ۱۳۴) CChU 222.3
اِس دور کا نوجوان کفایت شعاری سے طبعاً متنفر اور غافل ہے اور اُسے وہ بخل اور تنگ خیالی کا نام دیتا ہے۔ لیکن کفایت شعاری نہایت وسیع اور فیاضانہ نظریات اور احساسات پر مشتمل ہے۔ عمل کے بغیر حقیقی فیاضی نہیں ہو سکتی۔ کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ کفیات شعاری اور پیسے کی محافظت کے بہترین وسائل کا مطالعہ ادنیٰ اور گھٹیا بات ہے (۵ ٹ ۴۰۰) CChU 222.4
ہر نوجوان اور بچّے کو سکھایا جائے کہ وہ نہ صرف خیالی مسائل کو حل کریں بلکہ آمدنی اور مصارف کا صحیح صحیح حساب رکھیں۔ انہیں اپنے روپیہ کے صحیح مصارف ہی سے اس کے صحیح استعمال کا پتہ لگنا چاہیے خواہ لڑکے اور لڑکیوں کو اُن کے والدین روپیہ دیں یا وہ خود کمائیں ان کو اپنے کپڑوں، کتب اور دیگر ضروری چیزوں کا خود انتخاب کر کے خریدنا چاہیے۔ روپیہ پیسہ کا خود حساب رکھ کر وہ روپیہ کی قدر اور اس کے مصارف کے متعلق معلوم کریں گے کیونکہ وہ کسی اور طریقہ سے نہیں سیکھ سکتے۔ (سی ایس ۲۹۴) CChU 222.5
بچّوں کی نا مناسب مدد کرنا بھی ایک غلط چیز ہے۔ اسکول یا کالج میں کام کر کے اپنے اخراجات پورا کرنے والے بچّے دوسروں کی بہ نسبت جن کی کوئی اور مدد کرتا ہے اپنی استعداد کی زیادہ قدر کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی قیمت کو جانتے ہیں۔ ہم اپنے بچّوں کو اس طرح اٹھائے اٹھائے نہ پھریں کہ وہ ہم پر بے بس بوجھ بن جائیں۔ CChU 223.1
جب والدین کسی نوجوان کو جس میں مقدور ہے اجازت دیتے ہیں کہ وہ خادم الدین یا ڈاکٹر کا نصاب لے سکتا ہے اور اس کے لیے وہ ایک مفید اور پرتکان تجربہ سے فیاضانہ طور پر روپیہ دیتے ہیں تو بڑی غلطی کرتے ہیں۔ (اے ایچ ۳۸۷) CChU 223.2
ممکن ہے کہ ایک بیوی یعنی ماں کی خود پروری کی عادات یا عقل کے استعمال کی کمی خزانہ پر مسلسل بوجھ ہو اور پھر بھی وہ سوچے کہ وہ حتی المقدور کوشش کر رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ماں نے اپنی ضروریات ِ زندگی میں کمی کرنے کے متعلق کچھ سیکھا ہی نہیں۔ اس نے اپنے گھریلو معاملات میں کبھی علق اور فہم حاصل ہی نہیں کی۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ ایک خاندان کو دوسرے خاندان کی بہ نسبت جس میں اتنے ہی افراد ہوں دوگنا خرچ کرنا پڑے۔ CChU 223.3
خداوند کو یہ پسند آیا کہ وہ میرے سامنے اسراف کی بُری عادات کو ظاہر کرے تا کہ میں والدین کو ہدایت کروں کہ وہ اپنے بچّوں کو کفایت شعاری کی تعلیم دیں اور انہیں بتایا جائے کہ اگر روپیہ بلا ضرورت چیز پر خرچ کیا جاتا ہے تو وہ اس کا غلط استعمال ہے۔ (۷۱ ایچ ۲۷۴، ۲۷۵) CChU 223.4