Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۷
    شاگردی کی جانچ

    اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوُق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں دیکھو وہ نئی ہوگئیں۔ ۲ کرنتھیوں ۵: ۱۷۔TK 69.1

    یہ ممکن ہے کی ایک شخص اپنے دل کی تبدیلی یعنی تقلیب کا وقت معین یا ٹھکانہ یا وہ باتی جو اِس تبدیلی کے سِلسلہ میں واقع ہُوئی ہیں۔ بلکل تصحیح کے ساتھ بیان نہ کرسکے۔ مگر اِس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوسکتا۔ کہ اُس شخص کی تقلیب ہی نہیں ہُوئی۔ مسیح نے نکودمیس سے کہا۔ کہ ہوا جدھر چاہتی ہے چلتی ہے۔ اور تو اُس کی آواز سُنتا ہے۔ مگر نہیں جانتا کہ وہ کہاں سے آتی اور کدھر کو جاتی ہے۔ جو کوئی روح سے پیدا ہُؤا۔ ایسا ہی ہے۔ (یوحنّا ۳: ۸) ہوا گو ایک نادیدہ شے ہے۔ تاہم اُس کا اثر بخوبی دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ یہی حال خُدا کے رُوح کا ہے کہ وہ اگرچہ ایک نادیدہ شے ہے۔ لیکن اُس کا اثر قلوُبِ انسانی پر ہوتا ہے۔ وہ ازسرِنو پیدا کرنے والی طاقت جس کو کوئی انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی رُوح میں ایک نئی زندگی پیدا کردیتی ہے۔ اور ایک نیا انسان خُدا کی صوُرت پر بنادیتی ہے۔TK 69.2

    اگرچہ خُدا کا رُوح اپنا کام خاموشی کے نامعلُوم طریقہ پر کرتا رہتا ہے۔ لیکن اُس کی تاثیرات ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ اگر خُدا کے رُوح نے دل کو تبدیل کردیا ہے۔ تو انسان کے اِطوار سے اُس کا اظہار ہوگا۔ گو انسان میں یہ قُوت نہیں ہے۔ کہ وہ اپنے دل کو خُود تبدیل کرسکے۔ اور نہ وہ یگانگت الہیٰ اپنے قُوّتِب بازو سے حاصل کرسکتا ہے۔ اور نہ ہمیں اپنی ذاتِ خاص پر یا اپنے اعمال پرنازاں ہونا چاہیئے۔ لیکن تو بھی ہمارے طرزوطریق خود اِس امر کو منکشف کردیتے ہیں کہ ہم میں فضلِ پروردگار موجود ہے یا نہیں۔ چال چلن عادات اور مشاغل میں تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ اُس کا مقابلہ بہت ہی صاف اور آسان ہوگا کہ وہ پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ اتفاقیہ نیکی اور بدی سے چال چلن ظاہر نہیں ہوتا۔ بلکہ دیکھنا یہ چاہیئے۔ کہ وہ شخص قول و فعل سے کس بات کا عادی ہے۔TK 70.1

    یہ ممکن اور آسان ہے کہ انسان بغیر مسیح کی اُس طاقت کے جس سے نئی زندگی حاصل ہوتی ہے۔ خود اپنی وضع میں ظاہری اصلاح کرلے۔ دوسروں سے عزّت حاصل کرنے کی خوہش سے خوش وضعی کی اُلفت نیک اطواری پیدا کرسکتی ہے۔ ذاتی عزت کا خیال ہمیں بدی کی شکل سے دور رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ خُودغرض انسان سے بھی اعمال احسن سرزد ہوجاتے ہیں۔ جب یہ حال ہے تو ہم کس طریقہ سے فیصلہ کرسکتے ہیں۔ کہ ہم کس جانب ہیں؟TK 70.2

    اچھا ! ہمارے دل کا مالک کون ہے؟ ہمارے خیالات کا تعلق کس سے ہے؟ کس سے ہمکلام ہونے کے ہم مشتاق ہیں؟ ہماری گرم جوشی اور گہرے تعلقات کس سے ہیں؟ اگر ہم مسیح کے ہیں۔ تو ہمارے خیالات اُس کے ساتھ ہیں۔ اور ہمارے اعلیٰ ترین خیال اُس سے متعلق اور ملحق ہیں۔ جو کچُھ کہ ہم میں ہے۔ یا ہمارا ہے۔ وہ سب اُس کے لئے مخصُوص ہے۔ ہماری خواہش ہے۔ کہ ہمارے قلُوب پر اُس کی شبہیہ منقوش ہو۔ اُس کا رُوح ہمارے اندر متمکن ہو ہم اُس کی مرضی بجالایئں۔ اور ہر ایک بات میں اُس کی خوشنودی مدّنظر رکھیّں۔TK 71.1

    جو لوگ مسیح میں نئے مخلوق بن چُکے ہیں۔ اُن میں رُوح کے پھل نمودار ہوں گے۔ محبّت۔ خوشی۔ اطمینان۔ تحمل۔ مہربانی۔ نیکی۔ ایمانداری۔ حلم اور پرہیزگاری۔ گلتیوں ۵ : ۲۲،۲۳۔ اپنی پرانی نفسانی خواہشات سے وہ لوگ کنارہ کش رہیںگے۔ اور ابنَ خُدا پر ایمان لا کر اُس کے قدم بقدم چلیں گے۔ اُس کی سیرت کو ظاہر کریں گے۔ اور اپنے آپ کو ویسا ہی پاک کریں گے جیسا کہ وہ ہے۔ جن چیزوں سے انہیں کسی وقت نفرت تھی۔ اب اُلفت ہوگی۔ اور جن سے مُحبّت تھی۔ اُن سے متنفر پیدا ہوجایئگا۔ تکبّر و خودبین صابروشاکر بن جایئگا۔ شاربی متقی ہوجائےگا۔ اور ناپاک پاک بن جائےگا۔ دنیا کے فضوُل رواج اور رسوم و عادات بالائے طاق رکھ دیئے جایئںگے۔ مسیحی لوگ ظاہری سنگار، سجاوٹ اور دکھاؤ کی فکر نہ کرینگے۔ بلکہ باطنی اور پوشیدہ انسانیت، حلم اور مزاج کی غربت کی غیر فانی آرائش سے آراستہ ہونگے۔ ۱۔ پطرس ۳ : ۴،۳۔TK 71.2

    سچّی توبہ کی اور کوئی شناخت ہی نہیں سوا اِس کے کہ وہ انسان کے دِل میں ایک تبدیلی پیدا کردے۔ اگر وہ اپنے وعدوں کو وفا کرتا ہے۔ چوری کی ہُوئی چیز کو واپس کردیتا ہے۔ گناہ کا اقرار کرتا ہے۔ بنی نوع انسان اور خُدا سے محبت رکھتا ہے۔ تو عاصی کے دِل میں یقین کامل ہونا چاہیئے۔ کہ وہ موت سے نکل کر زندگی میں داخل ہوگیا ہے۔TK 72.1

    جب ہم خطاکار، نالائق، گنہگار انسان مسیح کے حضُور حاضر ہوکر اُس کے ترحّم آمیز فضل میں شرکت کرتے ہیں۔ تو محبت ہمارے دِلوں میں موجیں مارنے لگتی ہے۔ کیونکہ مسیح کا جوُا ہلکا ہے۔ ہر یلک بارِگُناہ ہمیں ہلکا معلوم ہونے لگتا ہے۔ فرائض منصبی خوشنودی نظر آتے ہیں۔ اور خود انکاری باعث مُسرت ہوجاتی ہے۔ وہ راہ جو بھیانک معلوُم ہوتی تھی آفتابِ صدااقت یعنی مسیح کی شعاعوں سے منّور نظر آنے لگتی ہے۔TK 72.2

    مسیح کی دلفریب سیرت اب اُس کے نیک لوگوں میں نظر ائے گی۔ ہمارے شفیع کی خُوشی اِسی میں تھی۔ کہ وہ خُدا کی مرضی بجالائے۔ اُس کو جی جان سے بڑھ کر خُدا سے محبت اور اُس کے جلال کا اشتیاق تھا۔ مُحبّت ہی نے اُس کے تمام کاموں کو خوبصوُرت اور لائق بنادیا۔ چونکہ مُحبّت چشمۂ ذاتِ باری ہے۔ اِس لئے وہ دِل جِس کی تقدیس یہ ہُوئی ہو۔ مُحبّت کو نہ پیداکرسکتا اور نہ اُس کا آغاز کرسکتا ہے۔ جِس دل میں مسیح سکونت کرتا ہے۔ اُسی میں مُحبّت پائی جسےی ہے۔ ہم اِس لئے مُحبّت رکھتے ہیں کہ پہلے ہم سے مُحبّت رکھّی۔ ۱۔ یوحنّا ۴: ۱۹۔ جو قلب الہیٰ فضل سے نیا کیا گیا ہے۔ اُس میں ہر ایک کام حبت ہی سے ہوتا ہے۔ وہ سیرت اور خصائل کی اصلاح کرتی ہے۔ خیال اور حرکات پر حکمران ہوتی ہے۔ خواہشات پر قابض اور دُشمنی اور عداوت پر غالب آتی ہے۔ حرکات کو لائق اور شریف بنادیتی ہے۔ یہ مُحبّت جو رُوح میں نوازی گئی ہو زندگی کو خوشگوار کرکے چاروں طرف پاک و صاف تاثیرات کو پھیلاتی رہتی ہے۔TK 72.3

    دو برائیاں ایسی ہیں۔ جن کی نسبت خدا کے بندوں کو خاص کر اُن کو جو نئے نئے اُس کے فضل پر ایمان لائے ہیں محتاط رہنا ضروری ہے۔ پہلی بات یہ ہے۔ جس کا اوپر ذکر کیا جاچُکا ہے۔کہ انسان اپنے افعال و کردار پر بھروسہ رکھ کر اِس بات کا خیال کرے۔ کہ وہ خود اپنی محنت سے خدا کے ساتھ اتحاد پیدا کرسکتا ہے۔ جو شخص شریعت کی پابندی کرکے اپنے اعمال حسنہ سے نیک بننا چاہتا ہے۔ وہ امر ممکن کو ناممکن کرنا چاہتا ہے۔ مسیح سے جُدا ہوکر جو کچھ کام آدمی کرتا ہے۔ سب خودغرضی اور گناہ سے بھرا ہُؤا ہے۔ صرف مسیح کے فضل ہی میں یہ طاقت ہے کہ وہ ایمان کے ذریعہ سے ہم کو پاک اور صاف کردیتا ہے۔TK 73.1

    دُوسری بات پہلی بات کے برعکس ہے مگر اُسی طرح خطرناک ہے کہ انسان یہ سمجھ بیٹھے کہ مسیح پر ایمان لانے سے احکام الہیٰ یعنے شریعت الہیٰ سے چُھٹی مِل گئی۔ اور چونکہ صرف ایمان ہی کی بدولت مسیح کے فضل و جلال میں ہمیں حِصہ داری نصیب ہوگئی ہے۔ اس لئے ہمارے اعمال سے نجات کو کوئی لگاؤ اور واسطہ نہیں ہے۔ واقعی یہ خیال بلکل غلط ہے۔TK 74.1

    اب اِس امف کا خیال لازمی ہے۔ کہ فرمانبرداری سے مراد صرف ظاہری رضامندی نہیں۔ بلکہ مُحبّت آمیز خدمت ہے۔ خُدا کے قانون اُس کی ذات اور قدرت کے اظہار ہیں۔ وہ مُحبّت کے اعلےٰ اصوُل کا ایک مجموعہ ہیں۔ اور اُس کے دونوں عالم یعنی آسمان و زمین کی سلطنت کی بنیاد ہیں۔ اگر ہمارے دِل مبدل ہو کر خُدا کی شباہت اختیار کرچکے ہیں اور اگر ہماری رُوحوں میں اُس کی الہیٰ مُحبّت سرائیت کرگئی ہے ۔ تو کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے اطوار اور طریقوں سے خُدا کے احکام کی بجا آوری کا اظہار نہ ہو؟ جب مُحبّت کا اصُول دِل میں بویا جاتا ہے۔ اور جب انسان اپنے خالق مطلق کی شباہت میں بحال کیا جاتا ہے۔ تو اُس نئے عہد کی تکمیل ہوتی ہے کہ میں اپنے قانون اُن کے دِلوں پر لکھونگا۔ عبرانیوں ۱۰: ۱۶ اور جس حال کہ قانون دلوں پر لکھاگیاہو تو کیا وہ زندگی کی اصلاح نہ کرےگا۔ اور کیا اُس کا اظہار زندگی میں نہ ہوگا؟ حقیقی نشان شاگردی کا فرمانبرداری ہے یعنی سچی مُحبّت سے بھر ی ہوئی خدمت گذاری ہے۔ کتابِ مُقدّس میں لکھا ہے کہ خُدا کی مُحبّت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکُموں پر عمل کریں۔ ۱۔ یوحنّا ۵: ۳۔ جو کوئی یہ کہتا ہے کہ میں اُسے جان گیا ہوں۔ اور اُس کے حُکموں پر عمل نہیں کرتا وہ جھُوٹا ہے اور یہ اُس میں سچائی نہیں۔ ۱۔یوحنّا ۲: ۴۔ انسان کو فرمانبرداری سے رہائی دینے کی بجائے۔ ایمان ہی صرف ایک ایسی شے ہے۔ جو اُس کو مسیح کے جلال اور بزرگی میں شریک کردیتا ہے۔ اور اُسے فرمانبرداری کی توفیق مرحمت کرتا ہے۔TK 74.2

    ہم فرمانبرداری سے نجات حاصل نہیں کرسکتے۔ کیونکہ نجات تو خُدا کی جانب سے ایک بخشش ہے۔ جو ایمان سے حاصل ہوتی ہے۔ لیکن فرمانبرداری ایمان کا پھل ہے۔ تم جانتے ہو کہ وہ اِس لئے ظاہر ہُؤا تھا۔ کہ گُناہوں کو اُٹھا لے جائے۔ اور اُس کی ذات میں کوئی گُناہ نہیں۔ جو کوئی اُس میں قائم رہتا ہے وہ گُناہ نہیں کرتا۔ جو کوئی گُناہ کرتا ہے۔ نہ اُس نے اُسے دیکھا ہے اور نہ جانا ہے۔ ۱۔ یوحنّا ۳: ۶،۵۔ یہی حقیقی شناخت ہے۔ اگر ہم مسیح میں قائم ہیں۔ اور خُدا کی مُحبّت ہم میں بسی ہوئی ہے۔ تو ہمارے محسوسات افعال، اطوار، اعمال اور ہمارے خیالات خُدا کی پاک شریعت کے ارشاد اور فرمان سے مطابقت رکھتے ہونگے۔ اے بچّو کسی کے فریب میں نہ آنا جو راستبازی کے کام کرتا ہے۔ وہی اُس کی طرح راستباز ہے۔ ۱۔یوحنّا ۳: ۷۔ راستبازی کی تعریف خُدا کی پاک شریعت میں جو کوہ سِینا پر دس حکمُوں کی صوُرت میں دی گئی تھی بیان کردی گئی ہے۔TK 75.1

    وہ مفروضہ ایمان جو انسان کو خۃدا کی فرمانبرداری سے چُھڑانے کا بہانہ کرتا ہے۔ وہ حقیقی ایمان نہیں بلکہ محض گمان و گستاخی ہے۔ کیونکہ تم کو ایمان کے وسیلہ فضل ہی سے نجات ملی ہے۔ لیکن اِسی طرح ایمان بھی اگر اُس کے ساتھ اعمال نہ ہو تو اپنی ذات سے مُردہ ہے۔ افسیوں ۲: ۸ و یعقوب ۲ : ۱۷۔ مسیح نے اِس عالم میں آنے سے پہلے اپنی بابت کہا تھا۔ کہ اے میرے خُدا میری خوشی تیری مرضی پُوری کرنے میں ہے۔ بلکہ تیری شریعت میرے دل میں ہے۔ زبوُر ۴۰: ۸۔ اور اپنے آسمان پر جانے سے قبل اُس نے یہ فرمایا کہ۔ میں نے اپنے باپ کے حکموں پر عمل کیا ہے۔ اور اُس کی مُحبّت میں قائم ہُوں۔ یوّحنّا ۱۵: ۱۰۔ پاک کلام میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ہم اُس کے حُکموں پر عمل کرینگے۔ تو ا،س سے ہمیں معلوُم ہوگا۔ کہ ہم اُسے جان گئے ہیں۔۔۔ جو کوئی یہ کہتا ہے۔ کہ میں اُس میں قائم ہُوں۔ تو چاہئے کہ یہ بھی اُسی طرح چلے جس طرح وہ چلتا تھا۔ کوینکہ مسیح بھی ہمارے لئے دُکھ اُٹھا کر ہمیں ایک نمونہ دے گیا ہے۔ تاکہ ہم اُس کے نقشِ قدم پر چلیں۔ ۱۔ یوحنا ۲: ۳ تا ۶ ۱۔ پطرس ۲ : ۲۱۔TK 76.1

    حیات ابدی کی شرائط جیسے ہمیشہ چلی آتی ہیں۔ ویسے ہی اب بھی ہیں۔ باغِ عدن میں ہمارے والدین یعنی آدم اور حوّا کے زوال اور بربادی کے زمانہ سے قبل جیسی کامل فرمانبرداری احکام الہیٰ کے بارے میں اور کامل راستبازی درکار تھی۔ ویسی ہی اب بھی ہے۔ اگر حیات ابدی کا عطا کیا جانا اِس سے کسی آسان شرط پر ٹھہرایا جاتا۔ تو واقعی دُنیا کی تمام خُوشی و شادمانی معرض خطرہ میں پڑجاتی۔ گُناہ کیلئے معہ اُس کے دُکھ و درد غم و مصیبت کے غیر فانی راستہ صاف ہوجاتا۔TK 76.2

    آدم کیلئے ممکن تھا کہ وہ اپنے زوال کے ایّام سے قبل خُدا کی شریعت کی اطاعت کرکے اپنا ایک راستباز و پاک چال چلن پیدا کرے۔ لیکن وہ اِس امر میں قاصر رہا اور اُس ہی کے گُناہ کرنے سے ہماری خلقی و طبیعی قوت ناتواں و گُناہ آلودہ ہے۔ اسی لئے ہم اپنے تئیں راستباز نہیں بناسکتے ہیں۔ چونکہ ہم خود گنہگار اور ناپاک ہیں۔ ہم کیسے اُس مُقدّس شریعت کی اطاعت و فرمانبرداری کرسکتے ہیں۔ چونکہ ہم میں خود ذاتی طور پر ایسی صداقت و راستبازی موجود نہیں ہے۔ جس سے ہم شریعت الہیٰ کی شرائط کو بجا لاسکیں اِس لئے مسیح نے ہمارے بچانے کی تدبیر کی وہ دُنیا میں آکر بسا اور طرح طرح کی مصائب اور آزمائشیں خود برداشت کیں جیسے کہ ہم لوگ سہتے رہتے ہیں۔ اُس نے بلکل پاک زندگی گُزاری۔ وہ ہمارے لئے کُفّارہ ہُؤا۔ اور اب وہ ہمارے گُناہوں کو لینے اور اپنی صداقت و راستبازی کو دینے کیلئے تیار ہے۔ اگر آپ اپنے تئیں اس کے سپُرد کردیں۔ اور اُس کو اپنانجات دہندہ تسلیم کرلیں۔ تو چاہے آپ کی زندگی کیسی ہی گُناہوں سے پُر کیوں نہ ہُو اُس کے وسیلہ سے آپ راستباز گِنے جائینگے۔ آپ کے چال چلن کی بجائے مسیح کے اطوار اور اعمال محسُوب کِئے جائینگے۔اور آپ خُدا کے روبُرو بلکل معصوُم شمار کئےِ جائینگے۔ جیسے کہ آپ نے گُناہ کیا ہی نہیں۔TK 77.1

    علاوہ ازیں مسیح آپ کے قلب کو بھی تبدیل کردےگا۔ اور ایمان کے ذریعہ وہ آپ کے دل میں رہےگا۔آپ پر واجب ہوگا۔ کہ ایمان کے ذریعہ اس تعلق و رشتہ کو مسیح سے استحکام کے ساتھ قائم رکھّیں اور اپنی خواہشات اور مرضی اُسی کو سونپ دیں۔ اور جب تک آپ اس عمل پر کاربند نہ رہیں گے۔ وہ اپنے ارادہ کے موافق آپ کے افعال کو سنوارتا رہیگا۔ اور آپ یہ کہینگے۔ کہ میں جو اب جسم میں زندگی گزارتا ہوں۔ تو خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے گزارتا ہوں۔جس نے مُجھ سے مُحبّت رکھی۔ اور اپنے آپ کو میرے لئے موت کے حوالے کردیا۔ گلتیوں ۲: ۲۰۔ مسیح نے اپنے شاگردوں سے بھی یہی کہا تھا۔بولنے والے تم نہیں بلکہ تمہارے (آسمانی) باپ کا رُوح ہے۔ جو تم میں بولتا ہے۔ متی ۱۰: ۲۰۔ اور ویسی ہی رُوح کا اظہار کرینگے۔ یعنی صداقت و راستبازی کے افعال ظاہر ہونگے۔TK 78.1

    لہذا ہم میں کوئی ایسی خوُبی اور خُصوصیت نہیں ہے۔ جس پر ہم فخر کریں ہمیں اپنے سرفرازی کا کوئی ذاتی استحقاق نہیں ہے۔ ہماری واحد اُمید مسیح کی نیکوکاری اور راستبازی ہے جو ہمیں دی گئی ہے۔ اور اُس کی رُوح ہم میں اور ہمارے ذریعہ کام کرنے والی ہوئی ہے۔TK 78.2

    جب ہم ایمان کا تذکرہ کریں۔ تو ہمیں لازم ہے کہ ضُرور اپنے دِل میں اِس بات کا فرق رکھیں۔ کہ ایک ایسا عقیدہ ہے۔ جو ایمان سے بلکل مختلف ہے۔ خُدا کی ہستی اُس کی قدرت اور اپس کے کلام کی صداقت ایسے حقائق ہیں۔ جن کا انکار شیطان اور اُس کے معتقد دل سے نہیں کرسکتے ہیں۔ کتابِ مُقدّس میں لِکھا ہےکہ شیاطین بھی ایمان رکھتے اور تھرتھراتے ہیں۔ یعقُوب ۲ : ۱۹۔ لیکن اس کا نام ایمان نہیں ہے۔ بلکہ حقیقی ایمان کی تعریف یہ ہے کہ جہاں صرف خُدا کے کلام پر اعتقاد ہی نہ ہو۔ بلکہ خُدا کی مرضی کی تابعداری ہو۔ جہاں دِل اُس کے سُپرد ہو۔ اور ساری قُوّت سے اُس سے پیار ہو۔ وہ ایمان ہے جو مُحبّت کے ساتھ عمل کرتا۔ اور رُوح کو صاف و شفاف کرتا ہے۔ ایسے ہی ایمان سے قلب نئے سرے سے مُتغّیر ہوکر خُدا کی شباہت اختیار کرلیتا ہے۔ اور وہ دل جو نئے سرے سے مُتغّیر نہ ہُؤا ہو۔ وہ خُدا کی شریعت کا مطیع و فرمانبردار نہ ہے اور ہوسکتا ہے مگر جب وہ دِل تبدیل ہوکر خُدا کی شریعت کے ماننے سے خوش رہتا ہے۔ اور وہ شخص زبُور نویس سے مُتفق الرائے ہوکر یہ کہتا ہے کہ آہ میں تیری شریعت سے کیسی مُحبّت رکھتا ہُوں۔ مُجھے دن بھر اُسی کا دھیان ہے۔ زبور ۱۱۹: ۹۷۔ اور شریعت کی راستبازی ہم میں پُوری ہوتی ہے۔ جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ رُوح میں چلتے ہیں۔ رومیوں ۸ : ۱۔ دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے مسیح کی معاف کرنے والی مُحبّت سے آگاہی حاصل کرلی ہے۔ اور وہ فی الحقیقت خُدا کے فرزند بننے کی خواہش میں ہیں۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ اُن کے چال چلن نا کامَل ہیں۔ اور اُن کی زندگیاں پُر از خطا و عصیاں ہیں اور اُن کو ابھی اس میں شک ہے۔ کہ آیا اُن کے دِل رُوح القدس نے تبدیل کردیئے ہیں یا نہیں۔ ایسے لوگوں سے میں یہ عرض کرتی ہوں۔ کہ خبردارکہیں ہراساں اور بددِل ہوکر مسیح سے واپس نہ پلٹ جانا۔ بسا اوقات ہمیں اپنی خطاؤں اور غلطیوں کے باعث مسیح کے قدموں پر گِر کر رونا پڑیگا۔ لیکن ہمیں ہمّت نہ ہارنا چاہیئے۔ بالفرض ہم دُشمن سے مغلُوب ہوجائیں۔ تو بھی خُدا ہمیں رّد نہ کریگا۔ اور نہ ہم خُدا کی درگاہ سے نکالے جائیں گے۔ کیونکہ مسیح خُدا کی دہنی طرف بیٹھا ہے۔ اور وہ ہماری سفارش کرتا رہتا ہے۔ مسیح کے عزیز شاگرد یُوحنّا کا مقولہ ہے کہ۔ یہ باتیں تمہیں اِس لئے لکھتا ہُوں۔ کہ تم گُناہ نہ کرو۔ لیکن اگر کوئی گُناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا یک مددگار موجود ہے۔ یعنی مسِیح یسُوع راستباز۔ ۱۔ یوحنّا ۲: ۱۔ اور مسیح کی اِس بات کو نہ بھولیں۔ باپ تو آپ ہی تم کو عزیز رکھتا ہے۔ یوحنا ۲۷/۱۶۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ آپ کو اپنے میں پھِرشامل کرے۔ اور کہ آپ اُس کی پاکیزگی اور تقدس کا اپنے اندر جلوہ دیکھیں۔ اور اگر آپ اپنے تئیں اُس کو سونپ دیں۔ تو وہ جِس نے آپ میں نیک کام شروع کیا ہے۔ اُس کو ترقی دیتے دیتے مسِیح کے روز عظیم تک پہونچادیگا۔ زیادہ سرگرمی سے دُعا کریں۔ ایمان یں بہت مضبوُط اور مستحقم بنیں۔ جب ہم اپنی طاقت پر بھروسہ چھوڑ دیں گے۔ تو اُس وقت اپنے نجات دہندہ کی طاقت پر بھروسہ رکھینگے۔ اور اُس کی حمد و ثنا کریں گے جو ہماری روحانی صحت کا سرچشمہ ہے۔TK 79.1

    جتنا زیادہ مسِیح کا تقرب حاصل ہوگا۔ اُتنا ہی زیادہ آپکی خطاکاریاں آپ پر عیاں ہوتی جائینگی۔ آپ کی آنکھیں کُھل جائیں گی۔ اور آپ کی اپنی کمزوری بمقابلہ مسِیح کے کامِل اور اعلیٰ چال چلن کے ناچیز اور ہیچ نظر آنے لگے گی۔ اور یہی اِس امر کا بیّن ثبوُت ہوگا۔ جہ شیطان کا دام فریب اب ہٹ رہا ہے۔ اور خُدا کے زندہ رُوح کی حیات افزا قوّت آپ کو اُکسا رہی ہے۔TK 81.1

    جو دِل اپنی خطاکاری کا مُقِر نہیں اُس میں مسِیح کی مُحبّت گھر نہیں کرسکتی۔ جِس رُوح میں مسِیح کے فضل سے تغیّر پیدا ہُؤا ہو وہی اُس کی الہیٰ خصائل و اطوار کی تمجید کریگی۔ اگر ہم اپنے ذاتی عیوب اور بدوضعی کو نہیں دیکھتے ہیں۔ تو یہ مسلمہ امر ہے۔ کہ ہم اب تک مسیح کے خوش نما اطوار اور اوصاف حمیدہ سے ناواقف ہیں۔TK 81.2

    جِس قدر ہم اپنے قدرومنزلت میں کمی کریں۔ اُسی قدر زیادہ ہم اپنے نجات دہندہ کی بےپایاں مُحبّت و پاکیزگی کی قدرومنزلت اچھی طرح کرسکیں گے۔ ہمار تئیں گنہگار جاننا ہی ہم کو اُس کی جانب کھینچتا ہے۔ جس میں گُناہ کی معافی کی قوّت ہے۔ جب رُوح کو اپنی بےبسی اور ناتوانی معلُوم ہوتی ہے۔ تو وہ مسیح کی طرف رجُوع کرتی ہے۔ اور وہ اپنے کو قوّت کے ساتھ ظاہر کردےگا۔ جتنا زیادہ ہماری عقل و احتیاج ہمیں مسیح اور کلام رباّنی کی طرف کھینچیں گے۔ اُتنا ہی زیادہ ہم اُس کی خصائل پسندیدہ اور اوصاف حمیدہ سے مستفید ہو کر اُس کی شکل و شباہت کی مشابہت کو کماحقّہ ظاہر کریں گے۔TK 82.1

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents