Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

شفا کے چشمے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    شفا کا منبع

    خُداوند یسوع مسیح نے اپنے معجزات میں اُس وقت کا مظاہر جو ہر قوقت انسان کو قائم رکھنے اور اُسے شفا بخشنے کےلیے جاری و ساری رہتی ہے۔ خُداوند فطرت کے زریعے ہمیں زندہ رکھنے، نشوونما اور بحال کرنے کے لیے ہر روز ہر گھڑی اور ہر لمحہ کام کرتا رہتا ہے۔ جب ہمارے بدن کا کوئی حصہ زخمی ہوتا ہے، اسی وقت شفا بخشنے کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ فطرت کے نمائندے بحالی کے لیے کام کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر اُن نمائندوں کے زریعے اصل میں خُدا کی قوت کام کرتی ہے۔ کیونکہ صحت بخشنے والی تمام قوت اسی سے صادر ہوتی ہے۔ جب ہم بیماری سے شفا پاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ خُداوندہی ہے جس نے ہمیں بحال کیا ہے۔SKC 64.3

    دکھ بیماری اور موت ابلیس کی پیداوار ہے۔ ابلیس تباہ اور برباد کرتا ہے جب کہ خُداوند بگڑے ہوئے کو سنوارتا اور بحال کرتا ہے۔ بنی اسرائیل سے کیا ہوا کلام آج بھی جھٹلایا نہیں جا سکتا “میں خُداوند تیرا شافی ہوں” خروج 26:15۔ یاد رکھئے کہ ہر بشر کے لیے خُداوند کی دلی تمنا یہ ہے “اے پیارے! میں یہ دعا کرتا ہوں کہ جس طرح تو روحانی ترقی کررہا ہے اسی طرح تو سب باتوں میں ترقی کرے اور تندروست رہے” یوحنا 2:3۔ یہ وہی ہے جو “تیری ساری بدکاری کو بخشتا ہے۔ وہ تجھے تمام بیماریوں سے شفا دیتا ہے۔ وہ تیری جان کو ہلاکت سے بچاتا ہے۔ وہ تیرے سر پر شفقت و رحمت کا تاج رکھتا ہے” زبور 3:130،4۔ جب خُداوند یسوع مسیح نے بیماروں کو شفا بخشی تو کئی دکھیوں کو اس نے فرمایا “پھر گناہ نہ کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ تجھ پر اس سے بھی زیادہ آفت آئے” یوحنا 14:5 یوں کہنے سے اس نے ان پر آشکارہ کیا کہ یہ بیماری تم خود خُدا کی شریعت کو توڑ کر اپنے اوپر لائے تھے۔ اور اب خُدا کی تابعداری کرنے سے ہی ٹم اس شفا کو بحال رکھ سکو گے۔SKC 65.1

    لہٰزا طبیبوں کو چاہیے کہ وہ اپنےمریضوں کو سکھائیں کہ انھیں خُدا کے ساتھ شفا اور بحالی کے کام میں تعادن کرنا ہو گا۔ طبیب کو ہر وقت یہ حقیقت اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے کہ بیماری گناہ ہی کا نتیجہ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ فطرت کے قوانین اسی طرح صداقت پر مبنی ہیں جیسے خُداوند کی اپنی شریت صادق ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ان کے تابع فرمان رہنے سے ہی شفا اور بحالی برقرار رہ سکتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ بہت سی بیماریاں محض غلط طور و اطوار کے سبب وجود میں آئی ہیں۔ اگر ان نقصان دہ عادات کو ترک کر دیا جائے تو بحالی ممکن ہے۔ اور یہ کام مریض طبیب کی مدد کے بغیر خود بخود ہی انجام دے سکتا ہے۔ انہیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہر وہ چیز جو روحانی، جسمانی اور زہنی قواء کی بربادی کا باعث بنتی ہے وہ گناہ ہے۔ پس برباد شدہ صحت اُن قوانین کی پاسداری کرنے سے بحال ہو سکتی ہے جو خُدا نے تمام کائنات کے لیے وضع کر رکھے ہیں اور تمام بنی آدم کے لیے اچھے اور مفید ہیں۔ جب ایک طبیب یہ دیکھتا ہے کہ کسی کی بیماری کا سبب غلط قسم کا خوردونوش کا نتیجہ ہے۔ یا اُسے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ غلط عادات کے باعث یہ بہن یا بھائی بیماری کا شکار ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی اگر طبیب اس کر خبردار نہیں کرت یا بتانے سے گریز کرتا ہے تو وہ طبیب اپنے بھائی بندوں کو مجروح کرتا ہے۔ شرابیوں، سودائیوں اور ان سب کو جو تمام اخلاقی حدوں کو چھلانگ گئے ہیں طبیبوں کو چاہئے کہ انہیں اعلانیہ بتا دیں کہ تمہاری بیماری گناہ کا تنیجہ ہے۔ وہ تمام لوگ جو زندگی کے اصولوں سے واقف ہیں۔ بیماری کے ردعمل کے بارے میں دیانتداری سے بیان کریں۔ ایک طبیب اُس نسل انسانی کو دردوکرب میں مبتلا دیکھ کر کیوں کر خاموش رہ سکتا ہے جو اس سے خلاصی پانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے؟ کیا وہ عوام کا خیرخواہ ہے جب وہ اُنہیں یہ نہیں سکھاتا کہ زیادہ تر بیماریوں کا علاج پرہیزگاری میں موجود ہے؟SKC 65.2

    آئیے آپ کو سادہ الفاظ میں جتا دیں کہ خُداوند کے احکام کی بجا آواری میں زندگی کی راہ ہے۔ خُدا نے فطرت کے اصول قائم کر رکھے ہیں۔ مگر اس کے ضابطے ہم پر تھوپے نہیں گئے۔ جب خُداوند نے فرمایا کہ تو یہ یاد وہ نہ کرنا “اور حکم خواہ جسمانی ہو خواہ اخلاقی وہ وعدے کے ساتھ ہے۔ اگر ہم ان کو مانیں گے تو خُداوند اپنی برکتیں ہم پر نچھاور کرے گا۔ خُداوند کسی کو بھی مجبور نہیں کرتا کہ وہ راست کام کرے مگر وہ ہمیں بدی سے بچانے اور بھلائی کی طرف لے جانے میں ضرور کو شاں رہتا ہے۔SKC 66.1

    آئیے ذرا ان احکام اور ضابطوں کا جائزہ لیں جو خُداوند نے بنی اسرائیل کو دے رکھے تھے۔ خُدا نے زندگی کی عادات کے بارے میں انھیں واضح ہدایات دے رکھی تھیں۔ اس نے انھیں روحانی اور جسمانی بھلائی کے لئے بھی احکام دے رکھے تھے۔ اور پورے دل سے ماننے کی صورت میں اُنہیں اس بات کی بھی ضمانت دے رکھی تھی۔ “خُداوند ہر طرح کی بیماری تجھ سے دور کرے گا” استثناہ 15:7۔ “جو باتیں میں نے تم سے آج کے دن بیان کی ہیں اس سب سے تم دل لگانا” استثناہ 46:32۔ “کیونکہ جو اس کو پا لیتے ہیں ان کی حیات اور ان کے سارے جسم کی صحت ہے” امثال 22:4۔ خُداوند کی خواہش ہے کہ ہم کاملیت کے معیار تک پہنچیں جو خُداوند یسوع میسح کی بخشش سے ہمارے لیے ممکن کیا گیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ راستی کا چناؤ کریں۔ آسمانی نمائندوں سے ملے رہیں اور ان اصولوں کی پاسداری کریں جن کی وجہ سے ہم میں خُدا کی شبیہ بحال ہو سکتی ہے۔SKC 66.2

    کلام مقدس اور فطرت کی کتاب میں اس نے زندگی کے ضابطے آشکارہ کئے ہیں۔ آب یہ ہمارا فرض ہے کہ ان اصولوں کے بارے میں جانیں اور اس (خُدا) کے ساتھ تعاون کرنے سے جسمانی اور روحانی بیماریوں سے شفا پائیں۔SKC 66.3

    ہم انسانوں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ حکم بجا لانے کی برکات کے ہم پوری طرح وارث ہو سکتے ہیں بشرطیکہ ہم پہلے خُداوند یسوع کے فضل کو پا لیں ۔ یہ بھی اس کا انسان پر فضل ہے جو وہ اسے شریعت کو ماننے کی طاقت دیتا ہے۔ یہ خُدا ہی ہے جو اسے بری عادات سے خلاصی پانے کے قابل کرتا ہے صرف یہی طاقت انسان کو تندرست، توانا اور راہ راست پر قائم و دائم رہنے میں ممد ثابت ہو سکتی ہے۔SKC 67.1

    جب انجیل کی خوشخبری پوری آب وتاب اور پاکیزگی کے ساتھ قبول کر لی جاتی ہے تو وہ تمام بیماریاں جو گناہ کے سبب وارد ہوتی ہیں کافور ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ یہی گناہ کی بیماریوں کا علاج ہے۔ لکھا ہے “آفتاب صداقت طلالح ہو گا اور اس کی کرنوں میں شفا ہوگی” ملاکی 2:4۔ کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ نہ تو شکستہ دل کو شفا بخش سکتا ہے نہ ذہن و دماغ کو سکون۔ نہ اس سے فکریں دور ہوتی ہیں نہ بیماریاں۔SKC 67.2

    دکھی دل اور خستہ زندگی کو بحال کرنے کے لیے ہر طرح کی شہرت، ذہانت، ہنر اور حربے بے سود ہیں۔ یہ سب چیزیں دکھی دل میں شادمانی نہیں لاسکتیں ۔ مگر روح میں خُدا کی حیات ہی انسان کی واحد اُمید ہے۔ SKC 67.3

    وہ محبت جو خُداوند یسوع مسیح انسان کو ودیعت کرتا ہے وہی اصل زندگی کا منبع ہے۔ اعضائے رئیسہ یعنی ذہن و دماغ، دل اور نسوں وغیرہ کو مسیح کی محبت شفا بخشتی ہے اسی کی بدولت انسان کی اعلٰی قوتیں سر گرم عمل ہوتی ہیں۔ یہ محبت انسان کو دکھ، گناہ پریشانی اور ان فکروں سے آزاد کرتی ہے۔ اسی سے حکمت اور فہم جنم لیتا ہے۔ یہ محبت انسان کی روح میں ایسی شادمانی بھر دیتی ہے جسے دنیا برباد نہیں کر سکتی۔ روح القدس کی یہ خوشی زندگی اور صحت اور دونوں عطا کرتی ہے۔SKC 67.4

    خُداوند یسوع مسیح نے فرمایا “میرے پاس آؤ میں تم کو آرام دوں گا۔” متی 28:11۔ انسان نے اپنی غلط کاریوں کے باعث خود دکھوں کو دعوت دی ہے۔ پھر بھی اسے ان پر رحم آتا ہے۔ اُسی میں وہ مدد پا سکتے ہیں۔ اور جو اُس میں بھروسہ رکھتے ہیں وہ ان کے لیے بڑے بڑے عظیم کام کرنے پا قادر ہے۔SKC 67.5

    بے شک کئی زمانوں سے گناہ نے بنی آدم پر اپنی گرفت سخت کر رکھی ہے۔ اور ابلیس نے جھوٹ اور مکاری سے خُدا کے کلام کی غلط تفسیر کر رکھی ہے۔ اور انسانوں کو گمراہ کر رکھا ہے کہ وہ خُدا کی بھلائی پر شک کریں۔ اس کےباوجود خُداوند خُدا نے اپنی محبت اور رحمت کو انسانوں سے روک نہیں رکھا۔ اگر خُدا کی اس بخشش کے لیے ہم انسان اپنے دل کی کھڑکیاں آسمان کی طرف کھول دیں تو ہمارے دل شفا کی بخشش سے لبریز ہو جائیں گے۔SKC 67.6

    وہ طبیب جو یہ چاہتا ہے کہ وہ خُداوند یسوع مسیح کے ساتھ مل کر قابل قبول طبیب بن جائے اسے چاہیے کہ اپنے کام کی ہر جزیات میں مہارت حاصل کرے۔ اپنے پیشے سے انصاف کرنے کے لیے بدل و جان پڑھائی کرے تاکہ جو زمہ داریاں اسے دٰی جائیں ان کو نبھانے کے قابل نکلے۔ نیز وہ بلند سے بلند معیار کی طرف بڑھنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ وہ علم اور اعلٰی ہنر میں ترقی کرتا رہے۔ ہر طبیب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جو سطحی کام کرتا ہے اور بہت کم مہارت رکھتا ہے وہ نہ صرف مریض کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ وہ اپنے ہم پیشہ طبیبوں سے بھی بے انصافی کرتا ہے۔ وہ طبیب جو کم علم اور غیرمعیاری ہنر میں قناعت کرتا ہے وہ نہ صرف طبی پیشہ کی تحقیر کرتا ہے بلکہ وہ مسیح کی جو عظیم طبیب ہے اس کی بھی حقارت کرتا ہے۔SKC 68.1

    وہ جو سوچتے ہیں کہ وہ طبی کام کے نااہل ہیں انہیں کوئی اور پیشہ اختیار کر لینا چاہیے۔ برعکس اس کے وہ جو اچھی طرح سے بیمار کی تیمارداری کر سکتے ہیں گو ان کی تعلیم اور طبی قابلیت محدود ہے اُن کے لیے بہتر ہے کہ وہ نرسز کے پیشہ کی خدمت اپنا لیں نیز کسی ہنر مند طبیب کے زیر سایہ مسلسل سیکھیں۔ ایسے لوگ موقع سے فائدہ اُٹھا کر قابل بن سکتے ہیں۔ پھر ایک وقت آئے گا کہ وہ خُود قابل اعتماد طبیب بن سکیں گے۔ اس لیے چھوٹے طبیبوں کو چاہیے کہ طبیب اعظم کے ساتھ مل کر کام کریں۔ اور خُدا کا فضل جو تم پر ہوا ہے بے فائدہ نہ رہنے دیں۔SKC 68.2

    خُداوند کا مقصد اپنے بچوں کے لیے یہ ہے کہ وہ ارتقائی منازل طے کرتے جائیں۔ ایک حقیقی طبی مشنری ایک بہت ہی ترقی پسند اور ماہر ہو گا۔ ایک ماہر مسیحی طبیب جس میں طبی پیشہ سے متعلق اعلٰی قابلیت پائی جاتی ہو اُسے بلایا جائے اور اسے ایسی جگہ رکھا جائے جہاں وہ دوسرے لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر طبی مشنری بنانے میں مدد دے۔SKC 68.3

    طبیب کو چاہیے کے وہ خدا کے کلام کی روشنی سے اپنی روح کو منور کرے۔ اسے خُدا کے فضل میں ترقی کرتے جانا چاہیے۔ اس کا ہر عمل پاک نیت کے ساتھ ہونا چاہیے۔ ایسی نیت اور ارادہ جو قوت سے بھرپور ہو کیونکہ وہ اس سے صادر ہوا ہے۔ جس نے اپنی جان دی تاکہ ہمیں ایسی قوت عطا کرے جو بدی پر غالب آتی ہے۔SKC 68.4

    اگر طبیب جان نثاری اور وفاداری سے اپنے پیشے میں مہارت حاصل کرے۔ مسیح خُداوند کے لیے خود کو وقف کرے اپنے دل کو اچھی طرح پرکھے، پھر وہ بخوبی اپنے مقدس پیشے کے بھید سے واقف ہو سکے گا۔SKC 69.1

    وہ خود ضبط کرے گا اور اپنے آپ کو اس طرح تعلیم سے آراستہ کرے گا کہ جو بھی اس کے زیر اثر ہوں گے اس کی تعلیم کی فضیلت اور دانائی کو دیکھ کر کہہ سکیں گے کہ اس کا تعلق اس خُدا سے ہے جو حکمت اور قدرت سے معمور ہے۔SKC 69.2

    طبیب کے پیشہ کے علاوہ اور کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں مسیح خُداوند کی قربت کی اتنی ضرورت ہو۔ وہ جو طبیب کے پیشہ سے انصاف کرنا چاہتا ہے اسے ہر روز بلکہ ہر گھڑی مسیحی زندگی بسر کرنا ہو گی۔ مریض کی زندگی طبیب کے ہاتھ میں ہے۔ بے احتیاطی سے کی گئی تشخیص یا یک غلط نسخہ یا جراحی کےوقت ہاتھ کی بے مہارت حرکت، خواہ یہ بال برابر ہی کیوں نہ ہو کسی کی جان لے سکتی ہے۔ یہ کتنا سنجیدہ خیال ہے! پس یہ کتنا اہم ہے کہ ایک طبیب ہر وقت الٰہی کے زیر سایہ رہے!۔SKC 69.3

    خُداوند یسوع مسیح اُن سب کی مدد کے لیے ہر وقت تیار ہے جو اسے حکمت اور صاف صاف سوچ کے لیے پکارتے ہیں۔ اور کون ہے جسے طبیب سے زیادہ حکمت اور غیر مبہم خیالات کی ضرورت ہے؟ جس نے دوسروں کی زندگیوں کو بچانے کی خدمت اٹھائی ہےاسے چاہیے کہ اپنی ہر حرکت ایمان کے زریعے خُداوند یسوع مسیح کے تابع کر دے پھر خُداوند اسے حکمت اور ہنر عطا کرے گا تاکہ مشکل سے مشکل معاملات میں بھی سرخرو ہو سکے۔ SKC 69.4

    بیمار کے سربراہ کو خُداوند کی نزدیکی حاصل کرنے کے لیے کتنے شاندار مواقع دیے گئے ہیں۔ بیمار کی بحالی میں جو کچھ کیا گیا ہے انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس سے طبیب چایتا ہے کہ وہ بیماری کا مقابلہ کرنے کیے لیے خُدا کے ساتھ تعاون کریں۔ وہ انہیں محسوس کرانےکی کوشش کرتا ہے کہ خُدا کے احکام کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر آپ جو قدم اٹھائیں گے اس سے خُدا کی قدرت کی آپ کو توقع رکھنی چایئے۔ دکھی اور بیمار اس طبیب میں زیادہ بھروسہ رکھیں گے جو خُدا سے ڈرتا اور انسانیت کو پیار کرتا ہو۔SKC 69.5

    یہ ایک مسیحی طبیب کا بڑا شرف ہے کہ وہ دعا کے زریعے خُداوند یسوع مسیح کی حضوری بیمار کے کمرے میں مدعو کرتا ہے کیونکہ وہ اسے جانتا ہے۔ اس سے پہلے کہ سرجن کوئی پیچیدہ جراحی شروع کرے اسے چاہیے کہ خُداوند یسوع مسیح سے مدد طلب کرے ۔ اسے چاہیے کہ مریض کو یقین دہانی کرائے کہ ان سب کی خُداوند پناہ گاہ بنتا رہا ہے اور بنتا رہے گا جو اس میں اعتماد رکھتے ہیں۔ اور جو طبیب ایسا نہیں کرتے ان کو ناکامی پر ناکامی ہوتی ہے۔ اور اگر وہ خُدا سے مدد طلب کر لیتے ہیں تو ایسا نہ ہوتا۔ اگر وہ بیمار سے ہمدردانہ کلام کریں تو بیمار کا ایمان اس نجات دہندہ میں بڑھ جاتا ہے جو دکھیوں کی ہر چبھن کو محسوس کر تا ہے۔ اور جو ضرورت مند کی ہر نیک ضرورت پوری کرتا ہے- یوں بندہ اس سے دعا کر کے ہر مشکل پر قابو پا لیتا ہے۔SKC 69.6

    وہی جو دلوں کو پڑھ سکتا ہے جانتا ہے کہ مریض کتنے خوف اور گھبراہٹ کے ساتھ جراح کو جراحی کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بے شک ان کا اعتماد جراح میں ہے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ بھی غلطی کر سکتا ہے۔ لیکن جوں ہی وہ جراح کو خُدا کے سامنے سر بسجود دیکھتے ہیں تو ان کا بھی خُدا میں بھروسہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ شکر گزاری اور ایمان کو ڈاکٹر خُدا میں دکھاتا ہے۔ شفا کی قدرت صادر کر دیتا ہے۔ یوں مریض کے کمزور بدن کی تمام قوتیں واپس آجاتی ہیں اور زندگی موت پر فتح پا لیتی ہے۔SKC 70.1

    طبیب کے لیے بھی خُداوند یسوع مسیح کی حضوری قوت کا عنصر ہے۔ اس کے کام کی نوعیت اور ممکنات اس کے دل میں اکثر خوف و ہراس پیدا کر دیتے ہیں۔ غیر یقینی اور خوف کام بگاڑ سکتا ہے اچھے بھلے جراح کو اناڑی بنا سکتا ہے۔ مگر اس بات کا یقین دل میں رکھنا کہ الہٰی مشیر میرے ہمراہ ہے۔ جو میری رہنمائی کرے گا تو اس سے سکون اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ خُداوند یسوع مسیح جب طبیب کے ہاتھ کو چھو لیتے ہیں تو طبیب کا ہاتھ زندگی، اعتماد اور طاقت کا منبع بن جاتا ہے۔ SKC 70.2

    جب بحران بخیر و عافیت سے گزر جائے- اور خُداوند کامیابی نصیب کرے تو چند منٹ مریض کے ساتھ دعا میں گزاریں۔ خُدا کے حضور مریض کے بچ جانے پر دعا میں خُدا کا شکریہ ادا کریں۔ جو شکر گزاری مریض پیش کرنا چاہتا ہے وہ طبیب اپنے لیے نہیں بلکہ خُدا کی عزت اور جلال کے لیے ہو۔ مریض کی توجہ زندگی بخشنے والے خُدا کی طرف مبذول کرائی جائے جس نے مریض کی جان بچائی ہے۔ طبیب مریض کو بتائے کہ تو راہ راست آسمانی طبیب کی پناہ میں تھا۔ میں تو محض وسیلہ بنا ہوں۔SKC 70.3

    جو طبیب ایسا کرتا ہے وہ اپنے مریض کو ابدی زندگی کے لیے خُدا کے پاس لے آتا ہے جس سے حیات صادر ہوتی ہے۔ طبی مشنری کام میں روحوں کی بڑی دل جمعی کے ساتھ خبر گیری کی جانی چاہئے۔ انجیل کی خوشخبری پھیلانے والے خادم کی طرح طبیب کی بھی بڑی زمہ داری ہے ۔ انسانوں کو جتنی بھی زمہ داریاں دی گئی ہیں یہ دونوں زمہ داریاں اُن سب سے بڑھ کر ہیں۔ طبیب محسوس کرے یا نہ کرے روحوں کی بحالی کی ذمہ داری اس کو دی گئی ہے۔SKC 70.4

    طبیبوں کا واسطہ بیماری اور موت سے ہے۔ اکثر طبیب ابدی زندگی کی سنجیدہ حقیقت کو نظرانداز کرجاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جس بیماری کو بچانے کی خدمت انجام دے رہے ہیں نہ بچ سکے۔ اُسے اس آخری وقت میں خُدا کے قریب لانے کی کوشش کرنا احسن فرض ہے۔ کیونکہ خُداوند کے تخت کے پاس طبیب دوبارہ اُس رُوح سے ملے گا۔ بعض طبیب خُدا کی پیش قیمت بخششوں کے بارے میں یہ کالم کرکے موقع کھو دیتے ہیں ظاہر ہے اگر سنہری موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا گیا تو موقع ہاتھ سے جاتا رہے گا۔ بیمار شخص کے سرہانے کسی متضاد عقیدہ یا ایمان کا ذکر نہ کیا جائے۔ صرف بیمار کی توجہ اسی کی طرف لگائی جائے جو سب کو بچانے پر قادر ہے۔ ایماندار اور جانثار سے اس روح کی مدد کی جائے جو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔SKC 71.1

    وہ طبیب جو یہ جانتا ہے کہ خُداوند اُس کا شخصی نجات دہندہ ہے وہ یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ دہشت زدہ، لڑکھڑاتی، پشیمان اور گناہ کی مریض روح کے ساتھ کیسے سلوک کرنا چاہیے۔ اور جب اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ “میں کیا کروں کہ نجات پاؤں” تو خُداوند مسیح جو نجات دہندہ ہے۔ اس کی محبت کی کہانی سنا سکتا ہے۔ وہ اپنے تجربہ کی بنا پر توبہ کرنے کی توفیق اور ایمان کے بارے میں بتا سکتا ہے۔SKC 71.2

    سادہ مگر مخلص زبان میں وہ مریض کی ضرورت خُدا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ نیز طبیب بیمار کو بھی ہمت دلا کر کہہ سکتا ہے کہ وہ خُداوند رحیم کے فضل اور رحمت کو قبول کرے۔ جونہی وہ مریض کے سرہانے ایسا کلام کرتا ہے جس سے مریض کو تقویت، حوصلہ، تسلی اور اطمینان ملے تو خُداوند ضرورطبیب کے زریعے مریض کو شفا بخشے گا۔ جب مریض کا دھیان نجات دہندہ کی طرف لگایا جاتا ہے تو مسیح کا اطمینان اس کے دل کو معمور کر دیتا ہے۔ تب روحانی صحت و شفا جو اسے یسوع نجات دہندہ سے حاصل ہوتی ہے اس کی جسمانی صحت کا سبب بن جاتی ہے۔SKC 71.3

    مریض کی خدمت کرنے کے بدولت طبیب، بیمار کے دوستوں اور رشتےداروں سے بھی جان پہچان بنا لیتے ہیں۔ جب وہ بیمار کے سرہانے کھڑے اس کے دکھوں کو دیکھتے اور مریض کی بےبسی پر رنجیدہ ہوتے ہیں ان کے اپنے دل نرم ہو کر بھر آتے ہیں۔ جب طبیب بیمار کے رشتہ داروں اور دوستوں کی توجہ اس نجات دہندہ کی طرف موڑے جس نے کہا کہ “اے بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؑؤ”۔ اُن کے ساتھ ملکر دعا مانگیں اُن کی ضروریات اور دکھ اُس کے سامنے رکھیں جو سب کو تسلی دینے پر قادر ہے۔SKC 71.4

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents