اُمید کے وسیلہ نجات
“ہمیں اُمید کے وسیلہ سے نجات ملی” رومیوں 24:8۔ جو آزمائس یا گناہ میں گرے ہوئے ہیں انہیں بتانے کی ضرورت ہے کہ ابھی بھی آپ بچ سکتے ہیں۔ خُداوندیسوع مسیح نے بھی انسان کا اعتماد بحال کر کے اسے اس کے حقیقی مرتبہ پر فائز کیا۔ حتٰی کہ جو اخلاقی حدیں پھلانگ چکے تھے اور گناہ کے اتھارہ گڑھے میں چکے تھے اُن سے بھی خُداوند مسیح بڑی عزت کیساتھ پیش آیا۔SKC 108.4
دشمنی، تشدد اور ناپاکی وغیرہ کے باعث جس کا اسے اس دُنیا میں سامنا کرنا پڑتا تھا اسے مسلسل دکھ پہنچنا تھا۔ مگر کبھی اس نے یہ تاثر نہ دیا تھا کہ وہ گنہگاروں کو پسند نہیں کرتا۔ خواہ کسی میں کوئی بھی بُری عادت کیوں نہ ہو یا کسی بھی قسم کا کسی میں تعصب کیوں نہ ہو وہ سب سے پیار اور محبت سے پیش آتا۔ ہم بھی اس کی روح میں حصہ دار ہیں تو آئیے ہم بھی تمام انسانوں کو اپنے بھائی جانیں جو اس طرح کی آزمائشوں اور ان مصائب سے دوچار ہیں جو انہیں مایوسی کی طرح لے جا سکتی ہیں۔ تو آئیے ہم ان کو اس طرح ملیں کہ وہ بے دل نہ ہو جائیں بلکہ ان کے دل میں امید پیدا ہو جائے۔ اور حوصلہ پا کر اور پراعتماد ہوکر یوں کہہ سکیں۔SKC 108.5
“اے میرے دشمن مجھ پر شادمان نہ ہو کیونکہ جب میں گروں گا تو اُٹھ کھڑا ہوں گا۔ جب میں بیٹھوں گا تو خداوند میرا نور ہو گا- وہ میرا دعوے ثابت کر کے میرا انصاف کرے گا۔ وہ مجھے روشنی میں لائے گا۔ اور میں اس کی صداقت کو دیکھوں گا” میکاہ 8:7-9۔ “خُداوند سب بنی آدم پر نگاہ رکھتا ہے۔ وہی ہے جو ان سب کے دلوں کو بناتا ہے” زبور 14:33-15، خُداوند یسوع مسیح کا فرمان ہے کہ گنہگاروں اور آزمائش میں گرے ہوؤں کے ساتھ عقلمندی سے پیش آؤ “اور اپنا بھی خیال رکھ کہیں تو بھی آزمائش میں نہ پڑ جائے” کلتیوں 1:6۔SKC 109.1
کیونکہ جب ہمیں اپنی کمزوریوں کا احساس ہو گا تو ہم دوسروں کے قصوروں سکو بھی محبت کی رو سے درست کرنے کی کوشش کریں گے-SKC 109.2
“تجھ میں اور دوسرے میں کون فرق کرتا ہے۔ اور تیرے پاس کون سی ایسی چیز ہے جو تو نے دوسرے سے نہیں پائی؟”- “تمہارا اُستاد ایک ہی ہے اور تم سب بھائی ہو”۔ مگر اپنے بھائی پر کس لیے الزام لگانا ہے۔ یا تو کس لے اپنے بھائی کو حقیرجانتا ہے؟ پس آئندہ کو ہم ایک دوسرے پر الزام نہ لگائیں یہی ٹھان لو کہ کوئی اپنے بھائی کے سامنے وہ چیز نہ رکھے جو اس کے ٹھوکر کھانے یا گرنے کا باعث ہو” 1 گرنتھیوں 7:4، میت8:تی، رومیوں10:14-13۔SKC 109.3
کسی کی غلطیوں پر انگلی اُٹھانا اس کی بےعؑزتی کرنا ہے۔ ایسا ککرنے سے تلخ تجربہ کا سامنا ہو گا۔ کسی کو بھی لعن طعن و تشنیع کے ذریعہ بحال نہیں کر سکتے بلکہ بیشتر لوگ قائل ہونے کی بجائے گستاخی کا مظاہرہ کریں گے اور پہلے سے بھی کہیں دور نکل جائیں گے، محبت بھری روح اور سنجیدہ اور نرم گفتگو بت سے خطاکاروں سکو خدا کے پاس لا سکتی ہے- ایسا کرنے سے وہ لوگ بھی اپنے گناہوں کو ترک کرنے پر قائل ہو جاتے ہیں جن کے گناہوں سے کوئی واقف نہیں ہوتا۔SKC 109.4
پولس رسول کو بھی ضرورت محسوس ہوئی کہ جو بھائی غلطی پر ہیں ان کی درستی کی جائے۔ مگر اس نے ان کی درستی بڑے محتاط انداز میں کی ۔ پہلے اس نے ان کو باور کروایا کہ وہ ان کو عزیز رکھتا ہے۔ ان کا بھائی ہے ان کا دوست ہے دشمن نہیں اور اپنے اس عمل کے بارے میں اس نے اُن کو وجہ بھی بتا دی کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔ اس نے ان کو اپنی ہمدری اور اعتماد کا یقین دلایا جو اپنی کمزوریوں پر فتح پانے کے لیے جدوجہد کر رہے تھے۔SKC 109.5
“کیونکہ میں نے بڑی مصیبت اور دلگیری کی حالت میں بہت سے آنسو بہا بہا کر تم کو لکھا تھا لیکن اس واسطے نہیں کہ تم کو غم ہو بلکہ اس واسطے کہ تم اس بڑی محبت کو معلوم کرو جو مجھے تم سے ہے” 2 گرنتھیوں4:2۔SKC 110.1
گو میں نے تم کو اپنے خط سے غمگین کیا مگر اس سے پچھتانا نہیں اگرچہ پہلے پچھتانا تھا۔ اب میں اس لیے خوش نہیں ہوں کہ تم کو غم ہوا بلکہ اس لیے کہ تمہارے غم کا انجام توبہ ہوا۔ کیونکہ تمہارا گناہ خُدا پرستی کا تھا تاکہ تمہیں ہماری طرف سے کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔ پس دیکھو کہ اس بات نے کہ تم خُدا پرستی کر طور پر غمگین ہوئے تم میں کس قدر سرگرمی اور غدر اور جفگی اور اشتیاق اور جوش اور انتقام پیدا کیا۔ تم نے ہر طرح ثابت کر دکھایا کہ تم اس امر میں بری ہو۔ اس لے ہم کو تسلی ہوئی” 2گرنتھیوں 8:7-13۔SKC 110.2
“میں خوش ہوں کہ ہر بات میں تمیاری طرف سے میری خاطر جمع ہے” 2 گرنتھیوں 16:7۔ SKC 110.3
“میں جب کبھی تمہیں یاد کرتا ہوں تو اپنے خُدا کا شکر بجا لاتا ہوں۔ اور ہر ایک دُعا میں جو تمہارے لیے کرتا ہوں ہمیشہ خوشی کے ساتھ تم سب کے لیے درخواست کرتا ہوں۔ اس کیے کہ تم اول روز سے آج تک خوشخبری کے پھیلانے میں شریک رہے ہو” فلپیوں 3:1-5۔ “اور مجھے بھروسہ ہے کہ جس نے تم میں نیک کام شرع کیا ہے وہ اسے یسوع مسیح کے دن تک پورا کرے گا۔ چنانچہ واجب ہے کہ میں تم سب کی بابت ایسا ہی خیال کروں کیونکہ تم میرے دل میں رہتے ہو۔ فلپپوں 6:1-7۔ “اس واسطے اے میرے پیارے بھائیو! جن کا میں مشتاق ہوں جو میری خوشی اور تاج ہو۔ اے پیارو! خُداوند میں اسی طرح قائم رہو” فلپپوں 1:4۔ “کیونکہ اب اگر تم خُداوند میں قائم ہو تو ہم زندہ ہیں” 1 تھسلنیکیوں 8:3۔SKC 110.4
پولس رسول ان بھائیوں کو “مسیح میں مقدسو” کہتا ہے۔ مگر اس کا یہ خیال نہیں کہ یہ بھائی چال چلن میں کامل ہیں۔ وہ ان کو عام مردوں اور عورتوں کے طور پر سمجھتا ہے جو آزمائشوں میں گرنے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ وہ ان کی توجہ “خُدا کے اطمینان” کی طرف دلاتا ہے۔SKC 110.5
“اب خُدا اطمینان کا چشمہ جو بھیڑوں کے بڑے چرواہے یعنی ہمارے خُداوند یسوع مسیح کو ابدا کے خون کے باعث مردوں میں زندہ کر کے اُٹھا لایا۔ تم کوہر نیک بات میں کامل کرے تاکہ تم اس کی مر ضی پوری کرو اور جو کچھ اس کے نزدیک پسندیدہ ہے یسوع مسیح کے وسیلہ سے تم میں پیدا کرے” 20:14-22۔SKC 111.1
جب کسی بہن یا بھائی کو اپنی غلطی کا احساس ہو جاتا ہے تو خبردار اس کی غیرت کو دھچکا نہ لگائیں۔ بےاعتمادی کا اظہار کر کے اس کو پست ہمت نہ کریں۔ اور یہ کبھی نہ کہیں کہ اس پہلے کہ میں اس پر تجربہ کروں میں انتظار کروں گا اور دیکھوں گا کہ وہ اس قابل ہے بھی کہ نہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسا کرنے سے ہم آزمائش میں گرے ہوئے بھائی کے لیے ٹھوکر کھانے کا باعث بنتے ہیں۔SKC 111.2
ہمیں دوسروں کی کمزوریوں کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جو لوگ تاریکی کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ہیں ہم ان کی مشکلات اور آزمائشوں سے بہت کم واقف ہوتے ہیں۔ شاید ان میں استقلال اور اخلاقی قوت کی کمی ہے۔ سب سے قابل رحم حالت اس کی ہے جو اپنے کئے ہوئے پر پچھتا رہا ہے۔ لڑ کھڑاتا اور زمین میں دھنستا جاتا ہوا۔ اسے واضح طور پر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اسے یہ سمجھ ہی نہیں ہے کہ کون سا قدم اُٹھانا چاہیے۔ ایسی بہت سی روحیں ہیں جن کا انداز کیا جاتا ہے۔ ان کی کوئی قدر نہیں کرتا وہ تو غم اور پریشانی سے معمور ہیں۔ وہ تو اس بھیڑ کی مانند ہیں جو گمراہ ہو چکی ہے۔ ایسا شخص خُداوند کو نہیں ڈھونڈ سکتا مگر پھر بھی اس کے دل میں معافی اور اطمینان پانے کی خواہش جا گزیں ہے۔SKC 111.3
ان کے ساتھ ایسا کام نہ کریں جس سے انہیں مزید تکلیف ہو۔ وہ روح جو گناہ کے ہاتھوں پریشان ہے اور یہ نہیں جانتی کہ کہاں سے سکھ نصیب ہوگا اسے مسیح یسوع جو مہربان ہے اس کے پاس لے آئیں۔ ہاتھ سے پکڑ کراسے اوپر اُٹھائیں اس کے ساتھ اُمید اور حوصلہ بخش کام کریں۔ اس کی مدد کریں کہ وہ نجات دہندہ کا ہاتھ تھام لے۔SKC 111.4
جب کوئی روح ہماری کوشش کا فوراً جواب نہیں دیتی تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں۔ جب تک امید کی کرن باقی ہے اس روح کی خدمت کرنا ترک نہ کریں۔ خُداوند یسوع مسیح کو ہمیں بچانے کے لیے تو اپنی جان قربان کرنا پڑی۔ اس روح کو ابلیس کے ہاتھ سے بچانے کے لیے ہماری تمام کوشش مقابلتاً ہیچ ہیں۔SKC 111.5
جو آزمائش میں پڑے ہیں ہمیں خود کو ان کی جگہ رکھ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس نے جو کچھ ورثہ میں پایا ہے اس کا خیال کریں۔ بد کار صحبت کو مد نظر رکھیں اس کے گردوپیش کا جائزہ لیں اور جو بری عادات اس میں موجود ہیں ان کی قوت کا اندازہ کریں۔ کیا ایسے حالات میں آپ کو حیرانی ہے کہ کوئی شخص بھی ذلت کا شکار ہو سکتا ہے؟ اور جب ہم ایسوں کو بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا ہمیں حیران ہونا چاہیے کہ وہ ہماری کوششوں کا جواب دینے میں بہت سست ہیں؟ SKC 112.1
اور اگر ان کو خُداوند کے لیے جیت لیا جائے تو یہ لوگ جو بےہودہ اور بے اعتبار نظر آتے ہیں خُداوند کے لیے بڑے وفادار اور قابل اعتبار ثابت ہو سکتے ہیں۔ وہ کلہم بگڑے ہوئے نہیں ہیں۔ ابھی تک ان میں کچھ اچھائیاں موجود ہیں جن تک رسائی ہو سکتی ہے۔ اگر ان کو مدد نہ ملے تو وہ خود بخود بحال نہیں ہو سکتے۔ وہاں بڑے صبر کے ساتھ مسلسل کوشش درکار ہے تاکہ ان کی بحالی معرض وجود میں آسکے۔ ان کو ایسے مشورے کی ضروت ہے جو ان کی زندگیوں سے حوصلہ اور ہمت کی تھوڑی سی رمق کو بجھا نہ دے۔ جو کارگزار ایسوں کی بحالی کے لیے کام کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ ان باتوں کا خاص دھیان رکھیں۔SKC 112.2
آپ کو کچھ ایسے بھی لوگ ملیں گے جن کے ذہن نہایت غلیظ ہیں۔ لیکن اگر ان کو بہتر حالات میسر آتے تو وہ جو کچھ بن چکے ہیں کبھی بھی نہ بنتے۔ مگر پست ہمت ہونے کی ضرورت نہیں۔ راستبازی کے سورج کی تابناک کرنیں ابھی بھی اُن کی روحوں میں چمک سکتی ہیں۔ وہ ابھی بھی خُداوند کی زندگی سے اندھیرے اور اُجالے، بدی اور پاکیزگی کا امتیاز کرنا سیکھیں۔ اپنا ایسا نمونہ پیش کریں جسے وہ پڑھ کر جان سکیں کہ مسیحی ہونے کا کیا مطلب ہے۔ خُداوند یسوع مسیح بڑے سے بڑے گنہگار کو بحال کر سکتا ہے اور ان کو ایسی جگہ قائم کر سکتا ہے جہاں ان کو خُدا کے بچے اور بچپوں کے طور قبول کیا جا سکتا ہے۔ وہ خُدا کی ابدی میراث کے وارث ہو سکتے ہیں۔SKC 112.3
الٰہی فضل کی معجزانہ قدرت سے ہزاروں لوگ کارآمد زندگیاں بسر کرنے کے لائق ہو سکتے ہیں۔ سوسائی کے دھتکارے اور رد کیے ہوئے جو بالکل پست ہمت ہوچکے ہیں۔ وہ شائد ضدی اور بے جس نظر آئیں۔ مگر روح القدس کے زیر سایہ ان کا ضدی پن دور ہو جائے گا جوان کی بحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ تھی۔ غبی، ضدی اور بےحس بیدار ہو جائیں گے۔ گناہ کے اسیر آزاد ہو جائیں گے۔ ان سے قباحت معدوم ہو جائے گی۔ ان میں پائی جانے والی غفلت اور جہالت مغلوب ہو جائے گی۔ اور ایمان جو محبت کی رو سے کام کرتا ہے اس کے وسیلہ دل پاک اور ذہن روشن ہو جائے گا۔SKC 112.4