سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
عظیم کشمکش
- Contents- تمہید
- تعارف
- پہلا باب - یروشلیم کی تباہی
- دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
- تیسرا باب - روحانی تاریکی کا دَور
- چوتھا باب - والڈنِسس
- پانچواں باب - جان وکلف
- چھٹا باب - ہس اور جیروم
- ساتواں باب - لو تھر کی روم سے علیحدگی
- آٹھواں باب - لوتھر کی کانفرنس (Diet) کے سامنے پیشی
- نانواں باب - سوئس اصلاح کار
- دسواں باب - جرمنی میں اصلاح کی پیش رفت
- گیارہواں باب - شہزادوں کا احتجاج
- بارہواں باب - فرانسسی ریفریمیشن
- تیرہواں باب - نیدر لینڈز اور سیکنڈی نیویا
- چودھواں باب - مابعد انگلش مُصلح حضرات
- پندرہواں باب - بائبل مقدسی اور فرانسسی انقلاب
- سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
- سترہواں باب - نوید صبح
- آٹھارواں باب - ایک امریکی مصلح
- انیسواں باب - تاریکی میں سے نور
- بیسواں باب - غیر معمولی دینی بیداری
- اکیسواں باب - تنبیہ رد کر دی گئی
- بائیسواں باب - پیشینگوئیاں پوری ہو گئیں
- تائیسواں باب - مقدس کیا ہے؟
- چوبیسواں باب - پاکترین مکان میں
- پچیسواں باب - خُدا کی دائمی شریعت
- چھبیسواں باب - اصلاح کا کام
- ستائیسواں باب - موجودہ دور کی بیداریاں
- اٹھائیسواں باب - تفتیشی عدالت
- انتیسواں باب - مبدا (آغاز) گناہ
- تیسواں باب - انسان اور شیطان کے مابین عداوت
- اکتیسواں باب - بری روحوں کی ایجنسی
- بتیسواں باب - شیطان کے پھندے
- تنتیسواں باب - پہلا بڑا دھوکا
- چونتیسواں باب - سپر چولزم مردوں سے باتیں کرنا
- پینتیسواں باب - ضمیر کی آزادی کو خطرہ
- چھتیسواں باب - قریب الوقوع تصادم کا خطرہ
- سینتیسواں باب - کلام مقدس قابل اعتماد محافظ
- اڑتیسواں باب - آخری انتباہ
- انتالیسوں باب - ایذا رسانی کا وقت
- چالیسواں باب - خدا کے لوگوں نے رہائی پائی
- اکتالیسواں باب - زمین کی ویرانی
- بیالیسواں باب - کشمکش کا خاتمہ
Search Results
- Results
- Related
- Featured
- Weighted Relevancy
- Content Sequence
- Relevancy
- Earliest First
- Latest First
- Exact Match First, Root Words Second
- Exact word match
- Root word match
- EGW Collections
- All collections
- Lifetime Works (1845-1917)
- Compilations (1918-present)
- Adventist Pioneer Library
- My Bible
- Dictionary
- Reference
- Short
- Long
- Paragraph
No results.
EGW Extras
Directory
سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
انگلش ریفارمرز جہاں رومن ازم کی تعلیم کو ترک کیا، وہاں اس کی بعض تعلیمات کو کئی صورتوں میں قائم بھی رکھنے دیا ۔یو بے شک روم کا اختیار اور عقیدہ رد کردیا گیا ۔ اس کے باوجود اس کی بہت سی رسم و رواج اور عبادات کا طریقہ کارانگلینڈ کی کلیسیا کی عبادت میں جاری رہا۔اور کہا گیا کہ ان باتوں کا ضمیر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس لیئے یہ غیر اہم ہے اور ان کی ممانعت بھی نہیں کی گئی اور نہ ہی ان میں کوئی برائی ہے۔ بلکہ اس خلاء کو کم کرے گی جس نے اصلاح شدہ کلیسیاؤں کو روم علیحدہ کردیا ہے۔اور اس بات کو ترغیب دی گئی کہ وہ پروٹسٹنٹ ایمان کو روم کی تعلیم ماننے والوں کے ذریعے فروغ دیں گے ۔ AK 281.1
قدامت پسند اور مصالحت پسند لوگوں کو یہ دلائل فیصلہ کن اور درست دکھائی دیئے،مگر وہاں ایک اور جماعت بھی تھی جو اسے فرق انداز دیکھتی تھی۔“روم اور ریفریمیشن کے درمیان رخنہ پر کرنے کی طرف مائل ہونا“(مارٹن،والیم 15 صفحہ 22)ان کے خیال میں ان رسم و رواج کوقطعی طور پر نہیں رکھنا چاہیئے۔ان کے خیال کے مطابق یہ تو اسی غلامی کے بیجز ہیں جس سے ہم نے چھٹکارا پایاتھااور جن کے انتقال کا کوئی احتمال نہیں ہے۔اور ان کی یہ بحث تھی کہ خدا نے اپنے کلام میں اپنی پرستش کے لئے قوانین وضع کر رکھے ہیں اور کسی انسان کو حق حاصل نہیں کہ ان میں کچھ بھی اضافہ کرے یا ان سے بے راہ رویاختیار کرے شروع میں بڑی برگشتگی کا آغاز اسی سے ہواجس نے خدا کے اختیار میں بے جا دخل اندازی کی ۔ روم وہ ہدایات جاری کرنے لگا جن کا خدا نے حکم نہیں دیا تھا اور جو کچھ اس نے واضح طور پر کرنے کا حکم دیا تھا اسے روکنے کی ٹھانی۔ AK 281.2
بہیترے چاہتے تھے کہ وہ قدیم کلیسیاں کی سادگی اور پاکیزگی کی طرف لوٹیں جو اس کا وصف تھا ان کے نذدیک انگلش کلیسیا نے بہت سی رسومات بت پرستی کی یاد گار میں قائم کر رکھی تھیں۔اس لیئے ان کا ضمیر ایسی عبادت میں شمولیت کرنا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ لیکن کلیسیا کوسول اتھارٹی کی حمایت حاصل تھی اور وہ اس کی عبادت کے طور واطوار میں کسی اختلاف کی اجازت دینے کو تیار نہ تھے ۔ اس کی سروس میں شامل ہونا قانونی تقاضہ تھا جبکہ بلاوجہ مذہبی عبادات کے اجتعماع پر پابندی تھی۔AK 281.3
سترھویں صدی کے اوائل میں وہ مطلق العنان بادشاہ جو حال ہی میں انگلینڈ کے تخت پر برآجمان ہوا تھا اس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیورٹین کے مطابق ڈھل جاؤ۔ اور جو ایسانہیں کرنا چاہتا اسے فورا ملک چھوڑنا ہوگا یا اس اسے بھی کڑی سزا کاسامنا کرنا پڑے گا ۔AK 282.1
Sarge Bancroft, history of the states of America, pt,1 ch12.par6AK 282.2
مارے جانے ،، ایذا رسانیاں اور قید وبند کے پیش نظر بہتوں نے تاڑ لیا کہ مستقبل میں اچھے دنوں کی کوئی امید نہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر خدا کی خدمت کرنا نہایت دشوار ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ انگلینڈ ہمیشہ کے لئے ایسی جگہ نہیں رہی جہاں کوئی قیام کرسے ‘‘ J.S. PALFREY. HISTORY OF NEW ENGLAND,CH.3,PAR.43AK 282.3
ان مصائب کے پیش نطر کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے ہالیند میں پناہ لینے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ مسکلات ، مالی جانی نقصانات اور جیلوں کا سامناتھا ۔ ان مقاصد کی مزاحمت کی گئی اور دشمنوں کے ہاتھوں انہیں دغا دیا گیا۔ مگر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی فتح یاب ہوئی ۔اور انہوں نے ڈچ ری پبلک کے دوستانہ ساحل سمندر پر پناہ پائی۔AK 282.4
فرار ہونے پر انہیں جائیدادا اور کاروبار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ وہ اجنبی ملک میں، اجنبی تھے۔وہ ان لوگوں درمیان تھے جن کی بولی اور رسم و رواج میں فرق تھے۔انہیں روزی کمانے کے لئے ایسے پیشے اختیار کرنا پڑے جو گیر آزمودہ تھے۔ اب انہیں صنعتی کام سیکھنا پڑا۔تاہم انہو نے پیچ و تاب کھانے میں ، بڑبڑانے میں ہی وقت ضائع نہ کیا، بلکہ جیسے بھی حالات تھے انہیں بخوشی قبول کیا۔ گو اکثر انہیں غربت بھینچ لیتی ۔ بگر وہ ان برکات کے لئے خدا وند کا شکر ادا کرتے جو انہیں میسر ۔ اور وہ اس روحانی رفاقت کے لئےبھی شکر گزار تھے جو انہیں بالامزاحمت نصیب ہوئی تھی۔ ‘’وہ جانتے تھے کہ ہم مسافر ہیں اور وہ دنیوی چیزوں کی زیادہ فکر نہ کرتے تھے بلکہ ان کی آنکھیں اآسمان کی طرف لگی تھیں جو ان کا پیارا گھر تھا اور جس میں ان کی اور جس میں ان کیروحیں سکون پاتیتھیںbancroft, pt,1ch.12,par 15.AK 282.5
جلاوطنی اور مشکلات کے دوران ان کی محبت اور ایمان مضبوط تر ہوگیا۔ انہوں نے خدا کے وعدوں پر بھروشی کیا اور بوقت ضرورت خداوند نے انہیں مایوس اور ناکام نہ کیا۔ اس کے فرشتے انہیں مدد، حوصلہ اور ہمت دینے کے لئے ان کے پہلوں رہے اور جب خداوند کے ہاتھ نے انہیں سمندر پار کرنے کے لئے ، اس زمین کی طرف جانے کے لئے اشارہ کیا جہاں وہ اپنے ایک ریاست حاصل کرنے کو تھے اور اپنے بچوں کے لئے بیش قیمت مذہبی آذادی کی وارث چھوڑنے کو تھے تو وہ بلا جھجک اس راہ پر گامزن ہوگئے۔AK 283.1
خداوند خدا نے اپنے لوگوں پر آزمائشیں آنے دیں تاکہ انہیں اپنے پر فضل مقاصد کو پورا کرنے کے لئے تیار کرے ۔ کلیسیا کو سر بلند کرنے کے لئے پہلے پست کیا گیا ۔ خدا وند اس کی خاطر قوت کا مظاہرہ کرنے اور دنیا کو ایک اور ثبوت مہیا کرنے کو تھا کہ خداوند ان کو بھی ترک نہیں کرتا جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں۔ خدا وند خدا نے ابلیس کو بھڑکانے اور بد کار لوگوں کی سازش کو آگے بڑھنے کے لئے واقعات کو اپنے قبضہ میں رکھاتاکہ اس کو جلال ملے اور اپنے لوگوں کو جائے پناہ پر پہنچائے۔ایذا رسانی اور جلاوطنی فریڈم کی را ہ کھولنے کے لئے تھی ۔ جب انگلش کلیسیا پر ذبردستی پہلی پابندی عائد کی گئی تو پیورٹین کلیسیا پڑی سنجیدگی کے ساتھ خدا کے آذاد لوگوں کی صورت میں آپس میں متحد ہوگئے۔ اور وہ اس بات سے متفق ہوئے کہ جو راہ انہیں خدا کی طرف سے بتائی جائے گی اس میں سب مل کر چلیں گے۔ AK 283.2
J.Brown, the pilgrim fathers, page 74AK 283.3
حقیقی اصلاح کار کی یہی روح تھی۔ جو پروٹسٹنٹ ازم کا نہایت ہی اہم اصول ہے اسی مقصد کے لئے مسافر ہالینڈ سے نکلے تاکہ نیئ دنیا میں اپنے گھر تلاش کر یں ۔ جان رابسن جو ان کا پاسٹر تھا، اسے خدا وند کی طرف سے روجا گیا تاکہ ان کے ساتح نہ جاےَاس نے انہیں الوداعی خطاب میں یو کہا ۔AK 283.4
“بھائیو ہم عنقریب ایک دوسرے سے جدا ہونے کو ہیں۔ صرف خداوند ہی جانتا ہے کہ آپ کو دوبارہ ملنے کے لءے زندہ بحی ہوگا کہ نہیں۔ لیکن خواہ خداوند کی ایسی مرضی ہے یہ نہیں میں آپ کو خداوند اور اس کے مبارک فرشتوں کے حوالے کرتا ہو ں تاکہ آپ میری اس سے زیادہ پیروی کریں جتنی میں نے مسیح یسوع کی پیروی کی ہے اور اگر خدا وند خدا کسی اور ذراءع سے کچھ آشکار کرے تو اسے بھی اسی طرح قبول کریں جیسے آپ میری خدمت کو قبول کیا۔کیونکہ مجھے پوراپورا بھروسہ ہے خدادند خدا اپنے پاک کلام کے ذریعے ابھی مزید روشنی اور صداقت آپ تک پہنچانے کو ہے” AK 283.5
“جہاں تک میراتعلق ہے ، میں اصلاھ شدہ کلیسیاوّں پر بھرپور کف افسوس نہیں کرسکتا جو ایک مزہب کے زمانے میں آچکے ہیں۔ اور ریفریمیشن کے آلہ کاروں سے آگے نہیں بڑھ سکتے۔یعنی جو کچھ لوتھر نے دیکھا ، لوتھر کے پیروکار اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور کیلون کے ماننے والے اسی جگہ چپکے ہوءے ہیں جہاں خدا کے عظیم بندے نے انہیں چھوڑا تھا۔ اور جس نت بحی سب کچح نہیں دیکھا تھا۔ اس بدنصیبی پر رونا آتا ہے۔ گو وہ اپنے زمانے میں روشن و تاباں چراغ تھے مگر ان میں خداوند کی تمام تجاویز سرایت نہ کر پاءی تھیں ۔ لیکن اگر وہ آج زندہ ہوتے تو وہ مزید روشنی کو قبول کرنے کے لءے ضرور رضا مند ہوتے”AK 284.1
اپنی کلیسیا کے عہد کو یاد رکھیے جس میں آپ اس بات پر متفق ہوےَ تھے کہ ہم خداوند کی تمام راہوں میں چلیں گے۔ ان تمام راہوں پر جن کا ہیمیں حکم ہے یا ہمارے علم میں لائی جائیں گی۔اپنے وعدے اور عہد کو یاد کریں جو آپ نے خداوند اور ایک دوسرے سے کئے تھے۔ کہ جو بھی سچائی اور صداقت ہمیں اس کلام سے حاصل ہوگی ہم اسے مانیں گے۔ مزید برآں میں تمہاری منت کرتا ہوں کہ خبردار رہنا اور آپ کوجو سچائی ملتی ہے اسے قبول کرنے سے پہلے اس کا موازنہ کلام مقدس کی دوسری صداقتوں کے ساتھ کرلینا کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ مسیحی دنیا جلدی اتنی گہری مخالف تاریکی سے باہر نکل آےَ۔ اور کاہل ادراک فورا سامنے آجاےَ۔AK 284.2
یہ ضمیر کی آذادی کے لئے خواہش تھی جس نے یا تریوں کو سمندر پار کرنے کے لمبے سفر کی تکالیف جھیلنے پر آمادہ کیا۔تکلیفیں اٹھاءیں اور اجاڑوں بیابانوں کے خطرے مول لئے ۔ اور خدا کے فضل و کرم سے امریکہ کے ساحلی علاقوں میں پناہ لی جو ایک طاقتور قوم کی نیوہے۔گو یہ ذائرین خدا ترس اور ایماندار تھےاس کے باوجود وہ مزہبی آذادی کے عظیم اصول سے نابلد تھے۔ جس آذادی کو اپنے لئے حاصل کرنے کے لئے اتنی زیادہ قربانیاں دیں۔وہ دوسروں کو ہی مساوی آزادی دینے کے لئے تیار نہ تھے ۔ حتی کہ سترھویں صدی کے اخلاقیات کے معلم کو اس عظیم اصول کا بہت ہی کم ادراک تھا جو صرف خدا کو ہی واحد منصف سمجھے وہ تعلیم (Doctrine)جوخدا نے کلیسیا کو دی ہے وہ ضمیر کو کنٹرول کرنے کے لئے درست ہے۔اورت بدعت کی تعریف اور اسکی سزاتجویز کرنا پوپ کی غلط تعلیم کی جڑوں میں ہے۔جسے اصلاح کار نے ترک کردیا تھا۔مگر وہ پوری طرح اس کو برداشت نہ کرنے والی روح سے آذاد نہ ہوئے۔ جس گہری تاریکی میں ، اپنی طویل حکومت کے ذریعہ پوپ پرستی نے تمام مسیحی حکومتوں کو اپنی لپیت میں لے لیا۔ وہ تاریکی ابھی تک پوری طرح کافور نہیں ہوئی تھی۔ میساچئوسٹس بے کے ایک معروف منستر نے کہا “یہ عقاعد کی آذادی کی حمایت تھی جس کی وجہ سے دنیا مسیحیت کے خلاف ہو گئی اور بدعتی سزانے چرچ کوکئی نقصان نہ پہنچایا” Ibid,vol 5 p 335AK 284.3
نو آبادکاروں نے ایک ریگولیشن (ضابطہ) اختیار کیا کہ سول گورنمنٹ میں صرف کلیسیائی ممبرز اپنی رائے دے سکتے ہیں ۔ اور یہ ریاستی کلیسیا قائم ہوگی۔ ہر شخص سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پادری کی مدد کرے اور مچسریٹس کو اختیار دے دیا گیا کہ وہ مسلمہ عقیدے کو نہ ماننے والوں کو سزادیں۔ یو کلیسیا کے ہاتھ میں سیکولر پاور آگئی۔ اور ان اقدامات کی وجہ سے اس کا نتیجہ ایذارسانیاں نکلا۔AK 285.1
پہلی کالونی قائم کرنے کے گیارہ برس بعد روجرولیم(Roger William) نئی دنیا میں آیا۔ابتدائی سیاحوں کی طرح وہ مذہبی آذادی کا لطف اٹھانے آیا۔ مگر اس نے وہ کچھ دیکا جو اس زمانے کے بہت ہی کم لوگوں نے دیکھا کہ اس آزادی کے حقوق سب کے لئے مساوی نہ تھے خواہ کسی کا کوئی بھی عقیدہ کیوں نہ ہو۔ وہ صداقت کا سچا متلاشی تھا۔اور اس کے ساتھ روبنسن(Robinson) بھی تھا جو سمجھتا تھا کہ ابھی تک انہیں خدا کے کلام کی پوری روشنی نہیں ملی۔ ولیم جدید مسیحی دنیا میں وہ پہلا شخص تھا جس نے ضمیر کی آذادی پرسول گورنمنٹ قائم کی ۔ جس میں ہر ایک کو قانون کے معاملہ میں رائے دینے کامساوی حق ہو.(Bancroft,pt.1,ch.15.par 16)AK 285.2
اس نے اعلان کیا کہ مچسٹریٹس کی ڈیوٹی جرائم کی روک تھام ہے مگر انہیں کوئی حق نہیں کہ وہ ضمیر کو کنٹرول کریں “اس نے کہا کہ پبلک یا مچسڑیٹس اس پر اپنا فیصلہ دے سکتے ہیں ۔ ”ایک انسان کی دوسرے انسان پر کیا زمہ داری ہے۔۔۔۔لیکن جب وہ بیان کرنا شروع کردیں کہ انسان کی خداکے لئے کیا زمہ داری ہے تو یہ ان کی زیادتی ہے۔پھر تو کوئی محفوظ نہیں رہے گا ۔ کیونکہ یہ ظاہر کہ اگر مچسٹریٹ کے پاس پاورز ہیں تو وہ آج کچھ قوانین بنائے گا اور کل کچھ اور ۔ اور جیسے یہ انگلینڈ میں بادشاہون نے کچھ قوانین بنائے اور کوئینز نے مختلف قوانین وضع کئے اور اسی طرح رومی کلیسیامیں مختلف پوپس نے قوانین بنائے اور کونسلز نے ان سے فرق قوانین پر عمل کروایا۔ یو عقائد گڈمڈ کا ڈھیر بن گئے ۔AK 285.3
مسلمہ کلیسیا کی سروس میں حاضری ہونا لازم تھا۔ خلاف ورزی پر جرمانے یا قید کی سزا دی جاتی تھی ‘‘ ولیمز نے اسے راندہ درگاہ قانون قرار دیا۔ انگلش کے مجموعہ قوانین میں کسی کو مجبورکرکے چرچ لانا ایک بد ترین قانون تحا ۔ لوگوں کو مجبور کرنا کہ فرق عقیدے کے لوگوں کے ساتح مطابقت رکھیں۔اس نے کہا کہ یہ تو ہمارے فطری حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ کسی کافر کو اس کی مرضی کے خلاف پبلک عبادت میں گھسیٹ کر لانا یہ تو ریا کاری کا مطالبہ ہے۔ کسی کو بھی عبادت کے لئے پابند نہین کرنا چاہئے ۔ اس نے مزید کہا کہ اگر کسی کو اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر عبادت میں بیٹھالیتے یہں تو اس کے حریف اس عقیدے پر حیران ہوکر غل مچائیں گے۔ اس طرح کی خدمت ان کے لئےجو اسے کام کے لئے رکھتے ہیں موزوں نہیں۔AK 286.1
روجر ولیم نہایت ہی معزز شخص تھااور انتہائی ایماندار خادم تھا۔ خداوند اسے بہت سی خوبیون سے نوازہ تھا۔وہ نیکی کا دلدادہ اور نیک نیت تھا۔ تاہم سول مچسٹریٹس کے کلیسیا پر اختیار نے اس کی ثابت قدمی کو برداشت نہ کیا ۔ کیونکہ اس نئی تعلیم کا اطلاق ملک سٹیٹ اور گورنمنٹ کے بنیادی نظام کو تہہ بالا کرنے پر ہوتا تھا۔ AK 286.2
اس کا کالونیون میں داخلہ بند کردیا گیا اور یو گرفتاری سے بچنے کے لئے سردیوں کے طوفانوں اور جنگلوں کے درمیان سے اس نے راہ فرار لی۔AK 286.3
اس کا کہنا ہے کہ “چودہ ہفتوں تک میں شدید سردی کے موسم میں ادھر ادھر ٹھوکریں کھاتا رہا ۔ کھانا پینا اور بستر بھول گیا“۔ مگر کوؤں نے مجھے بیابان میں کھانا کھلایا۔ اور گھنے درختوں نے مجھے جائے پناہ دی۔AK 286.4
یو اس نے درد سے بھرپور سفر ، برف اور بے راہ جنگلوں میں اس وقت تک راہ فرار کو جاری رکھا۔ جب تک کہ اسے انڈین قبیلہ میں پناہ مل گئی جس کو اس نے انجیل کی صداقتیں سکھاتے ہوئے جیتا تھاAK 286.5
ایک ماہ کی آوارہ گردی کے بعد اس نے ناراگانست بے کے ساحلوں کی راہ لی ۔ اس نے وہاں موجود زمانے کی پہلی ریاست کی بنیاد رکھی جہاں صحیح معنوں میں اور مکمل مذہبی آزادی کے حقوق تسلیم کئے جاتے تھے ۔ راجر ولیم کی کالونی کا سب سے بنیادی اصول یہ تھا “ہر شخص کو اپنے ضمیر کے مطابق جتنی روشنی ملی ہے اسے خدا کی عبادت کرنے کی آزادی ہے”AK 287.1
اس کی چھوٹی سی ریاست بنام روڈے آئی لینڈ کچلے ہوئے لوگوں کے لئے جائے پناہ بن گئی ۔ اور یہ بڑھتی اور برومندی ہوتی گئی اور اس نے یہاں تک فروغ پایا کہ اس کے بنیادی اصولات جو سول اور مزہبی آزادی کے بارے تھے، وہ امریکن ری پبلک کے لئے کونے کے سرے کا پتھر بن گئے۔AK 287.2
وہ عظیم پرانی دستاویزات جو ہمارے آباؤ اجداد نے اپنے حقوق کے لئے مسودہ قوانین بنایا یعنی آزادی کی قرارداد ۔ اس میں یہ اعلان تھا“ہم یہ ماننتے ہیں کہ یہ صداقتیں خود اپنا ثبوت ہیں ۔ کہ تمام انسانوں مساوی تحقیق ہوئی ہے۔ اور ان کے خالق خداوند نے انیں خاص حقوق عطا کیے ہیں جو ان سے چھینے نییں جاسکتے ۔ ان میں زندہ رہنے کا حق ہے ، آزادی اور خوشی حاصل کرنے کا حق شامل ہے” اور ریاستی قوانین اسکی واضح ضمانت دیتے ہیں اور کسی کے ضمیر کے خلاف کچھ نہ کیا جائے ۔ ” کسی آفس لے لئے جو یانائیٹڈ سٹیٹسس کے پبلک کے زیر سایہ ہو اس کے لئے مزہبی ٹسٹ کا مطالبہ نہ کیا جائے جو اسے مزکورہ آفس کا اہل بنائے ۔ کانفرنس کسی مزہب کے قائم کرنے کے لئے کوئی قانان سازی نہیں کریں گی اور نہ ہی کسی کی مزہبی آزادی کی راہ میں مخل ہوگی“۔AK 287.3
ریاستی قوانین کے موجد اس ابدی اصول کو تسلیم کرتے تحے کہ انسان کا خدا کے ساتح ناطہ انسانی قانون سازی سے بالا تر ہے ۔ اور اس کے ضمیر کے حقوق منسوخ نہیں کئے جا سکتے۔ اس سچائی کو قائم کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ ہمارے دل اسخبر سے باخبر ہیں۔ یہی وہ احساس ہے جو انسانی قوانین کے سامنے ڈٹ گیا اور بہت سے شہیداذیتوں اور شعلوں کی نظر ہوگئے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ انسانی فرمان کو ماننے کی نسبت خدا کا حکم ماننا زیادہ ضروری ہے۔ اور بنی نوع انسان اپنے ضمیر پر کسی کا اختیار قبول نہیں کرتا۔ یہ پیدائشی اصول ہے ، اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا AK 287.4
جیسے ہی یہ خبر یورپ کے ممالک کو پہنچی کہ ایک ایسی سر زمین ہے جہاں ہر ایک کو اس کی محنت کا پھل ملتا ہے اور جہاں انسان کو اس کے ضمیر کی آزادی حاصل ہے تو ہزارعں نے نیوورلڈ کی طرف اپنا رخ کیا۔ کالونیاں بہت جلد بھر گئیں۔ میساچوسٹس نے خاص قانون کے تحت پبلک کوسٹ پر آنے والوں کو خوشآمدید کیا اور اس کی مالی مدد بھی کی ۔ مسیحی خواہ ان کی نیشنیلٹی کسی ملک کی کیوں نہ ہو ، اور جو جنگ و جدل یا قحط کے سبب یا مظلوم ہو اور وہ اٹلانٹک کے اس پار بچ کر آجائیں ان کا خیر مقد م کیا گیا ۔ یوں پناہ گزین اور کچلے ہوئے انسان قانونی طور پر کامن ولتھ (دولت مشترکہ )کہ مہمان بن گئے ۔ Martyn, vol.5 p-417AK 288.1
بیس برس کے اندر پلے ماؤتھ(Plymouth) پر ہزاروں یاتری انگلینڈ میں آباد ہو گئے۔ اس مقصد کی حفاظت کے لئے جسے وہ چاہتے تھے “وہ اس تھوڑی سی آمدنی پر مطمئن تھے جو انہیں سلامتی کے ساتھ محنت کرنے سے حاصل ہوتی تھی۔اپنی محنت کے جائز معاوضے سے زیادہ انہوں نے زمین سے کچھ مطالبہ نہ کیا۔ کسی سنہری رویا نے انن کی راہ میں دھوکے فریب کا حلقہ نور نہ بچھایا ۔ وہ اپنے سوشل نظم و نسق کے لئے جو دھیرے دھیرے مگر مستقل طور پر آگے بڑھ رہا تھا اس پر مطمئن تھے ۔ انہوں نے اجاڑ بیابان کی تنگی و عست کو بڑے صبر سے برداشت کیا آنسوؤں سے آزادی کے درخت کو سینچا۔ یہاں تک کہ اس کی جڑیں زمین میں گہری چلی گئیں “۔AK 288.2
ایمان کی بنیاد کلام مقدس پر استوار کی گئی جو حکمت کا منبع اور آزادی کی علامت ہے اس کے اصولات گھروں ، سکولوں اور کلیسیا میں سکھائے گئے۔اور اس کے پھل کی کفایت شعاری ، پاکیزگی ، پرہیز گاری اور زہانت کی صورت میں دستیاب ہوئے ، خواہ کوئی پیورٹین آبادی میں سالوں سال رہاہو اس نے کبھی “شرابی،جھوٹی قسمیں کھانے والایا گدا گرنہ دیکھتا“۔ bancroft ,pt,1 ch.19 par.25AK 288.3
ایک مثال تھی کہ با ئبل مقدس کے اصولات قوم کی عظمت کے یقینی ضامن ہیں۔ کمزور اور دور افتادہ کالونیاں بہت ہی طاقتور متحدہ بن گئیں ۔ اور دنیا نے امن و عامہ اور اقبالمندی جو ایک کلیسیا نے یورپ کے پوپ کے اور ایک ریاست نے بغیر بادشاہ کے حاصل کرلی بڑے تعجب سے دیکھی“۔ AK 288.4
مگر مسلسل بڑھتی ہوئ آبادی امریکہ کے ساحلوں سے متاثر ہوگئ، یہ پہلے یاتریوں کے بالکل برعکس جذبات کے تحت متحرک ہوئی۔ گو قدیم ایمان اور پاکیزگی تااثیر رکھنے والی اور تبدیل کرنے والی قوت تھی مگر جوں جوں ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جو دنیوی فواعد کے خوایاں تھے اس کا اثر بتدریج کم ہوگیا۔AK 288.5
پہلے آنے والے کالونیوں کے باشندوں نے قانون بنایاکہ صرف کلیسیائی ممبر ہی سول گورنمنٹ میں ووٹ دے سکتے یا کسی محکمہ کے عہدہ دار بن سکتے ہیں ۔ اس کے بہت زیاں کار نتائج برآمد ہوئے ۔ اس ریاست کو پاکیزگی کا زریعہ سمجھ کر قبول کیا گیا مگر اس کا نتیجہ کلیسیا کی کرپشن نکل۔ مذہب کا اقرار رائے یا ووٹ دینے اور کسی محکمہ میں عہدہ لینے کی شرط بن گیا ۔ بعض تو اسطرف دنیوی پالیسی کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے کلیسیا سے منسلک ہو گئے ۔ مگر ان کے دل تبدیل نہ ہوئے ۔ اس لئے کلیسیا زیادہ تر ان لوگوں کا گروہ بن گیا جو غیر تائب لوگ تھے۔ یہاں تک کہ خدمت میں کچھ ایسے لوگ تھے نہ صرف غلط تعلیم اور عقیدہ رکھتے تھے بلکہ انہیں تجدید کرنے والی روح القدس کی قدرت اور قوت کا بھی علم نہ تھا۔ چناچہ ایک بار پھر برے نتائج برآمد ہوئے جیسے کہ پہلے کئی بار کانسٹیٹین (constantine)سے لیکر موجودہ زمانہ تک جب کلیسیا کو سٹیسٹ کی مدد سے استوار کرنے کی کوشش کی گئی۔ اور سیکولرقوتوں سے اس کی انجیل کوسپورٹ کرنے کی درخواست کی گئی جس نے خود فرمایا ”میری بادشاہی اس دنیاکی نہیں“ یوحنا 36:18 کلیسیا کا ریاست کے ساتھ اتحاد کبھی بھی کار آمد ثابت نہیں ہوا۔ جب بظاہر ایسا لگتا کہ دنیاکو کلیسیا کے قریب تر لایا جا رہا ہے تو حقیقت میں کلیسیا کو دنیا کے قریب کیا جارہا ہوتا ہے-AK 289.1
ا س عظیم اصول کی روبنسن اور روجر ولیمز نے بڑی سنجیدگی سے وکالت کی تھی ، کہ صداقت بتدریج ترقی کرتی ہے۔ مسیحیوں کو اس کی روشنی قبول کرنے کے لیے تیار رہنا چاہئے جو خداوند کے پاک کلام سے حاصل ہوتی ہے۔ مگر ان کی نسل نے اسے نظر انداز کردیا۔ امریکہ کی پروٹسٹنٹ کلیسیا اور اسی طرح یورپ کے بھی جنہوں نے ریفریمیشن کی بہت زیادہ پرکات حاصل کیں ، وہ اصلاح کار کی راہ کو مزید آگے لے جانےمیں ناکام ہوگئے۔ گو کچھ وفادار لوگ پیدا ہوگئے۔AK 289.2
بت شک وقتا فوقتا کچھ وفادار لوگ نئی سچائی کا دعویٰ کرنے اور مدتوں سے غلط تعلیم کو عیاں کرنے کے لئے پیدا ہوگئے مگر اکثریت جیسے کہ ہیودی مسیح یسوع کے زمانہ میں ، پوپ پرست لوتھر کے زمانہ میں اپنے اباؤ اجداد کے عقیدے کو ہی ماننے کے لئے مطمئن تھے ۔ اور اسی طرح یہ بھی زندگی گزارنے پر راضی تھے جیسے انہوں نے گزاری تھی ۔ اس لیے مزہب پھر رسمی طریقوں کی بدولت پست ہوگیااور غلط تعلیم اور توہم پرستی جس کو ترک کردیا گیا تھا ، اگر کلیسیا خدا کے کلام کی روشنی میں چلتا رہتا تو ترقی کرتا۔ وہ روح جسے ریفریمیشن سے تحریک حاصل ہوئی تھی بتدریج دم توڈ گئی ۔ اور پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں میں بھی اسی طرح اصلاح کار کی ضرورت محسوس ہونےلگی، جیسے رومن کلیسیا میں لوتھر کے زمانے اصلاح کار کی ضرورت تھی۔ وہی دنیاداری اور وہی روحانی بے حسی تھی ۔ اور وہی انسانوں کی رائے کا احترام تھا، اور خدا کے کلام کی تعلیمات کے عوض وہی انسانی نظریہ اصول اور رائے تھی۔AK 289.3
انیسویں صدی کے اوائل میں جس بائبل کی بڑے پیمانے پر سرکولیشن ہوئی ، اور یوں دنیا پر بہت زیادہ نور چمکااور جو سچائی دریافت ہوئی تھی اس کی مزید تشہیر کی گئی اور نہ ہی اس کا مزہب میں تجربہ کیا گیا۔ قدیم زمانہ کی طرح اب ابلیس لوگوں سے خدا کے کلام کو دور نہیں رکھ سکتا تھا۔ کیونکہ اب ہر ایک کی رسائی میں تھا ۔ مگر ابھی بھی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے اس نے بہتوں کے دل میں یہ ڈال دیا کہ وہ اسے غیر اہم سمجھیں، لوگوں نے کلام مقدس میں تلاش کرنا ترک کردیا، یو وہ غلط تفسیر کو ہی ماننے لگے اور ا س تعلیم(Doctrine) کو سینے لگالیا جس کی بائبل میں بنیاد نہ تھی۔AK 290.1
سچائی کو ایذارسانی کے زریعہ تہس نہس کر نے کی کوششوں کو ناکام ہوتا دیکھ کر، ابلیس نے اتحاد کرنے اور رومن کلیسیا کو زیادہ مستحکم بنیادوں پر منظم کرنے کا تہیہ کر لیا جو بہت بڑی برگشتگی کا موجب بنا۔اس نے مسیحیوں کو بت پرستوں کے ساتھ اتحاد کرنے کے لئے نہیں بلکہ ان کے ساتھ جنہیں دنیا کے مال و دولت سے انس تھا ۔ اور انہوں نے بت پرستی کرتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ وہ حقیقی بت پرست ہیں اور اس اتحاد کے نتائج قدیم کے مقابلہ میں کچھ کم مہلک نہیں ۔ مزہب کے لبادہ میں گھمنڈ اور فضول خرچی کو فروغ دیا گیا اور کلیسیائیں بدچلن اور بد اخلاق ہوگئیں۔ ابلیس بدستور بائبل کی تعلیمات کو بگاڑ رہاہے ۔ جن روایات نے ہزاروں روحوں کو برباد کردیاہے۔ کلیسیا ان روایات کو سہارا دے رہاہے اور ان کا دفاع کررہا ہے“۔جب کہ اس ایمان کی حمایت کرنی چاہیےجو مقدسین کو دیا گیا تھا“یوں ان اصولات کی بے حرمتی کی گئی جن کے لئے اصلاح کاروں نے بہت کچھ کیا، بلکہ انگنت مصیبتیں برداشت کی۔AK 290.2