Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    تنتیسواں باب - پہلا بڑا دھوکا

    انسان کی ابتدا ئی تاریخ کے سا تھ ہی شیطا ن نے نسل انسا نی کو دھو کہ دینے کی کو شش شروع کر دی وہ جس نے آسمان میں بغاوت کو برا نگینختہ اسی نے چا ہا کہ خدا کی حکو مت کے خلا ف جنگ کے لئے دھر تی ہے با شندے اس کے سا تھ متحد ہو جا ئیں آدم اور حوا تو خدا کی شریط کو ما ننے میں پو ری طر ح خو ش تھے لہذا جو را ئے آسمان میں ابلیس نے اختیا ر کر رکھی تھی یہ حقیقت ااس کے خلاف ایک گو اہی تھی علاوہ ازیں ابلیس بے گنا ہ آدم اور حوا کا خو بصو رت گھر دیکھ کر حسد سے بھر گیا تھا جو ان کے لئے تیا ر کیا گیا تھا اس نے انہیں گناہ میں گرا نے کے لئے مسمم ارادہ کرلیا تا کہ وہ خدا سے جدا ہو کر اس کے شکنجے میں پھنس جا ئیں اور وہ یوں دنیا کو اپنے قبضے میں لے کرخدا کے خلا ف اس دھر تی پر اپنی حکو متے قائم کر لے ۔ AK 512.1

    اگر شیطا ن اپنے اصل کر دار میں آتا اسے فو را ڈا نٹ دیا جا تا کیو نکہ آدم اور حوا کو اس خطر نا ک دشمن کے بار ے پہلے ہی آگا ہ کر دیا گیا تھا اس نے سا نپ کا رو پ دھا ڑا جو اس وقت بہت ہی دلفر یب روپ تھا اس نے حوا سے مخا طب ہو کر کہا کہ کیا واقع ہی خدا نے کہا ہے کہ با غ سے کسی درخت کا پھل تم نہ کھا نا اگر حوا آزما ئش میں ڈا لنے کے سا تھ گفت و شنید میں مگن نہ ہو تی تو اسے کو ئی خطر ہ نہ تھا مگر وہ اس کے ساتھ با ت چیت کر تی رہی اور یوں اس کے فریب کے جال میں پھنس گئی ۔ وہ خدا وند کے مطا لبا ت کے بار ے میں شک اور بحث کر تے ہین اور خدا کے احکام ما ننے کے بجا ئے وہ انسا نی نظر یا ت کو تسلیم کر تے ہیں جو شیطا ن کے دھو کے کے حر بے ہیںْAK 512.2

    عو رت نے سا نپ سے کہا کہ با غ کے درختوں کا پھل ہم تو کھا تے ہیں پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اسکے پھل کی با بت خد انے کہا ہے کہ تم نہ تو اسے کھا نا اور نہ چھو نا ورنہ مر جا ؤ گے تب سا نپ نے عو رت سے کہا تم ہر گز نہ مرو گے بلکہ خدا جا نتا ہے کہ جب تم اسے کھا ؤ گے تمہا ری آنکھیں کھل جا ئیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جا ننے والے بن جا ؤ گے ۔ پیدا ئش 5/2:3 اس نے کہا تم خدا کی ما نند بن جا ؤ گے یعنی آپ کے پاس پہلے سے کہی زیادہ حکو مت آجا ئے گی اور آپ کا انسا نی مرتبہ مزید بڑھ جا ئے گا حوا آز ما ئش کا گنا ہ ہو گئی اور اس کی وجہ سے آدم بھی گنا ہ میں گر گیا انہوں نے سا نپ کی با توں کا یقین کر لیا اور سو چا کے جو کچھ خدا نے کہا تھا وہ بے معنی تھا ااور انہوں نے اپنے خا لق کا اعتبار نہ کیا اور گما ن کیا کہ خدا ہما ری آزا دی پر پا بند لگا رہا ہے تا کہ وہ اس کا حکم تو ڑنے سے زیا دہ حکمت اور جلال حا صل نہ کر پا ئیں ۔ لیکن گنا ہ کر نے کے بعد آدم نے خدا وند کے ان الفا ظ کا مطلب پا یا جس روز تو نے اس میں سے کھا یا تو مرا اور پیدا ئش 17:2۔کیا جیسے ابلیس نے اسے با ور کر وا یا تھا کہ اس کے مر تبہ اور شا ن و شو کت میں اضا فہ ہو گا اگر ایسا ہو جا تا تو شر یعت کو تو ڑنے کا بہت فا ئدہ پہنچتا اور یہ بھی ثا بت ہو جا تا کہ ابلیس وا قعی ہی آدم کا خیر خواہ ہے مگر خدا وند کے فر ما ن کا آدم کے لئے یہ مطلب نہ نکلا بلکہ خدا وند نے گنا ہ کی سزا کا اعلا ن کر تے ہو ئے فر ما یا تو خا ک ہے اور خا ک میں پھر لوٹ جا ئے گا ۔شیطا ن نے کہا تمہا ری آنکھیں کُھل جا ئیں گی جب آدم اور حوا نے خدا کے حکم ادلی کی تو ان کی آنکھیں اپنی حکا مت کو دیکھنے کے لئے کُھل گئیں وہ بدی کو ما ننے لگے اور انہوں نے گنا ہ کے تلخ پھل کو چکھ لیا تھا۔AK 513.1

    باغ کے بیچ میں زندگی کا درخت لگا ہوا تھا- جس کے پھل میں ابدی زندگی کی قوت تھی- اگر آدم خدا کے تابع فرمان رہتا تو اسے اس درخت کے پاس آنے جانے کی ہر وقت اجازت ہوتی اور تاابد زندہ رہتا- لیکن جب اس نے گناہ کر لیا تو پھر زندگی کے درخت سے اسکا حصہ کٹ گیا اور وہ موت کے تابع ہو گیا- خداوند نے فرمایا “تو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا” یہ زندگی کے خاتمہ کی طرف اشارہ تھا-AK 513.2

    حیا ت جاودانی کا انسا ن سے وعدہ تا بیدا ری کے سا تھ مشرو ط تھا جو ٓحکم ادلی کی بنا ہ پر ضبط ہو گیا آدم اپنی نسل کو کچھ نہ دے سکتا تھا جو خود اس کے اپنے پاس نہ تھا گر ی ہو ئی نسل انسا ن کے لئے کو ئی امید نہ تھی اگر خدا وند اپنے بیٹے کی قر با نی نہ دیتا یوں مسیح یسوں انسا ن کی رسا ئی میں حیا ت ابدی لے کر آیا جبکہ آدم نے زریعہ موت سب نسل انسا نی پر داد ہو ئی ۔ مو ت سب آدمیوں میں پھیل گئی اس لئے کہ سب نے گنا ہ کیا ۔ مسیح یسوں نے فر ما یا جو بیٹے پر ایما ن لا تا ہے ہمیشہ کی زندگی اس کی ہے لیکن جو بیٹے کی نہیں ما نتا زندگی کو نہ دیکھے گا ۔ ہر شخص اس بیش قیمت و بر کت کو پا سکتا ہے بشر ط یکہ وہ ان شرا ئط کو تسلیم کرے وہ سب جو کیو کا ری میں ثا بت قدم رہ کر جلال و عزت اور بقا ہ کے تا لے بو تے ہیں ان کو ہمیشہ کی زندگی دے گا ۔AK 513.3

    رو میوں 7:2وہ جس نے آدم کو حکم ادلی پر ابدی زندگی کا وعدہ کیا تھا وہ بہت ہی بڑا دھو کے با ز ہے ادن میں سا نپ نے آد م اور حوا کو کہا تم ہر گز نہ مرو گے یہا ں انسان کے مر نے کے بعد روح کی بقا پر پہلا واعظ دیا گیا تھا تا ہم یہ منا وی صرف ابلیس نے اپنے اختیا ر کو جتا نے کے لئے کی تھی مگر اب تما م مسیح سلطنتوں کے پلپٹس سے اس کی آواز کی با ز گشت سنا ئی دی جا رہی ہے اب بتا ئے کہ اس میں کچھ عقل کی با ت ہے کہ جو جان گنا ہ کریں گی وہ نہ مر گے بلکہ ابدی زندگی پا ئے گی ہم تو اس عجیب جنو بی نظر یے پر حیرا ن ہو ہی سکتے ہیں کہ انسان ابلیس کی با توں کو فورا تسلیم کر تے ہیں جبکہ خدا کے کلا م کا یقین نہیں کر تے ۔AK 514.1

    آدم کے گنا ہ میں گر پڑنے کے بعد شیطا ن نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا حتیٰ وصی کو شش کر کے ابد ی تعلیم کو انسا ن کے ذہن نشین کرو ائیں اور یہ غلط تعلیم اپنا نے کے لئے ما ئل کریں ۔ ابلیس کے گما شتوں نے انہیں یہ با ور کر وا نا تھا کہ انسان دکھ مصیبت کی حا لت میں تا ابد زندہ رہے گا ۔ اب تا ریکی کا شہز ادہ اپنے گما شتوں کے زریعے تلا ش کر تا ہے اور خدا کو ایک ظالم بد لہ لینے والے کی طرح پیش کر تا ہے اور یہ پکا ر پکا ر کر کہتا ہے کہ خدا انہیں جہنم وصل ڈال دے گا جو اس کے پسندیدہ نہ ہو گے اور وہ ہمیشہ اس کے غضب کا نشا نہ بنتے رہیں گے اور جب وہ ابدی آگ میں انتہا ئی درد و قرب میں مبتلا ہو نگے تو ان کا خالق ان کو دیکھ کر نہا یت ہی تسلی پذیر ہو گا ۔AK 514.2

    یوں یہ پرلے درجے کا بدمعاش اپنی خصلتوں کا لبادہ خالق خداوند کو پہناتا ہے جو آل آدم کا مربی اور خیر خواہ ہے- ظلم تو شیطان کا خاصہ ہے جبکہ خدا محبت ہے- اور جو کچھ اس نے پیدا کیا وہ پاک راست اور بہت ہی خوبصورت تھا- اور اس میں کسی قسم کی کمی نہ آئی جب تک کہ پہلا مہا باغی گناہ کو نہ لے آیا- شیطان خود انسان کا دشمن ہے جو اسے آزمائش میں پھنساتا ہے- اور اگر کامیاب ہو جائے تو پھر اسے برباد کر کے چھوڑتا ہے اور جب اسے اپنے شکار کو پھانس لینے کا یقین ہو جاتا ہے تو اسکی تباہی پر خوشی سے پھولا نہیں سماتا- اگر اسے اجازت مل جائے تو وہ کل آل آدم کو اپنے جال میں پھنسا لے- اگر خداوند کی قوت مزاہم حال نہ ہو تو آدم کا ایک بھی بیٹا یا بیٹی زندہ نہ بچے-AK 515.1

    ابلیس آج بھی بنی نوح انسان پر غلبہ پا نے کی تلا ش میں ہے جیسے اس نے ہما رے پہلے والدین کے ایمان کی خلق خدا میں لر زہ کر غلبہ پا یا تھا اور انہیں خدا کی حکو مت اور اس کے قوا نین کے انصاف کے با رے شک میں ڈالا تھا ۔ ابلیس اور اس کے ایلچی خدا کو اپنی نسبت بد تر پیش کر تے ہیں تا کہ وہ اپنی بغاوت اور خبا ست کو حق بجانب قرا ر دے سکیں یہ دھو کے با زوں کا سردار اپنے چال چلن کی ہیتنا ک سفا کی خد پر ڈا لنے کی کو ش کر تا ہے تا کہ وہ ثا بت کر سکے اسے آسمان سے نکال کر انصاف نہیں کیا گیا وہ دنیا کے سا منے ایسی آزا دی پیش کر تا ہے جو اس کی شفع کا نہ حکمرا نی تلے اس کا لطف اٹھا سکتے ہیں ۔جو اس کے مطا بق سخت گیر یہو ا کی حکو مت کے بر عکس ہے یوں وہ روحوں کو مستور کر تا ہے اور انہیں خدا کی وفا دا ری سے منحرف کر تا ہے ۔AK 515.2

    یہ تعلیم کے بد کار مر دے آگ اور گندھک کی ابدی جلنے والی جھیل کے عذاب میں پڑے رہیں گے یہ محبت اور رحم کے ہر جذبے کے متضاد اور ناگوار ہے ۔ تھو ڑی سی زمینی گنا ہ گار زندگی کے عوظ بد کا ر اس وقت تک اذیت اٹھا تے رہیں گے جب تک خدا وند زندہ ہے ۔اس کے با وجو د یہ تعلیم بڑے شد ہ مت کے سا تھ سکھا ئے جا رہی ہے اور مسیح دنیا کی بہت سی کلیسا ئیوں نے اسے اپنے عقیدے کا ضروری حصہ بنا رکھا ہےAK 515.3

    علم الہیات کے ایک ڈاکٹر نے کہا ہے کہ “جہنم کا اذیت ناک نظارہ مقدسین کیلئے ابدی سکون کا باعث ہو گا- جب وہ دوسروں کو دیکھیں گے جو انکی سی فطرت رکھتے اور وہ انہی حالت میں پیدا ہوۓ جن میں مقدسین پیدا ہوۓ، جہنم کی مصیبت میں ڈالے گئے، اس سے انہیں دلی مسرت ہو گی- جب غضب کے باسیوں پر ابدی سزا کا حکم صادر ہو جائے گا، تو انکی اذیت کا دھواں رحم کے بسوں کے سامنے دائمی طور پر اٹھتا رہے گا جنکا ان بے نصیبوں کے ساتھ حصہ بخرہ نہیں- تو وہ پکار اٹھیں گے- آمین- ہیلیلویاہ! خداوند کی تعریف ہو”-AK 516.1

    خدا وند کے پا ک صحا ئف میں کوکسی جگہ ایسی تعلیم دی گئے ہے ؟ کیا نجا ت یا افتگان آسمان میں تما م دکھ درد اور رحم اور حمدردی کے جذبا ت سے آری ہو جا ئیں گے اور کیا ان کے سدل سے عام انسا نی ہمدردی کی محسو سات ختم ہو جا ئیں گی ؟ کیا وہ کسی اور خا ندا ن اور نسل میں تبدیل میں تبدیل ہو جا ئیں یا ان میں وہسیو ں کی سی سنگدلی اور صفا کی آ جا ئے گی ہر گز نہیں ۔کتا ب مقدس میں ایسی کو ئی تعلیم نہیں پا ئی جا تی مگر وہ ابلیس کے غلط استدا ل سے دھو کہ کھا گئے ہیں وہ انہیں تر غیب دیتا ہے کہ وہ پا ک صحا یف کے غلط معنی پیش کریں ہما را خا لق خدا وند تو ایسا نہیں وہ فر ما تا ہے مجھے اپنی حیا ت کی قسم شریر کے مر نے میں مجھے کو ئے خو شی نہیں بلکہ اس میں ہے کہ شریر اپنی را ہ سے با زآئے اورزندہ رہے ۔ تم اپنی بُر ی روش سے باز آؤ ۔ تم کیوں مروں گے ۔حزقی ایل 11:33AK 516.2

    اگر ہم یہ ما ن بھی لیں کہ خدا وند کو بد کا ریوں کی ابد ی اذیت پر بڑی مسرت حا صل ہو تی ہے تو اس کا کیا فا ئدہ حا صل ہو گا ۔ اس کی خا طر وہ مدا رت کر ہا نے چیخ اور چنگھاڑ ان کی دکھی انسا ن کی لعنت و نفرین سے ہی ہو گی جن کو اس نے جہنم کے لئے بھڑکتے شعلوں میں ڈال رکھا ہے ؟ کیا یہ لر زا برا ندا م آوا زیں خدا کی بے پیاں محبت کے کا نوں کے کئے سریلا میو زک ہو گی اس سے یہ بتا نے کی کو شش کی جا تی ہے کہ بد کا روں کی نہ تما م ہو نے والی اذیت گنا ہ کے خلاف خدا کی نفرت کو ظا ہر کر تی ہے ۔ یہ کیسا محب کفر ہے اگر اس کی وجہ سے گنا ہ کے خلاف خدا کی نفر ت ہے تو پھر یہ دا ئمی کیوں ۔ ان علم عا لیا ت کی ما ہر یا ت کی تعلیم کے مطا بق ابد ی اذیت جو بغیر امید اور رحم کے ہے ۔ اس کے ستم رسیدہ بد بخت کفر اور نفرت کی صورت میں اپنا غصہ نکا لتے ہیں تو اس نے ان گنا ہوں کے بو جھ میں مزید اضا فہ ہو تا ہے یوں گنا ہ کے مسلسل بڑھتے رہنے سے نہ تما م زما نوں تک خدا نوند کے جلال و شوکت و ہشمت کی قدرو مذمت نہیں بڑھ سکتی ۔AK 516.3

    انسانی دماغ تو اس برائ کا اندازہ تو نہيں لگا سکتاجواس ابدی اذيت کی بدعت نے پھيلائ ہے۔بائبل کا مذہب محبت اوربھلائ سے بھرپورہے اور اس ميں وافرہمدردی پائ جاتی ہے جسے اوہام پرستی تاریک کر ديا گيا اور ہيبت اور دھشت کے لبادہ ميں لپيٹ ديا گيا ہے۔AK 517.1

    خدا وند کی سیرت کی کیسی چھو ٹی تصویر خدا نے اٹھا رکھی ہے اگر ہم اس پر غور و خوص کریں تو کیا ہم حیران نہ ہو نگے کہ ہمارا رحیم خا لق خو فنا ک نفر ت انگیز اور وحشتنا ک ہے ؟ یوں خدا کا ہیبتنا ک اور ڈرو نا منظر جو پیش کیا گیا ہے اور کلپٹ کی تعلیم کے ذریعے دنیا بھر میں اس کی تشہیر کی گئی ہے اس سے ہزا روں نہیں بلکہ کروڑوں روحیں منکر خدا ہو گئیں ہیں ۔AK 517.2

    دا ئمی اذیت کی تھو ڑی جھو ٹی تعلیما ت مین سے ایک جھو ٹی تعلیم ہے جو ما نند ہے با بل کی مکرو حا ت کی مے تیا ر کر تی مجبو ر کر تی ہے مکا شفعہ 2.17,8.14 یہ سچ مچ ایک راز ہے کہ مسیح کے خا دم اس بد عت کو قبو ل کر کے مقدس پلیٹ سے اس کی منا دی کر تے ہیں انہوں نے انہیں رو م سے ح صل کیا ہے بلکل اسی طرح جس سے انہوں نے اس سے جھو ٹا سبق ح صل کیا ہے یہ تو سچ ہے کہ اس کی منا دی بڑے عظیم اور نیک لو گو ں نے کی مگر اس وقت اس مضمو ن پر ان کے پاس وہ روشنی نہ تھی جو آج ہما رے پاس ہے وہ اسی رو شنی کے ذمہ دار تھے جس نے ان پر اس وقت زیا پا شی کی اور ہم اس روشنی کے ذمہ دار ہیں جو ہما رے وقتوں میں ہما رے اوپر جلوہ گر ہوئی اگر ہم کلا م مقدس کی گوا ہی سے ہٹ جا ئیں اور اس جھوٹی تعلیم کو قبول کر لیں جو ہمار ے قد مہ نے سکیھا ئی تھی تو ہم بھی اسی لعنت تلے آئیں گے جس لعنت تلے با بل آیا ۔ ہم بھی حرا م کا ری کے عذب نا ک میں پا ئیں گے ۔AK 517.3

    ایک بہت بڑی جما عت جس کو ابدی عذیت کی تعلیم بڑی مقروع لگتی ہے وہ اس کی طرف بڑی مخا لفت میں ایک اور غلط تعلیم کی طرف چل نکلی ہے ۔وہ دیکھتے ہیں کہ کلام مقدس خدا وند خدا کوبطور رحیم اور محبت بھرے خدا کی طرح پیش کر تا ہے اور وہ یہ ایما ن نہیں رکھتے کہ خدا وند اپنی مخلو ق کو ہمیشہ جلتی رہنے والی آگ کے حوا لے کرے گا ان کا عقیدہ ہے کہ روح کو بقاہ حا صل ہے اور یہ نتیجہ اخذ کر تے ہیں بالآخر ساری کی ساری مخلو قا ت بچ جا ئے گی اور بتہرے تو یہاں تک کہتے ہین کہ با ئبل کی دھمکیاں صرف اس لیے ہیں تا کہ وہ انسا نوں کو ڈرا کر خدا کے تا بع کرے اور ان دھمکیوں کی حقیقی تکمیل کبھی نہ ہو اس طرح کی تعلیم خدا رحم کا نا جا ئز فا ئدہ اٹھانے کے مترادف ہے اور اس کے انصا ف کو نظر اندا ز کر ناہے ۔ یہ جسما نی دل کو بھلا لگتا ہے اور بد کاریوں کو بد ی کرنے کے لئے ابھا رتا ہے ۔AK 517.4

    خطاب کر نے والے نے کہا کہ میں بار بار پوچھتا ہوں کہ ان کا کیا مقدر کے ہو گا جو گناہ میں دنیا چھو ڑ جا تے ہیں شا ید شرا ب میں متوا لے ہو کر مر تے ہیں یا ان کے کپڑوں پر ایسے جرا ئم کے دھبے ہیں جو دھو ئے نہیں گئے اور و ہ مر جا تے ہیں یا اس نو جوان کی طرح زندگی کی بازی ہار جا تے ہیں جس نے خدا وند کا اقرار ہی نہیں کیا یا اسے کو ئی مذہبی تجر بہ ہی نہیں تھا ۔ وہ اچھی طرح جا نتا تھا کہ اگلے جہاں میں مو من کے سا تھ اچھا یا بُرا سلوک ہو گا اس کے دل کے کیا اثرا ت تھے ؟داؤ د با دشا ہ کے دل میں ابی سلوم کے پاس جا نے کی بڑی آزایدی تھی کو نکہ امنو ن کی طرف سے اسے تسلی ہو گئی تھی اس لئے کہ وہ مر چکا تھا ۔AK 518.1

    اور اس زبان(Language) سے کیا مفہوم اخذ کیا جا سکتا ہے کیا یہ نہیں کہ نہ تما م ہو نے والی اذیت میں اس کے مذہبی عقیدہ کا کو ئی تعلق نہیں ہے چنا نچہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بالآخر پا ک صا ف کیے جا ئیں گے اور سب کو امن و سلا متی حا صل ہو گی ۔ یہ ہے وہ فیض رسا روشن خیال اور ہر دلعزیز مفروذہ اسے اپنے مردہ بیٹے کو دیکھ کر تسلی ہو ئی اور ایسا کیں؟ کیونکہ وہ نبو ت کی آنکھ سے اس کے بلا ئی مستقبل کو دیکھ سکتا تھا کہ اس کا بیٹا آزما ئشوں سے بہت دور چلا گیا ہے وہ اس زندگی کی غلامی سے آذاد ہو گیا ہےاور گناہ کی بدی سے پاک ہو گیا ہے- اور جب وہ اچھی طرح پاک ہو گیا تو اسے ان روحوں میں شامل کر لیا گیا جو آسمان میں شادمان تھیں- اس کی تسلی کا یہ سبب تھا کہ اس کا بیٹا اس گنا ہ کی حا لت سے دور چلا گیا ہے ۔ جہا ں مقدس روحوں کی سا نسیں(Breathing) اس کی تا ریک روح پر پڑیں گی جہاں اس کا فہم آسما نی حکمت کے لئے کھو ل دیا جا ئے گا اقور وہاں اسے ابدی پیا ر ملے گا اور یوں پا کیزہ فطر ت کے سا تھ اسے تیا ر کیا جا ئے گا جہاں وہ آسما نی سو سا ئیٹی کی میراث سے لطف اندوز ہو گا۔AK 518.2

    “ان خیالات سے ہم یہی سمجھتے ہیں کہ آسمانی نجات کا انحصار جو کچھ ہم اس زندگی میں کرتے ہیں اس پر نہیں ہے اور نہ موجودہ دل کی تبدیلی پر، نہ موجودہ عقیدے اور نہ ہی موجودہ مذہبی اقرار پر ہے”-AK 519.1

    یوں مسیح کا خا دم با غ ادم میں جو جھو ٹ بو لا گیا تھا اسے دھرا تا ہے کہ تم ہر گز نہ مرو گے جس دن تم اسے کھا ؤ گے تمہا ری آنکھیں کھل جائیں گی اور تم خدا کی ما نند نیک و بدکے جا ننے والے بن جا ؤ گے ۔ وہ منا وی کر تا ہے کہ بد کار سے بدکا ر گنا ہ گا ر قا تل چو ر اور زنا کار مر نے کے بعد ابد ی شا دما نی میں دا خل ہو نے کے لئے تیا ر کیا جا ئے گا ۔AK 519.2

    کہاں سے اس شخص نے نو شتوں کو موڑ توڑ کر یہ خلا صہ نکا لا ایک چھو ٹے سے فقیر کے اظہا ر سے جو داؤد نے حالات کے تحت ادا کیا ۔ اس کے دل مین ابی سلوم کے پاس جا نے کی بڑی آرزو تھی کو نکہ امنون کی طرف سے اسے تسلی ہو گئی تھی اس لئے کہ وہ مر چکا تھا وقت کے اگزر نے کر سا تھ ساتھ اس کے غم میں شدت کی کمی ہو گئی تھی اس کے خیا لات مردہ بیٹے کی ترف سے ہٹ کر زندہ بیٹے کی طرف گئے جو اپنے جر م کی وجہ سے خود ہی جلا وطن ہو گیا تھا تا کہ اسے اس جر م کی سزا نہ دی جا ئے اور یہ ثبو ت ہے کہ ایک حرام کار شرا بی امنو ن مو ت کے فو را بعد شا دمان گھر میں پہنچ گیا جہاں اسے پا ک کیا جا ئے گا تا کہ وہ مقدس فرشتوں کی رفا قت حاصل ہو سکے بے شک یہ بہت ہی دل بذیر قصہ ہے جو جسما نی دل کو بہت بھا تا ہے یہ تو شیطا ن کی اپنی تعلیم ہے وہ اپنا کام بڑے مؤ ثر انداز سے کر تا ہے کیا ہمیں حیران ہو نا چا ہیے کے اس طرح کی ہدا یت سے بدی بڑے گی ۔AK 519.3

    جو انداز اس ایک جھو ٹے ٹیچر نے اختیا ر کیا اس کی کئی اور مثا لیں ہیں ۔ سیا ق و سبا ق سے کچھ نو شتوں کے الفا ظ الگ کر لئے جا تے ہیں پھر ان کی تفسیر کی جا تی ہے وہ پا ک نو شتوں وکے بلکل ہی بر عکس ہو تی ہے ۔ اس طرح کے غیر متعلقہ اقتسا با ت کو درہم برا ہم کر کے اور اپنی تعلیم کو صیحح ثا بت کر نے کی کو شش کی جا تی ہے جس کی خدا کے کلام میں کو ئی بنیا د نہیں ہو تی اور یہ کلا م کی امنو ن جو کہ شرا بی تھا آسمان میں ہے یہ کلام کے عین بر عکس ہے ۔ لکھا ہے کہ ‘‘ کو ئی شرا بی خدا کی با دشا ہی کا ورارث نہ ہو گا ‘‘ عوام ان کی مکا ری اور کفر کا شکار ہو کر جسما نی سکیو رٹی کے بنگو ڑے مین خواب اسرا حت کے مزے لو ٹتے ہیں ۔AK 519.4

    اگر یہ سچ ہو تا کہ موت کے وقت تما م لو گوں کی روحیں برا ہ راست جنت کو سدھار جا تی ہیں ۔ تو پھر ہم سب کو زندگی کی بجا ئے مو ت کی تمنا کر نی چا ہیے۔ بہت سے لو گ اس نظریے کو ما نتے ہیں اور اس لئے انہوں نے اپنی زندگی کا خا تمہ کر لیا جب انسا ن مصیبتوں میں گھر جا ئے ، پریشا نیاں اور ما یو سیاں آدبا ئیں تو پھر یہی راستہ ہے کہ زندگی کی ڈوری کو کا ٹ کر انسان رو حا نی مسرت کی ابدی دنیا میں دا خل ہو جا ئے ۔AK 520.1

    خدا وند خدا نے پا ک کلام میں یہ حتمی فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ اس کو بے سزا نہ چھو ڑے گا جو اُس کے احکام کی خلا ف ورزی کرے گا ۔ وہ جو اس خوش فہمی میں ہیں کہ خدا نہا یت ہی رحیم خدا ہے اور گنہگار کو سزا نہیں دے گا مسیح یسوں خدا کا بیٹا ہے جو بے گناہ تھا اس کی مو ت اس بات کی گوا ہ ہے کہ گنا ہ کی مزدوری مو ت ہے خدا کے حکم کیا �آدو لی کا بدلہ ضرور لیا جا ئے یہ قر با نی اس لیے دی گئی تا کہ گنا ہ کا ر مخلصی پا ئیں انسا ن کسی اور طریقے سے گناہ کی سزا سے مخلصی حاصل نہیں کر سکتا۔ جو کو ئی اس گرا ہ قدرا کفا رے کو قبو ل کر نے سے گریزہ ہیں وہ خود گنا ہوں کی سزا بھگتے گا ۔AK 520.2

    آئیے ذرا غور کریں تا کہ کتا ب مقدس مزید منکر خدا غیر تا ئب حضرا ت کے با رے کیا فر ما تی ہے جن کو سب کی نجا ت کے عقیدہ کو ما ننے والے آسمان میں مقدس فرشتوں کے ساتھ جگہ دیتے ہیں ۔میں پیا رکو آب حیا ت کے چشمہ کو مفت پلا ؤ گا مقا شفہ 6:21یہ وعدہ صرف ان کے لیے ہے جو پیا سے ہیں کو ئی نہیں بلکہ جو زندگی کے پانی کی ضرو رت محسوس کر تے ہیں اور اس کی تلا ش ہر قیمت پر کر تے ہیں ان کو پا نی مہیا کیا جا ئے گا ‘‘ جو غا لب آئے وہی ان چیزوں کا وارث ہو گا اور میں اس کا خدا ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہو گا” مکاشفہ -7:21 یہاں بھی شرائط بڑی واضح ہیں- تمام چیزوں کا وارث ہونےکے لئے لا زم ہے کہ ہم گنا ہ پر غلبہ حا صل کریں خدا وند یسعیا ھ نبی کے زریعے یوں فرما تا ہے رستبا زو ں کی با بت کہو کہ بھلا ہو گا کو نکہ وہ اپنے کا موں کا پھل کھا ئیں گے شعروں پر وا ویلا ہے کہ ان کو بد پیش آئے گی کیو نکہ وہ اپنے ہا تھوں کا کیا پا ئیں گے یسعیا ھ 11:10:03۔AK 520.3

    خدا وند کے بندوں نے فر ما یا اگر چہ گنا ہ گا ر سو با ر برا ئی کرے اور اس کی عمر دراز ہو تو بھی میں یقیناًجا نتا ہوں کہ ان ہی کا بھلا ہو گا جو خدا ترس ہیں ۔اور اس کے حضور کا نپتے ہیں ۔ اور پولس رسول اس با ت کی گو ہی دیتا ہے کہ گنا ہ گار اپنے لیے غذب کما رہا ہے جس میں خدا کی سچی عدالت ظاہر ہو گی رو میو 5:2وہ نیو کا ری میں ثا بت قدم رہ کر جلال اور عزت اور بقاہ کے طا لب ہو تے ہے ان کو ہمیشہ کی زندگی دے گا مصیبت اور تنگی ہر ایک بد کا ر کی جا ن پر آئے گی رومیوں 9.7.2۔AK 521.1

    کسی حرامکار یا نا پاک یا لالچی یا بت پرست کے برابر ہے مسیح اور خدا کی با دشا ہی کی میراث نہیں افسیوں 5.5 AK 521.2

    سب کے ساتھ میل ملا پ رکھے اور اس پا کیزگی کی طا لب رہو جس کے بغیر کو ئی خدا وند کو نہ دیکھے ‘ AK 521.3

    خدا وند خدا نے انسان کی اپنی سیرت اور گنا ہ کے سا تھ نمٹنے کے لئے حتمی بیا ن دیا ہے ‘‘ خدا وند رحیم اور مہر بان قہر کر نے میں شفقت اور وفا میں غنی ۔ تمام بد کا روں کو وہ تبہ کر دے گا ۔’’ خد ا وند اپنے سب محبت رکھنے والوں کی حفا ظت کرے گا ۔ لیکن سب شریروں کو ہلاک کر ڈا لے گا ‘‘ ۔الہیٰ حکو مت اور اختیار کو بغا وت کو کچلنے کے لئے استعما ل جا ئے گا ۔ اس کے با وجود خداوند کے جو صا ف رحم ، مہر بان اور شفقت کے ہیں ان کا مکمل مظا ہرہ کیا جا ئے گا۔AK 521.4

    خدا وند کسی کی مرضی یا عقل سلیم کو مجبور نہیں کرتا۔اسے غلامانہ تابعداری سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ اس کی خواہش ہے کہ اس کے ہاتھ کی مخلوق اسے پیار کرے کیونکہ وہ محبت کے لائق ہے وہ اسلئے چاہتا ہے کہ وہ اسے محبت دیکھائیں کیونکہ وہ اس کی حکمت، اںساف اور فیض رسائی کو سمجھتے ہیں اور وہ سب جو خدا وند کے ان اوصاف کو جانتے ہیں وہ بے شک اس کو پیار کریں گے، کیونکہ وہ الٰہی اوصاف کی وجہ سے اس کی طرف راغب ہوئے ہیں۔AK 522.1

    مہربانی ، رحم اور محبت کے اصولات ہمارے نجات دہندہ نے سکھائے اور خود ان کا نمونہ بھی پیش کیا اور یہی خدا کی ذات کا نقش اور اس کی مرضی کا نقش اور اس کی مرضی کا پر رو ہیں۔ مسیح یسوع نے فرمایا کہ میں وہی کچھ سکھاتا ہوں جو میں نے اپنے باپ سے حاصل کیا ہے۔الٰہی حکومت کے اصولات نجات دہندہ کے فرمان کے ساتھ مکمل مطابقت رکھتے ہیں۔ “اپنے دشمنوں سے محبت رکھو” خدا نے بد کار کو قانون کے مطابق سزا دی اور یہ کائنات اور ان سب کی بھلائی کے لئے ہے جن کی وہ عدالت کرے گا۔ وہ انہیں اسی صورت میں خوش رکھے گا اگر وہ اپنی گورنمنٹ کے قوانین کے تحت اور اپنی سیرت کے مطابق سب کچھ انجام دے گا۔ جومحبت کے تحفے سے اسے اپنے بازوئوں میں گھیر لیتا ہے۔ وہ انہیں اپنی شریعت کا علم بخشتا ہے اور انہیں اپنے رحم کی پیشکش کرتا ہے۔ مگر وہ اس کی محبت کی حقارت کرتے ہیں۔ مگر وہ نعمتوں کے دینے والے کی بے حرمتی کرتے ہیں ہیں وہ خدا وند سے اس لئے نفرت کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ خدا وند کو ان کے گناہں سے نفرت ہے۔ خدا وند نے ان کی گمراہی سے بڑی دیر تک در گزر کیا۔ مگر بالآخر فیصلے کی گھڑی آگئی جب ان کی قسمت کا فیصلہ ہوتا تھا۔ کیا وہ اب ان باغیوں کو زنجیروں میں جکڑ کر اپنی طرف رکھے گا؟کیا وہ انہیں مجبور کرے گا کہ اس کی مرضی بجا لائیں۔AK 522.2

    وہ جنہوں نے ابلیس کو اپنا لیڈر منتخب کر لیا ہے اور اسی کی قوت انہیں کنٹرول کرتا ہے وہ خدا وند کی حضوری میں داخل ہونے کے لئے تیار نہیں۔ تکبر ، فریب، بد کاری، ظلم ان کے کر دار میں رچ بس گیا ہے۔ کیا وہ آسمان میں ان کے تھ جاکر رہیں گے جن کو وہ زمین پر ذلیل کرتے تھے؟ صدا قت کبھی کبھی دروغ گو کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ فروتنی کبھی مغروروں اور سر کشوں کے ساتھ مطمئن نہیں ہو سکتی بد کار پا کیز گی کو قبول نہیں کر سکتے۔ بےلوث محبت، خود غرض کو نہیں بھاتی۔ آسمان ان کو کون سے لطف اندوز ہونے کے ذرائع مہیا کر سکتا ہے جو پوری طرح جسمانی اور خو د غرض دلچسپیوں میں غرق رہے ہیں؟AK 522.3

    کیا وہ لوگ جن ی زندگیاں خدا کے خلاف بغاوت کرنے میں گزریں ہیں وہ فوراََ آسمان میں پہنچائے جائیں گےاور وہاں پاک مقدس زندگی کا مظاہرہ کریں گے۔ جہاں ہر روح محبت سے سرشار ہے، ہر چہرہ خوشی سے دھمک رہا ہے۔ برہ اور خدا کی تعریف میں میوزک چل رہا ہےجہاں نجات یا فتگان کے اوپر اس کے چہرے کی دائمی روشنیاں پڑ رہی ہیں جو تخت پر بیٹھا ہے۔جن کے دل خدا، صداقت اور پاکیزگی کے خلاف نفرت سے بھرے ہوئے ہیں کیا وہ آسمانی گروہ کے ساتھ ملکر حمد و ستائش کے گیت گا سکیں گے؟ کیا وہ خدا اور برے کے جلال کو برداشت کر پرئیں گے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ انہیں کئی سالوں کی مہلت دی گئی تاکہ وہ آسمان کے لائق اپنا چال چلن استور کر لیں۔مگر انہوں نے اپنے ذہن کی کبھی ایسی تربیت نہ کی کہ وہ پاکیزگی کو پیار کریں انہوں نے کبھی بھی آسمانی زبان نہ سیکھی اور اب ان کے لئے بہت دیر ہو چکی ہے۔ باغی زندگی جو انہوں نے خدا کے خلاف گزاری اس نے انہیں آسمان کے اہل ہونے نہ دیا۔ یہ پاکیزگی، پارسائی اور امن و آتشی ہے جو انہیں اذیت پہنچا رہی ہے۔ خدا وند کا جلال ان کے لئے بھسم کرنے والی آگ ہو گا۔وہ پاک جگہ سے بھاگ جانا چاہیں گے۔وہ بر بادی کو خوش آمدید کہیں گے۔ اور اس کے سامنے سے کہیں چھپ جانا چاہیں گے۔ وہ بر بادی کو خوش آمدید کہیں گے۔ اور اس کے سامنے سے کہیں چھپ جانا چاہیں گے جس نے انہیں مخلصی دینے کے لئے اپنی جان دی۔ جو انہوں نے (انتخاب کیا تھا، اس نے ان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا۔ آسمان سے ان کا اخراج اپنی رضا سے ہے اور انصاف اور رحم خدا کی طرف سے ہوا۔AK 523.1

    سیلاب کے پانیوں کی طرح خدا روز عظیم کی آگ کے بارے خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ بد کار علاج ہیں۔ ان کا کوئی خیال نہیں کہ وہ خود کو الٰہی اختیار کر دیں گے۔ ان کی نیت بغاوت کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ جب زندگی تمام ہو جاتی ہے تو یہ نا ممکن ہو جاتا ہے کہ اپنے خیالات کے دھارے کو مخالف سمت میں بہایا جائے۔ حکم عدولی سے تابعداری کی طرف پلٹنے کے لئے دیر ہو چکی ہوتی ہےاور اسی طرح نفرت سے محبت کی طرف لوٹنا ممکن ہو جاتا ہے۔AK 523.2

    قاتل قائن کی زندگی بچانے سے خداوند نے دنیا کو ایک نمونہ دیا کہ گنہگار وں کو گناہ کی زندگی گزارنے کے لئے بے لگام چھوڑ دیا جائے تو کیا نتیجہ بر آمد ہو گا۔ قائن کی تعلیم اور نمونے کے اثرو رسوخ سے اس کی نسل گناہ کی طرف چلی گئی۔یہاں تک کہ ّزمین پر انسان کی بدی بہت بڑھ گئی اور اس کے دل کے تصور اور خیال سد برے ہی ہوتے گئے۔زمین خدا کے نزدیک ناراست ہو گئی اور وہ ظلم سے بھری تھی۔AK 523.3

    دنیا پرچم کی خاطر نوح کے زمانہ میں خدا وند خدا نے بد کاروں کو تباہ کر دیا۔ اسی طرح اپنے رحم میں اس نے سدوم کے بد کاروں کو ہلاک کر دیا۔شیطان کی فریب دینے والی طاقت کے ذریعہ بدی کے کار گزاروں نے ہمدردی اور مداح حاصل رکر لی ہے اور یوں دوسروں کو مسلسل بغاوت پر آمادہ کر رہے ہیں۔ یہی حال قائن اور نوح کے دنوں میں تھا یہی حال ابر ہام اور لوط کے زمانے کا تھا اور یہی حال ہمارے زمانے کا ہے اور یہ کائنات پر رحم ہی ہے جو وہ بالآخر ان کو بر باد کر دے گا جنہوں نے اس کے فضل کو ٹھکرادیا ہے۔AK 524.1

    ّّگناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خدا وند مسیح یسو ع میں ہمیشہ کی زندگی ہےٗٗرومیوں 23:6۔زندگی راستباز کی میراث ہے اور موت کا بدکاروں کا بخرہ ہے۔ موسیٰ نے بنی اسرائیل سے کہا “میں نے آج کے دن زندگی اور بھلائی کو اور موت اور برائی کو تیرے آگے رکھا ہےٗٗ اشتناہ 15:30یہ وہ موت نہیں جو آدم کو سنائی گئی تھی کیونکہ تمام آل آدم کو اس کے گناہوں کی سزا بھگتا ہے۔یہ “دوسری موت” ہے جو ابدی زندگی کے بر عکس ہے۔AK 524.2

    آدم کے گناہ کے نتیجہ میں موت تمام نسل انسانی پر وار ہوئی۔ سب کو قبر میں اترنا اور نجان کی تجویز کے ذریعہ سب کو قبر میں سے زندہ کیا جائے گا۔:راستبازوں اور نا راستو ں دونوں کی قیامت ہوگی۔۔۔۔ جیسے آدم میں سب مرتے ہیں ویسے ہی مسیح میں سب زندہ کئے جائیں گے” اعمال 15:24 1 کر نتھیوں 22:15مگر ان جماعتوں میں امتیاز بر تا گیا ہے جو سامنے آئیں گی “جتنے قبروں میں ہیں اس کی آواز سن کر نکلیں گے۔ جنہوں نے نیکی ہے زندگی کی قیامت کے واسطے اور جنہوں نے بدی کی ہے سزا کی قیامت کے واسطے ” وحنا 58-29اور وہ جو زندگی کی قیامت کے لائق ٹھہرے وہ مبارک اور مقدس ہیں۔ ایسوں پر دوسری موت کا کچھ اختیار نہیں مکاشفہ 6:20مگر وہ سب جنہوں نے تو بہ اور ایمان کے ذریعہ معافی حاصل نہیں کی انہیں ضرور گناہوں کی سزا ملے گی۔ “جو گناہ کی مزدوری” ہے۔ انکی سزا ان کے کاموں کے مطابق مختلف سزا اور مختلف دو رانیے کے لئے ہو گی۔ مگر دوسری قیامت میں ان کا خاتمہ ہوگا۔چونکہ یہ خدا کے انصاف کے منافی ہے کہ وہ گنہگار کو اس کے گناہوں کی حالت میں بچائے اس لئے اس کے گناہ اسے اس کی زندگی سے محروم کریں گے اور اس بنا پر اس نے خود کو اس کا نا اہل بنا لیا ہے۔ زبور نویس فرماتا ہے ّّکیونہ تھوڑی دیر میں شریر نا بود ہو جائے گا۔تو اس کی جگہ غور سے دیکھے گا پر وہ نہ ہو گاٗٗ۔ “وہ ایسی (قومیں) ہوں گی گویا کبھی تھیں ہی نہیں” عبد یاہ 16 وہ رو سیاہی میں لت پت گم نامی میں غرق ہو جائیں گے۔AK 524.3

    یوں گناہ کا خاتمہ ہو جا ئے گا اور جو اس کے نتیجہ میں رنج و الم اور تبایئاں ہوئی تھیں وہ بھی ختم ہو جائیں گی۔زبور نویس فر مایا ہے “تو نے شریروں کو ہلاک کر یا ہے۔ تو نہ ان کا نام ابدا لا باد کے لئے مٹا ڈالا ہے۔ دشمن تمام ہوئے وہ ہمیشہ کے لئے مرباد ہو گئےٗ زبورز 9-5-6 یو حنا عارف نے ابدی ریاست میں حمد و ثناء کا عالمگیر ترانہ سنا جس میں سب ہم آواز ہو کر گارہے تھے۔ آسمان اور زمین کا ہر جاندار خدا وند کی ستائش کرتا ہوا سنا گیا مکا شفہ 13:5۔AK 525.1

    وہاں کوئی بھی بر باد ہونے والی روح نہیں تھی جو ابدی اذیت میں خدا کے خلاف کفر بکے۔ کوئی بد بخت روح جہنم میں اپنی چیخ و پکار کو نجات یا فتگام کے گیتوں میں شامل نہ کرے گی۔AK 525.2

    غلط بنیادی تعلیم کی روح فطری پر نہیں مرتی اور یہ کہ موت میں انسان کے حواس کام کرتے ہیں۔ یہ اسی طرح کی تعلیم ہے جیسے بد کاروں کو جہنم میں ابدی اذیت دینے کی تعلیم ہے۔ یہ تمام غلط تعلیمات پاک نوشتوں کی تعلیم کے بر عکس ہیں۔ علا وہ ازیں یہ عقل سلیم کے اورانسانی محسوسات کی نفی کرتی ہیں عالم اعتقاد کے مطابق مخلصی یا فتہ ان سب چیزوں سے واقف ہوتے ہیں جو کچھ اس دھرتی پر وقوع پذیر ہوتا ہے اور خاص طور پر اپنے دوست واحباب کی زندگیوں کے بارے میں انہیں سارا علم ہوتا ہے جنہیں وہ اس دھرتی پر چھوڑ جاتے ہیں۔ گر یہ مرنے والوں کے لئے کیسے خوشی کا سبب ہو سکتا ہے انہیں یہ پتہ ہے کہ ان کے زندہ احباب اذیت اٹھارہے ہیں اور ان کے اپنے عزیز گناہ کے مر تکب ہیں۔مرد ے دیکھ رہے ہیں کہ ان کے پیارے مایوس ہیں اور ذہنی تکلیف میں مبتلا ہو ہیں۔ ان مردوں کے لئے آسمان کیسی خوشی و مسرت کا مقام ہو گا او پر سے اپنے عزیز وں کو دیکھ رہے ہیں جو اس دھرتی پر ہیں؟ اور یہ کس قدر نفرت انگیز عقیدہ ہے کہ جتنی بدن سے دم رخصت ہو جاتا ہے غیر تائب رو ح کوجہنم کے شعلوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے ان کے لیے یہ کس قدر اذیت ناک عقیدہ ہے جو اپنے عزیزوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ قبر سے اب ابدی عذاب میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس دل خراش خیال کی وجہ سے بیشتر لوگ پاگل ہو چکے ہیں۔AK 525.3

    ان امور کے بارے کلام مقدس کیا فرما تا ہے؟ دائود فرماتا ہے کہ انسان کو موت کی حالت میں کچھ ہوش نہیں ہوتا۔ْْاس کا دم نکل جاتا ہے تو وہ مٹی میں مل جات ہے اسی دن اس کے منصوبے بے فنا ہو جاتے ہیں ٗ زبور 146:4سلیمان بھی یہی گواہی دیتا ہے۔ ْْزندہ جانتے ہیں کہ وہ مریں گے پر مر دے کچھ بھی نہیں جانتے اور ان کے لئے اور کچھ اجر نہیں۔کیونکہ ان کی یاد جاتی رہی ہےٗٗ ۔ْْاب ان کی محبت اور عداوت و حسد سب نیست ہو گئے اور تاابداُن سب کاموں میں جو دنیا میں کئے جاتے ہیں ان کا کوئی حصہ بخرہ نہیںٗٗ ۔ ْْپا تال میں جہاں تو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ نہ علم نہ حکمت ٌٌ۔AK 526.1

    حز قیاہ کی دعا کے جواب میں خدا وند نے اس کی پندرہ برس عمر بڑھا دی۔ باد شاہ بڑا شکر گزار ہوا اور خدا وند کی اس کے رحم کے لئے حمد و ثنا ء گائی اور وہ اپنے گیت میں اس کی یوں وجہ بیان کرتا ہے۔ پاتال تری ستائش نہیں کر سکتا اور موت سے تیری حمد نہیں ہو سکتی۔ وہ جور گور میں اترنے والے ہیں تیری سچائی کے امیدوار نہیں ہو سکتے زندہ ہی تیری ستائش کرے گا۔جیسا آج کے دن میں کرتا ہوں۔AK 526.2

    ہر دلعزیز تھیا لو جی تو یہ پیش کرتی ہے کہ راستباز مر دے آسمان میں جاتے ہیں اور وہاں وہ غیر قانون زبان میں خدا وند کی حمد و ثنا ئ کرتے ہیں مگر حز قیاہ مو میں کوئی ایسا جلالی پہلو نہیں دیکھتا۔ بلکہ زیور نویس بھی اس کے ساتھ متفق ہو کر یہ گواہی دیتا ہے۔ ْ کیونکہ موت کے بعد تیری یاد نہیں ہوتی۔ قبر میں کون تیری شکر گذاری کرے گا مردے خدا وند کی ستائش نہیں کرتے۔ نہ وہ جو خاموشی کے عالم میں اتر جاتے ہیںٗ۔AK 526.3

    پنتیکست کے روز پطرس قوم کے بزرگ دائود کے بارے بتا تا ہے ْْ وہ مود اور دفن بھی ہوا اور اس کی قبر آج تک ہم میں موجود ہے۔ کیونکہ دائود تو آسمان پر نہیں چڑھاٗ اعمال 2:29:34مردوں کی قیامت تک بزرگ دائود قبر میں رہے گا اور یہ بڑ اثبوت ہے کہ مرنے کے فوراََ بعد راستباز آسمان میں نہیں جاتے۔ صر ف قیامت کے ذریعہ ہوگا اور یہ اس لئے کہ مسیح یسوع مردوں میں سے جی اٹھا اور بالآ خر دائود بھی خدا کی ذہنی طرف بیٹھے گا۔پولس رسول فرماتا ہے کہ ْْاگر مردے نہیں جی اٹھتے تو مسیح بھی نہیں جی اٹھااور بالآ خر دائود بھی خدا کی ذہنی طرف بیٹھے گا۔AK 526.4

    پولس رسول فرماتا ہے کہ ْْاگر مردے نہیں جہ اٹھتے تو مسیح بھی نہیں جی اٹھا۔ اور اگر مسیح جی اٹھا تو تمہارا ایمان بیفائدہ ہے۔ تم اب تک اپنے گناہوں میں گرفتار ہو۔ بلکہ جو مسیح میں سو گئے ہی وہ بھی ہلاک ہوئے 1 کر نتھیوں 18:16:15اگر چار ہزار برس سے راستباز مردے براہ راست آسمان پر چلے جاتے ہیں تو پھر پولس نے کیوں کر کہا اگر قیامت نہیں ہے۔ تو جو مسیح میں سو گئے وہ ہلاک ہوئے؟ نہیں مر دوں کا جی اٹھنا لازم ہے۔AK 526.5

    شہید ٹینڈل موت کی حالت کے حوالے سے گویا ہے ْمیں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ مردے ابھی ت نہ تو اس جلال کو پہنچے ہیں جو مسیح یسوع اور اس کے پاک فرشتوں کو حاصل ہے اور نہ ہی یہ میرے ایمان کا حصہ ہے۔ ورنہ مردوں کا روز قیامت کو جی اٹھنے کی منادی فضول ہےٗAK 527.1

    William Tyndale, preface to new testament (ed-1534) reprinted in british reformers tindal faith, bames page 349AK 527.2

    یہ نا قابل تر دید حقیقت ہے کہ موت کے وقت ابدی زندگی سے نوازے جانے کی تعلیم سے بہت سے لوگ بائبل کی تعلیم کو جو روز قیامت کے بارے ہے اسے نظر انداز کر رہے ہیں۔ اس رحجان کی نشاندہی ڈاکٹر ایڈم کلارک نے کی۔جنہوں نے یہ فرمایا کہ ْمردوں کی قیامت کی تعلیم موجودہ مسیحیوں کی نسبت قدیم مسیحیوں کے نزدیک بڑی اہمیت کی حامل تھی۔ ایسے کیوں ہے؟ رسول مسلسل اس پر زور دیتے ہیں اور خدا کے پیرو کاروں کو ابھار تے رہے ہیں کہ وہ بدل و جان بڑی و فاداری سے اس قیامت کے لائق ٹھہرایں اور ان کے جدید زمانہ کے مسند نشین شاذ نادر ہی اس کا ذکر کرتے ہیں ! رسولوں نے اس کی منادی کی اور قدیم مسیحی اس پر ایمان لائے۔ اسلئے جو ہم منادی کرتے ہیں ہمارے سامعین اسی پر ایمان لائیں گے۔ کلام مقدس میں اور کوئی ایسی تعلیم نہیں ہے جس پر اس قدر زور دیا گیا ہو اور ہمارے موجودہ سسٹم میں جتنا اس تعلیم کو نظر انداز کیا گیا ہے کسی اور تعلیم کو نظر انداز نہیں کیا گیا!AK 527.3

    Commentary, remarks on, corinthaians 15, paragraph 2.AK 527.4

    یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا یہاں تک کہ روز قیامت کی یہ جلالی صداقت غیر واضح ہو تی گئی اور مسیحی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ اس پر ایک معروف مذہبی رہنما نے پولس رسول کے خط تھسلنیکیوں کے نام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا 1 تھسلنیکیوں 18-13:4مرنے کے بعد ْْ راستبازوں کی مبارک ابدیت کی تعلیم مسیح یسوع کی آمد ثانی کی تعلیم کو مشکوک بنا دیتی ہے۔ یہ تعلیم یوں ہے کہ ہماری موت کے وقت خدا وند ہمارے پاس آتا ہے۔ اسی کی ہمیں انتظار تھی۔ مردے پیشتر ہی خدا کے جلال میں داخل ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی عدالت اور فضل کے لئے نر سنگے کا انتظار نہیں کرتےٗAK 527.5

    جب مسیح یسوع اپنے شاگردوں کو چھوڑ کر جانے کو تھانو اس نے انہیں یہ نہیں کہا کہ وہ بھی جلد اس کے پاس آجائیں گے۔اس نے کہا ْمیں جاتا ہوں تاکہ تمہارے لئے جگہ تیار کروں تو پھر آکر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گاٗ یو حنا 3-2-13پولس رسول ہمیں مزید بتاتا ہے۔ ْخدا وند خود آسمان سے للکار اور مقرب فرشتہ کی آواز اور خدا کے نرسنگے کے ساتھ اتر آئے گا اور پہلے تو وہ جو مسیح میں موئے جی اٹھیں گے۔ پھر ہم جو زندہ باقی ہوں گئ ان کیساتھ با دلوں پر اٹھائے جایں گے تاکہ ہوا میں خدا وند کا استقبال کریں اور اس طرح ہمیشہ خدا وند کے ساتھ رہیں گے۔ پس تم ان باتوں سے ایک دوسرے کو تسلی دیا کروٗ 1 تھسلنیکیوں 18-16:4۔AK 528.1

    اس تسلی کے کلام میں اور عالمگیت نجات کے حامی منسٹر کے تسلی کے پیغام میں جو بیشتر پیش کیا گیا کتنا بڑا تضادم ہے۔ مو خر الذکر کو سو گوار عزیزوں کو اس یقین دہانی کے ساتھ تسلی دیتا ہے کہ مرنے والا خواہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو۔ جب اس کا دم نک جاتا ہے تو اسے مقدس فرشتوں میں قبول کر لیا جاتا ہے۔ جب کہ پولس رسول مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے جب خدا وند آئے گا جب قبروں کے بند توڑئ جائیں گے اور مسیح میں مردے ابدی زندگی کے لیے جی اٹھیں گے۔AK 528.2

    اس سے بیشتر کہ کوئ آسمانی مقاموں میں داخل ہو ان کے کیسز (Cases)کی تفتیش ہونا لازم ہے۔ ان کے کر دار اور ان کے کام اعادہ کے لئے خدا کے حضور کئے جائیں گے اور ہر ایک کی جانچ پڑتال جو کچھ کتابوں میں لکھا گیا ہے اسی کے مطابق ہو گی اور انہیں ان کے کاموں کے مطابق اجر دیا جائے گا اور یہ عدالت انسان کی موت کے وقت نہیں ہوگی۔ پولس رسول کے کلام پر توجہ دیں۔ ّّاس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اس نے مقرر کیا ہے اور اسے مردوں میں سے جلا کر یہ بات سب پر ثابت کر دی ہے اعمال 31:17 یہاں رسول بڑی صفائی سے بیان کرتا ہے کہ مستقبل میں ایک خاص وقت دنیا ی عدالت کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔AK 528.3

    یہوداہ بھی اس خاص وقت کا ذکر کرتا ہے ْاور جن فرشتوں نے اپنی حکومت کو قائم نہ رکھا بلکہ اپنے خاص مقام کو چھوڑ دیا ان کو اس نے دائمی قید میں تاریکی کے اندر روز عظیم کی عدالت تک رکھا ہےٗ اور پھر وہ حنوک کے کلام کا حوالہ دیتا ہے ّ دیکھ خدا وند اپنے لاکھوں مقدسوں کے ساتھ آیا ہے۔ تاکہ سب آدمیوں کا انصاف کرےٗ بیوادہ ۔۔۔آیات 15-14،6یو حنا عارف فرماتا ہے ْپھر میں نے چھوٹے بڑۓ سب مردوں کو اس تخت کے سامنے کھڑے ہوئے دیکھا اور کتا بیں کھولی گئیں جس طرح ان کتابوں میں لکھا ہوا تھا ان کے اعمال کے مطابق مر دوں کا انصاف کیا گیا ٗ مکاشفہ 12:20AK 528.4

    لیکن اگر مردے پیشتر ہی آسمانی بار گاہوں میں لطف اندوز ہو رہے ہیں یا جہنم میں آگ کے شعلوں میں تڑپ رہے ہیں تو مستقبل میں ہونے والی عدالت کی کیا ضرورت ہے؟ خدا کے پاک کلام کی تعلیم اس اہم امور پر نہ تو غیرواضح ہے اور نہ ہی متناقض ( بر عکس) انہیں عام فہم لوگ بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مگر ایک عالی دماغ رکھنے والا شخص اس موجودہ تھیوری میں کیا حکمت یا انصاف دیکھ سکتا ہے؟ کیا راستباز جب ان کیسز(cases)کی عدالت کے وقت تفتیش ہو جائےگی تو وہ اپنے آقا سے یہ وصفی کلام سنیں گے ْاے اچھے اور دیانتدار نوکر شاباش ! اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہوٗ جب کہ اس تھیوری کے مطابق ، وہ زمانوں سے اس کی حضوری میں رہ رہے ہیں۔ یا بد کاروں کو عذاب کی جگہ سے بلایا جائے گا تاکہ وہ آکر تمام دنیا کے منصف سے یہ سزا حاصل کرلیں۔ْاے ملعو نو میرے سامنے سے ہمیشہ کی آگ میں چلے جائوٗ متی یہ تو بہت ہولناک مزاق ہے ۔ خدا کے انصاف اور حککمت کا یوں مواخذہ کرنا شرمناک ہے۔AK 529.1

    روح کی بقا کا نظریہ ان جھوٹٰ تعلیمات میں سے ایک تعلیم ہے جو روم نے بیت پر ستون سے لیکر مسیحی سلطنتوں کے مذہب میں شامل کر دی۔ ماڑٹن لو تھرا سے ْسراسر غلط فرضی قصہ کہتا ہے جو رومن فرامین کے گو برکے ڈھیر کا ایک حصہ ہے۔E.Petaval the problem of immortality. Page 255AK 529.2

    مردے کچھ نہیں جانتے۔ واعظ کی کتاب میں سلیمان کے کلام پر تبصرہ کرےت ہوئے ریفارمر نے کہا ْمردے کچھ بھی محسوس نہیں کرتے۔ ان کی کوئی ڈیوٹی نہیں ہوتی۔ ان میں کچھ سمجھ اور حکمت نہیں ہوتی۔ سلیمان سمجھتا ہے کہ مردے سوتے ہیں اور کچھ بھی محسوس نہیں کوتے ۔ کیونکہ وہ مردے پڑے ہوئے نہ تو اپنے دن گنتے ہیں اور نہ ہی سال۔ لیکن جب وہ جاگ اٹھیں گے انہیں ایسے محسوس ہوگا جیسے وہ بمشکل ایک ہی منٹ سوئے ہیںٗ۔AK 529.3

    Martin Lutherm exposition of Solomon,s called ecclasistes. Page 152.AK 529.4

    کلام مقدس میں ایسا اقتباس کہیں بھی نہیں پایا جاتا کہ اپنی موت کے وقت راستابز اپنا اجر پالیتے ہیں ، یا بد کار واپنی سزا پاتے ہیں۔ آبائی بزرگ و انبیائ نے ایسی کوئی یقین دہانی نہیں چھوڑ ی۔ مسیح یسوع اور اس کے رسولوں نے کبھی کوئی ایسا اشارہ نہیں دیا۔ کتاب بڑی صفائی سے بیان کرتی ہے کہ مر دے فوراََ آسمان پر نہیں اجتے بلکہ وہ مر دوں کی قیامت تک سوتے ہیں۔ 1 تھسلنیکوں 14:4 ایوب 12-10:14۔AK 529.5

    پیشتر اس سے کہ چاندی کی ڈوری کھولی جائے اور سونے کی کٹوری توڑی جائے واعظ ـ 6:12 اسکے خیالات تباہ ہو جاتے ہیں اور جو اس دنیا سے قبر میں اتر جاتے ہیں اور جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اس کی انہیں کچھ خبر نہیں ہوتی ایوب 21:14تھکے ماندے راستبازوں کے لئے یہ مبارک آرام ہے! یہ وقت کم ہو یا زیادہ ان کے نزدیک چند لمحوں کے رابر ہوگا۔ابھی سوائے، ابھی خد اکے نرسنگےکی آوازیں سب کر جلالی حیات ابدی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ْاور یہ ایک دم میں ایک پل میں پچھلا نر سنگا پھونکتے ہی ہو گا۔ کیون کہ نر سنگاپھولکا جائے گا اور مردے غیر قانونی حالت میں اٹھیں گے اور ہم بد جائیں گے۔ کیونکہ ضرور ہے کہ یہ فانی جسم بقاکا جامہ پہنے اور یہ مرنے والا جسم حیات ابدی کا جامہ پہنے اور جبیہ فانی جسم بقا کا جامہ پہن چکے گا تو وہ قول پورا ہو گا جو لکھا ہے کہ موت فتح کا لقمہ ہو گئیٗ 1 کر نتھیوں 54۔52:15AK 530.1

    جب انہیں گہری نیند سے جگا یا جائے تو وہ یہ سوچنا شروع کریں گے کہ انہوں نے کہاں سے ترک کیا تھا۔ موت کے درد کی آخری ٹیس ۔ آخری خیال کہ وہ قبر کے قبضہ میں جانے والے ہیں۔ جب وہ قبر سے باہر آئیں گے ان کے پہلے خیال کی یہ بازگشت ہوگی۔ ْاے موت تیری فتح کہاں رہی؟ اے موت تیرا ڈنگ کہاں رہاٗ1 کر نتھیوں 15:55۔AK 530.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents