Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    پچیسواں باب - خُدا کی دائمی شریعت

    ” اور خُدا کا جو مقدس آسمان پر ہے وہ کھولا گیا اور اُس کے مقدس میں اس کے عہد کا صندوق دکھائی دیا” مکاشفہ19:11۔ خدا کا عہد کا صندوق پاکترین مکان میں ہے جو ہیکل کا دوسرا حصہ ہے۔ زمینی مقدس کی خدمت میں جو ” آسمانی مقدس کا نمونہ اور عکس تھی” یہ دوسرا حصہ صرف کفارہ کے روز ہیکل کو پاک کرنے کیلئے کھولا جاتا تھا۔ چنانچہ یہ منادی کہ خدا کی ہیکل آسمان میں دکھائی گئی ہے اور اس کے عہد کا صندوق بھی دکھایا گیا۔ وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ1844 میں اس آسمانی ہیکل کے پاکترین مکان کو کھولا گیا اور ہمارا مسیح یسوع کفارہ کے کام کو ختم کرنے کے لئے اس میں داخل ہوگیا۔ اس لئے وہ سب کے سب جو ایمان کے ذریعہ اپنے سردار کاہن کے پیچھے گئے جب وہ پاکترین مکان میں خدمت کے لئے داخل ہوا انہوں نے اس کے عہد کے صندوق کو دیکھا۔ اور جیسے ہی انہوں نے ہیکل کے مضمون کا مطالعہ کیا تو وہ نجات دہندہ کے دوسرے کام کو بھی دیکھ پائے اور انہوں نے دیکھا کہ وہ اب خدا کے عہد کے صندوق کے سامنے خدمت انجام دے رہا ہے اور گنہگاروں کیلئے اپنا خون پیش کررہا ہے۔AK 420.1

    عہد کا وہ صندوق جو زمینی ہیکل میں تھا اس میں پتھر کی دو تختیاں رکھیں تھیں جن پر خدا کی شریعت کے احکام کندہ کئے ہوئے تھے۔ وہ صندوق شریعت کی تختیوں کی بدولت متبرک تھا۔ اور ان الٰہی قوانین نے ہی اسے قدرومنزلت ار پاکیزگی بخشی تھی۔ جب آسمان میں خدا کی ہیکل کھولی گئی تو وہاں اس کے عہد کا صندوق بھی دیکھنے کو ملا۔ پاکترین مکان میں آسمانی ہیکل کے اندر الٰہی شریعت کو متبرک جان کر محفوظ کیا گیا ہے۔ وہ شریعت جو بادلوں کی گرج میں کوہ سینا پر خود خداوند نے دی اور خود اپنی انگلیوں سے پتھر کی تختیوں پر لکھی وہ عہد کے صندوق میں محفوظ کر لی گئی ہے۔AK 420.2

    آسمانی ہیکل میں خدا کی وہ شریعت اصلی اور حقیقی شریعت ہے جس کے قوانین تختیوں پر کنندہ کئے گئے اور موسیٰ نے من و عن انہیں توریت میں ریکارڈ کیا۔ وہ سب جو اس اہم نقطہ کی سوجھ بوجھ تک پہنچ ھئے ان کی رہنمائی کی گئی تاکہ وہ الہٰی شریعت کی پاکیزہ غیر سیرت کو دیکھ لیں۔ اُنہوں نے نجات دہندہ کے کلام میں وہ قوت دیکھی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گا” متی18:15۔AK 420.3

    خدا کا کلام اس کی رضا کا مکاشفہ اور اس کی سیرت کا پرتو ہوتے ہوئے تا ابد قائم رہتا ہے۔ وہ” سچے گواہ کی طرح قائم ہے” زبور37:89 ان میں سے ایک بھی حکم منسوخ نہیں ہوا۔ شریعت کا ایک نقطہ بھی تبدیل نہیں کیا گیا۔ زبور نویس فرماتا ہے” اے خُداوند تیرا کلام آسمان پر ابد تک قائم ہے” زبور89:119 اس کے تمام قوانین راست ہیں۔ وہ ابدالآباد قائم رہیں گے” زبور8-7:111 ۔AK 421.1

    دس احکام میں چوتھا حکم وہ پہلا حکم ہے جس کے بارے کہا گیا ہے کہ ” یاد کرکے تو سبت کا دن پاک ماننا۔ چھ دن تک تو محنت کرکے اپنا سارا کام کاج کرنا۔ ساتواں دن خداوند تیرے خدا کا سبت ہے اس میں نہ تو کوئی کام کرے نہ تیرا بیٹا نہ تیری بیتی نہ تیرا غلام نہ تیری لونڈی نہ تیرا چوپایہ نہ کوئی مسافر جو میرے ہاں تیرے پھاٹکوں کے اندر ہو۔ کیونکہ خداوند نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اس لئے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹہرایا“خروج11-8:20۔AK 421.2

    خداوند کی روح نے ان لوگوں کے دلوں پر تاثیر کی جو اس کے کلام کے طالب علم تھے انہیں اس بات کیلئے قائل کیا گیا کہ انہوں نے اپنی نادانی اور ناواقفیت کے سبب خدا کے آرام کے دن کی بے حرمتی کی ہے۔ اور اس حکم کو توڑا ہے۔ وہ اس بات کی جانچ کرنے لگے کہ کیا وجہ ہے کہ ہم ہفتے کے ساتویں دن کی بجائے جسے خدا نے مقدس ٹھرایا تھا، ہفتے کے پہلے دن کو مانتے ہیں۔ انہیں کتاب مقدس کی کوئی ایسا حوالہ نہ ملا جو ثابت کرے کہ چوتھا حکم معزول کردیا گیا، یا سبت تبدیل ہوگیا ہے۔ ساتویں دن جسے خداوند نے برکت دی اور مقدس ٹہرایا یا وہ کبھی بھی موقوف نہیں کیا گیا تھا۔ وہ بڑی ایمانداری سے ادا کی مرضی جاننے اور اس پر عمل کرنے کیلئے آمادہ ہوگئے۔ جونہی انہوں نے دیکھا کہ وہ تو خدا کے حکم کو توڑنے والے ہیں ان کے دل نہایت ہی افسردہ ہوئے اور انہوں نے سبت کو مقدس ماننے کیلئے خدا سے اپنی وفاداری کا اظہار کیا۔AK 421.3

    ان کے ایمان کو برطرف کرنے کیلئے بہت ہے مُخلص کوششیں کی گئیں۔ یہ تو ہر ایک اچھی طرح دیکھ سکتا تھا کہ زمینی ہیکل جو آسمانی ہیکل کا پرتو تھی، اس میں عہد کے صندوق میں شریعت محفوظ کی گئی تھی۔ وہی شریعت آسمانی ہیکل میں تھی اور آسمانی ہیکل کی صداقت کو ماننا خدا کی شریعت کو تسلیم کرنا تھا۔علاوہ ازیں چوتھے حکم کے سبت کو پاک ماننے کی ذمہ داری کو بھی قبول کرنا تھا۔ یہاں ہی شدید مخالفت کا بھید پایا جانا تھا۔ پاک نوشتے متفقہ طور پر مسیح یسوع کی آسمانی ہیکل میں خدمت کا ذکر کرتے ہیں۔ انسان تو یہ چاہتے تھے کہ وہ اس دروازہ کو بند کردیں جو خدا نے کھولا ہے اور اس دروازہ کو کھول دیں جو اس نے بند کیا ہے لیکن جس کے کھولے ہوئے کو کوئی بند نہیں کرتا اور بند کئے ہوئے کو کوئی نہیں کھولتا اس نے کہا“دیکھ میں نے تیرے سامنے ایک دروازہ کھول تھا۔ یعنی کہ پاکترین مکان میں خدمت شروع کی تھی۔ آسمان میں ہیکل کے کھلے دروازے سے روشنی نکلی اور چوتھا حکم دوسری شریعت کے ساتھ دیکھا گیا جو وہاں محفوظ تھا۔ جو کچھ بھی خدا نے قائم کیا ہے اسے کوئی شخص برطرف نہیں کرسکتا۔AK 421.4

    وہ سب جنہوں نے مسیح یسوع کے درمیانی ہونے اور خدا کی شریعت کو دائمی ماننے کی روشنی کو قبول کر لیا، انہوں نے دریافت کیا کہ یہ سچائیاں مکاشفہ14 باب میں پیش کی گئی تھیں۔ اس باب میں وارننگ کے تہرے(3گنا) پیغامات پائے جاتے ہیں۔ جن کے ذریعہ اس دنیا کے باشندوں کو مسیح یسوع کی آمد ثانی کیلئے تیار کرنا ہے۔ یہ پکارا کہ” اس کی عدالت کا وقت آپہنچا ہے” اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ بنی نوع انسان کی نجات کا کام جو مسیح یسوع کررہا تھا وہ اختتام پذیر ہوا چاہتا ہے۔اس پیغام کی منادی اُسی وقت تک کی جانی چاہیئے جب تک مسیح یسوع کی شفاعتی خدمت ختم نہیں ہوجاتی اور وہ زمین پر اپنے لوگوں کو لینے کیلئے نہیں آجاتا۔ عدالت کا وہ وقت جو 1844 میں شروع ہوا تھا اس کو اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ تمام انسانوں کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ جس میں مردہ اور زندو دونوں شامل ہیں۔تب بنی نوع انسان کا آزمائشی وقت ختم ہوجائے گا۔ بنی نوع انسان عدالت کے سامنے کھڑے ہونے کیلئے تیار ہوں گے۔ اور پیغام میں انہیں حکم دیا گیا ہے کہ خدا سے ڈرو اور اس کی تجدید کرو۔ اسی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی کے چشمے پیدا کئے۔ مکاشفہ7-14 اس پیغام کو قبول کرنے کا نتیجہ خدا کے کلام میں دیا گیا ہے“خدا کے حکموں پر عمل کرنے والوں اور یسوع پر ایمان رکھنے والوں کے صبر کا یہی موقع ہے” مکاشفہ12:14 عدالت کیلئے تیار ہونے کیلئے لازم ہے کہ بنی نوع انسان خدا کے حکموں کو مانیں۔ یہی شریعت عدالت کے روز اخلاقی قوت کا معیار ہوگی۔ پولس رسول فرماتا ہے” ان کیلئے کہ جنہوں نے بغیر شریعت پائے گناہ کیا وہ بغیر شریعت کے ہلاک بھی ہونگے۔ اور جنہوں نے شریعت کے ماتحت ہو کر گناہ کیا ان کی سزا شریعت کے موافق ہوگی۔ جس روز خدا امیری خوشخبری کے مطابق یسوع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا انصاف کریگا” ۔رومیوں12:2 رومیوں16:2 خداوند کی شریعت کو ماننے کیلئے ایمان از حد ضروری ہے” اور بغیر ایمان کے اس کو پسند آنا ناممکن ہے” عبرانیوں 6:11 ۔ ” جو کچھ اعتقاد سے نہیں وہ گناہ ہے” رومیوں23-14 ۔AK 422.1

    پہلے فرشتے کے پیغام سے آل آدم کو بلاہٹ دی گئی ہے کہ” خداسے ڈرو اور اس کی تجید کروکیونکہ اس کی عدالت کا وقت آپہنچا ہے اور اسی کی عبادت کرو جس نے آسمان اور زمین اور سمندر اور پانی اور چشمے پیدا کئے” ایسا کرنے کیلئے انہیں اس کی شریعت پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔ کیونکہ یہ بھی لکھا ہے کہ” خداسے ڈرو اور اس کے حکموں کو مان کر انسان کا فرض کلی یہی ہے۔” خدا سے ڈرو اور اس کے حکموں کو مان کر انسان کا فرض کلی یہی ہے” واعظ 13:12 ۔ اس کی شریعت کو مانے بغیر اسے کوئی عبادت پسند نہیں۔” خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اس کے حکموں پر عمل کریں” ۱ یوحنا3:5 ۔” جو کان پھیر لیتا ہے کہ شریعت کو نہ سنے اس کی دعا بھی نفرت انگیز ہے “۱مثال9:28۔AK 423.1

    خدا کی پرستش کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ ہمارا خالق ہے اور ہر ذی نفس کی زندگی کا انحصار اسی پر ہے اور جہاں کہیں کتابِ مقدس میں اس کی عزت و تکریم اور عبادت و پرستش کا ذکر آیا ہے وہاں یہ بھی بیان ہے کہ وہ بت پرستوں کے دیوتاؤں سے اعلٰے و بالا ہے۔ ” اور قوموں کے سب معبود محض بت ہیں لیکن خداوند نے آسمانوں کو بنایا” زبور5:96 ۔AK 423.2

    تم مجھے کس سے تشبیہ دو گے؟اور میں کس چیز سے مشابہ ہوں گا۔ اپنی آنکھیں اوپر اٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہی جو ان کے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور ان سب کو نام بنام بلاتا ہے۔AK 423.3

    اس کی قدرت کی عظمت اور اس کے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیر حاضر نہیں رہتا” AK 423.4

    زبور نویس فرماتا ہے “جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اسی نے ہم کو بنایا اور ہم اسی کے ہیں۔ اور ہم جھکیں اور سجدہ کریں کیونکہ وہ ہمارا اللہ ہے” زبور6:95,3:100 ۔AK 423.5

    اور آسمان کے فرشتے بیان کرتے ہیں کہ کیوں وہ خداوند کی تعظیم کرتے ہیں” اے ہمارے خداوند اور خدا تو ہی تجید اور عزت اورقدرت کے لائق ہے کیونکہ تو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں” مکاشفہ11:4 ۔AK 423.6

    مکاشفہ چودھویں باب میں بنی نوع انسان کو خدا کی پرستش کرنے کی بلاہٹ ملی ہے اورپیشنگوئی تہرے پیغام کے نتیجہ میں ایک گروہ خدا کے احکام کو بجالانا ہے۔ ایک حکم ایسا بی ہے جو راہ راست خدا کی طرف اشارہ کرنا ہے کو وہ خالق ہے۔ چوتھا حکم یوں ہے” ساتواں دن خداوند تیرے خدا کاسبت ہے۔ کیونکہ خدا نے چھ دن میں آسمان اور زمین اور سمندر اور جو کچھ ان میں ہے وہ سب بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ اس لئے خداوند نے سبت کے دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھرایا” خروج10:20 ۔ سبت کے بارے خداوند مزید فرماتا ہے” میرے اور تمھارے درمیان نشان ہوں تاکہ تم جانو کہ میں خداوند ہوں” حزتی ایل20:20 اور اس کیلئے یہ دلیل دی گئی ہے۔AK 424.1

    “میرے اور بنی اسرائیل کے درمیان یہ ہمیشہ کیلئے ایک نشان رہے گا اس لئے کہ چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کرکے تازہ دم ہوا۔“خروج17:31۔AK 424.2

    “سبت کی اہمیت تخلیق کی یاد میں اسلئے ہے کیونکہ یہ خدا کی پرستش کے لئے حقیقی جواز پیدا کرتی ہے۔ کیونکہ وہ خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں۔AK 424.3

    “اس لئے سبت میں الٰہی عبادت کی بنیاد ہے۔ کیونکہ یہ حکم اس صداقت کو بڑے موثر انداز میں سکھاتا ہے۔اس کے علاوہ کوئی اور قاعدہ یا ضابطہ الٰہی عبادت کی حقیقی بنیاد فراہم نہیں کرتا۔ نہ صرف ساتویں دن پر ہی بلکہ تمام عبادت کیلئے، کیونکہ یہی خالق اور مخلوق میں حقیقی امتیاز ہے۔ یہ عظیم صداقت کبھی بھی متروک اور فرسودو نہیں ہوسکتی اور نہ ہی اسے فراموش کرنا چاہئے“۔AK 424.4

    J.N. Andrews’s history of Sabbath, chapter 27AK 424.5

    اسی صداقت کو ہمیشہ انسان کے ذہن نشین رکھنے کیلئے خداوند تعالیٰ نے سبت کو باغ عدن میں دیا۔ کیونکہ جب تک ہم اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ وہ ہمارا خالق ہے اور جب تک یہ سبت اس کے نشان اور یادگار کے طور پر جاری رکھا جائے گا تو یہ دلیل کافی ہوگی کہ خداوند ہماری عبادت کا مستحق ہے۔ اگر سبت کو عالمگیر سطح پر منایا جاتا تو آل آدم کے خیالات اور محبت اپنے خالق کی طرف جاتے اور وہ اسی کی تعظیم اور عبادت کرتے۔ پھر دنیا میں کوئی بت پرست ، دہرایہ یا ملحد نہ ہوتا۔ سبت کا ماننا خداوند خدا سے وفا کا نشان ہے۔ یعنی حقیقی خدا سے” جس نے آسمان اور زمین، سمندر پیدا کیے” وہ پیغام جو بنی نوع انسان کو خداکی عبادت اور اس کے احکام کو ماننے کا تقاضا کرتا ہے وہ انہیں خصوصی طور پر چوتھے حکم کو ماننے کے لئے بھی حکم دیتا ہے۔AK 424.6

    جو لوگ خداوند کے احکام کو مانتے اور مسیح کے ایمان کو رکھتے ہیں ان کے مدِمقابل تیسرا فرشتہ ایک اور گروہ کی خطاؤں کی طرف اشارہ کرکے انہیں ایک سنجیدہ اور ہولناک وارننگ دیتا ہے۔” جو کوئی اس حیوان اور اس کے بت کی پرستش کرے اور اپنے ماتھے یا اپنے ہاتھ پر اس کی چھاپ لے لے۔ وہ خدا کے قہر کی اس خالص مے کوپئے گاجو اس کے غضب کے پیالے میں بھری گئی ہے اور پاک فرشتوں کے سامنے اور برہ کے سامنے آگ اور گندھک کے عذاب میں مبتلا ہوگا” مکاشفہ10-9:14 ۔ اس پیغام کو سمجھنے کیلئے جو علامات استعمال کی گئی ہیں ان کی درست تشریح ضروری ہے۔ حیوان اس کے بت اور چھاپ سے کیا مراد ہے؟AK 425.1

    وہ پیشنگوئی جس میں مندرجہ کی یہ علامات ملتی ہیں دراصل مکاشفہ12 باب کے اژدہا سے شروع ہوتی ہیں۔ جو مسیح کی پیدائش کے وقت اس کی جان لینا چاہتا تھا۔ اژدہا ابلیس کو کہا گیا ہے مکاشفہ7:12 ۔ یہ شیطان ہی تھا جس نے ہیرودیس کو اشتعال دلایا کہ وہ نجات دہندہ کہ مرواڈالے۔ مگر پہلی مسیحی صدی میں وہ جو ابلیس کا بہت بڑا ایجنٹ تھا اوعر جس نے مسیح یسوع اور اس کے لوگوں کے خلاف جنگ کی” رومی حکومت تھی۔ جس کے زمانہ میں بت پرست مذہب عروج پر تھا۔ اس لئے اگرچہ گو اژدہا ابتدا میں شیطان کی نمائندگی کرتا ہے، مگر دوسری جانب یہ بت پرست روم کی بھی علامت ہے۔AK 425.2

    تیرھویں باب میں (1 تا10 آیات ) ایک اور حیوان کا ذکر کیا گیا ہے” اس کی شکل تیندوے کی سی ہے” جس کو اژدہا نے اپنی “قدرت اور اپنا تخت اور اختیار دے دیا” اس علامت کے بارے پر ونسلٹنس کا ماننا ہے کہ یہ پوپ کی مذہبی حکومت کی علامت ہے جس نے قدیم رومن امپائر سے اپنا تخت حکومت اور طاقت لی۔ وہ حیوان جس کی شکل تیندوے کیطرح تھی اس کے بارے کہا گیا ہے” اور بڑے بول بولنے اور کفربکنے اور اسے یہ اختیار دیا گیا کہ مقدسوں سے لڑے اور ان پر غالب آئے۔ اور اسے ہر قبیلہ اور امت اور اہلِ زبان اور قوم پر اختیار دیا گیا” یہ پیشنگوئی دانی ایل کے ساتویں باب کے چھوٹے سینگ سے دلی طور پر ملتی جلتی ہے اور بلا شبہ پوپ کی مذہبی حکومت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔AK 425.3

    ” اسے بیالیس مہینے تک کام کرنے کا اختیار دیا گیا” مکاشفہ5:13 اور نبی فرماتا ہے” میں نے اس کے سروں میں سے ایک پر گویا زخم کاری لگا ہوا دیکھا” مکاشفہ3:13 ۔ اور پھر جو کوئی تلوار سے قتل کریگا وہ ضرور تلواار سے قتل کیا جائیگا” مکاشفہ3:13 ۔ جو کوئی تلوار سے قتل کریگا وہ ضرور تلوار سے قتل کیا جائیگا” مکاشفہ10:13 ۔ یہ 42 ماہ دانی ایل کے ساتویں باب بھی بیان کئے گئے ہیں۔ یعنی” ایک دور اور دوروں اور نیم دور” وہ وقت جس دوران پوپ کی حکومت خدا کے لوگوں کو ایزا دیگی۔ اس زمانے کا ذکر اگلے ابواب میں کیا گیا ہے جو538ء میں جب پوپ کی حکومت کو اختیار دیا گیا اور جو ٹھیک1260 سالوں بعد1798ء میں ختم ہوا۔ اس وقت فرانس کی آرمی نے پوپ کو گرفتار کرایا۔ پوپ کی حکومت کو کاری زخم لگا اور پیشنگوئی پوری ہوئی” جو قید میں پڑے گا“۔AK 426.1

    اس موقع پر ایک اور علامت کا تعارف کروایا گیا۔ نبی فرماتا ہے “پھر میں نے ایک اورحیوان کو زمین میں سے نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس کے برہ کے سے دو سینگ تھے اور اژدہا کی طرح بولتا تھا” مکاشفہ11:13۔ اس کی شکل و صورت اوعر اس حیوان کا زمین سے نکلنے کا انداز یہ ظاہر کرتا ہے کہ جس قوم کی یہ نمائندگی کرتا ہے وہ اسی طرح ہے جس کا ذکر اگلی علامات سے واضع ہے۔ وہ بڑی بڑی حکومتیں جنہوں نے دنیا پر حکمرانی کی وہ دانی ایل نبی کو حیوانوں کی علامتوں میں دکھائی گئیں۔ ” آسمان کی چاروں ہوائیں سمندر پر زور سے چلیں” دانی ایل2:7 اور مکاشفہ سترھواں باب بیان کرتا ہے کہ” پانی امتوں، گروہوں، قوموں اوعر زبانوں کی نمائندگی کرتا ہے” مکاشفہ15:17 ” ہوا” مقابلہ کرنے کی علامت ہے۔“چاروں ہوائیں” جو بڑے سمندر پر چلیں۔ فتوحات کے ہولناک مناظر کو پیش کرتی ہیں۔ جس کیلئے سلطنتیں زور مارتی اور تخت و تاج حاصل کرتی ہیں۔AK 426.2

    مگر وہ حیوان جس کے برہ کے سے دو سینگ تھے” اس کو زمین سے نکلتے ہوئے دکھایا گیا” ۔بجائے اس کے کہ وہ دوسری حکومتوں کو زیر کرکے خودقابض ہو جائے۔ یہ قوم لازماً اس علاقے سے نکلنے کی نمائندگی کرتی ہے جو پہلے ہی اس کے قبضہ میں تھا۔ اور وہ بتدریج امن و سلامتی سے بڑھی پھولی۔ یہ پرانی دنیا میں سے نہ ابھری جس میں قومیں آپس میں دست و گریباں تھی۔ یہ ان لوگوں، گروہوں، قوموں اور زبانوں میں سے نہ نکلی جو جنگ و جدل اوعر خون خرابے میں لت پت تھیں اور ایسا ضرور مغربی براعظم ہی ہوسکتا ہے۔AK 426.3

    1798 کے قریب نئی دنیا کی وہ کونسی قوم تھی جو دنیا کی طاقتور قوم کے طور پر ابھری۔ جس نے قوت عظمت دینے کے وعدے کئے اور دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرلیا؟ اس علامت کا اطلاق جس قوم پر ہوتا ہے وہ بلاشبہ ایک ہی قوم ہے جس پر یہ پیشنگوئی صادق آتی ہے۔ اور وہ ہے یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ہے۔ مورخین نے بار بار تقریباً اسی خیال کی تائید کی ہے جو کلام مقدس نے بھی کہا تھا۔ یعنی ایک حیوان“زمین میں سے نکل رہا تھا” اور یہاں سے اوپر آرہا تھا۔ جس کے معنی ہیں پودے کی طرح اگنایا بڑھتا اور جیسے کہ ہم نے دیکھا ہے یہ قوم اسی علاقے سے ابھری جو اس کے زیر تسلط تھا۔ ایک معروف مصنف یونائیٹڈ سٹیٹس کے بڑھنے کے بارے میں یوں کہتا ہے” اس کا اس طرح خلا میں سے نمودار ہونا بڑا ہی پُراسرار ہے” ۔ اس کا کہنا ہے کہ خاموش سرکنڈے کیطرح ہم ایک ایمپائر میں ڈھل گئے” ۔AK 426.4

    T.A Townsend the new world compared with the old page 462 AK 427.1

    ایک یورپین جنرل نے1850 میں یونائیٹڈ سٹیٹس کے بارے کہا کہ وہ بہت ہی حیرت انگیز ایمپائر ہے جو اُبھررہی ہے اور آئے روز اپنی قوت، جاو و جلال اور اختیار میں اضافہ کرتی جارہی ہے۔ایڈورڈ ایورٹ نے اس قوم کے یاتری بانیوں پر خطبہ دیتے ہوئے کہا” کیا انہوں نے کسی دور افتادو خطہ کی تمنا کی تھی۔ جو گمنام مگر با ضرر اور ہر لحاظ سے محفوظ مامون ہو۔ جہاں لیڈن کی چھوٹی سی کلیسیا ضمیر کی آزادی حاصل کرسکے اور بڑے بڑے طاقتور ریجنز کے اوپر پرامن صلیب کے جھنڈے لہرائے۔ Speech delivered at plymouth, massachuselts, December, 22, 1824 page 11 AK 427.2

    مذید لکھا ہے کہ” اس کے سے دو سینگ تھے ” مکاشفہ 11:13 برے کے سے سینگ جوانی، معصومیت، شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں اور یہ سب کچھ یونائیٹڈ سٹیٹس کیھ سبھاؤ کی نمائنکگی کرتی ہیں۔ اسے نبی نے 1788 میں اوپر نکلتے دیکھا۔ مسیحی جلاوطنوں میں سے جو پہلے امریکا بھاگ گئے۔ اور انہوں نے حکومتی جبر اور مذہبی رہنماؤں کیلئے بے جا تکرار اور دباؤ کے سبب یہ ارادہ کرلیا کہ وہ ایک ایسی حکومت قائم کریں گے جس میں مذہبی اور سول آزادی ہو۔ ان کے خیالات خود مختاری کے اقرار نامے میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں بہت بڑی صداقت پائی جاتی ہے کہ تمام لوگ مساوی پیدا کئے گئے ہیں” اور سب کو زندگی، آزادی اور خوشی و مسرت کا برابر برابر حق ہے۔ اور منشور لوگوں کو اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ وہ خود آپ اپنی حکومت بنائیں، اور نمائندگان عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر آئیں اوعر وہ منشور کے مطابق خدمت انجام دیں۔ اس میں مذہبی آزادی کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔ہر شخص کو آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے ضمیر کے مطابق خداوند خدا کی عبادت و پرستش کرے۔ ری پبلکن ازم اور پروٹسٹنٹ ازم قوم کے بنیادی اصولات قرار پائے۔ یہی اصولات اس کی قوت اور ترقی کا راز ہیں۔ مسیحی حکومت کے تمام کچلے اور رد کیے ہوئے اس سرزمین کی طرف بڑے شوق اور امید کے ساتھ چلے آئے۔ کروڑہا لوگ اس کے ساحل سمندر آگئے یوں یونائیٹڈ سٹیٹس دنیا کی دیگر طاقتور قوموں کے درمیان ابھرا۔AK 427.3

    لیکن وہ حیوان جس کے برے کے سے سینگ تھے ” وہ اژدہا کیطرح بولتا تھا۔ اور یہ پہلے حیوان کا سارا اختیار اس کے سامنے کام میں لانا تھا۔ اور زمین اور اس کے رہنے والوں سے اس حیوان کی پرستش کرانا تھا جس کا زخم کاری اچھا ہوگیا تھا۔ اور وہ زمین کے رہنے والوں سے کہتا تھا کہ جس حیوان کے تلوار لگی تھی اور وہ زندہ ہوگیا اس کا بت بناؤ” مکاشفہ14-11:13۔AK 428.1

    برے کے سے سینگ اور اژدہا کی آواز یہ تو وہ متضاد باتیں ہیں اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس کا منشور جو کہتا ہے اس کے کام اس کے بالکل برعکس ہیں۔ اس قوم کا بولنا اس کی قانون ساز اسمبلی اور جوڈیشل اتھارٹی کا عمل ہے۔ اس طرح کے ایکشن سے ان لبرل اور پرامن اصولات سے جھوٹ بولتا ہے جن کو اس قوم نے اپنی پالیسی کی بنیاد بنا رکھا ہے” ۔پیشنگوئی کہ یہ “اژدہا کیطرح” بولے گا۔ اور پہلے والے حیوان کی طاقت اور اختیار کو کام میں لائے گا۔ پہلے ہی سے اس روح کا مظاہرہ رہا ہے۔ نہ برداشت کرنا اور ایذا رسانی جو اس قوم نے کر دکھائی وہ اژدہا اور تیندوے جیسے حیوان کی ہی نمائندگی کرتے ہیں اوریہ عبارت کہ دو سینگوں والا حیوان” زمین اور زمین کے رہنے والوں کو پہلے حیوان کا بت بنانے کیلئے کہے گا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس قوم کے ارباب اختیار کچھ ایسے دستور اور رواج اپنائیں گے جس سے پوپ کی عزت افزائی ہوگی۔AK 428.2

    اسطرح کا ایکشن براہراست گورنمنٹ فری ایسوسی ایشن، خود مختاری اور منشور کے متضاد ہے۔ اس قوم کے بانیوں نے بڑی عقلمندی سے کلیسیا میں سیاسی عمل دخل کی بڑی سختی سے ممانعت کی تھی۔ جس کا شرطیہ نتیجہ عدم تشدد اور دوسروں کو برداشت کرنا نکلا۔منشور میں یہ موجود ہے کہ“کانگرس کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گا جو کسی مزہب کو قائم یا ترقی دینے کے بارے ہو۔ سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ نہ ھی کسی پبلک آفس یا یونایٹڈ سٹیٹس کے کسی ادارے کیلئے کوالیفائی ہونے کے لئے کسی مزہب کا تقاضا کیا جائیگا۔کیونکہ ایسی برملا خلل اندازی قوم کی آزادی کی محافظ نہیں ہوسکتی۔ کیا سول اتھارٹی کسی مذہب کو منوا کر مذہبی آزادی کو قائم رکھ سکتی ہے؟ لیکن اس ایکشن کی غیرمطابقت عین اس علامت کے مطابق ہے جس کی نمائندہ ہے۔ یہ وہ حیوان ہے جس کے برہ کے سے سینگ ہیں۔ اس کا اقرار پاکیزہ شریفانہ اور بے ضرر ہے۔ مگر وہ اژدہا کیطرح بولتا ہے” ۔ زمین اور اس کے رہنے والوں سے کہتا ہے کہ اس کا بت بناؤ۔ بالکل اسی قسم کی حکومت کو یہاں پیش کیا گیا ہے جہاں قانون ساز ادارہ لوگوں پر دباؤ ڈالتا ہے۔ اور یہ ثبوت حیران کن ہے کہ اس پیشکنگوئی میں جس کا ذکر کرلیا گیا ہے وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہی ہے۔ مگر حیوان کا بت کیا ہے؟اور یہ کیسے بنایا جاتا ہے۔ دو سینگوں والے حیوان کے ذریعہ بت بنایا جاتا ہے۔ یہ بت کیسا ہے اور کیسے بنایا جاتا ہے۔ ہمیں اس حیوان کی خصوصیات کو جاننا ہوگا۔ یہ سب کچھ پوپ کی مزہبی حکومت کو جاننا ہوگا جو پوپ کی مذہبی حکومت کی علامت ہے۔AK 428.3

    جب ابتدائی دور کی کلیسیا نے انجیل کی سادگی کو ترک کرنے کے سبب بدکاری کی مرتکب اور بت پرستوں کے رسم و رواج اور دوستور قبول کرلئے تو وہ خدا کے روح اور اس کی قوت سے وہ محروم ہوگئی اور لوگوں کی روح پر قبضہ کرنے کیلئے کلیسیا نے غیر مذہبی مدد حاصل کرلی۔ اس کے نتیجہ میں پوپ کی مذہبی حکومت معرض وجود میں آئی۔ وہ کلیسیا جس نے حکومت کے اختیارات کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کرکدیا خصوصاً بدعت کو سبق سکھانے کیلئے۔ حیوان کا بت بنانے کیلئے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کیلئے لازم تھا کہ وہ مذہبی قوت سول گورنمنٹ کو کنٹرول کرے اور کلیسیائی گورنمنٹ کے اختیارات کو بھی اپنے مقاصد حاصل کرنے کیلئے استعمال کرسکے۔AK 429.1

    جب کسی بھی کلیسیا نے غیر مذہبی طاقت حاصل کی تو اس نے ان سبھوں کو سزا دی جنہوں نے ان کے عقیدے سے اختلاف کیا۔ وہ پروٹسٹنٹ چرچز فو روم کے نقشِ قدم پر چلے اور غیر مذہبی یا دنیاوی اختیارات کے ساتھ الحاق کیا انہوں نے بھع ضمیر کی آزادی کو محدود کرنے کی چاہت کی۔ اس کی مثال انگلینڈ کلیسیا کی ہے جس نے اس کے عقیدے سے انحراف کرنے والوں کو عرصہ دراز تک ایذارسانی کا نشانہ بنایا۔ سولہویں اور سترھویں صدی کے دوران ہزاروں ایسے منسٹرز جو کلیسیا انگلستان کے عقیدے کو نہیں مانتے تھے انہیں مجبور کیا گیا کہ ان کے چرچز کو چھوڑدیں۔ اور بہت سے اور لوگ اور پاسبان تھے جن کو جرمانے کئے گئے۔ پابند سلاسل کیا گیا۔ اذیتیں پہنچائی گئیں اور بہتوں کو شہید کیا گیا۔AK 429.2

    یہ برگشتھی تھی جس کی وجہ سے ابتدائی کلیسیا کو سول گورنمنٹ کی حمایت حاصل کرنے کی ضرورت پڑی اور اسی نے پوپ کی مذہبی حکومت کی راہ ہموار کی۔ پولس رسول حیوان کے بارے یوں فرماتا ہے۔“وہ دن نہیں آئیگا جبتک کہ پہلے برگشتگی نہ آئے اور وہ گناہ کاشخص یعنی ہلاکت کا فرزند ظاہر نہ ہو” کتاب مقدس کافرمانا ہے کہ مسیح یسوع کی آمد ثانی سے پیشتر اسی طرح کی اخلاقی پستی ہوگی جیسی پہلی صدیوں میں تھی۔ ” اخیر زمانہ میں برے دن آئیں گے کیونکہ آدمی خودغرض زردوست، شیخی باز،مغرور، بدگو، ماں باپ کے نافرمان، ناشکر، ناپاک، طبعی محبت سے خالی، سنگدل، تہمت لگانے والے ، بیضبط تند مزاج، نیکی کے دشمن، دغاباز، ڈھیٹھ، گھمنڈ کرنے والے خدا کی نسبت عیش و عشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہونگے۔ وہ دینداری کی وضع تو رکھیں گے مگر اس کے اثر کو قبول نہ کریں گے۔ ایسوں سے بھی کنارہ کرنا” تیمتھیس5-1:3۔AK 429.3

    ” لیکن روح صاف فرماتا ہے کہ آئندہ زمانوں میں بعض لوگ گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو کرایمان سے برگشتہ ہوجائیں گے” 1 تیمتھیس1:4 یوں ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان پوری قوت سے کام کرے گا۔AK 430.1

    ” اور جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کیساتھ ہوگیا اور وہ سب“جتنے لوگ حق کا یقین نہیں کرتے بلکہ ناراستی کو پسند کرتے ہیں وہ سب سزا پائیں گے” 2 تھسلنیکیوں11-9:2۔ جب ناراستی اس سطح پر پہنچ جائیگی تو پہلی صدیوں جیسے نتائج برآمد ہونگے۔AK 430.2

    بعض ایک کے نزدیک پروٹسنٹنٹ کلیسیاؤں میں فرق فرق عقائد کی وجہ سے اسے حتمی ثبوت خیال کرتے ہیں کہ ان کے اتحاد کیلئے کبھی بھی کوئی کوشش کامیاب نہ ہوسکے گی۔ مگر پروٹسٹنٹ ایمان کی کلیسیاؤں میں کئی سالوں سے یہ پرزور خواہش رھی ہے کہ جن جن مشترکہ پوائنٹس میں وہ متفق ہیں ان کی بنیاد پر اتحاد کرلیں۔ایسے اتحاد کو قائم کرنے کیلئے ڈسکشن میں اس مضمون پر وہ پوائنٹس بھی شامل ہیں جن پر وہ آپس میں متفق نہیں ہیں۔اسلئے انہیں جان لینا چاہیے کہ یہ بائبل کے نقطہ نظر سے خواہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں ان سے دست کش ہونا پڑے گا۔AK 430.3

    1846 میں چارلس بيچر(Beecher) نے اپنے واعظ میں اعلانیہ کہا کہ ایولجلیکل پروٹسٹنٹ کلیسیائیں وہ نہ صرف انسانی خوف و خطرے کے تحت قائم ہوئی ہوتی ہیں۔ بلکہ وہ زندہ ہیں اور چلتی پھرتی ہیں اور ان چیزوں میں سانس لیتی ہیں جو بنیادی طور پر بداخلاقی ہیں اور اپنی فطرت کے ہر عنصر سے ہر لمحہ اپیل کرتی ہیں کہ صداقت کو رفع دفع کردیں اور برگشتگی کے آگے گھٹنے نشین ہوجائیں۔ کیا یہی روم میں نہیں ہو گزراتھا؟ کیا ہم روم کی سی زندگی نہیں گزار رہے؟ اور آگے ہمیں کیا دکھائی دے رہا ہے؟ ایک اور جنرل کونسل! ایک دنیا کا کنونشن ایونجنلیکل اتحاد اور یونیورسل عقیدہ!AK 430.4

    ٰIndiana, Feb22, 1846. Sermon on “the Bible a suffient creed” deliered at fort wayneAK 431.1

    . جب یہ حاصل کرلیا جائیگا تو پھر مکمل یکسانیت حاصل کرنے کیلئے کوشش کی جائیگی اور یہ قدم آخری کوشش ثابت ہوگا۔AK 431.2

    جب یونائیٹڈ سٹیٹس کی نامور کلیسیائیں عقائد کے ایسے نقاط پر متفق ہوجائیں گی جن کو وہ مشترک غلط خیال کرتے ہیں، پھر وہ حکومت پر اثر انداز ہونگے تاکہ وہ ان فیصلوں کو لاگو کریں اور ان کے دستور کی دستگیری کریں۔ یوں امریکہ پوپ کی پیشوائی کا بت بنائے گا اور جو ان کے فرمان سے انحراف کریگا اسے سول اتھارٹی کیطرف سے سزا دلوائی جائیگی۔AK 431.3

    دو سینگوں والا حیوان سب کو حکم دیتا ہے خواہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، آزاد ہو یا غلام کہ وہ اپنے دہنے ہاتھ پر یا پیشانی پر اس کی چھاپ لے۔ اور اس کے سوا کوئی دوسرا کچھ بچ سکے گا اورنہ ہی خرید سکے گا جس پر اس کی مہر نہ ہو یا اس کے نام کا نمبر نہ لکھاہو۔تیسرے فرشتے کا پیغام یہ ہے” جو کوئی اس حیوان اور اس کے بت کی پرستش کرے اور اپنے ماتھے یا اپنے ہاتھ پر اس کی چھاپ لے لے۔ وہ خدا کے قہر کی اس خالص مے کو پئے گا جو اس کے غضب کے پیالے میں بھری گئی ہے” اس پیغام میں حیوان کا ذکر آیا ہے جس کی عبادت دو سینگوں والے حیوان نے لاگو کروائی یہ پہلا یا تندوے جیسا حیوان ہے جس کا ذکرمکاشفہ13 باب میں پایا گیا ہے۔ اور وہ پوپ کی مذہبی حکومت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ حیوان کا بت اس پروٹسٹنٹ ازم کی برگشتگی کی علامت ہے جو اس وقت قائم ہوگی جب پروٹسٹنٹ کلیسیائیں اس حکم کے نفاذ کیلئے سول اتھارٹی کی حمایت چاہیں گے۔ حیوان کے بت کی مذید وضاحت درکار ہے۔ AK 431.4

    حیوان اور اس کے بت کی پرستش کی آگاہی کے بعد پیشنگوئی یوں گویا ہے ” خدا کے حکموں پر عمل کرنے والوں اور یسوع پر یمان رکھنے والوں کے صبر کا یہی موقع ہے“مکاشفہ12:14 جو خداوند کے احکام مانتے ہیں ان کو ان لوگوں کے برعکس دکھایا گیا ہے جو حیوان اور اس کے بت کی پرستش کرتے ہیں۔AK 431.5

    ایک طرف وہ ہیں جو خدا کے احکام مانتے ہیں اور دوسری طرف وہ ہیں جو اس کے احکام کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ ان دونوں گروہوں میں یہی امتیازی فرق ہے۔AK 431.6

    حیوان اور اس کے بت کی خصوصیات اپنانا ہی حق تعالیٰ کی شریعت کو توڑنا ہے۔ دانی ایل چھوٹے سینگ پوپ کی مذہبی حکومت کے بارے یوں فرماتا ہے” وہ مقررہ اوقات و شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا” دانی ایل25:7 اور پولس رسول بھی اس “گناہ کے آدمی” کے بارے یہی فرماتا ہے کو وہ خود کو خدا پر فوقیت دیتا ہے۔جو کوئی بھی جانتے بوجھتے ہوئے ان احکام کو ماننے جن میں تبدیلی کی گئی ہے۔ تو وہ اس قوت کی عزت افزائی کرتا ہے جس نے ایسا کیا ہے۔ پوپ کے ان احکام کو ماننا ایسی چھاپ ہے جس کے ذریعہ خدا کی بجائے پوپ سے اپنی وفا عہد کرنا ہے۔AK 432.1

    پوپ نے خدا کی شریعت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا حکم بتوں کی پرستش کی ممانعت کرتا ہے اسی لیے اسے شریعت سے نکال دیا گیا ہے۔ اور چوتھے حکم کو اس طرح تبدیل کیا گیا ہے کہ ساتویں دن کی بجائے ہفتے کے پہلے دن کو منانے کا اختیار کے دیا گیا ہیہ۔ مگر دوسرے حکم کے خاتمہ کے لئے پوپ کے حواری یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس کا پہلے حکم کے اندر آنا بے معنی ہے۔ اور انہوں نے ان کی تعداد وہی رکھی ہے جو خدا کی شریعت میں ہے۔ جیسے نبی نے پہلے سے کہہ دیا کہ یہ تبدیل کرنے کی کوشش کریگا۔ اس نے تو بڑی بیباکی سے اس میں تبدیلی لانے کی کوشش کی ہے۔“وہ مقررہ اوقات شریعت کو بدلنے کی کوشش کریگا” چوتھے حکم میں تبدیلی پیشنگوئی کی تکمیل ہے۔ اور روم کی کلیسیا اسکی تبدیلی پر نازاں ہے۔ یہ ہے پوپ کا اختیار ظاہرہ خود کو خدا سے بڑا بناتا ہے۔AK 432.2

    لہٰذا خدا کے عبادت گزاروں کی شناخت چوتھے حکم کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ یہ اس کی تخلیقی قوت کا نشان ہے اور اسی وجہ سے انسان کافرض ہے کہ وہ خدا کی عبادت و پرستش کرے۔جب کہ حیوان کی پرستش کرنے والوں کا امتیازی نشان یہ ہوگا کہ وہ خدا کی تخلیق کی یادگاری کو مسمار کرنا اور روم کے فرمان کو ممتاز کرنا ہے۔ اور اتوار کے حق میں ہی پوپ کی نظامِ حکومت نے گھمنڈ کیا اور حکومتی اداروں کا یہ پہلا قدم تھا کہ وہ“خدا کے دن” کے طور پر لوگوں کو اتوار ماننے پر مجبور کرے۔ مگر کتاب مقدس ساتویں دن کو ” خدا کا دن” کہتی ہے نہ کہ پہلے دن کو مسیح یسوع نے فرمایا” ابنِ آدم سبت کا بھی مالک ہے” مرقس28:2اور نبی فرماتا ہے کہ یہ خداوند کا” مقدس دن ہے” یسعیا13:58 AK 432.3

    اکثر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسیح یسوع نے سبت کو تبدیل کردیا ہے۔ مگر خود مسیح یسوع ان کے اس دعویٰ کی یوں تروید کرتا ہے۔ کوہ برکات پر اپنے واعظ میں اس نے کہا” یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہر گز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہوجائے۔ پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا“متی19:17۔AK 433.1

    عام طور پر اس حقیقت کو پروٹسٹنٹ مانتے ہیں کہ پاک فرشتے سبت کو تبدیل کرنے کو اختیار نہیں دیتے۔ یہ بڑی صفائی کیساتھ ان پبلیکیشنز میں بیان آیا ہے جو امریکن ٹریکٹ سوسائٹی اور امریکن سنڈے سکول یونین نے شائع کئے۔ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ” سبت کو اتوار میں تبدیل کرنے کے بارے عہد جدید بالکل خاموش ہے۔ SeargeElliott, the abiding sabbath, page.184AK 433.2

    ایک اور صاحب فرماتے ہیں ” مسیح یسوع کی موت تک اس دن میں کوئی تبدیلی نہیں لی گئی تھی۔ اور جہاں تک ہمیں رسولوں کا ریکارڈ بتاتا ہے کوئی ایسا حکم نہیں ملتا جو ساتویں دن سبت کی منسوخی کے بارے ہو اور نہ ہی یہ کہ اس کی جگہ ہفتے کے پہلے دن(اتوار) کو منایا جائے۔ A.E.Waffle , the lords day, pages.186-188AK 433.3

    رومن کیتھولکس یہ مانتے ہیں کہ سبت کی تبدیلی ان کی کلیسیا نے کی ہے اور پروٹسٹنٹ اس کو ماننے سے خود بخود روم کے اختیار کو تسلیم کرتے ہیں۔ کیتھولک کے کیٹی کزم آف کرسچن ریلیجن میں چوتھے حکم کو ماننے کا جواب دیتے ہوئے یہ اقتباس پیش کیا۔“عہد عتیق کے دوران ہفتہ مقدس دن ٹھرایا گیا تھا۔ مگرکلیسیا نے مسیح یسوع کی ہدایت کے تحت اور خدا کی روح کی رہنمائی میں سنڈے کو ہفتے کے عوض رکھ لیا ہے۔ اب ہم پہلے دن کو مقدس ٹھراتے ہیں نہ کہ ساتویں کہ۔ اب سے اتوار کا مطلب“خدا کا دن” ہے۔ کیتھولک کلیسیا کے اختیار کا نشان پوپ پرست مصنفین یہ بیان کرتے ہیں۔” سبت کو اتوار میں تبدیل کرنے کا یہی عمل جس کی اجازت پروٹسٹنٹس دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے مان رہے ہیں۔ اس لئے وہ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ رومی کلیسیا تہواروں کو بھی مخصوص کرنے کا اختیار رکھتی ہے” ۔AK 433.4

    Henry Tubevile, an abridement of the christian doctrine, page 58 پھر سبت کی تبدیلی کیا ہے۔ یہ رومن کلیسیا کے اختیار کی ایک چھاپ ہے” حیوان کی چھاپ” رومن کیتھولک کلیسیا اپنے اختیار اعلےٰ سے دستبردار نہیں ہوا۔ جب دنیا اور پروٹسٹنٹ کلیسیاؤں نے اس سبت کو قبول کرلیا ہے۔ جو اس نے بنایا ہے اور بائبل کے سبت کو رد کردیا ہے تو وہ یقیناً اسکے اس مفروضے کوبھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس تبدیلی کے لئے وہ روایات اور فادرز کے اختیار کا دعوٰی کرتے ہیں۔ مگر ایسا کرنے سے وہ اس اصول کو نظرانداز کرتے ہیں جو انہیں روم سے الگ کرتا ہے۔ بائبل اور صرف بائبل ، یہی پروٹسٹنٹس کا مذہب ہے۔ پوپ پرست یہ دیکھ رہے ہیں کہ جان بوجھ کر خود کو فریب دے رہے ہیں اور اس معاملہ میں حقیقت سے آنکھیں چُرا رہے ہیں۔ جیسے جیسے کہ اتوار کو نافذ کرنے کی تحریک حمایت حاصل کررہی ہے۔ وہ خوشیاں منا رہا ہے۔ اور اسے یوں محسوس ہورہا ہے کہ بالآخر تمام پروٹسٹنٹ دنیا کو روم کے جھنڈے تلے لے آئیگا۔ روم پرست اعلانیہ کہتے ہیں” سنڈے کو مقدس جاننے سے پروٹسٹنٹس کیتھولک کلیسیا کی اطاعت کررہی ہے۔AK 434.1

    MRG segur, plain talk about the protestanism of day, page 213. AK 434.2

    پروٹسٹنٹ کلیسیا کی طرف سے اتوار کا نفاز اصل میں پوپ پرستی کا نفاذ ہے۔ یہی حیوان کی پرستش ہے۔ وہ سب جو چوتھے حکم کے دعویٰ کو سمجھتے ہیں مگر وہ حقیقی سبت کی بجائے جھوٹے سبت کو ماننے کا انتخاب کرتے ہیں تو اس سے وہ اس قوت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں جس نے ایسا حکم دیا ہے۔ لیکن پھر ایسے نظام کے نفاذ کیلئے غیر مذہبی طاقت کا سہارا لینا اور ان کو ایسی مذہبی ڈیوٹی دینا اسی سے کلیسیائیں اس حیوان کا بت بنائیں گی۔ اس لیے یوں سے یونائیٹڈ سٹیٹس میں سنڈے کو ماننا اصل میں حیوان اور اس کی پرستش کو نافذ کرنا ہے۔AK 434.3

    قدیم پشتوں کے مسیحی یہ جان کر اتوار کو مانتے تھے کہ یہ بائبل کا ہی سبت ہے۔ لیکن اب ہر کلیسیا میں حقیقی مسیحی موجود ہیں اور وہ رومن کیتھولک کے ساتھ میل جول کو قبول نہیں کرتے، مگر وہ بڑی ایمانداری سے اتوار کو ہی خدا کا مقرر کیا ہوا سبت مانتے ہیں۔ خداوند ان کے مقصد کی ایمانداری اور نیک نیتی کو سمجھنا ہے۔ لیکن جب قانون کے ذریعہ اتوار کو جبراً نافذ کردیا جائے گا اور دنیا کو حقیقی سبت کے بارے ان کے فرائض سے روشناس کرایا جائے گا۔ تب جو کوئی بھی خدا کے حکم کی نافرمانی کر کے روم کی تابعداری کریگا جس کے اوپر اور کوئی اتھارٹی نہ ہوگی۔ تو وہ یقیناًپوپ کے نظام پر ترجیع دیگا۔وہ روم اور اس قوت کی عزت افزائی کررہا ہے جس نے یہ دستور مخصوص کیا ہے۔ وہ حیوان اور اس کے بت کی پرستش کررہا ہے۔ جب بنی نوع انسان خدا کے اس دستور کو رد کرتے ہیں جو خکا نے کہا کہ میرے اختیار کا نشان ہے اور اس کے عوض اس نشان کو چنتے ہیں فو روم نے اپنے اختیار اعلےٰ کا نشان مقرر کیا ہے تو وہ روم کے ساتھ وفا نبھانے کا عہد کرتے ہیں وہ ” حیوان کی چھاپ لیتے ہیں” اور یہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک لوگوں کو واضع طور پر نہ کہا جایئگا کہ وہ خدا کے احکام اور انسان کے احکام کے درمیان اپنا چناؤ کر لیں۔ اور وہ سب جو مسلسل خدا کے احکام کو توڑتے رہیں گے وہ ” حیوان کی چھاپ” قبول کریں گے۔AK 434.4

    تیسرے فرشتے کے پیغام میں بنی نوع انسان کو انتہا کی سنجیدہ آگاہی دی گئی ہے۔ وہ بہت ہی خطرناک گناہ ہو سکتا ہے جس پرخدا کا قہر نازل ہوگا اور اس میں رحم بالکل نہ ہوگا۔ اس اہم معاملہ کی بابت آل آدم کو اندھیرے میں نہیں رکھا جائے گا اس گناہ کے خلاف آگاہی خدا کی عدالت سے پہلے دی جائے گی تاکہ سب کو پتہ چل سکے کہ وہ کیوں اس اذیت میں مبتلا ہوئے ہیں جس سے ان کے پاس بچ نکلنے کا موقع ہوگا۔ پیشنگوئی بیان کرتی ہے کہ پہلا فرشتہ سب ” زمین کے رہنے والوں کی ہر قوم اور قبیلہ اور اہل زباں اور امت” کو اپنا پیغام دیگا تیسرے فرشتے کی وارننگ جو تہرے پیغام کا ایک حصہ ہے یہ بھی ہر جگہ کیلئے ہے۔ پیشنگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اس نے بڑی آواز سے کہا۔ اور یہ آسمان میں اڑتا ہوا فرشتہ تھا۔ جو اس دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرئے گا۔AK 435.1

    اس نازک مرحلہ پر تمام مسیحی سلطنتیں دو گروہوں میں بٹ جائیں گی۔ ایک گروہ وہ ہوگا جو خدا کے احکام کو مانتی اور مسیح یسوع کے ایمان میں قائم ہے۔ اور دوسرا گروہ حیوان اور اس کے بت کی پرستش کرتا اور اس کی چھاپ حاصل کرتا ہے۔ بیشک ریاست اور کلیسیا سب کو مجبور کرنے کیلئے اپنی قوت کو متحد کریں گے” سب چھوٹے بڑوں دولتمندوں اور غریبوں، آزادوں اور غلاموں ” مکاشفہ16:13 سب کو مجبور کریں گے تاکہ وہ حیوان کی چھاپ لیں۔ مگر خداوند کے لوگ اسے نہیں لیں گے۔ یوحنا عارف نے ان کو دیکھا جو اس حیوان کی چھاپ لیں۔ مگر خداوند کے لوگ اسے نہیں لیں گے۔ یوحنا عارف نے ان کو دیکھا جو اس حیوان اس کی چھاپ اور اس کے بت اوراس کے نام کے عدد پر غالب آئے تھے وہ شیشے کے سمندر کے پاس خدا کی برکتیں لئے کھڑے ہوئے دیکھا۔ اور وہ خدا کے بندہ موسیٰ کا گیت اور برہ کا گیت گا رہے تھے۔ مکاشفہ32:15AK 435.2

    *****

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents