Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

عظیم کشمکش

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First

    نانواں باب - سوئس اصلاح کار

    کلیسیا کی اصلاح کے لئے جو طریقہ کار استعما ل کیا گیا، یہ وہی الہی منصوبہ ہےجو کلیسیا کو قائم کرنے کے لئے تجویز کیا گیاتھا۔ استاد آسمانی زمینی نامور مردوں کے پاس سے گزر گیا- اس نے امیر کبیر لوگوں کو نہیں چنا جو لوگوں کے لیڈر ہونے کے ناطے ان سے تعریف اور عزت کے خواہاں تھے- وہ اپنے اعلی مراتب کے باعث اس قدر گھمنڈی اور خود اعتماد تھے کہ انھیں اپنے بھائی بندوں سے ہمدردی کرنے کے لئے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا، اور نہ ہی وہ ناصرت کے فروتن مرد کے ساتھ مل کر کام کر سکتے تھے- گلیل کے بے علم محنتی ماہی گیروں کومسیح یسوع نے بلاہٹ دی کہا کہ ” میرے پیچھے چلے آؤ تو میں تمکو آدمگیر بناؤں گا” (متی19-4 )- چونکہ یہ شاگرد فروتن تھے اس لئے انہیں سکھایا جا سکتا تھا- اپنے زمانے کی جس قدر کم جھوٹی تعلیم انہوں نے پائی تھی اسی قدر زیادہ کامیابی سے مسیح یسوع انھیں اپنی خدمت کے لئے ہدایت اور تربیت دے سکتا تھا- پس عظیم ریفریمیشن کے زمانہ میں بھی یہ مصلح رہنما معمولی سے اشخاص تھے- ایسے اشخاص جن کی زندگی میں اعلی مرتبے کی وجہ سے کسی طرح کے غرور کا شائبہ نہ تھا- وہ تعصب اور ہٹ دھرمی سے بلکل پاک تھے- یہ خداوند کا منصوبہ تھا کہ وہ معمولی اوزاروں سے عظیم نتائج حاصل کرے- یوں انسان کو نہیں بلکہ اسکو جلال ملتا ہے جو ان کے ذریعہ کام کرتا ہے-AK 166.1

    جب سیکسونی میں ایک کان کن کے چھوٹے سے کمرے میں لوتھر کی پیدائش ہوئی تو اس کے چند ہفتوں بعد ایلپس (ALPS) میں الریک زونگلی (ULRIC ZWINGLI) کی پیدائش ایک چرواہے کی جھونپڑی میں ہوئی- بچپن میں زونگلی کے گرد وپیش اور ابتدائی تربیت ایسی تھی جس نے اسے مستقبل کے مشن کے لئے تیاری بخشی- وہ قدرتی مناظر کی عظمت، خوبصورتی اور شاندار ارتقائی عروج میں پلا بڑھا- ابتدا میں ہی اس کا ذہن خدا کی آن بان، قدرت اور بزرگی سے متاثر ہوا تھا- تاریخ کے عظیم کارنامے جنہوں نے اس کی جوانی کو تحریک بخشی وہ اس نے اپنے آبائی پہاڑوں پر ہی حاصل کئے تھے- اور اپنی راستباز دادی اماں کے پہلو میں بیٹھ کر اس نے وہ چند بائبل کی بیش قیمت کہانیاں سنی تھیں، جن کی خوشہ چینی دادی اماں نے بزرگان دین کے قصوں اور کلیسا کی روایات سے کی تھی- اس نے بڑی دلچسپی اور دلجمعی سے قدیم آبائی بزرگوں کے کارناموں کو سنا-اور چرواہوں کی کہانیاں جو فلسطین کی پہاڑیوں پر اپنات گلے چرا رہے تھے جہاں فرشتوں نے ان کے ساتھ بیت الحم کے چھوٹے بچے اور کلوری کے مرد کے بارے گفتگو کی-AK 166.2

    جان لوتھر کی طرح، زونگلی کے باپ نے بھی بیٹے کی تعلیم پر خاصی توجہ دی- اور بچے کو چھوٹی ہی عمر میں اپنی آبائی وادی سے دور بھیج دیا- اس کا ذہن بہت جلد بڑھا پھولا اور پھر سوال پیدا ہوا کہ کہاں کوئی ایسا قابل ٹیچر دستیاب ہو جو اسے پڑھائے- 13 سال کی عمر میں اسے برن (BERN) بھیجا گیا جو سوئٹزر لینڈ کا بہت ہی ممتاز سکول سمجھا جاتا تھا- مگر یہاں یہ خطرہ پیدا ہوا جو اس کی زندگی کے امید افزا وعدہ سکو گھٹن لگنے کے مترادف تھا- رہبوں کی طرف سے سر توڑ کوشش کی گئی کہ وہ خانقاہ میں چلا جائے- ڈومنی کین (Dominican) اور فرانسس کین مانکس (Monks) ہر دلعزیزی حاصل کرنے کے لئے زونگلی کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے پوری پوری کوشش میں تھے- اس کے لئے انہوں نے اپنی اپنی کلیسیا کی آرائش وزیبائش کی نمود کی- اور بتایاکہ وہ کہ ان کی رسوم کیسی شاندار ہیں-AK 167.1

    برن (Bern)کے ڈومنی کینز نے دیکھا کہ اگر وہ اس باوصف سکالر کو جیت لیں تو انہیں مالی فوائد اور عزت وآبرو بھی مل جائے گی- اس کی مثالی یوتھ، خطاب کرنے اور قلمکاری کی فطری صلاحیت، میوزک اور فن شاعری کی خدادا قابلیت، انکی ساری شان وشوکت اور ظاہری نمود سے بڑھ چڑھ کر تھی- وہ جان گئے تھے کہ اس کی وجہ سے لوگ ان کی سروسز کی طرف کھینچے چلے آئیں گے اور یوں ان کی آمدنی میں اضافہ ہو گا- دھوکے فریب اور لالچ سے انہوں نے زونگلی کو مائل کیا کہ وہ کانونٹ میں داخل ہو جائے- لوتھر جب سکول میں طالب علم تھا تو اس نے خود کو کانونٹ حجرے میں مدفون کر لیا تھا- اور اگر خداوند خدا کی پروردگاری اسے وہاں سے مخلصی نہ بخشتی تو وہ برباد ہو جاتا- لیکن زونگلی کو اس طرح کی مصیبت جھیلنے کی اجازت نہ دی گئی- AK 167.2

    خدا کی پروردگاری نے اس کے باپ کو راہبوں کی طرز زندگی کے بارے آگاہ کر دیا تھا اس لئے اس کا کوئی ارادہ نہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے سکو مانکس (Monks)کی بے وقعت زندگی کی پیروی کرنے کی اجازت دے دے- اس نے دیکھا کہ اس کا کار آمد مستقبل خطرے میں ہے لہٰذا باپ نے اسے حکم دیا کہ فورا گھر واپس آ جاؤ-AK 167.3

    حکم کی تعمیل کی گئی- مگر یہ نوجوان اپنی آبائی وادی میں زیادہ در تک رہنے پر راضی نہ ہوا- چناچہ اس نے اپنی سٹڈیز سکو جلد جاری کر لیا اور کچھ وقت گزار کر بیزل (Basel) چلا گیا- یہاں پر زونگلی نے پہلی بار خدا کے مفت فضل کے بارے سنا- وٹم بیچ (Wittembach) جو قدیم زمانوں کی زبانوں کا ٹیچر تھا اور جب وہ یونانی اور عبرانی زبانوں کا مطالعہ کر رہا تھا تو پاک کلام کی جانب اس کی رہنمائی کی گئی، یوں وہ طالب علم جو اس کی زیر نگرانی تعلیم پا رہے تھے ان کے اذہان پر الہی روشنی کی شعائیں چمکیں- اس نے بیان کیا کہ سکول ٹیچرز اور فلاسفرز جو نظریات بیان کرتے ہیں- ان سے بھی زیادہ قدیم سچائی موجود ہے جو ان سے کہیں زیادہ بیش قیمت اور بے پایاں اور عظیم ہے- یہ قدیم سچائی یہ تھی کہ مسیح یسوع کی موت گنہگاروں کے لئے واحد کفارہ ہے- زونگلی کے لئے یہ کلام روشنی کی وہ پہلی کرن تھا جس کے بعد نور کا تڑکا ہوا-AK 168.1

    زونگلی کو بیزل سے جلد بلا لیا گیا تاکہ وہ اس خدمت کا آغاز کرے جو اسے عمر بھر انجام دینا تھی- الپائن پیرش میں اس کی پہلی خدمت کا آغاز ہوا جو اس کی آبائی وادی سے کوئی زیادہ دور نہ تھا- ایک پاسبان کے طور پر اس کی مخصوصیت ہوئی اس نے بدل وجان سچائی کی تلاش شروع کر دی- اس لئے اسے اچھی طرح علم تھا، اس کے ایک ہمخدمت اصلاح کار نے کہا- کہ اسے کس قدر علم ہونا چاہیے کہ “مسیح یسوع کا گلہ کس کے سپرد کیا جا رہا ہے”- Wylie, B, 6, ch.5 AK 168.2

    جتنی زیادہ اس نے الہامی نوشتوں کی تحقیق کی اتنا ہی واضح اسے الہامی نوشتوں کی سچائی اور روم کی بدعتوں میں تغاوت دکھائی دیا- اس نے خود کو بائبل کے سپرد کر دیا جو خدا کا پاک کلام ہے- جو ہمارے لئے کافی اور شافی ہونے کے علاوہ لاخطا بھی ہے- اس نے یہ بھی دیکھا کہ اس کی خود اپنی تفسیر ہونی چاہیے- اس نے اس تھیوری یا تعلیمات پر جو پہلے حاصل کی تھیں کلام کے مطابق ان کی تفسیر کی- بلکہ اپنا یہ فرض جانا کہ وہ وہی کچھ سیکھے اور سکھائے گا جو کلام مقدس کی ظاہرہ تعلیم اور ہدایت ہے- اس نے ہر وہ مدد حاصل کی جو اس کے معنوں کی درست اور پوری پوری سوجھ بوجھ حاصل کرنے کے لئے ممد ثابت ہوا اور اس نے روح القدس کی مدد کے لئے التجا کی، جو ان سب کے لئے آشکارہ کرتا ہے جو نیک نیتی اور دعا کے ذریعہ اس کی تلاش کرتے ہیں-AK 168.3

    زونگلی نے کہا کہ الہامی نوشتے خداوند خدا کی طرف سے آتے ہیں نہ کہ انسانوں کی طرف سے — اور پھر بھی وہ خداوند جو خیالوں کو روشنی عطا کرتا ہے وہ آپ کو سمجھنے کی توفیق عطا کرتا ہے قوت گویائی بھی خداوند خدا کی طرف سے ملتی ہے- خدا کا کلام کبھی ناکام نہیں ہوتا- یہ روشن وتاباں ہے- یہ خود سکھاتا ہے- یہ خود ہی اپنے بارے بتاتا ہے- یہ نجات اور فضل سے روح کو منور کرتا ہے- یہ خدا کا آرام مہیا کرتا ہے- یہ فروتن کرتا ہے اور یہ خداوند خدا اسے جوڑے رکھتا ہے- اس کلام کی سچائی کو خود زونگلی نے ثابت کیا تھا-اپنے تجربات پر کلام کرنے کے بعد اس نے لکھا- “جب میں نے خود کو مکمل طور سے کلام مقدس کے لئے وقف کر دیا تو فلاسفی اور تھیالوجی ہمیشہ میرے ساتھ متصادم دکھائی دیتیں- بالآخر میں نے سب لغویات سکو چھوڑ دینے کا فیصلہ کر لیا کہ میں صرف خدا کے پاک کلام سے ہی اس کے معنی سیکھوں گا- پھر میں خدا کو اس کی روشنی کے لئے التجا کرنے لگا اور الہامی نسخے میرے لئے آسان تر ہو گئے”- IBID.B.7ch.6 AK 168.4

    جس تعلیم کا زونگلی نے پرچار کیا وہ اس نے لوتھر سے حاصل نہیں کی تھی- یہ تو مسیح یسوع کی تعلیم تھی- “اگر لوتھر مسیح یسوع کی منادی کرتا ہے” تو اس نے وہی کچھ کیا جو میں کرتا ہوں- لوگوں کی تعداد جنھیں وہ مسیح یسوع کے قریب لایا- اس تعداد سے زیادہ ہے جنھیں میں مسیح یسوع کے قدموں میں لایا مگر یہ کوئی بڑی بات نہیں- میں یسوع نام کے بغیر کوئی اور نہیں جانوں گا جس کا میں سپاہی ہوں- جو واحد میرا چیف ہے- لوتھر نے کبھی بھی مجھے ایک لفظ تک نہیں لکھا اور نہ ہی میں نے لوتھر سکو لکھا- کیوں؟ یہ اس لئے کہ پتہ چل جائے کہ خدا کی روح تضاد سے خالی ہے- ہم دونوں بغیر کسی جھگڑے کے مسیح یسوع کی وہی تعلیم پھیلاتے ہیں جس کا ایک سا اصول ہے- D’ aubigne,8.ch.9AK 169.1

    1516میں زونگلی کو اینیسڈلن (Einsiedeln) کانونٹ میں پاسبانی کی پیشکش کی گئی- یہاں وہ روم کی کرپشن کو بڑے قریب سے دیکھ سکتا تھا- بطور ایک اصلاح کار کے اس پر اپنے آبائی ایلپس کی نسبت کہیں زیادہ موثر انداز میں دباؤ ڈال سکتا تھا- اینیسیڈلن (Einsiedeln) میں زیادہ دلکشی کا باعث کنواری کا مجسمہ تھا جس کے بارے مشہور تھا کہ اس میں معجزات دکھانے کی قدرت ہے- وہاں کانونٹ گیٹ وے (Gateway) کے اوپر کتبہ پر یہ لکھا گیا تھا “یہاں تمام گناہوں کی معافی حاصل ہو سکتی ہے” IBID.B.ch.5 AK 169.2

    کنواری کے بت کی یاترہ کے لئے ویسے تو سیاح ہر وقت آتے جاتے رہتے ہیں- مگر ایک سالانہ نذر نیاز چڑھانے کا جشن بھی منایا جاتا ہے جس میں سویتزرلنڈ کے تمام علاقوں کے لوگ شرکت کرتے ہیں- بلکہ بہت سے لوگ جرمنی اور فرانس سے بھی یاترہ کے لئے آتے ہیں- زونگلی اس منظر سے بڑا برجبیں ہوتا تھا- اس نے اوہام پرستی کے غلاموں کو انجیل کے ذریعے آزادی کا پیغام پہنچانے کے لئے اس موقع سکو غنیمت جانا- اس نے کہا یں تصور نہ کرو خداوند خدا کائنات کے دوسرے حصوں کی نسبت اسی ہیکل میں ہے خواہ آپ کسی بھی ملک میں کیوں نہ رہتے ہوں، خداوند خدا آپکے پاس ہے اور وہ آپکی سنتا ہے- کیا بیگاری، دوردراز کی یاترہ، نذرانے، کنواری کا بت یا دوسرے مقدسین سے مناجات آپ کے لئے خدا کا فضل حاصل کر سکتے ہیں؟ بھیڑ کو ان الفاظ سے کیا فائدہ جو وہ اپنی مناجات میں ادا کرتے ہیں- چمکیلی بھڑکیلی ہیروں کی ٹوپی میں کیا وصف ہے- لمبے اور ڈھلکتے ہوۓ چوغے یا سونے کی تاروں سے مرصع سلیپرز میں کیا تاثیر ہے؟ خداوند خدا دلوں پر نظر کرتا ہے اور ہمارے دل اس سے کوسوں دور ہیں- اس نے کہا “مسیح یسوع جو صلیب پر قربان ہو گیا، وہی قربانی اور قربانی کا برہ ہے، اسی نے ابدیت تک ایمانداروں کے گناہوں کی قیمت چکا دی گئی ہے”- Ibid,B,8,ch.5. AK 169.3

    بہت سے سامعین نے اس تعلیم کو ناپسند کیا- انھیں یہ سننا ناگوار گزرا کہ انکا یہ تکلیف دہ سفر بے فائدہ گیا ہے- مسیح یسوع کے ذریعہ گناہوں کی مفت معافی کی پیشکش کو وہ سمجھ نہ پائے- وہ اسی پرانے طریقے سے گناہوں کی معافی پر تسلی پذیر تھے جو روم نے وضع کر رکھا تھا- وہ اس سے کوئی بہتر چیز کی تلاش سے گریز کرتے تھے- ان کے لئے پریسٹس اور پوپ پر نجات کے لئے انحصار کرنا، دل کی پاکیزگی پانے سے آسان تھا-AK 170.1

    مگر دوسری کلاس نے مسیح یسوع کے ذریعہ سے نجات کی خوشخبری کو بڑی خوشی سے قبول کیا- روم کی بجاآوری ان کے دل اور روح کو سکون نہ دے سکی- اور انہوں نے ایمان کی روح سے مسیح یسوع کے خون کو اپنا کفارہ تسلیم کر لیا- انہوں نے واپس اپنے گھروں میں جا کر دوسروں پر اس بیش قیمت روشنی کو عیاں کیا جو انہوں نے حاصل کی تھی- یوں سچائی گاؤں تا گاؤں، قصبہ تا قصبہ پہنچ گئی- اور کنواری کے مقبرہ پر آنے والے یاتریوں کی تعداد میں خاصی کمی واقع ہوئی- ہدیہ جات کم سے کم ہو گئے-جس کے نتیجہ میں زونگلی کی تنخواہ میں بھی کمی ہوئی کیونکہ یہ تنخواہ بھی انہی نذرانوں سے دی جاتی تھی مگر اس سے اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اوہام پرستی اور مذہبی جنون کی کمر ٹوٹ رہی ہے-AK 170.2

    کلیسیا کے ارباب اختیار زونگلی کے کام سے بےخبر نہ تھے- مگر وقتی طور پر انہوں نے اس کے کام میں مداخلت کرنے سے اس امید پر گریز کیا کہ شاید ہم اسے حاصل کر لیں گے- انہوں نے اسے چاپلوسی اور خوشامد سے جیتنے کی کوشش کی- مگر اسی دوران سچائی لوگوں کے دلوں میں گھر کر رہی تھی-AK 170.3

    اینسیڈلن میں زونگلی کی محنت نے اسے بڑے پیمانے پر خدمت کے لئے تیار کر دیا تھا جس میں وہ جلد داخل ہونے کو تھا- یہاں 3 برس خدمت کرنے کے بعد اسے زورخ (Zurich) کے کیتھڈرل میں بطور مناد کے بلاہٹ ملی- اس وقت زورخ سوئس متحدہ ریاستوں کا بہت اہم قصبہ تھا- اور یہاں پر جس طرح کا تاثر دینے کی کوشش کی جاتی اس کا دورونزدیک اثر پڑتا- اور وہ مذہبی جماعت جس کی دعوت پر وہ زورخ آیا کسی بھی جدت کو دیکھنے کی خواہش نہ رکھتی تھی، چناچہ انہوں نے اسے اس کے فرائض سے آگاہ کیا-AK 171.1

    انہوں نے کہا کہ “آپ ہر طرح کی جدوجہد کر کے پادریوں کی جماعت کے لئے چندہ حاصل کر سکتے ہیں اور کم سے کم چندے سکو بھی نظرانداز نہ کرنا- جو ایماندار ہیں انھیں پلپٹ سے اور اعتراف کے وقت بھی نصیحت کرنا کہ وہ اپنی ساری دہ یکی اور دوسرے بقایا جات ادا کریں- انہیں بتائیں کہ آپ کے چند پیسوں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کلیسا سے کس قدر محبت رکھتے ہیں- آپ ان بیماروں سے جو شفا پا چکے ہیں اور عوام سے بڑی جانفشانی سے ہدیہ جات لے کر آمدنی میں اضافہ کرے عشائے ربانی کا انتظام کرنا، منادی اور گلے کی چوپانی آپکی ذمہ داری ہے”- ان ہدایت کرنے والوں نے مزید کہا کہ ان باتوں کے علاوہ بھی اس پر چیپلن کی ذمہ داریاں ہیں- ان کے لئے، آپ مدد گار رکھ سکتے ہیں، خصوصاً منادی کے لئے آپ صرف ان کو عشائے ربانی میں شریک کریں گے جو نیک نام ہیں- اور وہ بھی اس وقت جب انہیں بلایا جائے- لوگوں میں امتیاز کئے بغیر آپکو یہ رسم ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے”- Ibid.B.8.ch.6 AK 171.2

    ان ساری باتوں کو زونگلی نے بڑی خاموشی سے سنا- اور اس نے اس اہم عہدے کی بلاہٹ کی عزت افزائی کے شکریہ ادا کرنے کے بعد جواب میں ان سے کہا کہ “میں جو کچھ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں وہ میں آپ پر واضح کرنا چاہتا ہوں” اس نے مزید کہا “مسیح یسوع کی زندگی” بہت عرصۂ تک لوگوں سے چھپی رہی ہے- میں متی رسول کی ساری انجیل کی منادی کروں گا- الہامی نسخوں کے چشموں سے پانی کھینچوں گا- اس کی تہ تک جاؤں گا- ایک عبارت کا دوسری عبارت کے ساتھ موازنہ کروں گا- اور بلاناغہ مخلص دعا کے ذریعہ اسے سمجھنے کی کوشش کروں گا- یہ خدا کے جلال کے لئے ہے- یہی روحوں کی حقیقی نجات کے لئے درکار ہے، اور ان سکو حقیقی ایمان سمجھانے کے لئے ضروری ہے- ان ہی کے لئے میں اپنی خدمت وقف کروں گا”- Ibid,B.8.Ch. AK 171.3

    گو بعض پاسبانوں نے اسکی تجویز سے اتفاق نہ کیا اور کوشش کی کہ اسے اس سے باز رکھیں- مگر زونگلی اپنی بات پر قائم رہا- اس نے کہا کہ میں کوئی نیا طریقہ متعارف نہیں کروا رہا- بلکہ یہ وہی طریقہ ہے جو کلیسیا نے ابتدا میں پاکیزہ وقتوں میں اپنایا تھا- جو سچائی اس نے سکھائی اس میں پیشتر ہی دلچسپی بڑھنا شروع ہو گئی تھی- اور لوگ جوق در جوق اس کی منادی سننے کے لئے جمع ہونا شروع ہو گئے-اور وہ حضرات جنہوں نے کافی عرصۂ سے کلیسیا آنا چھوڑ دیا تھا اس کے سامعین میں آ ملے- اس نے اپنی خدمات کا آغاز انجیل کو کھولنے، پڑھنے اور اپنے سامعین کے لئے اس کی تشریح کرنے سے کیا- اس نے مسیح یسوع کی زندگی، تعلیم اور اسکی موت کے بارے سکھایا- یہاں بھی اس نے اینسیڈلن کی طرح، خدا کے کلام کو لا خطا اور بااختیار ہونے کے طور پر پیش کیا- اور بتایا کہ مسیح یسوع کی موت کامل کفارہ ہے- اس نے کہا “یہ مسیح یسوع ہی ہے جس تک میں تمہیں پہنچانے کی تمنا کرتا ہوں کیونکہ وہی نجات کا حقیقی منبع ہے”- BID,B,8,Ch,6AK 172.1

    مناد کے گرد ہر طبقہ کے لوگ جمع ہو گئے- جن میں ریاستی نمائندے، سکالرز، دستکار اور کسان تک شامل تھے- اس کے کلام کو انہوں نے گہری دلچسپی سے سنا- وہ نہ صرف مفت نجات کی پیشکش کرتا تھا- بلکہ بڑی بیباکی سے موجودہ وقت کی کرپشن اور بدکاریوں کی ملامت بھی کرتا تھا- بہت سے حضرات جب کیتھیڈرل سے خدا کی تعریف کرتے ہوۓ باہر آتے تو کہتے کہ یہ آدمی سچائی کا مناد ہے- یہی ہمارا موسیٰ ہو گا جو ہمیں اس مصری تاریکی سے نکلنے میں مدد ورہنمائی کرے گا- ID,B,8,Ch,6 AK 172.2

    گو شروع شروع میں اسکی محنت کو بڑی خوشی اور جذبے کے ساتھ قبول کیا گیا- مگر کچھ دیر بعد مخالفت شروع ہو گئی- راہب حضرات (مانکس-Monks ) اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے اس کے کام میں رکاوٹ ڈالنے اور اس کی تعلیم کی عیب جوئی کرنا شروع کر دی-AK 172.3

    بعض نے تو اس پر لعنت ملامت کی اور اس کا مذاق اڑایا- بعض نے اس سے گستاخی کی اور دھمکیاں دیں- مگر زونگلی نے یہ سب کچھ یہ کہتے ہوۓ بڑے صبر سے برداشت کیا کہ ” اگر ہم ناراستوں کو یسوع کے لئے جیتنا چاہتے ہیں تو ہمیں کئی چیزوں کی طرف سے آنکھیں بند رکھنی ہوں گی-” BID,B,6,Ch,6. AK 172.4

    اسی دوران ایک اور ایجنسی اس اصلاح مذھب کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے آئی — ایک لوسین (Lucian) کو زورخ میں لوتھر کی چند تصانیف دے کہ بھیجا گیا- اسے اصلاح کار کے ایک دوست نے بھیجا تھا جو بیزل (Basel) میں مقیم تھا اور بھی اصلاح کاروں کی باتوں پر ایمان رکھتا تھا، اس نے بتایا کہ لوتھر کی ان کتابوں کی فروخت روشنی پھیلانے میں بہت بڑا کردار ادا کریں گی- تاہم زونگلی سکو اس نے لوسین کے متعلق لکھا یہ “ضرور تحقیق کر لینا کہ یہ آدمی عاقبت اندیش ہے یا نہیں اور اگر ہے تو اسے لوتھر کے اس کام سکو اور خصوصاً اسکی تشریح دعائے ربانی جو اس نے لے ممبرز (LAYMEMBERS) کے لئے لکھی ہے شہر تا شہر، قصبہ تا قصبہ، گاؤں تا گاؤں بلکہ گھر تا گھر، سوئس کے درمیاں پہنچائے- جتنا زیادہ ان کا علم بڑھے گا اتنی ہی زیادہ ان کی فروخت ہو گی”- Ibid,B,8,Ch,6,AK 172.5

    یوں روشنی نے وہاں داخل ہونے کی راہ پائی- جب بھی خداوند خدا جہالت اور اوہام پرستی کی زنجیریں توڑنے کی تیاری کرتا ہے، اسی وقت ابلیس انسانوں کو اندھیرے میں رکھنے کے لئے بڑی قوت کے ساتھ کام کرتا ہے اور انکی بیڑیوں کو مزید مضبوطی سے باندھ دیتا ہے- جب ایک طرف مختلف ملکوں میں لوگ اٹھ رہے تھے کہ مسیح یسوع کے خون کے وسیلہ سے راستبازی اور گناہوں کی معافی کی پیشکش کریں، تو روم نے اپنی تازہ اور بھرپور قوت کے ساتھ تمام مسیحی ممالک میں گناہوں کی معافی پیسوں سے بیچنے کی منسٹری کھول دی-AK 173.1

    ہر گناہ کی قیمت مقرر تھی اور گر کلیسیا کا خزانہ اچھی طرح بھرا ہے تو انسانوں کو گناہ کرنے کا مفت لائسنس مہیا کیا جا رہا تھا- یوں دو تحریکیں آگے بڑھ رہی تھیں- ایک تحریک پیسوں کے بدلے گناہوں کی معافی کی پیشکش کر رہی تھی جبکہ دوسری تحریک مسیح یسوع کے ذریعہ گناہوں کی معافی کی پیشکش کر رہی تھی- روم گناہ کا لائسنس دے رہا تھا اور اسے آمدنی کا ذریعہ بنا رکھا تھا- جبکہ مصلح بھائی گناہ کی ملامت کرتے اور لوگوں کی توجہ مسیح یسوع کی جانب متوجہ کراتے تھے جو ہمارا کفارہ اور مخلصی بخشنے والا ہے- جرمنی میں ڈومینیکین AK 173.2

    (Dominican) راہبوں کو گناہوں کی معافی کی سیل (sale) منعقد کرنے کی اجازت دی گئی اور جس کا سربراہ بدنام ٹٹزل (Tetzel) مقرر کیا گیا اور سوئٹزر لینڈ میں گناہوں کی معافی کی سیل سیمسن (Samson)اٹیلین مانک کی سربراہی میں فرانسسکین (Franciscans)کو سونپی گئی- سیمسن اس سے پیشتر ہی چرچ کو اچھی سروس دے چکا تھا- جرمنی اور سوئٹزر لینڈ سے خطیر رقم بٹور کر پوپ کے خزانے بھر دئیے تھے- اب اس نے سوئٹزر لینڈ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سفر کیا اور بڑے بڑے گروہوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیا- اور غریب کسانوں کو ان کی قلیل آمدنی سے محروم کر دیا- اور امیر طبقہ سے اس نے بڑے تحائف وصول کئے- مگر جب سے اصلاح کا کام چلا تھا اس کے اثر نے اسے کمی کی طرف دھکیل دیا تھا، گو یہ اس کاروبار سکو پوری طرح روکنہ سکا- زونگلی ابھی تک اینسیڈلن میں ہی تھا جب سیمسن سوئٹزر لینڈ میں داخل ہونے کے بعد جلد ہی اپنا سازوسامان لے کر پڑوسی قصبہ میں داخل ہوا- جونہی اصلاح کار سکو سیمسن کے مشن کی آگاہی ہوئی وہ فورا اس کی مخالفت سکو نکل پڑا- ان دونوں کی ملاقات تو نہ ہو سکی، مگر زونگلی نے راہب کی مکاریوں کی قلعی کھول دی اور وہ وہاں سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا اس سے زونگلی کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی- AK 173.3

    زورخ میں گناہوں کی معافی بیچنے والے سوداگروں کے خلاف زونگلی نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ منادی کی-اور جب سیمسن اس جگہ پہنچا تو اسے ایک پیامبر ملا جس کے پاس اس کے لئے کونسل کی طرف سے اطلاعی مراسلہ تھا- وہ کسی نہ کسی طرح سوئٹزر لینڈ میں داخل تو ہو گیا مگر اسے وہاں ایک بھی گناہوں کی معافی کی سیل نہ کرنے دی گئی- اس کے بعد اس نے جلد ہی سوئٹزر لینڈ چھوڑ دیا-AK 174.1

    اصلاح کار کو ایک بہت ہی قوی اور تیز طرار وبا (بنام- گریٹ ڈیتھ) کا سامنا کرنا پڑا- جو سوئٹزر لینڈ پر 1519 میں نازل ہوئی- جب انسانوں کا تباہ وبرباد کرنے والی موت کے ساتھ آمنا سامنا ہوا تو، بہتیرے یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ گناہوں کی معافی نامے خریدنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوا جو انہوں نے تھوڑی دیر پہلے خریدے تھے- اور انہوں نے اپنے ایمان کی محکم بنیاد کی تمنا کی- زونگلی زورخ میں اس وبا کا شکار ہوا- اس وبا نے اسے اس قدر نحیف ونزار کر دیا کہ شفا کی کوئی امید نظر نہیں آتی تھی- اور اس کی موت کی خبریں ہر جگہ مشہور کر دی گئیں- مگر آزمائش کی اس گھڑی میں بھی اس کی امید اور حوصلہ متزلزل نہ ہوا- اس نے ایمان کی آنکھ سے کلوری کی صلیب کو دیکھا- اور گناہوں کے اس کامل کفارہ پر ایمان رکھا- جب وہ موت کے دروازوں سے واپس لوٹا تو اس نے انجیل کی تشہیر پہلے سے کہیں زیادہ جوش وخروش کے ساتھ کرنا شروع کر دی- اور اس کا کلام غیر معمولی قوت کے ساتھ آگے بڑھا- لوگوں نے اپنے پیارے پاسٹر کو جو موت کے دہانے سے بچ کر ان کے پاس آ گیا بڑی خوشی سے خوش آمدید کہا- اور انجیل کی قدر وقیمت کا جو احساس انھیں اس وقت ہوا وہ پہلے کبھی نہ ہوا تھا- زونگلی انجیل کی سچائیوں کی واضح سوجھ بوجھ رکھنے لگا اور اسے اس نے اپنی زندگی میں از سرنو قوت پانے کے حوالے سے جانا- اس نے آدم کے گناہ میں گرنے اور نجات کی تجویز کو اپنا موضوع بنایا- اس نے کہا “آدم میں ہم سب نہ صرف مرتے ہیں، بلکہ تباہی اور لعنت میں دھنس جاتے ہیں”- Wylie, B, 8 ch.9 AK 174.2

    مسیح یسوع نے ہمارے لئے کبھی نہ ختم ہونے والی مخلصی خریدی ہے- اسی کے لئے اس نے ابدی کفارہ دیا ہے- اور اسی میں ابدی شفا موجود ہے- الہی انصاف ان سب کے حق کو تسلی پذیر کرتا ہے جو ثابت قدمی سے اس پر ایمان رکھتے ہیں- تاہم اس نے یہ بات بڑی صفائی سے ان پر واضح کر دی کہ مسیح یسوع کے فضل کی بدولت انسان گناہ میں گھرے رہنے کے لئے آزاد نہیں کیا گیا- “جہاں کہیں بھی خداوند میں ایمان ہے، وہیں پر خداوند موجود ہے- وہ جانتا تھا کہ جہاں کہیں خداوند سکونت کرتا ہے، وہیں اسکی غیرت موجود ہے جو انسانوں کو نیک کام کرنے پر مجبور کرتی ہے”- D’ aubigne,8.ch.9AK 175.1

    زونگلی کی منادی اس قدر دلچسپ تھی کہ اسکی منادی سننے کے لئے کیتھڈرل کھچا کھچ بھر جاتا تھا- سامعین جس قدر صداقت سکو برداشت کر سکتے تھے زونگلی نے اسی قدر صداقت کو ان کے سامنے رکھا- وہ اس بارے کافی محتاط تھا کہ ان کے سامنے ایسے پوائنٹس نہ رکھے جن سے وہ حیران ہو کر تعصب کا شکار نہ ہو جائیں بلکہ اس کا کام تو یسوع مسیح کی تعلیم قبول کرنے کے لئے لوگوں کے دلوں کو جیتنا تھا- اس کی محبت سے انہیں نرم دل بنانا تھا، اور ان کے سامنے مسیح یسوع کا نمونہ رکھنا تھا- اور جونہی وہ انجیل کے اصولوں کو قبول کرنا شروع کر دیں گے تو اوہام پرستی میں ایمان اور اسکی مشق خود بخود جاتی رہے گی-AK 175.2

    زورخ میں ریفریمییشن قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی- اس کے دشمن اس کی مخالفت میں بڑی سرگرمی سے اٹھ کھڑے ہوۓ- ایک برس پہلے وٹن برگ کے مانک (Monk) نے ورمز میں پوپ اور شہنشاہ کو “نہیں” کہا تھا- اب زورخ میں بھی پوپ کے دعووں کا وہی نمونہ نظر آنے لگا تھا- جس کا اب زونگلی کو سامنا تھا- زونگلی پر بار بار حملے کئے گئے- وقتا فوقتا پوپ کے حامیوں کی چھاؤنی میں انجیل کے شاگرودں کو بلیوں سے باندھا گیا- مگر یہ ان کے نزدیک کافی نہیں تھا- بلکہ ان کا مقصد تو بدعتی تعلیم دینے والے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کرنا تھا- اس انجام دہی کے لئے کانسٹینس کے بشپ نے زورخ کی کونسل کے پاس تین ڈیپٹیز (Deputies) کو یہ بتانے کے لئے روانہ کے کہ زونگلی کی تعلیم لوگوں کو چرچ کے قوانین توڑنے پر اکسا رہی ہے- یوں سوسائٹی کے امن وسلامتی سکو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے- اس نے مزید کہا کہ اگر چرچ کے ارباب اختیار سکو ایک طرف کر دیا گیا تو اس کے نتیجہ میں عالمگیر قانونی حکومت تعطل کا شکار ہو جائے گی- اس کے جواب میں زونگلی نے کہا کہ وہ زورخ میں چار سال سے انجیل کی منادی کر رہا ہے- جبکہ اس قصبہ میں ملک کے باقی قصبوں کی نسبت بہتر اور زیادہ امن وامان ہے- کیا یہ بات درست نہیں ہے- “مسیحیت جنرل سیکورٹی کے لئے بہترین محافظ ہے” اس نے کہا- Wylie, B, 8, ch.11 AK 175.3

    ڈپٹیز نے کونسلرز کو نصیحت کی کہ وہ اپنے چرچ میں ہی جاری رہیں- انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس کلیسیا کے باہر اور کہیں نجات نہیں ہے- اس کے جواب میں زونگلی نے کہا “یہ الزام آپ کو متاثر نہ کرے” کلیسیا کی بنیاد صرف اس چٹان پر ہے یعنی مسیح یسوع پر جس نے پطرس کو اس کا نام دیا کیونکہ اس نے اس کا ایمانداری سے اقرار کیا تھا- ہر قوم میں سے جو کوئی بھی اپنے پورے دل سے یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے- خداوند اسے قبول کرتا ہے- لیکن حقیقت میں یہاں وہ کلیسیا ہے جس کے وسیلہ کوئی بھی نجات نہیں پا سکتا” D’ aubigne,London,ed,b,ch,11AK 176.1

    اس کانفرنس کے نتیجہ میں بشپ کے ایک ڈپٹی نے اصلاح شدہ ایمان کو تسلیم کر لیا-AK 176.2

    کونسل نے زونگلی کے خلاف ایکشن لینے سے انکار کر دیا اور روم ایک اور تازہ حملے کے لئے تیار ہو گیا- جب اصلاح کار کو دشمنوں کی اس سازش کا پتہ چلا تو اس نے کہا انھیں آنے دو- “میں ان سے اتنا ہی ڈرتا ہوں، جتنی ایک اونچی کھڑی چٹان ان تندوتیز لہروں سے ڈرتی ہے جو اس کے قدموں سے ٹکرا کر ہنگامہ برپا کرتی ہے”-AK 176.3

    ان پاسبانوں کی جدوجہد نے ریفریمیشن کے اس کام سکو آگے بڑھایا جسے وہ برباد کر دینا چاہتے ہیں- مگر سچائی بدستور پھیلتی گئی- جرمنی میں لوتھر کے غائب ہو جانے کے سبب اس کے پیروکار مایوسی کا شکار ہو چکے تھے- مگر جب انہوں نے سوئٹزر لینڈ میں انجیل کی ترقی کو دیکھا تو وہ دوبارہ دلیر ہو گئے- جیسے جیسے زورخ میں ریفریمیشن قائم ہوتی گئی تو وہاں برائیوں کے دبنے اور امن میں بہتری اور ہم آہنگی آنے سے اس کے پھل نمایاں نظر آنے لگے- زونگلی نے لکھا کہ “ہمارے قصبہ میں امن کی سکونت ہے نہ کوئی جھگڑا، کوئی ریاکاری، کوئی حسد اور نہ کوئی بےچینی ہے- کہاں سے ایسا اتحاد آ سکتا ہے- یہ صرف خداوند خدا اور ہماری تعلیم سے ہی آتا ہے جو ہمیں صلح اور خدا ترسی کے پھل سے بھرپور کرتی ہے؟” Ibid,B,8,Ch,6,AK 176.4

    وہ فتوحات جو ریفریمیشن کی بدولت حاصل ہوئیں اس سے پوپ کے حامی بھڑک اٹھے اور انہوں نے اسے ختم کرنے کے لئے اور زیادہ جدوجہد کرنے کا قصد کر لیا- انہیں یہ بھی اندازہ ہو گیا کہ جرمنی میں لوتھر کے کام کو دبانے اور ایذا رسانی سے کوئی اتنی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی- چناچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اصلاح کے کام کا مقابلہ انہی ہتھیاروں سے کریں جن سے وہ ریفارم کو ترقی دے رہے ہیں- انہوں نے زونگلی کے ساتھ جھگڑے کو ترک کرنے اور سارے معاملہ کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کا سوچا- انہوں نے کہا جگہ کا تعینکئے جانے سے لے کر دونوں پارٹیوں کے درمیان تصفیہ کرانے والے منصفین بھی ہمارے منتخب کردہ ہوں گے- اور اگر وہ ایک بار زونگلی کو اپنے اختیار میں کر لیں تو پھر انھیں احتیاط سے کام لینا ہو گا کہ وہ ان کے ہاتھوں بچ کر نکل نہ جائے- جب لیڈر سکو چپ کرا دیا جائے گا تو تحریک کو بھی فوری تہس نہس کر دیا جائے گا- مگر اس مقصد کو بڑی رازداری سے کرنا ہو گا-AK 176.5

    اس جھگڑے پر بحث وتمحیص کرنے کے لئے بیڈن (Baden)کے مقام کا چناؤ کیا گیا- مگر زونگلی وہاں موجود نہ تھا- زورخ کی کونسل کو پوپ کے حامیوں کی کارکردگی مشکوک نظر آئی-لہذا پوپ کے حامیوں کی چھاؤنی میں انجیل کا اقرار کرنے والوں کے خلاف بھڑکتا دیکھ کر انہوں نے اپنے پاسبان کو منع کر دیا کہ وہ خود کو اس مصیبت میں نہ ڈالے- جتنے بھی روم اپنے نمائندے زورخ میں بھیجتا وہ ان سے ملاقات کے لئے تیار تھا مگر بیڈن کو جانا جہاں سچائی کی خاطر شہیدوں کا خون بہایا گیا تھا وہاں جانا یقینا موت کو دعوت دینا تھا- اوکالمپا ڈیس اور ہیلر (Oecolampadius and Haller) کو اصلاح کار کے نمائندگان کے طور پر چنا گیا- جبکہ دوسری جانب معروف ڈاکٹر اک (ECK) کو چنا گیا جو روم کا چیمپئن تھا اور پڑھے لکھے ڈاکٹروں کی ایک فوج اور کلیسیا کے اعلی عہداداران اس کی معاونت کے لئے تھے-AK 177.1

    گو زونگلی کانفرنس میں نہیں تھا مگر اس کا اثر وہاں محسوس کیا جاتا تھا- تمام سیکرٹریز پوپ کے نمائندوں کی طرف سے چنے گئے- دوسروں سکو نوٹ لینے کی بالکل اجازت نہ تھی- نافرمانی کرنے کی سزا موت رکھی گئی- اس کے باوجود بیڈن میں جو کچھ ہوتا تھا زونگلی کو روزانہ کی کاروائی کے نوٹس مل جاتے تھے- ایک سٹوڈنٹ جو اس مناظرہ میں حاضر تھا وہ ہر شام بحث کے پورے پورے نوٹس بنا کر پیش کر دیتا- یہ پیپرز اوکالمپا ڈیس کے خط کے ساتھ دو سٹوڈنٹس زونگلی کو روزانہ زورخ پہنچا دیتے- زونگلی سوالوں کے جواب اور اصلاح مشورہ دیتا- اس کے خطوط رات کو لکھے جاتے اور سٹوڈنٹس ان خطوط کو لے کر صبح بیڈن پہنچتے- اور سٹی گیٹ پر بازپرس کرنے والے چوکیدار جب ان پیغام رسانوں کو دیکھتے جن کے سروں پر مرغیوں اور انڈوں کی ٹوکریاں ہوتی تھیں تو وہ انہیں بغیر کسی رکاوٹ کے جانے دیتے تھے-AK 177.2

    یوں زونگلی نے اپنے بدمعاش دشمن کے ساتھ جنگ لڑی- مائیکونیس (Myconiuis) نے کہا کہ اس میں زونگلی نے راتوں کو جاگ کر اور اصلاح اور مشورے جو اس نے بیڈن ارسال کئے اور جو اس نے درمیانی کا رول ادا کیا، اگر وہ خود اپنے دشمنوں کے درمیان ہوتا تو اسے اس قدر مشقت نہ اٹھانی پڑتی- D’aubigne,London,ed,b,ch,13AK 178.1

    پوپ کے نمائندے فتح کی امید پر بڑے گھمنڈ سے بیڈن پہنچے- وہ قیمتی لباسوں میں ملبوس تھے- جو ہیروں سے چمک رہے تھے- وہ رنگ رلیاں منا رہے تھے- ان کے میزوں پر دلپسند شراب اور لذیز کھانے چنے گئے تھے- ان کے فرائض منصبی کا بوجھ رنگ رلیوں اور بادہ نوشی کے ذریعہ کم کیا جا رہا تھا- ان کے مقابلہ میں وہ اصلاح کار بالکل برعکس تھے- لوگوں کی نظروں میں وہ شاید گداگروں کے طبقہ سے کچھ ہی قدر بہتر تھے- ان کی کفایت شعاریکے سبب ان کی میز پر اس قدر خوردونوش کا سامان نہیں تھا جو کسی کو زیادہ دیر تک میز پر مصروف رکھے- اوکالمپاڈیس کے لینڈ لارڈ نے اکثر موقع پا کر زونگلی کو اس کے کمرے میں دیکھا کہ وہ ہر وقت مطالعہ کرنے یا دعا کرنے میں مصروف ہے- اور اس پر بڑا حیران تھا کہ جسے بدعتی کہا جا رہا ہے، وہ کس قدر متقی اور پرہیزگار شخص ہے-AK 178.2

    کانفرنس میں اک (ECK) تو بڑا بناؤ سنگھار کر کے پلپٹ پر گیا- مگر یہ حلیم اوکالمپاڈیس جس کا معمولی سا لباس تھا اور جس سے کہا گیا کہ وہ کھردرے سے سٹول پر اپنے مدمقابل کے سامنے جا بیٹھے- Ibid,B,11Ch,613AK 178.3

    اک (ECK) کی بلند آواز اور حد سے زیادہ پریقینی نے اسے کبھی ناکام نہ کیا- اس کا جوش وخروش بعد میں ملنے والے سونے (Gold) کو حاصل کرنے کی امید اور مشہوری پر اور بھی بڑھ گیا- ایمان کے اس دفاع کرنے والے کو ایک اچھی خاصی فیس ملنے کو تھی- اور جب بحث ناکام ہو جاتی تو بے عزتی کا بھی سامنا کرنا پڑتا بلکہ جو حلف اٹھا رکھا ہوتا ہے اس کی بھی ہتک جاتی-AK 178.4

    (اوکالمپاڈیس ایک شریف اور خود پر مان کرنے سے اترانے والا، ایسے مقابلہ کے حق میں بھی نہ تھا وہ وہاں یہ عہد کرتا ہوا آیا کہ “میں کلام خدا سکو بھی ہر پرکھ کا واحد معیار سمجھتا ہوں)- Ibid,B11Ch,13AK 178.5

    گو وہ حسن برتاؤ نہایت شریفانہ اور مودبانہ تھا- مگر اس نے خود کو ثابت کر دیا کہ وہ نہایت ہی قابل اور ارادے کا پکا ہے- پوپ کے حامیوں نے اپنے دستور کے مطابق کلیسیا کی روایات کے اختیار کے لئے درخواست کی- مگر اصلاح کار صرف کلام مقدس کے ساتھ ثابت قدمی سے جڑا رہا- اور کہا “دستور” وہ کہنے لگا کے سوئٹزر لینڈ میں دستور کی کوئی حیثیت نہیں جب تک کہ یہ کونسٹی ٹیوشن کے مطابق نہ ہو اور یہاں چونکہ یہ ایمان کا مسلہ بیان کیا گیا ہے اس لئے بائبل ہی ہمارا واحد دستور (Constitution) ہے- IBid,B,11Ch,13.AK 178.6

    دو متضاد جھگڑوں میں جو نمایاں امتیاز تھا وہ بے اثر نہ رہا- اصلاح کار کے پر امن اور واضح استدلال بڑی شرافت، متانت اور انکساری کے ساتھ پیش کئے گئے وہ ذہنوں میں اتر گئے- جب کہ اک (ECK) کی غرور سے آراستہ مفروضہ شیخیاں جو اس نے چیخ چیخ کر بیان کیں- ذہنوں میں کیا اتریں، کانوں کو بھی ناگوار گزریں-AK 179.1

    اٹھارہ دن تک بحث جاری رہی- اس کے اختتام پر پوپ کے ہحواریوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ فتح کا دعوی کیا- ڈپٹیز (Deputies) نے روم کا ساتھ دیا- اور ڈائٹنے ریفارمر کی مات کا اعلان کر دیا- اور کہا کہ انھیں ان کے لیڈر زونگلی کے ساتھ کلیسیا سے خارج کر دیا جائے- مگر کانفرنس کے ثمرات سے معلوم ہوا کہ کس پارٹی کو فائدہ پنہچا ہے- اس مقابلہ نے پروٹسٹنٹ مقصد سکو بڑی تیزی سے فروغ دیا اور زیادہ عرصۂ نہیں گزرا تھا کہ برن (Bern) اور بیزل کے اہم شہروں نے ریفریمیشن کے لئے اعلان کر دیا-AK 179.2

    *****