تعارف
عظیم کشمکش
- Contents- تمہید
- تعارف
- پہلا باب - یروشلیم کی تباہی
- دوسرا باب - پہلی صدیوں میں ایذا رسانی
- تیسرا باب - روحانی تاریکی کا دَور
- چوتھا باب - والڈنِسس
- پانچواں باب - جان وکلف
- چھٹا باب - ہس اور جیروم
- ساتواں باب - لو تھر کی روم سے علیحدگی
- آٹھواں باب - لوتھر کی کانفرنس (Diet) کے سامنے پیشی
- نانواں باب - سوئس اصلاح کار
- دسواں باب - جرمنی میں اصلاح کی پیش رفت
- گیارہواں باب - شہزادوں کا احتجاج
- بارہواں باب - فرانسسی ریفریمیشن
- تیرہواں باب - نیدر لینڈز اور سیکنڈی نیویا
- چودھواں باب - مابعد انگلش مُصلح حضرات
- پندرہواں باب - بائبل مقدسی اور فرانسسی انقلاب
- سولہواں باب - مسافرآباؤاجداد
- سترہواں باب - نوید صبح
- آٹھارواں باب - ایک امریکی مصلح
- انیسواں باب - تاریکی میں سے نور
- بیسواں باب - غیر معمولی دینی بیداری
- اکیسواں باب - تنبیہ رد کر دی گئی
- بائیسواں باب - پیشینگوئیاں پوری ہو گئیں
- تائیسواں باب - مقدس کیا ہے؟
- چوبیسواں باب - پاکترین مکان میں
- پچیسواں باب - خُدا کی دائمی شریعت
- چھبیسواں باب - اصلاح کا کام
- ستائیسواں باب - موجودہ دور کی بیداریاں
- اٹھائیسواں باب - تفتیشی عدالت
- انتیسواں باب - مبدا (آغاز) گناہ
- تیسواں باب - انسان اور شیطان کے مابین عداوت
- اکتیسواں باب - بری روحوں کی ایجنسی
- بتیسواں باب - شیطان کے پھندے
- تنتیسواں باب - پہلا بڑا دھوکا
- چونتیسواں باب - سپر چولزم مردوں سے باتیں کرنا
- پینتیسواں باب - ضمیر کی آزادی کو خطرہ
- چھتیسواں باب - قریب الوقوع تصادم کا خطرہ
- سینتیسواں باب - کلام مقدس قابل اعتماد محافظ
- اڑتیسواں باب - آخری انتباہ
- انتالیسوں باب - ایذا رسانی کا وقت
- چالیسواں باب - خدا کے لوگوں نے رہائی پائی
- اکتالیسواں باب - زمین کی ویرانی
- بیالیسواں باب - کشمکش کا خاتمہ
Search Results
- Results
- Related
- Featured
- Weighted Relevancy
- Content Sequence
- Relevancy
- Earliest First
- Latest First
- Exact Match First, Root Words Second
- Exact word match
- Root word match
- EGW Collections
- All collections
- Lifetime Works (1845-1917)
- Compilations (1918-present)
- Adventist Pioneer Library
- My Bible
- Dictionary
- Reference
- Short
- Long
- Paragraph
No results.
EGW Extras
Directory
تعارف
گناہ کے داخل ہونے سے پیشتر آدم بلا روک ٹوک اپنے خالق خُداوند کی صحبت حاصل کرتا تھا۔ مگر گناہ کے باعث وہ خُداوند خُدا سے جُدا ہو گیا تو آل آدم اس بڑے حق اور شرف سے محروم ہو گئی۔ تاہم نجات کی تجویز کے باعث راہ تیار کی گئی تا کہ اس دھرتی کے باسی آسمان سے رابطہ کر سکیں۔ خُدا نے اپنی روح کے زریعہ انسان سے رابطہ کیا اور خُدا کے چنیدہ بندوں کے ذریعہ سے دُنیا کو الٰہی نور پہنچایا گیا۔ AK 5.1
“کیونکہ نبوت کی کوئی بات آدمی کی خواہش سے کبھی نہیں ہوئی بلکہ آدمی روح القدس کی تحریک کے سبب سے خُدا کی طرف سے بولتے تھے” 2پطرس21:1۔AK 5.2
انسانی تاریخ کے پہلے 2500 سال کے دوران کوئی بھی مکاشفہ تحریری میں موجود نہ تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو خُدا نے سکھایا اور حکمت سے معمور کیا اُن ہی نے دوسروں تک خُدا کے الہام کو پہنچایا۔ اور یہ مکاشفہ باپ نے اپنے بیٹے کو دیا اور اسی طرح یہ مکاشفہ آنے والی نسلوں تک پہنچا۔ کلام کے لکھنے کی تیاری موسیٰ کے زمانہ میں شروع ہوئی۔ پھر الہامی مکاشفات الہامی کتاب میں ڈھالے گئے۔ اور یہ کام سولہ سو سال تک جاری رہا۔ یعنی موسیٰ سے شروع کر کے جو پیدائش اور توریت کا مورخ ہے مقدس یوحنا تک جس نے انجیل کی صداقتوں کو لکھ کر بلندیوں تک پہچایا سولہ سال کا دورانیہ ہے۔ AK 5.3
کتاب مقدس کا دعویٰ ہے کہ اُس کا مصنف خود خُدا ہے۔ تاہم اسے انسانی ہاتھ ورطہؑ تحریر میں لایا۔ یہ جو ہم مختلف کتابوں میں مختلف طرزِتحریر دیکھتے ہیں۔ یہ انواع و اقسام کے مصنفین کے خصائل کی نمائندگی کریں ہیں۔ تو بھی جو صداقت بیان کی گئی ہےوہ خُدا کی طرف سے ہے۔AK 5.4
ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی سے تربیت کنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے” 2 تیمتھیس 16:3۔ تاہم اس کا اظہار انسانی زبان میں ہوا ہے۔ قادرِ مطلق خُدا نے اپنے روح القدس سے اپنے بندوں کے دلوں پر روشنی کو چمکایا۔ اُسی نے اُنہیں خواب اور رویا دیں۔ اُس نے اُنہیں علامتیں اور استعارے دئیے اور جن پر اس طرح صداقت آشکارا کی گئی اُنہوں نے ان صداقتوں کو انسانی زبان اور خیالات میں ڈھالا۔ AK 5.5
دس احکام خُداوند کے منہ سے صادر ہوئےاور اُس نے انہیں خود اپنے ہاتھ سے لکھا۔ وہ ذاتِ الٰہی سے منسوب ہیں اور اس میں انسانی عمل دخل نیہں۔ مگر کتاب مقدس جس میں خُدا کی طرف سے صداقتیں دی گئی ہیں اُن کا اظہار انسانیزبان میں کیا گیا ہے۔ یعنی اس میں الوہیت اور بشریت دونوں کا امتزاج ہے۔ یہ امتزاج خود مسیح یسوع کی ذاتِ میں بھی موجود تھا۔ وہ بیک وقت ابن آدم اور ابن خُدا دونوں تھا۔ اس لحاظ سے یہ سچ ہے کہ بائبل مقدس مسیح یسوع کی کتاب ہے۔ کیونکہ مسیح کے بارے ہم یوں پڑھتے ہیں “کلام مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا” یوحنا14:1۔ AK 5.6
بائبل مقدس مختلف زمانوں میں لکھی گئی۔ اور لکھنے والے حضرات مختلف مرتبہ اور پیشہ رکھتے تھے۔ وہ مختلف اذہان اور مختلف روحانی صلاحیت کے حامل تھے۔ بائبل مقدس کی کتابوں کی طرزِ تحریر ایک دوسری سے بڑی مختلف ہے، مضامین جو بیان کئے گئے اُن کے بیان کرنے اور محاورات بھی مختلف مصنفین نے مختلف انداز میں پیش کیا ہے۔ جہاں مختلف مصنفین نے ایک ہی موضوع کو مختلف ناطے اور تناطر میں پیش کیا ہے تو شائد ایسا دکھائی دے کہ کسی جگہ سطحی اور بے پرواہی یا تعصب کا مظاہرہ کیا گیا ہے جس سے کچھ تضاد معلوم ہو۔ مگر کوئی بھی ایماندار طالب علم واضح بصیرت کے ساتھ یہ سمجھ سکے گا کی ان سب میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔AK 6.1
چونکہ مختلف حضرات کو لکھنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس لئے صداقت کو مختلف تناظر میں پیش کیا گیا ہے۔ اگر ایک مصنف مضمون کے ایک پہلو سے زیادہ متاثر ہے تو وہ اُن نقاط پر زیادہ زور دے گاجب کہ دوسرا اُس کے کسی دوسرے پہلو کو لیتا ہے اور ان میں سے ہر ایک روح القدس کی رہنمائی میں اُس پہلو پر زور دے گا جس کے لئے روح القدس نے اُسے آمادہ کیا ہے۔ دونوں میں صداقت کا فرق فرق پہلو آیا ہے مگر سب میں مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔ ہوں جو صداقتیں آشکارا کی گئی ہیں اُن کو یکجا کر کے کامل کیا گیا ہے تاکہ وہ انسانی زندگی کے ہر طرح کے حالات اور تجربات میں اُن کی حاجتوں کو پُورا کریں۔AK 6.2
خُداوند اس بات راضی ہوا کہ اپنی صداقت کو دُنیا پر انسانی ذرائع سے پہنچائے اور اُس نے خود اور روح القدس نے اس کام کو کرنے کے لئے انسانوں کو صلاحیت عدا کی۔ اُس ناے اُن کے اذہان کی رہنمائی کی کہ اُنہیں کیا کہنا اور کیا لکھنا ہے۔ گو یہ مٹی کے برتنوں میں رکھا گیا ہے تو بھی یہ خزانہ آسمان سے دیا گیا۔ الٰہی شہادت انسانی زبان میں یعنی نا تمام اسلوب بیان میں دی گئی ہےاس کے باوجود یہ خُداوند کے گواہی ہے۔ اور خُداوند کا تابع فرمان ایماندار بچہ اس میں خُدا کے جلال کی قوت کو پاتا ہے جو فضل اور صداقت سے معمور ہے۔AK 6.3
خُدا نے اپنے کلام میں انسانوں کو نجات کے لئے ضروری معرفت عطا کر رکھی ہے۔ ہر ایک الہامی صحیفہ خُدا کی مرضی کا مستند اور لا خطا مکاشفہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ وہ چالچلن کے لئے معیار، الٰہی تعلیم کو آشکارا کرنے والے اور تجربہ کا امتحان ہیں۔ “ہر ایک صحیفہ جو خُدا کے الہام سے ہے تعلیم اور الزام اور اصلاح اور راستبازی میں تربیت کرنے کے لئے فائدہ مند بھی ہے۔ تاکہ مردِ خُدا کامل بنے اور ہر ایک نیک کام کے لئے بالکل تیار ہو جائے“2 تیمتھیس 3 :16-17۔AK 7.1
بیشک خُداوند خُدا نے اپنے کلام کے ذریعہ بنی نوع انسان پر اپنا ارادہ ظاہر کیا ہے مگر غیر ضروری طور پر اُن کے لئے مسلسل روح القدس کی حضوری اور رہنمائی اٗن کے ماتحت نہیں کی۔ برعکس اس کے روح القدس کا وعدہ ہمارے نجات دہندہ نے کیا تھا کہ وہ خُدا کا کلام اُن کے لئے کھولے گا تاکہ اُن کے اذہان کو روشن کرے اور وہ اُس کا اطلاق اپنی زندگیوں پر کر سکیں۔ اور چونکہ یہ خُدا کا روح ہی تھا جس نے بائبل کو الہام بخشا لہٰذا یہ نا ممکن ہے کہ روح القدس کی تعلیم خُدا کا کلام کے برعکس ہو۔ بائبل پر فوقیت حاصل کرنے کے لئے نہ روح القدس دی گئی اور نہ ہی کبھی دی جائے گی۔ کیونکہ صحائف بڑی تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ خُدا کا کلام وہ معیار ہے جس کے ذریعہ ہر طرح کی تعلیم اور تجربہ کو آزمایا جا سکتا ہے یوحنا رسول فرماتا ہے “اے عزیزو! ہر ایک روح کا یقین نہ کرو بلکہ روحوں کو آزماؤ کہ وہ خُدا کی طرف سے ہیں یا نہیں کیونکہ بہت سے جھوٹے نبی دُنیا میں نکل کھڑے ہوئے ہیں” 1یوحنا1:4 اور یسعیاہ نبی اعلان کرتا ہے “شریعت اور شہادت پر نظر کرو۔ اگر وہ اس کلام کے مطابق نہ بولیں تو اُن کے لیے صبح نہ ہوگی” یسعیاہ20:8۔AK 7.2
ایک غلط طبقے کی طرف سے روح القدس کے کام پر الزام لگایا گیا ہے۔ وہ روشن خیالی کا دعویٰ کرتا ہے اور اُس کا ماننا ہے کہ خُدا کے کلام سے مزید رہنمائی حاصل کرنے کی اب چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اپنے خیال کو وہ سجھتے ہیں کہ یہ خُدا کی آواز ہے جس نے اُنہیں قائل کیا ہے مگر جو روح اُنہیں کنٹرول کئے ہوئے ہے وہ خُداوند خُدا کی روح نہیں ہے۔ ایسی تاثر کی پیروی صحائف سے غفلت برتنا ہے اور یہ ابتری، دغا بازی اور تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ایسی تاثر ابلیس کے طرزِ عمل کو مزید تقویت دیتا ہے۔ چونکہ روح القدس کی مسیح کی کلیسیا کے لیے بڑی اہم خدمت ہے اس شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ شدت پسندوں اور جنونیوں کے ذریعہ روح کے کام کی توہین کرتا ہے۔ یوں خُدا کے لوگوں کو قوت کے اس منبع سے دُور لے جاتا ہے جو خود خُداوند نے مہیا کیا ہے۔AK 7.3
خُدا کے کلام کے ہم آہنگ ہو کر اُس کا روح انجیل کے سارے دورانیہ میں مسلسل کام کرتا رہا۔ ہر زمانہ میں، عہد عتیق اور عہد جدید کے دونوں عہود میں، جب الٰہی صحائف دئیے گئے تو روح القدس افراد کے اذہان کو روشن کرتا رہا۔ اور جب پاک الٰہی نسخہ جات کو ایک کتاب کی صورت میں تشکیل دیا گیا تو اُس وقت بھی روح القدس سگرام عمل تھا۔ بائبل خود فرماتی ہے کہ کس طرح روح القدس کے ذریعہ آدمیوں نے تنبیہ، ملامت، اصلاح اور ہدایات پائیں جو صحائف میں پائی جاتی تھیں۔ اور مختلف زمانوں میں نبیوں کا ذکر کیا جن کے کلام کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنایا گیا۔ اسی طرح مستند صحائف کے خاتمہ پر روح القدس پھر بھی مسلسل اپنا کام کرتا رہا۔ وہ خُدا کے لوگوں کو روشن خیالی، تنبیہ اور مدد پہنچاتا رہا۔AK 8.1
مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں سے وعدہ کیا “لیکن مددگار یعنی روح القدس جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب باتیں سکھائے گا۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمہیں یاد دلائے گا“یوحنا26:14۔“لیکن جب وہ یعنی روح حق آئے گا تو تمکو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لئے کہ وہ اپنی طرف ساے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا” یوحنا 13:16۔ الٰہی کلام ہمیں سکھاتا ہے کہ رسولوں کے زمانہ میں کئے گئے وعدے انہی تک محدود نہیں تھے بلکہ مسیح کی کلیسیا کے ہر زمانے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ مسیح یسوع نے اپنے پیر کاروں کو یقین دلایا “دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں” متی 20:28 اور پولس رسول نے فرمایا کہ روح کی نعمتوں کا ظہور کلیسیا میں رکھا گیا ہے “تا کہ مقدس لوگ کامل بنیں اور خدمت گزاری کا کام کیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔ جب تک ہم سب کے سب مسیح کے ایمان اور اُس کی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں ” افسیوں 4 :12-13۔AK 8.2
پولس نے افسس کے ایمانداروں کے لئے دُعا کی “کے ہمارے خُداوند یسوع مسیح کا خُدا جو جلال کا باپ ہے تمہیں اپنی پہچان میں حکمت اور مکاشفہ کی روح بخشے اور تمہارے دل کی آنکھیں روشن ہو جائیں تا کہ تمکو معلوم ہو کہ اٗس کے بلانے سے کیسی کچھ اُمید ہے اور اُس کی میراث کے جلال کی دولت مقدسوں میں کیسی کچھ ہے۔ اور ہم ایمان لانے والوں کے لئے اُس کی بڑی قدررت کیا ہی بے حد ہے” افسیوں 1 :17-19۔AK 8.3
الٰہی روح کی خدمت میں سوجھ بوجھ میں روشن خیالی پیدا کرنا اور خُدا کے مقدس کلام کو سمجھنے کے لئے ذہن کو کھولنا ہے۔ اور یہی برکات تھیں جو پولیس رسول کے روز روح القدس کے شاندار ظہور پر پطرس رسول نے لوگوں کو ترغیب دی کے وہ توبہ کریں اور مسیح یسوع کے نام پر گناہوں کی معافی کے لئے بپتسمہ لیں۔ “پطرس نے اُن سے کہا کہ توبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم روح القدس انعام میں پاؤ گے۔ اس لئے کہ وہ وعدہ تم اور تمہاری اولاد اور اُن سب دور کے لوگوں سے بھی ہے جن کو خُداوند ہمارا خُدا اپنے پاس بلائے گا” اعمال 2: 38-39۔ AK 9.1
خُدا کے عظیم دن کے تناظر میں، خُداوند یُوایل نبی کے ذریعہ روح کے خاص ظہور کا وعدہ کرتا ہے یوئیل 28:2۔ اس پیشنگوئی کی جزوی تکمیل پنتکست کے روز روح القدس کے نزول سے ہو گئی۔ مگر یہ الٰہی فضل کے ظہور میں اُس وقت پایہء تکمیل کو پہنچے گی جب یہ انجیل کی تشھیر کے اختتامی کام میں شریک ہوگا۔ AK 9.2
وقت کے خاتمہ پر نیکی اور بدی کے درمیان کشمکش درجہ عروج کو پہنچ جائے گی۔ ہر زمانہ میں ابلیس کا غضب مسیح یسوع کی کلیسیا پر نازل ہوتا رہا ہے۔ اور خُدا نے اپنے لوگوں پر اپنا فضل اور روح نچھاور کیا ہے تاکہ وہ قوت حاصل کر کے ابلیس کے مقابلے میں کھڑے رہ سکیں۔ جب مسیح یسوع کے رسول اُس کئ انجیل کو دُنیا میں پھیلانے اور اسے آنے والے زمانے کے لئے ریکارڈ کرنے کو تھے تو اس دوران اُنہیں خاص روح کی روشن خیالی بخشی گئی۔ تاہم جیسے کہ کلیسیا اپنی آخری مخلصی کی جانب بڑھ رہی ہے ابلیس بڑی ہی تندہی سے کام میں مصروف ہو گیا ہے۔ وہ اس دھرتی پر اُتر آیا ہے “ابلیس بڑے قہر میں تمہارے پاس اُتر کر آیا ہے۔ اس لئے کہ جانتا ہے کہ میرا تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے” مکاشفہ 12:12۔ “اور جس کی آمد شیطان کی تاثیر کے موافق ہر طرح کی جھوٹی قدرت اور نشانوں اور عجیب کاموں کے ساتھ ہوگی” 2 تھسلنیکیوں 9:2۔ چھ ہزار سال تک وہ جو کسی وقت خُدا کے فرشتوں میں سے بڑے مرتبے پر تھا اب پوری طرح تباہی اور دھوکہ دہی پر کمر بستہ ہو گیا ہے۔ اور اپنے تمام شیطانی ہربے اور فریب استعمال میں لائے گا اور تمام مظالم ڈھائے گا۔ زمانے کی اس کشمکش کے دوران خُدا کے لوگوں کے خلاف آخری کشمکش میں یہ سب کچھ عمل میں لایا جائے گا۔ مصیبت کی اس گھڑی میں خُدا کے پیروکار دُنیا کو مسیح یسوع کی آمرثانی کی آگاہی دیں گے۔ اور لوگوں کو تیار کیا جائے گا تا کہ وہ مسیح یسوع کے حضور کھڑے ہو سکیں “تم ان باتوں کے منتظر پو اس لئے اُس کے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بے عیب نکلنے کی کوشش کرو” 2 پطرس 14:3 اُس وقت کلیسیا کو خاص الٰہی فضل کی رسولوں کے زمانے سے کم کی ضرورت نہ ہوگی۔ AK 9.3
روح القدس کی تابانی اور فروغ کے ذریعہ اُس لمبی جاری رہنے والی نیکی اور بدی کے درمیان کشمکش کے مناظر اس کتاب کی مصنفہ پر عیاں کئے گئے۔ مصنفہ نے فرمایا وقتاً فوقتاً مجھے یہ اجازت دی گئی کے جو مختلف زمانے میں عظیم کشمکش جو مسیح یسوع سلامتی کا شہزادہ اور ہماری نجات کا بانی ہے اور ابلیس جو بدی کا موجد ہے اور گناہ کا بانی ہے اور خُدا کی مقدس شریعت کا عدول کرنے والا ہے اُن کے درمیان جاری رہنے وایل کشمکش کو دیکھوں۔ مسیح یسوع کے ساتھ ابلیس کی دشمنی اُس کے پیر کاروں پر ظاہر ہوئی ہے۔ اور وہی دھوکہ فریب کی پالیسی جو جعلی ہے مگر سچی دکھائی دیتی ہے اور جو خُدا کی شریعت کی بجائے انسانی شریعت وضع کی گئی اور بنی نوع انسان خُدا کی بجائے جانوروں کی عبادت کرنے کی طرف راغب ہوتے گئے ہیں ماضی کی تمام تاریخ سے اس کا کھوج لگایا جا سکتا ہے۔ ابلیس کی یہ کوشش ہے کہ وہ خُدا کی سیرت کو غلط انداز میں پیش کرے تاکہ آل آدم خالق خُداوند کے بارے غلط لظریہ اپنا لیں ۔ اور پھر اُس سے خوف کھا کر اُس سے نفرت کریں اور محبت کی راہ سے اُس کی پرستش نہ کریں۔ وہ اس کوشش میں ہے کہ خُدا کی شریعت کو بر طرف کرے اور لوگوں کو یہ باور کرائے کہ اُنہیں شریعت کی پابندی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جو اُس کے فریب کی مزاحمت کرتے ہیں ہر زمانہ میں اُنہیں ایذا رسانی کا سامنا ہوتا ہے۔ اُن کی تاریخ کا پتہ قدیم آبائی بزرگ و انبیاء، رسولوں، شہدوں اور اصلاح مذہب کے حامیوں کی زندگی سے جانا جا سکتا ہے۔ AK 10.1
آخری عظیم کشمکش میں ابلیس اُسی پالیسی کو اپنائے گا۔ اُسی روح کا مظاہرہ کرے گا۔ اور ویسے ہی نتائج حاصل کرنے کے لئے کام کرے گا جیسے اُس نے گزشتہ زمانوں میں کیا، جس کچھ ہو چکا ہے دوبارہ وہی کچھ ہوگا۔ اس میں فرق صرف یہ ہوگا کہ آنے والی کشمکش اسقدر شدید ہوگی کہ دُنیا نے اس سے پہلے ایسی ہولناک کشمکش کبھی نہیں دیکھی۔ ابلیس کے دھوکے فریب کی تدبیر اور اُس کے حملے نہایت ہی پُر عظم اور محکم ہوں گے۔ اور اگر ممکن ہو تو وہ برگذیدوں کو بھی گمراہ کر لے گا مرقس 22:13۔AK 10.2
جیسے کہ خُداوند کے روح نے میرے ذہن کو کھولا ہے تاکہ میں اُس کے کلام کی عظیم صداقتوں کو اور ماضی مستقبل کے مناظر کو جان سکوں۔ اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں دوسروں کو بھی جو کچھ مجھ پر آشکارا ہوا ہے بتاؤں۔ اُس کشمکش کی تاریخ کا کھوج لگاؤں جو ماضی میں رہی ہے اور اُس کشمکش پر بھی روشنی ڈالوں جو مستقبل میں پیش آنے کو ہے۔ اس مقصد کے تعاقب میں میں نے بعض کلیسیاؤں کے تاریخی واقعات کو اس طرح یکجا کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُن صداقتوں کا پتہ چل سکے جو مختلف ادوار میں دُنیا کو دی گئیں اور جن کی وجہ سے ابلیس برانگیختہ ہو گیا۔ اُس کلیسیا کی بھی دشمنی بڑھ گئی جو دُنیوی طریق کو پیار کرتی تھی اور اس سارے ماجرے کو اُن کی زندگیوں میں دیکھا جاتا ہے جو گواہی پر قائم رہے اور “مرنے تک وفاردار ہے“۔ AK 10.3
اس ریکارڈ کی روشنی میں ہم اُس کشمکش کے سایہ کو دیکھ سکتے ہیں جو ہمیں مستقبل میں پیش آ سکتا ہے۔ ان کو خُدا کے کلام کی روشنی میں اور اُس کی روح کی روشن خیالی میں ہم اُس بدکار کے حربوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ اور وہ سب ایماندار جو اُس کے ان حربوں سے اجتناب کرنا شاہتے ہیں اُن کے لئے لازم ہے کہ وہ مسیح یسوع کی آمدثانی کے وقت اُس کے حضور “بے عیب” کھڑے ہوں ۔AK 11.1
وہ بڑے بڑے واقعات جنہوں نے گزرے زمانہ میں اصلاح کے لئے راہ ہموار کی تو وہ تو تاریخ کا حصہ ہیں اور اُنہیں سب جانتے ہیں اور پروٹسٹنٹ دُنیا تسلیم کرتی ہے۔ وہ ایسے حقائق ہیں جن کی کوئی بھی تردید نہیں کر سکتا۔ یہ مختصر تاریخ جو میں نے پیش کی ہے کتاب میں گنجائش کی مطابقت سے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ تھوڑی جگہ میں حقائق کو یکجا کیا گیا ہے تا کہ اُن کے سمجھنے میں تسلسل برقرار رہے۔ بعض جگہوں پر جہاں مورخ نے بہت سے واقعات کو جمع کر دیا ہے وہاں تفصیل کے ساتھ اختصار کیا ہے جو بہ آسانی سمجھا جا سکے۔ مگر بعض جگہوں پر مورخ کا ذکر نہیں کیا گیا کیونکہ مولف یا مصنف کے حوالے کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمارے وقتوں میں جن اصحاب نے اصلاح مذہب کے کام کو آگے بڑھایا اُن کی نظریات، تجربات جو اُنہوں نے مرتب کئے ہیں اُن کا تذکرہ کرنے میں بھی ہم نے اسی اصول کو مد نطر رکھا ہے۔ AK 11.2
کتاب کا مقصد ہر گز یہ نہیں کہ پہلے وقتوں کی کشمکش کی نئی صداقتیں پیش کرے ۔ بلکہ اُن حقائق اور اصولات کو پیش کرے جن کا آنے والے واقعات پر اثر پڑے گا۔ تاہم جب نور اور تاریکی کے درمیان کشمکش کے کچھ حصے کا اعادہ کرتے ہیں تو ماضی کے یہ تمام ریکارڈ بہت ہی اہمیت کے حامل لگتے ہیں۔ آُن کے ذریعہ مستقبل پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ اور اُن کو راستوں کو منور کیا جاتا ہے جو قدیم زمانہ کے مصلح کی طرح تھے۔ ایک بار پھیر “خُدا کے کلام اور یسوع مسیح کی گواہی کے لئے اُن کو بلاہٹ دی جائے گی” مکاشفہ 2:1۔ AK 11.3
جھوٹ اور سچ کے درمیان جو جنگ جاری ہے اُس کے مناظر کو عیاں کرنا، ابلیس کے ورغلانے کا پردہ چاک کرنا، اور وہ ذرائع بتانا جن کے ذریعہ اُس کی بھرپور مزاحمت کی جا سکتی ہے، اور بدی کے بڑے مسؑلے کا تسلی بخش ھل پیش کرنا۔ گناہ کی ابتدا اور اُس کے انجام پر روشنی ڈالنا۔ اور خُدا کے انصاف اور بھلائی کے کردار کو اُس کی مخلوق پر ظاہر کرنا۔ اور اُس کی مقدس لا تبدیلی شریعت کے بارے بتانا یہی اس کتاب کا کلی مقصد ہے۔ تاکہ اس کی تاثیر سے روحیں نور میں مقدسوں کی میراث حاصل کریں۔ خُداوند کی تعریف ہو جس نے ہم سے محبت رکھی اور خود کو ہمارے لئے دے دیا۔ یہی مصنفہ کی مخلص دُعا ہے۔ AK 12.1