Loading...
Larger font
Smaller font
Copy
Print
Contents

ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

 - Contents
  • Results
  • Related
  • Featured
No results found for: "".
  • Weighted Relevancy
  • Content Sequence
  • Relevancy
  • Earliest First
  • Latest First
    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents

    باب ۲۶ - اُپلوس کُرنتھس میں

    کُرنتھس سے روانگی کے بعد پولُس کی خدمت کا اگلا مقام افسس تھا۔ وہ یروشلیم میں آنے والی عید منانے جارہا تھا اس لئے افسس میں اس کا قیام لازماً مختصر تھا۔ اُس نے ہیکل میں یہودیوں کے ساتھ تبادلہ ء خیال کیا۔ وہ اُس کے دلائل سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اُنہوں نے اُس کی منت کی کہ اُن کے درمیان خدمت جاری رکھے۔ چونکہ یروشلیم جانے کی تجویز نے اُسے اُس وقت تو زیادہ دیر ٹھہرنے کی مُہلت نہ دی تاہم اُس نے اُن کے پاس واپس لوٹنے کا وعدہ کر لیا۔ بلکہ یہ کہا “اگر خُدا نے چاہا تو تُمہارے پاس پھر آوں گا” پرسکلہ اور اکولہ بھی افسس میں اُس کے ہمراہ گئے۔ چنانچہ اُس نے اُنہیں وہیں چھوڑا تاکہ اُس کام کو جاری رکھیں جو اُس نے شرُوع کیا تھا۔ IKDS 252.1

    یہ اُس وقت کی بات ہے جب “اُپلوس نام ایک یہودی اسکندریہ کی پیدائش خُوش تقریر اور کتاب مقدس کا ماہر افسس میں پہنچا۔” اُس نے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی منادی سُنی تھی اور توبہ کا بپتسمہ بھی لیا تھا۔ اور وہ زندہ گواہی تھی کہ نبی کی خدمت رائیگاں نہیں گئی۔ کتاب مقدس کے مطابق اُپلوس نے خُدا وند کی راہ کی تعلیم پائی تھی اور رُوحانی جوش سے کلام کرتا اور یسُوع کی بابت صحیح صحیح تعلیم دیتا تھا مگر صرف یوحنا ہی کے بپتسمہ سے واقف تھا”۔ IKDS 252.2

    افسس میں وہ عبادت خانہ میں دلیری سے بولنے لگا۔ اُس کے سامعین میں پرسکلہ اور اکولہ بھی تھے، جنہوں نے معلوم کر لیا کہ اُسے ابھی انجیل کی پُوری پُور روشنی نہیں ملی۔ اُس کی باتیں سُن کر وہ “اسے اپنے گھر لے گئے اور اُس کو خُدا کی راہ اور زیادہ صحت سے بتائی” ان کی تعلیم سے اُپلوس صحائف کو زیادہ صفائی سے سمجھنے لگا اور مسیحی ایمان کا بہترین محافظ ثابت ہُوا۔ IKDS 252.3

    جب اُس نے ارادہ کیا پاراتر کراخیہ کو جائے تو “بھائیوں نے اُس کی ہمت بڑھا کر شاگردوں کو لکھا کہ اُس سے اچھی طرح ملنا۔ کیونکہ وہ ایسا معلم ہے جو مسیحی کلیسیا کی تعلیم دیتا ہے۔ وہاں پہنچ کر اُس نے ان لوگوں کی بڑی مدد کی جو فضل کے سبب سے ایمان لائے تھے۔۔۔۔ وہاں سے وہ کُرنتھس چلا گیا جہاں وہ گھر گھر جا کر خدمت کرتا رہا اور بہت سے یہودیوں کو قائل کر لیا۔ اور کتاب مقدس سے ثابت کرتا رہا کہ یسُوع ہی مسیح موعود ہے۔ کُرنتھس میں پولُس رسُول نے سچائی کا بیج بویا تھا مگر اُپلوس کی محنت اور خدمت سے اُن میں سے بعض نے جو ایمان لائے اُنہوں نے اُپلوس کی خدمت کو پولُس کی منادی سے زیادہ سراہا۔ ایک آدمی کا مقابلہ دوسرے آدمی کے ساتھ کرنے سے کلیسیا میں دو دھڑے بن گئے جس سے انجیل کی منادی کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ IKDS 253.1

    ڈیڑھ برس کا عرصہ جو پولُس نے کُرنتھس میں گزارا اُس دوران اس نے جان بوجھ کر انجیل کی سادہ تعلیم دی۔ “اور اے بھائیو! جب میں تُمہارے پاس آیا اور تُم میں خُدا کے بھید کی منادی کرنے لگا تو اعلیٰ درجہ کی تقریر یا حکمت کے ساتھ نہیں آیا۔ اورمیری تقریر اور میری منادی میں حکمت کی لُبھانے والی باتیں نہ تھی بلکہ رُوح اور قُدرت سے ثابت ہوتی تھیں۔ تاکہ تمہارا ایمان انسان کی حکمت پر نہیں بلکہ خُدا کی قُدرت پر موقوف ہو”۔۱۔ کرنتھیوں ۱:۲، ۴:۲-۵IKDS 253.2

    پولُس رسُول نے یہ انجیل پیش کرنے کا سادہ طریقہ کلیسیا کی ضرُورت کے پیش نظر اختیار کیا تھا۔ “اور اے بھائیو! میں تُم سے اس طرح کلام نہ کر سکا جس طرح رُوحانیوں سے بلکہ جیسے جسمانیوں سےاور اُن سے جو مسیح میں بچے ہیں۔ میں نے تُمہیں دُودھ پلایا اور کھانہ نہ کھلایا۔ کیونکہ تُم کو اس کی برداشت نہ تھی بلکہ اب بھی برداشت نہیں”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۱:۳-۲ ۔۔۔ جو سبق پولُس سکھانا چاہتا تھا بہت سے کُرنتھس کے ایماندار اُسے سیکھنے میں بڑے سُست تھے۔ اُن کی رُوحانی ترقی کی رفتار اس قدر نہیں تھی جس قدر ان کو مواقع فراہم ہوئے تھے۔ انہیں تو مسیحی تجربہ میں بہت ہی آگے بڑھنا چاہیئے تھا اور ان کا ایمان اب تک بہت ہی گہرا ہو جانا چاہئے تھا۔ مگر وہ اُسی سطح پر تھے جہاں شاگرد کھڑے تھے جب مسیح یسُوع نے انہیں یہ کہا “مجھے تُم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تُم ان برداشت نہیں کر سکتے”۔ یوحنا ۱۲:۱۶۔۔۔ حسد، بدگمانیاں اور ایک دوسرے پر الزامات وغیرہ نے ان کے دلوں کو بند کر دیا تھا اور رُوح القدس ان کے دلوں پر پوری طرح کام نہ کر سکا تھا جو” سب باتیں بلکہ خُدا کی تہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے”۔ کرنتھیوں ۱۰:۲۔۔۔ بے شک وہ دنیاوی علم میں دانا اور بالغ تھے مگر مسیح کے علم میں ابھی بچے ہی تھے۔۔IKDS 253.3

    اس لئے پولُس کے لئے لازم تھا کہ اس حالت میں وہ کُر نتھس کے لوگوں کو مسیحی دین اور ایمان کی ابجد ہی سکھاتا۔ اُسے انہیں اُسی طرح سکھانا تھا جس طرح اُن کو جو دل پر الہٰی تاثیر کی قوت سے بے بہرہ ہیں۔ اس وقت وہ نجات کے بھیدوں کے سمجھنے سے قاصر تھے کیونکہ “نفسانی آدمی خُدا کے رُوح کی باتیں قبول نہیں کرتا کیوں کہ وہ اُس کے نزدیک بیوقوفی کی باتیں ہیں۔ اور نہ وہ انہیں سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ روحانی طور پر پرکھی جاتی ہیں” ۔۱۔ کرنتھیوں ۱۴:۲ پولُس نے تو صرف بیج بونے کی سعی فرمائی جسے دوسرون نے پانی دینا تھا۔ وہ جو اس کے بعد لازم تھا کہ وہ اس کام کو وہیں سے شُروع کرتے جہاں سے اس نے چھوڑا تھا۔ اور وقت مقررہ پر جب کلیسیا برداشت کرنے کے قابل ہو جاتی تو اُسے رُوحانی علم اور روشنی فراہم کی جاتی۔ IKDS 254.1

    جب پولُس نے کُرنتھس میں خدمت شرُوع کی تو اُس نے محسُوس کیا اُسے کلیسیا کو بڑی احتیاط کے ساتھ عظیم سچائیوں سے آگاہ کرنا چاہیئے۔ کیونکہ اُسے اچھی طرح معلُوم تھا کہ اُس کے سامعین میں بعض حضرات ایسے ہیں جو انسانی مادی علم میں ماہر ہیں، بعض جھوٹی عبادت کے دلدادہ ہیں اور اسی نظام کو پسند کرتے ہیں اور وہ اندھیرے میں ٹٹول رہے ہیں۔ اور وہ فطرت کی کتاب میں کچھ ایسے نظریے تلاش کرنے کی اُمید کرتے ہیں جو رُوحانی اور اخلاقی زندگی کی نفی کریں جو کتاب مقدس میں پائی جاتی ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ نقاد حضرات کلام مقدس کی فرق تفسیر کریں گے، اور ملحد خُدا کے کلام کا ٹھٹھا اڑائیں گے۔ IKDS 254.2

    جب رسُول رُوحوں کو صلیب تلے لے کر آرہا تھا تو اس نے ان کو براہِ راست لعنت ملامت نہ کی جو عیاش زانی تھے اور نہ ہی اس نے بعض کو اس لئے جھڑکا کہ ان کے گناہ رُوح القدس کی نظر میں کس قدر نفرت انگیز ہیں۔ مگر اس نے ان کے سامنے حقیقی زندگی کے معنی رکھے اور اُن کے ذہنوں میں معلم اعظم کی تعلیم کی تاثیر ڈالنے میں کوشاں رہا۔ اگر وہ اسے حاصل کر لیتے تو وہ دُنیاوہ خواہشات سے بالا تر ہو جاتے۔ وہ گناہ کو ترک کرکے پاکیزگی پر اکتفا کیا جو ہر اس شخص کو حاصل کرنے کی ضرورت ہے جسے خُدا کی بادشاہت میں جگہ پانا ہے۔ وہ اُن کے اندر انجیل کی روشنی کو دیکھنا چاہتا تھا جو اُن کے ذہنوں کے دریچوں سے تاریکی کو کھرچ کر نکال دیتی تاکہ وہ دیکھ سکتے کہ ان کی بدکاریاں، حرامکاریاں اور غلیظ منصوبے خُدا کی نظر میں کس قدر نفرت انگیز ہیں۔ چنانچہ اُس نے مسیح اور اس کی صلیب کو ہی سرفراز کرنے کی ذمہ داری نبھائی۔ اُس نے اُنہیں دکھائی چاہا کہ اُن کا علم، اُن کی ایمانداری، جانفشانی اور بڑی لگن سے کیا ہوا مطالعہ اور خُوشیاں، صرف نجات کی سچائی کے متعلق ہونی چاہئیں جو توبہ کے ذریعہ مسیح میں ایمان لانے سے حاصل ہوتی ہے۔ IKDS 255.1

    حکیم اور فلاسفر نجات کی روشنی سے اس لئے منہ موڑ گئے کیونکہ اُن کے غلط نظریات کی بے حُرمتی اور نفی ہوتی تھی۔ مادہ پرست اور مظاہر پر پرست نجات کی روشنی سے اس لئے پیچھے ہٹ گئے کیونکہ یوں دُنیا کے بُت اُن سے جُدا ہو جاتے اور دُنیا ہاتھ سے جاتی رہتی۔ پولُس رسُول نے دیکھا کہ اس سے پہلے کہ انسان مسیح کو پیار کرنا سیکھے لازم ہے پہلے وہ مسیح کی سیرت اور اس کی صلیب کو ایمان کی آنکھ سے اچھی طرح دیکھ لے۔ اس لئے یہاں اُسے کلیسیا کے ساتھ ایسا مطالعہ شُروع کرنے کی ضرورت تھی جو ابدیت تک نجات یافتگان کے لئے گیت بھی ہو اور علم بھی۔ کیونکہ صرف اور صرف صلیب کی روشنی میں ہی انسانی رُوح کی قد رو قیمت کا صحیح اندازہ ہو سکتا ہے۔ IKDS 255.2

    خُدا وند کے فضل کو جلا بخشنے اور روشن کرنے والی تاثیر ہی انسان میں باعث تبدیلی ہو سکتی ہے۔ آسمانی بارگاہیں مادی انسان اور انسانی نیت کی رغبت کے مطابق نہیں یعنی غیر تبدیل شدہ شخص آسمانی بارگاہوں کے لائق ہی نہیں۔ اس لئے کہ غیر تبدیل اور غیر تقدیس شدہ دلوں کے لئے آسمانی بارگاہوں میں کوئی دلکشی نہیں کہ وہ وہاں قیام کرنے کی چاہت کریں۔ اور اگر یہ ممکن ہو کہ یہ آسمانی بادشاہت میں جا سکیں تو وہاں وہ کوئی ایسی شے نہیں پائیں گے جو اُن کی دلچسپی اور دلکشی کا سبب ہو۔ اس سے پہلے کہ گرا ہوا انسان آسمانی بارگاہوں کے قابل ہو وہ رغبتیں اور خواہشیں جو انسانی دل کو کنٹرول کرتی ہیں وہ خُدا کے تابع ہونی چاہئیں تاکہ وہ مقدس فرشتگان کی رفاقت و شراکت کا لُطف اُٹھا سکے۔۔۔۔ جب انسان گناہ کی طرف سے مر جاتا ہے تو وہ فوراً ابدی زندگی پانے کے لئے مسیح میں زندہ ہو جاتا ہے۔ اس کا دل الہٰی محبت سے بھر پور ہو جاتا ہے۔ اس کی سوچ پاک ہو جاتی ہے۔ اور وہ علم اور مسرت کے ان چشموں سے پیا س بجھاتا ہے جو ہمیشہ جاری و ساری رہتے ہیں۔ اور اس کی راہیں ابدی نور سے جگمگا اٹھتی ہیں۔ کیونکہ اب زندگی کا نور ہمہ وقت اس کے ساتھ ہے۔ IKDS 256.1

    پولُس کُرنتھس کی کلیسیا کے بھائیوں کے ذہن میں یہ بات ڈالنا چاہتا تھا کہ میں خود اور میرے خدمت گزار بھائی محض انسان ہیں اور خُداوند کے حُکم کے تحت سچائی کی منادی کرتے ہیں۔ سب خادم اسی ایک کام کو انجام دیتے ہیں اور ہم سب اپنی خدمت میں کامیابی کے لئے خُداوند پر ہی تکیہ کرتے ہیں۔ کلیسیا میں جو یہ بحث چھڑ گئی کہ یہ خادم اُس خادم سے اچھا اور قابل ہے خُداکی مرضی کے مطابق نہ تھی بلکہ یہ انسانی ذہن کی اختراع اور انسانی دل کی رغبت کے مطابق تھی۔ “اس لئے جب ایک کہتا ہے میں پولُس کا ہوں اور دوسرا کہتا ہے میں اپلوس کا ہوں تو کیا تُم انسان نہ ہوئے۔ اُپلوس کیا چیز ہے؟ اور پولُس کیا؟ خادم جن کے وسیلہ سے تُم ایمان لائے اور ہر ایک کی وہ حیثیت ہے جو خُدا وند نے اُسے بخشی ہے۔ میں نے درخت لگایا اور اُپلوس نے پانی دیا مگر بڑھایا خُدا نے۔ پس نہ لگائے والا چیز ہے نہ پانی دینے والا مگر خُدا جو بڑھانے والا ہے۔ لگانے والا اور پانی دینے والے دونوں ایک ہیں لیکن ہر ایک اپنا احر اپنی محنت کے موافق پائے گا۔ کیونکہ ہم خُدا کے ساتھ کام کرنے والے ہیں”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۴:۳-۷ IKDS 256.2

    یہ پولُس ہی تھا جس نے پہلے کُرنتھس میں انجیل کی منادی کی اور اسی نے ہی وہاں کلیسیا کو منظّم کیا۔ یہی خدمت خُدا وند نے اُسے سونپی تھی۔ بعد میں خُدا کی ہدایت پر دوسرے کار گزار کُرنتھس میں لائے گئے تاکہ وہ بھی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں ۔ جو بیج بویا گیا تھا، لازم تھا کہ اس کی آب یاری کی جاتی اور یہ خدمت اُپلوس کے سپرُد ہوئی۔ اس نے خدمت کے سلسلہ میں پولُس کی پیروی کی اور مزید ہدایات دیں تاکہ بویا گیا بیج بڑھے اور پھل لائے۔ اس نے لوگوں کے دلوں کو جیت لیا مگر اُسے بڑھانے والا صرف خُدا وند ہی تھا۔ یہ انسانی نہیں بلکہ قوت الہٰی ہے جو انسانی چال چلن کو تبدیل کرنے پر قادر ہے۔ وہ جو بیج بوتے ہیں، اور جو پانی دیتے ہیں وہ اُسے بڑھا نہیں سکتے مگر وہ خُدا کے ساتھ ملکر کام کرتے ہیں۔ اُن کے ذریعے خُدا وند اپنے کام کو آگے بڑھاتا ہے۔ اور خدمت سے جو کامیابی حاصل ہوتی ہے اس کا سہرہ صرف اور صرف مسیح یسُوع کے سر ہوتا ہے۔ کیونکہ اس سے اُسے ہی عزت اور جلال ملتا ہے۔ خُداوند کے خادموں کو ایک جیسی نعمتیں نصیب نہیں ہوئیں مگر وہ سب کے سب اسی کے کارندے ہیں۔ ہر ایک کو مُعلم اعظم کے قدموں نصیب نہیں ہوئیں مگر وہ سب کے سب اسی کے کارندے ہیں۔ ہر ایک کو مُعلم اعظم کے قدموں میں بیٹھ کر سیکھنے اور سیکھ کر دُوسروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ خُدا وند نے اپنے ہر خادم کو ایک خاص خدمت سونپی ہے۔ بے شک نعمتیں مختلف انواع کی ہیں مگر سب نے یک دل ہو کر ایک ہی مقصد کو رُوح القدس کے تحت ہو کر انجام دینا ہے۔ اور جونہی وہ نجات کا پیغام دیں گے تو خُداوند کی قُدرت سے بہتیرے تائب ہو کر صلیب تلے جمع ہو جائیں گے۔ اصل میں انسان مسیح یسوع کی ذات میں گم ہو کر اس کی خدمت انجام دیتے ہیں اور ہزاروں ہزار میں مسیح یسوع ہی نمایاں نظر آتا ہے۔ اور مسیح یسُوع اور اس کی افواج مل کر خوشنما جتھا بن جاتا ہے۔ IKDS 257.1

    “لگانے والا اور پانی دینے والا دونوں ایک ہیں کیوں کہ ہم خُدا کے ساتھ مل کر کام کرنے والے ہیں تُم خُدا کی کھیتی ہو اور خُدا کی عمارت ہو”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۸:۳-۹۔ اس ورد میں پولُس رسُول کلیسیا کو کھیتی کی نظیر قرار دیتا ہے جس میں مزدُور کام کرتا اور خُدا کے تاکستان کی حفاظت کرتا ہے اور جس کو خُدا وند کے لئے مُقدس ہیکل کے طور پر تعمیر ہونا ہے۔ خُدا وند خود سب سے بڑا معمار ہے اور اُس نے ہر شخص کو اس کا کام دے رکھا ہے۔ چنانچہ ہر ایک کو اس کے زیر نگرانی کام کرنا ہے اور خُدا وند کو اپنے وسیلہ کام کرنے دینا ہے۔ وہ انہیں ہنر اور طریقہ ء کار سکھاتا ہے اور اگر وہ اس کی ہدایات پر متوجہ ہوں گے تو اُن کا کام کامیابیوں سے ہمکنار ہو گا۔ خُدا وند کے خادموں کو یک جان دوقالب ہو کر کام کرنا ہو گا۔ IKDS 258.1

    ” برادرانہ محبت سے آپس میں ایک دوسرے کو پیار کرو۔ عزت کے رُو سے ایک دوسرے کو بہتر سمجھو” رومیوں ۱۰:۱۲۔۔۔۔ کسی پر نکتہ چینی سے گریز کرنا ہے۔ کسی کے کام کا ستیاناس نہیں کرنا، نہ علیحدہ پارٹی بنانا ہے۔ کیونکہ جس کسی کو بھی خُدا وند نے بُلایا ہے اُسے دوسرے سے فرق خدمت سونپی ہے۔ ہر ایک کی اپنی انفرادیت ہے جسے کیس بھی حال میں کسی دوسرے شخص کی ذات میں ضم نہیں کرنا ہے۔ اس کے باوجود ہر ایک کو اپنے بھائیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ خُدا کی خدمت میں سب کرگزار (فرق فرق خدمت اور نعمت رکھنے کے باوجود) ایک ہیں۔ دُوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنے یا دوسروں کے بارے نازیبا کلام کرنے کا کسی کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ کوئی بھی دوسروں کے لئے مثالی یا افضل نہیں ہے۔ خُدا وند کی زیر نگرانی ہر ایک کو اپنی ہی خدمت انجام دینا ہے، چنانچہ دوسرے کار گزاروں کو عزت کی نگاہ سے دیکھنا، پیار کرنا اور اُن کی ہمت افزائی کرنا چاہئے۔کیونکہ سبھوں نے مل کر کام کو پایہء تکمیل تک پہنچایا ہے۔ IKDS 258.2

    رسُول نے یہ تمام اصولات کُرنتھس کی کلیسیا کو ایک خط کے ذریعے پہنچائے۔ “آدمی ہم کو مسیح کا خادم اور خُدا کے بھیدوں کا مختار سمجھے۔ اور یہاں مختار میں یہ بات دیکھی جاتی ہےکہ دیانتدار نکلے ۔ لیکن میرے نزدیک یہ نہایت خفیف بات ہے کہ تُم یا کوئی انسانی عدالت مجھے پرکھے بلکہ میں خود بھی اپنے آپ کو نہیں پرکھتا، کیونکہ میرا دل تو مجھے ملامت نہیں کرتا مگر اس سے میں راستباز نہیں ٹھہرتا بلکہ میرا پرکھنے والا خُدا وند ہے۔ پس جب تک خُدا وند نہ آئے وقت سے پہلے کسی بات کا فیصلہ نہ کرو۔ وہی تاریکی کی پوشیدہ باتیں روشن کر دے گا اور دلوں کے منصوبے ظاہر کر دے گا اور اس وقت ہر ایک کی تعریف خُدا کی طرف سے ہو گی”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۱:۴-۵ IKDS 259.1

    کسی بھی انسان کو یہ حق نہیں دیا گیا کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ فلاں کار گزار ایسا ہے اور فلاں ویسا ہے۔ انسان کے کام کا منصف صرف خُداوند خُدا ہی ہے۔ اور وہی ہر ایک کو اس کے کام کے موافق اجر دے گا۔ پولُس نے بات کو جاری رکھتے ہوئے اس موازنہ کا براہِ راست ذکر کیا جو اُپلوس اور اس کے درمیان بعض لوگوں نے کیا تھا۔ “اور اے بھائیو! میں نے ان باتوں میں تُمہاری خاطر اپنا اور اُپلوس کا ذکر مثال کے طور پر کیا تاکہ تُم ہمارے وسیلے سے یہ سیکھو کہ لکھے ہوئے سے تجاوز نہ کرو اور ایک کی تائید میں دوسرے کے برخلا شیخی نہ مارو۔ تُجھ میں اور دوسرے میں کون فرق کرتا ہے؟ اور تیرے پاس کونسی ایسی چیز ہے جو تُو نے دوسرے سے نہیں پائی؟ اور جب تُو نے دوسرے سے پائی تو فخر کیوں کرتا ہے کہ گویا نہیں پائی”۔ ۱۔کرنتھیوں ۶:۴-۷ IKDS 259.2

    پولُس نے بڑی صفائی سے اُن مصیبتوں اور ظُلم کا ذکر کیا جو اُس نے اور اس کے معاونین نے مسیح کی خدمت کی خاطر برداشت کیں۔ “ہم اس وقت بھوکے پیاسے ننگے ہیں اور مُکے کھاتے اور آوارہ پھرتے ہیں۔ اور اپنے ہاتھوں سے کام کر کے مشقت اُٹھاتے ہیں۔ لوگ بُرا کہتے ہیں ہم دُعا دیتے ہیں۔ وہ ستاتے ہیں ہم سہتے ہیں۔ وہ بدنام کرتے ہیں ہم منت سماجت کرتے ہیں ہم آج تک دُنیا کے کُوڑے اور سب چیزوں کی جھڑن کی مانند رہے۔ میں تمہیں شرمندہ کرنے کے لئے یہ باتیں نہیں لکھتا بلکہ اپنے پیارے فرزند جان کر تُم کو نصیحت کرتا ہوں۔ کیوں کہ اگر مسیح میں تُمہارے استاد دس ہزار بھی ہوتے تو بھی تُمہارے باپ بہت سے نہیں۔ اس لئے میں ہی انجیل کے وسیلہ سے مسیح یسوع میں تمہارا باپ بنا”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۱۱:۴-۱۵ IKDS 260.1

    جب خُدا وند انجیل کے خادموں کو بطور اپنے سفیروں کے بھیجتا ہے اور سامعین میں سے بعض لوگ ایک خادم کو دوسرے خادم پر ترجیح دیتے ہیں اور اُس کی مُنادی سُننے پر رضا مند نہیں ہوتے تو اس سے بھیجنے والے کی بے حُرمتی اور رسوائی ہوتی ہے۔ خُدا وند اپنے لوگوں کے لئے مدد بہم پہنچاتا ہے مگر یہ مدد لوگوں کی اپنی مرضی کے چناو کے مطابق ہوتی کیونکہ انسان تو کوتاہ اندیش ہوتے ہیں اور وہ اس بات میں امتیاز نہیں کر سکتے کہ اُن کے بہترین مفاد میں کیا ہے؟ ایسا شاذو نادر ہی ہوتا ہے کہ ایک خادم میں وہ تمام خصوصیات پائی جاتی ہوں جو کلیسیا کو کامل بنانے کے لئے ضروری ہیں۔ اسی لئے خالق خُدا وند اُن کے پاس دوسرے خادموں کو بھیجتا ہے جن میں وہ وصف ہوتے ہیں جن سے پہلے خُدام عاری تھے۔ IKDS 260.2

    کلیسیا کو خُدا وند کے شکر گزار ہوتے ہوئے مسیح کے خدام کو اُسی طرح قبول کرنا چاہیے جیسے وہ اپنے آقا کو قبول کرتے ہیں۔ اور اُنہیں ان تمام ہدایات سے مستفید ہونا چاہئے جو خُدا کا خادم اُس کے کلام سے اُن تک پہنچاتا ہے۔ وہ صداقتیں جو خُداوند کا خادم پیش کرتا ہے اُنہیں صدق دل سے قبول کریں۔ مگر کسی کو اپنا معبود بنا کر پوجنا شُروع نہ کر دیں۔ IKDS 260.3

    مسیح کے فضل سے خُدا کے خادم نور اور برکت و رحمت کے پیامبر بنائے گئے ہیں۔ اور جیسے ہی وہ ایمانداری اور ثابت قدمی سے دُعا کے ذریعہ رُوح القدس پاتے ہیں اور رُوحوں کو جیتتے کے بوجھ کو لے کر آگے برھتے ہیں اور اُن کا دل صلیب کی فتح کو مزید آگے بڑھانے کے لئے جوش مارتا ہے تو وہ یقیناً اپنی محنت کا پھل پائیں گے۔ نہ وہ اپنی حکمت کا مظاہرہ کریں گے اور نہ ہی وہ اپنی عزت بزرگی اور جاہ و حشمت کے خواہاں ہوں گے۔ مگر وہ ایسا کام کریں گے جو ابلیس کے حملے کے سامنے مستحکم رہے گا۔ بہت سی رُوحیں ظُلمت سے نُور کی طرف پلٹیں گی اور بہت سی کلیسیائیں قائم ہوں گی۔ بنی نوع انسان تائب ہو کر خادم کو نہیں مسیح یسُوع کو قبول کریں گے۔ خادم پس پردہ ہو گا۔ اور صرف مسیح مصلوب ہی جلوہ گر ہو گا۔ IKDS 261.1

    وہ خدام جو آج مسیح یسُوع کے تاکستان میں خدمت انجام دے رہے ہیں، وہ بھی اُنہی اخلاقی اور مذہبی اوصاف کا مظاہرہ کر سکتے ہیں جو رسولی زمانہ میں انجیل کے خادم کرتے تھے۔ آج بھی خُدا وند خادموں کو وہی قوت دینے کو تیار ہے جو اُس نے پولُس اور اُپلوس، سیلاس اور تیمتھیس، پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو مرحمت فرمائی تھی۔ IKDS 261.2

    رسُولوں کے زمانہ میں کُچھ گُمراہ شُدہ رُوحیں تھیں جو مسیح یسُوع میں ایمان رکھنے کی دعویدار تھیں مگر اُن کے دل میں مسیحی سفیروں کے لئے کوئی عزت و احترام نہ تھا۔ وہ اعلانیہ کہتے تھے کہ ہم کسی انسانی معلم سے تعلیم نہیں پاتے بلکہ انجیل کے خادموں کے بغیر ہی بلاواسطہ مسیحی یسوُع سے سیکھتے ہیں۔ وہ رُوح میں خُود مختار تھے اور کلیسیا کی آواز کے تابع ہونے کے انکاری تھے۔ ایسے لوگ فریب کے ہولناک خطر سے دو چار تھے۔ IKDS 261.3

    خُدا وند نے اپنی کلیسیا میں ایسے مددگار مقرر کر رکھے ہیں جن کے پاس مختلف توڑے ہیں جو دُوسرون کے صلاع مشورہ سے رُوح القدس کے مزاج کے مطابق خدمت انجام دیتے ہیں۔ لیکن وہ حضرات جو خالصتاً اپنی ہی مرضی کے تابع ہو کر اور دوسروں کے ساتھ مل کر خدمت نہیں کرنا چاہتے ان کا تجربہ خُدا کے کام میں بڑا وسیع ہوتا ہے۔ ایسے لوگ خود اعتمادی کا شکار ہو جائیں گے اور نوبت یہاں تک پہنچے گی کہ وہ حق اور باطل میں امتیاز نہ کر سکیں گے۔ ایسے لوگوں کو کلیسیا کے لیڈر کے طور پر چُننا خطرے سے خالی نہ ہو گا، کیونکہ وہ اپنی ہی تجاویز اور سوچ پر عمل پیرارہیں گے اور اپنے بھائیوں کے صلاح مشوروں کو پس پشت ڈال دیں گے۔ اس لئے ابلیس کے لئے ایسے لوگوں کے ذریعہ کام کرنا بہت آسان ہے جنہیں ہر قدم پر بھائیوں کے صلاح مشورے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے کلیسیا کی رہبری کرنے بیڑا مسیح یسوع سے حلیمی، انکساری اور فروتنی کا سبق سیکھنے بغیر ہی اُٹھا لیا ہے۔ IKDS 262.1

    محض خیال و گمان فرائض کی انجام دہی کے لئے غیر محفوظ ہیں۔ ابلیس اکثر لوگوں کو یہ یقین کر لینے کے لئے ترغیب دیتا ہے کہ خُدا ہی ان کی رہنمائی کر رہا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے خیال و گمان کے تحت کام کرتے جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہم خبر داری سے کام کریں اور بھائیوں سے مشورہ لیں تو ہمیں خُدا وند کی مرضی معلوم ہو جائے گی۔ کیونکہ اس کا وعدہ ہے “وہ حلیموں کو انصاف کی ہدایت کرے گا ہاں وہ حلیموں کو اپنی راہ بتائے گا”۔ زبور ۹:۲۵IKDS 262.2

    ابتدائی کلیسیا میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو پولُس اور اُپلوسی دونوں سے انکاری تھے اَور پطرس کو ہی اپنا رہبر مانتے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جب مسیح یسُوع اس دھرتی پر تھا، پطرس کو ہی سب سے زیادہ مسیح کے ساتھ لگاو تھا جبکہ اُس وقت پولُس مسیح کے پیروکاروں کو ستاتا تھا۔ ان کے نظریات اور احساسات کی بنیاد تعصب پر تھی۔ وہ اس فراخدلی، غمگساری اور اس فیاضی کا مظاہرہ نہیں کر رہے تھے جو انسان کے دل میں مسیح یسُوع کی موجودگی کو ظاہر کرتی ہے۔ IKDS 262.3

    اس طرح کی گروہی رُوح کلیسیا کے لئے بڑی قباحت کا موجب بن سکتی تھی۔ لہٰذا خُداوند نے پولُس کو ہدایت کی کہ کلیسیا کو اور خصوصاً ان کو جو ایسا سوچتے ہیں ان سے یوں التماس کرے۔ “تُم میں سے کوئی تو اپنے آپ کو پولُس کا کہتا ہے کوئی اُپلوس کا کوئی کیفا کا کوئی مسیح کا۔ کیا مسیح بٹ گیا؟ کیا پولُس تُمہاری خاطر مصلوب ہوا؟ یا تُم نے پولُس کے نام کا بپتسمہ لے لیا؟ “پس آدمیوں پر کوئی فخر نہ کرے کیونکہ سب چیزیں تُمہاری ہیں خواہ پولُس ہو، خواہ اُپلوس، خواہ کیفا، خواہ دنیا، خواہ زندگی، خواہ موت، خواہ حال کی چیزیں، خواہ استقبال کی۔ سب تُمہاری ہیں اور تُم مسیح کے ہو اور مسیح خُدا کا ہے”۔ ۱۔ کرنتھیوں ۱۲-۱۳ ، ۲۱:۳-۲۳ IKDS 263.1

    پولُس اور اُپلوس دونوں خُداوند کی خدمت میں یک جان دوقالب تھے۔ ان میں کیس طرح کی کوئی ناچاقی موجود نہ تھی۔ مگر اُپلوس کو اس بات سے دلی دُکھ ہُوا کہ کُرنتھس کی کلیسیا میں پھُوٹ پڑ گئی ہے۔ اس نے اس بٹوارے سے بالکل ناجائز فائدہ نہ اُٹھایا جو اُپلوس کو پولُس پر ترجیح دینے سے وجود میں آیا۔ اور نہ ہی اُس نے اس کی ہمت افزائی کی بلکہ تفرقے کے اس میدان سے وہ فوراً باہر نکل گیا اور بعد میں جب پولُس نے اُسے کُرنتھس میں دوبارہ جانے کے لئے کہا تو اُس نے وہاں جانے سے معذرت کر لی۔ اور دوبارہ وہاں خدمت کے لئے اس وقت تک حاضر نہ ہُوا جب تک کہ کلیسیا کی رُوحانی حالت تسلی بخش نہ ہو گئی۔ IKDS 263.2

    Larger font
    Smaller font
    Copy
    Print
    Contents